روایت ِحدیث میں امام عبدالرزاق صنعانی کا معتبر ہونا؟

مارچ 2007ء کے ماہنامہ 'اشراق' میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کے مسئلہ پر ایک مضمون میں مشہور حدیث ِجابرؓ کو زیر بحث لاتے ہوئے مصنف عبدالرزاق کو ہی سرے سے ناقابل اعتبار قرار دینے کی جسارت کی گئی ہے۔ جبکہ اس مُصنَّف کے مرتب امام عبدالرزاق صنعانی نہ صرف ایک مشہور محدث ہیں بلکہ صحیح بخاری ومسلم کے رجال میں سے بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مستند کتب ِحدیث کے علاوہ صحیحین میں بھی امام عبدالرزاق سے روایت کردہ سینکڑوں احادیث موجود ہیں ۔مزید برآں 21 ہزار سے زائد احادیث وآثارپر مشتمل ہونے کی وجہ سے امام عبد الرزاق کا ترتیب شدہ مجموعہ حدیث کتب ِحدیث میں بھی ایک نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ماضی کی طرح ملت ِاسلامیہ سے الگ تھلگ موقف اپنانے کی روش پر قائم رہتے ہوئے 'اشراق' نے جس طرح محض حدیث ِجابرکی بنا پر مصنف عبد الرزاق کو ہی مشکوک بنا دینے کے موقف کی اشاعت کی ہے، اس سے کہیں بہتر ہوتاکہ وہ اس حدیث کے بارے میں وہ موقف پیش کرتے جس میں حدیث ِجابر کی مصنف عبدالرزاق کی طرف نسبت کو ہی غیرمعتبر قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ گذشتہ برس مصنف عبد الرزاق کے جزء مفقود کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث میں اکثر اہل علم کا موقف یہی رہا ہے جس کی تفصیلات محدث کے شمارئہ اپریل 2006ء میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف 'اشراق' کا پوری مصنف عبدالرزاق کو مشکوک ٹھہرانے کو شائع کرنا اور دوسری طرف خود' اشراق' میں ہی جابجا اس مصنفسے احادیث کا تذکرہ باہم متضاد اور دورخی پالیسی کا مظہر ہے۔ بہرحال اس مختصر پس منظر اور تبصرہ کے بعد مصنف عبد الرزاق کے بارے میں شک وشبہ پیدا کرنے کی اشراقی کوشش کا ناقدانہ جائزہ نذرِ قارئین ہے جس میں امام موصوف کے روایت ِحدیث میں معتبر ہونے پر کافی وشافی بحث کی گئی ہے۔



امام عبدالرزاق بن ہمام بن نافع حمیری یمانی ابوبکر صنعانی 126 ہجری، زمانۂ خیرالقرون میں پیدا ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن عمرواوزاعی،فضیل بن عیاض ،مالک بن انس ،معمر بن راشد اور جعفر بن سلیمان بہت مشہور ہیں ۔ آپ کے شاگردوں میں احمد بن صالح مصری ، احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ، زہیر بن حرب ،علی بن مدینی ،محمد بن یحییٰ ذہلی اور یحییٰ بن معین جیسے جلیل القدر ائمہ تھے۔

امام عبد الرزاق کی توثیق
جمہور محدثین نے امام عبدالرزاق کو ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث وحسن الحدیث قرار دیا ہے۔ آپ کی بیا ن کردہ احادیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن الجارود،صحیح ابن حبان ، صحیح ابی عوانہ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں کثرت سے موجود ہیں ۔

درج ذیل محدثینِ کر ام سے امام عبدالرزاق کی تو ثیق ثابت ہے :
یحییٰ بن معین قال: ثقة لابأس به 1
عجلی قال: ثقة یکنی أبابکر وکان یتشیع 2
امام بخاری نے عبدالرزاق سے صحیح بخاری میں ۱۰۰ سے زیادہ روایتیں لی ہیں ۔
نوٹ:امام بخاری کا ان کے بارے میں یہ فرمانا:''ماحدّث من کتابہ فھو أصح'' 3

''اُنھوں نے جو حدیثیں اپنی کتاب سے بیان کی ہیں ، وہ زیادہ صحیح ہیں ۔'' یہ کوئی جرح نہیں ہے۔

