نقل و عقل کی کشمکش میں امام ابن تیمیہ ﷫  کا موقف

نقل و عقل کی کشمکش میں امام ابن تیمیہ ﷫  کا موقف

امام ابن تیمیہ﷫ نے نقل وعقل کی کشمکش یا وحی اورعقل کے تعارض پر مفصل گفتگو اپنی کتاب ’’درء تعارض العقل والنقل‘‘  میں کی ہے یعنی نقل وعقل میں تعارض کو دفع کرنا۔ اس کتاب کا ایک اور معروف نام ’’موافقة صريح المعقول لصحيح المنقول‘‘  یعنی عقلِ صریح کی نقلِ صحیح کے ساتھ موافقت  ہے۔ یہ کتاب گیارہ جلدوں میں الدکتور محمد رشاد سالم کی تحقیق کے ساتھ شائع  ہوئی ہے جس میں ایک جلد فہارس پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا بڑا موضوع’’قانون کلی‘‘  کا رد ہے کہ جسے مسلمان فلاسفہ  ’’قانون کلی‘‘  کہتے ہیں جبکہ متکلمین ’’قانون تاویل‘‘  کہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ ﷫ اس کتاب میں نہ صرف فلاسفہ اور متکلمین کے عقلی اصولوں کا ردّ کرتے ہیں بلکہ اس کے متبادل کے طور ایک پورا نظام فکر بھی دیتے ہیں اور یہ دعوی بھی نہیں کرتے کہ وہ اس نظام کے واضع ہیں بلکہ وہ اس نظام فکر کو سلف صالحین سے ثابت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے سلفی اسکول آف تھاٹ کہا جاتا ہے۔ یہ مضمون  محض امام ابن تیمیہ ﷫ کے موقف کی وضاحت ہے، انہی کی زبانی، البتہ انداز کلام جدلی ہو گا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امام ابن تیمیہ﷫  یہ سب مباحث ایک خاص دور میں کر رہے تھے کہ جس کی فضا ہی جدلی تھی۔

معرفت الہی کے پانچ قرآنی اصول

کتاب کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ امام ابن تیمیہ ﷫اپنے دور تک عقل ونقل کے باہمی تعارض اور کشمکش کے حوالے سے موجود بیانیوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے  کہ یہ سب مروجہ بیانیے بدعتی ہیں۔ وہ انہیں اس لیے   بدعتی بیانیے کہتے ہیں کہ ان کے بقول سنت کا بیانیہ، سلف کا بیانیہ ہے جو وہ پیش کر رہے ہیں جبکہ ان سب بیانیوں میں سے کسی ایک بیانیے کی بھی سلف سے نسبت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ سلف صالحین نے نہ تو اس طرح کے عقلی اصول بیان کیے اور نہ ہی اس طرح کلامی انداز میں بحث کی ۔ امام ابن تیمیہ﷫ کے بقول سلفی بیانیہ جن بنیادوں پر کھڑا ہے، وہ قرآنی اصول ہیں اور وہ کل ملا کر پانچ ہیں؛

پہلا ’’القول على الله بغير علم‘‘  یعنی اللہ پر  علم  وحی کے بغیر کوئی بات کہنا۔

دوسرا ’’قول غير الحق‘‘  یعنی وحی سے حق وثابت شدہ کے خلاف بات کہنا۔

تیسرا ’’الجدل بغير علم‘‘  یعنی وحی کے علم کو بنیاد بنائے بغیر مجادلہ کرنا۔

چوتھا ’’الجدل في آيات الله‘‘  یعنی اللہ کی آیات کو مجادلے کا میدان بنانا۔

اور پانچواں ’’التفرق والاختلاف‘‘  یعنی امت میں علمی تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا۔

 نقل وعقل کے تعارض میں فیصلہ انہی پانچ اصولوں سے ہو گا۔ جو بیانیہ ان پانچ بنیادی اصولوں کی روشنی میں مرتب ہوا ہے تو وہ سلف کا نظام فکر ہے۔ اور جو بیانیہ ان پانچ اصولوں کی روشنی میں پروان نہیں چڑھا ، وہ بدعتی بیانیہ ہے۔

معرفت الہی کے بدعتی بیانیے

امام ابن تیمیہ ﷫ لکھتے ہیں کہ عقل ونقل کے تعارض اور کشمکش کے حوالے سے بنیادی بیانیے دو ہی ہیں؛

 ’’تبدیل کا بیانیہ‘‘  اور ’’تجہیل کا بیانیہ‘‘ ۔

پھر تبدیل کے بیانیے سے مزید دو بیانیے نکلتے ہیں؛

 ایک ’’تخییل کا بیانیہ‘‘  ہے  اور دوسرا ’’تاویل کا بیانیہ‘‘  ۔

تخییل کے بیانیے کا خلاصہ یہ ہے کہ وحی نے انسانوں کو جو خبر دی ہے، وہ  انسانوں کے خیال اور وہم کے مطابق دی ہے نہ کہ امر واقعہ (reality) کے مطابق۔ اس بیانیے کے امام ابن سینا ہیں۔   بہت سے فلاسفہ نے ان کی اس میں اتباع کی ہے بلکہ صوفیاء میں سے بعض فلاسفہ جیسا کہ شیخ ابن عربی وغیرہ بھی اسی بیانیے پر ہیں۔ مثال کے طور ان کا کہنا یہ ہے کہ وحی کے نزول کے زمانے میں لوگوں کا اللہ کے بارے تصور تھا کہ اس کا کوئی تخت ہو گا جیسا کہ بادشاہ کا تخت ہوتا ہے لہذا اللہ عزوجل کے لیے وحی میں عرش کا اثبات کیا گیا جبکہ حقیقت میں اللہ کا کوئی عرش نہیں ۔ اور لوگوں کے خدا کے بارے میں تصور کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اثبات مصلحتاً ہوا ہے تا کہ عوام میں خدا کے تصور سے وحشت پیدا نہ ہو اور  وحی کا خدا ان کے وہم اور خیال کے مطابق ہو تا کہ انہیں وحی کی خبر سے مانوسیت پیدا ہو۔

پھر اس گروہ کا اس میں اختلاف ہو گیا کہ نبی کو وحی کی خبر کی حقیقت کا علم تھا یا نہیں۔ بعض نے کہا کہ نبی کو حقیقت کا علم تھا لیکن نبی نے بھی مصلحتاً وحی کی خبر کے ظاہر کو ہی جاری کیا تا کہ لوگ خدا کا انکار نہ کر دیں۔ جبکہ بعض کا کہنا یہ ہے کہ نبی کو وحی کی خبر کی حقیقت کا علم ہی نہیں تھا کیونکہ اشیاء کی حقیقت کی تلاش نبی کا مقصد اور میدان نہیں ہے ،یہ فلسفے کا موضوع ہے نہ کہ نبوت کا اور  نبی فلسفی نہیں ہوتا  ۔ لہذا وحی کی خبر کی حقیقت کا علم ماہر فلاسفہ کو حاصل ہے۔  اسی وجہ سے بعض     یہ بھی کہتے ہیں کہ ماہر فلسفی، نبی سے افضل ہے، اس معنی میں کہ وہ اشیاء کی حقیقت کا علم رکھتا ہے جبکہ نبی کے پاس محض خبر ہے اور اسے خود اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ اور بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ولی کامل، نبی سے افضل ہے کہ اسے کشف اور مشاہدے کے ذریعے وہی علم دیا گیا ہے جو فلاسفہ کو عقل کے ذریعے ملا ہے۔ فارابی نے ماہر فلسفی کو نبی پر ترجیح دی ہے اور ابن عربی نے کامل ولی کو نبی سے افضل کہا ہے کہ ان کے بقول یہ دونوں نبی سے زیادہ وحی کی خبر کی حقیقت کا علم رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کمال عقل یا کامل مشاہدے سے اشیاء کی حقیقت کا علم حاصل کر لیتے ہیں۔ اور یہ نقطہ نظر من جملہ باطنیہ، اسماعیلیہ، فارابی، ابن سینا، سہروردی، ابن رشد، ابن عربی، ابن سبعین اور ابن طفیل وغیرہ کا ہے۔

  ’’تبدیل کے بیانیے‘‘  میں پہلا بیانیہ ’’ تخییل کا بیانیہ‘‘ فلاسفہ کا ہے، بھلے وہ محض فلسفی ہوں جیسا کہ فارابی، ابن سینا، اخوان الصفا اور ابن رشد وغیرہ یا صوفیاء میں سے فلاسفہ کہ جنہیں متفلسفین کہا جاتا ہے یعنی تکلف سے فلسفی بننے اور کہلوانے والے جیسا کہ سہروردی، ابن عربی، ابن سبعین اور ابن طفیل وغیرہ۔

اسی مکتبِ فکر ’’تبدیل کے بیانیے‘‘ میں دوسرا بیانیہ ’’تاویل کا بیانیہ‘‘  متکلمین کا ہے۔ متکلمین کے بیانیے کا خلاصہ یہ ہے کہ وحی کی خبر نے اپنی خبر میں لوگوں کے تخیل اور وہم کی بجائے حقیقت کے بیان کو ملحوظ رکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کیا، اس کا تعین ہماری عقل کرے گی۔ یہ گروہ وحی کی خبر میں متکلم کے مقصود تک پہنچنے کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ اصل اہمیت اس بات کو دیتا ہے کہ وحی کی خبر ان کے عقلی مسلمات کی فہرست کے مطابق اور موافق ہو جائے۔ معتزلہ، کلابیہ، کرامیہ اور اہل تشیع کے گروہ یہی کام کرتے ہیں۔

دوسرا   مکتبِ فکر ’’تجہیل کا بیانیہ‘‘ ہے۔ ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وحی کی خبر کے حقیقی معانی کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ رسول ﷺ  کے علم میں بھی نہیں تھے لہذا آپ ؐ  کی اخبار اگر عقلی مسلمات کے خلاف ہوں گی تو مردود ہوں گی جیسا کہ عذاب قبر، بعث بعد الموت، قیامت اور جنت  وجہنم کے بارے بہت سی اخبار جو عقل وسمجھ سے بالاتر ہیں۔ ان کے بقول وحی کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

ان میں سے بعض کا کہنا یہ ہے کہ نبی وحی کی خبر کی حقیقت کو تو جانتا ہے لیکن اس حقیقت کو اس نے بیان نہیں کیا۔ اس  مکتبِ فکر کے قائدین جہمیہ ہیں۔ ان سے آگے کئی فرقے نکلے ہیں جیسا کہ مفوضہ ہیں۔

