یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم
مغرب نے تین صدیاں قبل، اپنی نشاۃِ ثانیہ کے مرحلہ پردین ومذہب کو دیس نکالا دے کر 'قومی ریاستوں' کا نظریہ پیش کیا، اور اس موقع پر دین وریاست کے مابین حد بندی کے سیکولر نظریے کو متعارف کرایاگیا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ یہ نظریہ الحاد ودہریت کے لئے ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوگا اور اس طرح مذہب کو ایک تنگ دائرے میں بند کرکے جدید دنیا کا انسان اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوگا۔ یہ امر حقیقت ہے کہ دین وریاست کے مابین حد بندی اور جدائی کا یہ نظریہ، مغربی نظریات میں سے انتہائی خطرناک ثابت ہوا، اور اس نے مذاہب کے دائرئہ عمل کو محدود کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس بنا پر آج کی مغربی ریاستوں کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ عیسائی ریاستیں ہیں، ایک غلط فہمی ہے۔ اہل مغرب نے پہلے پہل اپنے عیسائی مذہب سے ہی آزادی حاصل کی تھی اور کلیسا سے آزادی کی جنگ لڑی تھی، اس کے بعد آج وہاں اِلحاد ودہریت اور انسانی خواہشات کی حاکمیت، جمہوریت کی صورت میں قائم ہے۔ جبکہ مغربی معاشرے کا مذہبی حوالہ اسی حد تک ہے کہ اپنے تاریخی پس منظر کی بنا پر وہ دیگر مذاہب کے بالمقابل عیسائیت سے زیادہ قربت اور مانوسیت رکھتا ہے۔
عیسائیت ویہودیت ہو یا ہندو مت اور بدھ و جین مت وغیرہ، ان کی حد تک مغرب کا یہ نظریہ کارگر ثابت ہوا، لیکن اسلام جو اللہ جل جلالہ کا نازل کردہ کامل اور آخری دین ہے، اس کے مقابلے میں مغرب کو یہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مذاہب وادیان کی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ قرآنِ کریم کی حفاظت اور اس کے شانہ بشانہ علومِ اسلامیہ کی غیرمعمولی ترقی ایسی ناقابل شکست برتری رکھتی ہے کہ اس کے مقابل آنے والا ہر نظریہ آخرکار شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ کسی بھی جاذبِ نظر اور بظاہر بڑے مفید نظریہ کو جب اسلام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو قرآن وسنت کے محکم دلائل کے سامنے اس کی حقیقت لمحوں میں کھل جاتی ہے۔ اگر اسلامی نظریات کو مسخ بھی کرلیا جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں قرآنِ کریم کی بدولت حقیقی اسلام دوبارہ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی تاثیراتنی قوی اور انسانوں سے اسلام کے تقاضے اتنے فطری اور حقیقی ہیں کہ اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع کرنے والا کوئی بھی انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر اسلام کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو یہ دیگر مذاہب کے برعکس زندگی کے تمام دائرہ ہائے حیات کو گھیری نظر آتی ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے روزانہ پنج وقتہ نماز کی صورت میں اللہ کی بندگی کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کا عبادتی تقاضا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اسلام کو یہ تاثیر اور قوت اس کی بھرپور حفاظت نے عطا کی ہے جس کی ذمہ داری براہِ راست اللہ تعالیٰ نے روزِقیامت تک لی ہے۔
مغرب میں نت نئے نظریات کو پیش کرنے والوں کا خیال تھا کہ آخر کار ان کی بنا پر وہ ایک من پسند اورانسانی خواہشات کے تابع معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بے جا اعتماد کے نتیجے میں اُنہوں نے مسلم ممالک پر جارحانہ چڑھائی اور اپنے ہاں ہونے والی دنیوی ترقی کے بعد اس سے متمتع ہونے کے لئے آنے والے مسلمانوں کو روکنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی، کیونکہ ان کے پیش کردہ نظریات اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا معاشرتی وسیاسی ڈھانچہ اُنہیں اس قابل نظر آیا کہ آخر کار یہ مسلمان بھی اس میں جذب ہو کر رہ جائیں گے، لیکن دیگر مذاہب کے برعکس مسلمانوں کی حد تک عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ آج امریکہ ویورپ کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں اسلام کے بڑھتے معاشرتی مظاہر سے بری طرح خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ امریکی ویورپی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو ان ممالک کے قوانین اور عدالتیں تو دبے لفظوں میں تحفظ فراہم کررہی ہیں لیکن ان ممالک کے بدلتے معاشرتی حالات پر نظر رکھنے والے سماجی ماہرین اپنے قانون و نظریہ کے برعکس، مسلمانوں کو اپنے تہذیبی بلکہ اسلامی مظاہر ترک کرنے کے لئے ہر بہانے کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں اہل مغرب کو اپنے دستور وقانون کی از سر نو تشکیل یا تعبیر جدید کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
اکیسویں صدی میں اگر اس تہذیبی مباحثے کا جائزہ لیا جائے تو یورپ میں اسلام اور اس کے شعائر کے خلاف مختلف حوالوں سے معاشرتی مخاصمت کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ یورپی اقوام آئے روز کسی نہ کسی اسلامی شعار کے خلاف کمربستہ ہوکر اپنے داخلی خوف کا اظہار کررہی ہوتی ہیں۔ درجہ بدرجہ اسلام کو بنیاد پرستی، انتہاپسندی، شدت پسندی اور آخر کار دہشت گردی کا مترادف باورکرانے کی ہرممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہریورپی ملک کا میڈیا یک رخی رپورٹنگ اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے عوام کی اسلام مخالف ذہن سازی پر کمر بستہ ہے، یوں لگتا ہے کہ اُنہیں 'اسلامو فوبیا' ہوگیا ہے۔ اُنہیں مغربی ممالک کی ظالمانہ جارحیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین انسانی المیوں سے اپنے عوام کو متعارف کرانے کی تو کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جبکہ اس کے ردعمل میں مظلوم کی پکار کو اس انداز میں اُبھارا جاتا ہے کہ اس سے شدت و تشدد کا تاثر اُبھر کر سامنے آئے۔ یورپ میں امن و رواداری کے چمپئن سکنڈے نیوین ممالک نے پیغمبر اسلام1 کی اہانت کا اپنا روزمرہ معمول بنا رکھا ہے۔ آج کے آزاد منش انسان کو یہ رکاوٹ بری طرح کھٹکتی ہے کہ مسلمان اپنی مقدس شخصیات کے بارے میں ان کی سی آزاد روش کو کیوں اختیار نہیں کرلیتے؟ مدارس و مساجد اور ان کے متعلقین کے بارے اہل مغرب کی دلچسپی دیدنی ہے اور وہ اُنہیں دنیا کا امن برباد کرنے والا ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ قرآنِ کریم کے بالمقابل 'فرقان الحق' کے نام سے خود ساختہ قرآن کو پروان چڑھانے کی سازشیں کی جا تی ہیں اور اس مقدس کتاب کو معاذ اللہ نجس نالیوں میں بہایا جاتا ہے۔ اسلام کا نظریۂ جہاد اور مجاہدین ان کے لئے خوف کی سنگین علامت بنے ہوئے ہیں اور یورپی پارلیمنٹوں سے وابستہ اراکین قرآنِ کریم کی آیات کو خود ساختہ عالمی امن کے لئے شدید خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ اسلام کے خلاف اور اسلامی مفاہیم کو مسخ کرنے کے لئے دنیا کی ہر زبان میں کئی ایک فلمیں بنائی اور دکھائی جارہی ہیں۔ حال ہی میں سویڈن میں مساجد کے مینارعظیم شناختی مسئلہ بن کر اُبھرے ہیں، یاد رہے کہ سویڈن میں ۴۰ کے قریب مساجد میں یہ مینار صرف تین مساجد پر ایستادہ تھے، لیکن سویڈن کا سیکولرزم اس سے خطرہ میں پڑا ہواہے۔ انہی دنوں امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ائیرپورٹس پر مسلمانوں کو برہنہ سکیننگ کے مرحلے سے گزارا جارہا ہے، امریکہ کے برعکس برطانیہ ویورپ میں اسے ائیرپورٹ انتظامیہ کا اختیار قرار دیا گیا ہے کہ وہ کس مسلم خاتون کی باڈی سکیننگ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مسلم دانشور اسے 'برہنہ دہشت گردی' کا عنوان دے کر مسلم اُمہ سے اس امتیازی سلوک کی برملا شکایت کررہے ہیں۔ ۲۰ مئی کو مقبولِ عام ویب سائٹ 'فیس بک' نے نبی کریم1 کے خاکے بنانے کے عالمی دن منانے کا اعلان کردیا جس پر لاہو رہائیکورٹ نے فیس بک اور پھر یوٹیوب نامی ویب سائٹس پر پاکستان میں پابندی عائد کر دی۔ اسلام کے بارے اپنی من مانی کو گوارا نہ کرنے اور ان ویب سائٹس کو بند کرنے پر مغربی دانشورپاکستان کو شدیدتنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ تہذیبوں کی جنگ اور سماجی ومعاشرتی رویوں کا تضاد و اختلاف ہر جگہ سرچڑھ کر بول رہا ہے!! تہذیبی تصادم کے اس مرحلے میں دراصل مسلمان ایسی اقوام کی عسکری اور ابلاغی جارحیت و انتہا پسندی کا شکار ہیں جن کا دعویٰ مذاہب کی آزادی، رواداری اورمفاہمت کا ہے جب کہ خود وہ دنیا بھر کو انسانی حقوق اور تہذیب کا درس دیتے نہیں تھکتے!
خواتین کا حجاب ونقاب تو یوں لگتا ہے کہ فی زمانہ یورپی اقوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپ میں دو کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سے بلجیم میں ۶ لاکھ،جرمنی میں ۳۰، برطانیہ میں ۲۰ اور فرانس میں ۶۰ لاکھ مسلمان قیام پذیر ہیں۔ فرانس کے ۳۰ لاکھ مسلمان تو باقاعدہ یہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں جو ماضی میں فرانس کے مقبوضہ 'الجزائر' کو اس کا باقاعدہ حصہ قرار دیئے جانے کی بنا پر فرانس میں ہی نقل مکانی کرآئے تھے۔یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت یہاں ہی اقامت گزیں ہے۔ فرانس اپنے سیکولرنظامِ حکومت پر نازاں ہونے کے باوجود 'مسلم تشخص' کے نظریاتی مسئلہ سے بری طرح دوچار ہے۔ یہاں حجاب ونقاب اور برقعہ کا معاملہ گذشتہ پانچ برس سے مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے اور فرانس اس سلسلے میں پورے یورپ کی قیادت کررہا ہے۔ فرانسیسی حکومت کے بیانات آئے روز اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور حکومتی ذمہ داران سے ہر پلیٹ فارم پر اس ضمن میں سوال کیا جاتا ہے۔
۴ستمبر۲۰۰۳ء کو بڑے طویل بحث مباحثے کے بعد فرانسیسی حکومت نے پبلک مقامات اورسرکاری اداروں میں سکارف(سرڈھانپنے) کی ممانعت کا قانون منظور کیا گیا۔ قانون کو مؤثر بنانے کے لئے اس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قید کی سزا تجویز کی گئی ۔
فرانس کے ا س قانون کے بعد دیگر یورپی ممالک میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی، اور اکتوبر ۲۰۰۶ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا اور دیگر حکومتی اراکین نے برطانیہ میںبھی اسے زیر بحث لانے کی تجویز پیش کی۔ سکارف سے آگے بڑھتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے نقاب پر پابندی کے مسئلہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا تقاضا کیا اور یہ قرار دیا کہ نقاب کے ذریعے برطانیہ میں بسنے والی آبادیوں کے باہمی معاشرتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تائید برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے کی اور کہا کہ میں پابندی لگانے کو تو نہیں کہتا، لیکن اسے زیر بحث لانے کی تائید کرتا ہوں۔ جیک سٹرا پر اس حوالے سے تنقید بھی کی گئی اور نائب وزیر اعظم جان پریسکاٹ نے اسے مسلمان خواتین کا حق قرار دے کرنقاب کا دفاع کیا۔ کمیونٹی اور مقامی حکومتوں کے وزیر فل وولس نے کہا کہ'' اُصولاً تو نقاب پر پابندی ہونی چاہئے، کیونکہ ا س سے خوف اور دوسروں کی تضحیک کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے ، البتہ اگر اس پر سختی اور قانون سازی کی گئی تو مسلمان اپنی روایات کا دفاع کریں گے اورا س کے نتیجے میں 'برائی دربرائی' کا طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس سے بی این پی جیسی انتہاپسند جماعتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ لہٰذا قانون سازی کی بجائے مناسب اقدامات سے برطانیہ میں نقاب کو آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہئے۔'' جیک سٹرا پر تنقید کرتے ہوئے چرچ آف انگلینڈ نے یہ قرار دیا کہ مختلف اقلیتوں کے بارے قانون سازی سے برطانوی معاشرہ مزید تفریق کا شکار ہوجائے گا، اس لئے ایسی بحثوں سے گریز کرنا چاہئے۔ اندریں حالات یہ بحث برطانیہ میں زیادہ نہ پنپ سکی۔
جون ۲۰۰۴ء میں برطانیہ میں شبینہ نامی ایک ۱۵ سالہ مسلم طالبہ کا کیس بھی سامنے آیا جس کو لیوٹن شہر میں برقعہ پہننے پر سکول سے خارج کردیا گیا تھا۔ حجاب پر فرانس میں لگنے والی پابندی کے بعد سازگار فضا کی بنا پر ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ ''سکول کی پالیسی درست ہے جو تما م مذاہب میں ہم آہنگی اور تہذیبوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دیتی ہے، اس لئے اُصولاً تو سکول کو یونیفارم وغیرہ کی بنا پر طلبہ کو خارج نہیں کرنا چاہئے، لیکن اگر کوئی طالبہ اس پر اصرار کرے تو سکول کے پاس ایسا کرنے کا اختیار موجود ہے۔''
