حب ِمال اور قرآنی دعوت

کتاب وحکمت مولانا ابو الجلال ندویؒ، کراچی

دوسری قسط



نُزولِ قرآن کے تناظر میں

اِطعام مسکین

حب ِمال، جمع مال، تکاثر اور دولت کو معیارِ توقیر بنانے کے خلاف وعظ و پند کے بعد اللہ نے عربوں کے مالی نظام کی اِصلاح کی خاطر سورئہ حاقہ میں ایک جہنمی کے جہنمی ہونے کی وجہ یہ بتائی:

{إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ (33) وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ} (الحاقہ:۳۳،۳۴)

''وہ عظیم شان والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا اورمسکین کو کھلانے کی تحریک نہیں کرتا۔''

اگر آپ نے عربی کے خصوصاً اَیام جاہلیت کے اَشعار پڑھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ عرب سے زیادہ فیاض شاید دنیا میں کوئی قوم رہی ہو ، اس قوم کے پڑوسیوں کی شہادتیں بھی اس کی تائید کرتی ہیں، لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ جس قوم کے حاتم کا دنیا بھر میں چرچا ہے، اسی قوم کی بابت قرآن میں بتایا گیا ہے کہ

{الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ}(النسائ:۳۷، الحدید:۲۴)

''کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کوکنجوسی کا حکم دیتے ہیں۔''

قرآنِ کریم میں اگر فیاضی کا ذکر ہے تو ان کی فیاضی کا جومسلمان ہو جانے کی وجہ سے جن کی زندگی بدل گئی تھی۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اَشعارِ عرب محض لغو ہیں؟ کیا مصر، روما اور ایران کی گواہیاں جھوٹی ہیں؟ کیا حاتم واقعی محض افسانہ تھا؟ نہیں، افسانہ نہیں تھا، کیونکہ جس قوم پر بخل کا الزام لگایا گیا ہے، اسی قوم کو تبذیر سے منع کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ

{إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ} (بنی اسرائیل:۲۷)

''یقینا فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔''

عرب کی فیاضیاںمستحقین کے لئے نہ تھیں۔ نام ونمود کے مواقع پر، ہم رتبہ مہمانوں کی ضیافت میں، شراب کی مجلسوں میں، قمار بازی کے مواقع پر اپنے ہم خاندان یا دوست خونی کی طرف سے دیت دے کراس کو سزا سے بچانے میں، غرض مصارفِ بے جا میں وہ بڑی بے دردی سے دولت پھونک دیتے تھے، لیکن ضعیفوں،اپاہجوں،مسکینوںاوریتیموں کی امداد کو نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں خیال کیا جاتا تھا بلکہ اس کو اللہ کی مرضی کے خلاف جنگ باور کیا جاتاتھا:

{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ} (یٰسٓ:۴۷)

''اور ان سے جب کہاجاتا تھا کہ اللہ نے تم کو جو روزی دی ہے، اس میں کچھ نفقہ دیاکرو تو ان میں سے جو کافرہیں، مؤمنوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اس کو کھلائیں ، جس کو اللہ چاہتا تو کھلاتا۔ تم لوگ نہیں ہو مگر کھلی گمراہی میں۔''

خوش حالوں کو کھلانا،پلانا اور ان کی ضیافتوں میں اپنے آپ کو برباد کر دینا تو بڑا نیک کام باور کیا جاتا تھا، لیکن جہاں تک محتاجوں کا تعلق تھا، عربوں کا کہنا یہ تھا کہ جسے مولیٰ نہیں دیتا اسے آصف الدولہ کیوں دے۔ جسے دیا گیا اسے اور دیا جائے گا اور جس کو نہیں دیا گیا اس کے پاس جتنا ہو، اسے بھی لے لیا جائے گا۔ جس کی تو ند بھری ہے اس کی ٹھلیا بھری رہنی چاہیے اور جس کی ہانڈی میں چاول نہیں، اس کو خالی پیٹ ہی مرنا چاہیے۔ یہ تھا عرب کی اقتصادی زندگی کا اُصول۔ موجودہ اقتصادی نظام کے وکیل انکار کریں گے کہ ہمارا یہ اُصول نہیں ہے مگر اس نظام کی بھی حقیقی روح تو یہی ہے کہ بھری توند کو اور بھرو، اورخالی پیٹوں سے ان کے کشکول بھی چھین لو۔