ایسے ہی امام ترمذی کی طرف منسوب کتاب العلل الکبیرمیں لکھا ہواہے کہ
(امام بخاری نے فرمایا:)

''وعبد الرزاق یھم في بعض ما یحدّث به'' 4
''اورعبدالرزاق کو بعض حدیثوں میں وہم ہوجاتا ہے ۔''

تو یہ جرح دو وجہ سے مردود ہے :
جمہور محدثین کی توثیق کے بعد بعض روایتوں میں وہم ثابت ہو جانے سے راوی ضعیف نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ثقہ وصدوق ہی رہتا ہے اور صرف وہم ثابت ہوجانے والی روایت کو ردّ کر دیا جاتا ہے۔

العلل الکبیرکا بنیادی راوی ابو حامد التاجر 5ہےجومجہول الحال ہے۔العلل الکبیر کے محقق کوبھی اس کے حالات نہیں ملے۔6 اس بنا پرامام بخاری کے اس فرمان کا مستند ہونا ہی قابل بحث امر ہے۔


مسلم:

امام مسلم نے اپنی 'صحیح' میں امام عبدالرزاق سے بکثرت روایتیں لی ہیں ۔
یعقوب بن شیبہ قال: ثقة ثبت 7
ہشام بن یوسف قال: کان عبدالرزاق أعلمنا وأحفظنا 8

احمد بن حنبل:

آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے عبدالرزاق سے زیادہ بہتر حدیث بیان کرنے والا کوئی د یکھاہے ؟ اُنھوں نے جواب دیا :نہیں ۔ 9
امام احمد نے ابن جریج سے روایت میں عبدالرزاق کو سب سے ثبت (ثقہ ) قرار دیا۔ 10


ابوزرعہ دمشقی قال:

عبد الرزاق أحد من قد ثبت حدیثه 11
ابن حبان ذکرہ في الثقات12 وقال:'' وکان ممّن جمع وصنف وحفظ وذاکر وکان ممن یخطیٔ إذا حدّث من حفظه علیٰ تشیع فیه''
''امام ابن حبان نے ان کو 'الثقات 'میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: امام عبد الرزاق ان محدثین میں سے ہیں جنہوں نے احادیث کی جمع وتصنیف کا کام کیا۔احادیث کے حفظ ومذاکرہ کا اہتمام کی۔وہ بعض دفعہ اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے غلطی کر جاتے تھے نیز ان میں تشیع بھی پایا جاتا ہے۔''

جمہور کی توثیق کے بعد یُخطئ وغیرہ جرحیں مردود ہوجاتی ہیں ۔خود حافظ ابن حبان نے اپنی مشہور کتاب التقاسیم والأنواع(صحیح ابن حبان) میں عبدالرزاق سے بکثرت روایتیں لی ہیں ۔جہاں تک تشیع کا الزام ہے تو اس کی حقیقت آگے آرہی ہے ۔ ان شاء اللہ

ابن عدی:

ابن عدی نے طویل کلام کے آخر میں کہا:
''وأما في باب الصدق فأرجو أنه لا بأ س به إلا أنه قد سبق مه أحادیث في فضائل أھل البیت ومثالب آخرین مناکیر'' 13
''اور جہاں تک انکی صداقت وسچائی کا معاملہ ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے،البتہ ان سے اہل بیت کے فضائل اور بعض دوسرے لوگوں کے مناقب کے متعلق منکر احادیث بھی ذکر ہو گئی ہیں ۔''
یاد رہے کہ جمہور محدثین کی توثیق کے بعد احادیث ِ فضائل ومثالب کو منا کیر قرار دینا صحیح نہیں ہے، دوسرے یہ کہ اگر منا کیر کو جرح پر ہی معمول کیا جائے تو ان کا تعلق بعد از اختلاط اور مدلّس روایتوں ہی سے ہے ۔
ابن شاہین ذکرہ في کتاب الثقات 14

ابن خزیمہ نے امام عبدالرزاق سے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ میں بہت سی روایتیں لی ہیں ۔
ابن الجارودنے اپنی کتاب المُنتقٰی(صحیح ابن الجارود ) میں اِن سے روایتیں لی ہیں ۔

