شیر خوار بچے کے پیشاب کی طہارت اور طبی حکمت

عورت کو بحیثیت ِماں جن فرائض کی بجاآوری میں نہایت مشقت اور تندہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، ان میں سے ولادت کے بعد سب سے اہم 'عرصۂ رضاعت' ہے۔جب بچہ صرف دودھ پر گزارا کر رہا ہوتا ہے ، نہ تو وہ کھانا جانتا ہے اور نہ ہی اس کا کمزور نظامِ انہضام ٹھوس غذاؤں کو ہضم کر سکتا ہے، لہٰذا اسے گہری حکمتوں اور رحمتوں کے ساتھ صرف دودھ پینے کی فطری معرفت دی گئی۔اس عرصہ میں ماں کے لیے پاکیزگی اور طہارت کا اُصول جہاں بہت ضروری ہوتا ہے، وہاں نہایت مشکل بھی۔ کیو نکہ بچہ ما ئع غذا پر بھروسہ کرنے کی بنا پر باربار پیشاب کرتا ہے اور چونکہ اس وقت قوت ِگویائی سے محروم ہوتا ہے لہٰذا بتا بھی نہیں پاتا،اس لیے ماں کے کپڑے وغیرہ باربار خراب ہوتے ہیں ۔ اگرچہ فی زمانہ پَـیمپرز Pampersکا استعمال بڑھ گیا ہے لیکن کسی حد تک Pampersکے باوجود پیشاب سے بچے کے کپڑے تر ہو جاتے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی پسماندگی اور سادہ طرز بود و باش کی بنا پر بے شمار خواتین آج بھی روز مرہ استعمال میں Pampersکا دخل کم رکھتی ہیں ۔

ان مسلم خواتین میں عام مسلمانوں کی طرح طہارت کے اسلامی معیار کے حصول کی حرص اگرچہ ہر حالت میں فزوں تر رہتی ہے لیکن ایسے میں شریعت ِاسلامیہ میں شیر خوار بچے کے پیشاب کے بارے میں کوئی نرمی موجود ہے؟ یہ سوال ہر مسلم خاتون کے ذہن میں اُٹھتا ہے۔

موضوع سے متعلقہ احادیث
حضرت اُمّ قیس بنت محصنؓ کی زیر حدیث1 کے علاوہ متعدد احادیث اپنی استنادی صحت کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے بچے اوربچی کے پیشاب کے بارے میں مختلف حکم ہے جو ابھی ٹھوس غذا نہ کھاتے ہوں ۔بچی کے بارے میں احادیث سے حکم ملتا ہے کہ اس کا پیشاب ابتداے ولادت سے ہی دھویا جائے جبکہ بچے کا پیشاب ٹھوس غذا کھانے سے پہلے صرف چھینٹے مار کر پھیلا spreadکر دیا جائے ۔

اس سلسلہ میں حضرت اُمّ قیس ؓ کے علاوہ حضرت عائشہ،2حضرت اُمّ کرزؓ ،3 حضرت امّ فضلؓ 4 اور حضرت علی ؓ5 سےبھی احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث میں سے حضرت زینب بنت جحش ؓ والی روایت کی علامہ عینی نے تضعیف کی ہے کیونکہ اس کے رواة میں سے لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے۔6اس کے علاوہ سب احادیث صحیح ہیں جبکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت امّ قیس ؓکی احادیث تو صحیحین میں مذکور ہیں ، مزید برآں حضرت اُمّ فضل ؓ کی حدیث بھی صحیح ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں :
(إن رسول اﷲ ﷺ کان یُـؤتٰی بالصبیان فیبرك علیھم ویحنکھم فأُتي بصبي فبال علیه فدعا بماء فأتبعه بوله ولم یغسله)7
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارکباد دیتے اور گھٹی دیتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس پر ڈال ؍ چھڑک دیالیکن اسے دھویا نہیں ۔''
اُمّ قیس ؓ کی حدیث میں لفظ فأتبعه کی بجائے فنضحَه مذکور ہے۔ 8

حضرت علی ؓ کی روایت جس کو موضوع قرار دیا گیا ہی یہ ہے :
یغسل من بول الجاریة ویُنَضَح من بول الغلام ما لم یَطعم 9