سکول میں نقاب وسکارف پہننے کا مسئلہ مارچ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں بھی پیش آیا، جہاں ریاست اوکلو ہاما میں ۱۱ سالہ نتاشا نے سرڈھانپنے پر پابندی عائد کرنے پر امریکی عدالتِ انصاف سے داد رسی طلب کی تھی۔ یہاں بھی سکول انتظامیہ نے یونیفارم کی خلاف ورزی کی بنا پر طالبہ کو خارج کردیا تھا۔ امریکی عدالت ِانصاف نے برطانوی ہائی کورٹ کے برعکس یہ قرار دیا کہ سکولوں میں مذہبی تفریق کی اجازت نہیں ہے اور مسکوجی پبلک سکول ایسا کوئی قانون نافذ نہیںکرسکتا جس سے کسی کے ذاتی حقوق یا آزادی سلب ہوتی ہو۔
فرانس میں حجاب وسکارف پر لگنے والی پابندی کے بعد یہ سلسلہ جرمنی تک دراز ہوگیا اور اپریل۲۰۰۴ء میں شمالی جرمنی کی ۷ ریاستوں بہ شمول بدین ، ویور ٹمبرگ وغیرہ میں خواتین کے سر ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جرمنی میں اس پابندی کا پس منظر ۹۹۸اء میں فرشتے لودن نامی ایک مسلم خاتون کو حجاب کی بنا پر ملازمت سے انکار کی صورت میں شروع ہوا تھا، جس پر جرمنی کی سب سے بڑی عدالت نے یہ قرار دیا کہ اگر حجاب کے ذریعے لوگوں پر غلط تاثرات قائم ہوئے تو حکومت حجاب پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔
جرمنی میں حجاب کے خلاف تعصب شدید صورتحال اختیار کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بدترین المیہ رونما ہوا۔ یکم جولائی ۲۰۰۹ء کو جرمنی کی ایک عدالت میں ایک مسلم مصر نژاد خاتون مروۃ شربینی اپنے خاوند عکاظ علوی کے ہمراہ داد رسی کے لئے آئی تھی۔ایگزل نامی جرمن نوجوان نے اس کے حجاب پہننے پر نبی کریم1 کے خلاف گستاخانہ جملے کسے او رکہاتھا کہ اگر میرا بس چلے تو میں تمہیں حجاب کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رہے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کے خلاف فیصلہ دیا تو اس نے مروۃ شربینی (جو چار ماہ کی حاملہ بھی تھی) پر حملہ کردیا او راس پر چاقو سے شدید وار کئے، اس کے پیٹ پر پولیس اور جیوری کی موجودگی میں ٹھڈے مارے جس سے یہ مسلم خاتون موقع پر ہی شہید ہوگئی۔ اس کے خاوند نے ایگزل کو روکنے کی کوشش کی تو عکاظ پر متعصب جرمن پولیس نے فائرنگ کردی۔ یہ سارا سانحہ عدالت میں ہی رونما ہوا۔ مغربی میڈیا میں اس خبر کو سامنے نہ آنے دیا گیا، مروۃ کی میت جب مصر کے شہر سکندریہ پہنچی تومصری میڈیا نے پورے واقعے کی تحقیقات کرکے اسے شائع کیا۔ مروۃ شربینی کو حجاب کے لئے اس کی بے مثال قربانی کی بنا پر'شہیدہ حجاب' کا لقب دیا گیا۔
برطانیہ جیسی صورتحال کا سامنا گذشتہ سالوں میں ہالینڈ کو بھی رہا ہے۔ جہاں برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کی طرح ولندیزی وزیر امیگریشن ریٹا وردنک نے ۲۰۰۶ء میں حکومت کے سامنے یہ تحریک پیش کی کہ باہمی عزت کے لئے مردو خواتین کا ایک دوسرے کو دیکھنا انتہائی ضروری سماجی تقاضا ہے۔ وردنک کی تحریک پر ولندیزی حکومت نے برقع پر پابندی لگانے کا عندیہ دیاجس پر ہالینڈ میں بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔ حکومت کے مطابق ہالینڈ میں صرف ۱۰۰ خواتین برقعہ پہنتی ہیں اور ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں صرف ۶ فیصد مسلمان ہیں۔ اندریں حالات حکومت کا یہ رویہ قبل از وقت حفاظتی اقدام اور منصوبہ بندی کے طورپر قرار دیا جاسکتاہے۔
فرانس میں پبلک مقامات پر سکارف پر پابندی کے بعد جرمنی اور ہالینڈ میں بھی یہ پابندی نافذ کردی گئی جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں صورتحال آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔
حال ہی میں فرانس میں یہ معاملہ سکول وکالج میں سکارف پر پابندی سے آگے بڑھ کر نقاب اور برقعہ کی پابندی تک بھی پہنچ گیا۔ فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی ایک برس سے برقعہ کے بارے میں اپنے شدید جذبات کا اظہار کررہے ہیں اور ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ء کو باقاعدہ فرنچ حکومت نے اس سمت پیش قدمی کا اعلان کردیا جس کے بعد سے یورپی ممالک میں ایک بار پھر یہ بحث تازہ اور بیانات کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ گذشتہ ماہ اپریل ۲۰۱۰ء کے وسط میں فرنچ حکومت نے سیاسی اور عالمی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بل کو حتمی شکل دے لی اور آخرکار ۱۲ مئی کو فرانس کی پارلیمنٹ میں برقعہ کے خلاف قرار داد کو پیش کردیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں فرانس سے پہلے پیش قدمی کرتے ہوئے بلجیم نے۳۰؍اپریل کو ہی ایوانِ زیریں میں ایسا ہی ایک بل پیش کیا ہے جہاں کسی اختلاف کے بغیر متفقہ طورپر برقعہ پر پابندی نافذکر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقاب پہننا خواتین کی توہین اور شناخت کو چھپانے کی کوشش ہے۔ بل میں قرار دیا گیا ہے کہ خواتین کواپنی شناخت چھپانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر پولیس کی اجازت کے بغیر ایسا کیا گیا تو 'مجرم' خاتون کو ۲۵ یورو یا ۷ یوم قید تک سزا ہوسکتی ہے۔اس سال جون میں یہ بلجیم کا ملکی قانون بن جائے گا اور بلجیم یورپی ممالک میں وہ پہلا ملک ہوگا جہاں برقع ونقاب پر پابندی عائد ہو گی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ بلجیم کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۶ لاکھ مسلم آباد ی میں سے صرف ۳۰ خواتین برقع یا نقاب لیتی ہیں۔ اس قانون سازی پر تنقید کرتے ہوے یورپی مسلمانوں کی تنظیم 'مسلم ایگزیکٹو آف بریٹن' نے اسے مسلم خواتین کی گھروں میں قید سے مماثلت دی ہے۔
c فرانسیسی حکومت کی تین چار ماہ پر محیط تدابیر کے بعد آخر کار برقعہ اور نقاب پر پابندی کا بل فرانسیسی پارلیمنٹ میں ۱۲ مئی کو پیش کردیا گیا، جس میں برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر ۷۵۰ یورو کے جرمانہ کی سزا شامل ہے۔ بی بی سی نے خبر دی ہے کہ فرانس کی وزارتِ داخلہ کے مطابق فرانس میں برقعہ پوش خواتین کی تعداد ۱۹۰۰ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود فرانس کی حکومت کی یہ حساسیت دراصل مستقبل کی پیش بندی ہے جس میں حقائق سے زیادہ مسلم کلچر کے پروان چڑھنے کا خوف غالب ہے۔ برقع پر پابندی کا یہ سلسلہ فرنچ صدر سرکوزی کی بیان بازی سے شروع ہوا ، جب گذشتہ سال اُس نے یہ قرار دیا تھا کہ فرانس میں ایسے ملبوسات کی کوئی جگہ نہیںجو خواتین حقوق سلب کرتے ہیں۔ اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے فرانس کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ۲۰۰ صفحات پر مبنی رپورٹ دی جس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ کٹر مذہبیت کا اظہار کرنے والوں کو رہائشی کارڈ اور شہریت سے محروم کردینا ہی مسئلے کااصل حل ہے۔