چونکہ عربوں کی معاشی زندگی حقیقی فیاضی سے خالی تھی، اس لیے بالکل ہی ابتدا میں اللہ نے اِطعامِ مسکین کے لئے لوگوں کو ترغیب دینا واجب کیا۔یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ابتدا میں منکرِ خدا پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ مسکین کو کھلاتا نہیں تھا، یہ بات آئندہ چل کر سورہ مدثر میں دوزخیوں کی زبان سے کہی کہ

{وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ} (المدثر:۴۴)'' اورہم مسکین کو نہیں کھلاتے تھے۔''

اِطعامِ مسکین کے ترک پر ملامت تو اسے کی جاسکتی ہے جس کو اس کی استطاعت ہو، لیکن اِطعامِ مسکین کی ترغیب کا ترک پوری قوم کا مشترکہ گناہ تھا۔اس گناہ پر ملامت سورئہ فجر اور سورئہ ماعون میں وارد ہے۔ آئندہ چل کر سورئہ الدہر میں مسلمانوں کا وصف بتایا کہ

{وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا} (الدہر:۸)

''اورکھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت میں مسکین کو اور یتیم کو اور اسیر کو۔''

ہمارے جدید ماہرین معیشت جس نظام کی محبت میں وارفتہ ہو کر ربا کے اسلامی احکام کے متعلق اصلاحات کے درپے نظر آتے ہیں، اس کی برکت یہ ہے کہ اطعامِ مسکین کو ملک میں اضافۂ مساکین اور مفت خوروں کی تعداد بڑھانا خیال کیا جاتا ہے۔مساکین کا حق مار لینے والوں کی ملامت تو نہیں کی جاتی، مساکین کی خوردو نوش کا انتظام کیے بغیر بھیک مانگنے کو جرم قرار دیاجاتا ہے ۔یورپ کی حکومتوں نے تو اپنے فرائض میں داخل کر لیا ہے کہ ہرشخص کو جو ہٹا کٹا ہے، کام دیا جائے تاکہ وہ محنت کر کے اپنا پیٹ بھرے اور جو نکما ہو جائے اس کو حکومت جینے کاسہارا دے مگر بھارت اورپاکستان کی حکومتیں یورپ کے اس اُصول کو تومانتی ہیں کہ محصول پر محصول لگاؤ، کاروبار کے ہر مرحلہ پر ٹیکس وصول کرو کہ دھیلے کی چیز جب صارف کے پاس پہنچے تو وہ اپنے پانچ دن کی مزدوری دے کر اسے خریدے اور ۸۵ فیصد سے زیادہ رقم حکومت کی تجوری میں پہنچ جائے تاکہ دو منٹ کے کام کو دو برس کے لیت ولعل اور ہیرا پھیری کر کے انجام دینے والے سرکاری نوکروں کو اس اِسرافِ وقت کا انعام ہزاروں کی توڑی کی شکل میں دیا جا سکے، لیکن محتاج کی روزی کا انتظام کرنا اپنے فر ائض میں داخل نہیں کیا۔

بھارت کے پاس تو کسی عمرؓ کی نظیر نہیں ہے مگر خلافت راشدہ کے معترضین حضرات کے پاس تو یہ نظیر موجود ہے، پھر بھی بس اتنا جانتے ہیں کہ (نعوذ بااﷲ) ہر خلیفہ جبار عنید ہی ہوتا تھا اس لیے پاکستانی حکومت کو جبار عنیدہی کی حکومت ہونی چاہیے۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ{وَلَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكينِ} کاالزام پاکستان کی 'خلافت ِراشدہ' پر بھی پوری وضاحت سے چسپاںہو جاتا ہے۔

عادیات، تکاثر، ہمزہ ، نوح، ضحی ، حاقہ یہ تمام سورتیں جن کی آیتیں پیش کی گئیں ، جن میں حب ِ مال ، تکاثر، جمع مال ، قیادتِ ذومال اور طعام مسکین کی تحریک کے فقدان کے خلاف اللہ جل جلالہ نے وعظ فرمایا ہے۔

