اسلام کا عالمی پیغام اور اہل علم کا فرض
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں شیخ عبدالرحمن سدیس کاخطاب
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے قلم کے ذریعے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا اور صلوٰة و سلام ہوں اس عظیم ہستی پر جو ہمارے آقا اور نبی اکرم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپؐ کی آل اور صحابہ کرام ؓ پر اور اُن لوگوں پر جنہوں نے آپؐ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور آپؐ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کی... اما بعد! السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ
یہ مبارک گھڑی اور یہ باسعادت موقعہ میرے لیے یقینا باعث ِمسرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بلند و بالا عظیم علمی مرکز اور تربیت گاہ میں آپ سے اس پاکیزہ اور بابرکت ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔یہ یونیورسٹی بین الاقوامی اسلامی تہذیب کی قندیلوں میں سے ایک قندیل ہے۔ میں اللہ عزوجل کی نعمتوں اور اس کے احسانات پرشکر اداکرتا ہوں ، پھر مملکت ِسعودی عرب کے ذمہ داران کا بھی جن میں خادمِ حرمینِ شریفین سرفہرست ہیں جنہوں نے مجھے اِس سفر کی ترغیب دلائی تاکہ مضبوط برادر مملکت پاکستان میں موجود مسلمانوں بھائیوں سے ملاقات، باہمی رابطہ اور باہمی تعاون کی کئی شکلیں متعارف ہوں ، اور اس کا ہمارے دلوں پرگہرا اثر ہے جو باقی رہے گا۔ ایک مضبوط اور عظیم اسلامی ملک پاکستان کی سرزمین ہم سب کو انتہائی محبوب ہے جس کی ہرمیدان میں اسلامی خدمات دنیا بھر میں خوب نمایاں ہیں ۔
میں جناب محترم رئیس الجامعہ ڈاکٹر انوار صدیقی اور اپنے بھائی اعجاز الحق وزیرمذہبی اُمور کا بھی شکرگزار ہوں ہوں جو اپنے والد ِمحترم ضیاء الحق اور جلالة الملک فیصل بن عبدالعزیز کے قیمتی افکار کا تسلسل ہیں ۔ اللہ ان دونوں پر رحم فرمائے، ان دونوں شخصیتوں کے اُمت ِاسلامیہ پر بالعموم بڑے گہرے ا ثرات ہیں ، بالخصوص اس بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا قیام ان دونوں صاحبان کی مشترکہ کوششوں کا ثمرہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اجر وثواب سے نوازے۔
میں تدریسی کونسل کے اراکین، جامعہ کے ملازمین، ذمہ داران اور طلبا سب کا شکریہ اداکرتا ہوں اس جہد ِمسلسل پر جو وہ راہِ علم وتربیت اور دعوت الیٰ اللہ میں صرف کررہے ہیں ۔
عزیز بھائیو! اس میں کوئی شک نہیں اور معاشرہ کی اصلاح، عزت و شرف اور ثقافت کی تعمیر وترقی کے لئے جستجو کرنے والا اس حقیقت سے لازماً آگاہ ہوگا کہ معاشرے کی عزت ووقار اور بلند تہذیب کی بنیادیں ہمیشہ علم و فہم اور معرفت پر ہی استوار ہوتی ہیں ۔ شاعر کہتا ہے :
للعلم والمال یبني الناس مَجْدَھم
لم یَبْنِ مَجد علی جھل وإقلال
''لوگ اپنی عزت اور رِفعت علم اور مال کے ذریعے ہی حاصل کرتے ہیں جبکہ جہالت اور تنگ دستی کی موجودگی میں یہ عزت وررفعت ہرگز حاصل نہیں ہوتی۔''
اسی بنا پر شریعت ِاسلامیہ نے اہل علم کی عظمت بیان کی اور علما کی فضیلت اور مقام و مرتبہ بلند کیا۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے اپنی شہادت کو اہل علم کی شہادت کے ساتھ مربوط کیا ہے:
شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَأُولُوا ٱلْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِٱلْقِسْطِ ۚ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿١٨﴾...سورة آل عمران
''اللہ تعالیٰ نے اس بات کی گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تمام فرشتے اور اہل علم بھی انصاف کے ساتھ اس گواہی پر قائم ہیں کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہی غالب اور حکمت والا ہے۔''
وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا ﴿١١٤﴾...سورة طہ
''اور آپؐ کہہ دیجئے (کہ اے)میرے ربّ میرے علم میں اضافہ فرما۔''
يَرْفَعِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوامِنكُمْ وَٱلَّذِينَ أُوتُوا ٱلْعِلْمَ دَرَجَـٰتٍ...﴿١١﴾...سورة المجادلہ
''اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرتا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور وہ لوگ امتیازی درجہ رکھتے ہیں جنہیں علم سے نوازا گیا۔''
قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ...﴿٩﴾...سورة الزمر
''کیا وہ لوگ جوجانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ،برابر ہوسکتے ہیں۔ ''
أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ٱلْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰٓ...﴿١٩﴾...سورة ا الرعد
''کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو (وحی) تیر ے ربّ کی طرف سے نازل کی گئی برحق ہے، وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو (اس حقیقت سے) اندھا ہے۔
'' شاعر کہتا ہے کہ
فَفُزْ بِعِلم تَحیٰی به أبدًا
الناس موتٰی وأھل العلم أحیاء
ما الفَخْر إلا لأھل العلم
إنھم علی الھدٰی لمن استھدٰی أدِلَّاء
وقدر کل امریٔ ما کان یُحسِنه
والجاھلون لأھل العِلْم أعداء
''اے انسان تو زیورِ علم سے آراستہ ہو جا، اس کی بدولت تیرا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جہالت کی وجہ سے لوگ تو فوت شدگان جیسے ہیں جبکہ اہل علم،علم کی وجہ سے زندہ ہیں ۔اہل علم کے لئے فخر کی یہی بات کافی ہے کہ وہ یقینا ہدایت پر قائم ہیں اور طالب ِہدایت کو راہِ ہدایت دکھانے والے ہیں ۔ اور ہرشخص جتنا کسی کام کو حسین بناتا ہے، اتنی ہی اس کی قدر و منزلت ہے جبکہ جاہل اہل علم کے دشمن ہیں ۔''
اللہ عزوجل کااس اُمت پر یہ عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے اتنے وسیع وعریض،مضبوط ومستحکم علم کے قلعے کھڑے کردیے جن کا جہالت کی تاریکیوں کو مٹانے، اُمت کو نورِ ہدایت سے روشناس کرانے اور دنیا کو علوم و فنون سکھانے میں بڑے نمایاں کردار ہے۔ آج ہم علم کے بلند وبالا قلعوں میں سے ایک، اس مرکز ِعلم میں بابرکت ملاقات سے فیض یاب ہورہے ہیں ، میری مراد اس سے الجامعة الإسلامیة العالمیة ہے۔
ہمارے پیش نظر اس مرکز ِعلم کے چار پہلو ہیں :
- الجامعة
- الإسلامیة
- العالمیة
- في باکستان
ان میں سے ہرپہلوکی مخصوص دلالت اور خاص معنویت ہے :
کلمة الجامعة صرف عمارت اور دیواروں کا نام نہیں بلکہ یہ دراصل ان صلاحیتوں اور شرعی مہارتوں کی نمائندگی کرتا ہے جس کی بنا پر ہی اہل علم و فضل کی ایک جماعت تعلیم وتربیت اور دعوت کے میدانوں میں اپنی کوششیں مؤثر ومفید بنا رہے ہیں ۔ ہم اُنہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اللہ سے بڑھ کر باخبرہونے کا ہمیں کوئی اِدعا نہیں ۔