فرانس حقوقِ نسواں کا اَن تھک علم بردار ہے، لیکن مسلم خواتین پر یہ جبر اس کی حکومت کے لئے کسی فکر مندی کا باعث نہیں بنتا۔ البتہ فرنچ حکام کے لئے یہ امر باعث ِتشویش ہے کہ کوئی بھی برقعہ پوش خاتون اسے اپنے اوپر مردوں کا جبر قرار دینے کی بجائے اللہ کے احکام کا تقاضا باور کرتی ہے۔ یہ خواتین اسے اختیاری یا اخلاقی رویہ قرار دینے کی بجائے شریعت ِاسلامیہ کا براہِ راست مطالبہ سمجھتی ہیں۔ ان مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ 'یورپی کونسل برائے ہیومن رائٹس' کے قوانین بھی ان کو مذہبی تقاضوں کے مطابق ہر لباس پہننے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
فرانس میں اس قانون سازی سے قبل سرکاری گرفت کا خوف پیدا کرنے اور مسلمانوں کا رد عمل جاننے کے لئے ۲۴؍اپریل کو ایک برقعہ پوش خاتون کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا اور اُنہیں روڈ سیفٹی کے نام پر ۲۲یورو جرمانہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک فرانس میں چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت پر کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔
فرانس میں اس حوالے سے سماجی تنائو اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو فرانس میں خواتین ملبوسات کی ایک دکان میں باحجاب مسلم خاتون سے ایک فرانسیسی خاتون وکیل کھلم کھلا اُلجھ پڑی۔ مسلم خاتون کے شوہر کی موجودگی کے باوجود فرانسیسی خاتون وکیل نے عورت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالا اور اسے 'جہنم کی سفیر' کا نام دیتے ہوئے کئی فحش گالیاں بکیں۔ عوام کی دخل اندازی سے مسلمان عورت کو چھڑایا گیا اور معاملہ پولیس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس سے فرانس میں ا س بارے شدید تناؤ کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ برقعہ پر پابندی کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فرانس کی آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر نظر ثانی کی تلقین کی۔ عدالت نے کہا ہے کہ 'یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس' کے چارٹر میں لوگوں کو مرضی کا لباس پہننے کا حق دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں فرانس کی یہ آئینی عدالت بھی اسی طرح حکومت کو متنبہ کرچکی ہے، لیکن آخر کار اس کا کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ اس عدالت کا رویہ دوہرا ہے، ایک طرف سٹیٹ کونسل نے پیش کردہ قرار داد کو جس کے حق میں ایوان میں ۴۳۴ ووٹ پڑے ہیں، غیرآئینی قرار دینے کا اِمکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اقدام فرنچ آئین اور 'انسانی حقوق کے یورپی کنونشن' کے مخالف ہوسکتا ہے تو دوسری طرف پبلک مقامات پر نقاب کو سیکورٹی وجوہات او ردھوکہ دہی کے خاتمے کے لئے درست قرار دیے جانے کا بھی امکان پیش کیا ہے۔
فرانس میں جاری نقاب پر اس بحث مباحثہ نے برطانیہ میں ا س موضوع کو ماضی کی طرح دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں قرار دیا گیا کہ ایک تہائی برطانوی نقاب پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں۔ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے اس پابندی کی کھلم کھلا حمایت کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ برقعہ او رحجاب آزادی اور جمہوریت کے مخالف ہیں اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی عورتیں برہنہ اور عریاں ہونے کو بے تاب ہوتی ہیں تو اس وقت کوئی قانون ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا او رہم اس پر اعتراض نہیں کرتیں تو پھر اپنی توقیر ، وقار او رلوگوں کی ہوسناک نظروں سے بچنے کے لئے ہمارا حجاب و نقاب استعمال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہا ہے؟ برطانیہ میں نقاب کے بارے میں شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ لیسٹر میں ریحانہ سدات نامی ایک راہ چلتی مسلم خاتون کا نقاب ایک برطانوی نوجوان نے نوچ لیا جس پر عدالت نے نوجوان کو ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ۔
حجاب کے خلاف اس دیوانہ وار مہم میں یورپ کے ساتھ کھیلوں کے عالمی ادارے بھی شریک ہیں۔ چنانچہ ایران کی خواتین فٹ بال ٹیم(جو سرڈھانپ کر کھیل میں شریک ہوتی ہے) کے خلاف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا انٹرنیشنل نے اپریل ۲۰۱۰ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرڈھانپنے والی خواتین پر مشتمل ٹیم کو کسی ایونٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ایران نے او آئی سی اور مسلم ممالک کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ وہ کھیلوں کی ان عالمی تنظیموں کے خلاف اپنا دبائو ڈالیں تاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوں۔
جوابی ردّ عمل
یورپی ممالک برقع اور حجاب کے مقبول ہونے کے شدید خوف میں مبتلا ہیں جبکہ مسلم خواتین کے اس مطالبہ کو مغربی خواتین بھی ان کا جائزحق قرار دیتی ہیں اور کینیڈا میں کچھ عرصہ سے ۲۶؍اکتوبر کو عالمی حجاب ڈے کے طورپر منایا جارہا ہے جس میں غیر مسلم خواتین بھی اظہارِ یک جہتی کے طورپر ان کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ اس دن خصوصی طورپر متحرک ہونے والوں میں میک ماسٹر یونیورسٹی کے فرانسیسی شعبہ کی پروفیسر میریل واکر بھی ہیں جو عیسائی ہونے کے باوجود حجاب کو مسلم خواتین کا حق سمجھتی او راس کے لئے جدوجہد کو ضروری قرار دیتی ہیں۔
فرانس میں ۲۰۰۳ء کو لگنے والی پابندی کے بعد ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں خواتین کی ایک تنظیم نے 'فریڈم اِن حجاب' کے نام سے مسلمان خواتین کے حق میں مہم چلائی۔
اسی طرح جنوری ۲۰۰۴ء میں علامہ یوسف القرضاوی کی زیرقیادت حجاب مخالف رجحانات کے دفاع کے لئے لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس 'اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب' کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس نے ۴ ستمبر کو 'عالمی یومِ حجاب' قرار دے کر، مسلم خواتین کو اس پر منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