 قانونِ کلی کا بیان

یہ وہ تناظر ہے کہ جس میں امام صاحب تمام فرقوں اور ان کے ائمہ کے اعتقادات اور ان کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے اشاعرہ میں سے باقلانی ، جوینی ، رازی  اور غزالی رحمہم اللہ  کی طرف آتے ہیں اور ان کے بیان کیے گئے ’’قانونِ کلی‘‘  یا ’’قانونِ تاویل‘‘  کا رد کرتے ہیں۔ امام صاحب نے اس قانون سے امام جوینی، امام رازی اور امام غزالی ﷫ کے رجوع کا بھی ذکر کیا ہے لہذا اسی لیے ان کا احترام سے ذکر بھی کرتے ہیں لیکن اس کے رد میں اس لیے شدت اور تفصیل اختیار کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ اشاعرہ کا دیا ہوا نظام فکر نہیں تھا،اشاعرہ نے اس نظام فکر کا بڑا حصہ فلاسفہ اسلام سے لیا تھا کہ جنہوں نے اسے یونانیوں سےاخذ کیا تھا۔ لہذا اس بڑے تناظر (bigger perspective) کا رد ضروری تھا کہ جس میں اشاعرہ کی ایک جماعت کی رائے وجود میں آ رہی تھی۔

یہ بھی واضح رہے کہ امام ابو الحسن الاشعری ﷫  یا متاخرین اشاعرہ کا یہ موقف نہیں تھا یعنی ’’قانون کلی کے اثبات‘‘  کا جیسا کہ قاضی ابن العربی نے امام غزالی     کا شاگرد ہونے کے باوجود ان پر یہ نقد کیا کہ ان کے استاذ فلسفے کے رد میں اس میں گھس تو گئے لیکن اس سے نکل نہ سکے۔ پس یہ اشاعرہ کی ایک جماعت یعنی باقلانی، جوینی، رازی اور غزالی﷫   وغیرہ کا موقف تھا کہ جن کی بہر حال ایک علمی حیثیت مسلم تھی تو اس کا رد کرنا پڑا۔

امام ابن تیمیہ﷫   کا کہنا ہے کہ متکلمین یعنی اشاعرہ نے ’’قانون کلی‘‘  فلاسفہ کی جماعت سے متاثر ہو کر اپنایا ہے بلکہ امام صاحب نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام غزالی          کو ’’الشفاء ‘‘ نے بیمار کر دیا ۔ اور ’’الشفاء ‘‘  معروف فلسفی ابن سینا متوفی 428ھ کی کتاب ہے۔ اشاعرہ میں سے پہلے پہل قاضی ابو بکر الباقلانی متوفی 402ھ  نے تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی بات کی۔ شوافع میں سے ابو حامد الاسفرائینی متوفی 406ھ اپنے معاصر شافعی عالم دین ابو بکر الباقلانی       کے افکار کا رد کرتے تھے۔ اس کے بعد الباقلانی ﷫    کے شاگرد خطیب بغدادی متوفی 463ھ نے یہی فکر پیش کیا کہ تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح حاصل ہے۔

امام ابن تیمیہ﷫ کے بقول امام الحرمین الجوینی ﷫ متوفی 478ھ   نے نقل وعقل کی کشمکش میں عقل کو ترجیح دینے کا مسلک اپنی کتاب ’’الإرشاد إلى قواطع الأدلة في أصول الاعتقاد‘‘  میں بیان کیا۔ انکے بعد ان کے شاگرد امام غزالی متوفی 505ھ ﷫ نے اپنی کتاب ’’المستصفی ‘‘ اور ’’قانون التأویل‘‘ میں یہی موقف قدرے تفصیل سے پیش کیا۔ پھر اسے بہت ہی مرتب انداز میں امام رازی متوفی 606ھ﷫  نے اپنی کتاب ’’أساس التقديس في علم الكلام‘‘  میں پیش کیا اور اپنی چند دیگر کتب میں بھی اسے نقل کیا۔ امام ابن تیمیہ﷫    نے اپنی کتاب ’’درء تعارض العقل والنقل‘‘  میں 44 پہلوؤں سے اشاعرہ کے ’’قانون کلی‘‘  کا رد کیا ہے۔

امام رازی ﷫  کا کہنا ہے کہ جب نقلی اور عقلی دلیل میں تعارض ہو جائے تو  اس کی چار صورتیں بنتی ہیں؛

  • آپ تعارض کی صورت میں دونوں دلیلوں کو ہی درست قرار دیں جو کہ تصدیق نقیضین ہے یعنی دو متضاد چیزوں کو سچ مان لینا اور یہ عملاً ممکن نہیں کہ دو متضاد چیزیں سچ ثابت ہو جائیں۔
  • آپ نقل وعقل دونوں کو غلط کہہ دیں تو یہ تکذیب نقیضین ہے یعنی دو متضاد چیزوں کو جھوٹ قرار دینا تو یہ بھی ممکن نہیں یعنی آپ کو ان میں سے ایک کو لینا پڑے گا کہ ان میں سے ایک سچ ہے اور دوسرا جھوٹ ۔
  • آپ یہ کہیں کہ ہم نقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کو لے لیتے ہیں جبکہ عقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اگر ہم عقل کو چھوڑ کر نقل کو لے لیتے ہیں تو عقل غلط ثابت ہو جائے گی۔ کیونکہ اسی عقل کی بنیاد پر ہی تو ہم نقل کو ثابت کر رہے ہیں جیسا کہ خالق کا اثبات اور نبی کے معجزات عقل ہی سے تو ثابت ہوتے ہیں۔ پس  اگر آپ نے عقل کو غلط ثابت کر دیا تو نقل بھی غلط ہو جائے گی کہ عقل، نقل کی اصل ہے۔ پس  جب اصل غلط ہوئی تو فرع بھی غلط ہو گئی۔
  • اب چوتھی صورت ہی باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح دیں اور یہ کہیں کہ یا تو نقل صحیح نہیں ہے لہذا اس کا انکار کر دیں یا پھر اس نقل کا وہ مفہوم بیان کریں جو عقل کے مطابق ہو۔

قانونِ کلی کا رد

امام ابن تیمیہ﷫ نے اس ’’قانون کلی‘‘ یا ’’قانون تاویل‘‘ کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون تین مقدمات پر مشتمل ہے اور تینوں ہی باطل ہیں۔ اس قانون کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ نقل اور عقل میں تعارض ہوتا ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تعارض کی صرف چار صورتیں بنتی ہیں۔ تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ ان چار میں چوتھی صورت ہی قابل حل ہے۔

کیا نقل وعقل میں تعارض ممکن ہے؟

امام صاحب یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس قانون کے پہلے مقدمے کی طرف آئیں کہ نقل اور عقل میں تعارض ہوتا ہے تو ہم یہ سوال کریں گے کہ پہلے یہ بتلائیں کہ آپ کی نقل اور عقل سے مراد کیا ہے؟ قطعی دلیل یا ظنی دلیل؟ اس کی عملاً تین صورتیں بنتی ہیں:

نقلی اور عقلی دونوں دلیلیں قطعی ہوں تو دونوں میں تعارض ممکن نہیں اور اس پر اہل عقل کا اتفاق ہے۔ اہل عقل کا کہنا یہ ہے کہ قطعی دلیل کبھی بھی قطعی دلیل کے متعارض نہیں ہو سکتی، چاہے دونوں نقلی ہوں، یا دونوں عقلی ہوں، یا ایک نقلی اور دوسری عقلی ہو۔ اور اگر کسی کو دو قطعی دلیلوں میں تعارض نظر آ رہا ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ ایک یہ کہ ان میں سے کوئی ایک دلیل قطعی نہ ہو اور دوسری یہ کہ اس کا غور وفکر کمزور ہو۔

  • نقل وعقل میں تعارض کی صورت میں ایک دلیل قطعی ہو اور دوسری ظنی ہو تو تمام اہل عقل کا اتفاق ہے کہ قطعی دلیل کو ظنی دلیل پر ترجیح حاصل ہو گی، چاہے وہ قطعی دلیل نقلی ہو یا عقلی ہو۔ تو یہاں ترجیح کی وجہ قطعی ہونا ہے نہ کہ عقلی ہونا لہذا قطعیت کو ترجیح ملی نہ کہ عقل کو۔ پس تعارض کی صورت میں عقل کی ترجیح کا قاعدہ کہاں سے لے آئے ہو!
  • نقلی اور عقلی دونوں دلیلیں ظنی ہوں تو اس صورت میں وجہ ترجیح کو دیکھیں گے اور اس کے مطابق فیصلہ کریں گے، چاہے وہ نقلی دلیل کے حق میں ہو یا عقلی دلیل کے حق میں۔ اور اس پر بھی عقلاء کا اتفاق ہے۔

امام صاحب   کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ نقلی دلیل کبھی قطعی ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعوی ہی باطل ہے لیکن اگر ہم ان کے اس دعوے کو مان بھی لیں تو پھر بھی ان کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اگر نقلی دلیل کو ظنی مان لیں گے تو عقلی دلیل کو عقلی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ قطعی ہونے کی وجہ سے ترجیح دیں گے۔ لہذا اس صورت میں بھی ترجیح عقل کو نہیں قطعیت کو حاصل ہوئی ہے۔

امام صاحب    کا کہنا ہے کہ  جہاں تک ان کا یہ دعوی ہے کہ عقل، نقل کی اصل ہے۔ تو اس جملے کے دو معانی ہو سکتے ہیں؛ ایک یہ کہ عقل کے بغیر نقل ثابت ہی نہیں ہوتی تو ایسی بات تو کوئی صاحب عقل نہیں کرے گا۔ عقل ہو یا نہ ہو، نقل اگر ہے تو ہے۔ یعنی نقل کا ہونا یا نہ ہونا عقل کے مرہون منت نہیں ہے۔ عقل، نقل کے لیے ایسا سبب یا وجہ نہیں ہے کہ وہ ہو گی تو نقل ہو گی اور اگر وہ نہیں ہو گی تو نقل کا وجود بھی نہ ہو گا۔ نقل کے فی نفسہ وجود میں عقل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اور یہ بات عقلا ًثابت ہے۔

اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ نقل کے علم اور معرفت میں یعنی نقل کو جان لینے میں عقل کا مقام اصل کا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ عقل سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اگر تو عقل سے مراد آلہ عقل یعنی دماغ ہے تو یہ علم نہیں ہے بلکہ ہم اسے علم کے حصول کا ذریعہ یا شرط کہہ سکتے ہیں۔ تو جب یہ عقل علم ہی نہیں ہے تو اس کا نقل سے تعارض کا کیا معنی! تعارض تو ایک جیسی دو چیزوں میں ہوتا ہے۔ سوچ اور سوچ کا تعارض تو ہو سکتا ہے، دماغ اور سوچ کا کیا تعارض!

