مذہبی پیشوائیت؛ مذہب ِپرویز کا ایک کھوٹا سکہ (قسط 3)

 

پانچواں واقعہ
پانچواں واقعہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا واقعہ ہے، اُنہیں مسئلہ خلقِ قرآن کے سلسلہ میں انتہائی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اُنہوں نے اربابِ اقتدار کے ہاتھوں مصائب میں مبتلا ہونا قبول کرلیا لیکن ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔ معلوم نہیں 'مفکر قرآن' صاحب کی وہ مذہبی پیشوائیت کہاں تھی جو اربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملایا کرتی تھی :
''امام صاحب کو جس طرح قید و بند کے عذاب میں مبتلا رکھا گیا، اس کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ اُنہیں دربار میں بلوا کر کوڑوں سے پیٹا جاتا تھا اور جب وہ بے ہوش ہوجاتے تو پھر قیدخانے میں بھجوا دیا جاتاتھا۔یہ سلسلہ ایک دن، دو دن نہیں ، بلکہ پورے اڑھائی سال تک جاری رہا۔ معتصم (مامون الرشید کا جانشین) ان سب لوگوں کو قتل کردیا کرتا تھا جو قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے، لیکن امام صاحب کے قتل کی جرأت اس نے نہیں کی، کیونکہ ان کے ساتھ عوام کی عقیدت بہت گہری تھی۔'' 1

چھٹا واقعہ
امر واقعہ یہ ہے کہ جن علما کو 'مذہبی پیشوائیت' کے لیبل کے تحت، مطعون کرنے کی عادت 'مفکر قرآن' صاحب اپنائے ہوئے تھے، وہ اس قدر متقی اور پارسا و پرہیزگار تھے کہ سرکاری عہدوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے، کجا یہ کہ وہ ان سے مراعات حاصل کرتے ہوں ۔ لیکن اگر کوئی عالم ایسا کوئی عہدہ قبول کرتا تو اپنی پاکدامنی، خود داری، حق پرستی اور بے لاگ عدل کرنے کے باوجود بھی اپنی عزت کو قدرے کم تر پاتا تھا۔ امام ابویوسف (جو امام ابوحنیفہ کے شاگردِ رشید تھے)کے متعلق ان کے معاصر اہل علم میں کچھ ایساہی احساس پایا جاتاتھا، خود طلوع اسلام ایک مقام پر یہ لکھتا ہے :
''اس زمانہ میں بعض علما کا یہ نظریہ بھی رہا ہے کہ سلطانی عہدوں کو قبول کرنا، اپنے دین کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ بہت سے محدثین، ان لوگوں کی حدیثیں ہی روایت نہیں کرتے جو شاہی درباروں میں مقرب تھے۔ اکثر علما نے امام ابویوسف پر محض اس لئے طعن کیا ہے کہ اُنہوں نے قضا کا عہدہ قبول کرلیاتھا۔ اس قسم کی حکایات بہت کثرت سے ملتی ہیں ۔ محمد بن جریر طبری کہتے ہیں کہ اہل حدیث کی ایک جماعت، امام ابویوسف کی احادیث سے صرف اس لئے پرہیز کرتی ہے کہ ان پر رائے کا غلبہ تھا اور وہ فروع و احکام کی تفریع کے عادی تھے اور ساتھ ہی بادشاہوں کی صحبت میں رہتے تھے اور قضا کے عہدے پر فائز تھے۔ شاید مجموعی طور پر یہ دونوں باتیں ہی عہد اُموی میں امام ابوحنیفہ کے انکارِ قضا کا باعث ہوں ۔ ان کے خیال میں یہ حکومت ظالم ، سخت اور مضطرب الحال تھی... اس کے علاوہ قضا کے عہدے میں ، اس کا ہر وقت اندیشہ تھا کہ اگر خدا کو راضی رکھیں تو بادشاہ کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں اور اگر بادشاہ کو راضی رکھیں تو خدا ناراض ہوتاہے۔چنانچہ بعض روایات میں امام صاحب کا یہ قول موجود ہے کہ آپ نے منصور سے فرمایا تھا کہ اگر تم مجھے یہ دھمکی دو کہ یا تو میں حکومت کو قبول کرلوں ورنہ تم مجھے دریائے فرات میں غرق کردو گے، تو میں غرق ہوجانے کو ترجیح دوں گا۔ تمہارے اور بہت سے حاشیہ بردار موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ تم انہیں یہ اعزاز عطا کرو، مگر میں اس لائق نہیں ہوں ۔'' 2

ساتواں واقعہ
ساتواں واقعہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا ہے، جو بربناے حدیث ِنبویؐ جبری طلاق کے مخالف تھے۔ چونکہ جبری طلاق کے ناجائز ہونے کا اثر جبری بیعت پر بھی پڑتا تھا جو اس دور کے حکمران لیا کرتے تھے، اس لئے امام مالک رحمة اللہ علیہ ، اپنے اس فتوے کی بدولت سزائے تازیانہ کے مستحق قرار پائے۔
''امام مالک رحمة اللہ علیہ ، ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ اگر جبراً طلاق کسی سے دلائی جائے تو وہ واقع نہ ہوگی اور فتنہ اُٹھانے والوں نے اس حدیث سے ابوجعفر منصور کی بیعت کے باطل ہونے پر، دلیل حاصل کی۔ یہ بات محمد بن عبداللہ بن حسن النفس الزکیہ کے خروج کے وقت مدینہ میں پھیل گئی، اور منصور نے امام صاحب کو منع کیا کہ وہ جبری طلاق والی حدیث بیان نہ کریں ۔ پھر ایک جاسوس کو بھیجا جو آپ سے سوال کرے۔ آپ نے اس سے یہ حدیث تمام لوگوں کے سامنے بیان کی، لہٰذا حاکم مدینہ نے کوڑوں کی سزا دی۔ دوسرے ائمہ نے بھی ملوکیت کی ان اَغراض کی مختلف صورتوں میں مخالفت کی۔'' 3