سب سے پہلے جس بزرگ کو اللہ نے اسلام سے مشرف کیا، وہ کون تھا؟شاعر جواب دیتا ہے:

سید کائنات کا دل دار

ثاني اثنين إذهما في الغار

اس مردِ بزرگ (حضرت ابو بکر صدیقؓ ) نے اسلام قبول کر کے جو دعا کی تھی وہ احقاف:۱۵ میں منقول ہے، اس دعا کے وقت حضرتؓ ۴۰ برس کے ہو چکے تھے۔ جمادی الاخریٰ ۱۳ھ کے آخر بہ عمر ۶۳ سال وفات پائی، اس لیے ان کے اسلام کا زمانہ ۱۱ق ھ کے کسی ماہ کوقرار دیا جاسکتا ہے۔ اغلباً وہ ربیع الاول ۱۱ق ھ میں مسلمان ہوئے۔ ان سورتوں کا زمانۂ نزول رمضان ۱۳ق ھ سے لے صفر ۱۱ق ھ تک ڈیڑھ سال کی مدت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

آئین میراث

اسلام قبول کرنے کے بعد یا اسلام قبول کرتے وقت جب کہ ایک روز حضرت ابو بکرؓ آپ کے پاس بیٹھے تھے، سورئہ فجر نازل ہوئی، حضرت ابوبکرؓ نے آخری آیتیں سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ1! ما أحسن ہذا اے اللہ کے رسول1! یہ بات کیا ہی خوب ہے۔ فرمایا: 0أما إنہ سیقول لک9 یعنی جان رکھو کہ یہ بات کبھی خود تم سے کہی جائے گی۔یہ واقعہ غالباً ربیع الاوّل ۱۱ق ھ کا ہے۔ عرب میں چونکہ معیارِ تو قیر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، دولت مندی تھی، دولت مند ناز کرتا تھا کہ {رَبِّیْ اَکْرَمَن} یعنی میرے ربّ نے میر ی توقیر فرمائی او رکم دولت گلا کرتا تھا کہ {رَبِّیْ أہَانَن} یعنی میرے ربّ نے میری عزت گھٹادی۔ وہ یہ نہیں خیال کرتا تھا کہ اس کی غربت اس کے معاشرہ کے چند جرائم کی پاداش ہے اور ان جرائم کے ارتکاب میں وہ بھی برابر کا شریک ہے۔ اسے یہی بتانے کے لئے یہ سورہ نازل ہوئی۔ اس سورہ کے آغاز میں اللہ نے فرمایا:

{وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ } (الفجر:۱تا۴)

''فجر کا وقت اور دس راتیں اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتا اوررات گواہ ہے جب گذری تھی۔''

تین اوقات واَزمنہ اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتے کو اللہ نے قسم کے پیرایہ میں ایک حقیقت کے گواہ قرار دے کر وہ حقیقت خود بیان فرمانے کے بدلے یہ سوال کیا :

{هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ} (الفجر:۵)

''کیا اس میں کسی صاحب ِخرد کے لئے کوئی قسم ہے۔''

مخاطب ان آیتوں کا ایک ذوحجر ہے۔لفظ حِجر کا ترجمہ اس جگہ دانش یا خرد کیا جاتا ہے، حجرکا لفظ اس آیت کے علاوہ اور آیتوں میں بھی آیا ہے۔ پندرہویں سورہ میں الحجر ایک شہر کا نام ہے، جہاں کے باشندے پہاڑوں کو تراش کر اُنہیں بیوتِ مسکونہ بناتے تھے۔ (الحجر:۸۲)یہ نام حَجَر بفتحتین (پتھر)سے ماخوذ ہے۔ الانعام:۱۳۸ میں حرام کے معنی میں آیا ہے۔ الفرقان :۲۲ میں ہے کہ عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر ظالم چیخ اُٹھیں گے کہ{حِجْرًا مَّحْجُوْرًا} جس کاٹھیک مطلب یہ ہے: رو کیے ان کو روکیے۔