الإسلامیة یہ ایک وسیع وعریض دائرہ اور بہت بڑاسائبان ہے جس کے درمیان یہ جامعہ اپنے اسلامی نظریات اور افکار کو لے کر رواں دواں ہے۔ جب ہم 'اسلامی نظریہ' کا لفظ بولتے ہیں تو یہ لفظ اپنی ہمہ گیری کی بدولت علوم ومعارف کی مختلف انواع واقسام پر حاوی ہو جاتا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ، شریعت اور عربی زبان وادب کے علوم کی تعلیم وتدریس میں اور اُمت کو اس کی علمی اسا س سے مربوط کرنے اور اس کو علم وعرفان کا آبِ شیریں فراہم کرنے میں اس جامعہ کا بڑا حصہ ہے۔
اس جامعہ نے اسلام، اسلامی علوم و معارف اور ثقافت ِاسلامیہ کی ترویج و ترقی کی سالہا سال سے خدمت کی ہے اور ا ب بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس فضل وکرم پر ہم اللہ کے شکرگزار ہیں ۔ یہ جامعہ اس میدان میں آئندہ بھی اپنی خدمات پیش کرتی اور اپنے ثمرات سے نوازتی رہے گی اور مسلمان نسل اس جامعہ سے فیض یاب ہوتی رہے گی۔ اسلام کے سائبان تلے اس جامعہ کی یہ کوشش قابل ذکر اورلائق شکرہے۔ البتہ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات سے کلی گریز کیاجائے جو کسی بھی اعتبار سے اس دین اور شریعت کے امتیازات کو داغ دار کرتے ہوں ۔
یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم اس امر کا عزم کرلیں کہ وہ علوم جو اس جامعہ میں پڑھے یا پڑھائے جاتے ہیں ، ان کے لئے اس جامعہ کی تمام تر کاوشیں اس شریعت ِاسلامیہ کی بنیادوں پرمرتکز ومنحصرہوجائیں جن نمایاں خصائص، امتیازات اور علامتوں کی بنا پر یہ شریعت دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ ان خصائص میں سب سے اہم امر اس اُمت کا اتحاد ہے۔ اس جامعہ میں خدمات انجام دینے والے حضرات خواہ وہ ادارتی اُمور سے منسلک ہوں یا طلبا و مدرّسین ہوں ، اُنہیں اسی بہترین اور متوازن اسلامی منہج کو اختیار کرنا چاہئے جو علاقائی تعصب، قوم پرستی، مسلک پروری،افتراق اورتمام تر اختلافات سے بلندتر ہے۔ ہمیں اِن علوم و معارف کے ذریعے ہی اسلام کی وحدت اور مسلمانوں میں باہمی اتحاد قائم کرنا ہے۔
آج کے دور میں ہم مستشرقین ، مستغربین اور محدود و متعین نقطہ نظر رکھنے والے تنگ نظر لوگوں کی طرف سے جن پرمغربی تہذیب و تمدن کا بھوت سوار ہے، بہت سے چیلنجز اور مخالفتوں کا سامنا کررہے ہیں ۔ جبکہ اللہ کا دین انتہا پسندوں کے غلو اور سرد مہروں کی جفا (سرد مہری) کے بین بین ہے۔ ہم اس جامعہ سے اس کے سوا کوئی توقع نہیں کرتے کہ وہ صحیح، اسلامی خطوط پر استوار ہو۔ یہاں اصل شرعی علوم اور عربی زبان کو مستحکم بنانیوالے علوم (آلیہ) پر بھرپور توجہ دی جائے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام جدید علوم و معارف کے فوائد وثمرات سے کبھی بھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ یہ جامعہ یا دیگر جامعات عصری علوم کو بھی سکھائیں مثلاً کمپیوٹر، علومِ ترجمہ یا دیگر زبانوں کے حصول کا علم، کیونکہ ہم اسلام کے بین الاقوامی پیغام کے علم بردار ہیں اور یہ یہ ہماری اسلامی ذمہ داری ہے جیسا کہ اس آخری پہلو کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
