قرآن،آئینِ پاکستان اور قائد اعظم
حکمت و دانش کا تقاضا ہے کہ انسان جس موضوع کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا ہو، اُس کے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے یا حتمی رائے کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے۔ ورنہ اُس کی کم علمی اور جہالت اُس کے لیے رسوائی اور خجالت کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر کچھ لوگ دانش مندی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی غیرمحتاط اور بے باکانہ انداز میں ایسے بیانات بھی داغ دیتے ہیں جس پر اُنہیں تنقید اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ سننے والوں کے ذہن میں ایک 'پیکر ِجہالت' کا تاثر چھوڑتے ہیں۔ ۲۳؍مئی ۲۰۱۰ء کو فوزیہ وہاب نے میڈیا کے سامنے جو بیان دیا، اُس سے کچھ اسی قسم کا تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نہایت قابلِ اعتراض تھا جسے بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور عین ممکن ہے کہ خود فوزیہ وہاب کے سیاسی کیرئیر پر اس نامعقول بیان کے دیرپا اَثرات مرتب ہوں۔
فوزیہ وہاب نے صحافیوں کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا :
''حضرت عمرؓ کے دور میں آئین نہیں تھا، صرف قرآنِ مجید تھا۔ آج کی عدالتیں صدرِ مملکت کا احتساب نہیں کرسکتیں،کیونکہ اُنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے، آئین نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمرؓ کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ صدر عام شہری نہیں ہوتا۔ اگر صدرِ مملکت کو تحفظ نہیں دیا جائے گا تو وہ کام نہیں کرسکیں گے۔'' (جیو ٹی وی ، اے آر وائی نیوز)
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوزیہ وہاب کو اسلام میں حاکمیت کے تصور اور اس تصور کے آئینِ پاکستان کی اَساس سے تعلق کے بارے شعور اور فہم نہیں ہے، ورنہ وہ یہ بیان کبھی نہ دیتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں خلیفہ یا امیرالمؤمنین کی قرآن و سنت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کا بھی اُنہیں اندازہ نہیں ہے۔ ہمیں گمانِ غالب ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے اس موضوع پر واضح بیانات پر بھی ان کی نگاہ نہیں رہی، ورنہ شاید وہ یہ بیان دینے سے گریز کرتیں۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور جدید تعلیم یافتہ افراد کی کثیر تعداد دیگر موضوعات کے متعلق تو بہت جانتی ہے مگر اس اہم موضوع کے متعلق اُنہوں نے جاننے کی شاید کبھیکوشش نہیں کی۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس موضوع پر مصورِ پاکستان، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحکے کئی ایک ارشادات ریکارڈ پر ہیں جن سے ہم راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ قائداعظم کے درجنوں بیانات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں۔
۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے، قائداعظم الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ وکلا کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ وہاں یہ مکالمہ ہوا:
ارکانِ وفد: پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟ ... کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟
قائداعظم: پاکستان کا دستور بنانے والا مَیں کون ہوں؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے ہی بن گیا تھا۔
۲۷؍جولائی ۱۹۴۴ء کی بات ہے۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر محمد جان بیرسٹر نے پوچھا: سر! آپ جو پاکستان بنانا چاہتے ہیں، اس کا دستور کیا ہوگا؟
قائداعظم:یہ تو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ مَیں کیا بتا سکتا ہوں؟
محمد جان: اگر ہم فرض کرلیں کہ آپ کی موجودگی میں پاکستان بنتا ہے اور آپ اس ملک کے سربراہ ہیں تو پھر دستور کی حیثیت کیا ہوگی؟
قائداعظم: ''اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کے پاس تیرہ سوسال سے دستور موجود ہے۔''
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
''مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا مَیں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سوسال قبل قرآنِ حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔''
۱۹۴۵ء میں ممبئی میں عیدالفطر کے موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآنِ پاک غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔''
قائداعظم نے فرمایا:
''مَیں نے قرآنِ مجید اور قوانینِ اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کارُوحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی پہلو ہو یا معاشی، غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے اِحاطہ سے باہر ہو۔ قرآنِ کریم کی اُصولی ہدایت اور طریقِ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت، غیرمسلموں کے لیے حسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ دیتی ہے، اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔''
