رسول رحمتﷺ کی ایک اہانت اور ہماری ذمہ داری

اسلام انسانیت کے لئے ربّ ذوالجلال کا پسند فرمودہ آخری دین ہے۔ اپنی تعلیمات وتفصیلات کے اعتبار سے اسلام ہی ایک کامل واکمل اور متوازن و معتدل دین کہلانے کا حق دار ہے جس میں رہتی دنیا تک فلاحِ انسانیت کی ضمانت موجود ہے۔ دنیا میں آج بھی اگرکسی دین پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے تو وہ صرف دینِ اسلام ہے، یہ خصوصیت بلاشرکت ِغیرے صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل دیگر مذاہب کا دعویٰ کرنے والے گو اپنی تعداد کے اعتبار سے کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن عملاً ان کی حیثیت ایسے 'مذاہب ِمُنتسبہ' سے زیادہ نہیں جسے محض عقیدتاً اپنی فطرت کی تسکین کے لئے بطورِ مذہب ذکر کردیا جاتا ہے۔

اس دین کا دار ومدار اور مرکز و محور سید الانس والجن حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ کی ذاتِ ستودئہ صفات انسانیت کے لئے لازوال تحفہ اور عدیم المثال منارئہ رُشد وہدایت ہے۔ اسلام میں سب سے متبرک حیثیت تصورِ نبوت کو حاصل ہے جس کے گرد تمام عقائد ونظریات گھومتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپؐ کی ذات پر ایمان وایقان کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے تمام عقائد و نظریات حتیٰ کے اللہ تعالیٰ کی مشیت و منشا تک رسائی حاصل کرتے ہیںـ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس ایمان میں اگر کوئی کمی اور شک و شبہ لاحق ہوجائے تو نہ صرف قرآنِ کریم پر ایمان متزلزل ہوجائے بلکہ اسلام کے تمام نظریات میں گہری دراڑیں پڑ جائیں۔ اس اعتبار سے دین میں سب سے مرکزی حیثیت منصب ِرسالت کو حاصل ہے اور منصب ِرسالت کی یہی مرکزیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ کی ذاتِ گرامیؐ ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں کا مرکز و محور قرار پائے اور ایمان کواس سے مشروط کردیا جائے۔

دورِجدید میں ریاست کاادارہ غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے، اورعصری مفکرین ہر قسم کے حقوق پر ریاست کے حقوق کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ریاست کا یہ جدید تصور ایک قوم ونسل اور ارضِ وطنکی خدمت سے عبارت ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کا تصورِ ریاست زمین اور نسل سے بالا تر ہوکر عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے،جس میں سب سے محترم استحقاق اس ذاتِ مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جس پر اس دین کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس لحاظ سے جدید مفکرین کا ریاست کے حقوق کو بالا تر قرار دینے کے نظریہ کے بالمقابل اسلام میں اس شخصیت کا حق سب سے بالاتر قرار پاتا ہے جو مسلم قوم کی یکجہتی اور اجتماعیت کے علاوہ انکے عقیدہ ونظریہ کا مرکز و محور ہو۔مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر ارضِ وطن کے حقوق سے برتر عائد ہونے والا حق اس ذاتِ مصطفویت کا ہے جنہیں قرآن نے 'رحمتہ للعالمین' کے لقب سے ملقب کیا ہے۔

آج کا دور حقوق کے نعروں اور آزادی کے غلغلوں کا دورہے۔ اس دور کا آزاد منش انسان اپنے حقوق کے حصول کے لئے سرگرم ہے، انسانی حقوق کا چارٹر اقوامِ متحدہ نے اس کے ہاتھ میں دے کر انسانیت کو گویا ایک متوازی مذہب تھما دیا ہے لیکن یہ نادان انسان اپنے حقوق کے غلغلے میں اس شرفِ انسانیت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پامال کرنے پر تلا بیٹھا ہے جو انسانیت کی معراج اور اعزاز وتکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔ اپنے چند خود ساختہ حقوق کی رو میں انسان کو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے 'اُمّ الحقوق' کا بھی کوئی پاس نہیں رہا جو ذات انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر رشد وہدایت پر فائز کرنے کے لئے مبعوث کی گئی ۔

اس دور میں بسنے والے انسان اس لحاظ سے انتہائی قابل رحم ہیں کہ ان کی زندگیوں میں محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو وسیع پیمانے پر سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ ظلم وستم دنیا کے ایسے ممالک میں وقوع پذیر ہوا جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے چمپئن قرار دیتے ہیں۔ سکنڈے نیویا کے ان ممالک کو شخصی آزادیوں اور فلاحی معاشروں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ذاتِ نبویؐ کی اہانت کی کوششوں نے جہاں ان ممالک میں بسنے والوں کی تہذیب وشائستگی کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے، وہاں اس مغربی تہذیب وفلسفہ کے دعووں کا تارو پود بھی بکھیر دیا ہے جو روا داری، انسانیت دوستی، باہمی احترام و آشتی، مذہبی مفاہمت،وسیع النظری، وسعت ِقلبیاور توازن واعتدال کے خوبصورت نعروں سے بھری پڑی ہے۔ تہذیب ِمغرب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ایسے دیدہ زیب نعروں پر قائم ہیں جو مفہوم ومعانی سے محروم ہیں۔

سکنڈے نیوین ممالک کی یہ شرمناک جسارتیں اور اس پر مستزاد اہل مغرب کی حمایت وتائید اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ دورِ حاضر کی سا لمیت اور امن وامان کو خطرہ ان مزعومہ اسلامی انتہاپسندوں سے نہیں جنہیں مغرب جارح اورجابر قرار دینے کی ہردم رَٹ لگائے رکھتا ہے، بلکہ دنیا میں بسنے والوں کو المناک اذیت اور نظریاتی جارحیت سے دوچار کرنے والے لوگ وہی ہیں جو اپنے تئیں بڑے روشن خیال اور اعتدال پسند قرار دیے جاتے ہیں۔