آٹھواں واقعہ
آٹھواں واقعہ اس مرد مجاہد کا ہے، جس نے ہارون الرشید کے بھرے دربار میں ، اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایسا کلمہ حق کہہ دیا جس کی توقع شخصی حکومت میں نہیں کی جاسکتی:
''اگرچہ جب خلافت، بادشاہی میں بدلی تو درباری زندگی اور عجمی اثرات نے خوشامد پرستی کا جذبہ پیداکردیا تھا، لیکن پھر بھی ایمان کی یہ چنگاری، اس میں اکثر اوقات شعلہ فشاں نظر آتی ہے۔ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شاعر قصیدۂ مدحیہ پڑھتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ''اے خلیفہ! اگر عمرو علی کے زمانہ میں آپ ہوتے تو خلافت پر کوئی جھگڑا ہی نہ پڑتا۔(یعنی بلا اختلاف لوگ آپ کو خلیفہ منتخب کرلیتے) وہیں اہل دربار میں سے ایک مرد مؤمن اٹھتا ہے اور کہتا کہ ''کیوں غلط بات کہتے ہو، خلیفہ کے جدامجد حضرت عباسؓ، اس وقت موجود تھے، پھر جھگڑا کیوں نہ چک گیا؟''کچھ اندازہ فرمایا آپ نے، اس جرأتِ ایمانی کا؟ شخصی حکومت، بھرا دربار، لیکن حق و باطل کے مقابلہ میں کسی ڈرانے والے کا ڈر اُسے باز نہ رکھ سکا اور اعلائے کلمة الحق میں وہ رُعب تھا کہ خلیفہ بھی سن کر مسکرا دیا اور اُسے یہ کہنا پڑا کہ ''ٹھیک کہتے ہو۔'' 4

نواں واقعہ
مسئلہ خلقِ قرآن پربعض خلفاے بنی عباس نے خون کی ندیاں بہا دیں اور امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو پورے اٹھائیس ماہ تک ایسے شدید کوڑوں سے پیٹا گیا کہ ان میں سے ایک کوڑا کسی ہاتھی پر بھی برسا دیا جاتا، تو وہ بھی اپنی چیخ و چنگھاڑ سے آسمان سر پراُٹھا لیتا۔ اسی مسئلہ پر اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے ایک صاحب ِایمان جس کے قلب میں سلطانِ جائر کے روبرو کلمہ حق کہنے کا جوش و جذبہ اسے بے چین کئے ہوئے تھا، وہ عالم دین (عبدالعزیز بن یحییٰ)مکہ سے سوئے بغداد روانہ ہوئے۔ بغداد پہنچے تو کسی سے جان نہ پہچان۔ دربارِشاہی تک رسائی کیسے ہو؟ آخر ایک لطیف تدبیر سوجھی اور وہ نتیجتاً تخت ِشاہی کے سامنے، مامون الرشید جیسے مجسمہ قہر و غضب کے روبرو خود کو کھڑا ہوا پاتے ہیں ۔اس 'ملا' کا تذکرہ بایں الفاظ کیا گیا ہے:
''مامون الرشید کے عہد میں مسئلہ خلق قرآن نے جو قیامت برپا کررکھی تھی، کس سے پوشیدہ ہے؟ ایک صاحب ِایمان (عبدالعزیز بن یحییٰ) اس جسارت و صداقت کو قلب میں لے کر مکہ سے روانہ ہوتے ہیں اور جامع بغداد میں جاکر علیٰ الاعلان کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام ہے، ہرگز ہرگز مخلوق نہیں ہوسکتا، حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ اس کہنے کا انجام کیا ہوگا۔''ْ 5

طلوعِ اسلام نے پورا واقعہ بیان نہیں کیا کہ کس طرح دربارِ شاہی میں پہنچ کر عبدالعزیز بن یحییٰ نے مامون الرشید کے جملہ مناظرین کوتن تنہا لاجواب کیااور مامون خود بھی اس کے دلائل سے متاثر ہوا۔

علماے کرام کا یہی کردار، چودہ سو سالہ تاریخ میں
مقالے کی تنگ دامنی اور خوفِ طوالت، مزید مثالیں پیش کرنے میں حائل ہیں اور یہ چند مثالیں بھی کتب ِتاریخ سے پیش کرنے کی بجائے'مفکر قرآن' کے لٹریچر ہی سے پیش کی گئی ہیں ، ورنہ تاریخ کی کتب اُٹھا کر دیکھئے تو ایسی لاتعداد اور لازوال داستانیں ، موجب ِافزائشِ ایمان ہوں گی۔ سلطانِ جائر اور ملک ِعضوض کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے ہر دور میں ہر جگہ موجود رہے ہیں ۔ اب طلوعِ اسلام ہی سے ایک ایسا اقتباس پیش کیا جارہا ہے جو اختصار وایجاز کے ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ ہماری چودہ صدیوں پر محیط تاریخ اس قسم کے قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے :
''مسلمانوں کی تاریخ میں افراط و تفریط کے خلاف خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے ہر دور میں قلندرانہ تحریکات چلتی رہی ہیں ۔ محدثین اور متکلمین کی آویزش اور ازاں بعد متکلمین کی باہمی سرپھٹول، مامون الرشید عباسی کے دور میں فتنۂ خلق قرآن اور اس طوفان میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا محیر العقول عزم و ثبات، اس کے بعد منطق و علم کلام کے غیر اسلامی اثرات کو کالعدم ٹھہرانے کے لئے علامہ ابن تیمیہ کی مبارک تحریک، نجد میں وہابی تحریک کا آغاز، افریقہ میں مہدی سوڈانی اور شیخ سنوسی کی سرگرمیاں ، ہندوستان میں غیراسلامی تصورات کے خلاف حضرت مجدد الف ثانی کے مسلسل و پیہم جہاد اور حضرت سید جمال الدین افغانی کی تحریک ِاتحاد عالم اسلام (Pan-Islamism) وغیرہ، اس دعویٰ کا زندہ ثبوت ہیں کہ آڑے وقت میں ، مسلمانوں کے اندر ایک ذہنی انقلاب کی تیز رو موجود رہی ہے۔'' 6

یہ اقتباسات اس حقیقت کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کردیتے ہیں کہ نہ تو اسلام ہی میں ، 'مذہبی پیشوائیت' کا وہ تصور پایا جاتا ہے جسے 'قرآنی گوئبلز' کے سامری دماغ نے محض اپنے تسویلِ نفس کے زور پر گھڑ ڈالا ہے اور نہ ہی اُمت ِمسلمہ میں تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ کسی قابل ذکر پیشواے اسلام نے، تقاضائے حق کو پس پشت ڈال کر، اربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملاکر، دنیا کے جاہ و منصب اور مال و دولت کو سمیٹا ہو۔

