جمع قرآنی کا ارتقاء اور ائمہ قراء کے اختیارات کا مسئلہ

سبعہ احرف اور ہزاروں   قراءتوں کے تناظر میں

جمع قرآنی کا ارتقاء اور ائمہ قراء کے اختیارات کا مسئلہ

سبعہ احرف اور ہزاروں   قراءتوں کے تناظر میں

ماہنامہ  محدث کے  مدیر اعلیٰ  ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ بنیادی طور پر اجتہادات کے تقابلی مطالعہ کا’ ذوق و شوق‘ رکھتے ہیں ، جب 1990ء میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں پاکستان کا پہلا کلیۃ القرآن قائم ہوا تو انہوں نے قاری محمد ابراہیم میر محمدی ﷾ کے ہمراہ عظیم  مشن کی تکمیل میں ہر مشکل برادشت کی حتی کہ اسی کلیۃ القرآن کی برکت سے نہ صرف ہزاروں قاری تیار ہوگئے جو قراءات عشرۃ صغریٰ اور عشرہ کبریٰ کے ماہر بھی ہیں بلکہ اپنی اولاد کی حوصلہ افزائی کی بناء پر عشرہ  صغریٰ کبریٰ   کی 20 روایات اور 80 طرق پر مشتمل تحقیقی مصاحف کا افتتاح بھی جمع کتابی کی صورت  کروایا ۔ کویت میں بیس پچیس سال سے ان کے  چھوٹےبیٹےڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی قیام اللیل کے علاوہ اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ بھی کراتے  رہے ہیں جس سے امیر کویت نے متاثر ہو کر عشرہ صغریٰ کی 20روایات متواترہ والے مصاحف اپنے خرچے پر چھپوانے کی ذمہ داری اٹھائی ۔ ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی صاحب کے روابط سے 50  ماہرین قراءات کی  اعلی مجلس 16 مئی 2022 ء کو پانچ روزہ عالمی کانفرنس میں تشکیل پا گئی جس  میں مجلہ رشد کے 6ضخیم نمبرز بھی تقسیم کیے گئے ۔ محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب  کا ایک وسیع حلقہ ٔاثر جدید دانشوروں کا بھی ہے  جس میں  جہاں قرآنی قراءتوں کا اتنا بڑا تصور حیرت کا باعث ہوا وہاں کئی شبہات کا   دروازہ بھی کھل گیا تو جواب دہی کے لیے محترم   مدنی صاحب کو ہی تعارف اور وضاحتوں کا بوجھ اٹھانا پڑا ۔ زیرِ نظر مضمون محترم مدنی صاحب سے آڈیو انٹرویو کے بعد تحریری صورت میں  ڈاکٹر حافظ محمد زبیر  نے تیار کیا ہے جو ہدیہ قارئین ہے۔  (محدث)

سوال:  آج ہمارا  اصل موضوع قراءات  میں  اختیارات کا مسئلہ  ہے  جس پر گفتگو سے پہلے ہم یہ چاہیں گے کہ آپ ہمیں   مروجہ  جمع قرآنی    اور سبعہ أحرف کے نزول کے پس منظر  کے  متعلق مختصر  طور پر بتلائیں ؟

جواب : قرآن مجید نبی اکرمﷺ پر اتارا گیا اور  تئیس سال کے عرصے میں اس کا نزول مکمل ہوا ۔ قرآن مجید کے حوالے سے ایک بات سمجھ لینی چاہیے  کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں مبعوث ہوئے تھے اور آپ کے اولین مخاطب قریش تھے ، اس لیے  قرآن مجید  بھی قریش کی زبان اور لہجہ میں  اتارا گیا ۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے اور دوسرے قبائل تک اسلام کی دعوت پہنچی اور وہ اسلام میں داخل ہونے لگے ، تو چونکہ قرآن مجید اسلام کی بنیادی کتاب تھی  اور اسے  پڑھنے والے بچے ، بوڑھے ،خواتین  اور ان پڑھ ہر قسم کے  لوگ تھے ، اس وقت عربوں  میں تعلیم کا کوئی باقاعدہ رواج بھی  نہ تھا ، اس لیے عربوں  کے لیے  ایک ہی مخصوص  لب و لہجہ میں قرآن پڑھنا دشوار تھا ۔ لہٰذا  نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کیا کہ  قرآن مجید پڑھنے میں  آسانی پیدا کی جائے تا کہ سب لوگ اللہ کے کلام کو پڑھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اس مطالبے پر  دو حرفوں پر قرآن نازل کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید آسانی کرنے کی فرمائش کی تو قرآن مجید کو تین حرفوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ۔  پھر درخواست کی تو چار  حرفوں پر نازل کیا گیا۔اس طرح بالآخر سات حروف پر  پڑھنے کی اجازت دی گئی کیونکہ اس وقت عربوں کے مختلف قبائل میں بڑے لہجات سات تھے ۔ اس لیے قرآن مجید کو سات حرفوں پر اتارا گیا ہے اور سات حروف پر اس کے اتارنے کا فائدہ یہ ہوا کہ قریش کے علاوہ دیگر    لہجات بولنے والے لوگ بھی قرآن مجید  آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے تھے۔،