الفرقان:۵۳ میں حجرا محجورا کالفظ حاضر وحاجب یعنی ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا کے پانی سے باوجود اتصال الگ الگ رکھنے والی توانائی کے لئے یہ لفظ آیا ہے۔حجر علیہ القاضي کے معنی ہیں کہ قاضی نے اسے شے کے استعمال سے روک دیا۔حجر اس دانش کا نام ہے جو قاضی بن کر انسان کو ناروا کام سے روکتی ہے۔ ذوحجر کی جمع أولی النہی ہے یعنی بدی سے روکنے والی عقلوں والے، سورہ کا مخاطب طہٰ:۱۳۸ کے أولی النہی میں سے ایک ہے۔جو اقوامِ بائدہ کے مساکین کی سیر کیا کرتے تھے یعنی تجارتی اَغراض سے عاد، ثمود، فرعون اور قومِ لوط کے دیار میں آیا جایا کرتے تھے۔ سورہ کا پہلا سامع اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اس لئے کیوں نہ باور کیا جائے کہ آیت نمبر۵ کے مخاطب ِاوّل حضرت ابوبکرؓ ہی ہیں۔

خدا نے وفجر اور ولیل نہیں فرمایا بلکہ والفجر اور واللیل فرمایا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک مخصوص فجر اور ایک مخصوص رات کا پچھلا پہر مراد ہے جس سے مخاطب ِاوّل واقف تھا۔ مفسرین کی روایت کے (مطابق) الفجرسے ذی الحجہ کی پہلی فجر مراد ہے اور لیال عشر سے ذی الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں، اس لیے واللیل سے بھی ذی الحجہ کی یہی ایک مخصوص سحر مراد ہے۔چونکہ جن روایتوں پریہ تصریح مبنی ہے، وہ اَدھوری روایتیں ہیں، اس لیے یہ تصریح پورا مطلب سمجھانے سے قاصر ہے۔

سامع اوّل بلفظ ِدیگر مخاطب ِاوّل اسی قوم کا ایک فرد تھا جس کو سورئہ صافات میں قومِ لوط کی تباہی کی خبر دے کر اللہ نے فرمایا کہ'' یقینا تم لوگ ان کے پاس گذرا کرتے ہو صبح کو اور رات کو، پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔'' (الصافات:۱۳۷، ۱۳۸) سامع اوّل ایک ذوحجر تھا۔عقل سے کام لیتا تھا۔الفجرسے اس سامع کی ایک مخصوص فجر اور واللیل إذا یسر سے اس کی ایک مخصوص سحر اور لیال عشر سے اسی کی دس راتیں مراد ہیں۔ جوالمؤتکفۃ کے پاس سے گذریں۔اب روایتی تفسیر کو ملا کر یوں کہئے کہ ذوالحجہ کی پہلی فجر، پھر ذوالحجہ کی دس راتیں یعنی ۲ تا ۱۱ ذوالحجہ اوراس ذی الحجہ کی گیارہویں سحر مراد ہے جو المؤتکفۃ کے پاس اس ذوحجر نے سورہ کے سماع سے پہلے گذاری تھیں۔ الشفع اور الوترکا ٹھیک مطلب سمجھنے کے لئے سبا:۴۶ میں پڑھئے:{ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا}''خدا کے لئے اُٹھو تم لوگ دو دو اور ایک ایک پھر غور کرو'' ، عرب کسی اہم بات پر غور وفکر کر کے کچھ طے کرنا چاہتے توپہلے ایک ایک شخص تنہائی میں الگ الگ سوچتا پھر دو دو مل کر تبادلۂ خیال کرتے، پھر جماعت میں سوچی بچاری تجویز پیش کرتے تھے۔

اب ہم ذوحجر کی بابت فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ ذوالحجہ کی پہلی فجر المؤتکفۃ کے پاس پہنچا۔ دس راتیں وہاں قیام پذیر رہا۔ گیارہویں سحر کو کوچ کیا۔ ایامِ قیام اس نے دو کی جوڑی کو اُلٹی پلٹی بستی کے آثار کی شہادتوں پر سرگرم گفتگو پایا، پھراِکلوتے سے اس کو آثارِ باقیہ کی گواہیاں معلوم ہوئیں۔ اسے معلوم ہوا کہ یہاں اس کے ورود کے وقت یعنی صبح سویرے اس شہر پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔(القمر:۳۸) اوراس کی روانگی کے وقت یعنی فجر سے پہلے آخر شب میں اللہ نے لوط اور آلِ لوط کو عذاب سے بچا لیا تھا۔(القمر:۳۴) یہ ذوحجر اپنی آنکھوں سے المؤتفکۃ کے آثار میں وہاں گذرے ہوئے حوادث دیکھ آیا تھا اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتے سے داستان سن آیا تھا۔ اپنے معلومات لئے ہوئے یہ ذوحجر پیغمبر کے پاس پہنچا تو پیغمبر نے کہا:

