المُصحف الشریف؛ ایک تاریخی جائزہ (قسط سوم)

خلفاے راشدین کے عہد کے بعد مصاحف کی تدوین
گذشتہ صفحات میں ہم تفصیل سے واضح کرچکے ہیں کہ دور ِعثمانی میں مصاحف کی جو نقلیں تیار کرکے مختلف بلادِ اسلامیہ کو بھیجی گئیں تھیں، وہ ایسے رسم الخط پر مشتمل تھیں جو ساتوں حروف کا متحمل سکے ۔ اسی مقصد کے پیش نظر ان مصاحف کو نقطوں اورحرکات سے خالی رکھا گیا تاکہ ان حروف کی تمام متواتر قراء ات __ جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی __ ان میں سما جائیں۔(i) اور جب یہ مصاحف مملکت ِاسلامیہ کے اطراف میں پہنچے تو مسلمانوں نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور پوری اُمت ِمسلمہ نے اُن کو اپنا لیا۔ پھر اُنہوں نے ان مصاحف کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی طرز پر مزید کافی مصاحف تیار کئے۔ ان کو بھی وہی تقدس اور احترام حاصل تھا جو مصاحف ِعثمانیہ کو حاصل تھا اور یہ بھی مصاحف ِعثمانیہ کی طرح نقطوں اور حرکات سے خالی تھے۔

یہ مصاحف ایک زمانہ تک بلادِ اسلامیہ میں رائج رہے، لیکن جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوگیا، بے شمار عجمی ممالک اسلام کے زیر سایہ آگئے اور عربی اور عجمی زبانوں کا باہم اختلاط بڑھا توعربی زبان میں لحن عام ہوگیا۔ اوریہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں فصیح عربی زبان عجمی اثرات سے ناپید نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ عجمی لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کو بغیر نقطوں اور حرکات کے پڑھنا کافی دشوار تھا ۔چنانچہ اسلامی حکومت کے سامنے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ صورت حال کتاب اللہ میں لحن اور لفظی تحریف پر منتج نہ ہو۔ لہٰذا اُنہوں نے اس صورت حال کے ممکنہ نتائج و اثرات سے نمٹنے کے لئے ایسے وسائل فراہم کئے جو کتاب اللہ کو تصحیف وتحریف اور لحن سے محفوظ رکھنے میں کارآمد ثابت ہو سکیں۔ نیز عجمی مسلمانوں کے لئے قرآن کی تلاوت میں بھی آسانی پیدا ہو جائے۔ ذیل میں ہم ان وسائل کی تفصیل بیان کریں گے:

نقطے
اس کے دو مفہوم ہیں :

  1. اس سے مرادوہ علامات ہیں جو کسی حرف پر حرکت و سکون اور شدومد وغیرہ کی شکل میں لگائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقط الإعراب کا نام دیا ہے۔
  2. اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو ایک جیسے رسم والے حروف،مثلاً ب، ت، ث وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں، تاکہ معجم اور مہمل حروف کے درمیان امتیاز ہوسکے۔ چنانچہ ب کے ایک نقطے نے اسے اس کے ہم رسم حروف ت اور ثسے ممیز کردیاہے اور ج کے نقطے نے اسے اس سے ہم رسم حروف حاور خ سے ممیز کردیا ہے۔ اسی طرح د اور ذ اور ر، ز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقاط الأعجام کا نام دیا ہے۔

 

شکل (حرکات)
اس سے مراد وہ علامات ہیں جو حرکت، سکون اور شدومد وغیرہ کی صورت میں حروف پر لگائی جاتی ہیں۔ لفظ ِ ضبط بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے نقطوںکا پہلا مفہوم 'شکل ' (حرکات ) اور 'ضبط 'کے ہم معنی ہے۔
علما کا اس بارے میں اختلا ف ہے کہ نقطوں اور حرکات کا یہ نظام کس نے ایجا دکیا تھا؟ کیا نقطوں اور حرکات کا موجد ایک ہی تھا یادو الگ الگ اَفراد نے اُنہیں ایجاد کیا تھا۔ اور ان میںسے پہلے نقطے ایجاد ہوئے تھے یا حرکات؟

