ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ؛ جوارِ رحمت میں

صحافت وخطابت کے عظیم شہسوار، مایہ ناز مدبر وحکیم، ملت ِاسلامیہ ہند کے مخلص قائد اور بے باک وباعزم مردِ میداں ، جامعہ سلفیہ بنارس کے رئیس، اُستاذ الاساتذہ علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہزاروں سوگواروں کو چھوڑ کر اپنے مولاے حقیقی سے جا ملے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون! 30؍ اکتوبر 2009ء بروز جمعرات بوقت ۵ بجے صبح آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی ہند و بیرونِ ہند میں شدید رنج وغم کی لہر دوڑ گئی۔اللہ تعالیٰ آپ کی دینی وعلمی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!ذیل میں آپ کی سوانح حیات اور کارہاے نمایاں کا ایک مختصر تذکرہ ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔ اِدارہ



آنکھیں ہیں آج اُن کے تصور میں اشک بار، جن کے وجود سے یہ فضا مشک بار تھی ۔ماہر اسماء الرجال ، فقیہ ِہند علامہ محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ کی وفات اور جدائی کا غم ا بھی ہلکا بھی نہ ہوا تھا کہ اُستاذِ محترم ادیب ِزماں ، فخر جماعت ، نازشِ سلفیت ، مفکر ِملت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری (رئیس جامعہ سلفیہ بنارس) رحمہ اللہ اپنے ہزاروں روحانی بیٹوں ، شاگردوں اور محبین ومعتقدین کو سوگوار چھوڑ کر عالم بقا کو کوچ کر گئے ۔ إنا ﷲ وإنا إلیه راجعون!

ان کے شاگردوں اور محبان میں سے کس کو کتنا غم ہوا ہو گا، اس کی پیمائش تو نہیں کی جاسکتی، البتہ ان کی وفات پر اخباروں میں جو خبریں شائع ہو رہی ہیں ، ان سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرد سے لے کر جماعت تک، شاگرد سے لے کر اساتذہ تک اور معاصرین سے لے کر معتقدین تک ہر ایک کو آپ کی وفات پر سنگین زیادہ غم لاحق ہوا ہے۔

موت اُس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے


اُستاذِ محترم ازہری صاحب ر حمہ اللہ کا تعلق علم وفن اور صنعت وحرفت کے معروف ومشہور شہر مئو ناتھ بھنجن سے تھا۔ آپ کی ولادت 8؍ اگست 1939ء کو ہوئی۔ آپ کا خاندان شروع سے علم وفضل، زہد ووَرع اور خلوص و للہیت میں مشہور و معروف رہا ہے۔ آپ کے والد محترم جناب محمد یاسین اہل علم کی خدمت کو اپنے لیے باعث ِسعادت سمجھتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری سر زمینِ مئومیں منعقدہ 'آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس' میں شرکت کے لئے مئو اسٹیشن اُترے تو ہاتھ سے کھینچے جانے والے ٹھیلے پر اُن کو بٹھا کر اُنہوں نے اور مولانا مختار احمد ندوی کے والد نے جلسہ گاہ تک پہنچایا تھا۔

آپ کی ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ، مئو میں ہوئی۔ آپ نے خود لکھا ہے کہ '' جامعہ عالیہ عربیہ میرا مادر علمی ہے۔ میری تعلیمی زندگی کی بسم اللہ یہیں ہوئی ہے۔ قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنے کے بعد میں نے حفظ ِقرآن یہیں شروع کیا تھا، لیکن اس کا اختتام کہیں اور ہوا، پھر میں نے فارسی کا مقررہ نصاب اور عربی کے چار درجات اِسی ادارہ میں مکمل کئے۔

بلاد بها نیطت علی تمائمي
وأول أرض مس جلدي ترابها1

جامعہ اثر یہ دار الحدیث، مئو اور جامعہ اسلامیہ فیض عام، مئو میں بھی آپ نے تعلیم پائی، البتہ فراغت کی سند آپ نے جامعہ اسلامیہ فیض عام سے 1960ء میں حاصل کی ۔ الٰہ آبادی (یو پی) بورڈ سے آپ نے مولوی ، عالم اور فاضل کے امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کئے۔