اور اگر عقل سے تمہاری مراد علوم عقلیہ ہیں تو واضح رہے کہ نقل کے صحیح ہونے کا دارو مدار اس پر ہے کہ اس کی نسبت رسول اللہ ؐ سے سچ ثابت ہو جائے۔ اور نقل کی یہ صحت بعض اوقات علوم عقلیہ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات ان کے بغیر بھی حاصل ہو جاتی ہے لہذا نقل اپنے صحیح ہونے میں،  کسی حال میں بھی عقل کی محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح کل علوم عقلیہ، نقل کی صحت معلوم کرنے میں اصل نہیں ہیں بلکہ بعض علوم عقلیہ ایسے ہیں کہ جن پر نقل کی صحت کا دارو مدار ہے۔ لہذا بعض علوم عقلیہ کو غلط ثابت کرنے سے نقل غلط ثابت نہیں ہو گی کیونکہ وہ نقل کی صحت معلوم کرنے کے لیے اصل ہی نہیں ہیں تو تمہارا مقدمہ جاتا رہا کہ عقل کو باطل ثابت کرنے سے نقل بھی باطل ہو جائے گی۔

امام ابن تیمیہ  کا کہنا ہے کہ متکلمین کے ’’قانونِ کلی‘‘  کے تینوں مقدمات باطل ہیں۔ پہلا مقدمہ یہ کہ نقل و عقل میں تعارض ہو سکتا ہے تو ہم نے واضح کر دیا ہے کہ یہ محال یعنی ناممکن ہے۔ اور اگر ایسا نظر آ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو نقل صحیح نہیں ہے یعنی وہ ثابت شدہ ہی نہیں ہے یا پھر عقل صریح نہیں ہے یعنی اس کی وہ دلالت کہ جس سے نقل کا تعارض دکھلایا جا رہا ہے، صراحتاً نہیں ہے۔ پس نقل صحیح اور عقل صریح میں کبھی تعارض نہیں ہوتا ہے۔

نقل وعقل میں تعارض کی ممکنہ صورتیں

متکلمین کا دوسرا مقدمہ کہ نقل و عقل میں تعارض کی چار صورتیں بنتی ہیں، بھی غلط ہے؛

  • دونوں کی تصدیق کی جائے۔
  • دونوں کی تکذیب کی جائے۔
  • نقل کو ترجیح دی جائے ۔
  • عقل کو ترجیح دی جائے۔
  • قطعی کو ترجیح دی جائے جبکہ ان میں سے ایک قطعی ہو اور دوسری ظنی۔
  • راجح کو ترجیح دی جائے جبکہ دونوں ظنی ہوں۔
  • ان میں تعارض کو محال یعنی ناممکن قرار دیا جائے جبکہ یہ دونوں قطعی ہوں۔

 آخری تین صورتوں میں تعارض رفع ہو جاتا ہے جبکہ متکلمین ان صورتوں کو بیان ہی نہیں کرتے ہیں۔

نقل وعقل میں تعارض کی صورت ترجیح کس کو ہو گی؟

متکلمین کا تیسرا مقدمہ یہ تھا کہ نقل و عقل میں تعارض کی صورت میں عقل کو ترجیح دیں گے ،تو یہ بھی باطل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی عقل نے ہماری رہنمائی کی ہے کہ ہم نقل کی تصدیق کریں یعنی رسول ؐ  کی رسالت کی تصدیق کریں اور ان کی لائی ہوئی وحی کی خبر پر ایمان لائیں لہذا عقل، نقل کی اصل ہے۔

امام ابن تیمیہ   کا کہنا ہے کہ اگر ہم نقل وعقل کے تعارض کی صورت میں عقل کو ترجیح دیں گے اور نقل کو باطل قرار دے دیں گے تو پھر عقل کی دلالت اور رہنمائی باطل قرار پائے گی کیونکہ عقل ہی نے تو نقل کی صحت پر دلالت کی تھی۔ پس اگر نقل باطل ہو گئی تو عقل کی دلالت باطل ہو گئی۔ اور جب عقل باطل ہو گئی تو وہ نقل کے معارض نہ رہی۔ پس عقل کو مقدم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقل کو مقدم نہ کیا جائے کہ جس کی دلالت باطل ہے یعنی جو چیز دلیل نہیں بن سکتی، وہ مقدم کیسے کی جا سکتی ہے!

اسی طرح نقل اور عقل میں اگر تعارض ہو جائے تو خود عقل یہ کہتی ہے کہ نقل کو ترجیح دو۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص نے کسی عامی (layman) سے مسئلہ پوچھا۔ عامی نے اسے کہا کہ فلاں مفتی صاحب سے پوچھ لو کہ وہ مجھ سے بڑے عالم ہیں، وہ صحیح جواب دیں گے۔ اب وہ عامی ان مفتی صاحب کے پاس جاتا ہے اور وہ اسے مسئلے کا حل بتلاتے ہیں۔ اس عامی کی اس شخص سے دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو وہ شخص یہ کہتا ہے کہ اس سوال کا جواب یہ نہیں ، بلکہ یہ ہے۔ اب اس عامی پر  واجب ہے کہ وہ اس شخص سے کہے کہ تمہی نے تو مجھے مفتی کا بتلایا ہے اور تمہارے کہنے پر ہی میں نے اس کی طرف رجوع کیا ہے لہذا اب تمہارا اختلاف معتبر نہیں ہے۔ وہ شخص اگر عامی سے کہتا ہے کہ مفتی کے پاس جانے کے لیے تو تم نے میری بات مان لی لیکن اب کیوں نہیں مان رہے؟ اس پر عامی کہتا ہے کہ مفتی تک پہنچنے کے لیے میں تمہاری رہنمائی کا قائل ہوں لیکن جب مفتی تک پہنچ گیا کہ تمہارے بقول وہی تھا کہ جو تم سے بڑا عالم تھا لہذا تم نے مجھے اس کی طرف بھیجا، لہذا اب اس کے ملنے کے بعد تمہارا اس سے اختلاف معتبر نہیں ہے۔

وہ شخص اس مثال میں عقل ہے جبکہ عامی سے مراد عام آدمی ہے اور مفتی سے مراد رسول ہے۔ اگر عقل نے انسان کی اس طرف رہنمائی کی ہے کہ وہ رسول کی تصدیق کرے اور اس کی وحی کی خبر پر ایمان لائے تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اگر عقل جو کہ انسان کی رہنما ہے، اس کا رسول سے اختلاف ہو جائے تو عقل کی بات ہی مانی جائے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ عقل متولی ہے یعنی عقل نے رسول تک رہنمائی کرنے کے بعد اپنی کرسی رسول کے لیے خالی کر دی ہے اور رسول کو اس کرسی پر بٹھا دیا ہے۔ اب عقل نے جس کو خود اپنی کرسی پر اس لیے بٹھایا ہے کہ وہ اس سے زیادہ اس کرسی کا حقدار ہے تو بعد ازاں کسی اختلاف کی صورت میں اسے کیسے وہاں سے اٹھا سکتی ہے! اور ایسا کرنے کی صورت میں عقل کا پہلا فیصلہ باطل ٹھہرے گا۔ لہذا جب اس کا پہلا فیصلہ باطل ٹھہرے گا تو وہ دلیل نہ رہی یعنی دلالت کے قابل نہ رہی لہذا معتبر ہی نہ رہی۔

پھر تعارض کی صورت میں اگر عقل کو نقل پر ترجیح دیں گے تو اختلاف پھر بھی  ختم نہ ہو گا کیونکہ عقل ایک نہیں ہے بلکہ اضافی (relative) ہے کہ ہر کسی کی اپنی عقل ہے لہذا ہر کسی کا حکم بھی اپنا ہو گا ۔ پس  خود عقل، عقل کے متعارض ہو جائے گی۔ اس طرح تعارض باقی رہے گا اور مقصد حاصل نہ ہو گا۔ رہی نقل یعنی شریعت اور وحی کی خبر تو اگر وہ صحیح ثابت ہو جائے تو ایک ہی ہے لہذا اس کو ترجیح دینے کی صورت میں عقل اور نقل کا تعارض واقعی میں رفع ہو جائے گا[1] ۔

اسی طرح نقل کو عقل پر اس لیے ترجیح دی جائے گی کہ عقل تمام نقل کی تصدیق کرتی ہے یعنی عقل یہ کہتی ہے کہ رسول نے جو بھی خبر دی ہے، اس پر ایمان لاؤ، بس صرف اتنا دیکھ لو کہ وہ رسول ہی نے دی ہے۔ لیکن نقل، تمام عقل کی تصدیق نہیں کرتی ہے کہ ان میں سے جو ضروری علوم ہیں، انہیں مانتی ہے جیسا کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں وغیرہ، لیکن جو عقلی علوم نظری ہیں یعنی غور وفکر کے متقاضی ہیں تو نقل  ان کی کلی تصدیق نہیں کرتی ہے بلکہ نظری علوم تو خود عقلاء کے ہاں مختلف فیہ ہیں [2]۔

قانونِ تاویل کا صحیح معنی ومفہوم

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امام ابن تیمیہ ﷫  فلاسفہ اور متکلمین کے قانون کلی یا قانون تاویل کا اس شدت سے رد کرتے ہیں تو وہ خود کیا تاویل کے قائل بھی ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ کسی قسم کی تاویل کے قائل ہیں تو وہ کیا ہے؟ یا وہ اس قانون کلی کے متبادل کے طور کون سا اصول اور قانون پیش کرتے ہیں کہ جس کی روشنی میں ہم نقل یا وحی کی خبر کے معانی کو سمجھ سکتے ہیں۔

امام ابن تیمیہ ﷫   کا کہنا ہے کہ تاویل کے چار معانی ہیں؛ پہلا معنی تو یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی اور وضعی معنی کی طرف پھیرا جائے کیونکہ تاویل کا لفظ ’’اول ‘‘  سے نکلا ہے کہ جس کا بنیادی معنی ہی پھیرنا ہے۔ جب ہم کسی لفظ کو اس کے اصل معنی یعنی اس معنی کی طرف پھیر دیتے ہیں کہ جو اس کی حقیقت ہے یا جس معنی کے لیے اہل زبان نے اس لفظ کو وضع کیا ہے یا مختص کیا ہے تو وہی اس کی تاویل ہے۔

پس لفظ اگر خبر ہے تو اس کی تاویل مخبر بہ [جس کی خبر دی گئی ہو] کا واقع ہو جانا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

﴿وَ قَالَ يٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا﴾ [يوسف: 100]

 ’’اور حضرت یوسف  ؑ  نے کہا کہ اے میرے ابا جان! یہی میرے خواب کی تاویل [حقیقت جو واقع ہو چکی ہو] ہے جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔‘‘

اور اگر لفظ انشاء ہو تو اس کی تاویل سے مراد مامور بہ [جس کا حکم دیا گیا ہو] پر عمل کرنا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ  سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ  اکثر وبیشتر رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے:

« سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ».