اسلام کو عدم روا داری کا طعنہ دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی قریب میں مذہبی جارحیت کی مسلسل وارداتیں مسلمانوں کی بجائے مغرب کے ہی حصے میں آئی ہیں، جب قرآنِ عظیم کے بالمقابل 'فرقان الحق' کے نام سے ایک اور فرضی قرآن شائع کرنے، قرآنِ مجید کو غسل خانوں میں بہا دینے، مسجد ِاقصیٰ ودیگر تاریخی مساجد کو مسمار کرنے، داڑھی اور حجاب جیسے اسلامی شعارات کو ہدفِ تنقید بنانے اور اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مستمرہ ایسے سیاہ کارنامے مغرب کے نامۂ اعمال کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے بالمقابل غیرمسلموں کے کسی مذہبی شعار، شخصیت یا مقدس ومتبرک کتاب کو نشانۂ جارحیت بنانے کی کوئی ایک کاروائی بھی مسلمانوں کی طرف سے سامنے نہیں آئی کیونکہ دیگر اقوام کے مقدس شعائر کی توہین کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک قوم کے نظریات کی برملا فتح اوراس کی مذہبی شائستگیکا واضح اظہار ہے جس کے بعد مغرب کو مسلمانوں کو رواداری اور اعتدال پسندی کی مسلسل تلقین سے باز آکر اپنی اَقوام کی تربیت پر متوجہ ہوجانا چاہئے کیونکہ مغرب کے عالمی برادری اور پر امن بقائے باہمی کے تصورات کو خطرہ مسلمانوں کی بجائے اپنے فرزندانِ مغرب سے ہی ہے۔

رسولوں کی توہین ایسا مکروہ عمل تاریخ انسانی میں پہلے بھی وقوع پذیر ہوتا رہا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے جس کا شکوہ قرآنِ کریم میں بڑے دل گیر انداز میں موجود ہے۔ سورئہ یاسین میں ارشادِ باری ہے:
يَـٰحَسْرَ‌ةً عَلَى ٱلْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّ‌سُولٍ إِلَّا كَانُوابِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٣٠...سورۃ یس
''ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔''

پھر اللہ نے اسے قوموں پر عذابِ الیم کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے:
وَلَقَدِ ٱسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُ‌وا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴿٣٢...سورۃ الرعد
''رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میری پکڑ نے ان کو آلیا ... پھر کیسا رہا میرا عذاب!!''

ایسے ہی قرآنِ کریم نے تمسخر اُڑانے والے ایک شخص اخنس بن شریق کو سورئہ قلم میں عُتُلٍّ اور زَنِیْمٌ (سخت جفا کار اور نطفہ حرام) قرار دیتے ہوئے روزِ قیامت اس کی سونڈ سے گرفت کرنے کی وعید دی ہے۔ 1

البتہ زمانۂ حال میں سامنے آنے والی جسارت جہاں اپنی وسعت اور اصرار وڈھٹائی کے لحاظ سے انوکھی ہے، وہاں اس کے مرتکب اس کو جمہوری ثقافت اور اپنا انسانی حق قرار دینے پربھی تلے ہوئے ہیں۔ یادرہے کہ اس معاملے کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جارہا ہے جس کی پشت پر اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کو پیش کرنے کی روایت پختہ کی جا رہی ہے۔

فی زمانہ توہینِ رسالت کے اس مکروہ عمل کی وجوہات اس تہذیبی و نظریاتی تصادم میں پیوست ہیں جس کی پیش بندی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت، سرد جنگ کے بعد سے 'سبز خطرہ' کے زیر عنوان، عالمی استعمار مسلسل چند دہائیوں سے کررہا ہے۔ توہین رسالت کے حالیہ واقعات نائن الیون کے اس امریکی وحشت وجنون کا ایک نمایاں اظہار اور منطقی نتیجہ ہیں جس کو مخصوص ملکی متعصبانہ مقاصد کے لئے امریکی میڈیا نے حادثۂ نیویارک کے بعد کے سالوں میں اختیار کیا تھا۔ ستمبر 2005ء میں پہلی بار شائع ہونے والے یہ خاکے ڈینیل پائپس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند دماغ کی پلاننگ کے نتیجے میں منظر عام پر آئے تھے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ مذموم مقاصد واہداف کے پیش نظر کارٹونوں کے مقابلے منعقد کروا کر ڈنمارک کے اخبارات کو اس بنا پر ان کی اشاعت کے لئے منتخب کیا گیاکہ وہاں تہذیب ِجدید کے چند کھوکھلے نعرے زیادہ شدت اور شوروغلغلہ کے ساتھ زیر عمل ہیں۔ پھر ان ممالک میں مروّج اباحیت، مادر پدر آزادی اور یہودیوں کی بڑی جمعیت اس پر مستزاد تھے۔

یوں تو شائع ہونے والے یہ خاکے محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کئی مقدس اسلامی تعلیمات تک پھیلے ہوئے تھے، جن میں بالخصوص یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کے تصورات کو ہدفِ طنز وتمسخر بنایا گیا ہے۔ لیکن اس میں سب سے شدید ردعمل اس خاکے پر سامنے آیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو نعوذ باللہ کراہت آمیز مشابہت دے کر، عمامۂ مبارک علیٰ صاحبہا الصلوٰة والتسلیم میں ایک بم کو چھپا ہوا دکھایا گیا تھا جس کا سرا ایک طرف سے اُبھرا نظر آتا ہے۔ یہ خاکہ گویا اس امر کا ایک رمزی اظہار ہے کہ اسلام دینِ امن نہیں بلکہ عصبیت وجارحیت کا علم بردار مذہب ہے۔ اس علامتی اظہار کے ساتھ الفاظ میں بھی اس مکروہ الزام کودہرایا جاتا رہا ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جارحیت اور جنگ وجدل کی ایک علامت ہے۔ معاذ اللہ... اسی طرح دیگر خاکوں میں اسلام کے تصورِ جہاد کو بھی ہدفِ ملامت قرار دیتے ہوئے گہرے طنز کے تیر چلائے گئے ہیں۔ مزید برآں دیگر اقوام یا کفر وشرکے بارے میں اسلام کے نظریات کو بھی کارٹونوں کی زبان میں ہدفِ ملامت ٹھہرایا گیا ہے۔ان خاکوں کے سرسری جائزے سے اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہ سارا عمل ایک منظم منصوبہ بندی، واضح اہداف کے ساتھ اس نظریاتی جنگ اور الزام تراشی کا حصہ ہے جسے مغرب اسلام سے مزعومہ' سبز جنگ' کے لئے درجہ بدرجہ آگے بڑھا رہا ہے۔

