جولائی 2007ء

سیرت کے شناور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

نومبر 2006ء کے اواخر میں لاہور سے پی آئی اے ائیرلائن کے ذریعے میں دہلی پہنچا جہاں شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی اور دیگر اہل حدیث رفقا کی معیت میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ دہلی کے دورہ میں حضرت مولانا عبدالجلیل عبد المعید اور ماہر لسانیات مولانا علامہ عبدالقدوس، اطہرابن احمد نقوی وغیرہ حضرات سے ملاقاتیں رہیں ۔ اہل حدیث منزل، اہلحدیث کمپلیکس،المعہدالعالی، جامع مسجد اہل حدیث اور مکتبہ ترجمان وغیرہ میں بھی اکثر آنے جانے کا موقع ملتا رہا۔

دہلی قیام کے دوران 'ابوالکلام آزاد اویکننگ سنٹر' کے صدر محترم جناب مولانا عبدالحمید رحمانی کی طرف سے بلاوا آیا۔ ان کے ہاں پہنچے ہی تھے کہ اچانک ایک روح فرسا و جگر خراش خبر سن کر کلیجہ منہ کو آگیا۔ یہ جاں گسل، دل فگار اور جان کاہ اطلاع تھی، عالم اسلام کی نامور عظیم شخصیت، علامہ زمان، ادیب ِاریب، خطیب ِدوراں ، مفسر قرآن، مؤرّخِ عصر، معروف و مشہور قلم کار و دانشور اور سب سے بڑھ کر شہرئہ آفاق سیرت نگار کی وفاتِ حسرت آیات اور انتقالِ پُرملال کی۔ فارسی،عربی و اُردو کے اس صاحب ِطرز ادیب و عالمِ بے بدل سے میری مراد ہے حضرت مولانا شیخ صفی الرحمن مبارکپوریؒجو طویل علالت کے بعد عالم آخرت کو سدھار گئے۔ آپ کی وفات گویا ہم عصر علمی دنیا کے لیے عظیم سانحہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ اللہ پاک اُنہیں غریق رحمت کرے، کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین یا ربّ العالمین!

مولانا موصوف نے 'مبارکپور' نامی بھارت کے ایک مشہور و معروف دور اُفتادہ مگر زرخیز ومردم خیز خطہ میں آنکھ کھولی جہاں بہت سے یگانۂ عصر نے جنم لیا اوربڑی منتخب روزگار شخصیات پیداہوئیں ۔جن میں قاضی اطہر مبارکپوری، مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمانی مصنف ِمرعاة المفاتیح، حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری مصنف ِتحفة الاحوذی وتحقیق الکلام، مولانا امین اثری مبارکپوری، مولاناعبدالصمد مبارکپوری، مولانا عبدالسلام مبارکپوری مصنف ِ سیرة البخاری وغیرہ رحمہم اللہ کے نام قابل ذکرہیں ۔مولانا ممدوح بھی اسی سلسلة الذھب کی ایک کڑی تھے۔

حضرت مولانا کی پیدائش 1942ء کے وسط میں ، مبارکپورکی شمالی جانب کئی فرلانگ کے فاصلہ پرایک چھوٹی سی گمنام بستی حسین آباد میں ہوئی۔ بچپن کی ابتدائی تعلیم یعنی قرآنِ مجید وغیرہ اپنے دادا امجد اکبر اور چچا محمد عبدالصمد سے حاصل کی۔ پھر مدرسہ دارالتعلیم میں داخل ہوئے اور بڑے اچھے نمبروں میں ابتدائی درجات کومکمل کرتے ہوئے مدرسہ احیاء العلوم مبارکپور میں عربی درجات میں داخل لے لیا۔ وہاں دو سال مکمل کرنے کے بعد مدرسہ فیضِ عام مئو ناتھ بھنجن میں جو جماعت ِاہلحدیث کا ایک قدیم اوربنیادی تعلیمی ادارہ ہے، تشریف لے گئے۔

مولانا مبارکپوری؛ تدریس کے میدان میں
1961ء میں اپنی تعلیم مکمل کرتے ہوئے باقاعدگی کے ساتھ جب سند لے کر فارغ التحصیل ہوئے تو بڑی عزت کے ساتھ وہیں اسی ادارہ میں ایک قابلِ احترام مدرّس کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوگئی۔ دریں اثنا آپ فتویٰ نویسی بھی فرماتے رہے اورالٰہ آباد بورڈ کے زیراہتمام عربی، فارسی وغیرہ کے مولوی عالم و فاضل جیسے سرکاری امتحانات میں بھی شریک ہوئے اور اپنی غیر معمولی ذہانت و فطانت کی بنا پر ان تمام امتحانات میں اوّل درجے میں کامیاب ہوئے ۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