آپ ایک ذہین وفطین، لائق و ہونہار طالب ِ علم تھے۔ علمی و ادبی ذوق سے بھی سرفراز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں آپ اپنے اساتذہ کے محبوب ومنظورِ نظر رہے۔ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو سے فراغت کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں نے آپ کی اعلیٰ علمی صلاحیتوں کو بھانپ کر آپ کو جامعہ کی تدریسی کونسل میں شامل کر لیا۔ دو سال تک آپ پوری محنت ولگن سے تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

اللہ تعالی نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ آپ آگے چل کر علوم و فنون ، عربی زبان و ادب ، کتاب سنت، جماعت وجمعیت اور اقوام وملت کی گراں قدر خدمات انجام دینے والے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مزید تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار کردی۔ آپ اس زرّیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 1963ء میں دنیا کی مشہور و معروف یونیورسٹی 'جامعہ ازہر' مصر کے تعلیمی وظیفہ پر قاہرہ چلے گئے اور وہاں اُصول الدین فیکلٹی میں داخلہ لے کر ماجستیر (ایم اے) کیا۔ جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد قاہرہ ریڈیو کے شعبۂ اُردو میں دو سال تک مترجم اور اناؤنسر کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1967ء میں آپ ہندوستان واپس آگئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جماعت اہل حدیث کے مخلص اکابر علماء کے ہاتھوں مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ ، بنارس کی ابھی ابھی بنیاد رکھی گئی تھی، اور اس کے لئے لائق و فائق اساتذہ کی تلاش و جستجو جاری تھی۔ اس نوخیز ادارہ کے ذمہ داروں نے اس گوہر نایاب کو پہچان لیا اور آپ کی خدمات حاصل کرلیں ۔ اب آپ جامعہ سلفیہ بنارس کی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں سے منسلک گئے۔

کچھ دنوں کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں ملازمت اور تدریسی فریضہ انجام دینے کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبۂ عربی میں ریسرچ کے لئے داخلہ لیا اور 1972ء میں ایم فل کیا، پھر 1975ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات سے کسب ِفیض کرنے کے بعد آپ نے اپنے آپ کو مکمل طور سے جامعہ سلفیہ بنارس کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور انتظامی ذمہ داریوں کے حوالہ کردیا۔ جب کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلینے کے بعد مختلف سرکاری و غیر سرکاری، ملکی و غیر ملکی اداروں میں اعلیٰ و اونچے مناصب کے لئے آپ کو دعوت دی جا رہی تھی، مگر آپ نے مادیت پرستی کی بجائے دین اور اس کی خدمت کو ترجیح دی۔

میدانِ دعوت و عمل اور تدریس و تربیت میں قدم رکھنے کے بعد ابھی کچھ ہی ایام گزرے تھے کہ آپ نے علمی، دینی اور ادبی حلقوں میں اپنی ایک خاص پہچان اور ممتاز شناخت بنا لی۔ آپ کی اعلیٰ علمی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں اور آپ مقبولِ خاص و عام ہونے لگے:

یغوص البحر من طلب اللآلي
ویحظئ بالسیادة و النوالي


1969ء کا سال سلفیانِ ہند کے لئے بڑا قابل فخر زمانہ گزرا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ اہل حدیثوں کا عربی نقیب و ترجمان ماہنامہ صوت الجامعة السلفیة (موجودہ صوت الأمة) جاری ہوا۔ اس کے اجرا کے اوّل دن سے ہی آپ اس کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ آپ کی اِدارت میں نکلنے والا یہ مجلہ روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا اور کبھی بھی بند نہ ہوا۔ آپ نے ہر شمارہ میں خوب لکھا۔ آپ کی تحریروں کی ملک و بیرونِ ملک میں ایک خاص شناخت بن گئی۔ آپ نے فکری مضامین اور اداریے لکھے، مگر منہج سلف سے موئے سر کے برابر بھی انحراف گوارا نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں کی بڑی شہرت ہوئی، علمی و ادبی حلقوں نے اُنہیں کافی سراہا اور دلچسپی سے پڑھا۔ آپ کی تحریروں میں چاشنی اور قاری و سامع کے احساسات و جذبات کو متاثر کرنے کا وصف نمایاں ہوتا۔ آپ کی ایک تحریر کی سرخی
زیارة أغضبت المتوھّمین و دولة أذلت المسالمین