عصر حاضر سے لہجات کے اختلاف کی مثال سمجھنی ہو تو دیکھیں مصری ’ج‘  کو’گ‘ بولتے  ہیں یعنی جمعہ کو ’گمعہ‘ کہہ دیں گے۔  اسی طرح عرب عام طور  علامات مضارع (ی ، ت  ، ء، ن ) پر ہمیشہ زبر پڑھتے ہیں  لیکن بنو تمیم ان  کے نیچے  زیر  پڑھتے تھے، جیسے تَفْعَلُ کے بجائے تِفْعَلُ پڑھتے تھے ۔ یہ سب ایک ہی زبان کو  بولنے کے متنوع انداز ہیں۔ آپ دیکھ لیجیئے سرائیکی بھی  پنجابی  ہی بولتے ہیں لیکن  لاہوریوں  کی پنجابی  اور سرائیکیوں کی پنجابی میں  کافی فرق ہے۔  اس طرح قرآن مجید سات لغات پر اترا ہے۔امام ابو عبید قاسم بن سلام﷫،  امام بخاری﷫ کے بہت بڑے اور  مایا ناز استاذ ہیں ، یہ محدث بھی ہیں، اصولی بھی، قاری بھی ہیں اور عربی زبان کے بڑے ماہر  بھی ہیں ۔ انہوں نے  قرآن کی زبان اور لغت کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے قرآن کے    الفاظ     کے بارے  بتایا ہے کہ کونسا لفظ کس قبیلے میں مستعمل تھا۔گویا ابو عبید﷫  کا موقف  یہ تھا  کہ سبعہ احرف سے مراد عرب قبائل کی  لغات اور لہجات  ہیں۔ قراءات کے بہت بڑے عالم اور رسم قرآن کے  امام  ابوعمرو دانی﷫ کا بھی یہی قول ہے کہ سبعہ احرف سے  مراد اہل عرب کی لغات اور لہجات ہیں۔  اس کے علاوہ لغت کےدیگر   بڑے ماہرین میں سے   امام ازہری﷫اور معروف مفسر ابن عطیہ﷫ نے بھی اسی قول  کو ترجیح دی ہے ۔انہوں نے کہا ہے  کہ قرآن مجید کے  سات حروف میں  دراصل  قریش کے قرب و جوار میں رہنے والے اور تجارت اور دوسرے کاموں کے سلسلے میں قریش سے میل ملاقات رکھنے والے قبائل کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ آغاز اسلام  میں قرآن مجید قریبی علاقوں میں پھیلا جبکہ بعد میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔

بعض لوگوں نے سبعہ احرف کے بارے اس رائے کے حوالے سے  ایک معارضہ پیش کیا جس کا واقعہ  صحیح بخاری کی مشہور حدیث(4992    )یوں  ہے  کہ  ایک مرتبہ حضرت  ہشام بن  حکیم بن حزام ﷜جماعت کرا رہے تھے، اس میں انہوں نے سورۃ الفرقان کی تلاوت کی۔ حضرت عمر  ﷜ اُن کی قراءات سن رہے تھے۔ اس میں انہوں نے کچھ ایسے الفاظ  پڑھےجو  حضرت عمر ﷜کی قراءت (جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھی تھی)سے مختلف تھے۔ نماز ختم ہوئی تو حضرت عمر﷜ نے پوچھا آپ نے یہ کئی قراءت  کہاں سےسیکھی   ہیں؟  جب انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے  ایسے  ہی پڑھایا ہے تو حضرت عمر﷜کو بڑا عجیب لگا۔ وہ  تصدیق کے لیے حضرت ہشام بن  حکیم   ﷜کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ ﷺ نے دونوں کی قراءات سنیں تو  دونوں کی تصدیق کی اور فرمایا  کہ     قرآن  کئی   حروف پر   نازل ہوا ہے۔ معترضین کا کہنا ہے کہ   ہشام بن حکیم﷜ بھی قریشی ہیں اورحضرت عمر بن خطاب﷜ بھی قریشی ہیں تو دونوں کی قراءات میں اختلاف کیونکر ہوا؟  اگر سبعہ احرف سے مراد سبع لغات اور لہجات ہی ہیں تو قریش کے سب لوگوں کی لغت اور لہجہ تو  ایک ہی ہونا چاہیے تھا  ۔

اس کا جواب دیتے ہوئے امام سیوطی﷫نے   کہا ہے کہ رسول اللہﷺہرہر قبیلے کو الگ الگ بلا کر قراءات نہیں سکھایا  کرتے تھے   بلکہ جب کوئی آیت یا سورت نازل ہوتی تو  اس مجلس میں جو لوگ بھی  بیٹھےہوتے تھے، ان  سب کے سامنے  تلاوت فرماتے ،   جبکہ عموماً اس مجلس میں ہر طرح کے  قبائل کے لوگ   موجود ہوتے تھے ۔ لہذاممکن ہےکہ حضرت   ہشام بن حکیم  ﷜ نے یہ سورت کسی دوسرے قبیلےکے لوگوں کے ساتھ مل کر سنی ہو۔ اس لیے  ان دونوں قریشی حضرات کے لہجےاور حروف میں فرق ہونا کوئی غیر معمولی  بات  نہ تھی  ۔  

امام بخاری﷫ نے اپنی صحیح  میں    کتاب الاعتصام کے اندر   ایک باب یوں  قائم کیا ہے: 

باب الحجة على من قال:«إن أحكام النبي صلي الله عليه وسلم كانت ظاهرة، وما كان يغيب  بعضهم من مشاهد النبي صلي الله عليه وسلم وأمور الاسلام»