 آگے الفاظ ہیں: ’’يتأول القرآن‘‘  یعنی آپ ؐ قرآن مجید کی تاویل کرتے ہوئے ایسا کرتے تھے۔ اور حدیث میں ہی قرآن مجید سے مراد سورۃ النصر کی یہ آیات ہیں:   

 ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ﴾[النصر: 3]

 ’’آپ اپنے رب کے نام کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔ ‘‘

حدیث یہ کہہ رہی ہے کہ آپ ﷺان آیات [یعنی ان پر عمل] کی تاویل کرتے ہوئے رکوع اور سجدے میں یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے۔

پس لفظ دو حال سے خالی نہیں ہے؛ یا تو اس میں خبر ہے یعنی وہ جملہ خبریہ ہے یا اس میں انشاء ہے یعنی جملہ انشائیہ ہے۔ پھر انشاء کی آگے دس قسمیں ہیں جو اہل علم کے ہاں معروف ہیں اور ان میں سے ایک امر یعنی حکم بھی ہے۔ لفظ اگر خبر ہے تو اس لفظ کی تاویل کا معنی یہ ہے کہ جیسا کہ خبر دی گئی ہے، ویسے ہی وہ واقع ہو جائے۔ اور لفظ اگر انشاء ہے مثلاً امر ہے تو اس کی تاویل کا معنی یہ ہے کہ اس حکم پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ حکم دیا گیا ہے۔ پس دونوں صورتوں میں تاویل ’’خارجی حقیقت‘‘ کو کہتے ہیں۔ یہ بہت اہم لفظ ہے جو ابن تیمیہ ﷫  نے بیان کیا ہے یعنی تاویل ’’خارجی حقیقت‘‘  کا بیان ہے۔ اور یہاں بیان کا لفظ بمعنی تفصیل ہے۔  پس آیات کی تاویل کا مطلب ان کی خارجی حقیقت کا بیان ہے نہ کہ ذہنی معانی۔

امام ابن تیمیہ ﷫ کہتے ہیں کہ آیت مبارکہ ﴿ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ [آل عمران: 7] یعنی متشابہ آیات کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، میں تاویل سے مراد خارجی حقیقت ہے، اگرہم وقف لفظ ’’اللہ ‘‘  پر کریں۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے کہ جس کا معنی معلوم نہ ہو، بھلے وہ محکم ہو یا متشابہ۔ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں لغو کلام نہیں کیا ہے کہ جس کا معنی ہی اس کے بندوں کو معلوم نہ ہو سکے۔ البتہ متشابہ آیات وہ ہیں کہ ان کی خارجی حقیقت کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پس ایک اعتبار سے ان آیات کا معنی معلوم ہے اور ایک اعتبار سے نہیں ہے۔

کتاب وسنت کی انہی نصوص سے ابن تیمیہ    اپنا قانون تاویل اخذ کرتے ہیں اور اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ تاویل یہ ہے کہ معنی معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے۔ پس  تاویل کا معنی نہ تو ’’تعطیل ‘‘  ہے یعنی ہم لفظ کا اصل اور حقیقی معنی ہی معطل کر دیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی ’’تحریف ‘‘  ہے کہ ہم لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر کوئی اور معنی مراد لے لیں یعنی لفظ کو اس کے اصل معنی سے پھیر دیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی ’’تکییف ‘‘  ہے کہ ہم لفظ کے معنی کی کیفیت بیان کرنے لگ جائیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی ’’تمثیل ‘‘  ہے کہ ہم لفظ کے معنی کی وضاحت کے لیے مثال کا سہارا لیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی ’’تفویض ‘‘  ہے کہ ہم لفظ کا معنی متکلم کے سپرد کر دیں کہ وہی جانے کہ کیا معنی ہے۔

پس تاویل نہ تعطیل ہے، نہ تحریف، نہ تکییف، نہ تمثیل اور نہ ہی تفویض۔ تو تاویل کیا ہے؟ تاویل لفظ کا حقیقی معنی بیان کرنا ہے لیکن اس معنی کی کیفیت سے اعراض کرتے ہوئے۔ تاویل کا مطلب ہے کہ لفظ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفية ہے یعنی لفظ کا معنی معلوم جبکہ کیفیت متشابہ ہے۔ پس متشابہ آیات کا معنی معلوم ہے لیکن ان معانی کی کیفیات یعنی خارجی حقیقت متشابہ ہیں۔ متشابہ اس معنی میں متشابہ ہے کہ اس کی خارجی حقیقت نامعلوم جبکہ لغوی معنی معلوم ہے۔

مثال کے طور پر اللہ عزوجل نے ابلیس سے کہا تھا:

﴿قَالَ يٰۤاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ [ص: 75]

’’اے ابلیس!تجھے اُس کو سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا کہ جسے میں نے اپنے   ہاتھوں سے پیدا کیا۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل کی طرف ’’ید ‘‘  یعنی ہاتھ کی نسبت کی گئی ہے۔ کیا اللہ عزوجل کے لیے ’’ید ‘‘  یعنی ہاتھ کا اثبات کیا جائے گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظ ’’ید ‘‘  کا اثبات تو خود قرآن مجید نے کیا لہذا اس کا انکار کفر ہے۔ البتہ ’’ید ‘‘ کے معانی میں اختلاف ہو گیا کہ وہ کیا ہیں۔ اب لغت میں ’’ید ‘‘  کا حقیقی معنی ہاتھ ہی نقل ہوا ہے کہ اہل زبان نے اسی معنی کے لیے اسے وضع کیا تھا۔ امام ابن تیمیہ ﷫ کہتے ہیں کہ تاویل یہ ہے کہ آپ یہ کہیں کہ اللہ عزوجل کے دو ہاتھ ہیں لیکن ہم ان دونوں ہاتھوں کی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ تو اس معنی میں سلف صالحین آیات کی تاویل کرتے تھے اور ہم بھی اس معنی میں تاویل کے قائل ہیں۔

اور اگر آپ نے ’’ید ‘‘  کا معنی ہاتھ نہ لیا تو آپ نے تعطیل کی یعنی لفظ کا اصل معنی معطل کر دیا۔ اور اگر آپ نے ’’ید ‘‘ سے مراد قدرت لی تو آپ نے تحریف کی کہ لفظ کا اصل معنی چھوڑ کر دوسرا معنی مراد لے لیا کہ جسے مجاز کہہ دیا جاتا ہے کہ جس پر تفصیل سے گفتگو آگے  آئے گی کہ امام ابن تیمیہ    قرآن مجید میں مجاز کے قائل نہیں ۔ اور اگر آپ نے یہ کہا کہ اللہ کا ’’ید ‘‘ یعنی ہاتھ ہے اور اس میں ایک انگوٹھا، چار انگلیاں اور ایک ہتھیلی ہے جبکہ انگلیوں میں پَورے، ناخن اور ہتھیلی میں لکیریں بھی ہیں تو یہ ’’تکییف ‘‘  ہے۔ اور یہ بھی جائز نہیں کیونکہ آیات متشابہات کی خارجی حقیقت کوئی نہیں جانتا لہذا جو نص میں منقول ہے، اس پر ایمان لانا تو واجب ہے لیکن اس پر اضافہ جائز نہیں ۔ اور اگر آپ نے اللہ عزوجل کی صفت ’’ید ‘‘ کو سمجھانے کے لیے کوئی مثال بیان کی کہ وہ ہاتھ انسان کے جیسا ہے تو یہ تمثیل ہے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے مثالیں بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اگر آپ نے یہ کہا کہ ’’ید ‘‘  کے معنی  خود اللہ ہی جانے تو یہ تفویض ہے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ عزوجل نے انسانوں کو اپنا تعارف ا س طرح  کروایا ہے   کہ   وہ  اس کا کلام سمجھ ہی نہ پائیں کہ اس طرح تو کلام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

سلف صالحین کے نزدیک تاویل کا صحیح معنی ومفہوم

امام ابن تیمیہ ﷫ کہتے ہیں کہ تاویل کے دو ہی معانی ہمیں کتاب وسنت میں ملتے ہیں؛

  • مخبر بہ [جس کی خبر دی گئی ہو] کا واقع ہو جانا۔
  • اور مامور بہ [جس کا حکم دیا گیا ہو] پر عمل کرنا۔

 اور اسی معنی میں کتاب وسنت کی نصوص کی تاویل کے ہم قائل ہیں۔ تاویل کا ایک تیسرا معنی تفسیر  ہے جو ہمیں سنت میں ملتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜کے بارے دعا فرمائی تھی:

 «اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل »

 ’’اے اللہ!انہیں دین کی گہری سوجھ بوجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما۔ ‘‘

اور اسی معنی میں امام طبری ﷫  وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں تاویل کا لفظ استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ اکثر اپنی تفسیر میں کسی آیت کی تفسیر میں صحابہ یا تابعین کے اقوال بیان کرنے سے پہلے کہتے ہیں: ’’القول في تأويل قوله تعالى‘‘  یعنی اس آیت کی تفسیر میں یہ یہ اقوال ہیں۔