ستمبر۲۰۰۵ء میں شائع ہونے والے ان خاکوں پر عالم اسلام میں ایک شدید ردّ عمل سامنے آیا جس پر مغرب کے بعض حکومتی ذمہ داران نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار بھی کیا، لیکن اس کو زیادتی باور کرانے کی بجائے مغربی میڈیا نے اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے سامنے یہ اشتعال انگیز تصور پیش کیا کہ مسلمانوں کے اس شدید احتجاج کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ ہمیں اپنی رائے کے اظہار کے لئے مسلمانوں سے اجازت لینا ہوگی۔ مغربی میڈیا میں مسلمانوں کے ردّ عمل کو استہزائیہ انداز میں پیش کیا جاتا رہا ، بالخصوص ایرانی فتویٰ اور اس کی نیوکلیئر طاقت بھی خاکوں کی تائید کے ساتھ ساتھ ان کا ہدفِ ملامت بنی رہی۔ ان چیزوں سے بھی مغربی میڈیا سے صہیونی اشتراک کا بخوبی علم ہوتا ہے۔

یہ خاکے ان دو سالوں میں گاہے بگاہے (فروری 2006ء، اگست 2007ء وغیرہ) شائع ہوتے رہے لیکن رواں سال میں 13؍فروری کو ایک بار نئی منصوبہ بندی اور اشتراک کے ساتھ بیک وقت سکنڈے نیویا کے ۱۷؍ اخبارات نے اُنہی خاکوں کوایک بار پھر شائع کردیا۔ اگر حالیہ واقعہ کی پیش کردہ توجیہ کو ملحوظ رکھا جائے تو اب بھی یہ اقدام ایک منظم سازش سے کم قرار نہیں پاتا۔ حالیہ اقدام کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ 11 ؍فروری 2008ء بروز منگل کو ایسے دو مراکشی مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا جنہوں نے 73 سالہ ملعون کارٹونسٹ ویسٹر گارڈ(i) کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ چنانچہ صرف دو روز کے اندر اندر حکومت پر دبائو بڑھانے اور کارٹونسٹ سے اظہارِ یک جہتی کے لئے یہ مذموم اقدام کیا گیا۔ اس کے بعد سے ان خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری ہے اور مختلف ویب سائٹس پر بھی یہ ہر وقت ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اس نوعیت کی ایک مرکزی ویب سائٹ 'یوٹیوب' کو پہلے پہل بند کردیا تھا لیکن چند روز بعد اس کو بھی کھول دیا گیا اور تادمِ تحریر یہ ویب سائٹ لوگوں کو اہل یورپ کے خبث ِباطن اور تعصب وجارحیت کی دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔

راقم دو برس قبل اس موضوع پر ایک تفصیلی تحقیق قلم بند کرچکا ہے، جس میں توہین آمیز خاکوں کا اسلام اور عصری قوانین کے تناظر میں نکات وار پیش جائزہ لیا گیا تھا۔ شائقین اس مضمون کا مطالعہ 'محدث' کے شمارئہ مارچ 2006ء میں کرسکتے ہیں۔ سردست اس حرکت کا مختصر نفسیاتی تجزیہ مقصود ہے۔ اہل مغرب کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کا منظور کردہ اظہارِ رائے کا حق اُنہیں یہ گنجائش اور استحقاق دیتا ہے کہ وہ ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اُچھال سکیں۔

یوں تو انسانی حقوق کے چارٹر کا یہ مسئلہ ہر صاحب ِدانش کے ہاں معروف ہے کہ اس کی غیرمحدود تعمیم اور متزلزل تفصیل اس کے میزانِ عدل قرار پانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، مزید برآں مغربی ممالک میں متداول بے شمار قوانین، عدالتی فیصلے اور زیر عمل تصورات بھی اس استدلال کی راہ میں واضح رکاوٹ ہیں جن کی نشاندہی میں اپنے سابقہ مضمون میں تفصیل سے کرچکا ہوں۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظراس حرکت کا تجریدی مطالعہ اس نفسیاتی کیفیت کی ضرور غمازی کرتا ہے جس کا مغربی میڈیا کے اربابِ اختیار شکار ہیں۔ ایک شریف النفس، معتدل ومتوازن اور متین و حلیم شخصیت سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی عام فرد کی توہین کو اپنا حق باور کرنے کی سنگین غلطی کا شکا رہوگا۔چہ جائیکہ کسی عام فرد کی بجائے اس عظیم المرتبت ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ارتکاب کیا جائے جو ڈیڑھ ارب آبادی کی محبوب ومقدس ترین شخصیت ہے۔پھر یہ محترم ہستی ایسی نہیں جو صرف مسلمانوں کے ہاں متبرک و مقدس ہو بلکہ تاریخ عالم کی یہ واحد ہستی ہے جس کی تعریف میں ازل سے اَبد تک ہردور کے نامور مشاہیر، عوام اور خواص رطب اللسان رہے ہیں۔ ان کے اُسوئہ حسنہ نے ہر شعبۂ حیات کے ماہرین کو ایسا چیلنج دیا ہے جس کا وہ اعتراف کرتے ہوئے اپنے عاجزی ودرماندگی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس مقبولیت اور شانِ محمودیت کی وجہ اللہ تعالیٰ کا ذاتِ نبویؐ سے وہ قرآنی وعدہ ہے کہ ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا اور تیرا دشمن ضرور خاکسار ہوکر رہے گا۔

مقامِ تفکر ہے کہ مغرب کے اربابِ ابلاغ کس قسم کے حق پر اصرار کرکے انسانیت کو پامال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کونسی نفسیاتی تسکین ہے جو اُنہیں اس مکروہ عمل پر اُکساتی اور اپنے عملِ بد کے اِصرار پر آمادہ کرتی ہے۔ اس ذہنی غلاظت کا ادراک کرنے سے ہمارے ذہن قاصرہیں جسے بظاہر انسانی حق کا نام دے کر اپنے نفسیاتی تشنج کو تسکین دینے کی راہ تلاش کی جارہی ہے اور دنیا کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ چند مکروہ فکر لوگوں کے فکری افلاس کو قبو لِ عام عطا کرکے اس دور کے انسان کو شرفِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی سے دوچار کردے!!