امام ترمذی نے امام عبدالرزاق سے ایک روایت لے کر فرمایا

: ''ھٰذا حدیث حسن صحیح'' 15
اس سے ثابت ہوا کہ وہ امام ترمذی کے نزدیک ثقہ وصدوق تھے ۔

دارقطنی نے امام عبدالرزاق کی بیا ن کردہ ایک حدیث کے بارے میں کہا : ''إسناد صحیح''... 16دوسری جگہ راویوں (جن میں عبدالرزاق بھی ہیں ) کے بارے میں فرمایا: کلھم ثقات 17ثابت ہوا کہ وہ امام دار قطنی کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
امام حاکم نے اپنی کتاب المستدرک میں عبدالرزاق کی بیان کردہ بہت سی احادیث کو صحیح کہا۔18 مزید کہتے ہیں کہ عبدالرزاق اہل یمن کے امام ہیں اور جس راوی کی وہ تعدیل کریں ،حجت ہے۔19
ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب المختارة میں عبدالرزاق سے بہت سی حدیثیں لی ہیں ۔20
ابن عساکر قال: أحدالثقات المشهورین 21
ذهبی قال: الثقة الشیعي 22
ابن حجر عسقلانی قال: ثقة حافظ مصنف شھیر،عمي في آخر عمرہ فتغیر وکان یتشیع 23

آخری عمر کے اختلاط اور تشیع کی بحث بھی آگے آرہی ہے ۔ان شاء اللہ
بزار قال: وعبدالرزاق عندي ثقة 24
ابن جوزي قال: ثقة 25

ابن ملقن قال: وعبدالرزاق ثقة حجة 26معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ امام بیہقی کا کلام ہے جسے ابن ملقن نے الخلافیات سے نقل کیا اور کوئی تردید نہیں کی ۔
بیهقي قال: وعبدالرزاق ثقة حجة 27
ابن حزم نے عبدالرزاق وغیرہ کے بارے میں کہا : ورواته کلھم ثقات مشاھیرن 28

ابو عوانہ ا سفرائنی نے اپنی کتاب المستخرج علی صحیح مسلم 29 میں عبدالرزاق سے بہت سی روایتیں لی ہیں ۔
مابو نعیم ا صبہانی نے المستخرج علیٰ مسلم میں عبدالرزاق سے بہت سی روایتیں لی ہیں ۔
ن احمد بن ابو بکر بوصیری قال: ثقة 30
ه أبوزرعة رازي قال: وحسن الحدیث 31

عبدالرزاق پر امام ابو زرعہ کی جرح ، عبدالرزاق کی حالتِ اختلاط (کے دور) پر محمول ہے ۔
‚ محی السنہ حسین بن مسعود بغوی نے عبدالرزاق کی بیان کر دہ حدیث کو ''ھٰذا حدیث صحیح''32کہا ۔

امام عبد الرزاق پر جرح
ان موثقین کے مقابلے میں عبدالرزاق پر درج ذیل جرح ملتی ہے :
1. اختلاط
2. تدلیس
3. تشیع
4. روایت پر جرح
اختلاط کا الزام تو ثابت ہے ۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ہم عبدالرزاق کے پاس 200ھ سے پہلے گئے تھے اور ان کی نظر صحیح تھی، جس نے اُن کے نابینا ہونے کے بعد سنا ہے تو اس کا سماع ضعیف ہے۔ 33
امام نسائی نے کہا: ''فیه نظر لمن کتب عنه بآخرة '' 34
''جس نے اُن سے آخری دور میں لکھا ہے اُس میں 'نظر' ہے ۔''
اختلاط کے بارے میں یہ اُصول ہے کہ جس ثقہ وصدوق راوی کی روایتیں اختلاط سے پہلے کی ہوں تو وہ صحیح ہوتی ہیں ۔

درج ذیل راویوں نے عبدالرزاق کے اختلاط سے پہلے سنا ہے:
أحمد بن حنبل، إسحق بن راهویه ،علي بن مدیني ،یحییٰ بن معین اور وکیع بن جراح وغیرہ۔35اسی طرح اسحق بن منصور،محمود بن غیلان ،اسحق بن ابراہیم سعدی ،عبداللہ بن محمد مسندی ،محمد بن یحییٰ بن ابو عمر عدنی ،یحییٰ بن جعفر بیکندی ، یحییٰ بن موسیٰ بلخی، احمد بن یوسف سلمی ، حجاج بن یوسف الشاعر،حسن بن علی خلال ،سلمة بن شبیب ، عبدالرحمن بن بشر بن حکم ،عبدبن حمید، عمروبن محمد ناقد ،محمد بن رافع اور محمدبن مهران حمال وغیرهم کا