مسلمانانِ پشاور کے عظیم اجتماع میں ۲۶؍نومبر ۱۹۴۵ء کو قائداعظم نے جو بیان دیا، وہ بے حد جامع اور ہمارے لیے راہنمائی کے اُصول فراہم کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
''اسلامی حکومت کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور فرمائش کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کے لیے تعمیل کا مرکز 'قرآنِ مجید' کے اَحکام اور اُصول ہیں۔ اسلام میں نہ اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ 'اسلامی حکومت'دوسرے الفاظ میں ''قرآنی اُصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔''
قائداعظم کے یہ اور دیگر اس طرح کے بیانات 'حیاتِ قائداعظم'، 'قائداعظم کا مذہب و عقیدہ'، 'قائداعظم کی تقاریر و بیانات' جیسی مستند کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ بیانات اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ ان کی مزید وضاحت اور تعبیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قائداعظم نے اپنے بیانات میں تواتر سے قرآنِ مجید اور شریعت ِاسلامیہ کو تیرہ سوسال پہلے کا آئین قرار دیتے اور اِسے دیگر اقوام کے سامنے نہایت فخر سے بیان کرتے تھے مگر افسوس آج کس قدر مغالطہ آمیز ور گمراہ کن بیانات دیے جارہے ہیں۔ ایسے بیانات صرف وہ شخص دے سکتا ہے جس کی بدنصیبی نے اُسے اسلام، اسلامی تاریخ، اسلام کے سیاسی فلسفہ اور نظامِ حیات کے مطالعے سے محروم رکھا ہو۔ فوزیہ وہاب کو قائداعظم کے مندرجہ بالا بیانات کو غور سے پڑھنا چاہیے اور پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا بیان کس حد تک نامعقول ہے!!
علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا تصور پیش کیا مگر یہ خیال کہ قرآن ملتِ اسلامیہ کا آئین ہے، آپ بہت پہلے پیش کرچکے تھے۔ فوزیہ وہاب جیسی سوچ کے حامل افراد کو اگر زبانی بتایا جائے تو شاید وہ یقین نہ کریں مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق فارسی شاعری کی کتاب 'رموزِ بے خودی' جب ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی تو اقبال نے اپنی اس طویل نظم کے ایک حصہ کا عنوان 'آئینِ محمدیہ قرآن است'رکھا۔اس عنوان کے تحت ۳۵؍اشعار درج ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے درج ذیل معروف اشعار بھی ان میں شامل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
ملّتی را رفت چوں آئین ز دست
مثل خاک اجزای اُو از ہم شکست
ہستیِ مسلم ز آئین است و بس
باطن دینِ نبیؐ این است و بس
آن کتاب زندہ قرآنِ حکیم
حکمت اُو لا یزال است و قدیم
نوعِ انسان را پیام آخرین
حامل او رحمتہ للعالمین
نسخۂ ی اسرارِ تکوینِ حیات
بی ثبات از قوتش گیرد ثبات
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
ان اشعار کا آسان ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
'' جس قوم نے آئین ہاتھ سے جانے دیا، اس کے اَجزا خاک کی صورت پریشان ہوگئے۔ مسلمانوں کی قوت کا دارومدار آئین پر ہے (جو قرآن کریم کی صورت ہمارے پاس ہے)۔ ہمارے نبی1 کے دین کا باطن بھی آئین میں ہے۔ قرآن ایک زندہ و تابندہ کتاب ہے، اس کی حکمت لازوال اور اس کی دانش قدیم ہے۔ یہ نوعِ انسانی کے لیے آخری پیغام ہے۔ حضرت محمد1 جو رحمتہ للعالمین ہیں، اس کے حامل ہیں۔اگر مسلمانوں کی طرح جینے کا ارماں رکھتے ہو تو جان لو کہ قرآن کے علاوہ کوئی ہادی نہیں مل سکتا۔''
علامہ محمد اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے لیے قرآنِ مجید کو آئین قرار دیا ہے۔ درحقیقت پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کا یہ بنیادی نکتہ رہا ہے اور اس کے متعلق کبھی شکوک و شبہات یا ذہنی تحفظات وارد نہیں کیے گئے۔ اسلامی تاریخ میں جن برگزیدہ ہستیوں نے اسلام کی سیاسی فکر پر قلم اُٹھایا ہے، ان میں الماوردی، نظام الملک طوسی، امام غزالی، ابنِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ تعالیٰ کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ ان سب مفکرینِ اسلام نے قرآنِ مجید کو اسلام کی سیاسی فکر اور نظامِ ریاست کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم اپنے اسلاف کی اسی تابندہ فکر کے علم بردار تھے۔
۲۳؍مئی کو دن کے تقریباً ۱۱بجے میڈیا نے فوزیہ وہاب کا بیان نشر کیا۔علماے دین، ماہرینِ قانون، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے فوری احتجاج بھی سامنے آیا۔ میڈیا نے اس احمقانہ بیان کا اتنا مؤثر تعاقب کیا کہ شام ہوتے ہی فوزیہ وہاب نے پسپائی اختیار کرنے اور معذرت پیش کرنے میں ہی عافیتجانی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں اس نے قدرے عقل مندی سے کام لیا اور مزید تنقید سے وقتی طور پر نجات حاصل کرلی۔ فوزیہ وہاب نے وضاحت کی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اُس نے قرآنِ مجید پر آئین کو کبھی فوقیت نہیں دی۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ حضرت عمرؓ کا بے حد احترام کرتی ہے۔ البتہ اُس نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا کہ اُس کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
نجانے 'سیاق و سباق' سے موصوفہ کیا مراد لیتی ہیں؟!!