کئی سال تک آپ نے مئو ناتھ بھنجن کی دانش گاہ 'مدرسہ فیض عام' میں سنجیدگی و تندہی کے ساتھ تعلیمی و تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ پھر آپ کو دارالحدیث الاثریہ میں تعلیمی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان تدریسی فرائض کو بحسن و خوبی سرانجام دینے کے دوران آپ نے فنِ خطابت وشعلہ بیانی اور پرجوش و ولولہ انگیز تقاریر میں بھی اپنے جوہر پیش کئے۔

1966ء کے اوائل میں آپ نے مدرسہ فیض العلوم، مسیونی مدھیہ پردیش میں ایک کامیاب اُستاد اور مدیر التعلیم کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ وہاں تقریباً چھ سال کی مدت گزارنے کے بعداہل وطن کے شدید اصرار کی وجہ سے اپنی مادرِ علمی مدرسہ دارالتعلیم مبارکپور میں تشریف لے گئے جہاں صدر مدرّس اور پرنسپل کے عہدہ پر دو سال تک فائز رہے۔

1974ء میں بنارس میں ریوڑی تالاب کی مرکزی درس گاہِ اہلحدیث، یعنی دارالعلوم الجامعہ السلفیہ کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ وہ اپنی تمام تر خدمات و توجہات کو جامعہ سلفیہ کے لئے وقف کردیں ۔ چنانچہ وہ اکتوبر 1974ء میں بنارس کے جامعہ سلفیہ پہنچ کر 1988ء یعنی چودہ سال کی طویل مدت تک وہاں درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ ماہنامہ 'محدث' بنارس کے مدیر مسئول اور جامعہ کے تحقیقاتی ادارے میں بھی ایک محقق کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

موصوف انتہائی ذہین وفطین اور گونا گوں ممتاز خوبیوں کے مالک تھے۔جامعہ سلفیہ میں قدم رکھتے ہی ان کی خوبیوں کے جوہر مزید کھلے اور انہیں پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔ گویا ان کی ساری صلاحیتوں کو دَمک اور جلا مل گئی اور تمام مسدود راہیں وا ہوگئیں ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُنہیں بڑی عظیم صلاحیتوں و قابلیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت ایک قابل مفسر و محدث بھی تھے اور مدرّس و محقق اور مناظر بھی؛ ایک حاذق و ماہر علمِ فرائض بھی اور بلند پایہ سیرت نگار بھی۔ فارسی، اُردو و عربی زبانوں میں اُنہیں ید ِطولیٰ اور بڑی مہارت حاصل تھی۔ وہ اعلیٰ پاے کے دانش ور، قلم کار، انشا پرداز اور نثر نگار تھے۔ اُن کی قوتِ حافظہ بڑی تیز، پختہ، پائیدار اور مضبوط تھی۔ احادیث کے مختلف درجات ، رواةِ حدیث کے احوال اور لغت ِعربی کے حلِ اشکالات کے سلسلہ میں وہ کلیدی صلاحیت کے حامل تھے۔ بسااوقات اور بوقت ِضرورت مختلف اُلجھے ہوئے شرعی و پیچیدہ مسائل کے حل اور سلجھاؤ کی خاطر فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔اس لحاظ سے وہ ایک تسلیم شدہ اور مانے ہوئے مفتی بھی تھے۔ ان کے برجستہ اور فی البدیہہ فتاویٰ بھی تسلی بخش ہوا کرتے۔اجتہاد و استنباط کا مادّہ اور صلاحیت ان کی ذات میں بدرجۂ اتم بلکہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

مولانا مبارکپوری کا دورئہ پاکستان
دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے ملک اور بیرونِ ملک کے بھی گوشے گوشے اور چپے چپے میں دورے اور سیروسیاحت کی۔ بلادِ خلیج کا تو آپ نے باربار دورہ کیا۔ تقریباً سولہ سال تک مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے دار الخلافہ 'ریاض' میں اقامت پذیر رہے۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ اورپاکستان وغیرہ کا بھی سفر کیا۔