اس جامعہ کا یہ پہلو العالمیة بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس یونیورسٹی کا پیغام کسی علاقے یا ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا مشن تواسلام کے عظیم پیغام سے مُستنیرہوتے ہوئے ایک بین الاقوامی پیغام بن جاتاہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٠٧﴾...سورة الانبیاء
'' ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔''
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا...﴿٢٨﴾...سورة سبا
''ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔''
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا...﴿١٥٨﴾...سورة الاعراف
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔''
اسلام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آج ہمیں 'عالمگیریت' کے چیلنجز کا سامنا ہے جس کے بارے میں اکثر دشمنانِ اسلام حتیٰ کہ بعض مسلمان بھی سرگوشیاں کرتے پائے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں باہم متضاد نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں ۔اگر دنیا کو اپنی گلوبلائزیشن پر فخر اور ناز ہو تو ہمیں بھی اپنی حقیقی عالمگیریت پر فخر ہے ۔ہم ہی حقیقی معنوں میں عالمگیر اُمت ہیں ۔ ہم ہی وہ ملت ہیں جن کی تہذیب وثقافت دنیا کے کونے کونے میں جلوہ افروز ہے :
شاعر پاکستان علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا: (ہرخوبی اورکمال تو اللہ ہی کے لئے ہے)
بِمَعَابد الإفرنج کان أذاننا قبل الکتائب یَفتَحُ الأمصارا
کنا جِبَالا في الجبال وَ رُبَّمَا صِرْنا علی مَتْنِ البِحار بحارًا
لم تنسأ أفریقیا ولا صحراء ها سَجَدَاتِنا والحرب تَقْذِفُ نارا
کنا نُقَدِّم لِلإسلام دماء نا لم نَخْشَ یَومًا طاغیًا جبَّارًا
ندعوجِهَاراً لا إله سوٰی الذي صَنَعَ الْوُجود وَ قَدَّرَ الأقدارا
''انگلستان کے گرجوں ؍چرچوں میں ہماری اذانیں ہمارے لشکروں کے حملوں سے پہلے ہی اُنہیں فتح کر لیتی تھی۔ ہم پہاڑ کے اوپر پہاڑ تھے اور بسا اوقات ہم سمندر کی پشت پر سمندر بن جاتے تھے۔ افریقہ اور اس کے صحرا اور وہاں شعلے اُگلتی جنگیں ،ہمارے سجدوں کو آج تک نہیں بھولیں ۔ہم اسلام کی خاطر اپنے خون پیش کرتے تھے اور کسی سرکش اور جابر سلطان سے ہرگز نہ ڈرتے تھے۔ اور ہم بآوازِ بلند کہتے تھے کہ ہمارا ربّ وہی ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا اور ہر ایک کا مقدر لکھا، اس کے علاوہ ہمارا کوئی معبود نہیں ہے۔''
اسلام کی یہی وہ عالمگیریت ہے جس کی ہمیں جستجو کرنا اور اس کی آغوش میں آنا چاہیے۔ اور عجمیت،عربیت، علاقائیت اور وطنیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ آئیے ان آیاتِ مبارکہ کو سنیں ۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ الٰہی ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍۢ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَىٰكُمْ...﴿١٣﴾...سورۃ الحجرات
'' اے لوگو! یقینا ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے مختلف خاندان اور قبائل بنائے تا کہ تم آپس میں پہچان کر سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔''
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(أیها الناس کلکم لآدم وآدم من تراب،ألا لا فضل لعربي علی أعجمي ولا لعجمي علی عربي ولا لأحمر علی أسود إلا بالتقوٰی)2