یہ سارا افسانہ'قرآنی گوئبلز' نے صرف اس لئے تراشا ہے کہ 'نظامِ ربوبیت' کے نام سے، اشتراکیت کا جو 'قرآنی ایڈیشن' وہ خود نکال چکے ہیں ، اس کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ لیکن چونکہ یہ راہ ہموار ہو نہیں سکتی جب تک کہ وہ علما (اور وہ جماعت یہاں موجود ہے) جو محمد رسول اﷲ والذین معہکادین، بلاکم و کاست یہاں رائج کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے علما اور سیدابوالاعلیٰ مودودی کی مخالفت کرنے کے لئے وہ افسانہ تراشا گیا ہے، جس کا بنیادی تصور،ہندوؤں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں سے لیا گیا ہے اور پھر برسوں بار بار اسے دہرایا گیا ہے تاکہ یہ جھوٹ 'سچ' بن جائے۔

پرویز کے فکری اسلاف ہی ' ملا'تھے
ہمارے علماے تفسیر ہوں یا علماے حدیث، ائمۂ فقہ ہوں یا ائمۂ تاریخ، ان میں تو 'مُلّائیت' کا وہ تصور قطعی مفقود ہے جسے 'قرآنی گوئبلز' نے گھڑ رکھا ہے۔ ہاں البتہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خلافت ِراشدہ کے بعد کچھ باطل اور گمراہ فرقے ایسے پیدا ہوئے تھے جن کے ساتھ دورِ حاضر کے منکرین حدیث، اعتقادی و فکری رشتے میں منسلک ہیں ۔ ان میں 'مذہبی پیشوائیت' اور 'مُلّائیت' کی وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جنہیں 'قرآنی گوئبلز' نے دور حاضر کے علما کی طرف منسوب کیا ہے۔ (بالخصوص وقت کے اربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کے ساتھ ملی بھگت کرنا اور ارباب تخت و تاج کے ساتھ ساجھا پن اور 'شریفانہ معاہدہ' کرنا وغیرہ)

قدیم و جدید معتزلہ میں مشترک قدریں
قبل اس کے، کہ آج کے منکرین حدیث کے فکری آباؤ و اجداد کی اپنے وقت کے اربابِ اقتدار کے ساتھ ملی بھگت اور 'شریفانہ معاہدہ' کے ثبوت پیش کئے جائیں ، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یہ واضح کردیاجائے کہ اَخلاف (موجودہ منکرین حدیث) اور اَسلاف (قدیم معتزلہ) کس طرح تشابہت قلوبھم کے رشتہ میں منسلک ہیں اور کن کن پہلوؤں سے ان کا قارورہ ملتا ہے۔

جس طرح آج کے منکرینِ حدیث، وحی اور کتاب اللہ کا نام لے کر عقل کو بالاتر حیثیت دیتے ہوئے فکر ِاغیار کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوکر قرآن کا تیاپانچہ کرڈالتے ہیں ، بالکل اسی طرح قدیم معتزلہ کے 'قرآنی دانشور' بھی غیروں کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر غلبۂ عقل کے نعرہ کے ساتھ قرآنِ کریم کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ 'عقل کا غلبہ' کے زیرعنوان خود طلوع اسلام یہ لکھتا ہے :
''وہ عقل کے تسلط کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ عقل خود حسن و قبح کی معرفت حاصل کرسکتی ہے، خواہ شریعت نے کسی بات کے حسن و قبح کو بیان کیا، یابیان نہ کیا ہو۔'' 7

جس طرح یہ لوگ انکارِ حجیت ِحدیث کے باوجود خود کو منکرینِ حدیث کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے ہیں ، اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور کہنے پر مصر ہیں ، بالکل اسی طرح وہ لوگ بھی اعتقاداً مسلمانوں سے الگ راہ اختیار کرنے کے باوجود بھی خود کو 'معتزلہ' کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے :
''یاد رہے کہ یہ لوگ خود اپنے آپ کو خوارج یا معتزلہ نہیں کہتے تھے، اپنے آپ کو خالص مسلمان سمجھتے تھے۔'' 8

جس طرح آج کے منکرین حدیث صرف قرآن ہی کو سند مانتے ہیں ، اسی طرح وہ لوگ بھی تنہا قرآن ہی کو حجت تسلیم کرتے تھے۔ وہ ہر دینی معاملے میں قرآنِ مجید کو سند قرار دیتے تھے۔ 9

جس طرح دورِ حاضر کے منکرین حدیث مغربی معاشرت کے اجزاء و عناصر کو اور اشتراکیت کے نظامِ معیشت کو قرآنِ کریم میں زبردستی گھسیڑنے پر جُتے ہوئے ہیں ، اسی طرح کل کے معتزلہ بھی یونانی فلسفہ کا پھانہ اسلامی عقائد میں ٹھونکنے پر تلے ہوئے تھے:
''یونانی فلسفہ کو اپنا کر اُنہوں نے اسلامی عقائد میں اسے جس خوبی سے سمویااورعلم کلام کے نام سے ایک مستقل علم کی بنیاد رکھی، وہ اس کی زندہ شہادت ہے۔'' 10

ان وجوہِ مشابہت کی بنا پر آج کے منکرین حدیث اپنے فکری اسلاف یعنی قدیم معتزلہ کی انتہائی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور ان کے زوال و فنا پر یوں نوحہ کناں ہیں :
''ہمارے متقدمین میں 'معتزلہ' اہل علم کا وہ گروہ تھا جن کی نگاہ صحیح اسلام پر تھی اور وہ قرآن مجید پر عقل و بصیرت کی رو سے غور کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہماری 'مذہبی پیشوائیت' کس طرح جینے دیتی۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف ان اربابِ فکرونظر کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ ان کے علمی کارناموں کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔'' 11