پس  سلف بعض اوقات کسی لفظ کو اس کے ظاہر معنی سے پھیر دیتے ہیں کہ وہ مراد نہیں ہوتا تو اس کے لیے وہ تاویل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اور تاویل سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ متکلم کا مقصود کیا ہے، وہ معلوم کیا جائے۔ اور بعض اوقات متکلم کا مقصود ظاہری معنی میں نہیں ہوتا ہے۔ لہذا  اس معنی میں تاویل جائز ہے۔ پس تاویل دراصل متکلم کے مقصود تک پہنچنے کا نام ہے۔ اور اس معنی میں تاویل سے مراد متکلم کے مقصود تک زبان کے معروف اسالیب میں سے کسی اسلوب کو اختیار کر کے پہنچنا ہے۔ یہ تاویل محمود ہے یعنی قابل ستائش ہے کہ اس کا مقصد اسماء وصفات کے معانی کا انکار نہیں بلکہ کلام الہی کے صحیح معانی کا تعین ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ سلف میں سے بعض نے آیت مبارکہ ﴿ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ﴾ [القلم: 42] ’’یعنی جس دن پنڈلی سے پردہ اٹھا لیا جائے گا‘‘  کا معنی یہ کیا ہے کہ اس سے مراد اس دن کی ہولناکی اور شدت کو بیان کرنا ہے جیسا کہ یہ معنی عبد اللہ بن عباس ﷜سے تفسیر طبری وغیرہ میں منقول ہے۔ عبد اللہ بن عباس﷜   نے اس آیت میں متکلم کے مقصود کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور  وہ یہ ہے کہ وہ دن بڑا سخت   ہو گا۔ انہوں نے کسی صفت کی نفی نہیں کی ہے۔ اور قرآن مجید میں صفت ساق کا بیان ہے بھی نہیں کیونکہ قرآن مجید میں تو محض ساق یعنی پنڈلی کا ذکر ہے اور اس کی اضافت اور نسبت رب کی طرف نہیں کی گئی ہے۔  

اصل میں صفت ساق کا بیان حدیث مبارکہ میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:

  « يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة»

 ’’قیامت والے دن ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کر دے گا تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدے میں گر جائے گا۔‘‘

اس معنی کی اور بھی روایات موجود ہیں۔ اس حدیث کی وجہ سے صفت ساق یعنی اللہ کی پنڈلی کا اثبات کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس کا اثبات کیا ہے۔ اور یہی تفسیر اس آیت مبارکہ کے بیان میں عبد اللہ بن مسعود ﷜سے مروی ہے کہ پنڈلی سے مراد اللہ کی پنڈلی ہے۔

پس سلف میں سے جس نے محض قرآن مجید کو سامنے رکھ کر آیت کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ساق کو صفت میں شمار نہ کیا لیکن اس کا انکار بھی نہیں کیا۔  اور یہ بھی درست ہے کیونکہ قرآن مجید میں ساق کی نسبت رب کی طرف نہیں کی گئی ہے۔ اور سلف میں سے جنہوں نے احادیث کی روشنی میں آیت کا معنی متعین کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ساق سے مراد صفت ساق لی ہے تو یہ بھی درست ہے۔ پہلا اسلوب ابن عباس﷜  کا ہے اور دوسرا ابن مسعود ؓ  کا ہے۔ اور دونوں ہی فقہاء صحابہ میں سے ہیں۔

متکلمین کے نزدیک تاویل کا معنی ومفہوم

رہا تاویل کا چوتھا معنی کہ لفظ کو اس کے راجح معنی سے مرجوح معنی کی طرف پھیر دینا کسی قرینے کے سبب سے تو یہ معنی متاخرین میں رائج ہے، خاص طور متکلمین کی جماعت میں۔ سلف صالحین نے اس معنی میں تاویل کے لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اور اس معنی میں تاویل کا استعمال جائز بھی نہیں ہے کہ یہ متکلم کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس معنی میں متاول یعنی تاویل کرنے والا ایسا   ہوتا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کو خبر دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:   

 ﴿ قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ ﴾[يونس: 18]

 آپ ان سے کہہ دیجیے کیا تم اللہ کو خبر دو گے اس کی جو وہ زمین و آسمان میں نہیں جانتا۔

 تاویل کا پانچواں معنی یہ بھی مستعمل ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی اور راجح معنی سے بغیر کسی دلیل اور قرینے کے مرجوح معنی کی طرف پھیر دینا، تو تاویل اس معنی میں بھی ایک باطل فعل ہے اور اسی کو تحریف کہتے ہیں۔ تحریف، لفظی اور معنوی دونوں طرح سے ہوتی ہے۔ اس معنی میں تاویل سلف سے منقول نہیں ہے اور نہ ہی متقدمین اہل لغت میں معروف ہے بلکہ تاویل کا یہ معنی معتزلہ سے متکلمین نے لیا۔ پھر وہاں سے متکلمین کی اصول فقہ میں آیا  اور   وہاں سے متاخرین اہل لغت نے لیا۔ امام ابن تیمیہ   کے بقول اس معنی میں تاویل اس امت میں چوتھی صدی ہجری میں شروع ہوئی۔ اور اس سے پہلے تین صدیوں میں جو تاویل دکھلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اس معنی میں تاویل نہیں ہے، بس مخاطب کا وہم ہے۔

امام ابن تیمیہ ﷫ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مخالفین کو تین سال کی مہلت دی اور کہا کہ جس معنی میں تم تاویل کرتے ہو ، اس معنی میں صفات باری تعالی میں تاویل، سلف میں کسی ایک سے کوئی ایک قول ثابت کر دو، میں مان جاؤں گا۔ امام صاحب  کہتے ہیں کہ یہ کہنے سے پہلے میں نے بہت مطالعہ کیا۔ کہ میرے مخالفین خوش ہو کر کتابیں چھاننے لگ گئے۔ کچھ عرصے بعد ان میں سے ایک خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ لیں سلف سے صفات میں تاویل کی سند لے آیا ہوں۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھے پتہ ہے کہ تم کیا لے کر آئے ہو؟ اس نے جواباً کہا کہ کیا لایا ہوں؟ امام صاحب نے کہا سنن البیہقی کی روایت ہے  امام شافعی﷫   نے کہا ہے کہ ﴿ فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾[البقرة: 115] میں ’’وجه الله‘‘ سے مراد قبلہ ہے یعنی امام شافعی﷫  نے اللہ کا چہرہ مراد نہیں لیا۔  

اس سے امام صاحب کے وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ سلف سے صفات باری تعالی میں کوئی تاویل منقول نہیں ہے، تو اس کا یہ معنی نہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ سلف کے کون   کون سے اقوال ایسے ہیں کہ جنہیں ان کا مخالف دلیل کے طور پیش کر سکتا ہے۔ وہ نہ صرف ان سب اقوال کو جانتے ہیں بلکہ ان کا جواب بھی تفصیل سے نقل کرتے ہیں۔ یہاں ان کے مخاطب شاید شافعی عالم دین تھے تو امام صاحب نے اس نسبت سے امام شافعی﷫  کے قول کا تذکرہ کر دیا، واللہ اعلم۔ ورنہ وہ صفات باری تعالی میں تاویل کے باب میں امام احمد ﷫ کی طرف منسوب ایسے اقوال کا جواب بھی اسی طرح سے دیتے ہیں۔

امام صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص سے کہا کہ یہ آیت، آیات صفات میں سے نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اس آیت میں اللہ کے لیے وجہ یعنی چہرے کا اثبات ہے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ نہیں، یہاں اس آیت میں اللہ کی کسی صفت کا اثبات نہیں ہے، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو تا کہ تمہیں ہمارا موقف اچھی طرح سمجھ آ جائے۔ یہاں ہمارے نزدیک بھی مراد قبلہ ہی ہے۔ اب ہمارا مخالف یہ طعن کرتا ہے کہ ہم بھی تاویل کے قائل ہیں جبکہ ہم تاویل کے نہ تو قائل ہیں اور نہ ہی تاویل کر رہے ہیں اور نہ ہی سلف نے تاویل کی ہے۔ اس آیت کا یہ جو معنی ہم نے کیا ہے  یہ اس آیت کا حقیقی معنی  ہے اور اہل عرب نے اسی معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ پس عرب ’’وجه‘‘ سے مراد ’’چہرہ ‘‘لیتے ہیں لیکن ’’وجه الله‘‘ ایک دوسرا لفظ ہے کہ جسے اہل عرب نے ایک دوسرے معنی کے لیے وضع کیا ہے۔ پس اہل عرب کبھی مفرد لفظ کو وضع کرتے ہیں اور کبھی مرکب لفظ کو وضع کرتے ہیں جیسا کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’قصدت هذا الوجه‘‘ تو ان کی اس سے مراد جہت ہی ہوتی ہے۔

اس کی مثال لفظ ’’رأس ‘‘ بھی ہے کہ جس کا معنی سر ہے۔ جب یہ لفظ اکیلا ہی وضع ہوا ہے تو اسی معنی میں وضع ہوا ہے یعنی سر کے معنی میں ۔ لیکن ’’رأس المال‘‘ کا لفظ الگ سے وضع ہوا ہے کہ جس کے وضعی اور حقیقی معنی میں حیوان کے سر کا معنی شامل نہیں ہے۔ اسی طرح ’’رأس الأمر‘‘، ’’رأس الماء‘‘ اور ’’رأس القوم‘‘کے الفاظ اہل عرب نے علیحدہ علیحدہ معانی کے لیے وضع کیے ہیں اور یہ مجاز نہیں ہیں۔ امام صاحب کے بقول صرف مفرد وضع نہیں ہوتا بلکہ تراکیب مثلا ًترکیب اضافی وغیرہ بھی وضع ہوتی ہیں۔ اور کسی خاص ترکیب کو اس کے مختص وضعی معانی میں استعمال کرنا بھی حقیقت ہی ہے۔ اور یہ قول غلط ہے کہ صرف مفردات کی وضع ہوئی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا مفرد بھی وضع ہوا ہے اور مرکب بھی وضع ہوا ہے۔

امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’ذهبت معه‘‘ ، ’’ذهبت إليه‘‘ اور ’’ذهبت به‘‘ تینوں کے معانی فرق ہیں اور یہ تینوں وضعی معانی ہی ہیں کہ اہل زبان نے ایک ہی لفظ کو مختلف حروف کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال کیا ہے کہ جسے اصطلاح میں یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ صلہ بدل جانے سے فعل کے معانی بدل جاتے ہیں ۔ انگریزی میں اس کی مثال صلہ (preposition) کی ہے کہ جس کے بدلنے سے فعل کے معانی بدل جاتے ہیں۔ پس یہ مجازی معانی نہیں ہیں، بلکہ سب وضعی معانی ہی ہیں اور اہل زبان نے ان الفاظ کو ایسے ہی وضع کیا ہے۔