فرانس میں اس پابندی کا سامنا کرنے والی مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکومت کی یہ سیاسی حکمت ِعملی ہے اور مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنے پر سارے فرانسیسی ہمیشہ متحد ہوتے ہیں، ان میں رواداری کے تمامتر دعووں کے باوجود مذہبی تعصب پوری شدت سے پایا جاتا ہے۔ فرانس کے اصل باشندے اپنے بارے میں خود پسندی کا شکار ہیں اوراپنے سے مخالف تہذیب کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ فرانس میں ہی پیدا ہونے والی ایک مسلم خاتون کرسٹل وش کا کہنا ہے کہ میں اس پر بالکل حیران نہیں کیونکہ ایسا کرنا فرانسیسی ذہنیت کا حصہ ہے، البتہ دکھی ضرور ہوں کہ وہ کیا اس حد تک بھی جاسکتے ہیں؟!ان کا کہنا ہے کہ
''میں ابلاغیات کی طالبہ رہی ہوں او ر میرے حجاب ونقاب نے کسی مقام پر میرے لئے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ ہمارا معاشرتی رابطہ بھی مستحکم ہے اور یہ بات درست نہیں کہ رابطے کے لئے چہرہ کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ بعض مسلمان عورتیں اپنا سر اورمنہ ننگا رکھتی ہیں، یہ ان کا ذاتی فعل ہے او رمجھے افسوس ہے کہ ہم تمام مسلمان دین پر عمل کرنے میں ایک جیسے کیوں نہیں۔ تاہم یہ کہنا کہ ہمارے دین اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے، یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے نبی کی ازواجِ مطہراتؓ اپنے آپ پر پورا ایسا ہی لباس پہنتی تھیں اور خود کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں ۔
اُنہوں نے مزید کہاکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم ؑ بھی پردہ کر تی تھیں اور میں نے ایسی کوئی تصویر نہیں دیکھی جس میں وہ نقاب سے نہ ہوں۔ اگر فرانس میں یہ قانون پاس ہوگیا کہ نقاب کرنا منع ہے تو میں اس پر کیسے عمل کروں گی؟ میں ۱۲ سال سے پردہ کررہی ہوں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ فرانسیسی جو عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، مسلم خاتون کے ساتھ یہ جبر روا رکھیں گے۔ ہر عورت کو اپنی پسند اور مذہب کے مطابق لباس پہننے کی آزادی حاصل ہے اور میں نے بے نقاب نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر مجھے بے نقاب ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ آزادی تو نہ ہوئی۔ اگر ہمیں جرمانے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو ہم جرمانے نہیں دیں گے، کیونکہ کسی کو اپنی پسند کا لباس پہننے سے روکنا یورپی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کیونکہ ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو غلط ہو۔'' (بی بی سی:۲۳ جنوری ۲۰۱۰ئ)
حجاب پر فرانس کی اس پابندی کو لادین حلقے بھی ناگوار سمجھتے ہیں۔ بی بی سی جو اپنے لبرل اورمتعصب تبصروں کی بنا پر مشہور ہے، کے ہندو تبصرہ نگار انور سن رائے نے ۲۷؍جنوری ۲۰۱۰ء کو اسے 'فرانس کی لبرل جارحیت' سے تعبیر کیا۔ بی بی سی کا تبصرہ نگار طالبان کے خلاف اپنے تعصب کے اظہار کے ساتھ اس صورتحال پر یوں رائے زنی کرتا ہے :
''ایران اور افغانستان میں جو کچھ اسلام کے نام پر ہوا، وہ فرانس میں ثقافت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نقاب اُتروانے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کرنے والوں کو برقعہ ، چادر اور حجاب پہننانے کے لئے طاقت استعمال کرنے والوں سے الگ کیسے کیا جائے۔ وہ اگر اسلامی شدت پسند ہیں تو یہ لبرل شدت پسند۔ اگر ہم اس پر کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم فرانس کے زوال اور انفرادی آزادی کی موت پر گریہ تو کرہی سکتے ہیں!!''
ایسا ہی تبصرہ عاصمہ جہانگیر کے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کی عہدیدار حنا جیلانی نے بھی کیا او رحجاب پر پابندی کو ناروا اور خواتین کی آزادی کے مخالف قرار دیا۔
مسلم ممالک کی صورتحال
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طرف مغربی ممالک کو اسلامی شعائر سے شدید خوف کا سامنا ہے اور وہ اسے اپنی لبرل معاشرت کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں تو ان مغربی ممالک کی تقلید میں چلنے والے مسلم حکمران بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔
۲۰۰۳ء میں فرانس میں منظور ہونے والے اس قانون سے تقویت پکڑتے ہوئے ترکی میں بھی حجاب پر پابندی کی توثیق کی گئی جب کہ سیکولر ملک ہونے کے ناطے ترکی میں پہلے سے ہی یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارتوں میں حجاب سکارف لینے پر پابندی عائد ہے۔ ۱۹۹۸ء میں استنبول یونیورسٹی کی طالبہ لیلیٰ ساہن نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کیا تھا کہ حجاب پر پابندی کے بعد کالج میں داخل نہ ہونے سے اس کا حق تعلیم متاثر ہوتا ہے او ر وہ امتیاز کا نشانہ بنتی ہے، لیکن یورپی عدالت نے فرانس میں قانون آجانے کے بعد ۱۰؍نومبر ۲۰۰۵ء کو اپنی رولنگ میں یہ قرار دیا کہ سکارف پر استنبول یونیورسٹی کا رویہ بجا ہے، کیونکہ سکارف کی اجازت کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کی بات ہے ، اور اس پر پابندی لگانا امن کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
یاد رہے کہ ترکی میں حجاب پر پابندی اس وقت سے نافذ ہے جب سے یہاں مصطفی کمال اتاتر ک نے سیکولر دستور نافذکیا تھا، اس سیکولر ازم کی ترک فوج اور عدلیہ ہمیشہ سے نگران اور محافظ رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی حکومت میں سکارف کو پبلک مقامات پر جائز قرار دلوانے کی کوشش کی گئی اور موجودہ ترک صدر عبداللہ گل کی اہلیہ پارلیمنٹ کی تقریب میں حجاب پہن کر شریک ہوئیں تو اس پر ترکی میں اس فعل پر شدید مباحثہ شروع ہوگیا جس پر عبد اللہ گل کو نااہلی کا خدشہ لاحق ہوا تاہم سیکولر عدلیہ نے اس صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ فکر مندی کا لمحہ یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک مثلاً فرانس وغیرہ کی عدلیہ حجاب پر پابندی کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہے، جبکہ مسلم ممالک کی عدلیہ حجاب کی اجازت کو ناگوار خیال کرتی ہے!!