حضرت اُمّ فضل ؓ کی روایت میں مذکر و مؤنث ہر دو بچوں کا تذکرہ ہے :
إنما یُنضح من بول الذکر ویغسل من بول الأنـثٰی 10

اس موضوع پر یہ اور دیگر متعدد احادیث اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیر خوار بچے کے پیشاب کو محض چھینٹے مارتے تھے اور شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا کرتے تھے۔

روایات میں یہ صراحت سے موجو د ہے کہ ایسا فرق صرف عرصۂ رضا عت میں روا رکھا جاتا ہے۔یہاں (لم یطعم طعامًا) سے مراد دودھ ،کھجور اورشہد __ جس سے گھٹی دی جاتی ہے__ کے علاوہ دیگر غذائیں ہیں ۔11ظاہری بات ہے کہ ان غذاؤں کا استعمال عرصۂ رضاعت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ہوتا ہے۔

اَحادیث میں وارد الفاظ کے معانی

نَضَحَ کا معنی کپڑے پر پانی یا خوشبو چھڑکنا ہے۔ اس کا معنی ٹپکنا بھی آیا ہے۔

اور رَشَّ 12کا معنی پانی کا چھڑکنا یا آسمان سے بوندیں آنا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ ان دونوں الفاظ کے باہم مخالف فی المعنی ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک (رش) تنقیط المآء اور (نضح) صبّ الماء کو کہتے ہیں ۔13اس سلسلے میں وہ مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں صب الماء کے الفاظ لم یغسل کی تصریح کے ساتھ وارد ہوئے ہیں ۔ 14

فقہی اختلاف
مذکورہ بالا مرویات اور معاشرتی مسا وات نیز خوراک میں فرق نہ ہونے کی بنا پر بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست کے حکم پر اختلاف ہوا اور فقہا کے تین موقف سامنے آئے :

  1. شیر خوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی ہے جب کہ بچی کا پیشاب اس عرصہ میں دھویا جائے گا۔ یہ موقف حضرت علی ؓ،حسن بصری ، امام زہری اورعطا ء کا ہے۔ 15
  2. بچے اور بچی دونوں کے پیشاب کو عرصۂ رضاعت کے ابتدائی مہینوں میں دھونے کی ضرورت نہیں ، صرف نضح اور رشّ کے عمل سے گزارنا کافی ہے۔یہ مؤقف امام مالک،16امام شافعی،17امام اوزاعی ،اور ابن العربی18 کاہے ۔
  3. بچے اور بچی خواہ شیر خوار ہوں ، دو نوں کا پیشاب مکمل نجس ہے اور دونوں کو دھونا ہی لازم ہو گا ،دونوں یا کسی ایک کو نضح یا رشّ کے عمل سے گزارنا کافی نہ ہوگا۔یہ موقف احناف کا ہے اور مالکیہ میں سے بھی بہت سے یہی رائے رکھتے ہیں ۔ 19

ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضح کا لفظ غسل کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ 20

لیکن اس کا جواب 'طفل رضیع' والی حدیث سے اپنے آپ مل جاتا ہے کہ کسی بھی لفظ کو قریب تر معنی کے لیے یا غیرموضوع لہ کے لیے استعارةً استعمال کیا جاسکتا ہے ، البتہ اگر اس کی تصریح یا تفسیر اسی جملے میں موجود ہو تو اسے قیاس کے ذریعے متعین کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سیدہ اُمّ قیس اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی احادیث میں لم یغسل کے الفاظ نے نضح یا رش کے معنی خود متعین کردیے ہیں اور یہ راوی یعنی متکلم کے ہی الفاظ ہیں جبکہ فقہ حنفی میں اسے ہی 'مفسر' کہا جاتا ہے اور اس پر بغیر کسی احتمال کے عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔

ایسے ہی حضرت علی اور حضرت اُمّ الفضل رضی اللہ عنہما کا عمل بمقابلہ بیان ہو رہا ہے اور جب ایک لفظ کسی دوسرے لفظ کے مقابلہ میں ہو تو بھی یہ معنوی تصریح کے لیے کافی ہوتا ہے، لہٰذا حنفیہ کا یہ موقف انتہائی کمزور ہے اور ان کی دلیل جو کہ نضخ یا رش کے معنی میں دی گئی ہے، وہ ناقابل اعتبار ہے۔ ان احادیث میں ہی واردہ کلمات سے ہی اس بات کی توضیح ہو رہی ہے کہ یہاں نضخ اور رش سے مراد غسل نہیں ہے ۔