عبدالرزاق سے سماع اختلاط سے پہلے ہے۔ لہٰذا عبدالرزاق کی مطلق روایات پر اختلاط کی جرح کوئی جرح ہی نہیں ہے۔ والحمدللہ

تدلیس کا الزام ثابت ہے ۔ 36
تدلیس کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عَن والی روایت (معتبر متابعت یامعتبر شاہد کے بغیر) ضعیف ہوتی ہے ۔ دیکھئے، کتب ِاُصولِ حدیث اور ماہنامہ الحدیث حضرو37 لہٰذا ثقہ راوی کی سماعت کی صراحت والی روایت پر تدلیس کی جرح کو ئی جرح ہی نہیں ہے ۔

تشیع کے سلسلے میں عرض ہے کہ عبدالرزاق کا اثنا عشری جعفر ی شیعہ یا رافضی ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ ان کا تشیع بعض اہل سنت کا تشیع ہے جو سیدنا علی کو سیدنا عثمان سے افضل سمجھتے تھے اور تمام صحابہ سے محبت کرتے تھے۔
اہل سنت کے امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ''کیا عبدالرزاق تشیع میں اِفراط کرتے تھے ؟''اُنھوں نے فرمایا: میں نے اس سلسلے میں اُن (عبدالرزاق) سے کوئی بات نہیں سُنی ہے ۔الخ 38

امام عبدالرزاق بن ہمام فرماتے ہیں : ''میں شیخین( سیدناابوبکر وعمر ) کی فضیلت کا قائل ہوں کیونکہ (سیدنا ) علی نے اُنھیں اپنے آپ پر فضیلت دی ہے ۔الخ'' 39
امام عبدالرزاق نے فرمایا:
''واﷲ ما انشرح صدري قط أن أفضّل علیًاعلیٰ أبي بکر وعمر، رحم اﷲ أبابکر ورحم اﷲ عمر،ورحم اﷲ عثمان ورحم اﷲ علیًا ومن لم یحبھم فما ھو بمؤمن فإن أوثق عملي حبي إیاھم رضوان اﷲ علیھم ورحمته أجمعین۔''
''اللہ کی قسم!میرے دل میں کبھی علی کو ابوبکر اور عمر پر فضیلت دینے پر اطمینان نہیں ہوا، اللہ ابوبکر پر رحم کرے ،اللہ عمر پر رحم کرے، اللہ عثمان پر رحم کرے ، اللہ علی پر رحم کرے اور جو اِن سب سے محبت نہیں کرتا وہ مؤمن نہیں ہے۔ میرا سب سے مضبوط عمل یہ ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان سب پر اللہ کی رحمت ہو۔'' 40

اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ امام عبدالرزاق شیعہ نہیں تھے بلکہ اُنھوں نے تشیع یسیر سے بھی رجوع کرلیا تھا، کیونکہ اس قول میں وہ چاروں خلفاے راشدین کی ترتیب اور اُن سے محبت کے قائل ہیں ۔ جو شخص اس سنہری قول کے باوجود عبدالرزاق کو شیعہ شیعہ کہنے کی رٹ لگاتا ہے، اس کا طرزِ فکر اور دعویٰ قابل اصلاح ہے۔
نوٹa:تشیع یسیرسے بھی عبدالرزاق کا رجوع ثابت ہے۔ ابومسلم بغدادی الحافظ (إبراهيم بن عبداللہ الکجي بصري) نے امام احمد سے نقل کیا کہ ''عبدالرزاق نے تشیع سے رجوع کرلیا تھا۔' 41
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ سیدنامعاویہ سے ایک حدیث بیان کی اور فرمایا : ''وبه نأخذ''ٍ42 ''اور ہم اسی کو لیتے ہیں ۔''