ایسی ہی صورتحال کا مسلم خواتین کو تیونس میں بھی سامنا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں تیونس میں یہ قانون پاس کیا گیا تھا کہ عوامی مقامات سکولوں اور سرکاری دفاتر میں حجاب پہننے کی ممانعت ہوگی، ایسی خواتین سرکاری ملازمت اور سرکاری علاج کی سہولت حاصل نہ کرسکیں گی۔ فرانس کے ۲۰۰۳ء کے فیصلے کے بعد تیونسی حکمرانوں نے اس پابندی کو زور وشور سے نافذ کرنے کی مہم شروع کردی اور ۲۰۰۶ء میں پبلک مقامات پر سکارف پہننے والی مسلم خواتین کو دھرلیا جاتا، اور آئندہ اس جرم کو نہ کرنے کا تحریری حلف لے کر ہی ان کو جانے کی اجازت دی جاتی۔ تیونسی صدر زین العابدین کا اِلزام ہے کہ حجاب سنی مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کالباس ہے جو تیونس میں باہر سے آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلامی جماعتیں حجاب وسکارف کو اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
ان مسلم ممالک میں حجاب پر پابندی سے یورپی حکومتیں اپنے لئے تائید حاصل کرتی ہیں۔ جو مسلم عورتیں اسلامی تقاضوں کے عین برعکس حجاب نہیں پہنتیں، ان کوبے جا اُبھارا جاتا ہے۔ چنانچہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں فرانس میں پابندی عائد کرنے سے ۴ روز قبل فرانس کے صدر نے تیونس کا پانچ روزہ دورہ کیا او رفرانسیسی اخبارات میں 'بے حجاب تیونس' کے نام سے مکمل صفحات مختص کرکے اُنہیں بڑے پیمانے پر فرانس میں مفت تقسیم کیا گیا۔افسوس کہ مسلمانوں کا اپنا کردار اسلام کے لئے شرمناک بن چکا ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی کچھ عرصہ قبل عدالت ِعظمیٰ اپنے فیصلے میں نقا ب پرپابندی کی تلقین کر چکی ہے۔ اس فیصلے کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے پاکستان میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے،جو شاعر مشرق علامہ اقبال کی بہو ہیں، مارچ ۲۰۱۰ء میں یہ' ارشاد فرمایا' ہے کہ پاکستان میںبھی برقعہ پرپابندی ہونی چاہئے۔ یوں تواُنہوں نے ا سے مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کا طعنہ دیا ہے، لیکن یورپ میں نقاب پر جاری بحث مباحثہ کے تناظر میں ان کے بیان کی معنویت بالکل واضح ہے۔ ان کی اس ہزرہ سرائی پر اخبارات میں کافی بیانات شائع ہوچکے ہیں۔ ازبکستان میں بھی نقاب پہننے والی خواتین اور داڑھی والے مسلمان مردوں کو انتہاپسند قرار دے کر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ خلیجی ملک کویت میں بھی ۲۰۰۵ء سے نقاب پہن کرڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے جبکہ کویت یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں خواتین کیلئے سر ڈھانپنا بھی قانوناً ممنوع ہے۔
تجزیہ و تبصرہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟اس کے پیچھے درحقیقت کیا عوامل کارفرما ہیں اور اس سے مستقبل میں اسلام اور یورپ کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا...
a اہل مغرب کے اس رویے کے پس پردہ دراصل اسلام کا خوف پوشیدہ ہے، جو حقائق سے بڑھ کر وہاں کے متعصب میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے۔ اس ابلاغی پروپیگنڈہ کی قیادت یہودی کررہے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے اسلام اور ملت ِاسلامیہ کے خلاف مغرب کو جمع ومتحد کیا جائے۔ امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں اپنے اور یورپی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے میڈیا میں اسلام کے خلاف ابلاغی جنگ شروع کی ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو تہذیب وتمدن سے نابلد اور اُجڈ و گنوار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد کے سالوں میں تدریجا ً یورپی اقوام میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی یہ حساسیت مغربی میڈیا کا اپنا کیا دھرا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ سوئٹرز لینڈ میں ۴۰ ہزار مسلمانوں کے لئے میناروں والی محض تین مساجد، بلجیم میں ۶ لاکھ میں سے یک صدنقاب لینے والی خواتین، فرانس کے ۶۰ لاکھ مسلمانوں میں سے صرف ۲ ہزار منہ ڈھانپنے والی مسلمان عورتیں؛ کوئی ایسی تعداد نہیں جس پر خوف کا شکار ہوا جائے اور اس کے لئے منظم پیش قدمی اور ٹھوس قانون سازی شروع کردی جائے۔
اس خوف کو اس وقت مزید ہوا دی گئی جب امریکہ جیسی نام نہاد سپرپاور کو عراق وافغانستان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ظالمانہ جارحیت اور ہلاکت وبربریت کے بدترین مظاہرے کے بعد مسلمانوں کا امریکی افواج کو قدم نہ جمانے دینا ان کو شدیدخوف میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔ اس سلسلے میں بعض امریکی دانشوروں نے اسلامی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اُمور کا متعصب یہودی ماہر برنارڈ لیوس، جو بش کابینہ کا مشیر بھی رہا ہے، اس نے عراق جنگ میں امریکہ کی ناکامی کے بعد اہل یورپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ ''وہ اسلام کے ہاتھوں تحقیر کا ذریعہ بن چکے ہیں، جمہوری حقائق کے نام پر اہل یورپ کثیر تہذیبی دوڑ میں پھنس چکے ہیں۔'' اس نے الزام لگایا کہ اس صورتحال میں اہل مغرب وفاداریاں کھورہے ہیں اور اعتماد کی کمی کے باعث اپنی تہذیب سے برگشتہ ہورہے ہیں۔
توہین آمیز خاکوں کے مکروہ منصوبے کے خالق مشہور امریکی یہودی ڈینیل پائپس نے بھی اس خوف کو پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے اپنے مضمون کو عنوان دیا ہے:'' خبردار مسلمان آرہے ہیں!'' اس نے اہل یورپ میں تعصب پیدا کرتے ہوئے اُنہیں راہ سجھائی کہ ''یورپ کا معاشرہ وسیع پیمانے پر ایشیائی لوگوں کی ہجرت کے لئے تیار نہیں ہے، ان تارکین وطن میں مسلمان سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔''
جارج ٹاؤن یونیورسٹی، واشنگٹن کا اُستاد جان ایل اسپوزیٹو لکھتا ہے کہ