قرآن مجید میں مجاز کا استعمال

اسماء وصفات باری تعالی میں تاویل کرنے والے گروہوں نے مجاز کی دلیل کا سہارا لیا تھا جبکہ امام ابن تیمیہ  مجاز کے قائل نہیں ہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت نے لفظ کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ اگر تو لفظ اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو کہ جس معنی کے لیے اہل زبان نے اسے مختص کیا ہے، تو اسے حقیقت کہتے ہیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شیر سے مراد درندہ اور چاند سے مراد جرم فلکی ہو تو یہ حقیقت ہے۔ اور اگر لفظ کو اس کے غیر وضعی معنی میں استعمال کیا جائے کہ جس معنی کے لیے وہ وضع نہیں ہوا تو اسے مجاز کہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی قرینہ چاہیے ہوتا ہے جیسا کہ شیر پنجاب سے مراد بہادر آدمی اور میرا چاند سے مراد محبوب لینا مجاز ہے۔

مالکیہ میں ابن خویز منداد، شوافع میں سے ابن القاص، حنابلہ میں سے ابن حامد، ابو الحسن التمیمی، ابن تیمیہ، ابن قیم رحمہم اللہ، ظاہریہ میں سے ان کے امام داود ظاہری ﷫ نے قرآن مجید میں مجاز کا انکار کیا ہے کہ قرآن کل کا کل حق ہے اور حق وہی ہے جو حقیقت ہے۔ اور جو حقیقت نہیں ہے [یعنی مجاز ہے]، وہ حق نہیں ہو سکتا۔ امام ابن قیم  نے تو مجاز کو طاغوت کا نام دیا ہے اور اس کے رد میں پچاس دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔ شوافع میں سے ابو اسحاق اسفرائینی اور معروف لغوی نحوی ابو علی الفارسی    نے تو لغت میں بھی مجاز کا انکار کیا ہے۔

متاخرین مالکیہ میں سے علامہ شنقیطی ﷫ نے قرآن مجید میں مجاز کا انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اصطلاح میں مجاز اسے کہتے ہیں کہ جس کی نفی جائز ہو مثلاً ’’رأيت أسدا يأكل فريسته‘‘  یعنی میں نے شیر کو اپنا شکار کھاتے دیکھا۔ اب اس میں شیر سے شیر کی نفی جائز نہیں ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ شیر نہیں ہے۔ اس کے برعکس ’’رأيت أسدا يخطب على المنبر‘‘  کہ میں نے منبر پر ایک شیر کو خطاب کرتے دیکھا۔ اس میں شیر کی نفی جائز ہے کہ اس کے قائل سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شیر نہیں ہے، عالم دین ہے یا کچھ بھی ہے۔ تو قرآن مجید میں مجاز مان لینے کا مطلب ہے کہ قرآن میں وہ بھی ہے کہ جس کی نفی جائز ہو۔

امام ابن تیمیہ   کہتے ہیں کہ اصل اختلاف اس میں ہے کہ زبان میں اصل توقیف ہے یا وضع۔ امام ابو الحسن الاشعری﷫   کا کہنا تھا کہ زبان توقیف ہے اور امام ابن تیمیہ   بھی اسی کے قائل ہیں۔ لغویین میں سے ابن فارس   کا موقف بھی یہی ہے۔ اس کے برعکس معتزلہ زبان کی وضع کے قائل ہیں۔ زبان کے توقیفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زبان آدم ؑ                    کو اللہ کی طرف سے سکھلائی گئی تھی، نہ کہ آدم ﷤نے خود سے بنائی تھی۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل نے آدم﷤  کو اسماء (nouns)کا علم دیا تھا تو یہ زبان ہی کا علم تھا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ زبان ہے تو توقیفی لیکن الہام ہے یعنی اللہ عزوجل کی طرف سے آدم ﷤کو الہام کی گئی کہ فلاں لفظ کا فلاں معنی ہے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عباس﷜    کا موقف ہے۔

ہمارا کہنا یہ ہے کہ آدم ؑ  کی یہی توقیفی زبان حضرت نوح ﷤تک پہنچی اور پھر طوفان نوح میں باقی رہ جانے والوں میں صرف نوح   ؑ  سے ہی آگے نسل چلی ہے لہذا تمام زبانوں کی اصل ایک ہی توقیفی زبان ہے۔ جب زبان ہے ہی توقیف تو مجاز کہاں سے آ گیا! لہذا اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ عرب نے کچھ الفاظ کو پہلے کچھ معانی کے لیے وضع کیا اور پھر ان الفاظ کو ان کے وضعی معانی کے علاوہ معانی میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پس جو لوگ حقیقت ومجاز کی تقسیم کے قائل ہیں تو اس تقسیم کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ یہ مانیں کہ حقیقت یعنی حقیقی معنی تاریخی اعتبار سے پہلے ہوتا ہے اور مجاز یعنی مجازی معنی بعد میں ہوتا ہے کیونکہ وہ استعمالی معنی ہے۔

لیکن معانی میں یہ تقدیم وتاخیر آپ کیسے ثابت کر سکتے ہیں! اس کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں کہ یہ لفظ پہلے اس معنی کے لیے وضع ہوا اور پھر اس معنی میں استعمال ہوا۔ حقیقت ومجاز کی تقسیم کی یہ ساری بحث صرف احتمال پر چل رہی ہے کہ احتمال یہی ہے کہ ایسا ہوا ہو گا۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا کہ عرب نے کوئی اجتماع کر کے طے کیا ہو کہ ہم اس معنی کے لیے اس لفظ کو وضع کرتے ہیں اور یہ اس کا حقیقی معنی ہو گا۔ اسی طرح مجازی معنی صرف اسی صورت مراد لینا ممکن ہے جبکہ آپ زبان کو وضع سمجھتے ہوں لیکن شرعی اور تاریخی دلائل کی روشنی میں زبان وضع نہیں بلکہ توقیف ہے۔ پس قرآن مجید میں مجاز نہیں ہے۔ اور جو ہے، وہ حقیقت ہی ہے۔

امام صاحب   کہتے ہیں کہ مجاز کی معروف ترین مثال قرآن مجید میں سورۃ یوسف سے یہ بیان کی جاتی ہے:

 ﴿وَسْـَٔلِ الْقَرْيَةَ ﴾ [يوسف: 82]

 ’’آپ بستی سے پوچھ لیں۔ ‘‘

یہاں’’أهل ‘‘محذوف نکالا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مجاز ہے کہ علاقہ محلیت کا ہے یعنی محل بول کر حال مراد ہے یعنی بستی سے مراد اہل بستی ہیں اور یہ مجازی معنی ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’قرية ‘‘ کا لفظ ’’قرى‘‘ سے بنا ہے کہ جس کا بنیادی معنی جمع ہونا ہے لہذا ’’قرية ‘‘ سے مراد وہ بستی ہے کہ جس میں لوگ جمع ہوں یعنی لغت میں ’’قرية ‘‘ انسانوں سے آباد بستی کو کہتے ہیں۔ پس محذوف نکالنے کی ضرورت ہی نہیں کہ حقیقی معنی میں ہی وہ معنی موجود ہے کہ جسے مجازی معنی کہا جا رہا ہے۔

اسی طرح امام صاحب ﷫ کو کہا گیا کہ امام احمد﷫  نے اللہ عزوجل کے اس قول ﴿ اِنَّا مَعَكُمْ ﴾ ترجمہ: ہم تمہارے ساتھ ہیں، کو مجاز کہا ہے۔ امام صاحب  کہتے ہیں کہ امام احمد  کی مراد اصطلاحی مجاز نہیں بلکہ لغوی مجاز ہے کہ لغت عرب میں اس آیت کا یہ معنی بھی جائز ہے یعنی لغت عرب کے مطابق یہاں معیت سے مراد علمی معیت لی جا سکتی ہے۔

 معیت سے مراد علم لینا، یہ تاویل ہے یا نہیں؟ ہمارے نزدیک اس میں سلفی علماء، عرب کے ہوں یا عجم کے، بہت الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی قابل اطمینان جواب نہیں ہے سوائے اس دعوی کے یہ تاویل نہیں ہے۔ اور ہمیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب﷫  نے اس مسئلے کو جس طرح حل کیا ہے، اسے صحیح طور سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

امام صاحب    کا فلسفہ  یہ ہے کہ سلف صالحین سیاق وسباق کی وجہ سے لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے جو پھیر دیتے ہیں تو یہ تفسیر ہے۔ اور  اسے تاویل بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ محمود تاویل ہے۔ لیکن یہ تاویل لفظ کو اس کے حقیقی اور وضعی معنی میں ہی استعمال کرنا ہے کہ عرب نے محض مفردات کو وضع نہیں کیا بلکہ تراکیب (phrases) کو بھی وضع کیا ہے یا آسان الفاظ میں کہہ لیں کہ زبان کا محاورہ بھی اہل زبان کی وضع ہی ہوتا ہے۔ پس  ﴿ فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾ [البقرة: 115]  میں عربی کے محاورے کے مطابق ﴿ وَجْهُ اللّٰهِ ﴾ سے قبلہ مراد لینا جائز ہے لیکن یہ مراد لینے سے ’’صفت وجہ‘‘  کا انکار نہیں ہوتا، وہ دوسری نصوص سے اپنی جگہ ثابت رہتی ہے بلکہ اس نص سے بھی ثابت ہو رہی ہوتی ہے کہ مجاز مراد لینے سے حقیقت متعذر نہیں ہو جاتی۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب آپ مجازی معنی مراد لیتے ہیں تو حقیقت ختم نہیں ہو جاتی جو اس مجاز کی اصل ہے کیونکہ اسی حقیقت کے تصور پر ہی تو مجازی معنی قائم ہے۔