سرزمینِ پاکستان میں آپ کی آخری تشریف آوری اور ورودِ مسعود 20؍21 سال قبل یعنی 19؍نومبر تا 10 دسمبر 1985ء کو ہوا۔ حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف رحمة اللہ علیہ بھوجیانی(1909ء تا 1987ء) مؤقر ہفت روزہ 'الاعتصام' کے اس زمانہ (1985ء) میں مدیر مسئول تھے۔ ان کے ہی خلف الرشید وتربیت یافتہ شہرئہ آفاق عالم دین جناب مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس دور میں 'الاعتصام' کے روحِ رواں تھے۔ حضرت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی تشریف آوری کے موقع پر ان کے اعزاز میں شیش محل روڈ کے دارالدعوة السلفیہ میں ایک پُرشکوہ استقبالیہ دیا گیا۔ ہم عصر علماے کرام و دانشورانِ عظام نے دور دراز علاقوں سے آکر اس تقریب کو اوربھی رونق افروز بنایا اور چار چاند لگا دیے۔ جناب محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ آگے چل کر یہ خطبہ مولانا علیم ناصری رحمة اللہ علیہ کے قلم سے دورہ کی مختصر سی روداد کے ساتھ 'الاعتصام' کے 20 دسمبر 1985ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔

مولانا مبارکپوری ؛ امریکہ میں
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کو رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی طرف سے امریکہ جانے کا موقع بھی ملا۔ یہ واقعہ وسط دسمبر 1983ء کا ہے۔ اس وقت رابطہ کے سیکرٹری جنرل شیخ محمد علی الحرکان تھے جنہوں نے ٹیلی گرام کے ذریعہ شیخ مبارکپوری کو 9 تا 12؍ ربیع الاوّل 1402ھ میں منعقد ہونے والی عالمی سیرت کانفرنس میں باضابطہ شرکت کی دعوت دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنسز کا تعلق اور رابطہ بڑا گہرا ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ رابطہ مذکورہ مکہ مکرمہ کا باضابطہ نمائندہ بن کر اس قسم کے عظیم اور بین الاقوامی سیمینارز میں عملی شرکت و شمولیت کا زرّیں موقع اور دعوت ہما شما کو نصیب نہیں ہوا کرتی۔یقینا یہ عزت اور وقار قابل رشک ہے!

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں یہ پُرشکوہ کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ رابطہ کے عزت مآب جنرل سیکرٹری نے آپ کو اس میں تقریر کرنے اورمقالہ پڑھنے کا موضوع بھی بتا دیاتھا۔ اس سدابہار عنوان کانام تھا : 'سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورہماری زندگی میں اس کے تقاضے'

امریکی ریاست کیلی فورنیاکے شہر آرینج کاؤنٹی میں واقع سیمینار گاہ میں پہنچ کر مولانا موصوف نے جب تقریر شروع کی اور مقالہ پڑھا تو وہ واقعی بڑا ہی مؤثر، مدلل اور فکرانگیز تھا۔ سیمینارگاہ میں سب سے پہلے مولانا موصوف کی ملاقات و زیارت جس شخصیت سے ہوئی تھی، اس کا نام تھا پروفیسر ڈاکٹر احمد حسین صغیر۔ مولانا موصوف کی طرح اُن کی تقریر بھی بہت پُرجوش، بامقصد اور ولولہ انگیز تھی۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ اس راقم عاجز کے ساتھ بھی پروفیسر ڈاکٹر صغیر موصوف کی باہمی شناسائی اور تعارف بڑاپرانا ہے۔ امریکہ ویورپ کی کئی کانفرنسوں میں اُن کے ساتھ راقم کو ملاقات کا اتفاق ہوچکا تھا اور ان ملاقاتوں میں وہ مجھے اپنی شاہکار تصنیفات بطور ہدیۂ متواضعہ مرحمت فرما چکے تھے۔ اُن دنوں وہ شکاگو یونیورسٹی میں غذائیات کے نامور پروفیسر تھے۔

اس کانفرنس میں جن دیگر مایہ ناز شخصیات اورقابل قدر ہستیوں نے شرکت کی اور اس اوّلین نشست کو زینت بخشی، ان میں سے دو تو خاص طور پر قابل ذکر ہیں : جناب داؤد اسعد اور جناب ڈاکٹر مزمل صدیقی۔ اوّل الذکر فلسطین کے باسی اور رابطہ عالم اسلامی نیویارک کے معاون مدیر تھے۔ مزید برآں وہ انٹرنیشنل سپریم کونسل برائے مساجد(مکہ مکرمہ) کی شاخ نیز امریکہ و کینیڈا کی مسجدوں کی براعظمی مجلس کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ اتنے اہم مناصب اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود مولانا مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ان کابرتاؤ اور معاملہ ہمیشہ ایک خادم اور بندئہ ناچیز سارہا، کیونکہ سید القوم خادمھم کاراز گویا اسی میں مضمر ہے۔