جسے امریکہ سے واپسی پر آپ نے سپردِ قلم کیا تھا، کی حلاوت و شیرینی سے آج بھی زبانیں تر ہیں ۔

تصنیف و تالیف اور دینی علوم کی اشاعت و تعمیم کے لئے آپ نے عربی زبان کے علاوہ اُردو زبان کوبھی منتخب کیا اور اُردو ادب میں بھی آپ نے اپنی شناخت قائم کی۔ اُردو ماہنامہ 'محدث' بنارس کو ہمیشہ آپ نے اپنی گراں قدر اُردو تحریروں سے مزین کیا۔ روزنامہ اُردو اخبار 'آوازِ ملک' بنارس میں برابر لکھا، نیز ملک کے بہت سارے مجلات و جرائد میں آپ کے گراں قدر علمی و فکری مقالات و مضامین شائع ہوتے رہے۔

1987ء میں جامعہ سلفیہ بنارس کی مجلس عاملہ نے آپ کو 'وکیل الجامعہ' (ریکٹر) کا باوقار عہدہ تفویض کیا۔ اس وقت سے آپ نے وفات تک ملک و بیرونِ ملک میں جامعہ سلفیہ کی مکمل و کامیاب نمائندگی کی۔ اپنے علم وقلم سے جامعہ کا خوب خوب تعارف کرایا او رجامعہ کی تعمیر و ترقی کی راہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اس عہدہ پر رہتے ہوئے اُنہوں نے عرب ممالک کے اُمرا و حکما اور علما کے نام جو خطوط لکھے ہیں ، ان کو کتابی شکل میں ترتیب دیا جائے تو کئی جلدوں میں علم و ادب کا بہترین ذخیرہ بن جائے گا۔ 2؍جولائی 2006ء کو آپ رئیس الجامعہ بنائے گئے۔ اس عہدے پر رہ کر جامعہ کے تعمیری و تعلیمی و انتظامی اُمور کو اس قدر خوش اسلوبی اور تندہی کے ساتھ انجام دیا کہ ۹؍ اگست 2009ء کو مجلس منتظمہ نے دوبارہ آپ کو اس عہدہ پر پھر بحال رکھا۔

آپ نے ملک و بیرونِ ملک بین الاقوامی علمی مجلسوں ، اجتماعات اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان میں پیش کئے گئے مقالات کی نقول آج بھی لوحِ قرطاس پر محفوظ ہیں ، جنہیں ترتیب دے کر شائع کیا جائے تو علم و فن کی دنیا میں ایک عظیم اضافہ ہوگا۔

آپ کے علم و فن کی دنیا میں قدم رکھنے اور ملی و جماعتی خدمات کی ادائیگی کی راہ میں مصروفِ عمل ہونے کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے پلیٹ فارم سے تین عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں :

  1. 14،15،16؍ اپریل 1995ء کو مئو میں
  2. 13،14،15؍ مارچ 2004ء کو پاکوڑ میں
  3. اور 18،19؍ اکتوبر 2008ء کو دہلی میں

ان تینوں کانفرنسوں میں جماعت و جمعیت اہل حدیث کے لوگوں نے مجلس استقبالیہ کی صدارت کی عظیم ذمہ داری آپ ہی کو سونپی۔ آپ نے ان کانفرنسوں کی کامیابی و کامرانی میں اہم رول ادا کیا او راپنے بہترین خطباتِ استقبالیہ کے ذریعہ علماء و عوام دونوں طبقہ کے لوگوں کو جمعیت و جماعت سے جڑنے، عقیدۂ سلف پر گامزن رہنے اور کتاب و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کی دعوت دی۔ ان کے علاوہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے دیگر پروگراموں کو بھی آپ نے کامیاب کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

جامعہ سلفیہ بنارس میں منعقد ہونے والی متعدد کانفرنسوں ، اجتماعات، علمی سیمیناروں اور عرب مہمانوں کی تشریف آوری کے موقع پر منعقد استقبالیہ مجلسوں کے انتظام و انصرام میں آپ نے ہمیشہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا۔ بنارس اَدیان و ملل کا قدیم شہر ہے۔ وہاں غیرمسلموں کے پلیٹ فارم سے پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں اور ہر دین و دھرم کے مفکرین و دانشوران کو اپنے اپنے مذہب و دھرم کی نمائندگی کی دعوت دی جاتی ہے۔ آپ نے ہمیشہ ان پروگراموں میں اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی اور مقالات پڑھے۔