اُنھوں نے ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کی اور کہا:''وبه نأخذ'' اور ہم اسی کولیتے ہیں ، یعنی اسی کے قائل ہیں ۔ َ 43
سیدنا معاویہ اور سید نا ابوہریرہ کی بیان کردہ احادیث پر عمل کرنے والا شیعہ ساری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا، چاہے چراغ کے بدلے آفتاب لے کرہی اسے تلاش کیا جائے ۔
نوٹ: جن روایات میں عبدالرزاق کا شدید تشیع مروی ہے، اُن میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے ، مثلاً:

ایک روایت مں: آیا ہے کہ عبدالرزاق سیدنا عثمان بن عفان کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔44لیکن اس کا راوی ابوالفرج محمدبن جعفر صاحب المصلی ضعیف ہے۔45'اور ابوزکریا غلام احمد بن ابی خثیمہ مجہول الحال ہے۔
ایک اور روایت سیدنا عمر کے بارے میں ''انظروا إلی الأنوك'' آیا ہے۔ 46
اس میں علی بن عبد اللہ بن مبارک صنعانی نامعلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس حکایت کی سند میں ارسال یعنی انقطاع ہے۔47اور منقطع روایت مردود ہوتی ہے ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ عبدالرزاق نے سید نا معاویہ کے بارے میں کہا: ''ہماری مجلس کو ابو سفیان کے بیٹے کے ذکر سے خراب نہ کرو۔''48 لیکن اس کی سند میں احمد بن زکیرحضرمی اور محمد بن اسحق بن یزید بصری دونوں نامعلوم ہیں ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام سفیان بن عیینہ نے عبدالرزاق کو {الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} میں سے قرار دیا۔49 اس میں احمد بن محمود الہروی نامعلوم ہے۔ مختصر یہ کہ یہ سب روایا ت مردود اور بشرطِ صحت منسوخ ہیں ۔

 امام عبد الرزاق کی روایت پر جرح دوطرح سے ہے :
اوّل: ابو حاتم رازی نے عبدالرزاق اور معمر دونوں کو کثیر الخطأ کہا۔ 50
یہ جرح جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ابو حاتم نے کہا: یکتب حدیثه ولا یحتج به 51 اس جرح کا سقوط مخالفت ِ جمہور سے ظاہرہے

دوم : ایک روایت میں آیا ہے کہ عباس بن عبدالعظیم نے عبدالرزاق کو 'کذاب' کہا۔52 لیکن اس روایت کا راوی محمد بن احمد بن حماد الدولابی بذاتِ خود ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت مردود ہے ۔ 53
ایک روایت میں آیا ہے کہ زید بن مبارک نے کہا : ''عبدالرزاق کذاب یسرق'' 54
اس روایت میں ابن عساکر کا استاد ابو عبداللہ بلخی غیر متعین ہے۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو دو وجہ سے مردود ہے:
اس روایت میں عبدالرزاق سے مراد عبدالرزاق بن ہمام صنعانی نہیں بلکہ کوئی دوسرا عبدالرزاق ہے، مثلاً عبدالرزاق بن عمر ثقفی دمشقی وغیرہ ۔
یہ جرح امام یحییٰ بن معین اورامام احمد وغیرہما کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔

خلاصة التحقیق
امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی یمنی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق یعنی صحیح الحدیث وحسن الحدیث راوی ہیں بشرطیکہ وہ سماع کی تصریح کریں اور روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔
حال ہی میں 'اشراق' کے شمارئہ مارچ ۲۰۰۷ء میں امام عبد الرزاق پر حبیب الرحمن کاندھلوی کی جرح یوں شائع ہوئی ہے کہ
''اس کے علاوہ خود عبدالرزاق کی ذات مشکوک ہے۔ محدثین کا بیش تر طبقہ اُنھیں رافضی قرار دیتا ہے۔ بلکہ بعض تو اُنھیں کذاب بھی کہتے ہیں ۔اور جو لوگ انکی روایات قبول کرتے ہیں ، وہ بھی چند شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔

i. چونکہ یہ شیعہ ہیں ، لہٰذافضائل ومناقب اور صحابہ کی مذمت میں جو روایا ت ہیں ، وہ قبول نہیں کی جائیں گی ۔