مؤخر الذکر جناب ڈاکٹر مزمل صدیقی نے بھی، وہاں کے سب سے بڑے کرتا دھرتا اور سپریم کونسل(المَجلس الأعلیٰ) کے امیر بالاہونے کے باوجود حضرت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کے ساتھ نہایت منکسر مزاجی، عاجزی و خوش معاملگی کی روش اور برتاؤ پیش کیا۔ ڈاکٹر موصوف کے ساتھ پہلے ہی سے میری شناسائی اور تعارف موجود تھا، اس بنا پر میں ان کی گوناگوں خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھا، کیونکہ 1993ء کے اَواخر میں جب میں نے بوسٹن اورنیو کیمبرج کے عالمی سیمینار میں عملی شرکت کی غرض سے حاضری دی توکیا دیکھا کہ ڈاکٹر صدیقی موصوف وہاں پر خصوصی مہمان بن کر پہلے ہی سے تشریف فرما تھے۔ مجھے دیکھتے ہی باغ باغ ہوئے اور بغل گیر ہوگئے۔ سراپا اخلاص اور مجسمۂ نیاز مندی جس کا یہ عالم تھا کہ خلائق کے ادنیٰ سے کارِ خیر میں بھی بڑھ چڑھ کر نمایاں حصہ لینے کی جانفشانی اور کاوش فرماتے تھے۔

'الرحیق المختوم' کے تصنیفی مراحل اورمقبولیت
اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عظیم سرخیل شیخ ابوخلیل تونی جیسے سعودیہ کے امیر بالا اور سرکردہ شخصیت نے آخر مولانا مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کی اس قدر پُرتپاک آؤبھگت اور استقبال کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے مولانا کی مایۂ ناز تصنیف 'الرحیق المختوم' اور دیگر شاہکار تصانیف ...!

یہی وہ تصنیف ِلطیف ہے جس نے آپ کو عظمت اور دوامی شہرت و نیک نامی کو بامِ ثریا پر پہنچا دیا۔ اس کی تالیف وتصنیف کے تاریخی پس منظر میں بھی ایک طویل داستان ہے۔ اور وہ یہ کہ 1976ء میں کراچی کی بین الاقوامی سیرت کانفرنس کے اختتام پر رابطۂ عالم اسلامی نے سیرتِ نبویؐ کے موضوع پر مقالہ نویسی کا ایک عالمی مقابلہ منعقد کرنے کااعلان کیاجس میں دنیا بھر کے اہل علم کو دعوت دی گئی کہ وہ سیرتِ نبوی کے موضوع پر دنیا کی کسی بھی جیتی جاگتی زبان و ادب میں مقالہ قلم بند کریں ۔ پھر کیا تھا؟ دنیا کے تمام قلم کاروں نے فوراً ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق عالمی مقابلہ کے اس وسیع و عریض میدان میں کوشش و کاوش شروع کردی، کیونکہ اس عالمگیر مقابلہ کے انعامات بھی خطیرتھے اور پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علیٰ الترتیب پچاس، چالیس، تیس، بیس اور دس ہزار ریال کے انعامات دیئے جانے کا اعلان کیا گیاتھا۔

مولانا نے جب اس شاہکار تالیف کو ترتیب دیا،اس وقت آپ بنارس کی عظیم دانش گاہ الجامعہ السلفیہ میں اُستاد تھے۔ دراصل وہاں کے تلامذہ، اساتذہ و اَقارب نے اس کام پر اُنہیں پیہم اصرار کیا اوریہ اسی پیہم اصرار اور تاکید پر تاکید کانتیجہ تھا کہ مولانا اس سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ کے لئے پوری طرح مستعد ہوگئے۔ پھر جب اس کام کے لئے آپ نے اپنے زور دار و سیال قلم کو جنبش دی تو وہ اپنی مادری زبان اُردو میں نہیں بلکہ قرآنِ مجید کی زبانِ عربی یعنی لسانِ مبین میں ۔ حالانکہ اس سے قبل آپ کو عربی زبان میں تحریرو تصنیف کاکوئی تجربہ نہ تھا۔ آپ نے عرب کی کسی بھی یونیورسٹی کا منہ دیکھاتھا، نہ سعودی عرب میں ان کا رابطہ یا آمدو رفت کاکوئی سلسلہ تھا۔