''جدید دور کے پیشین گوئی کرنے والے ماہر نجوم کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہی دہائیوں میں پورے یورپ پر اسلام کی حکومت ہوگی، اور اس صدی کے آخر تک یورپ سے یُورَیْـبِیا (یورپ اور عرب کی مشترکہ حکومت کا نام) کی حکومت قائم ہوچکی ہو گی۔ میڈیا، سیاسی مبصرین اور رہنمائوں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اسلامی دہشت گردی بآسانی ہدف بنا سکتی ہے۔ یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت ہے کہ مسلمان مخلوط یورپی قوم کا حصہ ہیں، اسلام اب یورپ کا مذہب ہے۔ حقیقت میں اسلام اب بعض یورپی ممالک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے ماننے والے اب اوّل اور ثانوی درجے کی یورپی شہریتیں بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ''
مغربی اِداروں کے پیش کردہ اَعداد وشمار کے مطابق اسلام اس وقت مغرب کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور ۲۰۵۰ء میں اس کے پہلے بڑے مغربی مذہب ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں اہل یورپ کا خوف اور ان کے مظالم اُنہیں اسلام کے خلاف سنگین جارحیت پر آمادہ کرتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک کی سیاسی تنظیمیں مثلاً ڈنمارک پیپلز پارٹی، آسٹرین فریڈم پارٹی، ہنگارین جابک پارٹی، برطانوی نیشنل پارٹی، گریٹ وائل کی فریڈم پارٹی نے یورپ میں مختلف انتخابات کے دوران مسلمانوں کی مذہبی رسومات اور اسلامی شعائر کے خلاف پابندی کی کھلے عام تحریک چلائی ہے۔ حتی کہ ہالینڈ میں وائلڈر کی اینٹی فریڈم مسلم پارٹی نے تو یہاں تک دبائو ڈالا ہے کہ
'' مسلمانوں کی یورپ سے بے دخلی بے حد ضروری ہے، اور ہالینڈ سمیت یورپ کے لوگوں کو اسلام کے بڑھتے اثرورسوخ کے خلاف اپنے ووٹ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے۔ ''
اسلامی قوت کے ان دعوؤں کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور اس چشمہ صافی کو منہ زو ردھارا بننے سے قبل ہی بند کردیا جائے۔یورپی حکومتوں کے حالیہ انسدادی اورقانونی اقدامات اسی رویے کا مظہرہیں۔
الغرض مغرب کی اسلامی شعائر کے خلاف مہم کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو آغاز میں ہی دبانے کے لئے اس کا خودساختہ خوف پیدا کرکے یورپی عوام کو اس کے مقابل مجتمع کیا جائے، اسطرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا کو اسلام کے مقابلے میں متحد کیا جارہا ہے۔
b اہل یورپ کے اسلام کے خلاف جارحانہ اقدامات کی وجہ ان کی خودپسندی بھی ہے۔ یورپ میں ایسی سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں جن کاایجنڈا مسلمانوں کو یورپ سے نکال باہر کرنا ہے۔ یہ لوگ اسلام سمیت دیگر تمام نظریات کے بارے میں شدید تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فرانس کے وزیر تعلیم کلوڈا لاجر کا کہنا ہے کہ ''سیکولرزم ہمارا اِعزاز وافتخار ہے، اسلام کے ماننے والوں کو اسے اختیار کرنا ہی ہوگا۔ ایسے کبھی نہیں ہوگا کہ اسلام کے لئے سیکولرزم کو تبدیل کردیا جائے، بلکہ اسلام کو ہی بدلنا ہوگا۔'' جب فرانس میںایک عورت مسلمان خاتون کا سرعام نقاب کھینچ کر اسے جہنم کا سفیر قرار دیتی ہے، تو یہ اس کے شدید متعصب اور خودپسند ہونے کا نتیجہ ہے!!
فرانس کا سابق صدر شیراک کہتا ہے کہ ''مکمل سیکولر حکومت طالبات کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ کھلم کھلا اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں، حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ''یورپی مفکرین کو اس امرکا شدید احساس ہے کہ مسلمان ان کی ثقافت کو کھلم کھلا قبول نہیں کرتے اور اپنے دین سے تعلق منقطع نہیں کرتے۔ان حالات میں مسلمانوں کو متعصب اور گنوار ثابت کرنے کے لئے بعض یورپی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف منظم جارحیت کا منصوبہ تشکیل دیتی ہیں اور اس جارحیت کے جواب میں مسلمانوں کے جوابی ردّعمل کو میڈیا کے بل بوتے پر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے۔یورپی عوام اصل جارح کو بھول کر جوابی مزاحمت کرنے والوں کو متشدد اورانتہا پسند قرار دے دیتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر واقعے کی توجیہ اور اس کے ردّعمل کو رپورٹ کرنے والا مغربی میڈیا ہے جو اس سے مطلب کی بات کشید کرکے مخصوص ذہنیت پروان چڑھاتا ہے جبکہ مسلم اُمہ کے مصائب ومشکلات اور موقف کی ترجمانی کرنے والا میڈیا سرے سے موجود ہی نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم ہو یا اس کا دفاع، ہردوصورت میں مسلمان ہی ظالم ٹھہرتاہے، کیونکہ اس واقعہ کی تعبیر یا زبان غیرمسلم کے پاس ہے۔ دو برس قبل سویڈن میں نبی کریم1 کے تصویری خاکوں کے پس پردہ ایک سیاسی پارٹی کا یہی مذموم مقصد کارفرما تھا کہ اس ردّعمل سے مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جائے۔ حال ہی میں ایک سویڈش سیاسی رہنما کے انکشاف کے بعد اس معاملے کی سویڈن میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
c یورپ کے حجاب ونقاب پر پابندی اور اسلامی شعائر کی تضحیک کے تناظر میں ایک اور حقیقت بھی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ یورپ میں مسلم تارکین وطن کے حالات پر نظر رکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب واقوام کے بالمقابل مسلمان اپنے مذہبی رویوں میں زیادہ حساس اور محتاط ہیں۔ مسلم تارکین وطن عام یورپی معاشرہ میں گھلنے ملنے کی بجائے ہر مقام پر باہمی روابط کو فروغ دیتے اور اپنے مذہب وکلچر کو پروان چڑھاتے ہیں۔ دنیوی مفادات کے حصول کے لئے اُنہوں نے یورپ کا تو ضرور رخ کیا ہے، لیکن اپنے مذہب کے معاملے میں ان کی حساسیت بعض صورتوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمان دین سے دوری کے خلجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس بنا پراہل یورپ کو انہیں اپنے کلچر میں جذب کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کا اپنے تشخص پر اصرار اور معاشرتی کشمکش، اسلام کے خلاف اہل یورپ کو جارحیت کی راہ دکھاتی ہے۔ آئرلینڈ کی ایک محققہ سائیو بھان مکفی اپنی تحقیق کا خلاصہ یوں پیش کرتی ہے کہ