یہ بد باطن لوگ جو بڑی ڈھٹائی سے نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا حق حاصل کرنے پر اِصرار کررہے ہیں، ان کی مثال ایسے بیٹوں کی ہے جو اپنی ماں کی تذلیل کو اپنا حق قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہوں۔ ذاتِ رسالت مآب سے آپ کے اُمتیوں کاتعلق ان کے ماں ، باپ حتیٰ کہ ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی بنا پر ان تما م چیزوں پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو فوقیت دینے کو شرطِ ایمان ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ بد بخت لوگ دراصل نبی ٔ رحمت کی لائی رہنمائی سے محرومی کا غصہ نکالنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف رحمتہ للعالمین کو مبعوث کیا تھا اور سب کو ان کا اُمتی بنایا تھا، لیکن ان کی شامت ِاعمال کہ یہ سعادت ِایمان سے محروم رہے۔ مستند احادیث کی روسے دیگر انبیا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصیت عطا کی گئی ہے کہ آپ کو جملہ انسانیت تک رہتی دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کو اگر آپ کی اُمت ِاجابت میں قبول ہونے کو سعادت میسر نہیں آئی، تو بہر حال آپ کی اُمت ِدعوت میں ضرور شامل ہیں۔ ایسے اُمتیوں کا اللہ کی منتخب کردہ محبوب ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا ایسا سیاہ کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے!!

نبی کریم ﷺکی رحمت وشفقت
آئیے نبی رحمت کی اپنی اُمت کے لئے دعائوں اور ربّ کے حضور فریادوں کے تذکرے تازہ کریں، تاکہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا معمولی اندازہ ہوسکے اور ہم ان کے حق کا اِدراک کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو پہچان سکیں۔ احادیث میں بیان ہونے والے یہ محبت بھرے تذکرے بڑے ایمان افروز ہیں :
سب سے پہلے توان لوگوں کے لئے آپ کی رحمت ومودّت کا تذکرہ جنہیں اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور ان کی فکر مندی میں اپنی ذات کو گھلانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطیرہ بن چکا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ فرمایا:
لَعَلَّكَ بَـٰخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوامُؤْمِنِينَ ﴿٣﴾ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ ءَايَةً فَظَلَّتْ أَعْنَـٰقُهُمْ لَهَا خَـٰضِعِينَ ﴿٤...سورۃ الشعراء
''شاید کہ آپؐ اپنے آپ کو اس بنا پر ہلاک نہ کربیٹھیں کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ تیرا ربّ اگر چاہے تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرے کہ ان کو گردنیں جھکائے بنا چارہ نہ رہے۔''

ایک اور مقام پر آپ کی اسی فکر مندی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
فَلَعَلَّكَ بَـٰخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِ‌هِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا ٱلْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦...سورہ الکہف
''شاید کہ آپؐ اپنے آپ کو شدت ِافسوس کی بنا پر ہلاک نہ کربیٹھیں کہ یہ لوگ قرآنِ کریم پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔''

لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت ِدعوت کے ساتھ رحمت وشفقت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ اُن کی ہدایت کے لئے آپ کی بے چینی میں کوئی فرق نہ آتا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں آپ کو سرزنش کی کہ
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ ٱلْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِى ٱلنَّارِ‌ ﴿١٩...سورۃ الزمر
''وہ شخص جس پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے، کیا آپ اس کو آگ سے بچانے پر مصر ہیں۔''

أَفَأَنتَ تُكْرِ‌هُ ٱلنَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوامُؤْمِنِينَ ﴿٩٩...سورۃ یونس
''کیا تو لوگوں کو اس قدر مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اسلام لے کر ہی آئیں۔''

وَإِن كَانَ كَبُرَ‌ عَلَيْكَ إِعْرَ‌اضُهُمْ فَإِنِ ٱسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِىَ نَفَقًا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ أَوْ سُلَّمًا فِى ٱلسَّمَآءِ فَتَأْتِيَهُم بِـَٔايَةٍ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى ٱلْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْجَـٰهِلِينَ ﴿٣٥...سورۃ الانعام
'' اے میرے نبی! اگر تجھ پر کفار کا منہ پھیرنا اس قدر گراں ہے تو پھر زمین میں کوئی سرنگ کھود لے یا آسمان پر سیڑھی لگالے اور ان کو خود کوئی نشانی لا دے۔ اگر اللہ چاہے تو ان کو ہدایت پر جمع کرسکتا ہے ، لیکن تو (شدتِ رحمت) میں جاہلوں کی مانند نہ ہوجا۔''

یہ ہے شانِ رحمت کا نقشہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فکر مندی کا غماز ہے کہ لوگ اسلام کو قبول کرکے اپنے آپ کو عذابِ جہنم سے بچا لیں۔ ایسے نبی سے دورِ حاضر میں روا رکھا جانے والا رویہ کس قدر ظلم وستم کا عکاس ہے۔ اِس دور کے منکرینِ رسالت کی مثال بھی کفارِ قریش جیسی ہی ہے جنہیں اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت اس دین کے لانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر طنز واستہزاکے تیر چلانے کو آمادہ کرتی۔ آج بھی یورپی ممالک میں اسلام کی پھیلتی ہوئی دعوت مغربی میڈیا کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دلیل و مباحثہ کا راستہ چھوڑ کر طنز وتشنیع اور اِلزام واتہام کا راستہ اختیار کریں۔ ہم اُنہیں پھر اپنے نبی کی شانِ رحمت یاد دلاتے اور ان کے پیغام کی جھلک دکھلاتے ہیں، رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
''میری اور لوگوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی ، جب آگ جلنے کے سبب ارد گردکا ماحول روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے اس آگ کے پاس آکر اس میں گرنے لگے۔ وہ شخص ان کو آگ سے دور کرتا ہے لیکن وہ پروانے اس پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گرتے ہی رہتے ہیں۔ (فأنا آخذ بحُجَزِکم عن النار وهم یقتحمون فیها) لوگو! میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر دھکیلتا ہوں لیکن تم اس میں گرنے پر مصر ہو۔'' 2