اس سلسلے میں محققین علما کا رجحان اس طرف ہے کہ نقط الإعراب یعنی حرکات کا موجد ابواسود دؤلی ہے۔بیان کیا جاتاہے کہ امیرالمومنین معاویہ بن ابوسفیان ؓنے زیاد بن ابیہ جو معاویہ ؓکی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا، کو خط لکھا کہ اپنے بیٹے عبیداللہ کو میرے پاس بھیج دو۔ جب عبیداللہ وہاں پہنچا اورگفتگو ہوئی تو حضرت معاویہ ؓنے دیکھا کہ وہ غلط عربی بول رہا ہے۔ حضرت معاویہ ؓنے زیاد کو خط لکھا، جس میں اسے اس کے بیٹے کے غلط عربی بولنے پر ملامت کی گئی تھی۔ زیاد نے ابو اسود دؤلی کو بلایا اور کہا: یہ عجمی لوگ عربی زبان کو بگاڑ رہے ہیں۔ کاش آپ کوئی ایسا نظام وضع کردیں کہ یہ لوگ اپنی زبان کی اصلاح کرلیں اور کتاب اللہ کو صحیح عربی لہجہ میں پڑھ سکیں۔ لیکن ابواَسود نے کسی مجبوری کی وجہ سے اس سے معذرت کرلی۔

اب زیاد نے یہ ترکیب اختیار کی کہ ایک آدمی کو ابو اَسود کے راستے میں بٹھا دیا اور اسے یہ ہدایت کی کہ جب ابو اَسود وہاں سے گزرے تو تم جان بوجھ کر قرآن مجید کو لحن کے ساتھ غلط پڑھنا۔ جب ابو اَسود وہاں سے گزرا تو اس شخص نے فرمان الٰہی: {أَنَّ ٱللَّهَ بَرِ‌ىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُۥ ۚ...﴿٣﴾...سورۃ التوبہ} میں لفظ 'رسول ' کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا۔ یہ سن کر ابواسود کو معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور اُس نے کہا: عَزَّ وجَل اﷲ أن یتبرأ من رسوله
''اللہ تعالیٰ کی شان اس سے سر بلند ہے کہ وہ اپنے رسول سے الگ ہو جائے ۔''

ابو اسود دؤلی وہاں سے واپس زیاد کے پاس آئے اور اس سے کہا:
''میں اس کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ،جس کا آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا اور میرا خیال ہے کہ میں اعراب القرآن سے اس کام کا آغاز کروں۔''

اس کے بعد اُنہوں نے قبیلہ عبدالقیس کے ایک شخص کا انتخاب کیا اور اسے کہا کہ مصحف پکڑو اور کوئی ایسی روشنائی لو جو مصحف کی روشنائی کے بر عکس ہو اور اسے سمجھایا کہ حرفوں کی آواز کو اس طرح نقطوں میں ظاہر کرو کہ جس حرف پر دونوں ہونٹ کھلیں، وہاں اس حرف کے اوپر ایک نقطہ اور جس حرف پر ہونٹ بند ہوں وہاں اس حرف کے سامنے ایک نقطہـ ۔۔ ۔ اور جس حرف پر ہونٹ ٹوٹیں وہاں حرف کے نیچے ایک نقطہ ۔۔۔۔ ڈال دو۔ اور جس حرف پر ان حرکات میں سے دو جمع ہوجائیں (تنوین) وہاں دو نقطے ڈال دو۔ وہ خود ساتھ ساتھ اس کام پر نظرثانی کرتے رہے، یہاں تک کہ قرآن کریم پر نقطوں کی شکل میں حرکات کا یہ کام مکمل ہوگیا۔1

اس سے واضح ہوتا ہے کہ نقطوں کی صورت میں حرکات اور ضبط کا موجد ِاوّل ابواسود دؤلی ؒ ہے۔ اُنہیں سے علما نے یہ فن حاصل کیا اور اس میں مزید نقش ونگاری اور تبدیلی کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچا دیا۔

اور جہاں تک نقط الأعجام کا تعلق ہے تو اس کے موجد کے بارے میں علما کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے راجح یہ ہے کہ نقط الأعجام کے بانی نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر ہیں۔