 ’’مفہوم یہ ہے کہ نبیﷺ کے سب ارشادات ہر ایک کے لئے ظاہر  باہر نہ ہوتے بلکہ بہت  سے لوگ نبی ﷺکی مجالس سے غائب ہونے کی بناء پر کئی اسلامی تعلیمات خود نہ سنتے۔‘‘

  گویا  سارے صحابہ کے لیے ہر چیز  براہِ راست واضح نہیں ہوتی تھی  ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی، یا کوئی سوال پوچھاجاتا، تو آپ ﷺ بغیر کسی تکلف کے اسے بیان کردیتے،جو موجود ہوتے وہ سیکھ جاتے اورجووہاں  موجود نہ ہوتا وہ اس علمی بات سے محروم رہ جاتا ۔

اس وقت عرب عموما  اُمی (اَن  پڑھ )تھے ، لکھنےپڑھنے سے بڑی حد تک محروم، بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتےتھے، البتہ ان کا حافظہ غضب کا تھا۔ جو بات ایک دفعہ سن لیتے پتھر پر لکیر ثابت ہوتی۔کچھ لوگ لکھنے پڑھنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے، وہ رسول اللہ ﷺ سے سن کر لکھ بھی لیتے تھے، لیکن زیادہ تر زبانی یاد رکھنے والے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے قرآن کی حفاظتِ صدری کی ہے یعنی اسکا حفظ زبانی ہوتا  ہے۔ خود نبیﷺ امی ہونے کی بناء پر لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے  جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے : 

﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۰۰۴۸بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ مَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۰۰۴۹﴾ [العنكبوت:48، 49]

’’ اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے  ،بلکہ یہ (قرآن) تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں، ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔‘‘

یہ آیات بتا رہی ہیں  کہ رسول اللہﷺ نہ لکھ  سکتے تھے اور نہ لکھا  ہوا پڑھ سکتے تھے  بلکہ    قرآن مجید اہل علم کے سینوں میں ہی محفوظ تھا ۔ یعنی رسول اللہﷺ کے زمانہ میں زیادہ تر  قرآن صحابہ کے حافظوں میں محفوظ تھا۔  دوسرےلفظوں میں قرآن کی حفاظت کا   اصل  ذریعہ لوگوں کا اسےزبانی یاد کرنا تھا ،جسے ’جمع صوتی‘ کہتے ہیں۔  گویا رسول اللہ ﷺ کے زمانے  سے قرآن  کو  زبانی یاداشت والی روایت کا   تواتر حاصل  تھا۔   عام محدثین رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں  جمع صوتی کا ہی موقف رکھتےہیں اگرچہ لکھنے کا متبادل طریقہ بھی اختیار کیا گیا تھا جو مکمل قرآن کی صورت ایک ساتھ نہ تھا  لہذا   اصلاً  تلاوت ہی مکمل قرآن تھی  ۔پھر  رسول اللہ ﷺ کی وفات پر  جب قرآن مجید کا نزول ختم ہوگیا ،   تو حضرت ابو بکر صدیق﷜کے دورِ خلافت میں پہلی مرتبہ قرآن مجید کو  اوراق میں   تحریری شکل دی گئی ، اسے’ جمع کتابی اول‘  کہا جاتا ہے۔

جمع کتابی اول:

 حضرت ابو بکر صدیق﷜ کے دور خلافت میں  یمامہ  میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ ہوئی، جس میں   حفاظِ قرآن کی ایک بڑی تعداد نے شہادت  پائی ، جس سےحضرت عمر ﷜کے دل میں یہ  احساس  پیدا ہوا کہ ایسے حوادث سے   قرآن مجید کے حفاظ تو  کم ہوتے جائیں گے لہذا مکمل جمع کتابی کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ﷜  کو مشورہ دیا کہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قرآن مجید تحریر کیا تھا ، ان  کی تحریروں   کے  ذریعے بھی    قرآن مجید  کو مکمل شکل میں تحریری طور پر جمع کردیا جائے۔ یہ بڑی اہم مصلحت تھی جو    باہمی مشاورت  کے بعد  طے پائی ۔ چنانچہ  حضرت ابو بکر صدیق﷜نے اس متفقہ  تجویز کے مطابق     رسول اللہ ﷺ سے  قرآنی وحی  لکھنے والے حضرت زید بن ثابت﷜  کو تحریری طور پر  قرآن جمع کرنے کا فریضہ سونپ دیا ۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر﷜ نے حضرت زید بن  ثابت﷜ اورحضرت عمر﷜دونوں کو حکم دیا  کہ آپ  مسجد نبوی  کے دروازے پر بیٹھ جائیں  اورجن  لوگوں سے  نبی ﷺ کے سامنے لکھی گئی  تحریریں ملیں ، انہیں جمع کر دیں۔  جو صحابہ  ان حضرات کے پاس اپنی تحریریں  لے آتےاور یقین دلاتے  کہ یہ   تحریر  میں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اور آپ کے سامنے  لکھی ہے ، تو وہ تحریر  قبول کی جاتی ۔ یعنی  قرآن مجید کو جمع کرنے کا کام  زید بن ثابت﷜اور عمر بن خطاب﷜ نے مشترکہ طور پر کیا  اور اس طرح قرآن کریم نے پہلی  جمع کتابی کی شکل اختیار کی۔ انہیں   ’ صُحف‘ کہتے ہیں ۔ صُحف  صحیفہ کی جمع ہے اور   صحیفہ کا معنی کا غذ۔  اور صحف اوراق    کا ایسا مجموعہ ہے جن  کی کوئی باضابطہ  ترتیب  نہ ہو۔ اس جمع کتابی  میں نہ تو کوئی  خاص  رسم الخط    وضع  کیا گیا اور نہ ہی سورتوں کی بیرونی  ترتیب کے حوالے سے کوئی خاص اہتمام کیا گیا ۔ امام حاکم﷫نے المستدرک  میں اور ابن حجر﷫وغیرہ نے بڑی تفصیل سےاس کا تذکرہ کیا ہے۔