نبی کریم کی وہ رحمت جو آپ کے متبعین اور مؤمنین کو حاصل ہے اور روزِ محشر حاصل ہوگی، اس کا ایمان افروز تذکرہ بھی تازہ کرلیجئے، قرآنِ کریم میں اس بات کی شہادت ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِ‌يصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٢٨...سورہ التوبہ
''تمہارے پاس تم میں سے ہی ایسا رسول آیا ہے جسے تم پر مشقت انتہائی گراں گزرتی ہے اور تہارے بارے میں بہت اچھی خواہشات رکھنے والا اور مؤمنوں پر انتہائی مہربان وشفیق ہے۔''

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت پر کمالِ شفقت کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کیلئے یوں دعا کی:
(اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شیئا فَشَقَّ علیهم فَاشْقُقْ ومن ولي من أمر أمتي شیئا فَرَفِقَ بهم فَارْفُقْ به)3
'' اے اللہ! جو شخص میری اُمت کسی معاملے کا نگہبان بنے اور ان سے سختی کا برتائو کرے تو تو بھی اس سے سخت روی سے پیش آئیے اور جو میری امت کا ذمہ دار ہوکر نرمی کا رویہ اختیار کرے ، تو تو بھی اس سے نرم ہوجا۔''

ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربّ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر ، روتے ہوئے اللہم أمتي أمتيکی فریاد کی۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ سے رونے کی وجہ دریافت کریں۔ جبریل نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی اور اللہ تعالیٰ کو بتلائی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی زبانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدہ دیا کہ
(یا جبریل اذهب إلی محمد فقل أنا سنُرضیك في أمتك ولا نسوؤك)
''اے جبریل! محمد کے پاس جا کر اسے کہہ دے کہ ہم تیری امت کے بارے میں تجھے راضی کریں گے، تجھے پریشان نہیں کریں گے۔''4

روزِ محشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور اُمت کے لئے شفقت زوروں پر ہوگی، فرماتے ہیں:
(لکل نبي دعوة مستجابة یدعو بها وأرید أن أختبئَ دعوتي شفاعة لأمتي في الآخرة)5
''ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جوشرفِ قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔ اور میں نے روز ِ قیامت اپنی اُمت کی شفاعت کے لئے اس دعا کو محفوظ کررکھا ہے۔''

ساقی کوثر اور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت کے لئے رحمت کا نقشہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی اس فرمانِ نبویؐ میں کھینچا گیا ہے کہ میں روزِ محشر چلتا ہوا عرشِ الٰہی کے نیچے پہنچ کر ربّ ِذوالجلال کے حضورسجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پھر میں اللہ کی شان میں ایسی حمد وتوصیف کا باب کھولوں گا، جس کی میرے سے قبلکسی کے ہاں مثال نہ ہوگی۔ تب مجھ سے کہا جائے گا :
(یا محمد ارفع رأسك سَل تُعطه واشفع تُشَفَّع فأرفع رأسي فأقول: أمتي یا ربِّ، أمتي یا رب فیقال یا محمد! أدخل من أمتك من لا حساب علیهم من الباب الأیمن من أبواب الجنة ... الخ) 6
''اے محمد! اپنا سر اُٹھا، جو مانگے گا، تجھے دیا جائے گا اورجو سفارش کرے گا، تیری سفارش قبول کی جائے گی۔ تب میں کہوں گا کہ یاربّ! میری اُمت، یاربّ! میری اُمت۔ تب کہا جائے گا کہ اپنی اُمت میں ایسے لوگوں کوجنت کے داہنے دروازے سے داخل کرلے، جن پر کوئی حساب نہ ہو۔ یہ لوگ جنت کے دروازوں میں دیگر داخل ہونے والوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ پھر مزید فرمایا: واللہ!جنت کے دو کواڑوں کے مابین اس قدر وسعت ہے جتنی مکہ اور حمیر یا مکہ اور بصریٰ کے مابین ہے۔''

صحیح بخاری کی ایک اور طویل حدیث ِمبارکہ میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ محمود کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ نبی کریمؐ اس دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے تین بار جہنم رسید ہونیوالے مسلمانوں کو جنت میں داخل کریں گے۔ حدیث کا آخری حصہ یہ ہے :
(فَأُثني علی ربي بثناء وتحمید یُعَلِّمَنِیه۔قال: ثم أشفع فیحد لي حدا فأخرج فأدخلهم الجنة) قال قتادة: وقدسمعته یقول (فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة حتی ما یبقی في النار إلا لِمَن حَبِسه القرآن أي وجب علیه الخلود) قال: ثم تلا هذہ الآیة ({عَسَىٰٓ أَن يَبْعَثَكَ رَ‌بُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا} )7
''(تیسری بار) میں پھر اپنے ربّ کی تسبیح وتحمید بجا لائوں گا جو وہ مجھے (بطورِ خاص) سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لئے ایک حد مقرر کردی جائے گی اور میں لوگوں کو (تیسری بار) جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپؐ کو یہ بھی فرماتے سنا: میں جہنم سے نکال کر تمام لوگوں کو جنت میں داخل کردوں گا، ماسوائے ان لوگوں کے جنہیں قرآن (میں مذکورہ وعدئہ الٰہی )نے روک لیا ہوگا یعنی ان پر دائمی جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔ راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ پھر آپؐ نے اس آیت ِکریمہ کی تلاوت کی: تیرا ربّ عنقریب تجھے مقام محمود پر مبعوث کرے گا۔''

اپنی اُمت کی آسانی کے لئے واقعہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو بہ اصرار پانچ کروانا(بخاری: 349)، ہر نماز سے قبل مسواک کا حکم نہ دینا(بخاری: 887)، نمازِ عشاء کو جلد پڑھ لینا(مسلم: 639)، تیز آندھی اور غضبناک بادلوں کو دیکھ کر بے چین ہوجانا(مسلم: 899)، اپنی اُمت کو عذاب ِعامہ اور غرق سے بچنے کی دعا کرنا اور اس کا قبول ہونا(مسلم: 2890)، سبعہ احرف میں قرآن پڑھنے کی اجازت حاصل کرنا(مسلم: 821)، الغرض نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر رحمت وشفقت کے تذکرے اس قدر طویل ہیں کہ اس سے قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں۔ آپ کو ربّ ذوالجلال والاکرام نے مقامِ محمود عطا فرمایا اور سورئہ الم نشرح میں آپؐ کے ذکر کی عظمت کا وعدہ دیا ہے۔ پھر وہ لوگ کس قدر بدبخت اور بد باطن ہیں جو ربِ ارض وسما کے بالمقابل اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اپنے مکروہ قلم کے ذریعے گھٹانے پر اپنی کوششیں صرف کررہے ہیں۔جس کی عظمت کا رکھوالا ربّ ِجل جلالہ ہو، اس کی شان میں گستاخی کی جسارت کا ارتکاب کسی انسان کے لئے ذلیل ترین رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قرآن کریم میں ایسے رکیک ہتھکنڈوں پر دلاسہ دیا ہے:
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُۥ لَيَحْزُنُكَ ٱلَّذِى يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣...سورۃ الانعام
''ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی دریدہ دہنی سے تیرا دل ودماغ چھلنی ہوجاتا ہے۔ (غم نہ کر) یہ تیری تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں۔''