عصری یونیورسٹیوں کی جانب سے بھی منعقد ہونے والے متعدد پروگراموں میں آپ کو دعوت ملتی رہتی اور آپ نے ان میں اپنی شرکت کو یقینی بنا کر جامعہ سلفیہ کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اہل علم و عوام کی دنیا کو اپنی آرا و تجاویز سے مستفید کیا۔

جامعہ سلفیہ، بنارس کی مسند ِتدریس پر آپ ابتدا سے تا وفات فائز رہے۔ آپ نے ہم لوگوں کو عربی اَدب، تاریخ ادبِ عربی اور تفسیر بیضاوی پڑھائی۔ آپ گونا گوں علمی، ملی و انتظامی اُمور کے ہجوم کو سنبھالنے کے باوجود ایک فرض شناس مدرّس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ وقت پر کلاس میں موجود ہوجاتے اور گھنٹی کا پورا وقت افادہ و تدریس میں صرف کرتے۔ جب آپ کا بیرونِ ملک کا کوئی علمی و دعوتی سفر ہوتا تو قبل از سفر خارجی اوقات (بعد نمازِ مغرب) میں ان اسباق کو پڑھا دیتے جن کے دورانِ سفر چھوٹ جانے کا ان کو اندازہ ہوتا تاکہ طلبہ کا کسی بھی طور پر علمی نقصان نہ ہو۔ طلبہ کی کردار سازی اور ان کی ذہنی و فکری تربیت آپ کا محبوب مشغلہ ہوا کرتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ کاموں کے انبار ہونے کے باوجود ندوة الطلبة کے تحت منعقد ہونے والے ہفتہ واری تقریری پروگراموں کی آپ برابر صدارت کرتے اور توجیہات و نصائح مفیدہ سے طلبہ کو نوازتے تھے۔ آپ کے ہزاروں شاگردان ملک وبیرونِ ملک میں میدانِ دعوت و تصنیف، تالیف و ترجمہ اور درس و تدریس کے اونچے مقام پر فائز ہیں اور بعض بڑے تعلیمی و دعوتی، تصنیفی و تالیفی اور رفاہی ادارے چلا رہے ہیں ۔ ان سب کے پیچھے دیگر اساتذہ کے بشمول آپ کی توجیہات کا اثر کارفرما رہا ہے۔

تصنیف و تالیف، تعریب و ترجمہ اور انشا پردازی و مضمون نگاری آپ کا خاص میدان تھا۔ اس میدان کو آپ نے تشنہ نہیں چھوڑا۔ عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں آپ کی تین درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ صوت الأمة (عربی مجلہ) کے اداریے، ماہنامہ 'محدث' بنارس میں شائع شدہ مضامین اور ملک و بیرونِ ملک کے دیگر رسائل اور مجلات میں شائع ہونے والے مقالات و انٹرویوز ان کے علاوہ ہیں ۔ اہل حدیث مکتبہ 'الفہیم' مئو نے آپ کے جملہ مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی پیش کش کی تھی۔ آپ نے اس دعوت کو قبول بھی کرلیا تھا اور عربی و اُردو کے مضامین کو ترتیب دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا، مگر شاید یہ کام آپ کی ذات سے لینا اللہ کو منظور نہ تھا کہ کام انجام پانے سے قبل ہی آپ کی وفات ہوگئی۔

آپ نے پوری زندگی جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبۂ تالیف و ترجمہ: إدارة البحوث الإسلامیة کے ڈائریکٹر کافریضہ انجام دیا۔ اس شعبہ سے شائع ہونے والی علمی و فکری، دعوتی و تحقیقی اور درسی و دعوتی کتابیں آپ کے عمدہ ذوق کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کتابوں میں 'عرضِ ناشر' کے عنوان سے شائع شدہ آپ کی عربی و اُردو فکری تحریریں زبان و اَدب اور علم و فن کی شاہکار ہیں ۔ برصغیر ہند کے مختلف مکتبات بعض کتابوں میں آپ سے 'تاثرات' اور 'تقدیمات' لکھواتے تھے۔ ابھی مکتبہ الفہیم مئو سے علامہ محمد اسماعیل سلفی (گوجرانوالہ) کی مایہ ناز کتاب 'تحریک ِآزادیٔ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی' چھپنے جارہی ہے۔ اس کتاب کا آپ نے گراں قدر مقدمہ پچپن صفحات پر مشتمل قلم بند فرمایا ہے۔ آپ جب دہلی اسپتال میں زیر علاج تھے تو آپ کی خواہش تھی کہ اگر یہ کتاب چھپ گئی ہو تو اس کا ایک نسخہ اسپتال پہنچایا جائے۔ کتاب کے نہ چھپنے کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ کی جاسکی۔