''وہ فجر جس سے توخوب واقف ہے، وہ دس راتیں جو تونے اس فجر کے بعد گذاریں، دو کی جوڑی اور ایک اکلوتا اور رات کا پچھلا پہر جسے تو جانتا ہے، کیا تجھے کسی خوفناک حقیقت سے آگاہ کر چکی ہیں؟''

اب آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے ذہن نے کیا جواب سوچا ہو گا۔ آپ ان کے ذہنی جواب کا اندازہ کر لیں تو آگے بڑھیں:

مکی آیتوں کو پڑھنے سے پہلے تین قوموں کو اور ان کے مسکنوں کو جان لیں۔ عادِ اُولیٰ اور عادِ اُخریٰ دو تھے، ایک کا مسکن اَحقاف تھا اورایک کا مسکن اِرم تھا۔ اوراسے عاد کے علاوہ ارم بھی کہا جاتاتھا۔ حضرت الیسع کا معاصر بادشاہ دمشق بن ہدو ایک شاہِ ارم تھا۔ قاضیوںکا معاصر بادشاہ کوشان رشعتیم ارم نہریم کا بادشاہ تھا۔حضرت موسیٰ کا معاصر بلعام باعور،ارم نہریم کا کاہن تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اوران کے خاندان کا وطن ارم نہریم تھا۔( تکوین :۴، معہ تکوین:۱۰) اس لئے حضرت یعقوب ارمی تھے۔ (تثنیہ۲۶:۵) حضرت ابراہیم کے بھائی بھتیجے حاران میں بستے تھے۔ (تکوین ۲۷:۴۳) اس شہر کا دوسرا نام فدانِ ارم تھا۔( تکوین ۲۵:۲۰،۲۸،۱)

ارم نہریم قدیم نام تھا دو آبہ دجلہ وفرات کا جس میں حاران واقع تھا۔ یہیں کے قدما کا ذکر عادِ ارم کے نام سے قرآن میں آیا ہے۔ فدان کا لفظ عبرانی میں شاہی محل کا مرادف ہے۔ یہ محل اس طرح بنایاگیا تھا کہ چند عالی شان ستون کھڑے کر کے ان کو مسقف کر دیا گیا تھا۔ نزولِ قرآن کے زمانے تک اس فدان کے ستون کھڑے تھے مگر عمارت کی چھتیں ناپید ہو چکی تھیں۔اِنہی ستونوں والے فدان کے قدیم بانیوں کو بعد کے باشندگانِ ارم سے ممتاز کرنے کے لئے ارم ذات العماد کہا جاتا تھا۔ ثمود کے مقام کا ذکر ہو چکا ہے، تبوک کی وادی القریٰ میں وہ پہاڑیاں ہیں جن کو تراش کر اُنہوں نے بیوتِ مسکونہ بنا رکھا تھا۔ اوتاد الأرض پہاڑوں کو کہتے تھے۔ قرآن میں ہے:والجبال أوتادًا وادی سینا کے کئی ایک پہاڑوں پر چوتھے خانوادہ اور بارہویں خانوادہ کی تحریر یں پائی گئی ہیں۔ یہ پہاڑ اوتادِ فرعون ہے اور ان پہاڑوں کاذو (فرماں روا) ذوالاوتاد کہلاتا تھا۔ ایک پہاڑ پرچوتھے خانوادہ کے پہلے فرعون سارع کو اس طرح دکھایا گیا ہے کہ ایک عرب کو زمین پر پٹک کر اس کے سر کے بال پکڑے ہوئے ہے اور اس کے اندر میخ ٹھوکنے پر آمادہ ہے، یہ تھا پہلا فرعون ذوالاتاد۔