اپنے محبوب(ii) کی ایسی گستاخی کرنے والوں سے نمٹنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے، ارشاد بار ی ہے:
إِنَّا كَفَيْنَـٰكَ ٱلْمُسْتَهْزِءِينَ ﴿٩٥﴾ ٱلَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ‌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٩٦﴾ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿٩٧﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِينَ ﴿٩٨﴾ وَٱعْبُدْ رَ‌بَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ ٱلْيَقِينُ ﴿٩٩...سورۃ الحجر
''ہم تیری توہین کرنے والوں کو خوب کافی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ بھی دوسرا الٰہ کھڑا کرتے ہیں، عنقریب اُنہیں پتہ چل جائے گا۔ ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی اس تمسخرانہ حرکتوں سے تیرا سینہ تنگ ہوتا ہے (لیکن ان کی پرواہ مت کر) اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر اور سجدہ کرنیوالوں میںسے ہوجا پھر زندگی بھر اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہ ۔''

ہمارا فرض
اہلِ مغرب کی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر جارحیت اور ظلم وستم آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں، اس جرم میں صرف ڈنمارک کے چند اَخبار شریک نہیں بلکہ فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی سمیت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ذرائع ابلاغ بھی برابر کے شریک ہیں۔ ان خاکوں کی بڑے پیما نے پر اشاعت اور عوام الناس کا ان کو گوارا کرنا اور اپنے میڈیا سے احتجاج نہ کرنا گویا اس جرم میں مغربی عوام کو بھی شامل کردیتا ہے۔ دو بڑی ویب سائٹیں 'فری فار آل ' اور 'یوٹیوب' بھی جن کے مرکزی کمپیوٹر سسٹم (Servers)امریکی ریاست فلوریڈامیں ہیں، پہلے دن سے ان خاکوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت کررہی ہیں۔ اسلام کے خلاف جاری مہم میں گستاخانہ خاکوں کے علاوہ خانہ کعبہ اور دیگر اسلامی احکامات وشعارات کی توہین کے بہت سے کردار بھی اس وقت مغرب میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ایسی توہین آمیزفلموں کے بارے میں یورپی ممالک کے شہری اس بات کے حق میںہیں کہ ان کی نمائش کی اجازت ملنی چاہئے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا دین 'اسلام' اور اور اللہ کا محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مغربی میڈیا کی ہتک انگیز کاروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس دور میں اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی ذات سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ اور ظلم کرنے والے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اس توہین کو روز مرہ معمول بنا کر مسلم قوم کو بھی اسی طرح بے غیرت وبے حمیت بنا دیں جس طرح وہ عیسائیوں کے پیغمبر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش رو حضرت عیسیٰ کو نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دلوانے کی مذموم مہم میں کامیاب ہوچکے ہیں، جیسا کہ گذشتہ برس یورپ میں نمائش کی جانے والی متنازعہ فلم 'ڈاوِنسی کوڈ' کا یہی موضوع ہے۔لیکن غالباً اُنہیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین اپنے دین سے والہانہ تعلق کے فرق کا اِدراک نہیں ہوسکا۔ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر حملہ آور ہونے والوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنے نبی کی حرمت پر کٹ مر سکتا ہے،لیکن اس کو کسی صورت گوارا نہیں کرسکتا کیونکہ اسکے جذبۂ ایمانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان حق کا بنیادی تقاضا ہے۔

اوپر ذکرکردہ رحمت ِنبویؐ کی ایک جھلک بھی ایک مسلمان کے جذبات کوشدید مہمیز دیتی ہے کہ وہ اپنے عظیم ترین محسنؐ اور اپنی ذات پر شفیق ترین ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ آج کے دور میں بسنے والے ہر مسلمان کو ا س احساسِ ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرنا چاہئے کہ وہ کس طرح اس ظلم وستم کے بالمقابل اپنی ہرممکن کوشش بروے کار لاسکتا ہے؟

قرآنِ کریم کی رو سے روز ِمحشر ہر اُمتی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنے حق میں پیش کرنا ہوگی۔ جس دن سورج سوا نیزے پر ہوگا، اس حالت میں حوضِ کوثر پرساقی ٔکوثر کا سامنا کرنا ہوگا، آپؐ کی شفاعت سے قبل تمام انسانیت رحم کے لئے بلک رہی ہوگی، حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ہاں سفارش کریں گے، اور حساب وکتاب کا آغاز ہوگا۔ ہمیں آپؐ کے حق کو اسلئے ادا کرنے میں کوشاں ہوجانا چاہئے تاکہ آپ کے حضور روزِ قیامت سرخرو ہو سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قرآنی آیت ان کافر کارٹونسٹوں کی طرح ہماری بدعملی کا بھی مصداق ٹھہر جائے:
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍبشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِ شَهِيدًا ﴿٤١﴾ يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَعَصَوُاٱلرَّ‌سُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلْأَرْ‌ضُ وَلَا يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثًا ﴿٤٢...سورۃ النساء
''کیسا ہوگا وہ وقت، جب ہم ہر اُمت(iii) سے گواہ طلب کریں گے، اور ہم تجھے(اے محمد!) ان تمام مسلمانوں پربطورِ گواہ پیش کریں گے۔ اس دن جن لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا اور رسولؐ کی نافرمانی کی ہوگی، وہ خواہش کریں گے: کاش آج زمین ہم پر برابر کردی جائے (اور ہمیں رسولِ رحمتؐ کا سامنا نہ کرنا پڑے)۔ اور وہ اللہ کے روبرو ایک بات بھی چھپا نہ سکیں گے۔''