ii. ہجری210 میں ان کا دماغ جواب دے گیا تھا اور جو شخص بھی چاہتا، وہ ان سے حدیث کے نام سے جو چاہتا کہلوا لیتا ۔لہٰذا ۲۱۰ھ کے بعد سے ان کی تمام روایات ناقابل قبول ہیں ۔
iii. ان سے ان کا بھانجا جو روایات نقل کرتا ہے ، وہ سب منکر ہوتی ہیں ۔
iv. یہ معمر سے روایات غلط بیان کرنے میں مشہور ہے اور اسکی عام روایات معمر سے ہوتی ہیں ۔
v. ان عیوب سے پاک ہونے کے بعد اس روایت کے راوی تمام ثقہ ہوں اور سند متصل ہو تو پھر وہ روایت قابل قبول ہوگی، ورنہ نہیں ۔یہ تمام شرائط ان حضرات کے نزدیک ہیں جو اس کی روایت قبول کرتے ہیں ۔ ورنہ محدثین کا ایک گروہ تو اس کے رافضی ہونے کے باعث اس کی روایت ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ بلکہ زیدبن المبارک تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ واقدی سے زیادہ جھوٹا ہے ۔تفصیل کے لئے کتب ِرجال ملا حظہ کیجئے ۔'' 55

جواب: اس عبارت پر ہمارے لگائے ہوئے نمبروں کے تحت جواب درج ذیل ہے :
ہمارے اس مضمون میں ثابت کردیا گیا ہے کہ جمہور محدثینِ کرام کے نزدیک عبدالرزاق بن ہمام ثقہ وصدوق ہیں اور ان پر تدلیس واختلاط کے علاوہ جرح مردود ہے۔ لہٰذا عبدالرزاق کی ذات مشکوک نہیں بلکہ حبیب الرحمن کاندھلوی بذاتِ خود مشکوک ہیں ، مثلاً:
i. فاتحہ خلف الامام کے خلاف کتاب میں کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں :
''۱۲۔ امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من أدرک الرکوع مع الإمام فقد أدرک الرکعة جس نے امام کے ساتھ رکوع پایا، اس نے رکعت پالی۔ 56
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب، ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت نہ تو امام بیہقی کی السنن الکبریٰ کے محولہ صفحے یا کسی دوسرے صفحے پر موجود ہے اور نہ حدیث کی کسی دوسری کتاب میں یہ روایت موجود ہے لہٰذا کا ندھلوی صاحب نے اس عبارت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوہریرہ اور امام بیہقی تینوں پر جھوٹ بولا ہے ۔

ii. حافظ ذہبی نے 'میزان الاعتدال' میں امام محمدبن عبد اللہ بن نمیر سے نقل کیا ہے کہ اُنھوں نے محمد بن اسحق بن یسار کے بارے میں کہا :
''رُمي بالقدر وکان أَبْعَدَ الناس منه'' 57
اس کا ترجمہ کرتے ہوئے کا ندھلوی صاحب لکھتے ہیں :
''محمد بن عبداللہ بن نمیر کا بیا ن ہے کہ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے۔ اسی لئے لوگ اس سے دور بھاگتے تھے۔ ' 58
یہ ترجمہ غلط ہے جبکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ''اس پر قدری ہونے کا الزام ہے اور وہ اس (الزام ) سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔''
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ابن اسحق کے بارے میں تو یہ فرمایا:'' اگر وہ مشہورلوگوں سے روایت کریں جن سے انھوں نے سنا ہے تو حسن الحدیث صدوق ہیں ۔59
رہا مجہولین سے احادیث ِ با طلہ بیان کرنا تو ان میں جرح مجہولین پر ہے۔ْ 60
معلوم ہوا کہ درج بالاعبارت میں کا ندھلوی نے امام ابن نمیر پر جھوٹ بولا ہے اور عربیت میں اپنی جہالت کا ثبوت بھی پیش کردیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ کاندھلوی صاحب کی اپنی ذات مشکوک ہے اور پرانے ضعیف ومتروک راویوں کی طرح وہ بذاتِ خود ضعیف ومتروک شخصیت ہیں ۔
iii. ہمارے علم کے مطابق کسی ایک محدث نے بھی عبدالرزاق کو رافضی نہیں کہا ، رہا مسئلہ معمولی تشیع کا تو یہ جمہور کے ہاں موثق راوی کے بارے میں چنداں مضرنہیں ہے۔ خود کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں : '' گوشیعہ ہونا بے اعتباری کی دلیل نہیں ''، 61
دوسرے یہ کہ تشیع سے عبدالرزاق کا رجوع بھی ثابت ہے، جیسا کہ اسی مضمون میں باحوالہ پیچھے گزر چکا ہے۔
iv. عبدالرزاق پر کذاب والی جرح کسی محدث سے ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت بھی ہوجائے تو امام احمد،امام ابن معین اور امام بخاری وغیرہم کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔
v. یہ شرائط کا ندھلوی صاحب کی خود ساختہ ہیں ۔
vi. جوراوی ثقہ وصدوق ہو تو اس پر شیعہ وغیرہ کی جرح کرکے اس کی روایات کو ناقابلِ قبول سمجھنا غلط ہے۔ شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ معلمی یمانی نے ثابت کیا ہے کہ ''سچا راوی جس پر بدعتی ہونے کاا لزام ہے، کی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے ،چاہے وہ اس کی بدعت کی تقویت میں ہویا نہ ہو بشرطیکہ بدعت ِمکفرہ نہ ہو۔ 62