 جمع کتابی ثانی:

یہ جمع کتابی حضرت عثمان﷜کے دور ِ خلافت میں ہوئی جس کا پسِ منظر کچھ یوں ہے: حضرت عثمان﷜ کے دورِ خلافت میں لوگوں میں قرآن مجیدکے تلفظ میں اختلاف شدید ہو گیا۔جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر﷜ کے دور میں مزید فتوحات کی وجہ سے اسلامی سلطنت بہت پھیل گئی تو بہت سے صحابہ اسلامی دعوت  کی غرض سے مفتوحہ علاقوں میں منتقل ہو گئے۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے بھی بہت سے معلمین کا تقرر ہوتا رہا تو تلاوت  کے تلفظ کا اختلاف بھی پھیلا اور اپنے اپنے اساتذہ پر اعتماد کی وجہ سے متنوع تلاوت پر مخالفانہ فتوے آنے لگے جن کی وجہ سے صورت حال پریشان کن ہو گئی۔حضرت حذیفہ بن یمان﷜ نے اس صورت حال کو تشویش ناک  محسوس کیا تو سب کاموں پر اسے اہمیت دے کر حضرت عثمان بن عفان﷜ کو اسکا حل تلاش کرنے کی طرف توجہ دلائی ، چنانچہ حضرت عثمان﷜  نے دوبارہ جمع کتابی پر حکومتی نگرانی میں کام کا عزم کر لیا اور زید بن ثابت﷜کی سربراہی میں ہی  ایک کمیٹی  اس مقصد کے لیے بنا دی۔

واضح رہے کہ اس وقت  تلاوت کا  تنوّع   سبعہ احرف تک محدود تھا جس کی  رسول کریمﷺ نے  اجازت دی تھی لیکن اس پر ایک مزید اضافہ یہ بھی  ہوا  کہ کئی صحابہ نے   قرآنی الفاظ کے ساتھ اس کی تفسیر بھی اپنے اپنے مصاحف میں جا بجا لکھ رکھی  تھی  جسے  ان کے شاگردوں نے قراءتوں کا اختلاف  سمجھا۔  لکھنے والے جانتے تھے  کہ کونسا متن ہے اور کون سی تفسیر  لیکن بعد والے اس سے لاعلم تھے۔ انہوں نے تفسیری کلمات کو بھی قراءات کے تنوّع کے طور پر لیا ، لہذا فتوی بازی میں اتنی شدت ہو گئی  کہ ایک دوسرے کے خلاف    کفر تک کے فتوے لگنے لگے۔  راز دار رسولﷺ حضرت حذیفہ بن یمان﷜ نے جب  یہ صورتحال دیکھی  تو خلیفہ راشد حضرت عثمان﷜ کو مشورہ دیا کہ  نزاع ختم کرنے کے لیے  ایک ماڈل مصحف تیار کیا جائے اور عام  مسلمانوں کو اسی  کا پابند کیا جائے ورنہ مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوجائے گا۔  اور قرآن مجید کے اندر اختلاف آنے کا معنیٰ یہ ہے کہ وحی میں اختلاف ہو  جبکہ   وحی میں اختلاف  ہو نہیں سکتا کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا﴾[النساء: 82]

  ’’اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ۔‘‘

میں سبعہ احرف کو اختلاف نہیں کہتا ، بلکہ  ہمیشہ اس کے لیے تنوع کا لفظ استعمال کرتا ہوں ۔    پس  حضرت عثمان﷜نے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت﷜جنہوں نے حضرت ابو بکر صدیق﷜ کے دور میں’صُحُف‘ تیار کیے تھے، کی سربراہی میں ایک کمیٹی  بنادی۔ اس میں گیارہ آدمی معروف ہیں    جنہوں نے نئے سرے سے صحابہ کرام سے تحریریں اکٹھی کیں اور   انہی کو  رسمِ  عثمانی کی  اساس  بنایا گیا۔اس کمیٹی نے   کچھ اصول  بھی وضع کیے   جن میں سے اہم ترین اصول نبی کریم ﷺ کا حضرت جبرئیل کے ساتھ دورہ ( عرضہ اخیرہ) کی قراءت کو ترجیح دینا تھا۔ اس کمیٹی کی ساری کاوش کو  جمع کتابی ثانی کہا جاتا ہے کہ جس میں  صرف وہی قرآن   باقی رہ  گیا جو عرضہ اخیرہ میں موجود تھا ، باقی کو منسوخ تصور  کیا گیا۔ اس طرح   قراءات  قرآن مجید کے حوالے سے عرضہ  اخیرہ   ہی بنیاد بن گیا۔ عرضہ اخیرہ  سے مراد رسول اللہ ﷺ کا جبریل ﷤سے قرآن کا وہ    دو دفعہ  کا دور ہے ،  جو آپﷺ نے اپنی زندگی کے آخری سال  کیا تھا ۔ اس  عرضہ اخیرہ   میں صحابہ میں سے دو اشخاص زید بن ثابت﷜  اور  عبد اللہ بن مسعود﷜ بنفس نفیس   شامل تھے ۔اس میں جو پڑھا گیا وہ ہمیشہ کے لیے قرآن قرار پایا اور جو چھوڑ دیا گیا وہ منسوخ تصور کیا گیا۔ حضرت زید بن ثابت ﷜کی عرضہ اخیرہ میں شمولیت کی وجہ سے ہی حضرت ابوبکر صدیق﷜  نے ان سے  قرآن مجید کی پہلی کتابی  شکل،صحف کی صورت میں تیار   کروائی تھی۔  پھر جب حضرت عثمان﷜ نے مصحف تیار کرنے کے لیے کمیٹی بنائی تو ان ہی    کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا ۔

قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ اس کی تفسیر کے خلط ملط ہونے  کی مثال  یہ ہے ۔  قرآن  کی آیت ﴿ حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ۰۰۲۳۸﴾ [البقرة: 238]  حضرت عائشہ ؓکے ذاتی مصحف میں : (وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى’صلاۃ العصر‘وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ)    مکتوب ہے حالانکہ  (صلاۃ العصر)  کا اضافہ عرضہ اخیرہ میں شامل نہیں ہے ، کیونکہ  حضرت عثمان ﷜والی کمیٹی نے   مصحف میں یہ اضافہ  درج نہیں کیا۔

  بعض  لوگوں نے یہ سوال  اٹھایا  ہے کہ حضرت  عبد اللہ بن مسعود﷜ جب عرضہ اخیرہ میں شامل  تھے تو آپ کو عثمانی مصحف  کمیٹی میں میں شامل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہےکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ اس وقت کوفہ میں رہتے  تھے اور جمع کا کام مدینہ میں ہو رہا تھا۔

دوسرا امتیاز     عثمانی مصحف  کا رسم الخط ہے۔جس کے انداز کتابت میں بہت  سے الفاظ کو مختلف مقامات پر  فرق سے لکھا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں عموماً  لام جارہ  لفظ کے  ساتھ ملا کر لکھا   جاتا ہے   لیکن عثمانی مصحف میں  چار جگہ پر اسےجدا کرکے  لکھا گیا،  جیسے  ’ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ‘ ،’ فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا‘، ’ مَالِ هَذَا الرَّسُولِ‘ ،’  مَالِ هَذَا الْكِتَابِ‘ میں لام کو الگ لکھا گیا  ہے۔  اسی طرح ’ت‘ کہیں گول لکھی ہے اور کہیں لمبی لکھ دی ہے جیسے  ﴿ اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِۙ۰۰۴۳﴾ اور﴿ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ ﴾  میں   ’ۃ ‘ گول ہونی چاہیے  مگر عثمانی رسم الخط میں یہ دونوں الفاظ لمبی ’ت‘  کےساتھ لکھے گئے ہیں ۔  اسی طرح  لفظ  ’رحمت‘  ہے  جو  کہیں گول ’ۃ‘ کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور کہیں لمبی  ’ت‘  کے ساتھ ہے۔ اس کا اثر تلاوت کرتے ہوئے فصل اور وصل  کی صورتوں پر پڑتا ہے۔ فصل کا معنی ہے کہ آدمی تلاوت کرتے ہوئے کسی جگہ پر سانس ٹوٹنے کے ڈر سے وقف کرلیتا ہےاور وصل کا معنی ہوتا ہے وقف کیے بغیر ملا کر  پڑھا جائے ۔   فن تجوید کا اصول یہ ہے کہ جب گول ’ۃ‘ والے حرف پر وقف کریں گے تو  وہ ’ہ‘ بن جاتا ہے ، یعنی ’تابوۃ ‘  پر وقف کریں گے تو اسے ’تابوہ‘ پڑھیں گے۔ لیکن اس کلمہ کو اگر  لمبی ’ت ‘ کے ساتھ ’ تابوت ‘ لکھیں گے تو وقف کرتے ہوئے اسے ’ تابوت ‘ ہی پڑھنا ہو گا۔  اسی طرح ’ابراہیم ‘ کہیں ’ی‘کے ساتھ اور کہیں ’ی‘ کے بغیر ہے ، رسم عثمانی میں نقطے تو تھے نہیں ، صرف ’ی ‘ کا شوشا ہوتاتھا۔اس کی وجہ یہ  ہے  کہ  ابراہیم  عربی الاصل   نہیں تھے ، ان کی مادری زبان عبرانی ہو یا کوئی دوسری اس میں  ان کا   نام ’ابراہام ‘تھا ، جب یہ عربی میں ڈھلا تو ابراہیم بن گیا۔    

اس جمع کا تیسرا امتیاز سبعہ احرف کو ایک ہی ’ رسم الخط‘ میں سمونا  ہے۔ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن مجید سبعہ احرف میں نازل ہوا ہے۔  حضرت عثمان﷜ کی کمیٹی نے کوشش کی تھی  کہ اگر کسی کلمہ میں ایک سے زیادہ  قراءات تھیں تو اسے اس انداز سے لکھا کہ تمام قراءات اس میں  سما جائیں، یعنی ہر ثابت شدہ قراءت کے مطابق  اسے پڑھا جاسکے۔البتہ بعض کلمات میں ایسا اختلاف ہے کہ اسے ایک کلمے میں سمونا ممکن نہ تھا ، مثلاً کسی کلمے کے حروف میں کمی بیشی ہو  جیسے سورۃ البقرۃ میں ہے ﴿ وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِيْهِ ﴾۔ ’وصی‘  کی دوسری قراءۃ  ’أوصى‘ہے  ۔ ایسی صورت میں کمیٹی نےمختلف مصاحف تیار کر کے ان  میں اس قسم کی  قراءات   کو  محفوظ کیا ۔ اس محنت کے باوجود حضرت عبداللہ بن مسعود﷜( جو عرضہ اخیرہ میں شریک تھے ) جیسے بعض اہم صحابہ ﷢کی قراءات کے فروق رہ گئے ۔[1]