جب ذاتِ نبویؐ پر ہر طرف سے طعن وتشنیع اور ناکردہ الزاموںکی تہمتیں لگائی جارہی ہوں اور محمد ِاحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ہر شے سے محبوب رکھنے کا دعویٰ کرنے والا مسلم ان سنگین حالات میں سکون اور اطمینان سے بیٹھا رہے، یہ تصور ہی انتہائی خوفناک ہے۔ ہمیں اس مسئولیت اور شرمندگی کو آج ہی محسوس کرکے اپنے قول وفعل سے ان جوازات سے خاتمے کے لئے کمربندہوجانے کا عزمِ صمیم کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں یہ اہانت بھرے رویے ختم ہوکر رہ جائیں اور کسی کو پیغمبر انسانیت کی ناموس پر حرف اُٹھانے کی جرا ت نہ رہے۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی اہانت کی جاتی تو آپ اپنے صحابہؓ سے بے اختیار یہ مطالبہ کیا کرتے کہ ''کون ہے جو میرے اس دشمن کا جواب دے...؟''

یہ مطالبہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کے بارے میں کیا۔ حضرت زبیرؓ ،حضرت خالدؓ بن ولیداور حضرت حسانؓ سے بھی آپ نے ایسے مطالبے کئے :
مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذٰی اﷲَ وَرَسُولَهُ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بن مسلمة فقال: یا رسول اﷲ أتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ۔ قَالَ: نَعَمْ8
فَقَالَ: مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَیرُ: أَنَا 9
مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إِلَیْهَا خالد بن الولید فَقَتَلَهَا 10
یا حَسَّان أجِبْ عن رَّسُوْل اﷲ،اللّٰهم أیِّدْہ بروح القدس 11

دورِ نبویؐ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام کو متوجہ کیا کرتے اور صحابہؓ نے آپ کی پکار کے نتیجے میں ان گستاخانِ رسالت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ آج شمع رسالت کے پروانوں کو یہ پکار اپنی سماعت پر محسوس کرنا چاہئے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے ہر ممکنہ اقدام بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولؐ کی رفعت ومنزلت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے جس طرح شریعت ِاسلامیہ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے اُٹھا لی۔ اس عظیم ذمہ داری کی تکمیل کے لئے اس عالم الاسباب میں اللہ نے حفاظِ قرآن اور محدثینِ عظام کی شکل میں ایسے نفوسِ قدسیہ پیدا کئے جنہوں نے اللہ کے دین کی تاقیامت حفاظت کے ٹھوس اقدامات کئے۔ ایسے ہی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کے لئے بھی اللہ کی طرف سے فرشتے نازل ہونے کی بجائے ایسے مبارک نفوس ہی آگے آئیں گے جن سے اللہ تعالیٰ قول وفعل کے میدان میں عظیم الشان خدمت لے گا۔

یہاں ایسے مسلمانوں کو بطورِ خاص متوجہ ہونا چاہئے جو علماے دین ہونے کے ناطے منصب ِرسالت کی وراثت کے داعی، امین اور محافظ ہیں۔ مسلمانوں کے ایسے اہل علم جن کا یہ احساس ہے کہ وہ جوہر نبوت یعنی فرامینِ نبویہؐ کے محافظ ورکھوالے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فقاہت کی بصیرت سے نوازکر اُمت کے منتخب شدہ افراد ہونے کی سند ِتصدیق عطا کی ہے، ان خاصۂ خاصانِ رسل پر بطورِ خاص اُمت ِمسلمہ کے نمائندے اور وراثت ِ رسول کے امین ہونے کے ناطے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسے المناک مراحل پر ملت ِاسلامیہ میں احساس وشعور بیدار کرنے میں کوئی کمی نہ دکھا رکھیں تاکہ اُمت من حیث المجموع اپنے فرائض کو بجا لانے پر کمربستہ ہوجائے۔

ہر شخص تھوڑی سی محنت اور غور وفکر کے بعد اپنے دائرئہ عمل میں موجود امکانات کوبخوبی پہچان سکتا ہے۔ اگر وہ نبی ٔرحمت کی ذات سے ظلم کے خاتمے کے لئے آمادہ ہو تو اس کے سامنے فکر وعمل کے بے شمار دریچے وا ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے آسانی کے لئے ہم محض چند ایک کی نشاندہی پر اکتفا کرتے ہیں:
اپنے عمل سے فرامینِ نبویہ کے تقدس پر اس طرح مہر تصدیق ثبت کرنا کہ آپؐ کے مقدس فرامین ہمارے لئے عمل کی سب سے قوی بنیاد قرار پاجائیں اور بذاتِ خود ہماری کسی بدعملی اور کوتاہی سے اہانت ِرسول کا کوئی عملی شائبہ بھی پیدا نہ ہوسکے۔ اہانت ِرسول کا مقصد دنیا کو پیغامِ رسالت سے برگشتہ کرنا اور اسلام کو کمزور کرنا ہے، جبکہ اسلام پر والہانہ عمل گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کے مقاصد کی تذلیل کرے گا۔

سیرتِ رسول اور رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کا عزمِ صمیم کرنا، اپنی صلاحیتوں کوا س کے سیکھنے اور پھیلانے میں کھپا دینا گویا آپ پر تہمت طرازی کرنے والوں کے بالمقابل آپ کے رفعت ِذکر کی عملی مثال پیش کرنا۔ اہانت کرنے والوں کا مقصد ذاتِ نبوی سے لوگوں کو بیزار کرنا ہے تاکہ اسلام کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بند باندھا جاسکے، لیکن آپ کی سیرت اورپیغام کی اشاعت ان کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملادے گی۔

یورپی ممالک بالخصوص ڈنمارک کی مصنوعات کاکلی بائیکاٹ کرنا، یاد رہے کہ صرف پاکستان میں ڈنمارکی مصنوعات (گھی، مکھن، پنیر وغیرہ) کی درآمد 80 ملین ڈالرز سے زیادہ ہے اور ملک کی تمام بڑے اداروں مثلاً قومی ایئر لائن اور ملٹی نیشنل ہوٹلز میں اُنہیں بڑے پیمانے پر استعما ل کیا جاتا ہے۔ ایسی چیزوں کی فہرستیں تلاشِ بسیار کے بعد شائع کی جائیں اور اقتصادی میدان میں بھی اپنا شدید احتجاج سامنے لایا جائے۔