سورہ کا مخاطب ذوحجر جس نے المؤتفکۃ میں دس راتیں گزارنے اور وہاں کی تاریخی سحر اور فجر کے آثار دیکھنے اور شفع و وتر سے آثار کی داستان سننے کے علاوہ عادِ ارم کے عاد، ثمود کے گھر بنے ہوئے چٹان اور فرعون کے اَوتاد کو بھی دیکھا، ان لوگوں میں سے ایک تھا جن کی بابت سورئہ عنکبوت میں فرمایا گیا کہ عاد وثمود کا حال اس کے مسکنوں سے تم پر واضح ہو چکا ہے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا:

{أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ (6) إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (7) الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ (8) وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (9) وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ} (الفجر:۶تا۱۰)

''کیا تم نے (بچشم خود) نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے کیا کیا عاد یعنی ستونوں والے ارم کے ساتھ جن کی نظیر اور شہروں میں نہیں بنیں اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹان تراشی اور اوتاد والے فرعون کے ساتھ۔''

سامع اوّل کے ذہن میں سوالوں کا جواب موجزن آیتوں کے بعد اسی موجزن جواب کو اس نے سنا او ردل میں اس نے تصدیق کی او رکہا کہ واقعی:

{الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ (11) فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ} (الفجر:۱۱ تا۱۳)

''جن لوگوں نے شہروں کے اندر سرتابی کی پھر ان میں فساد کی بہتات کر دی تو ان پر تیرے ربّ نے عذاب کا کوڑا برسایا۔''

اتنی تمہید کے بعد اللہ نے اصل مقصود کی طرف توجہ دی تاکہ سامع کو ان جرائم کی ہولناکی کا پورا اندازہ ہو جائے جن کی وجہ سے اس کی قوم عاد، ثمود، فرعون ذوالاتاد اور قوم لوط کے انجام کی حق دار بنی تھی۔ فرمایا:

{إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ (14) فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ (15) وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ (16) كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ (17) وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (18) وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا (19) وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (20) كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا (21) وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (22) وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (24) فَيَوْمَئِذٍ لَا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ (25) وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ}

''یقینا تیرا ربّ (آج کے مفسدوں کی بھی) تاک میں ہے مگر( نادان) انسان کو جب اس کا ربّ آزماتا ہے اور (بغرضِ آزمائش) اس کو عزت او رنعمت دیتا ہے تو وہ (بس) ناز کرتا ہے کہ میرے ربّ نے میری توقیر کی اورجب اسے آزماتا ہے پھر اس کی روزی گھٹاتا ہے تو وہ (بس) گلا کرتا ہے کہ میرے ربّ نے میری عزت گھٹائی۔ ایسا نہیں بلکہ (وجہ یہ ہے کہ) تم یتیم کی توقیر نہیں کرتے اور ایک دوسرے کومسکین کے کھلانے پر آمادہ نہیں کرتے اور میراث کوسب سمیٹ کھاتے ہو اورمال کی بے حد محبت رکھتے ہو۔ خبردار! جب کہ زمین کو توڑ پھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا اور تیرا پروردگار آئے گا اور فرشتے قطار در قطار۔ اور اس دن جہنم لائی جائے گی اس دن انسان اپنی کرنی یاد کرے گا اور اس کا یاد کرنا کس کام کا؟ بولے گا: اے کاش! میں نے اپنے جینے کے لئے کچھ کیا ہوتا۔ اس دن کا ساعذاب کوئی نہ دے گا اور اس کی طرح کوئی نہیں جکڑے گا۔''( الفجر:۱۴ تا۲۶)