اس جمع  کا چوتھا امتیاز    سورتوں کو ترتیب دے کر ایک مصحف بنانا ہے ۔   بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مصحف میں سورتوں  کی ترتیب نبی ﷺ کی دی ہوئی ہے۔ لیکن  صحیح   روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ موجودہ مصحف میں ترتیبِ سور حضرت عثمان﷜ اور آپ کی کمیٹی کی طے کردہ ہے۔  مثلاً صحیح  حدیث میں ہے کہ   رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ نماز تہجد میں پہلے  سورۃ البقرہ پڑھی،  پھر سورۃ النساء  پڑھی ،اس کے بعدسورۃ آل عمران  تلاوت کی،  جبکہ  عثمانی  مصحف میں سورۃ النسا،  آل عمران کے بعد ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مختلف صحابہ کرام کے تیارہ کردہ مصاحف کی  الگ الگ ترتیب تھی جیسا کہ امام سیوطی﷫نے کبار صحابہ کے ذاتی مصاحف میں سورتوں کی ترتیب میں اختلاف ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق  حضرت  عبد اللہ بن مسعود﷜ کے مصحف میں سورۃ الدخان مفصّلات( سورۃ الحجرات سے آخر تک  ) کے درمیان کسی جگہ پر تھی۔  یہ بھی  اس بات کی دلیل ہےکہ ان کےمصحف کی  ترتیب  عثمانی مصحف سےہٹ کر  تھی ۔اس میں  شک نہیں کہ عثمانی  مصحف کو ترتیب  دینے والی کمیٹی کے ارکان   رسول اللہﷺ کی ترتیبِ تلاوت سے بخوبی واقف تھے لیکن شرعی طور پر  چونکہ سورتوں  کی بیرونی ترتیبِ تلاوت  واجب نہیں بلکہ اختیاری ہے ، اس لئے انہوں نے جا بجا دوسری   مناسبتوں کو سامنے رکھا ۔ البتہ سورتوں کی داخلی ترتیب سب صحابہ کرام  کے نسخوں میں  یکساں ہے ۔ واضح رہے کہ  صحابہ کرام کوئی عام  لوگ نہ تھے، بلکہ  انہوں نے ایک ایک سورت پر بارہ بارہ سال لگائے ہوئے تھے، وہ بہت زیادہ ماہر قرآن  تھے   لہذا ان کی ترتیب سور کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے۔

اس جمع کا پانچواں   امتیاز یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے ہر بڑے   مرکز  میں مصحف کے ساتھ اسی قراءت  کا ماہر  ایک قاری بھی بھیجا تاکہ لوگوں کو تلاوت میں پیش آنی والی مشکلات   میں وہ   استاذ کا کردار ادا کرے   ۔ احادیث صحیحہ سے  واضح ہو چکا  کہ جمع قرآن کتابی،  رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مکمل نہ  تھا ،  بلکہ تلاوت کو ہی کافی سمجھا گیا۔ اسی لئے حضرت عمر نے حضرت ابوبکراور حضرت زید بن ثابت ﷢کو کئی دفعہ کی گفتگو کے بعد جمع کتابی پر مطمئن کیا تھا ۔ اصولی اصطلاح میں اسے ’مصلحتِ مرسلہ ‘ کہتے ہیں ۔ [2]

سوال :حضرت عثمان﷜ نے پانچ مراکز کی طرف جو مصاحف بھیجے  تھے  ، بعض  لوگ  کہتے ہیں کہ ہر شہر کی طرف  وہی حرف بھیجا تھا  جو  وہاں  پڑھا جا رہا تھا  تو کیا یہ درست ہے ؟

جواب : دراصل  سرکاری سطح پر مصاحف تیار کرنے کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی کہ لوگ اپنی قراءت پر اصرار اور  دوسروں کی قراءات کا انکار  کرنے لگے تھے۔ اب اگر ان کے ہاں مشہور قراءت کے برعکس دوسری قراءت بھیج دی جاتی  ، تو اختلاف جوں کا توں رہتا اور  اس ساری محنت کا کچھ فائدہ نہ ہوتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت جمع کتابی ایک متبادل صورت تھی جبکہ حقیقی تلاوتِ قرآن (سبعہ احرف) کی بنیاد تو وہ قاری تھے جو ساتھ بھیجے گئے۔  البتہ اس بات کا لحاظ یقیناً رکھا گیا کہ لوگ وہی قراءت پڑھیں جو رائج تھی۔

سوال:عہد نبوت میں قرآن کا نزول صرف  سبعہ احرف میں ہوا ہے جبکہ   مروجہ قراءات (اندازِ تلاوت ) ہزاروں ہیں جن میں زیادہ مشہور عشرہ صغریٰ  اور عشرہ کبریٰ  ہیں، اس کی وضاحت فرمائیں   ؟