جملہ معترضہ
قبل اس کے کہ اس بحث میں مزید پیش قدمی ہو، قارئین کرام سے یہ درخواست ہے کہ 'مفکر ِقرآن' ،'مدرّسِ فرقان' اور 'مفسر کتاب' جناب چوہدری غلام احمد پرویز کے اس جھوٹ کو خاص طور پر نگاہ میں رکھیں کہ... ''مذہبی پیشوائیت نے معتزلہ کو جینے نہیں دیا اور خود ان کا اور ان کے علمی کارناموں کا خاتمہ کرڈالا۔'' ... آگے چل کر طلوعِ اسلام ہی کی عبارت سے اس جھوٹ کا جھوٹ ہونا واضح ہورہا ہے۔ نیز یہ بھی کہ معتزلہ کو کسی 'مذہبی پیشوائیت' نے نہیں بلکہ خود ان کی اپنی کرتوتوں نے صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالا تھا۔بالخصوص جبکہ وہ خود 'مذہبی پیشوائیت' بن کر اربابِ اقتدار کے ساتھ خونِ مسلم کی ندیاں بہانے میں مصروف جہاد تھے۔

معتزلہ کی 'ملائیت' کا ارباب ِ اقتدار سے گٹھ جوڑ
اس جملہ معترضہ کے بعد اب ماضی کے فتنۂ اعتزال کے عروج پر ایک نگاہ ڈالئے تو آپ کو واضح طور پر یہ دکھائی دے گا کہ کس طرح اس فتنہ کے علمبرداروں نے اپنے عروج کے لئے اربابِ اقتدار کے ساتھ گٹھ جوڑ کا 'شریفانہ معاہدہ' کیا۔

فتنۂ اعتزال کے علمبرداروں میں سے دو 'قرآنی دانشوروں ' احمد بن ابی دؤاد اور ثمامہ نے کسی نہ کسی طرح ارباب اقتدار تک رسائی پالی اور انہیں اپنا ہم خیال بنالیا، جس کے نتیجہ میں اس فتنہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اس 'سرکاری اور سرپرستانہ ملی بھگت' اور 'شریفانہ معاہدہ' کے نتیجہ میں ، حکومتی اثرو رسوخ اور ذرائع و وسائل سے اس کا حلقہ اثر پھیلتا چلا گیا۔ انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب کے دروازے اس 'گٹھ جوڑ' کے نتیجہ میں معتزلہ کیلئے چوپٹ کھول دیئے گئے اور جو لوگ اس مسلک کے خلاف تھے، ان سے حکومت ِوقت، اس 'شریفانہ معاہدہ' کی بنا پر بڑے جابرانہ اور ظالمانہ انداز سے نپٹتی اور اُنہیں قیدو بند سے لے کر دارورَسن کی صعوبتوں میں سے گزرنا پڑتا، یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کا انکار طلوعِ اسلام سے بھی بن نہیں پڑا :
''احمد بن ابی داؤد (داود نہیں ، بلکہ دُؤاد) اور ثمامہ کی کوششوں سے مامون الرشید نے باقاعدہ طور پر اس مسلک کو قبول کرلیا اور مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا۔ اس سے وقتی طور پر مسلک ِاعتزال کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ الناس علی دین ملوکھم کے مطابق ہر طرف مسلک ِاعتزال کا چرچا ہونے لگا۔ ان کا مسلک چونکہ عقل و بصیرت پر مبنی تھا، ا س لئے وہ خود بھی لوگوں کو اپیل کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری مشینری بھی اس کی تائید میں حرکت کرنے لگی تو وہ پورے عالم اسلام پر چھا گیا۔ عدالتوں میں فیصلے اسی مسلک کے مطابق ہونے لگے۔ جو لوگ اس مسلک کے خلاف زبان ہلاتے تھے، ان سے حکومت ِوقت کی طرف سے باقاعدہ باز پرس کی جاتی تھی اور سزائیں دی جاتی تھیں ۔'' 12

کم ظرف اور دنیا پرست لوگوں کو اقتدار کا سہارا مل جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، چنانچہ معتزلہ کو جو اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہوئی تو وہ قوت و تکبر کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے اور پھر انہوں نے وہی حرکت کی جسے 'مفکر ِقرآن' صاحب، بہتاناً 'تھیاکریسی' اور 'پریسٹ ہڈ' کی خود ساختہ اصطلاحات کے تحت علماے کرام کی طرف منسوب کرنے کے عادی رہے ہیں ، یعنی فتویٰ بازی :
''خلق قرآن کا مسئلہ، معتزلہ کو جعد بن درہم ہی سے وراثت ملا۔ پہلے معتزلہ اس نظریہ کے قائل نہیں تھے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ قرآن کے مخلوق ہونے پر متفق ہوگئے اور جو شخص قرآن کو غیر مخلوق کہتا تھا اس پر کفر اور فسق کے فتوے لگاتے تھے۔ معتزلہ میں احمد بن ابی داؤد پہلا معتزلی ہے جس نے قرآن کو غیر مخلوق کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔'' 13

اس فتویٰ کے اجرا کے بعد معتزلہ کی 'مذہبی پیشوائیت' اور 'تھیاکریسی' نے اربابِ حکومت کے ساتھ جو 'شریفانہ معاہدہ' کررکھا تھا، اس کی روشنی میں اگلا قدم اُٹھایا، وہ کیا تھا؟ طلوع اسلام ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے :
''انہوں نے کہا کہ خلیفہ اسلا م کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عقیدہ کو، جو توحید کے خلاف ہے، قوت سے مٹائے۔'' 14

پھر کیا ہوا؟ قید و بند، دارورَسن اور ضربِ تازیانہ کے ذریعہ خون کی ندیاں بہا دینے کی نئی تاریخ معتزلہ کے 'ملاؤں ' کے ہاتھوں رقم ہوئی۔ جس کا اعتراف خود طلوعِ اسلام کو بھی کرتے ہی بنی :
''اس عقیدہ کی پشت پر چونکہ حکومت ِوقت بھی تھی، اس لئے لوگوں کو صرف کفر و شرک کے فتوؤں ہی سے مرعوب نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ان فتوؤں کے بعد لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں بھی دی جاتی تھیں اور قتل بھی کردیا جاتا تھا۔'' 15