عربی زبان و اَدب پر آپ کے کامل عبور نے 1992ء میں آپ کو 'صدرِ جمہوریہ ایوارڈ' کا مستحق بنایا اور تاریخ ادبِ عربی (5 جلدوں میں ) عربی زبان و ادب کی تاریخ پر ایک شاہکار تصنیف قرار دی گئی۔ آپ کے تراجم و تصانیف میں

رحمة للعالمین ﷺ ، قرة العینین في تفضیل الشیخین، مسئلة حیاة النبي ﷺ، حرکة الإنطلاق الفکري، حقیقة الأدب و وظیفته في ضوء تصریحات الأدباء والنقاد، مشکلة المسجد البابري، الإسلام تشکیل جدید للحضارة، خاتونِ اسلام، راہِ حق کے تقاضے، رسالت کے سائے میں ، آپ بیتی، عظمت ِرفتہ وغیرہ کتابیں بے حد مشہور و متداول اور مقبولِ خا ص و عام ہیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تلخیص اردو زبان میں 'معارفِ ابن تیمیہ' کے نام سے اور تحریک ِ شہیدین کے جہود و مساعی کو سلفی نقطہ نظر سے عربی زبان میں ہدیۂ قارئین کریں مگر آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وقت ِموعود آگیا۔

ہندوستان کے دینی و تعلیمی اداروں سے آپ کے تعلقات بڑے گہرے تھے۔ جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینة السلام، بہار جو سرزمینِ ہند کا ایک عظیم ادارہ ہے۔ اس کو دیکھنے اور اس کے اساتذہ و طلبہ اور معلّمات و طالبات سے ملنے، ان کو کچھ کہنے اور سننے کی شدید خواہش آپ کے اندر موجزن تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کی تکمیل بھی فرمائی اور جامعہ امام ابن تیمیہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے المعہد العالي للتخصص في التدریس والتربیة کے افتتاحی پروگرام میں آپ بحیثیت ِمہمانِ خصوصی مدعو کئے گئے۔ یہ پروگرام 31؍ جنوری 2009ء کو منعقد ہوا تھا اور آپ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (مؤسس و رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ) اور شیخ حفیظ الرحمن اعظمی (اُستاذ جامعہ دارالسلام، عمر آباد) کے مبارک ہاتھوں سے المعهد العالي للتخصص في التدریس والتربیة کا افتتاح عمل میں آیا تھا۔ اس علمی و فکری ادارہ کو آپ جیسے تجربہ کار اور ماہرینِ فن اہل علم کے اِشراف و نگرانی کی ضرورت تھی۔ آپ سے یہ درخواست کی گئی تو آپ نے پورے شرحِ صدر کے ساتھ نہ صرف اس کو قبول کیا، بلکہ اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔

آپ نے اس موقع پر علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی خدمات و مساعی کو خوب سراہا۔ اس علم و فن کی بستی کو دیکھ کر بڑی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا اورنیک دعائیں دیں ۔ یہاں کی جملہ نشاطات و سرگرمیوں کا معائنہ کرنے اور ان کے پیچھے علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ کی کارفرما محنتوں اور کاوشوں سے متاثر ہوکر جامعہ کے حق میں آپ نے دو صفحات پر مشتمل جو تاثرات عربی میں تحریر کئے، وہ اس ادارہ کے تئیں آپ کے نیک جذبات کے آئینہ دار ہیں ۔