اس کا باعث یہ ہوا کہ جب عجمیوں کی ایک کثیر تعداد دائرئہ اسلام میں داخل ہوئی تو اس کی وجہ سے عربی زبان کے تکلم میں غلطیوں کا رجحان کافی بڑھ گیا، جس سے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ قرآنِ کریم بھی اس رجحان کی زد سے محفوظ نہیں رہے گا۔ چنانچہ عبدالملک بن مروان نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ قرآن کے دامن میں گھسنے والے تحریف کے ان ممکنہ اسباب کو ختم کرنے کے لئے کچھ کرو۔ حجاج بن یوسف نے نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر جن کا شمار عربی زبان کے اَسرار و رموز، فنِ قراء ت اور توجیہاتِ قراء ت کے معروف علما میں ہوتا تھا، کویہ ذمہ داری سونپی۔یہ اُمت کی مصلحت اور کتاب اللہ کی حفاظت کا معاملہ تھا، لہٰذا ان کے لئے اس ذمہ داری کو قبول کئے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ اُنہوں نقطے (نقط الأعجام) ایجاد کئے تاکہ رسم میں باہم مشابہ حروف کے درمیان امتیازکیا جاسکے اور لحن و تصحیف سے قرآنِ کریم کی حفاظت کا سامان ہوسکے۔ اور یہ نقطے (نقط الأعجام) اسی روشنائی سے لگائے گئے تھے جس سے مصحف کا اصل متن لکھا گیا تھا تاکہ ابواسود کی حرکات نقط الأعراب سے امتیاز ہوسکے۔

اس واقعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نقط الأعجام سے پہلے بھی ایسے اقدامات کیے گئے تھے، کیونکہ زیاد کا دور حجاج بن یوسف کے دور سے پہلے ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حرکات اور نقطوں کا موجد ایک شخص نہیں بلکہ دو الگ الگ شخص تھے۔ پہلے کا موجد ابواسود اور دوسرے کا موجد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر تھے۔

عباسی دورِ حکومت
اس دور میں علم نحو کے عظیم ماہرخلیل بن احمد فراہیدی نے ابواسود ؒکے نقط الشکل کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی علامات ِضبط ایجاد کیں اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو آج تک رائج چلی آرہی ہیں۔ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا ،یعنی اس نے ضمہ (پیش) کے لئے حرف کے اوپر چھوٹی سی واؤ ، فتحہ (زبر) کے لئے حرف کے اوپر ترچھی لکیراور کسرہ (زیر)کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر اورشد(ii) یا تشدید کے لئے حرف کے اوپر س کا سرا اور جزم کے لئے ج کا سرا اور مد ّکے لئے حرف کے اوپر آ کی علامت کو اختیار کیا۔اسی طرح اس نے اصطلاحاتِ وقف 'رَوم' و 'اشمام' کی دیگر علامات وضع کیں۔ پھر خوبصورتی اور اختصار کی خاطر ان علامات میں مزید اصلاحات و ترمیمات کی گئیں۔ اور ارتقا کے ان مختلف مراحل کے بعد علاماتِ ضبط کا یہ طریقہ رائج ہوا جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔
پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مصحف پر نقط الإعراب (نقطو ںکی شکل میں حرکات) لگانے کا موجد ِاوّل ابواسود دؤلی ہے۔ ان کے بعد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے نقط الأعجام یعنی نقطے ایجاد کئے۔ اسکے بعد حرکات وجود میں آئیں جنہیں خلیل بن احمد فراہیدی نے وضع کیا۔
لیکن ایک دوسری روایت اس کے برعکس ہے جسے امام دانی ؒ نے یحییٰ بن کثیر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ قرآنی مصاحف نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے پھر سب سے پہلے علما نے حروف تہجی: ب، ت اور ث کے لئے نقطے ایجاد کئے اور کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نقطے ان حروف کے لئے نور ہیں جن کی روشنی میں قرآن کریم میں لحن سے بچا جاسکتا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نقط الإعراب سے پہلے نقط الاعجام وجود پذیر ہوچکے تھے۔(iii)
اب نقطے اور حرکات لگانے کا حکم کیا ہے ؟اس پر ہم آئندہ صفحات میں' مصحف کی کتابت کرنے والے اور ناشر کے لئے شرائط' کے زیر عنوان بحث کریں گے۔