پس سلف نے جب ﴿ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۰۰۴ ﴾  [الحديد: 4] میں معیت کا معنی ’’معیت علمی‘‘ لیا ہے تو یہ مجاز نہیں بلکہ’’مشترک مقرون‘‘ ہے یعنی ایسا مشترک لفظ ہے جو اپنے قرینے یعنی سیاق وسباق یا آسان الفاظ میں محاورہ عرب کے سبب ایک نیا وضعی معنی پیدا کرتا ہے۔ پس یہ تاویل نہیں بلکہ وضعی معنی میں ہی لفظ کا استعمال ہے۔ اور یہ آیت کی وہ تفسیر اور تاویل ہے جو متکلم کا مقصود ہے۔ لیکن یہ تفسیر اور تاویل کرنے کے ساتھ ’’معیت حقیقی‘‘  کا انکار ممکن نہیں کہ جس پر اس تفسیر اور تاویل کی بنا رکھی گئی ہے۔ پس اللہ عزوجل عرش پر ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے، حقیقی معنوں میں بھی، یعنی یہ معیت جہت علو سے ہے یعنی معیت ذاتیہ فوقیہ ہے، اور  اس کا انکار جائز نہیں ہے۔ اور یہ معنی اپنی جگہ ثابت ہے، معیت علمی مراد لینے کے بعد بھی۔

 حدیث میں موجود صفات کا اثبات

کیا امام ابن تیمیہ ﷫ وغیرہ صفت ’’حَقو‘‘کا بھی اثبات کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو تاویل تو وہ بھی کر رہے ہیں، اور اگر ہاں تو کیا یہ تجسیم یعنی اللہ کا جسم ماننے والی بات نہیں ہے؟

 جواب: امام ابن تیمیہ ﷫ اور سلفی اہل علم مثلاً حنابلہ وغیرہ کی ایک جماعت نصوص سے ثابت شدہ تمام صفات کا ویسے ہی اثبات کرتی ہے جیسا کہ وہ نصوص میں وارد ہوئی ہیں۔ تو ’’حقو‘‘لغت عرب میں تہبند باندھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ عزوجل نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو رحم یعنی رشتہ داری کھڑی ہو گئی اور اس نے رحمن کے ’’حَقو‘‘ کو پکڑ لیا۔ اللہ  عزوجل  نے کہا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا کہ یہی پناہ لینے کا مقام ہے ، میں قطع رحمی سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اللہ عزوجل نے کہا کہ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ جو تجھے جوڑے، میں اسے جوڑوں۔ اور جو تجھے توڑے، میں اسے توڑوں۔ تو اس نے کہا کہ ہاں، میں اس پر راضی ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ صفت ’’ حَقو‘‘ کا اثبات رسول اللہ ؐ  نے کیا جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں: «خَلَقَ اللَّهُ الخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَأَخَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمَنِ» اب اگر تجسیم کا فتوی لگانا ہے تو پہلے رسول اللہ  ﷺپر لگائیں۔ سلفی اپنی طرف سے کسی صفت کا اثبات کرنے کے قائل نہیں۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس صفت کا قرآن یا  رسول اللہ ؐ   نے اثبات کیا ہے، ہم اس کا اثبات کریں گے، چاہیں ہمیں وہ نہ بھی سمجھ آئے کیونکہ یہی تو عقل کا امتحان ہے کہ نقل کو مانے جیسا کہ وہ ہے اور تاویل نہ کرے۔

یہ ماننا بھی کوئی ماننا ہے کہ پہلے نقل کو اپنی عقل کے مطابق کر لیں یا ڈھال لیں اور پھر اس کو مان لیں۔ یہ تو آپ نے نقل کو نہیں اپنی عقل کو مانا ہے۔ پھر عقل بھی کس کی مانیں؟ جہمیہ کی عقل کہ جس کے مطابق ہر اسم اور ہر صفت کا اثبات توحید کے منافی ہے۔ معتزلہ کی عقل کہ جس کے مطابق کسی بھی صفت کا اثبات توحید کے منافی ہے۔ اشاعرہ کی عقل کہ جس کے مطابق سات صفات کے علاوہ کا اثبات توحید کے منافی ہے۔ یا ماتریدیہ کی عقل کہ جس کے مطابق آٹھ صفات کے علاوہ کا اثبات توحید کے منافی ہے۔ پس عقل تو صفات کی تعداد اور معنی کے اثبات میں اختلاف کر رہی ہے کہ کہاں، کتنی اور کیسے ماننی ہیں۔ پس عقل کو حاکم بنانے کی صورت میں تصور خدا سب کا مختلف ہو جائے گا جبکہ نقل کو ایسے ہی مان لینے میں جیسا کہ وہ ہے، تصور خدا ایک ہی رہے گا جو کہ توحید کا حاصل ہے کہ نور اور توحید ایک ہی ہے جبکہ ظلمت، تاریکی اور شرک کی صورتیں سینکڑوں ہیں۔

پس اہل علم کی ایک جماعت امام احمد بن حنبل، ابن حامد، ابو حاتم الرازی اور ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ سے صفت’’حَقو‘‘ کا اثبات منقول ہیں لیکن ساتھ میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی کیفیت میں نہیں جاتے۔ اور بعض لوگوں کو جو اس جیسی صفات کے اثبات سے وحشت ہوتی ہے تو وہ اس لیے کہ اس صفت کے اثبات سے ان کے ذہن میں فورا ً انسان کا ’’حَقو‘‘ یعنی تہبند باندھنے کی جگہ آ جاتی ہے اور وہ یہ سوچ کر ہی وحشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اس کا اثبات کریں۔ اللہ کے لیے انسان کی صفت ’’حقو‘‘ یعنی انسان کے تہبند باندھنے کی جگہ کا اثبات تو سلفیہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے یہ صفت ثابت ہے، کما یلیق بجلاله، یعنی جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ سلفیہ کے نزدیک صفات معلوم المعنی تو ہیں لیکن متشابة الکیفية ہیں لہذا وہ من وجہ یعنی ایک پہلو سے محکم ہیں کہ ان کا معنی روز روشن کی طرح واضح ہے جبکہ من وجہ یعنی دوسرے پہلو سے متشابہ ہیں کہ ان کا معنی کسی طور پرمعلوم نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح صحیحین کی حدیث میں ہے:

« خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ »

 ’’اللہ عزوجل نے آدم ؑ  کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔‘‘

 امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ پہلی تین صدیوں تک کسی کا بھی یہ قول نہیں رہا کہ اس حدیث میں ’’ه ‘‘  ضمیر آدم کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور ویسے بھی اس کا کچھ معنی نہیں بنتا کہ اللہ نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا۔ اور بعض روایات میں «على صورة الرحمن»کے الفاظ ہیں کہ جسے امام احمد   وغیرہ نے صحیح کہا ہے اگرچہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف  بھی منقول ہے۔ پس اس دوسری روایت سے تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ضمیر، اللہ ہی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ علاوہ ازیں احادیث کے اس بیان کی تصدیق سابقہ کتب سماویہ سے بھی ہوتی ہے کہ وہاں بھی یہی بیان موجود ہے کہ اللہ عزوجل نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ پس امام ابن تیمیہ   تو صفتِ ’’صورت‘‘ کو بھی مانتے ہیں جیسا کہ وہ اس حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

امام صاحب اس میں صرف نقل سے استدلال نہیں کرتے بلکہ عقلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی چیز جو بذاتہ قائم ہو، اس کی صورت لازما ًہو گی۔ عقل کے لیے یہ محال ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا تصور بھی کر سکے کہ جو موجود تو ہو لیکن اس کی کوئی صورت نہ ہو۔ ایسا تو صرف معدوم کے لیے ہو سکتا ہے۔ باقی یہ جو صورت ہے، یہ کما یلیق بجلاله ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ؐنے ارشاد فرمایا کہ میں نے نیند میں تمہارے رب کو ’’احسن صورت‘‘ میں دیکھا ہے۔ یہاں سے ہی خواب میں اللہ عزوجل کو دیکھنے کے بارے اختلاف پیدا ہوا۔امام احمد   اس کے قائل ہیں کہ خواب میں اپنے رب کو دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ ابن تیمیہ   کہتے ہیں کہ جس کو اس نے دیکھا ہے، وہ اس کا رب نہیں ہے لیکن اس کا رب اسے اپنا آپ احسن صورت میں دکھا دیتا ہے لہذا یہ کہنا درست ہے کہ اس نے اپنے رب کو دیکھا ہے لہذا وہ رب کی ہی حقیقی صورت تھی، تو یہ کہنا درست نہ ہو گا۔ یہ ذرا گہرا نکتہ ہے، اس پر غور کر لیں، کھل جائے گا۔

سلفیہ اسماء وصفات میں مجاز مراد کیوں نہیں لیتے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلفی اسکول آف تھاٹ کے اہل علم اس قسم کی صفات میں مجاز یا کنایہ مراد کیوں نہیں لیتے؟ دیکھیں! مسئلہ یہ ہے کہ کوئی دو چار صفات کی بات ہو تو بندہ مجاز اور کنایے کی بات کر لے۔ جب کتاب وسنت کی نصوص میں اللہ عزوجل کے لیے چہرے، آنکھوں، ہاتھوں، انگلیوں اور پاؤں تک کا اثبات کیا جا رہا ہے اور یہ اثبات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کر رہے ہیں تو کیا ان دونوں کو نہیں معلوم تھا کہ ان چیزوں کا اثبات کرنے سے مخاطب کے ذہن میں خدا کا کیا تصور آئے گا؟ پس خدا نے اپنے بندوں کو اپنا تعارف کروانا تھا جو اس نے اپنی کتاب  اور کلام کے ذریعے کروایا۔  اور اس پر کوئی فٹ نوٹس یا حواشی لگا کر وضاحت نہیں کی، نہ  اللہ تعالیٰ نے خود اور نہ ہی رسولﷺ کے ذریعے، کہ میری مراد یہ ہے لہذا یہ یہ مراد نہ لینا۔

مثلاً اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں اپنے لیے دو ہاتھوں کا اثبات کیا تو اس کے رسول ﷺنے انگلیوں کا اثبات کر کے خدا کے اثبات پر مزید مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یا تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہیے تھا کہ یہ الفاظ ہی استعمال نہ کرتے۔ یا اگر کرتے تو ان سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلے علیحدہ سے بیان فرماتے۔ لیکن اللہ عزوجل ایک صفت کو بیان کرتا ہے، رسول اس کے ظاہری معنی کی مزید تصدیق کر دیتا ہے، تو یہ سب کیا ہے؟ اسی طرح اللہ عزوجل نے ایک صفت کا اثبات کیا یعنی پنڈلی کا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے قول سے اس کی مزید تصدیق فرما دی کہ پنڈلی سے مراد تمہارے رب کی پنڈلی ہی ہے، مجاز کنایہ نہیں ہے، تو اب بندہ کیا کرے۔ پھر رسولﷺ  کے بعد فقہاء صحابہ کرام نے اس کی تصدیق کر دی کہ پنڈلی سے مراد اللہ عزوجل کی پنڈلی ہی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود﷜          کا قول ہے۔ اب اللہ عزوجل نے ایک بات کی، رسول نے اس کے ظاہر معنی کی تائید کرتے ہوئے مزید اضافوں سے اس کی تصدیق دی۔ فقہائے صحابہ کرام نے رسول کی بات کے ظاہر معنی کی تصدیق کر دی۔ تو اب ایک عام انسان اس قدر تاکید وتائید کے بعد کیونکر  اپنی عقل کا اعتبار کرے گا!