جب عربی زبان میں لکھنے کے لئے قلم اُٹھایا تو یوں فراٹے، روانی و سلاست سے لکھتے ہی چلے گئے کہ گویا یہ ان کی مادری زبان ہو۔ ان کی یہ عربی تحریر براے تحریرنہ تھی بلکہ اُس میں لطافت، لچک، زور اور سلاست ان لوگوں کی عربی تحریروں سے بھی بڑھ کر تھی جو عربی ماحول میں پلے بڑھے اوربرابر لکھتے بھی رہے۔

دراصل اُن پراُن دنوں ایک عجیب سا جنوں ا ور مخصوص کیفیت طاری تھی۔ کتب ِسیرکا پیہم مطالعہ اور تصنیفی لگن سے وہ دیوانگی و سرشاری کالطف اُٹھاتے تھے۔ کبھی تو وہ سیرت کے حوالہ سے اس موضوع سے متعلق عربی اشعار گنگناتے اور کبھی کسی نص کو دہراتے نظر آتے۔ اس طرح سے کوئی پانچ چھ ماہ کے اندر مسودہ پایۂ تکمیل تک پہنچ گیا۔ تسوید کے بعد اب ان کے پاس تبییض کی قطعاً فرصت نہ تھی۔ پھر حضرت مولاناعبدالجلیل عبدالمعید علی گڑھی کے کندھوں پر یہ اہم ذمہ داری ڈالی گئی اور اُنہوں نے قلیل سی مدت میں ہی یہ عظیم ذمہ داری بدرجہ اتم و بطریق احسن نبھائی۔ مسلسل اور پیہم تبییض کے کاموں میں جب اُنہیں شدید تھکاوٹ محسوس ہوا کرتی تو برخوردار حافظ محمد الیاس میاں ( فاضل مدینہ یونیورسٹی، حال مقیم ریاض) بہترین چائے اور اس کے لوازمات سے دونوں حضرات (شیخ مبارکپوری و شیخ عبدالمعید علی گڑھی) کے جسموں کو قدرے حرارت اور چستی و توانائی پہنچاتے۔

اس معیاری وغیرمعمولی کام میں محترم المقام جناب عزیر شمس نے بھی عملی طور پرشرکت کی تھی جو کہ فضیلة الشیخ جناب محترم شمس الحق (شیخ الحدیث مدارسِ عربیہ بہار وبنگال) کے فرزند ِارجمند ہیں ۔ حسن ِاتفاق سے یہ دونوں اس راقم عاجز کے بھی قریبی رشتہ دار ہیں ۔ یہ شیخ عزیر شمس ہی تو تھے جنہوں نے سب سے پہلے شیخ مبارکپوری کو رات کے سناٹے میں رابطہ کی طرف سے پہلا انعام پانے کا مژدۂ جاں فزا سنایا تھا۔

'الرحیق المختوم' کو جوعالمی و آفاقی مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل ہوئی، وہ یقیناتائید ِالٰہی کا ایک عجیب وغریب کرشمہ ہے ۔یہی وہ مایہ ناز و شہرہ آفاق سیرت کی کتاب ہے جس سے متاثر ہوکر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے جنرل سیکرٹری فضیلة الشیخ عمر محمد فلاتہ اورامامِ کعبہ کے والد ماجدشیخ عبداللہ بن حمید نے ہندوستان سے اُنہیں بلا کر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے مرکز خدمة السُنّة والسیرة النبویة ﷺکا ایک عہدہ بھی تفویض کردیا۔یہ عہدہ الباحث المحقق یعنی ریسرچ فیلو کا تھا۔