یہ ہے حقائق کی صحیح اور اصل تصویر جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اربابِ اقتدار اور اعیانِ سلطنت کے ساتھ 'ملی بھگت' اور 'شریفانہ معاہدہ'کرنے اور اس کے نتیجہ میں سرکاری عہدے حاصل کرنے والے درحقیقت وہ 'اربابِ فکرونظر' اور 'صاحبانِ عقل و بصیرت'تھے جو یونانی فلسفہ کو اسلامی عقائد میں سمو ڈالنے کی کوششوں میں جتے رہے تھے اور جو آج کے منکرین حدیث کے فکری آباء و اجداد تھے، نہ کہ وہ علماء و فقہا اور وہ محدثین و مجتہدین جو پابند ِسلاسل رہ کر قید و بند کی اذیتیں جھیلتے ہوئے اور ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنتے ہوئے حکومتی مناصب اور سرکاری وظائف سے بے نیاز ہوکر خدمت ِدین اور اشاعت ِاسلام پر کمربستہ رہے۔

'مفکر قرآن' کا دوگونہ جھوٹ
'مفکر قرآن' صاحب تنکیسِ واقعات، تقلیبِ اُمور اور مسخِ حقائق میں کس قدر جھوٹ اور دیدہ دلیری سے کام لیا کرتے تھے، وہ ان کے اس دوگونہ کذب ہی سے واضح ہے ،جس میں وہ ... اُن علماے حدیث اور ائمۂ فقہ پر جو اَعیانِ سلطنت اور اَربابِ حکومت سے الگ رہے، یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کی ہمیشہ اہل اقتدار سے 'ملی بھگت' رہی ہے اور ... جو لوگ فی الواقعہ اقتدار کی چھتری تلے بیٹھ کر علماء و ائمہ کرام پر کفر و شرک کے فتوے لگا کر وقت کے حکمرانوں کو ان کے خاتمہ پر اُکساتے رہے ہیں ، وہ سب 'حاملین قرآن'، 'اہل علم و بصیرت' اور 'اصحابِ فکر و نظر'قرار پائے۔
ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

الغرض'مذہبی پیشوائیت'، 'ملا ازم'، 'تھیاکریسی' اور 'پریسٹ ہڈ' کی خود ساختہ اصطلاحات کی آڑ میں 'مفکر قرآن' صاحب، جن رذائل و معائب اور مثالب و نقائص کو علماے کرام کے گلے مڑھتے رہے ہیں ، وہ فی الواقع خود پرویز صاحب (اور ان کے اندھے مقلدین) ہی کے فکری اسلاف میں پائے جاتے تھے، لیکن وہ ان عیوب کواپنے آباء و اجداد کی طرف منسوب کرنے کی بجائے علماے کرام کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں ۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے 'سیاہ کارناموں ' کو اپنے باپ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے پورے قبیلے کی طرف منسوب کرتے ہوئے سربراہِ قبیلہ کو یہ طعنہ دے کہ ... ''تمہارے قبیلے میں تو ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے یہ اور یہ 'سیاہ کارنامے' انجام دیئے ہیں ''۔ حقائق کی روشنی میں 'قرآنی گوئبلز' نے یہی طریقۂ واردات اپنائے رکھا ہے!!

سببِ زوالِ معتزلہ
سرکاری سرپرستی میں شجر اسلام پر پھیلنے والی اس آکاس بیل کا خاتمہ کیسے ہوا؟ پرویز صاحب نے حقائق کو پس پشت پھینکتے ہوئے یہ بے پرکی اُڑائی ہے کہ... ''ان اصحابِفکرونظر کا خاتمہ'مذہبی پیشوائیت' نے کیا... حالانکہ ان کے زوال بلکہ خاتمہ کا سبب خود ان کی اپنی یہ حرکت تھی کہ وہ آفتابِ اقتدار کے پجاری بنے۔ اربابِ اقتدار کی کاسہ لیسی کی۔ سرکاری عہدوں پر براجمان ہوکر اپنے کفروشرک کے فتوؤں کے ذریعہ خون کی ندیاں بہائیں ۔ مخالفین کو قید و بند کی صعوبتوں میں پھانسا، اور ائمہ عظام کو کوڑوں سے پٹوایا،جس کے نتیجہ میں عوام ان سے متنفر ہوئے اور اُن علماء و ائمہ کی عقیدت و محبت، اضعافاً مضاعفہ ہوکر لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی کہ جو کسی دنیاوی مفاد کے لالچ میں نہیں بلکہ خالصتاً دین اسلام کے لئے یہ مصائب جھیل رہے تھے۔ ایک طرف معتزلہ کی دنیائے دَنی کی ہوس تھی اور دوسری طرف اہل علم کی مسلک ِحق پر اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی اور اخلاص کی دولت تھی۔ معتزلہ کی ان حرکات سے نفرت اور پھر اس پر مستزاد مسلم فقہاء و علما کا مصائب و مظالم پر اعلیٰ درجے کا صبر و ثبات... یہ تھا معتزلہ کے زوال و انحطاط کا اصل سبب جس کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔یہ سبب ِاصلی بھی کسی کتابِ تاریخ سے پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام ہی کے اوراق سے پیش کرنا مناسب ہے :
''احمد بن ابی دؤاد اور ثمامہ نے یہ بڑی سیاسی غلطی کی کہ مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا۔ مامون الرشید معتصم باﷲ، اور واثق باللہ نے مسلک ِاعتزال کو قبول کرکے جبر و اکراہ سے اس مسلک کو عوام میں پھیلانے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس سے تشدد اور سختیاں شروع ہوئیں تو جس نے بھی اس تشدد کے مقابلہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا، وہ عوام میں ہیرو بن گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر عباسی خلفا مسلک ِاعتزال کو قبول نہ کرتے تو اعتزال کے مسلک پر ان کا یہ بڑا ہی احسان ہوتا، یا اگر اُنہوں نے اس مسلک کو قبول کرلیا تھا تو اسے بنوکِ شمشیر عوام سے منوانے کی کوشش نہ کرتے تو معتزلہ اس تباہی سے یقینا محفوظ رہتے، جس سے اُنہیں آگے چل کر دوچار ہونا پڑا۔ معتزلہ نے اپنی اس سیاسی غلطی کو بروقت محسوس نہ کیا۔ یہ محدثین و فقہا کے خلاف کفر و شرک کا فتویٰ دیتے تھے اور برسراقتدار طبقہ ان علما و مشائخ کو دارورَسن کی مشقتوں میں مبتلاکرکے عوام میں ان کو ہیرو بنا دینے پر اپنی تمام کوششیں صرف کررہا تھا۔'' 16