'' اے لوگو! تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے۔سنو! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ، نہ ہی عجمی کو عربی پر اور نہ ہی سرخ کو سیاہ پر، ما سواے تقویٰ کے۔''
یہ عالمگیر نظر ہی وہ اُسلوب ِفکرہے جسے ہمیں عملی جامہ پہنانا ہے، یہ نہ تو خیالی باتیں ہیں اور نہ ہی مثالیت پسندی بلکہ یہ وہ سچے حقائق ہیں جن سے ہمیں آراستہ ہونا چاہیے ا ور جنہیں ملحوظِ خاطر رکھتے ان کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنا چاہیے۔
یہی وہ چیلنج ہیں جن کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے محکم اُمور میں کسی قسم کی افراط وتفریط کا شکار نہ ہوں اور جدیدیت ہمارے سر چشمہ کو کسی طور متاثر نہ کرے جس کا واحد اور کامل طریقہ ایک ہی ہے کہ جدیدیت ان شریعت کی اساسات اور عقیدہ کے محکم اُصولوں کی خادم بن جائے جو ہمارے لیے باعث ِشرف وافتخار ہیں ۔ہمیں کسی ایسے نشانِ امتیاز اور علامت کی کوئی حاجت نہیں جنہیں بہت سے ذرائع ابلاغ، مختلف تحریکیں اور متنوع رجحانات کے حامل لوگ وغیرہ گنگناتے رہتے ہیں ۔ ہمارا امتیازی نشان صرف ایک ہے اور وہ ہے: 'اسلام' یعنی کتاب وسنت۔ ہمیں تمام علوم ومعارف اور جدید وسائل کو اسی اصل عظیم کی خدمت میں لگانا ہو گا جو جدید وسائل بحمد للہ ہمیں دستیاب ہیں ۔ہمیں ان سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا اور اس عظیم الشان دین کی خدمت، عالمگیر رسالت کی تبلیغ واشاعت اور دنیا کو اسلامی تہذیب وتمدن پیش کرنے کے لئے استعمال کرنا ہو گا۔ پھر ہم اُنہیں کہیں گے کہ یہ ہے ہمارا (حقیقی) دین 'اسلام' جسے دہشت گردی کے الزام، غلو،شخصیت پرستی اورشکست خوردگی سے آلودہ کر دیا گیاتھا۔ہم پر لازم ہے کہ ان بہترین، اور اعتدال پر مبنی خطوط کو یقینی بنائیں جن کی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ نے رہنمائی کی ہو اور جس کی اس اُمت کے سلف صالحین کے منہج سے تائید ملتی ہو۔
جہاں تک اس دین کے کینہ پرور حاسد لوگوں کی جانب سے اس جامعہ یا دیگر جامعات ومدارس پرعلمی، رفاہی اور دعوتی حملوں کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں __ اور تمام تعریفیں اللہ کو ہی لائق ہیں __کہ یہ در اصل ہماری کارکردگی کا اعتراف اوراس جامعہ و دیگر جامعات کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اثر انگیزی کے قطعی دلائل وبراہین ہیں ۔
کبھی زمین تو سر سبز وشاداب ہوتی ہے لیکن اس میں نقصان کے ماسوا کچھ ہاتھ نہیں آتا جو نہ تو اس اُمت کے لیے تاثیر بخش ہوتا ہے اور نہ فائدہ مند۔ایسا عمل نظروں سے دور اور ناکام و نامراد ہوجاتا ہے جبکہ جس مشن کے ذریعے بھلائی کا فروغ،تعلیم وتعلّم اور دعوت واصلاح کے میدان میں زندہ وپائندہ نقوش ثبت ہوجاتے ہیں تو راہ میں آنے والے مصائب یا رکاوٹیں اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ بزبانِ شاعر
وإذا أتَتْک مذَمَّتِي من حَاقِد فَهي الشهادة لِيْ بِأني کَامل
'' جب تمہیں کسی کینہ پرور کی طرف سے میری مذمت سنائی دے تو یہ اس بات کی شہادت ہے کہ میں خوبی وکمال سے آراستہ ہوں ۔''