الرحیق المختوم، بنگلہ زبان میں
دنیا کی لگ بھگ 9 زبانوں میں 'الرحیق المختوم' کا ترجمہ ہو چکاہے۔اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتاب ِہذا کی مانگ اور چاہت عالمی مارکیٹ میں کس قدر زیادہ ہے۔ مختلف زبانوں کے جامہ پہنانے، منتقل کرنے اور تراجم وغیرہ کی یہ بہتات و کثرت کو دیکھ کر مولانا نے دل ہی دل میں یہ سوچا کہ کیوں نہ اسے بنگلہ زبان میں بھی منتقل کردیا جائے؟ کیونکہ پورا بنگلہ دیش، مغربی بنگال، اراکان، آسام اور تریپورا وغیرہ کے بعض حصوں میں بھی یہ زبان بولی جاتی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے مجھے 1992ء کے اَواخر میں راجشاہی یونیورسٹی کے پتے پر خط لکھا اور فوری طور پر ترجمہ کا کام شروع کرنے کے لئے کہا۔

اور ساتھ یہ لکھا کہ جہاں تک اس کتاب کو زیورِ طبع سے آراستہ کرنے کا تعلق ہے تو میں اپنے شاگردِ رشید 'ابن ِاسماعیل' کو کہہ دوں گا اور رقم بھی ارسال کروں گا۔

واضح رہے کہ یہ وہی ابن اسماعیل صاحب ہیں جنہوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں مولانا ممدوح کے پاس زانوے تلمذ طے کرتے ہوئے مدتوں علومِ نبویہؐ کی خوشہ چینی کی تھی۔ انہوں نے مغربی بنگال کے نالہاٹی نامی ضلع رشید آباد و ساگر دیگھی کے ایک قصبہ میں 'ہلال بک ایجنسی' نامی کتب خانہ کی بھی داغ بیل ڈالی ہے۔

ابھی میں 'الرحیق المختوم' کے ابتدائی حصہ کا ترجمہ ہی کر پایا تھاکہ میرے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر یوسف صدیق نے مجھے نیویارک بلالیا، لہٰذا مجھے ترجمہ کی یہ ذمہ داری اپنے ایک شاگردِ رشید مولانا شیخ عبدالخالق رحمانی کے سپرد کرنا پڑی۔اُنہوں نے پھر ہم دم و ہم نواؤں سے مل کر ترجمہ کے اسی اہم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔

یہاں پرایک اورشخصیت کا نام بھی خاص طور پرقابل ذکر ہے جن کی پیہم مشقت، اَن تھک زحمت اور لگاتار صعوبت نے اس کام کو کچھ آگے بڑھایا، وہ ہیں راجشاہی پی ٹی ای سنٹر کے پروفیسرجناب سیف الدین احمد۔ اس کے ساتھ ایک اور قابل قدر ہستی اور عظیم شخصیت بھی منسلک و شاملِ حال رہی۔اس ہستی سے میری مراد ہے حضرت مولانا معین الدین کی ذات ستودئہ صفات۔ موصوف مغربی بنگال کے مالدہ ضلع میں کلیا چک کے باسی تھے اور راجشاہی یونیورسٹی سکول میں اسلامیات و عربی کے استاد بھی تھے۔ وہ صرف میرے چہیتے شاگردِ رشید ہی نہیں بلکہ اور بھی مختلف اطراف سے ان کے ساتھ میرا گہرا رابطہ اور تعلقات استوار تھے۔

بہرکیف اس طرح ہم سب کی متفقہ جدوجہد اور کد وکاوش سے 'الرحیق المختوم' کابنگلہ ایڈیشن کا مکمل مسودہ تیارہوگیا۔ بالآخر ہم نے اس مسودہ کو شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کے شاگردِ رشید جناب عبداللہ اسماعیل کے حوالہ کیا تاکہ وہ کلکتہ سے بڑے دیدہ زیب اور دلکش انداز میں زیورِ طبع سے آراستہ کرتے ہوئے خصوصی اشاعت کاانتظام کریں ۔

چنانچہ ہماری قوی توقعات و اُمیدوں کے مطابق ایسا ہی ہوا۔ 'الرحیق المختوم' کے نام سے جب کتاب چھپ کر ہمارے سامنے آگئی تو ہماری شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ یقین مانیں کہ ہم سب اس قدر باغ باغ ہوئے کہ پھولے نہ سماتے تھے۔ ہردل عزیزی اور مقبولیت ِ ِخاص و عام کایہ عالم تھاکہ قلیل سی مدت میں ہی سارے نسخے ختم ہوگئے۔