اسی طرح جن لوگو ں نے بچے یا بچی ہر دو کے پیشاب کے لیے نضح اور رش کو کافی قرار دیا ہے، ان کی دلیل بھی کمزور ہے اور اوپر کے اُصول کے تحت یہ موقف بھی مردود ہے۔ البتہ پہلا موقف کہ بچہ اور بچی کے پیشاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا ہے،حدیث کے موافق ہے اور حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کا بیان کردہ نضخ اور رش کا فرق حدیث کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ درا صل رش اور نضح غسل کی ہی قسم ہے لیکن غسل نہیں ہے۔

فرق کی حکمت
سوال یہ ہے کہ بچے اور بچی کے پیشاب کی خباثت ونجاست میں یہ فرق کن وجوہ و اسباب کی بنا پر کیا گیا ہے ؟ علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ اس کے تین اسباب بتاتے ہیں :

  1. چو نکہ بچے کو زیادہ کھلایا جاتا ہے اور مرد گھر سے باہر بھی اُٹھا کر لے جاتے ہیں ،اس کے پیشاب کو اس قدر نجس قرار دینا باعث ِ تکلیف تھا لہٰذا اس طرح تکلیف میں کمی کر دی گئی جو کہ شریعت کا ایک مقصد ہے۔
  2. چونکہ بچے کا پیشاب ایک جگہ اکٹھا نہیں گرتابلکہ نضح کی شکل میں بکھر جاتا ہے۔اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر زہریلا مواد زیادہ جگہ پر پھیلا دیا جائے تو اس کے زہریلے اثرات کم ہو جاتے ہیں جبکہ بچی کا پیشاب ایک ہی جگہ گرتا ہے لہٰذا وہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اسے دھو کر ہی خباثت دور کی جا سکتی ہے ۔
  3. یہ کہ بچے کے پیشاب میں حرارت اور بچی کے پیشاب میں رطوبت زیادہ ہوتی ہے اور حرارت کی بنا پراثرات کم اور رطو بت کی بنا پر زیادہ ہوتے ہیں ۔ 21

علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ بلا شبہ اپنے علم اور بصیرت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت سمیٹے ہوئے ہیں اور ان کی اسی بصیرت میں سے مؤخر الذکرد و وجوہ نہایت اہم ہیں لیکن پہلی وجہ نامناسب اور شریعت ِاسلامیہ کے معیارِ طہارت سے بعید ترہے،اس لیے اسے تسلیم کرنا مشکل ہے۔

بچے اور بچی کے نظامِ پیشاب میں طبی فرق
بچے اور بچی کے پیشاب میں موجود فرق ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں راقمہ؍ محققہ کا لمبا عرصہ صرف ہوا،لیکن اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا اور حقیقی علم دے کر بھیجا۔ اسلام کانظریۂ طہارت نہایت جامع ہے جو بیک وقت روحانی پاکیزگی، نیت کے اخلاص، بگاڑ سے محفوظ عمل، ظاہری صفائی اور نظافت، طراوتِ عقل و ذہن اور بدنی بیماریوں کی افزائش کرنے والے ماحول سے چھٹکارا پانے کے ساتھ ساتھ صحت و تندرستی کے لیے مدد گارہے، لہٰذا پیشاب کا طبی مطالعہ حدیث میں بتائے گئے شیر خوار بچے اور بچی کے پیشاب کی صفائی کے حکم میں فرق کو سمجھنے میں نہایت مدد گار ثابت ہوا۔

دراصل بچے اور بچی کا پیشاب کا نظامِ اخراج بالکل مختلف ہے۔نہ صرف نظامِ اخراج بلکہ نظامِ تولید بھی مختلف ہے۔پھر دونوں میں جو جسمانی اور جنسی اختلافات ہیں ، وہ قدرت نے اتنے زیادہ کر رکھے ہیں کہ دونوں کو ایک کر دینا کسی بھی نظریہ (Theory) کے بس میں نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں سے عام حالات میں مختلف کام لیے جاتے ہیں لہٰذا دونوں کا نظام بھی مختلف بنایا جیسا کہ دونوں کی دلچسپیاں بھی مختلف ہیں ۔ i