اب ذرا ان الفاظ پر غور فرمائیے ... ''برسراقتدار طبقہ ان علماء و مشائخ کو ... ہیرو بنا دینے پر اپنی تمام کوششیں صرف کررہا تھا۔'' ... ان الفاظ سے کوئی کیا سمجھے؟ کیا عباسی حکمرانوں نے مسلک ِاعتزال کو منافقانہ طور پر اس لئے قبول کررکھا تھا کہ وہ ان علماء و مشائخ کو ہیرو بنا دینا چاہتے تھے اور دارورَسن کے یہ سارے مظالم صرف ا س لئے روا رکھے گئے کہ ان کے بغیر اُنہیں ہیرو نہیں بنایا جاسکتا تھا، کیا ان مصائب و مظالم کا نشانہ بننے سے قبل وہ اپنی للہیت ، اخلاص اور خدمت اسلام کی بنا پر پہلے سے ہی لوگوں کے محبوبِ نظر نہ تھے؟ اور کیا اب اربابِ اقتدار کی ظلم کی چکی میں پِس کر ہی وہ ہیرو بنے تھے؟

لیکن کیا آج کے معتزلہ نے اور تحریک ِطلوعِ اسلام نے اپنے پیشرو معتزلہ سے کوئی سبق سیکھا؟ ہرگز نہیں ۔ کیونکہ جہاں اخلاص نہ ہو، دنیائے دنی کی محبت ہو، اور تحریک کا بانی اور لیڈر خود نظامِ طاغوت کی سرکاری مشینری کے کل پرزہ کی حیثیت سے روٹی کاغلام بن رہا ہو، اور اپنے مخالفین پر 'منکرینِ قرآن' اور 'منافقین' ہونے کے فتوے عائد کررہا ہو، اور ہر صاحب اقتدار سے ہر دور میں محبت کی پینگیں چڑھا رہا ہو، اپنے فکری حریفوں کے خلاف حکومت کو مشورے دے رہا ہو اور ماضی کے معتزلہ کے نقشِ قدم پرچل کر غیر اسلامی تصورات کو قرآنِ مجید میں سمو ڈالنے کی کوشش میں جتا رہا ہو، اور اپنے کنونشن میں وزرائ، اور اربابِ اقتدار کو کرسئ صدارت پر بٹھاتا ہو اور اشتراکی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کا حریص ہو، وہ 'مفکر قرآن' اگر یہ کچھ نہ کرے، تو آخر اور کیاکرے؟

پاکستان ... مُلّا ازم ... پرویز
آئیے، اب یہ دیکھیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس ضمن میں جناب غلام احمد پرویز کا کیا کردار ہے؟ ہندوؤں سے برہمنیت اور عیسائیوں سے پاپائیت کا تصور لے کر 'مذہبی پیشوائیت' کے نام سے اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ایک 'مستقل اور ٹھوس حقیقت' قرار دے ڈالنے کے بعد،اب پاکستان کی تاریخ کا بھی اسے حصہ بنا ڈالنے کی کوشش 'مفکر قرآن' نے بایں الفاظ کی ہے :
''اب حالت یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک ِپاکستان کی اس قدر مخالفت کی تھی، یہاں سب سے زیادہ معتبر بنے ہوئے ہیں اور سرمایہ داری اور تھیاکریسی جن سے نجات حاصل کرنے کے لئے اس مملکت کا وجود عمل میں آیا تھا، اور جن کا ہمیشہ آپس میں گٹھ جوڑ ہوتا ہے، مملکت پرمسلط ہورہی ہے۔'' 17
''اربابِ شریعت سے، اس طبقے (اربابِ حکومت و سیاست)کا ساجھا ہے اور ا س کی وجہ سے یہ حضرات بھی اس ٹھاٹھ کی زندگی بسر کررہے ہیں جو تشکیل پاکستان سے پہلے ان کے حیطۂ تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی۔'' 18

یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ 'قرآنی گوئبلز' کے نزدیک 'ملائیت' کی بدترین شکل جماعت اسلامی کے پیکر میں پاے کوب ہے، اور یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ اس 'مزاج شناس خدا'کے ہاں ''مولانا مودودی ہی ملائیت کے سرخیل ہیں '' ... نیز یہ بات بھی مذکور ہوچکی ہے کہ ''جماعت ِاسلامی ہی مُلا ہے۔'' لہٰذا پاکستان میں ارباب اقتدار اور جن ارباب ِشریعت کے درمیان 'گٹھ جوڑ'، 'ساجھا پن'، 'ملی بھگت' اور 'شریفانہ معاہدہ' ہوا ہے، ان سے مراد جماعت اسلامی ہی کے افراد و اَعیان ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو حکمرانوں کے ظلم و ستم کے لئے 'شرعی سندات' مہیا کرتے ہیں اور یہی وہ جماعت ہے جواربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملاتی اور ان کی بانہوں میں بانہیں ڈالتی ہے۔جماعت اسلامی ہی وہ'مذہبی پیشوائیت' ہے جو اربابِ حکومت کو ظل اللہ کے مقدس خطاب سے نوازتی ہے اور اس کے بدلے میں سربراہانِ مملکت مالی وظائف کا انتظام کیا کرتے ہیں ۔ یہی وہ وارثانِ محراب و منبر ہیں جو عامة الناس کو اربابِ تاج و تخت کے لئے اطاعت و انقیاد کا سبق دیتے ہیں اور اُنہیں یہ سمجھاتے ہیں کہ__ راجہ، ایشور کا اوتار ہوتا ہے۔ بادشاہ، خدائی حقوق کا حامل ہوتا ہے ۔ اس لئے فرمانروائی، اس کا حق اور اطاعت شعاری تمہارا فریضہ ہے۔ وہ جو کچھ تمہیں دے، اس کی عنایت اور احسان ہے۔ تم اس سے بطورِحق کچھ مانگ نہیں سکتے۔ تم اس کے حضور جھکو، اسے سجدے کرو، ا س کی خیریت کی دعائیں مانگو۔ اس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اس اطاعت کو اپنے لئے سرمایہ ہزار سعادت سمجھو۔ تم اور تمہارا جو کچھ ہے، وہ اس سب کا مالک ہے۔ اسے ان تمام چیزوں پر کلی اختیار حاصل ہے۔ وہ تمہارا اَن داتا (رازق) اور پالنہار (پروردگار) ہے۔