بنابریں اب دوسرے ایڈیشن کی نوبت آگئی۔ چنانچہ یہ دوسرا ایڈیشن بھی سابقہ رعنائی ونکھار اور پہلی سی آب و تاب اور دلکشی لیے سرزمینِ بنگال کے قارئینِ کرام و خواندگانِ عظام کے رُوبرو نمودار ہوا۔ لیکن 'چراغ تلے اندھیرا' ضرب المثل مشہور ہے۔ چنانچہ اس نئے ناشر نے ڈھٹائی و بے مروّتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مترجم کے نام یک لخت حذف کرکے صرف ناشر کے نام سے ہی اُسے شائع کرنے پر اکتفا کیا۔ 'بریں عقل و دانش بباید گریست'

عربی شاعر نے بھی کیا خوب کہا:

ولمثل ھذا یذوب القلب من کمد
إن کان في القلب إسلام وإیمان


واللہ! یہ کس بلا کی خیانت ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس قسم کی خیانت سے محفوظ رکھے، آمین! سننے میں آیا کہ اس شخص کا نام حافظ محمد منیر ہے۔

الرحیق المختوم ، اُردو زبان میں
جہاں تک اس کے اُردو ترجمہ کا تعلق ہے تو علامہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ نے بذاتِ خود ہی اس محنت طلب کام کو سرانجام دیا اوربنفسِ نفیس ہی اپنی مایہ ناز و شاہکار تصنیف 'الرحیق المختوم' کو اُردو زبان کے قالب میں بڑے شاندار و جاندار پیرائے میں ڈھال دیا۔ اُردو میں اُسے منتقل کرنے کا یہ مشکل کام آپ نے اور کسی کو کرنے نہیں دیا، کیونکہ صاحب البیت أدرٰی بما فیہ عربی کا مشہور و معروف مقولہ ہے یعنی ''اندرونِ مکان میں کیاہے؟ وہ مکین ہی سب سے بہتر جانتا ہے، اس مکان میں نووارد کو ہرگز اس سے پوری واقفیت نہیں ہوسکتی۔'' یہی وجہ ہے کہ عربی کی طرح ان کے بامحاورہ اُردو اُسلوب میں بھی جہاں پختگی و پائیداری صاف جھلکتی ہے وہاں سلاست و روانی کا بھی سیلِ بلاخیز ہے۔

جب اپنے زور دار و سیال قلم کو آپ جنبش دیتے تھے تو قلم کی رفتار تیز بلکہ برق رفتار ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 656 صفحات کی کتاب (اُردو الرحیق المختوم، طبع جدید) آپ نے بہت تھوڑے عرصہ میں مکمل کر لی۔ یہ کام جان جوکھوں اور صبروتحمل کا تھا، مگر آپ نے بھی ناسازگار اور کٹھن سے کٹھن حالات میں کبھی مایوسی، قنوطیت اور شکست خوردگی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا، اور نہ ہی ان کی بو قلموں اور گونا گوں صلاحیتیں و قابلیتیں کبھی کسی کی منت پذیر ہوئیں ۔سفر و حضر ہر دو حالات میں ان کی لطیف ذہانت اور دقیق فطانت کے شگوفے کھلتے اور پھلجھڑیاں چھوٹتی رہتیں ۔

'الرحیق المختوم' پرپہلا انعام
مارچ 1976ء بمطابق ربیع الاوّل 1396ھ کو پاکستان کی سرزمین میں سیرتِ نبویہؐ کی پہلی کانفرنس کے اختتام کے اختتام کے موقع پر رابطہ عالم اسلامی نے اسی سلسلہ میں ایک عالمی مقابلہ کا اعلان کر دیاجس کی مختلف شرائط پرپورے اُترنے والوں کے انعامات کی تفصیل تو ہم نے سطورِ بالا میں ہی قلم بند کردی۔اس طرح سے رابطہ اسلامی کی طرف سے تقسیم انعامات کایہ اعلان اُنس و محبت ِنبویؐ سے سرشار اہل علم و دانشوروں کے لئے مہمیز ثابت ہوا۔ چنانچہ اب تو اُنہوں نے بڑھ چڑھ کر اس مقابلہ میں حصہ لیا۔

ہمارے محترم بھائیوں نے مختلف زبانوں میں جب مقالات بھیجنے شروع کردیئے تو ان کی تعداد 171 تک جاپہنچی جن میں سے 84 مقالے صرف عربی زبان میں تھے، کیونکہ یہ قرآنِ مجید کی زبان اور رابطہ عالم اسلامی کی دفتری زبان تھی۔