ہر موقع پراپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے تاکہ عوامی غم وغصہ کے سیلابِ بلا کے سامنے حکومتیں اپنے سفارتی تعلقات توڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ یاد رہے کہ ان دنوں ڈنمارک میں متعین پاکستانی سفیر خاتون تو حسب ِمعمول سرکاری ضیافتوں میں مشغول ہیں اور پاکستان میں متعین ڈنمارکی سفیر متوقع رد ِعمل کے خوف سے اپنے وطن پہنچے ہوئے ہیں۔(iv)

قلم وقرطاس کے ذریعے سرور کونین کی سیرت اور اپنے احتجاج کو دور دو رپہنچایا جائے مثلاً بینر، سٹیکرز، پوسٹر، مضامین، خطوط، ای میل، میڈیا کو فون وغیرہ، غرض ہر ذریعہ کو استعمال میں لایا جائے۔ اس ابلاغی مہم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سعودی عرب و سوڈان کی طرح دیگر مسلم حکومتیں بھی اپنے احتجاج کو منظم کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔

آپس میں محبت ومودّت کا خوگربننااور اُخوت اسلامی کو پختہ کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر اسلام کا رعب غیرمسلموں پر طاری نہیں ہوسکتا۔ جس طرح غیر مسلم اپنے مذموم مقاصد کے لئے یکسو اور متحد ہیں، پورا یورپ اور مغربی میڈیا یک جہتی سے اس ظلم کی اصلاح کی بجائے اس کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ اس مسئلہ کا مداوا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں میں باہمی مؤاخات کو پیغمبر اسلام سے محبت کے مرکزی نکتہ کے نام پر پروان نہ چڑھایا جائے۔ محمد رسول اللہ سے محبت ہر مسلمان کے عقیدے کا اوّلین نکتہ ہے، جس میں سپرداری کے ساتھ اطاعت ووارفتگی کے جذبات بھی موجزن ہیں۔ باہمی اتحاد کے لئے اس نسخۂ اکسیر کو کارگر طریقے سے استعما ل میں لایا جائے۔

بعض مسلمان عملی اعتبار سے اس میں شرکت کرسکتے ہیں تو بعض شانِ رسالتؐ میں اپنے مال کا نذرانہ پیش کرکے حصہ ڈال سکتے ہیں۔ غرض عمل کرنے اور ذمہ داری کو محسوس کرنے والوں کے لئے اَن گنت راستے ہیں۔ مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی ایک طریقہ پر بھی کامل روح کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا ہم عزمِ صمیم کرلیں تویہ ہماری سعادت اور مسلم اُمہ کا بھرم قائم کرنے کا باعث ہوگا، وگرنہ توہینِ رسالت کے ان واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نعوذ باللہ جاری رہے گا، اورہم اس پر کف ِافسوس ملنے اور اپنی بے چارگی کا نوحہ کہنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے۔یہ عمل کا وقت ہے، زبانی جمع خرچ کا نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ یہ چند کلمات جو سرورِ کونین اور نبی الثقلین علیه أفضل التحیة والسلام کی شان میں درج کئے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور مسلمانوں کو قوتِ عمل سے نوازے۔ آمین!


حوالہ جات
1. آیات 10 تا 16
2. صحیح بخاری:6483
3. صحیح مسلم:1828
4. صحیح مسلم:202
5. صحیح بخاری:6304
6. صحیح بخاری:4712
7. صحیح بخاری:7440
8. صحیح مسلم:4640
9. مصنف عبد الرزاق : رقم9477
10. ایضاً: رقم9705
11. صحیح مسلم:453

 


 

i. یہ وہی نامراد کارٹونسٹ ہے جس نے دوبرس قبل یہ خاکے بنائے تھے، اس کی ہلاکت کا شہرہ ایک افواہ سے زیادہ نہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کے نوجوان عامر چیمہ شہید کا کردار یہ رہا کہ اُنہوں نے جرمنی کے اخبارمیں یہ توہین آمیز خاکے شائع دیکھ کراخبارکے ایڈیٹرکو اس کے دفتر میں خبر دار کیا تھا، جس پر ایڈیٹر نے اُنہیں گرفتار کرا دیا، بعد میں جیل میں عامر چیمہ کو مقتول پایا گیا۔ عامر کی تحریر سے پتہ چلا کہ یہاں کے لوگ ان کو اس معاملہ میں شدید حساسیت رکھنے پر برا بھلا کہتے اور مارا پیٹا کرتے؛ یہی بات ان کی شہادت کا محرک سمجھ لی گئی۔
ii. فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ''اگر میں نے دنیا میں کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابو بکر صدیق کو خلیل بناتا (ولکن صاحبکم خلیل اﷲ) لیکن تمہارا محبوب اللہ کا خلیل ہے۔'' (صحیح مسلم: 2383)
iii. یہ آیت براہِ راست کفار اور رسولوں کے نافرمانوں کے بارے میں ہے جنہیں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام لوگ آپ کی اُمت میں شامل ہیں، بعض اُمت ِاجابت یعنی مسلمان اور بعض اُمت ِ دعوت یعنی کفار ومنکرین۔
iv. پاکستان کو دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، اور پاکستانی حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دیگر مسلمانوں سے کافی ممتاز ہیں، اس کے باوجود ہمارے وطن سے شدید احتجاج کا نہ ہونا اورسرد مہری کا رویہ اپنانا ہمارے ماضی کے کردار کے عین برعکس اور قومی بے غیرتی کا غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن میں چین وسکون غارت ہوچکا ہے۔ حکمران کسی قوم کے مرکزی رجحانات کے عکاس ہوتے ہیں جس کے نتائج ہم بری طرح بھگت رہے ہیں۔ جب تک قوم کے افراد خود اپنے آپ کو نہ بدلیں گے، اپنی زندگی میں اسلام کونافذ نہیں کریں گے، محض غلبہ اسلام کی خواہش ہمارے حکمرانوں کوتبدیل نہ کرے گی۔ اللہ ہمارے جذبہ کے مصداق ہمیں قوتِ عمل سے نوازے۔