ہماری رائے میں اُس نے جو بات کی تھی، اُس کو میڈیا نے بالکل درست سیاق وسباق میں سمجھا اور پیش کیا۔ درحقیقت پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے صدرِ مملکت کے خلاف عدالتی کاروائی کے متعلق استثنا کو موضوع بناتے ہوئے سوال کیا کہ اگر حضرت عمرؓ کو عدالت میں بلایا جاسکتا ہے تو صدرِ پاکستان کو کیوں نہیں؟ اُس صحافی نے اپنے سوال کی تائید میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کا حوالہ بھی دیا جو اُنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے دیے تھے۔ بیرسٹر صاحب نے صدرپرویز مشرف کے خلاف دلائل دیتے ہوئے حضرت عمرؓ کی مثال دی تھی۔ بہرحال سیاق و سباق واضح ہے، البتہ اس پر مزید بات کی ضرورت شاید نہیں ہے۔
یہ موضوع شاید آنے والے دنوں میں بھی زیر ِ بحث رہے۔ اس لیے کچھ مزید اُصولی باتیں اور حقائق اگر پیش کردیے جائیں تو مناسب ہوگا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل۲کی رُو سے اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی مذہب ہے۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے مطابق پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ یہ آرٹیکل یہ بھی کہتا ہے کہ اگر موجودہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے تو اُنہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا اور مطابقت پیدا کی جائے گی۔ آرٹیکل۴۱ کے مطابق صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے، پھر قراردادِ مقاصد جسے اب آئین کے قابلِ تنفیذ آرٹیکل (۲؍اے) کا درجہ حاصل ہے،بے حد وضاحت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سب باتیں معروف ہیں، البتہ آئین میں صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے جو حلف کی عبارت دی گئی ہے، اُس کا تذکرہ کم کم ہوتا ہے۔ اس عبارت میں جہاں حلف لینے والے صدر کو توحید ِباری تعالیٰ اور قرآنِ مجید کو آخری الہامی کتاب اور حضرت محمد1 کی ختمِ نبوت اور یومِ آخرت پر ایمان کا اقرار کرنا پڑتا ہے، وہاں قرآنِ مجید کے 'تمام تقاضوں اور تعلیمات' پر عمل پیرا ہونے کا بھی حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ 'تمام تقاضے اور تعلیمات' کے اندر سب کچھ آجاتا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ آئینِ پاکستان کی رُو سے بھی قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس تناظر میں فوزیہ وہاب کے مذکورہ بالا بیان کو دیکھا جائے تو وہ غیرمنطقی، غیرعقلی اور حددرجہ قابلِ اعتراض اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
فوزیہ وہاب کا یہ بیان بھی لاعلمی کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں آئین نہیں تھا۔جنابِ رسالت مآب1نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے وقت ہی یہودیوں سے 'میثاقِ مدینہ' کی صورت میں معاہدہ فرمایا تھا۔ قرآن و سنت کے عظیم ضابطوں کو ہی خلافتِ راشدہ اور بعد کے اَدوار میں آئین کی حیثیت حاصل رہی،لہٰذا حضرت عمرؓ کو کسی الگ آئین کی ضرورت ہی نہ تھی۔شریعت ِاسلامیہ میں حاکمیت، عدل و انصاف، انتظامیہ اور دیگر اداروں کے لیے ہمیشہ سے واضح ضابطے موجود ہیں۔