مشہور دیوبندی عالم ومصنف سرفرازخان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
''اور اُصولِ حدیث کی رُو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جہمی معتزلی یا مرجیٔ وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثرانداز نہیں ہوتا۔ '' 63
یہ مسلّم ہے کہ اختلاط سے پہلے عبدالرزاق کی ساری(صحیح ) روایات صحیح ہیں ، جیسا کہ اس مضمون میں اختلاط کی بحث کے تحت گزر چکا ہے۔ رہی اختلاط کے بعد والی روایتیں تو بے شک ناقابل قبول ہیں ۔
عبدالرزاق کا بھانجا احمدبن داود مشہور کذاب تھا۔ لہٰذااس کا عبدالرزاق سے منکرروایتیں بیان کرنا خود اس کی اپنے کذب کی وجہ سے تھا ، عبدالرزاق کی وجہ سے نہیں ، لہٰذا اس جرح سے عبدالرزاق بری ہیں ۔
بعض محدثین نے عبدالرزاق کی معمر سے روایتوں پر جرح کی ہے، مثلاً دارقطنی نے فرمایا : ''ثقة یخطیٔ علی معمر في أحادیث لم تکن في الکتاب'' 64

ان بعض کے مقابلے میں جمہور محدثین نے عبدالرزاق کو معمر سے روایت میں قوی اور صحیح الحدیث قراردیا ہے۔ امام احمدبن حنبل نے فرمایا : جب معمر کے شاگردوں میں معمر کی حدیث کے بارے میں اختلاف ہو تو عبدالرزاق کی حدیث (ہی راجح) حدیث ہوگی۔ 65

ابن معین نے کہا کہ معمر کی حدیث میں عبدالرزاق ہشام بن یوسف سے زیادہ ثقہ تھے۔ 66
بخاری ومسلم نے صحیحین میں عبدالرزاق کی معمر سے روایات بکثرت لکھی ہیں اور دوسرے محدثین، مثلاً ترمذی وغیرہ نے عبدالرزاق کی معمر سے روایات کو صحیح قرار دیا ہے ۔

رافضیت کا الزام ثابت نہیں ہے ۔
زید بن مبارک کی طرف منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔
ہم نے بحمداللہ کتب ِرجال کو ملا حظہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امام عبدالرزاق جمہور محدثینِ کرام وکبار علماے اہل سنت کے نزدیک ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث وحسن الحدیث تھے ۔ آپ 211 ھ میں فوت ہوئے ۔ رحمہ اﷲ رحمة واسعة

 