پس کس کس کی تاویل کریں گے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ  نہ اللہ عزوجل  کو یہ سمجھ آئی کہ اس نے کیا الفاظ استعمال کر دیے ہیں، نہ رسول نے اس کی تصحیح فرمائی کہ اللہ کی یہ مراد نہیں ہے، نہ صحابہ نے اس کی تصحیح کی کہ رسول کی یہ مراد نہیں ہے۔ اور صحابہ اور تابعین سادہ مزاج کے لوگ تھے بلکہ سب انبیاء ورسل بھی ایسے ہی تھے۔ لہذا سلفی تعبیر دین کی سادہ ترین تعبیر ہے۔ یہ عقل وفلسفہ تو تین صدیوں بعد شروع ہوا ہے۔ اس سے پہلے تو کسی کے تصور خدا میں ایسی کلامی بحثیں نہیں تھیں کہ وہ سلف کا مزاج ہی نہ تھا۔ پس خیر القرون میں لوگ کتاب وسنت کی نصوص کی تلاوت کرتے ہوئے ان نصوص سے کیا سمجھتے تھے؟ کیا قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے ہوئے صحابہ یا تابعین میں کسی کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہ موسی﷤ سے اللہ عزوجل نے کلام نفسی فرمایا ہے، نہ کہ وہ کلام جو انہیں لغت عرب سے سمجھ آتا ہے!

پس جو بھی خدا کو مانتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی تصور خدا ہے کہ اس کا خدا ایسا ایسا ہے۔ اگر آپ کتاب وسنت کے تصور خدا کو نہیں مانتے کہ اس سے آپ کو وحشت ہوتی ہے تو پھر آپ کے تصور خدا کی علمی بنیاد کیا ہے؟ آپ کہیں گے کہ وہ کتاب وسنت ہے۔ لیکن آپ نے تو اس کتاب وسنت کی تاویل کر دی ہے کہ اس سے مراد مجاز اور کنایہ لے لیا لہذا اب آپ کا تصور خدا کیا ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے؟  اس کا ماخذ تو آپ کی عقل ہے کہ جسے آپ نے متن پر حاکم بنا رکھا ہے۔ یا اس سوال کو یوں سمجھ لیں کہ جو مجاز اور کنایہ آپ نے مراد لیا ہے، اس کی دلیل کیا ہے کہ یہی مجاز اور کنایہ خدا کی مراد ہے کیونکہ مجاز اور کنایہ تو ایک سے زائد ہو سکتے ہیں بلکہ ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یعنی حقیقی معنی ایک ہی ہوتا ہے۔

اس کو یوں بھی سمجھیں کہ اشاعرہ نے سات اور ماتریدیہ نے آٹھ صفات کا اثبات کیا۔ اور ان سات یا آٹھ کا بھی جس طرح سے اثبات کیا ہے، وہ بھی اثبات نہ کرنے کے برابر  ہے۔ مثلاً اشاعرہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفت کلام کا ہم اثبات کرتے ہیں کہ وہ متکلم ہے۔ لیکن اس کا کلام حروف اور اصوات میں نہیں ہے بلکہ کلام نفسی ہے کہ جسے ہم خود کلامی یعنی اپنے نفس میں اپنے آپ سے باتیں کرنا کہتے ہیں۔ وہ یہ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے لیے صفت کلام کو اس معنی میں مان لیں کہ وہ حروف اور اصوات ہیں جو اس کی ذات سے صادر ہوتے ہیں تو اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ کی ذات محل حوادث ہے کہ اس کے بغیر تو ایسے کلام کا تصور ممکن نہیں ہے۔

اس کے برعکس امام ابن تیمیہ ﷫ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح یعنی کلام نفسی کی تاویل کے ساتھ اللہ کی صفت کلام ماننے کا مطلب ہے کہ اللہ کو گونگا ماننا کہ جس نے کبھی کسی سے گفتگو کی ہی نہ ہو کیونکہ اشاعرہ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے کوہ طور پر موسی ﷤ سے کلام نہیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے ازلی کلام یعنی خود کلامی کا ادراک موسی﷤ کو کروا دیا تھا۔ اسی طرح ان کے نزدیک قرآن مجید جو ہمارے پاس ہے، یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام وہ ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔

اسی طرح اشاعرہ نے رات کے آخری پہر آسمان دنیا پر اللہ کے اترنے کی تاویل یوں کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی رحمت اترتی ہے جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل اترتے ہیں۔ تو اب کس کی مانیں؟ اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے اترنے کو مان لینے سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ عزوجل حرکت کرتے ہیں۔ اور جو چیز حرکت کرتی ہے، وہ محدود ہو جاتی ہے کہ حرکت دو نقطوں کے درمیانی فاصلے میں سفر کا نام ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ حرکت کا انکار کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا جمود کا شکار ہے۔ اور جو جمود کا شکار ہو، وہ بت تو ہو سکتا ہے، خدا نہیں۔ اسی لیے ابن تیمیہ   کہتے ہیں کہ متحرک اور جامد خدا میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو صاحب عقل متحرک کو ہی ترجیح دے گا۔

مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض آتا ہے کہ اگر اس طرح سے اللہ کے لیے سب صفات کو مان لیا جائے تو اللہ کے لیے جسم لازم آتا ہے لہذا سلفیہ تو مجسمہ ہو گئے۔ واضح رہے کہ سلفیہ اپنے آپ کو مجسمہ نہیں کہتے اور نہ ہی اللہ کے لیے جسم کا اثبات کرتے ہیں۔ سلفیہ کی تو بنیاد ہی یہی ہے کہ اللہ کے لیے کسی ایسی صفت کا اثبات نہیں کرنا جو کتاب وسنت میں نہ آئی ہو۔   جو آ گئی ہو، اس کا انکار نہیں کرنا۔   وہ اپنے اس اصول پر سختی سے کار بند ہیں۔

ہاں! البتہ کچھ گروہوں نے اللہ کے لیے جب جسم کا اثبات کیا تو ابن تیمیہ ﷫ نے اس پر گفتگو کی ہے۔ ابن تیمیہ ﷫ کہتے ہیں کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ان کی جسم سے مراد کیا ہے۔ اگر تو ان کی مراد بدن ہے تو اللہ کے لیے اس معنی میں جسم کا اثبات جائز نہیں ہے۔ اور اگر ان کی جسم سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی ایک ذات ہے کہ جس کی کچھ صفات ہیں تو اس معنی کا ہم انکار نہیں کرتے کہ کوئی وجود ایسا نہیں ہے کہ جو ذات کے بغیر ہو۔ اور ذات کے بغیر تو کسی کے موجود ہونے کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

 پس اشکال تو ہر حال میں باقی رہتا ہے، تاویل کے بعد بھی، اور اس کے بغیر بھی۔ تاویل کا مقصد اگر اشکال کو رفع کرنا تھا تو وہ تو تاویل سے بڑھ گیا ہے، تو تاویل کا کیا فائدہ ہوا۔ پس درج بالا سطور میں نقل و عقل میں کشمکش کے حوالے سے ہم نے اختصار کے ساتھ امام ابن تیمیہ ﷫ کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سی بنیادی مباحث ایسی ہیں جو بحث طلب ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل کی ذات کا محل حوادث ہونا یا صفات کا ازل سے بالقوہ یا بالفعل ہونا وغیرہ لیکن ہم انہیں کسی اور وقت کے لیے موخر کیے دیتے ہیں۔

امام ابن تیمیہ ﷫  اور علامہ ابن رشد﷫  کا نظریۂ  تاویل

آخر میں ہم یہ واضح کر دیں کہ امام ابن تیمیہ ﷫ اور علامہ ابن رشد ﷫ میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں تاویل کے بہت خلاف ہیں لیکن دونوں کا پس منظر مختلف ہے۔ ابن رشد  کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ لوگ تین قسم کے طبقات میں منقسم ہیں؛ عوام، علماء اور حکماء۔ عوام الناس اور علماء کے لیے نصوص شریعت کی تاویل کرنا حرام بلکہ کفر ہے۔ اور علماء   پر واجب یہ ہے کہ نصوص کے ظاہری معنی کو بیان کریں اور اسی کا اعتقاد رکھیں کہ ان سے دین کا یہی تقاضا ہے۔ علماء میں وہ متکلمین کو بھی شامل کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کا کہنا یہ ہے کہ حکماء یعنی فلاسفہ کے لیے نصوص کی تاویل کرنا واجب ہے تا کہ وہ نصوص کے باطنی معانی تک پہنچ پائیں جو کہ اصل حقیقت ہے۔ لیکن حکماء کے لیے بھی اس تاویل کو عوام الناس کے سامنے بیان کرنا حرام ہے۔ تو ابن رشد عوام اور علماء کے لیے تاویل کو حرام سمجھتے ہیں جبکہ حکماء اور فلاسفہ کے لیے اسی تاویل کو واجب قرار دیتے ہیں۔  اس کے برعکس امام ابن تیمیہ ﷫ تاویل کو عوام، علماء اور حکماء سب کے لیے جائز نہیں سمجھتے۔

 

[1] یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ آدم سے محمد ﷺ تک تمام انبیاء کی دعوت کا خلاصہ ایک ہی ہے یعنی توحید کا اہتمام اور شرک سے اجتناب وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف سقراط سے لے کر ہائیڈگر تک سب کی فلاسفی اپنی اپنی ہے۔

 [2]    واضح رہے کہ اہل عقل میں بہت زیادہ اختلاف منقول ہے اور فلسفے کی پچھلے اڑھائی ہزار سال کی تاریخ اس پر شاہد اور گواہ ہے۔