بچے اور بچی کے پیشاب میں درج ذیل فرق ہیں :

  1. مقدار میں
  2. مواد کی مقدار میں


مقدار میں فرق
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انسان کے اندر ایسا نظام بنایا ہے کہ وہ جو کچھ کھاتایا پیتاہے وہ قدرتی طریقوں سے چھانا (Filter)جاتا ہے۔چھاننے Filtrationکے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خوراک میں موجود مفید اَجزا کی ایک بڑی مقدار جزوِ خون یا جزوِ بدن بن سکے ۔اور غیر مفید یا نقصان دہ اجزا اَلگ ہو کر قابل اخراج ہو سکیں ۔ چھاننے کا یہ عمل چوبیس گھنٹوں میں متعدد مرتبہ سر انجام پاتا ہے جس کے نتیجہ میں پانی کی دو سے پانچ (۲ تا۵) لیٹر مقدار انسانی مثانوں میں جمع ہو جاتی ہے۔مختلف تجرباتی تجزیوں (Analysis) سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مؤنث اپنے مثانوں میں جمع شدہ پیشاب کی مقدار کا تقریباً ۷۵فیصد حصہ خارج کرتی ہے اور خارج کر کے ایک ہی جگہ پر گراتی ہے جس سے اس جگہ پرمضر خود رَو جراثیم (Bacteria)کی نشوو نما کا مدد گار ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔

جبکہ مذکر اپنے مثانوں میں جمع شدہ پیشاب کی کل مقدار کا تقریباًکم حصہ خارج کرتا ہے اور بقیہ غالب مقدار اندر ہی رہتی ہے جبکہ وہ کم مقدار بھی زیادہ جگہ پر پھیل جاتی ہے لہٰذا بیکٹیریا(Bacteria)کی افز ائش کے لیے اس جگہ پر پورے طور پر مدد گار ماحول پیدا نہیں ہو پاتا۔عام طورپر ماؤں کواس کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ بچے کی نسبت بچی زیادہ مقدار میں پیشاب کرتی ہے، لہٰذابچے کے پیشاب کے گرنے والے مقام پر صرف چھینٹے مار دینے سے اس ماحول کو مزید کمزور بلکہ بیکٹیریاکی افزائش و نموکے لیے بالکل غیر معاون بنا دیا جاتاہے جبکہ بچی کے پیشاب کے گرنے والے مقام پربیکٹیریاکے لیے ماحول کو غیرمددگار بنانے کے لیے اس کو دھونا ضروری ہو جاتا ہے۔

مضرمواد کی مقدار میں فرق
میڈیکل سائنس کی زبان میں پیشاب کے اندر موجود مواد مختلف قسم کے مرکبات ہیں ، ان میں پانی کے علاوہ دیگر نامیاتی اور غیر نامیاتی نمکیات اور مختلف قسم کی پروٹین (Protiens) ہوتی ہیں ۔ پھر پرو ٹین اور دوسرے غذائی اجزا کی تھوڑ پھوڑ کے نتیجے میں کچھ زہریلے مرکبات بھی پیدا ہوتے ہیں ۔مثلاًاَمونیا(Ammonia)،یوریا(Uria)اور یورک ایسڈ(Urek Acid) وغیرہ۔