بادشاہوں کے 'خدا' ہونے اور خدا کا 'اوتار' یا 'ظلِ الٰہی' ہونے کا تصوربہت قدیم ہے۔ فراعنۂ مصر ، روم و یونان کے 'شہنشاہوں' کے لیے یہ القابات استعمال ہوئے تھے۔ پندرھویں اور سولھویں صدی میں جب چرچ اور بادشاہ کے درمیان اختیارات اور قانونی برتری کے حصول کی کشمکش عروج پر تھی، یورپ کے سیاسی فلاسفہ نے بادشاہوں کے لیے 'خدائی حقوق' کے نظریے کا پرچار کیا تھا۔اس نظریے کے مطابق بادشاہ سے غلطی یا جرم کا صدور نہیں ہوسکتا، اِس لیے اس کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ اُسی زمانے میں برطانیہ میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش بھی برپا تھی جو بالآخر ۱۶۶۸ء کے 'سنہری انقلاب' پر منتج ہوئی جب انگریزوں نے ہمیشہ کے لئے تسلیم کرلیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں بالادستی حاصل ہے۔
برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقا ایک خاص نکتے پر آکر ٹھہر گیا۔ برطانوی قوم کی مخصوص نفسیات کی وجہ سے بادشاہت کا ادارہ قائم رکھا گیا۔ بادشاہ سے باقی سب اختیارات چھین لیے گئے، البتہ اُس کا یہ استحقاق باقی رکھا گیا کہ اُس کے خلاف کوئی قانونی یا عدالتی کاروائی نہیں ہوسکتی۔ بظاہر یہ جمہوریت کے تصورِ مساوات کے منافی ہے!!
مسلمانوں کی تاریخ کے دورِ ملوکیت میں خلیفۃ المسلمین یا سلطان کے لیے 'ظل اللہ فی الارض'کا تصور موجود رہا ہے۔ اب بھی بعض قدیم خطبات میں یہ روایتی الفاظ ملتے ہیں۔ مگر کسی بھی دور میں مسلمانوں کے بادشاہوں نے اپنے آپ کو شریعت سے بالاتر سمجھا ،نہ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کے لیے کسی استثنا کا سہارا تلاش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفاے راشدین کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید، سپین میں عبدالرحمن سوم، برصغیر میں علائوالدین خلجی، التتمش اور اورنگ زیب عالمگیر جیسے مقتدر بادشاہ بھی قاضی کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ (اس موضوع پر دسمبر۲۰۰۹ء کے 'محدث' میں ایسے متعدد تاریخی واقعات اور شرعی اَحکام جمع کردیے گئے ہیں)
۱۹۷۳ء میں جب پاکستان کا آئین بنایا گیا تو اس میں آرٹیکل۲۴۸؍اے بھی شامل کیا گیا جو صدر کو فوجداری مقدمات میں استثنا عطا کرتا ہے۔ گمان یہی ہے کہ اس معاملے میں بعض جدید ریاستوں کی دستوری روایات کو برقرار رکھا گیا۔ ۱۹۷۳ء کی قومی اسمبلی میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا غلام غوث ہزاروی اور جماعت ِ اسلامی کے اراکین بھی شامل تھے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کی موجودگی میں آئینِ پاکستان کے اس آرٹیکل پر کیونکر رضامندی اور اتفاقِ رائے ہوگیا، جبکہ اس سے قبل علما کے ۲۲ نکات میں صدر کو یہ استثنا دینے کی ممانعت موجود تھی۔ البتہ جب جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو اس آرٹیکل کے متعلق رائے زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سفارش کی کہ اس میں مناسب ترمیم کی جائے۔ ۱۹۸۵ء میں جب آئین بحال ہوا اور آٹھویں ترمیم پیش کی گئی تو آرٹیکل۲۴۸ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔ غالباً جنرل ضیاء الحق بطور صدرِ مملکت ، اس کے برقرار ہنے میں زیادہ عافیت محسوس کرتے تھے۔ آج بھی ہمارے جمہوری دانشور اس بات پر بہت کم غور کرتے ہیں کہ آرٹیکل۲۴۸میں صدر کی ذات کو جو استثنا حاصل ہے، اس کا حقیقی فائدہ دراصل ماضی کے فوجی آمروں کو ہی حاصل ہوا جو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز تھے۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بطورِ صدر بہت سے اقدامات اِسی استثنا کی وجہ سے اُٹھائے۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ جنرل مشرف نے جامعہ حفصہ کی معصوم طالبات کا قتلِ عام اور نواب اکبر بگٹی کا قتل جس بے خوفی سے کیا، اُس کے ذہن میں اِس استثنا کا تصور ضرور کام کررہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات کی بنیاد پر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اگر سیکولر دستوری روایات کو ہی بنیاد بنایا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام میں اس طرح کے استثنا کا مستحق ترجیحا ً وزیراعظم کو ہونا چاہیے۔ کیونکہ صدرمملکت کے ریاستی سربراہ ہونے کی حیثیت محض ایک خیالی پیکر سے زیادہ کچھ نہیں۔
جناب ایس ایم ظفر نے ایک ٹی وی شو میں ارشاد فرمایا کہ دورِ حاضر کی ریاستوں کے دساتیر میں بھی آرٹیکل۲۴۸جیسی دفعات شامل ہیں۔ایس ایم ظفر قابلِ احترام ماہر قانون ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی یہ رائے قیاس مع الفارق کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ دیگر ریاستوں کے آئین سیکولر نوعیت کے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام کو ریاستی مذہب کا درجہ حاصل ہے اور یہاں قرآن و سنت کی حیثیت برتر ہے۔ آئین کے متعلق تشریح کا حق سپریم کورٹ کو حاصل ہے، لہٰذا وہی اس دستوری ابہام کو واضح تشریح کے ذریعے دور کرسکتی ہے، اس معاملے میں انفرادی آرا بہرحال حتمی اور قطعی نہیں ہیں۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سیکولر دساتیر میں بھی سربراہِ ریاست کو اس طرح کوئی استثنا اگر دیا بھی گیا ہے، تو وہاں کے عوام بھی اپنے بادشاہ یا صدر سے بھی مثالی کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ اُنھیں اس طرح کی چھوٹ یا آزادی دینے کو بھی تیار نہیں ہیں جو ایک عام شہری کو حاصل ہے۔ ماضی قریب میں امریکا کے صدر رچرڈ نکسن کو واٹرگیٹ سیکنڈل کا سامنا کرنے کی وجہ سے صدارت سے الگ ہونا پڑا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ اُنھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی تھی۔ صدر بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی کیس میں انکوائری کمیشن کے سامنے وضاحت پیش کرنا پڑی۔ ان کاجرم یہ تھا کہ اُنھوں نے اپنی خاتون سٹاف افسر سے عشق بازی کی تھی اور پھر عوام کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔
برطانوی عوام کے خیال میں صدر مملکت سے کسی جرم کا صدور محال ہے۔ فرض کیجیے اگر ملک کے خلاف بہت بڑی اخلاقی یا مالی کرپشن کا کوئی الزام سامنے آتا ہے تو برطانوی عوام اُس کی معزولی کی تحریک چلائیں گے۔ برطانوی بادشاہ چارلس اوّل کو اس بنا پر پھانسی کی سزا دی گئی کہ اُس نے پارلیمنٹ کو معزول کیا تھا۔ یہ ۱۶۴۸ء کا واقعہ ہے۔ اسی لیے ہمارے دانشور جو سربراہِ ریاست کو استثنا دینے کے حامی ہیں، اُنہیں مغرب کے 'ترقی یافتہ' جمہوری معاشروں کی ان روایات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
خریدارانِ محدث توجہ فرمائیں
خریدارانِ محدث کو مدتِ خریداری ختم ہونے کی اِطلاع بذریعہ پوسٹ کارڈ دی جاتی تھی اَب قارئین کی آسانی کے لیے محدث کے لفافہ پر چسپاں ایڈریس میں بھی زرِ سالانہ ختم ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے۔لہٰذا جن حضرات کو مارچ ۲۰۱۰ء اور جون ۲۰۱۰ء سے مدتِ خریداری ختم ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔از راہِ کرم اوّلین فرصت میں زرِ تعاون بھیج کر تجدید کروائیں۔ شکریہ
منجانب:محمد اصغر،مینیجر ماہنامہ 'محدث'،لاہور،فون:0305-4600861