''تمام مسلمانوں کا یہ متفقہ موقف ہے کہ عقیدہ ان کی شناخت کی روح ہے، مسلمانوں کا یہ موقف اُنہیں دیگر یورپی تارکین وطن سے بہت حد تک جدا کردیتا ہے... اکثر مسلمان اقلیتیں اپنے آپ کو دائمی غیرملکی تصور کرتی ہیںجو معاشرے کے خاص دائرے یا یورپی معاشرے سے الگ تھلگ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین ایک ایسا رشتہ پایا جاتا ہے جو قومیت یا نسل کی بجائے مذہب کی بنا پر استوار ہوتا ہے اور یہ ایک قوی ترین تعلق ہے۔
ایک مسلمان کی لازمی شناخت اس کا مذہب ہوتا ہے کیونکہ انجام کار ان کے ہاں کوئی بھی چیز اس جیسی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کی علاقائی ثقافتوں کے تنوع کے باوجود ایمان کی روح اور اسلامی تقاضے اُنہیں ہر مقام پریکجا کردیتے ہیں۔ دار الحرب (کافرانہ حکومتوں) میں رہتے ہوئے بھی مسلمان اپنے ساتھیوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تمام سرحدوں سے بالا تر ہوکر اپنے مذہبی تعلق کو برقرار رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ ان کے نبی کریم1 کا مشہور فرمان ہے کہ ''مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگرجسم کا کوئی ایک حصہ بیماری سے متاثر ہوتا ہے تو اس کی بنا پر سارا جسم تکلیف اور بے خوابی کا شکارہوجاتا ہے۔''
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا یورپی اقوام سے الگ تھلگ رہنا اور نظریے کی بنا پر اپنے آپ کو دیگر انسانوں کے مقابل ایک ملت تصور کرنا اہل یورپ کے ہاں سنگین مسائل ہیں۔ یہ دونوں رویے دراصل ایک دوسرے کا لازمہ ہی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب واقوام کے برعکس اسلام ایک عالمی مذہب ہے جو اقطاعِ عالم کے تمام انسانوں کو مخصوص اعتقادات اور تہذیبی رویوں سے جوڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے ملک مختلف اَقوام ہوتے ہوئے بھی اسلام کے خلاف مجتمع ہیں کہ ہر یورپی قوم کو ایک جیسے نظریے سے سابقہ پیش آرہا ہے۔یہ اسلام کے عالمی پیغام اور اللہ کے خالص دین ہونے کی قوی دلیل ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنے دین پر افتخار کی ایک مایہ ناز خصوصیت بھی ہے جس کا مسلمانوں کو اِدراک ہونا چاہئے۔ اسلام کو یہ خصوصیت قرآنِ کریم اور سنت ِنبویہؐ کی حفاظت اور علومِ اسلامی کے تحفظ و ترقی نے عطا کی ہے۔
علومِ اسلامیہ کی اس غیرمعمولی حفاظت نے دنیا بھر میں یکساں مظاہر پر مبنی ایک عالمی تہذیب تخلیق کی ہے جس سے ملت ِکفر لرزہ براندام ہوکر اس کے مقابلے میں متحد ومجتمع ہوجاتی ہے۔ اسلام کی نظریاتی قوت اور فکری تاثیر اس کے مخالفین میں کمزوری کا احساس پیدا کرتی ہے جس کا جواب اہل مغرب قانونی وسماجی جارحیت سے دیتے ہیں۔
d جدید دور کے انسان اورمغربی تہذیب نے لاکھ کوششیں کردیکھی ہیں کہ انسانوں کو مذہب سے بالا تر کرکے، ہیومن رائٹس کے چند مجرد تصورات پر مشتمل ایک 'مذہب' پر اُنہیں جمع کرلیا جائے۔ اُنہوں نے سیکولرزم اور لادینیت جیسے ڈھونگ رچا کر دیکھ لیے ہیں، لیکن یورپ میں جاری حالیہ تہذیبی کشمکش اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ ملحد انسانوں کا یہ ڈھونگ اسلام کی نظریاتی قوت کے آگے سرنگوں ہوکر رہے گا۔ اسلام کے ماننے والے جس قدر بھی اسلام کو پس پشت ڈال لیں، وہ مغربی تہذیب میں کبھی جذب نہیں ہوسکتے اور مغرب کے اربابِ فکر ودانش لاکھ مفاہمت کے دعوے کریں، اسلام کے خلاف اپنی تنگ نظری سے باہر نہیں آسکتے۔ یہ اسلامو فوبیا ہو یا اسلام کی حقیقی قوت سے خطرہ، عالم کفر اسلام کی معمولی علامت کوبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ کپڑے کے مختصر ٹکڑے سے مغربی سیکولرزم کس قدر خطرے کا شکار ہے !!
مغرب کے رواداری اور مفاہمت کے نعرے اپنے عروج پر پہنچ کر واپسی کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ ان کے سیکولر نظام اور مذاہب کو کنٹرول کرلینے کے دعوے اپنی کھوکھلی حقیقت آشکارا کررہے ہیں۔ اہل مغرب کو اپنی خود ساختہ وسعت نظری کو تنگ نظری اور روشن خیالی کو بنیاد پرستی میں بدلنا پڑ رہا ہے۔ اللہ نے انسان کو چلنے کا جو متوازن نظام دیا ہے، اس سے آگے بڑھ کر انسان اپنے خود ساختہ نظام کامیاب نہیں کرسکتا۔
یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کو تشدد و جارحیت کا طعنہ دینے والے دراصل خود سب سے بڑے انتہاپسند اور شدت پسند ہیں۔ گذشتہ دس برسوں میں یورپ اور امریکہ نے لگاتار اس پر کئی واقعاتی دلائل مہیا کردیے ہیں: نبی اسلام محمدمصطفی1، کتاب ِاسلام یعنی قرآنِ مجید اور مرکز ِاسلام یعنی مساجد اور اسلامی شعائر نقاب وحجاب اور مسلم ہستی کوالزامات کا نشانۂ امتیاز بنانے جیسے اقدامات کے ذریعے اہل مغرب نے اپنی عدمِ رواداری کے اَن گنت ثبوت فراہم کردیے ہیںـ۔ جبکہ مغرب کا انتہا پسند میڈیا اسلام اور اس کے ماننے والوں کو ہزار الزامات سے متہم کرے او راُنہیں عدم رواداری کا طعنہ دے کر دہشت گرد قرار دیتا ہوا نہ تھکے، لیکن گذشتہ ۱۰ برسوں کی تاریخ شاہد ِعدل ہے کہ مسلمانوں نے کسی نبی تو کجا، کسی مقدس ومحترم مذہبی شعار کی پامالی کی جسارت بھی نہیں کی۔
حجاب و نقاب اور اسلامی شعائر کے خلاف ہر آن بڑھتی جارحیت میں اہل عبرت کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں جس کے حل کیلئے مربوط حکمتِ عملی ضروری ہے، لیکن ایسے جارحانہ اقدامات سے اہل مغرب کی خودساختہ رواداری کا بھرم بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے اور ان کا اسلام سے شدید خوف ہرایک کو نظر آرہا ہے۔یورپ کا قومی ریاستوں کا تصور آخرکار غلط ثابت ہورہا ہے جس میں بسنے والوں کو مکمل مذہبی آزادی میسر ہو اور اسلام کی حقانیت یہ ثابت کر رہی ہے کہ زمین و وطن کے بجائے ایک نظریات کے ماننے والوں پرہی حقیقی قوم استوار ہوتی ہے۔
یورپ کے مسلمان دنیوی مفادات کے لئے، یورپی قوانین پر بھروسہ کرتے اور اُنہیں اپنی مذہبی آزادی کا ضامن خیال کرتے ہوئے یورپ میں سکونت بے شک اختیار کریں،لیکن اُنہیں بخوبی جان لینا چاہئے کہ اسلام اور اہل یورپ کا تعصب دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جو کبھی نہیں مل سکتے۔ دونوں ملتیں کبھی ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوسکتیں۔دونوں کے مابین عقیدے اور نظریے کا جو بعد ہے، اس کا اظہار ہوکر رہنا ہے؛ چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے!! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)