ان مقالات کی چھان پھٹک، جانچ پڑتال اور استحقاقِ انعام کے لحاظ سے ان کی ترتیب قائم کرنے کے لئے رابطہ عالم اسلامی نے دنیابھر کے شہرئہ آفاق علماء و دانشوروں کی ایک مضبوط کمیٹی تشکیل دی جس کی سفارشات کے مطابق انعام حاصل کرنیوالوں کی ترتیب یہ رہی:


پہلا انعام: شیخ صفی الرحمن مبارکپوری، جامعہ سلفیہ، بنارس، ہند

الرحیق المختوم                                                             بزبانِ عربی

دوسرا انعام: ڈاکٹر ماجد علی خان، جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی ہند

خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم                                 بزبانِ انگریزی

تیسرا انعام: ڈاکٹر نصیراحمد ناصر، صدر اسلامی یونیورسٹی، بہاولپور، پاکستان

'پیغمبر اعظم و آخر'                                                      بزبانِ اُردو

چوتھا انعام: پروفیسر حامد محمود محمد منصور لیمو، مصر

منتقٰی النقول في سیرة أعظم الرسولﷺ                   بزبانِ عربی

پانچواں انعام:پروفیسر عبدالسلام ہاشم حافظ، مدینہ منورہ ، سعودی عرب

سیرة نبي الھدٰی والرحمة                                              بزبانِ عربی

رابطہ عالم اسلامی نے ان کامیاب افراد کے ناموں کااعلان شعبان 1378ھ میں کراچی (پاکستان) میں منعقد ہونے والی پہلی ایشیائی اسلامی کانفرنس میں کیا اور اکناف و اطراف میں وسیع پیمانہ پر اشاعت کی غرض سے تمام جرائد و اخبارات کو اس کی اطلاع بھی بھجوا دی۔ بعد ازاں تقسیم انعامات کے لئے رابطہ نے مکہ مکرمہ میں اپنے مستقر پر امیرسعود بن عبدالمحسن بن عبدالعزیز کی سرپرستی میں 12؍ربیع الآخر 1399ھ بروز ہفتہ کی حسین صبح ایک باوقار تقریب منعقد کی۔ امیر سعود مکہ مکرمہ کے گورنر امیر فواز بن عبدالعزیز کے سیکرٹری تھے۔ چنانچہ اس تقریب میں گورنر ِمکہ کے نائب کی حیثیت سے موصوف نے انعامات تقسیم کئے۔

تقریب کی روداد
پانچوں انعامات کے اعلان، تقسیم اور مقالہ نگاروں کو تقسیم انعامات کی غرض سے مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں رابطہ عالم اسلامی کے مستقر پر ایک ذی شان اور پُررونق تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کی افتتاح میں تلاوتِ قرآنِ مجید کے بعد ہی رابطہ کے نائب سیکرٹری جنرل محترم شیخ علی المختار نے توضیحاتِ مذکورہ کے بعد حوصلہ افزائی، مبارکباد اور دعائیہ کلمات پر اپنی تقریر ختم کی۔

بعد ازاں حسین آباد بھارت کے مایہ ناز سپوت شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ آپ نے اپنی مختصر مگر پُرجوش تقریر میں پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں دعوت و تبلیغ بعض ضروری لیکن متروک و ملتوی گوشوں کی طرف سامعین اور حکامِ بالا کی توجہ مبذول کرائی۔ نیز اس کے لازمی نتائج و اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ جواباً رابطہ کی طرف سے بھی ان معاملات کے سلجھاؤ کی توقع دلائی گئی۔

پھر امیر محترم سعود بن عبدالمحسن نے اپنی مختصر مگر جامع تقریر کے بعد ترتیب وار پانچوں انعامات تقسیم فرمائے۔ یہی وہ تاریخی تقریر اور تقریب ِتقسیم انعامات تھی جس کی بدولت شیخ موصوف کو خصوصی طور پر پہلی دفعہ حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔

اس موقع پر رابطہ کے سیکرٹریٹ کی طرف سے یہ بھی اعلان کیاگیا کہ ان کامیاب مقالات کو مختلف اور متعدد زبانوں میں طبع کراکے تقسیم کیاجائے گا۔ چنانچہ اس پر کاربند اور عمل پیرا ہوکر سب سے پہلے ہمارے ممدوح شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کے عربی مقالہ کو بہترین پیرایہ میں زیورِ طبع سے آراستہ کرتے ہوئے قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کردیاگیا،کیونکہ موصوف نے ہی اعلیٰ ترین و اوّلین انعام حاصل کیاتھا۔