دروغ گو را حافظہ نہ باید
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ دروغ گو را حافظہ نہ باید، تو اس کی واضح اور بہترین مثال 'قرآنی گوئبلز' کے کردار میں پائی جاتی ہے۔ حکومت کے ساتھ 'ساجھا پن'، 'گٹھ جوڑ' اور 'شریفانہ معاہدہ' کے وقوع کا اعلان کرڈالنے کے بعد جماعت اسلامی کے متعلق یہ بھی کہا جاتاہے کہ
''قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر اس وقت تک ملک میں جو حکومت بھی قائم ہوئی ہے، اس جماعت نے شور مچا دیا ہے کہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو فاسق و فاجر ہیں ، مغرب زدہ ہیں ، خدا ورسول سے بیگانہ ہیں ۔ شریعت سے ناآشنا ہیں ، کلبوں میں جاتے ہیں ۔ جم خانوں میں رنگ رلیاں مناتے ہیں ۔ یہ جماعت ہر برسراقتدار پارٹی کے خلاف، اسی قسم کا پراپیگنڈہ مسلسل کرتی چلی آرہی ہے۔'' 19

ایک اور مقام پر جماعت ِاسلامی کی ہر حکومت کے خلاف مخالفانہ پالیسی کو بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے :
''اس کی ہر دل عزیزی کا راز صرف یہ ہے کہ یہ ہر حکومت کو برابر گالیاں دیتی رہتی ہے۔ موجودہ حکومت ہی کو نہیں ، بلکہ پہلے دن سے ہر اُس حکومت کو جس نے ان کی کوئی بات نہیں مانی، اگر یہ آج حکومت کو گالیاں دینا بند کردے تو اس کی ساری شہرت ختم ہوجائے۔ شہرت کیا، اس کا وجود ہی باقی نہ رہے۔'' 20

اب ذرا اس تضاد بیانی کو ملاحظہ فرمائیے کہ جماعت ِاسلامی، ہر حکومت کی مخالف بھی رہی ہے۔ اس کے خلاف شوروغوغا بھی کرتی رہی ہے، اور یہ بھی کہ 'ملا' ہونے کی حیثیت سے اربابِ اقتدار کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ ، ساجھا پن اور 'شریفانہ معاہدہ' بھی رہا ہے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ یا تو مذہبی پیشوائیت کے بارے میں یہ پرویزی قاعدہ کلیہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے کہ اس کا اربابِ اقتدار کے ساتھ گٹھ جوڑ ہوا کرتا ہے اور یا پھر یہ کہئے کہ جماعت ِاسلامی سرے سے 'ملا' ہے ہی نہیں ۔ کیا وابستگانِ طلوع اسلام اس کی وضاحت فرمائیں گے؟

'مفکر ِقرآن'کا تضاداتی کردار
مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ 'مفکر قرآن' صاحب کے بیانات میں کس قدر تضاد ہوتا ہے۔ اس کی بکثرت مثالیں ان کے لٹریچر میں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں ۔ یہ بحر تضادات اس قدر وسیع وعریض اور گہرا و عمیق ہے کہ ع سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لئے قطع نظر دیگر اُمور کے، 'مفکر قرآن' صاحب، جب اس قسم کی متضاد اور مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں تو ان کی دانش و بینش کے متعلق شبہ گزرنے لگتا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ المیزان پبلی کیشنز کے ساتھ، پھڈا ڈالنے میں یہ صاحب کس قدر زیرک، عیار، چالاک اور چابک دست واقع ہوئے ہیں ، تو یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ اس قسم کی باتیں جان بوجھ کر کرتے رہے ہیں ۔ وہ دیدہ دانستہ، ان تضاد بیانیوں کو صرف اور صرف اس لئے اختیا رکرتے رہے ہیں کہ اُنہیں ہر حال میں مولانا مودودی اور جماعت ِاسلامی کو بدنام کرنا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر وہ جہاں جو بات بھی مناسب سمجھتے کر گزرتے رہے ہیں ، قطع نظر اس کے کہ ان میں کتنا تعارض و تناقض پایا جاتا ہے۔ پھر جس قوم میں وہ یہ متضاد باتیں کیا کرتے تھے، اس کی زود فراموشی کو بھی جانتے تھے۔ وہ خود یہ کہا کرتے تھے کہ
''ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قوم بڑی زود فراموش واقع ہوئی ہے۔'' 21

چنانچہ قوم کی اس زود فراموشی اور کمزور حافظے کی بناپر وہ جہاں جو بھی ایسی بات کرتے تھے جس سے ان کی سابقہ بات سے تضاد لازم آتا تو اُنہیں یقین ہوتا تھا کہ اس زود فراموش قوم کے کمزور حافظہ میں میری پہلی بات یقینا گلدستۂ طاق نسیان ہوگئی ہے، لہٰذا بے دھڑک ہوکر جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے، کہہ ڈالتے تھے اور اپنی اس'چوری' پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ 'سینہ زوری' کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے کمزور حافظہ اور ان کی عادت زود فراموشی سے فائدہ اُٹھانے کی اپنی عادت کو اپنے حریفوں کی طرف منسوب کر ڈالا کرتے تھے۔

مزید برآں یہ کہ 'مفکر ِقرآن' صاحب جب جماعت ِاسلامی کی انتہائی معاندانہ مخالفت پر اُترتے، تو اس کی وجۂ جواز بیان کرنے میں وہ پھر قلب وقلم کی مغایرت کا شکار ہوجاتے اور جماعت ِاسلامی کے لٹریچر میں سے کوئی حوالہ، کوئی اقتباس، کوئی دلیل اور کوئی ثبوت پیش کئے بغیر محض تسویلِ نفس کے بل پر، یہ وجۂ جواز پیش کیا کرتے تھے کہ...