 حوالہ جات

1. الکامل لابن عدی 19485،وسندہ صحیح،دوسرا نسخہ 6 539 قال:ثقة،وسوالات ابن الجنید :734
2. تاریخ عجلی :1000
3. التاریخ الکبیر: 6 130
4. ج 1ص535،536
5. العلل الکبیر:ج1ص75
6. دیکھئے: مقدمة العلل الکبیر: ج1ص58
7. تاریخ دمشق لابن عساکر 11738 وسندہ صحیح
8. تاریخ دمشق 11738وسندہ صحیح
9. تاریخ دمشق لابن عساکر 12638وسندہ صحیح
10. تاریخ ابو زرعہ دمشقی : 1159 وسندہ صحیح
11. تاریخ دمشق لابن عساکر 12638وسندہ صحیح
12. کتاب الثقات4128
13. الکامل:19525،دوسرا نسخہ :5456
14. کتاب الثقات:1092
15. سنن ترمذی : 31
16. سنن دارقطنی: 531،ح137
17. سنن دارقطني: 3111،ح1174
18. مثلاًدیکھئے : المستدرک: ج1ص36،ح104
19. المستدرک: 1161، ح399
20. مثلاً دیکھئے:ج3ص218،ح 1021 وج2ص 296، ح 677 وغیرہ
21. تاریخ دمشق: 11038
22. سیرأعلام النبلاء: 5649
23. تقریب التهذیب :4064
24. مسند البزار بحوالة البدرالمنیر لابن الملقن:3847
25. التحقیق في أحادیث الخلاف: ج 2ص62،ح 1049
26. البدرالمنیر: 6659
27. مختصر الخلافیات للبیهقي:3354
28. المحلّٰی 3677، مسئلہ : 975
29. مسند ابی عوانہ ،صحیح ابی عوانہ
30. زوائد سنن ابن ماجه : 1253
31. کتاب الضعفاء لأب زرعة الراز ي ص450
32. شرح السنة: 811،ح41
33. تاریخ أبو زرعہ دمشقی : 1160، وسندہ صحیح
34. کتاب الضعفاء :379
35. الکواکب النیرات:ص276
36. دیکھئے: الضعفاء الکبیر للعقیل1103،111و سندہ صحیح ،الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلسین: ص45
37. شمارہ33،ص54،55
38. الضعفاء للعقیل: 1103 ،وسندہ صحیح
39. الکامل لابن عدي 19495،وسندہ صحیح ،دوسرا نسخہ 5406
40. تاریخ دمشق لابن عساکر 13038،وسندہ صحیح، کتاب العلل ومعرفةالرجال لعبداللہ بن أحمد بن حنبل 2561ح465ا،وسندہ صحیح
41. دیکھئے: تاریخ دمشق لابن عساکر 2938 وسندہ حسن
42. مصنف عبدالرزاق : ج3ص249،ح 5534، دوسرا نسخہ :5551
43. مصنف عبدالرزاق:ج3ص479،ح6393 ]6420 [
44. دیکھئے: تارِیخ بغداد از خطیب:ج14ص427،ت 7788 و تاریخ دمشق لابن عساکر :ج38ص129
45. دیکھئے :تاریخ بغداد: ج2ص155،156
46. الضعفاء للعقیل: 1103
47. دیکھئے: میزان الاعتدال: 6112
48. الضعفاء للعقیل: 1093
49. الضعفاء للعقیل: 1093
50. علل الحدیث: 1442، ح1931
51. الجرح والتعدیل: 396
52. الضعفاء للعقیل:1093،الکا مل لابن عدی :19485]5386[
53. دیکھئے: میزان الاعتدال: 4593
54. تاریخ دمشق: 13038
55. ماہنامہ 'اشراق' : جلد19شمارہ3،ص28، 'مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت' ازکاندھلوی: ج1ص69
56. سنن الکبر یٰ ج2ص90،فاتحة خلف الإمام ص10،11
57. ج3ص469
58. مذہبی داستانیں: حصہ اوّل، ص93
59. الکامل لابن عدي: ج6ص2120 وتاریخ بغداد از خطیب بغدادی :ج1ص227 وسندہ صحیح
60. دیکھئے عیون الأثر لابن سیدالناس ج1ص14
61. مذہبی داستانیں: ج1ص263
62. دیکھئے التنکیل بما في تأ نیب الکوثر من الأباطیل ج1ص42تا52
63. احسن الکلام: ج1،ص30 طبع دوم
64. سوالات ابن بکیر : 20ص35
65. الثقات لابن شاہین : 1092 وسندہ صحیح
66. تاریخ ابن معین روایة الدوري:538