اور طبی سائنس میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ان مرکبات کی مقدار خوراک کی نوعیت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔جب مرکبات کی مقدار پر خوراک کے اثرات پڑتے ہیں تو ان مرکبات کی توڑ پھوڑکی بنیاد پر پیدا ہونے والے زہریلے مادوں کو بھی زہریلے مرکبات کی اثر انگیزی منتقل ہو جاتی ہےپیشاب میں ان تمام مرکبات کے ارتکازکاانحصارخوراک پرہوتاہے۔مثلاًاگرخوراک میں پرو ٹینز اورکاربوہائڈریٹس(Carbohydrates)زیادہ ہوں گے تو زہریلے مادّوں کا ارتکاز بھی اسی رفتار سے بڑھ جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ فطری نظامِ مقدار اور بار بار چھاننے Filtrationکے متحرک نظام کی بنا پر وہ بچہ جو ابھی شیر خوار ہے ، کے پیشاب میں زہریلے مادوں کا ارتکاز خطر ناک حد تک نہیں ہو پاتا۔ جبکہ شیر خوار بچی کے اندر فطری مادوں کے ساتھ ساتھ اس کے گردوں کے اندر ہونے والے Filtrationکے سست عمل کی بنا پرپانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے اس کے پیشاب میں زہریلے مادّوں کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔فلٹریشن کا یہ عمل ایک سے زائد مرتبہ ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ نیفران (Nephrones) (خون کی چھوٹی چھوٹی نالیاں جو گردے کے اندرہوتی ہیں )کے شروع والے حصے میں ، جس کے نتیجے میں پانی کی بڑی مقدار خون سے الگ ہو جاتی ہے،یہ مقدار۴ تا ۵ لیٹر ہوتی ہے اس کے بعد نیفران (Nephrones)کے درمیانی حصہ میں آ کر پانی کی کافی مقدار خون میں دوبارہ جذب ہو جاتی ہے۔ پانی کے ساتھ کچھ زہریلے مادے بھی خون میں داخل ہو جاتے ہیں ، جس کی بنا پر اس کی Altra-filtrationہوتی ہے اور زہریلے مادے پانی کی کچھ مقدار کے ساتھ خون سے الگ ہو جاتے ہیں ،جو کہ گاڑھے پانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ تقریباً۹۰ فیصد رقیق پانی پھر سے خون کے ساتھ مل جاتا ہے۔ یہ دوسری Filtrationاور دوبارہ جذب(Reab)کا عمل Nephronesکے تیسرے حصے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں تقریباً ۱۰ فیصدپانی پیشاب کی شکل میں خارج ہوتا ہے، علاوہ ازیں زہریلے مادوں کی کثرت کی بنا پر گاڑھا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ 22

پیشاب میں زہریلے مادوں کا ارتکاز اور پھر ان کی بڑی مقدار کے ساتھ جب اس کا اِخراج ہوتا ہے تو اچھی طرح دھوئے بغیر اس کی ناپاکی کے ساتھ خطرناکی بھی کم نہیں ہو سکتی۔

مختلف تجربات کے نتیجے میں طبی تجزیہ کار عورت اور مرد کے پیشاب کے زہریلے پن میں ایک واضح فرق موجود پاتے ہیں اور زہریات کی مقدار کا یہ فرق خوراک کے علاوہ فطری طور پر رکھ دیا گیا ہے۔بلکہ یہ فرق بچے کے انتہائی ابتدائی مراحل جس میں جنس، جسم یا شکل کی ظاہری ہیئات سے بھی پہلے یعنی Gameteاور Embrioکے دور میں ہی پیدا کر دیا جاتا ہے جو کہ بڑھاپے تک یو نہی چلا جاتاہے۔اس کی ظاہری وجہ جنسی ہارمونز(Harmones)کے ساتھ ساتھ خون سے پیشاب کو الگ کرنے والے ہارمونز پر ہوتا ہے۔ اور یہی اثرات زندگی کے مختلف پہلوؤں ،کردار اور اعضاے جسم کی کار کردگی پر پڑتے ہیں اور جسم میں زہریات کے عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔ 23

Epidimology (معاشرے میں ماحولیات کے اثرات سے پھیلنے والی بیماریوں کا علم) اورToxicology (زہریات کا علم) کے مضامین میں اس پر کافی کام ہو چکا ہے اور اس کی وضاحت میں بہت کچھ موجود ہے۔

اگرچہ اس طب کے شعبے میں Gender balence desigenکو مد نظر رکھ کر مزید مطالعہ کیا جائے تو ایسے نکات سامنے آنے کی گنجائش موجود ہے جو مرد اور عورت میں مرکباتی مقدار میں فرق کا پتہ چلا سکیں ۔مسلم ماہرین تجزیہ نگاروں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ِمبارکہ کو بنیاد مانتے ہوئے اس میں علم و تحقیق کے کئی دروازے وا کرنے کا کام اپنے ذمے لینا چاہیے۔

بہر حال Filtrationکے اس عمل کی عورت میں سستی کی وجہ سے بہت سے زہریلے مرکبات اس کے پیشاب میں زیادہ مقدار میں جاتے ہیں کیونکہ ہارمونزکا عمل اپنی اثر انگیزی میں کمزور ثابت ہوتا ہے۔ اس بنا پربچی کے پیشاب کے مقابلہ میں چند ایسے مواد زیادہ مقدار میں جمع ہو جاتے ہیں جن کا خطرہ ان کی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے جبکہ چند ایسے ہوتے جن کی مقدار بچے کی نسبت کم رہ جاتی ہے اور ان کا کم مقدار میں ہونا ہی زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔

کم مقدار کے زہریلے مادے یورک ایسڈ(Uric Acid)،یوریا(Urea)اور ایمونیا(Ammonia)کو پھیلنے اور بڑھنے میں مدد دیتا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو بڑھتی عمر میں جوڑوں اور ہڈیوں کی درد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ اس عمر میں زیاہ ہوتا ہے جب اس ہارمونل نظام میں تبدیلی واقع ہوتی ہے یعنی جن (Harmones)زہروں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے وہ ہیں CY3A4,CYP2A6,CYP2B6 اور جن کی مقدار کم ہوتی ہے،وہ ہیں P45(,44T,CYPIA2,CYO2EI یو رین ڈائی فاسفیٹ گلو کورو نوسل ٹرانسفر وغیرہ۔ 24

renal clearance of unchanged drug is decreased in females due to a lower glomerular filtration. Sex differences in activity of the cytochrome p45( (CYP) and uridine diphosphate glucuronsy ltransferase (UGT) enzymes and renal excretion will result in differences in CI. There i evidence for females having lower activity of CYP 1 A2, CYP2EI, and UGT; higher activity of CYP3A4, CYP2A6, and CYP2B6. This lower activity of enzyme results in retention of toxic substances in the urine of females 25.

المختصر یہ کہ مرد و عورت FiltrationاورHormonesکا نظام تا حیات مختلف ہی رہتا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ خوراک جو انسان کھاتا ہے، اس کے نہایت زیادہ اثرات ان مادوں پر پڑتے ہیں ۔ لہٰذا جب بچہ ٹھوس خوراک یعنی دودھ،کھجور،گھٹی اور شہد بطورِ علاج کے سوا کچھ نہیں کھاتا، تو زہریلے مادے اتنی مقدار میں نہیں ہو پاتے کہ وہ اپنے اثرات پیشاب کے ذریعے زیادہ چھوڑیں ، لہٰذا اس وقت چھینٹے مار کر اس کے معمولی اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ بچی چونکہ پہلے دن ہی زہریلے اثرات زیادہ رکھتی ہے، لہٰذاپہلے دن سے ہی اس کے پیشاب میں زہریلے مادے زیادہ ہوتے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک بات ہے، لہٰذا اس کے ان اثرات کوختم کرنے کے لیے اس کا پیشاب دھونا ہی درست ہے۔ 26


حوالہ جات

1. صحیح بخاری :223
2. صحیح بخاری: 222
3. سنن ابن ماجہ:527
4. سنن ابن ماجہ: 522
5. سنن ابن ماجہ: 525
6. تحفة الأحوذي:کتاب الطهارة،باب ما جاء في نضح بول الغلام
7. صحیح مسلم:286
8. صحیح بخاری :223
9. سنن ابو داؤد:377 قال الألباني:صحیح موقوف
10. سنن ابن ماجہ :522
11. فتح الباری:4312
12. المعجم الوسیط: 2،1 ص: 928 اور 347
13. فتح الباری:4322
14. ایضاً
15. ایضاً
16. فتح الباری:2 432
17. ایضاً، المعتمد: 771
18. فتح الباری:2 432
19. ایضاً، بدایة المجتهد: 1041
20. سنن ابو داؤد:207 اُصول الشاشی: ص 23
21. تحفة الأحوذي،کتاب الطهارة، باب ما جاء في نضح بول الغلام
22. Urine by Wikipedia; the free encyclopeadia
 URL http://www.wikipedia.com at [Nov. 6, 2008]
23. Environmental research Vol.104, Issue 1, May 2007, Pages 7-8 on Methodologies for the Safety Evluation of Chemicals: Workshop 16. Gender Differences and Human and Ecological risk.
24. Evluation of Chemicals: Workshop 16. Gender Differences and Human and Ecological risk.
25. Do
26. بچے اور بچی کے پیشاب اور کے اخراج کے عمل کو تفصیل سے جاننے کے لیے دیکھئے : htp//wwww.wikipedia.com


i. تحفة الاحوذی: 1؍239