لہٰذا اس جامعہ اور اس کے ذمہ داران پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ یہ اُن اُصولوں اور ضابطوں کو مد نظر رکھیں جن کی خاطر اس عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان مقاصد کو پورا کریں جو اس کی بنیاد رکھتے ہوئے سامنے رکھے گئے تھے۔ اس میں نہ تو کوئی تبدیلی نہ کی جائیبلکہ ان راستوں سے ا نحراف کو نا ممکن بنا دیا جائے جو اس کی بنیاد کے وقت پیش نظر تھے اور اس کی کشتی کا رخ اس سمت کی طرف ہرگز نہ موڑا جائے جواس کے اہداف یعنی بین الاقوامی سطح پر اسلام کی خدمت اور شرعِ حنیف کے سائبان کے نیچے علوم ومعارف کی نشر واشاعت سے متعلق نہ ہوں ۔
علاوہ ازیں ایسے وقیع علوم وفنون کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے جن کی فی زمانہ بہت زیادہ ضرورت ہے۔انسان اپنے زمانے کا فرزند ہے، وہ اپنے ماحول سے لا تعلق نہیں رہ سکتا کہ وہ خود کھڑا رہے یا پیچھے رہ جائے اور زمانہ پیش قدمی کرتا رہے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس ترقی اور تمدن کے ساتھ ساتھ رہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اسے اپنے دین اور عقیدے کی خدمت میں لگا دیں اور ان اقدامات سے مکمل اجتناب کریں جو ہماری عظمت کے میناروں کو اُکھاڑ دیں ،اُنہیں جھکا دیں یا اُنہیں ملیا میٹ کر دیں ۔لہٰذا ہمیں چاہیے اس بہترین اور معتدل منہج پر متحد ہو جائیں جو اس برحق منہج کے مخالف نظریات کے درمیان سر بلند نظر آرہا ہے۔
برادرانِ اسلام! سعودی عرب میں آپ کے بھائی، حکومتی اور عوامی سطح پر اس جامعہ سے گہری محبت رکھتے ہیں اور ان تمام سر گرمیوں ،دائرہ ہائے عمل، خیر کے میدانوں اور ان کوششوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہیں یہ جامعہ نہ صرف اہل پاکستان بلکہ تمام اسلامی دنیا کے لیے پیش کرتا ہے۔ وہ بات جو رئیس الجامعہ نے اپنے خطاب میں کہی ہے، مجھے بہت محبوب ہے کہ اس جامعہ نے اپنے دروازے تمام مسلمان بھائیوں کے لیے کھول رکھے ہیں حتیٰ کہ چین اور دیگر ممالک کے طلبہ کے لیے بھی۔ تمام تعریفیں اور احسانات اللہ ربّ العٰلمین کے لیے ہیں ۔
یہ جامعہ اسلامیہ اپنے اندر مختلف قومیتوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو سموے ہوئے ہے تا کہ وہ علوم ومعارف کے میٹھے سر چشمے سے سیراب ہو جائیں ۔پھر وہ داعی الیٰ اللہ بن کر اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوافِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴿١٢٢﴾...سورة التوبہ
''ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ سے ایک جماعت نکلتی جو دین میں فقاہت حاصل کرتے اور پھر جب وہ واپس اپنی قوم کے پاس جاتے تو اُنہیں (عذابِ الٰہی) سے ڈراتے تا کہ وہ بچ جاتے۔''
مملکت ِسعودی عرب کے لیے یہ بات باعث ِصد افتخار ہے کہ وہ نیک کاموں میں اشتراک اور تعاون کرنے والوں کے شامل حال رہتی ہے۔اس نے ماضی میں بھی اس جامعہ کے ساتھ تعاون کیا ہے اور آئندہ بھی جامعہ کو یہ تعاون حاصل رہے گا جس پر اللہ ہی کی تعریف اور اس کا احسان ہے۔جہاں تک ذاتی طور پر میرا تعلق ہے تو اگر شخصی طور پر بھی مجھے اس جامعہ کے لئے بات کرنا پڑی تو میں اس جامعہ کا خادم ہوں گا اور کسی بھی قسم کے تعاون یا اس جامعہ کے لئے کسی بھی نوعیت کے رابطے کے لیے مستعد ہوں ۔ اوراس امرکے لیے بھی آمادہ ہوں کہ اس جامعہ کی ضروریات مملکت ِسعودی عرب میں ذمہ داران، علماے عظام اور سعودی عرب کی یونیورسٹیوں تک پہنچاؤں اور میرے لیے قیادت پر فائز شخصیات اور علما کے پاس اس جامعہ کا سفیر بن کر جانا باعث ِسعادت ہو گا۔ اس سے میرا مقصود خیر کے کام میں تعاون کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہم سب کو بھی چاہیے کہ ہم بقدرِ استطاعت اس دین حقہ کی اشاعت اور علوم ومعارف کی خدمت کے لیے اپنی کوششیں صرف کر دیں اور دنیاکے ہر میدان میں خیر کے امکانات کو تلاش کریں اور تعلیم کے میدان میں دَر آنے والی طلباکی مشکلات کو دور کریں ۔
آپ سب اَحباب کا بہت شکریہ! اس قدر طویل گفتگو پر معذرت چاہتا ہوں اور ربّ ذوالجلال کے حضور شکر گزار ہوں ۔ یہ بہت بڑا ہی عظیم موقعہ تھا کہ مجھے اپنے بھائیوں ،دوستوں سے اس جامعہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور میں پہلے اور اب بھی اس جامعہ کا دلی ہمدرد اور خیرخواہ ہوں اور دنیا بھر کے مسلمان طلبا کے لیے اس جامعہ کے نفع بخش ،عالمگیر اثرات اور اس کے مختلف تعلیمی پروگرام میرے لیے بہت ہی مسرت کا باعث ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اس جامعہ کو قائم رکھے اور ان چہروں کو ترو تازہ بنائے ۔ان محنتوں میں برکت عطا فرمائے اور ہماری خطائیں مٹا دے۔ ہم سب کے لیے یہ باعث ِشرف ہے کہ ہم ایسی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہیں جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔
آخر میں جناب رئیس الجامعہ، تمام رفقاے کار اور معزز بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس وقت مجھے اپنے ساتھ گفتگو کرنے کاموقع فراہم کیا۔اس جامعہ کے پروگرام میں معمولی کوتاہی ہوئی یا کل جو کم وبیش وعدہ خلافی ہوئی، اس پر میں معذرت خواہ ہوں ۔کل میں اسلام آباد میں ہی موجود تھا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کثرتِ پروگرام کی وجہ سے مجھے کس جانب رخ کرنا پڑے۔ وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی، اور ان کی محبتوں کا جہاز مجھے ایسی جگہ لے پہنچتا ہے جہاں پہنچنا میرے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ بقولِ شاعر
تَجْري الریاح بما لا یَشْتَهي السُّفُنُ أو بما لا یَشْتَهيْ السَّفِنُ
''ہوائیں جہازوں یا جہاز رانوں کو ایسی جگہ لے جاتی ہیں جہاں وہ جانا نہیں چاہتے۔ ''
ہوٹل میں قیام کے دوران ہی مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ دوسرا پروگرام آ جاتا ہے۔ وگرنہ میں تو اس ملاقات کا خود بھی بڑا مشتاق تھا۔اسی لیے مجھے خیال آیا کہ میں آپ کے سامنے معذرت پیش کروں اورمیں آپ اور وہ جو آپ کے سامنے سٹیج پر موجود ہیں ، ان کے ساتھ محبت اور اس جامعہ کے خادم ہونے کے اعتبار سے تجدید ِملاقات کروں اور اسی طرح ہر اس شخص سے بھی جسے اسلام اور مسلمان اہمیت دیتے ہیں ۔آئندہ بھی یہ ملاقاتیں ہوتی رہیں گی اور یہ کوئی احسان نہیں بلکہ اس دین کی طرف سے ہمارا فرض، ذمہ داری اور میرے منصب کا دینی تقاضا ہے۔ آپ سب کا بہت شکریہ! والسلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ
حوالہ جات
1. علامہ اقبا ل کے جن اشعار کا آزاد عربی ترجمہ پیش کیا گیا ہے، ان کے اصل الفاظ یہ ہیں :
تھے ہم ہی اِک ترے معرکہ آرائوں میں خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھائوں میں تلواروں کی
(کلیاتِ اقبال: صفحہ نمبر191)
2. احمد: 22391