مصحف کی اَجزا ( پاروں) میں تقسیم
مصاحف ِعثمانیہ جس طرح نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے، اسی طرح ان میں اَجزا اور پاروں کی تقسیم بھی نہیں تھی۔ پھر بعض لوگوں نے آسانی کے خیال سے مصحف ِعثمانیہ کو ۳۰ حصوں میں تقسیم کردیا اور ہر حصے کو جز (پارے) کا نام دیا۔ پھر جز کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ان کو مزیدچار حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ کو رُبع کا نام دیا گیا۔ قرآنِ کریم کی یہی تقسیم شروع سے مشہور چلی آرہی ہے ۔

آیات: دور ِاوّل کے بعض کاتبینِ مصاحف آیات کے مابین فاصلوں میں سے ہر فاصلہ کے بعد تین نقطے ڈالتے تھے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہاں یہ آیت ختم ہوچکی ہے۔ نیز وہ سورہ کی ہر پانچ آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں) لفظ خمس اور ہر دس آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں) لفظ عشر لکھتے تھے۔ چنانچہ قتادہ ؒفرماتے ہیں:
بدأوا فنقطوا ثم خمسوا ثم عشروا
''پہلے پہل اُنہوں نے نقطے لگائے۔ پھر خمس کا نشان اور پھر عشر کا نشان لگایا۔''

اسی طرح بعض کاتبین خمس کی بجائے خ اور عشر کی بجائے ع کا سرا استعمال کرتے تھے۔ اوران میں سے بعض سورت کا نام بھی لکھتے تھے اور ساتھ یہ بھی لکھتے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی۔ نیزسورہ کے آخر میں آیات کی تعداد بھی تحریر کرتے تھے۔ بعد میں تلاوت اور تجوید کی آسانی کے لئے کچھ مزید رموزو اوقاف بھی وضع کئے گئے جن کی تفصیل مطبوعہ قرآنی نسخوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

ان تمام اُمورکے متعلق علما کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کراہت کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے، لیکن دیگر کے نزدیک اس میں کراہت کا کوئی پہلو نہیں ہے اور یہی موقف زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس طرح کے رموزو اوقاف قارئ قرآن کے لئے سہولت اور قراء ت میں مزید اشتیاق کا باعث بنتے ہیں۔ واللہ اعلم


حوالہ جات
1. تاریخ القرآن الکریم از محمد طاہر الکردی:1/180

 


 

i. ویسے بھی عربوں کے ہاں حروف پر نقطے اور حرکات لگانے کا رواج بھی نہیں تھا ۔عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ اسے بغیر نقطوں اور حرکات کے پڑھنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی دقت محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ نقطے اور حرکات ڈالنے کو معیوب خیال کرتے تھے۔ (مترجم)
ii. ایک قول یہ بھی ہے کہ شد اور اس کے بعد کی علامات اگرچہ عباسی دور حکومت میں ہی وضع ہوئیں،لیکن اُنہیں خلیل بن احمد فراہیدی کے بعد کسی اور نے وضع کیا تھا ۔
iii. البتہ امام جعبر نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ نقط بالعراب اور نقط بالأعجام دونوں کو ابو اسود دؤلی نے ایجاد کیا تھا۔اُنہوں نے پہلے نقط العراب ایجاد کئے اور اس کے بعد نقط الأعجام کی طرح ڈالی پھر دیگر علما نے ان سے یہ علم حاصل کیا۔لہٰذا اس فن میں برتری اور اوّلیت ابو اسود کو ہی حاصل ہے۔ہماری رائے میں امام جعبر کے اس بیان سے وہ ابہام کسی حد تک رفع ہو جاتا ہے جو امام دانی کی روایت سے پیدا ہوا تھا۔ ان روایات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے بات یہ سامنے آتی ہے کہ ابو اسود دؤلی نے نقط العراب کے ساتھ نقط الأعجام کی طرح تو ڈال دی تھی ، لیکن اسے باقاعد ہ متعارف بعد میں نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے کروایا۔ (مترجم)