آپ نے لکھا کہ
''31؍ جنوری 2009ء کو جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینة السلام میں المعهد العالي للتخصص في التدریس والتربیة کی تقریب افتتاح کی مناسبت سے جامعہ کے مؤسس و رئیس عزت مآب ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی دعوت پر راقم الحروف کو اس کی زیارت کا موقع ملا۔ میں محترم ڈاکٹر صاحب کابے حد شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے جامعہ کی زیارت کی دعوت دی۔ اس زیارت نے میری ان خواہشات اور آرزوؤں کو عملی جامہ پہنا دیا جو میرے دل میں اس وقت سے موجزن تھیں جب میں نے بغیر دیکھے ہی جامعہ کے بارے میں لکھا تھا۔ لیکن آج جب کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جامعہ کے کامیاب تعلیمی منصوبوں او ریہاں کے اساتذہ و معلّمات، طلبہ و طالبات کی سرگرمیوں کا نظارہ کیا تو مجھے ایک عجیب سی سرخوشی کا احساس ہوا، اوراس مردِ مجاہد کی ہمت کی داد دینی پڑی جس نے نہ صرف اپنی زندگی جامعہ کے لئے وقف کررکھی ہے، بلکہ اس کی تعمیر و توسیع، اساتذہ کی ہمت افزائی اور طلبہ کی رہنمائی میں اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے۔

جامعہ امام ابن تیمیہ میری نظر میں ایک عظیم علمی و دعوتی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بابرکت تہذیبی مشن ہے جو نہ صرف صوبہ بہار کی تعلیمی و تربیتی ضرورتوں کو پورا کررہا ہے، بلکہ اس کی روشنی پورے اُفقِ ہند پر پھیلتی جارہی ہے۔ میں اس جامعہ کے مؤسس و رئیس ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کو بے تکلف او رپُرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے یہ عظیم علمی قلعہ قائم کیا۔ فرزندانِ ملت کو صحیح علم و عقیدہ کے حصول کے لئے یہ خوبصورت فضا عطا کی اور باحثین و دعاة کو علم اور دین کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر اُبھارا۔ کسی شاعر کا یہ شعر ان پر بجا طور پر صادق آتا ہے:


فانت منـــار المکرمات و ربھا
وأعظم ساع للمعالي و راغب

آپ کا ہمارے علاقہ جھار کھنڈ سے بہت گہرا تعلق تھا۔ علاقہ چھوٹا ناگپور (سنتھال پرگنہ) کے ضلع جام تاڑا کی معروف اہل حدیث بستی 'ٹوپاٹانڑ' میں آپ زمانۂ طالب علمی میں سات سالوں تک تراویح کی نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ درس قرآن وحدیث اور خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ آپ کے ساتھ رہنے والے اور دوستانہ تعلقات رکھنے والے لوگوں کا بیان ہے کہ آپ خالی اوقات کو گپ شپ کے بجائے مدرسہ دار الفلاح ٹوپا ٹانڑ کی لائبریری میں موجودہ کتابوں کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور دورانِ مطالعہ اہمیت کی حامل چیزوں کو اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ مذکورہ بستی سے آپ کی اس قدر محبت تھی کہ تاوفات آپ نے اس کو نہیں بھلایا۔ اس بستی کے بعض غریب بھائیوں کی آپ نے مالی اعانت بھی کی۔

2000ء میں آپ نے اُستاذ محترم شیخ احمد مجتبیٰ مدنی حفظہ اللہ کی رفاقت میں اس بستی کی زیارت کی۔ پرانے دوستوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل کو سنا۔ آپ نے مکمل ایک ہفتہ قیام کیا اور کلیة التربیة السلفیة مدھوپور، جامعہ رحمانیہ مدھوپور، مدرسہ فیض عام چھاتا پتھر، جامعہ محمدیہ ڈابھا کیند اور مدرسہ دار الفلاح، عابد نگر ٹر منڈا اور ٹو پاٹانڑ کی زیارت فرمائی۔ ہر ایک ادارہ کے لئے آپ نے تاثرات لکھے اور اساتذہ ومنتظمین کو نیک مشورے دیئے۔ جامعہ محمدیہ ڈابھا کیند کے صحن میں ایک عام جلسہ کا انعقاد کرا کے علاقے کے لوگوں کو عام خطاب بھی فرمایا۔ عیدگاہ جامع مسجد اہل حدیث پتھر چیٹی مدھوپور میں جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ جامعہ رحمانیہ مدھوپور اور کلیة التربیة میں طلبا وطالبات کو قیمتی نصیحتیں فرمائیں ۔ جب آپ اس سفر سے واپس ہونے لگے تو لوگوں سے کتاب وسنت پر قائم رہنے ، ملی وجماعتی خدمات انجام دینے اور تعلیم و تربیت کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا وعدہ لیا۔