مسلمان قوم، ایک جذباتی قوم ہے جو حقائقِ زندگی سے فرار اختیار کرکے شاعری کرتی ہے اور جماعت ِاسلامی مذہب کی راہ سے جو اَفیون اس قوم کو دیتی ہے، اس سے جذباتی بے راہ روی پیدا ہوتی ہے، اور افرادِ قوم میں سنجیدہ فکر اور متین تدبر کو پیدا نہیں ہونے دیتی، لہٰذا ہم اس کے خلاف ہیں۔ (i)

حالانکہ جماعت ِاسلامی کی مخالفت کے وجوہ میں سے ایک وجہ خود طلوع اسلام نے یہ بیان کی ہے کہ جماعت ِاسلامی اور مولانا مودودی اُس 'قرآنی نظام' کے خلاف ہیں جسے 'مفکر قرآن' نے اشتراکیت کے ساتھ مغربی معاشرت کے لوازمات کونتھی کرکے اس پر 'قرآنی ٹھپہ' لگا دیا ہے۔ یہی 'قرآنی نظام' چونکہ ان کے نزدیک اصل اسلام ہے جسے وہ پاکستان میں نافذ دیکھنا چاہتے تھے، اور اسی 'قرآنی نظام' کے نفاذ کی راہ میں وہ جماعت ِاسلامی اور اس کے امیر کو سنگ ِگراں تصور کیا کرتے تھے۔ اس لئے 'مفکر ِقرآن' نے ان کی مخالفت کو اپنا مقصودِ حیات قرار دے رکھا تھا۔ چنانچہ خود اُنہوں نے اس وجۂ مخالفت کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
''اگر مودودی صاحب کے عزائم کی علمبردار اسلامی جماعت یہاں نہ اُٹھتی تو اس خطۂ زمین میں اسلامی نظام یعنی مملکت علیٰ منہاج نبوت کے قیام کے امکانات بڑے روشن تھے۔'' 22

اور اب تک اگر یہ'قرآنی نظام' نافذ نہیں ہوسکا اور پاکستان، مملکت منہاجِنبوت نہیں بن پائی، تو...
''اسکی بنیادی وجہ اور اساسی سبب ایک ہی ہے اور وہ ہے اس بدنصیب ملک میں جماعت کا وجود۔'' 23

'یہ پرویز کی نہیں ، قرآن کی مخالفت ہے'
اس پر مستزاد یہ امر کہ جو لوگ 'مفکر قرآن' صاحب کی منسوب الیٰ القرآن تعبیر کو نہیں مانتے تھے، اُنہیں وہ اپنا مخالف کہنے کی بجائے قرآنِ مجید ہی کا مخالف قرار دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ ...'میری مخالفت کی وجہ'... کے زیر عنوان، یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ
''میں بلا تشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرأت کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔'' 24

اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ اُنہوں نے 'قرآنی ڈکٹیٹر شپ' کے کس بلند و بالا مقام پر اپنے آپ کو براجمان کررکھا تھا۔ حالانکہ قرآنِ کریم کے الفاظ تو یقینا وحی ہیں لیکن پرویز صاحب کی تعبیرات تو مبنی بروحی نہیں ہیں ۔ قرآنی متن میں سہو و خطا کا کوئی امکان نہیں لیکن 'مفکر قرآن' کی قرآنی تعبیرات میں یہ امکان بقول ان کے موجود ہے :
''قرآن تو وحی الٰہی ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ، لیکن میں اپنی قرآنی بصیرت کو کبھی وحی الٰہی قرار نہیں دیتا۔ اس لئے اس میں سہو و خطا دونوں کا امکان ہے۔ بنابریں میں اس پر اِصرار نہیں کرتا کہ جو کچھ میں نے سمجھا ہے، وہ اس باب میں حرفِ آخرہے، اور وحی الٰہی کی طرح منزہ عن الخطا۔'' 25

اس اقتباس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں ، ان کے اصل کھانے کے دانت، وہ ہیں جن میں وہ اپنے دعاوی کو قرآن کے دعاوی قرار دیتے ہوئے اپنے مخالفین پر بزعمِ خویش اتمامِ حجت کیا کرتے تھے :
''ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق پیش کرنا ہے، اس سے اگر کسی کے مروّجہ عقیدہ یا کسی کے دعویٰ پر زد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ اس بات میں مدعی قرآن ہے، ہم نہیں ۔ ہمارا فریضہ قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس۔'' 26


حوالہ جات

1. طلوع اسلام: مارچ 1952ء، صفحہ 52
2. طلوع اسلام: مارچ 1954ء، صفحہ 26
3. طلوع اسلام: اگست ،ستمبر 1964ء، صفحہ 105
4. طلوع اسلام: فروری 1941ء ، صفحہ 21
5. طلوع اسلام: فروری 1941ء، صفحہ 21
6. طلوع اسلام: نومبر 1940ء، صفحہ 20
7. طلوع اسلام: فروری 1960ء، صفحہ 70
8. طلوع اسلام: مارچ 1973ء، صفحہ 55
9. طلوع اسلام: جون 1978ء، صفحہ 48
10. طلوع اسلام: جولائی 1955ء، صفحہ 11
11. طلوع اسلام: فروری 1967ء، صفحہ 57
12. طلوع اسلام: 23 جولائی 1955ء، صفحہ 11
13. طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء صفحہ 13
14. طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء، صفحہ 13
15. طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء، صفحہ 13
16. طلوع اسلام: 30 جولائی ، صفحہ 13
17. طلوع اسلام: اکتوبر 1969ء صفحہ 9
18. طلوع اسلام: جنوری 1952ء، صفحہ 11 فروری 1962ء، صفحہ 75
19. طلوع اسلام: مارچ 1967ء، صفحہ 16
20. طلوع اسلام: جولائی 1967ء، صفحہ 72
21. طلوع اسلام: اکتوبر 1968ء، صفحہ 8
22. طلوع اسلام: مئی 1976ء صفحہ 33
23. طلوع اسلام: مئی 1976ء صفحہ 25
24. طلوع اسلام: دسمبر 1978ء، صفحہ 52
25. نظام ربوبیت: صفحہ 23
26. طلوع اسلام: جنوری 1985ء ،صفحہ 21


i. دیکھئے تبصرہ بر'چراغِ راہ' قیادت نمبر، دسمبر1949ء کا طلوعِ اسلام


 مذہبی پیشوائیت : مذہب پپرویز کا ایک کھوٹا سکہ (آخری قسط)