یہاں تک جواب تھا، اللہ سے یہ گلا کرنے والے کا کہ میرے ربّ نے مجھے بے عزت کر دیا ہے حالانکہ مجھ جیسے دوسروں کو عزت دی ہے۔ میری بے عزتی کاسبب صرف اس کی مرضی ہے، اس میں ہم جیسوں کے کسی جرم کا دخل نہیں ہے۔ سامع اوّل اللہ کے ان ارشادوں کی سراپا تصدیق تھا، کیونکہ عادِ ارم کے عاد، قوم لوط کی بستی المؤتفکۃ، فرعون ذوالاتاد کے اوتاد اورثمود کے مکانات جو اَصلاً پہاڑ تھے، اس کی عقل سے اورشفع ووتر اس کے کانوں سے باتیں کر چکے تھے اور وہ جان چکا تھا کہ جو ہوا اور جس وجہ سے ہوا،اسی وجہ سے پھر ہو سکتا ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی بستیاں خبر دے چکی تھیں کہ اس طرح پوری دنیا ٹوٹ پھوٹ سکتی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کے رہے گی۔ البتہ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد کیا ہو گا، ان آیتوں نے اسے بتایا کہ اس دن مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ ابھی تک وہ اولوا النہٰی میں سے ایک ذوحجر تھا مگر اب تک وہ ایک مؤمن کامل اور ایک صدیق تھا، اس لئے اللہ نے فرمایا:

{يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي} (الفجر:۲۷تا۳۰)

''اے وہ جان جو بے تردّد ایمان والی ہے، اپنے ربّ کی طرف لوٹ پڑ تو اس سے راضی ہو، وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے پرستاروں میں داخل ہو جا اور آجا میری جنت میں آجا۔''

ذوحجر نے جو کہ اب نفس مطمئنہ تھا اور صدیق بن چکا تھا، یہ آیتیں سنیں اور بول اُٹھا کیا ہی عمدہ بشارت ہے۔ رسول1 نے فرمایا کہ یہ بشارت تمہیں کو سنائی جانے والی بشارت ہے۔

عربی دستورِ میراث

اس سورہ کی تمام آیتیں کسی قدر تشریح کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کر دی گئیں۔ اس سورہ کاسبق یہ ہے :

a اکرام یتیم کا رواج نہ ہونا

b اِطعام مسکین پر ایک دوسرے کو آمادہ نہ کرنا

c میراث کو سب کا سب سمیٹ کھانا

d مال کی بے حد محبت کرنا

یہ چار جرائم ایسے ہیں جن کا مآل یہ ہونا چاہیے کہ جس قوم کی معاشی زندگی ان جرائم کے تاروپود سے بنی گئی ہو، وہ عاد وثمود اور فرعون اور موتفکہ والوں کے انجام کی حقدار ہو اور قیامت میں تو ان جرموں کی سزا مل کے رہے گی۔

ان جرائم اَربعہ میں سے بنیادی جرم حب ِ مال ہے، یہی جرم لِمّ تراث (ساری میراث سمیٹنے) کے دستور کی اوریتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بے اعتنائی کی اصل ہے۔ لِم کے معنی ہیں سب سمیٹ لینا۔

سورۃ البلد اورفک ِرقبہ

ایامِ جاہلیت کا ہر معاشی دستور حب ِمال کی چغلی کھاتا تھا، لیکن یہی وہ الزام جس کو عرب کبھی خوشی سے قبول نہیں کرسکتا تھا، جاہل ہونے پر اسے فخر تھا۔ابوجہل کا یہ لقب اسلامی تصور کے مطابق برے معنی کو متحمل ہے، لیکن عربی تصور کے مطابق یہ قابل ناز لقب تھا، کیونکہ جہل کے معنی تھے: برے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنے عزم پر قائم رہنا۔قرآن عذاب ِآخرت سے ڈراتا ہے، ابوجہل اس سے نہیں ڈرتا تھا۔ ایامِ جاہلیت میں آپ کو ظالم، جاہل اور سارق یہاں تک کہ دجال (برا فریبی) نام والے بھی ملیں گے، لیکن شحیح وبخیل جیسے نام نہ ملیں گے۔ {تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا} ایک ایسی بات تھی جسے عرب برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ایک شخص نے تردید کی اور اس نے کہا کہ میں ڈھیروں مال ہلاک کر چکا ہوں، میرے جیسوں کومال کا حریص بتانا کیسی بات ہے۔ اس قول کے جواب میں اللہ نے سورہ بلد نازل کی اور عرب کے معاشی نظام کی ایک اورشہ رگ سے خون نچوڑنے کی ابتدا کر دی۔ فرمایا:

{لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (1) وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ (2) وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ (3) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ (4) أَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ (5) يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا (6) أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ (7) أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ (8) وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ (9) وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (10) فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) فَكُّ رَقَبَةٍ (13) أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (14) يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ (15) أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ (16) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (17) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (18) وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ (19) عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ} (سورۃ البلد)

'' نہیں میں تو اس شہر کو دلیل بناتا ہوں۔ اس حال میں کہ تواس شہر میں مقیم ہے۔ اور ہر باپ (یا ماں) او رہر بیٹے (بیٹی) کو۔ یقینا ہم نے انسان کو دشواری میں پیدا کیا۔ کیا(پھر بھی) اس کا خیال ہے کہ اس پر کسی کا بس نہ چلے گا۔ کہتا ہے کہ میں تو ڈھیروں مال تباہ کر چکا ہوں۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہم نے اسے (دیکھنے کو) دو آنکھیں دیںاور (بولنے کو) ایک زبان اور دو ہونٹ دیے اور ہم نے اسے دونوں بلندیاں دکھا دیں۔ پھر بھی درمیانی کھائی میں نہیں اُترا۔ اور توکیا جانے درمیانی کھائی کیا شے ہے۔ ایک گردن کو رہائی دینا یا کھلانا کسی بھوک والے دن میں کسی قرابت مند یتیم کو۔ یا خاک میں لتھڑے کسی مسکین کو پھر یہ کہ وہ ہونا ان میں سے جوایمان لائے اور ایک دوسرے کو جھیلنے کی اور ایک دوسرے کو ترس کھانے کی رائے دیتے ہیں،یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے اور جو ہماری آیتوں کے منکر ہیں وہ بائیں بازو والے ہیں۔ ان کو ایک آگ گھیرے میںلئے ہوئے ہے۔''

شخص نے سورۃ الفجر کے عذاب کے تردید کی تھی، اس لئے فرمایا: کیا اس کا خیال ہے کسی غلام کی آزادی کسی یتیم اور مسکین کے کام نہیں آئی تھی۔اللہ نے آنکھیں دی تھیں کہ دیکھے کہ امداد کا حقدار کون ہے اور امداد کس وقت کرنی چاہیے۔ اسے دو بلندیاں دکھا دی تھی: ایک طرف اِسراف وتبذیر دوسری طرف بخل اور شح نفس ، بیچ کی کھائی موقع او رمحل پر مستحق امداد اور مصیبت زدہ کو دکھ جھیلنے کی رائے دینا اور خوش حالوں کو دکھی لوگوں پر ترس کھانے کی رائے دینا اور کلمۂ حق کا اقرار کرنا، اس کے لئے ایک زبان اور دو ہونٹ دیے۔

سورۃ اللیل اور مقصد خیرات

اس سورہ میںاللہ نے فرمایا:

a بخیل مستغنی کو جس نے الحسنیٰ( اچھی بات) کو جھٹلایا، دھمکی دی کہ ہم اس کے لئے سامان کر دیں گے عسریٰ (تکلیف وعسرت) کا اور اسے جہنم میں داخل کر دیں گے اور اسے الأشقیٰ کا لقب دیا۔

b الحسنیٰ(اچھی بات)کی تصدیق کرنے والے کو وعدہ دیا کہ اس کے لئے ہم الیسریٰ (آرام وراحت)کا سامان کر دیں گے اور اس کو الأتقی کا لقب دیا اور اس سے راضی ہونے کا وعدہ لیا،کیونکہ وہ:

{الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (18) وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (19) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى (20) وَلَسَوْفَ يَرْضَى} (اللیل:۱۸ تا۲۱)

''اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔ اس کے اوپر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ سوائے اپنے عالی شان پروردگار کی خوشنودی کی خواہش کے اور عنقریب راضی ہو جائے گا۔''

ان آیتوں نے صرفِ مال، خصوصاً خیرات کامقصد متعین کر دیا۔ نیکیاںاحسان چکانے کے لئے کی جاتی ہیں، اور یہ بھی ایک اچھی بات ہے، لیکن اللہ کو خوش کرنے والی نیکی وہی ہے جو محض اللہ کے لئے کسی کے ساتھ کی جائے۔