علم ودعوت کا یہ عظیم سپوت اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔وفات سے ایک ہفتہ قبل آپ کو کمر سے لے کر قدموں تک شدید درد کا احساس ہوا۔ آپ دہلی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کئے گئے۔ ماہر ترین ڈاکٹروں کے علاج کے باوجود آپ کی بیماری بڑھتی گئی۔ شاید آپ کی وفات کا وقت اور ربّ کا بلاوا آچکا تھا۔ 29؍ اکتوبر 2009ء بروز جمعرات بوقت 5؍بجے شام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، اور صاف بتا دیا کہ اب آپ صرف پانچ چھ گھنٹے تک ہی باحیات رہ سکیں گے۔ آپ کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان احمد (پروفیسر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) اور دیگر رشتہ دار آپ کے ساتھ تھے۔ سب لوگوں نے آپ کو جلد از جلد وطن عزیز مئو پہنچانا مناسب سمجھا۔ آپ بذریعہ ایمبولینس گھر لائے جا رہے تھے کہ کانپور میں 5؍ بجے صبح بتاریخ 30؍ اکتوبر 2009ء بروز جمعہ ستر سال، دو مہینہ بائیس دن کی عمر پا کر وفات کر گئے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون!

آپ کی وفات کی خبر آپ کے شاگردوں ، جماعتی وغیر جماعتی اَفراد واشخاص اور مدارس وجامعات کے اساتذہ وطلبہ نے جہاں کہیں بھی سنی، وہیں سے مئو کے لئے روانہ ہو گئے۔ بنارس، مبارکپور، اعظم گڑھ ، اور ضلع سدھارتھ نگر، بستی ، گونڈہ، سنت کبیر نگر اور نیپال سے دس سے زائد بسیں ریزرو کرا کے لوگ آپ کے جنازہ میں پہنچے۔ آپ کے جنازہ میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ جنازہ کی نماز، بعد نمازِ مغرب چھ بجے شام ادا کی گئی۔ نماز جنازہ جامعہ سلفیہ بنارس کے نائب صدر مولانا شاہد جنید سلفی بنارسی حفظہ اللہ نے پڑھائی اور آپ اپنے آبائی قبرستان میں دفن کئے گئے۔ دفن کے بعد بھی قبر پر متعدد بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ع


عشق تھا دل میں تر جذبات سے
اس لیے ہم بار بار آیا کئے

آپ کے جنازہ اور تدفین میں جامعہ امام ابن تیمیہ کے پانچ اساتذہ شیخ عبد العلیم مدنی، شیخ محمد ایوب سلفی، شیخ محمد جہانگیر سلفی، شیخ مشتاق احمد سلفی، اور راقم حروف ( اشفاق سجاد سلفی) نے شرکت کی اور اپنے مؤقر ومحترم اُستاذ کو پرنم آنکھوں سے سپردِ خاک کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آپ کے جملہ حسنات کو قبول کرے، جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کے اہل وعیال ، پس ماندگان او راَحباب وتلامذہ کو صبر کی تو فیق بخشے۔آمین! 2

مرحوم کا ایک تذکرہ مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اللہ نے 'دبستانِ حدیث' کے دوسرے حصے 'گلستانِ حدیث' میں اس وقت لکھا تھا جب ڈاکٹر موصوف ابھی بقید ِحیات تھے۔ 'گلستانِ حدیث' عنقریب زیورِ طبع سے آراستہ ہو رہی ہے۔ اس کتاب سے یہ تذکرہ مؤقر ہفت روزہ 'الاعتصام' کے شمارہ بابت 19؍ نومبر2009ء میں چھ صفحات پر شائع کیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لئے اس مضمون کا مطالعہ کریں ۔ ادارہ


حوالہ جات
1. عالیہ جنتری 10، 2009ء؍ 12
2. بہ شکریہ ماہنامہ' طوبیٰ' دہلی