جواب : جیساکہ پیچھے بات ہوچکی کہ  عرب قبائل کی سہولت کے لیے قرآن مجید کے بعض الفاظ کو اپنے اپنے قبیلےکی لغت اور لہجے میں پڑھنے کی اجازت تھی ،   جبکہ  اس اجازت کا مطلب یہ نہیں تھا  کہ ان الفاظ   کو ہر شخص   جس طرح چاہے پڑھ لے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ خود بتاتے تھے جیساکہ حضرت عمر بن خطاب﷜ اور  ہشام بن حکیم بن حزام﷜ کے واقعے میں مذکور ہے ۔ یہ سبعہ احرف پھر آگے روایت ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس مروجہ قراءات، سبعہ احرف کے ساتھ ساتھ کسی کلمے کی ادائیگی کی جو وجوہات (اندازِ تلاوت )  ہیں ، انہیں سامنے رکھتے ہوئے،  ماہر قراء کے ’اختیارات ‘سے وجود میں آئی ہیں ۔ دوسرے لفظوں  میں مروجہ قراءات، ’سبعہ احرف‘ کے اختلاط اور ’قراء کے اختیارات‘  پر مشتمل ہیں ۔

سبعہ احرف کی روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ، اس کے علاوہ  امام ابو داؤد کے بیٹے جو ابن ابی داؤد کے نام سے مشہور ہیں، نے مصحف سے متعلق   روایات کو ایک کتاب  میں   جمع  کیاہے، جس کا نام ’’کتاب المصاحف ‘‘ ہے۔   ویسے  مصاحف کے حوالےسے کوئی گیارہ بارہ کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے لیکن ان میں سے اس وقت دنیا میں صرف  یہی ایک  کتاب موجود ہے ۔ کتاب المصاحف سبعہ احرف کی روایت ہے، لیکن   صحیحین کے علاوہ دیگر کتب احادیث کی طرح  اس میں معیاری اور صحیح احادیث   کے علاوہ  ہر طرح کی روایات جمع کردی گئی ہیں ، جس کی وجہ سے اس کتاب میں  حضرت عثمان﷜ کے رسم الخط کے علاوہ بھی کچھ  قراءات  آ گئی ہیں ، جس سے خاص طور پر مستشرقین کو بات کا   بتنگڑ بنانےکا  موقع مل گیا ہے   کیونکہ  انہوں نے  یہ مغالطہ دیا  کہ قرآن مجید بھی اسی طرح  اختلافی ہے جیسے ہمارے ہاں چار انجیلیں ہیں۔  اس میں شک نہیں کہ  سبعہ احرف  صرف سات ہیں جبکہ قراءات  ہزاروں ہیں جن میں سے 982 قراءات   کی تفصیل ابن الجزری﷫ نے ’’النشر فی القراءات العشر‘‘  میں دی ہے  اور   ہر  امام قاری کا سیٹ اپنی سند سے اس تک بیان کیا ہے ۔

سوال :   یہ اتنی ساری قراءتیں  وجود میں آئیں؟[3]

  سبعہ احرف   کی الگ الگ احرف کی صورت میں تو  رسول اللہﷺ نے اجازت دی تھی ،  لہذا  بعد میں  صحابہ  کرام نے اس کا اہتمام نہیں کیا کہ ایک ایک حرف کو الگ الگ رکھا جائے، تو  سبعہ احرف خلط ملط ہو گئے ۔ اور  اندازِ تلاوت کی مثال   ایک روایت میں یوں  ہے کہ حضرت  ابو موسیٰ اشعری  ﷜قرآن مجید  کی تلاوت کررہے تھے،  رسول اللہﷺ باہر  سے گزرے تو  کھڑے  ہو کر سننے لگے ، بعد میں آپ ﷺ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:   اللہ تعالیٰ نے  تمہیں داؤد ﷤  کی بانسریاں دی ہیں  یعنی تمہاری آواز  اور انداز بہت شاندار ہے۔  حضرت ابو موسیٰ ﷜کہنے لگے کہ  اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو  میں مزید خوبصورت پڑھتا ۔یہ اچھا پڑھنا اصل میں اختیار   ہی کی ایک قسم ہے یعنی  ادائیگی کے مختلف  انداز  ہیں ۔ اور یہ اندازسینکڑوں کیا  ہزاروں ہوسکتے ہیں ،  جبکہ  سبعہ احرف کے اختلافات مفرد، تثنیہ، جمع  یا مذکر ومونث وغیرہ  کے  تنوّعات    ہیں یا اسی طرح کچھ الفاظ کی کمی وبیشی موجود ہے جیسا کہ حضرت ابو درداء ﷜   بہت پرہیزگار صحابی ہیں ان کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ ﴿ وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ۰۰۱وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى ۙ۰۰۲وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤىۙ۰۰۳﴾  میں   وہ (وَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤى) پڑھتے تھے ، اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺْ نے   انہیں   اسی طرح پڑھایا  ہے۔

قراء کرام نے سبعہ احرف اور ادائیگی کے مباح طریقوں میں سے اپنی اپنی پسند کے مطابق اپنے اپنے  سیٹ تیار کرلیے ۔ اختیار کا لفظ  خیر سے ہے ، یعنی جس انداز کو انہوں نے پسند کیا  ، لے لیا۔ اسی کو ’قراء کا اختیار ‘ کہتے ہیں۔ طنطا کے مشہور ماہر قرآن ڈاکٹر نصر سعید       نے ’اختیارات فی القراءات ‘ کے موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے ،  جس کا نام ہے : ’الاختيار في القراءات القرآنية وموقف الهذلي منها  ‘۔   اس میں انہوں نے  اختیارات فی القراءات کے حوالے سے امام ابو القاسم الھذلی﷫  کا موقف بیان کیا ہے ۔ امام ابو القاسم الھذلی  کی وفات 465ھ میں ہوئی ہے،  یہ بنو ہذیل میں   سے ہیں کہ جس قبیلے  سے حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ تھے ۔ بنو ہذیل کی زبان  بہت فصیح  ہے۔ اس میں انہوں نے قراءات  کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے امام اندرابی  (م 500ھ) ، کے حوالہ سے  اختیار اور قراءتوں کا باہمی  فرق بیان کیا ہے  جس کی عبارت  یہ ہے:

«إن القراءة تعني أن يكون للمقرئ قراءة مجردة على حرفٍ واحد من أول القرآن إلى آخره وأما الاختيار فهو أن يأخذ القارئ من مجموع القراءات التي رواها حروفا يفضلها لسبب يذكره أو لا يذكره، قد يكون حرف منها من قراءة في حين يكون الحرف الآخر من قراءة أخرى وهكذا إلى آخر القرآن الكريم»

 ’’ قراءت وہ ہوتی ہے کہ قاری شروع سے  آخر تک ایک حرف پر پورا قرآن مجید پڑھے، جبکہ اختیار یہ  ہے  کہ قاری قراءات کےمجموعے سے  جس حرف کو بہتر سمجھتا ہے لے لیتا ہے ، اس کے افضل ہونے کا سبب بیان کرے یا نہ کرے ۔  وہ ایک حرف ایک قراءت سے لیتا ہے اور دوسرا حرف دوسری قراءت سے اخذ کرتا ہے  اور اس طرح پورا قرآن پڑھتا ہے ۔‘‘

مثلاً ایک شاگرد نے مختلف اساتذہ سے قراءات حاصل کیں  اور  اس نے انہیں ملا کر  ایک نیا انداز اختیار کرلیا۔ اس کو  اختیار ِقراءات کہتے ہیں ۔ یہ ادائیگی  کا مسئلہ ہے، سبعہ احرف میں تبدیلی نہیں  ہے۔اگر  قراء کی طرف سے ادائیگی کی وجوہ  میں یہ  اختیار  نہ ہوتا تو سبعہ احرف سے سینکڑوں قراءات نہیں بن سکتی  تھیں۔  اور ادائیگی کا مطلب ہے کہ  کسی  حرف کو موٹا کرنا اورکسی حرف کو باریک کر نا، کسی حرف کو  اشمام کے ساتھ پڑھنا،کسی مد کو لمبا کرنااور کسی مد کو چھوٹا کرنا   وغیرہ    یہ سب اندازِ تلاوت ہیں ۔اسے وجوہ قرآنی  بھی کہتے ہیں۔  انہی کے تنوع سے ہزاروں  قراءات وجود میں آئی ہیں۔انہی وجوہ کی بنیاد پر ہی ماہرین قراءات نے اپنے اپنے سیٹ[4] تیار کیے ہیں ۔  جبکہ سبعہ احرف رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کی قر اءا ت کی  روایت ہیں  مثلا  امام نافع ﷫نے ستر تابعین سے قرآن سنا ہے ، جس  قراءت    کے جس انداز پر دو  تابعی جمع  ہو گئے ہیں انہوں نے اسے اپنی قراءت کے طور پر  لے لیا۔ پھر ان کے دو بڑے شاگرد ہیں  قالون اور ورش ۔ بعض مقامات پر ان دونوں  کی قراءات  میں بھی  فرق ہے، جسے ’روایت‘ کے لفظ سے بیان کرتے ہیں۔  لیکن  میرے  خیال  کے مطابق فنِّ   حدیث کی رو سے اسے ’روایت‘  کہنا درست نہیں ہے کیونکہ روایت وہ ہوتی ہے جس میں کوئی اضافہ نہ ہو ، انداز تک وہی ہو۔حدیث کی روایت میں اصل چیز  مفہوم  ہوتا ہے ، اس لیے ایک مفہوم  کے الفا ظ میں فرق آجائے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن  قرآن مجید دراصل’   کلام اللہ  کی قراءت ‘ہے۔ اس لیے اس کی روایت میں لفظ  کی  تبدیلی قابل اعتراض ہے ۔ البتہ اگر ماہر قاری اور مقری  سبعہ احرف کے اختلاط اور وجوہِ قراءات کی بنیاد پر کوئی سیٹ تیار کرلے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول ؐ نے  اختلاطِ احرف کی اجازت دی ہے[5]۔

سوال: اختیار کا مطلب ہوتا ہے کہ میرے سامنے پانچ چھ چیزیں پڑی ہیں تو میں نے ان میں سے دو کو اختیار کر لیا ،  ائمہ  قراء کے سامنے کیا چیز تھی  جس میں سے انہوں نے یہ قراءات اخذ کی ہیں ، یا انہوں نے اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرکے قراءات بنائی ہیں ؟

جواب :دراصل  قاریوں کے پڑھنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں اور پھر ایک قاری کئی اساتذہ کا شاگرد ہوتا تھا۔ ان کے تمام پڑھنے کے طریقے اختیارات ہیں، یعنی اختیارات سے قرآن مجید میں تبدیلی نہیں آتی خواہ ہزاروں انداز بنا لیے جائیں ۔ اختیار اضافہ  نہیں  صرف ’چناؤ‘ ہوتا ہے ۔

سوال : کیا آج بھی قراء اپنے  اختیارات استعمال کرسکتے ہیں یا  نئی قراءت بن سکتی ہے؟

جواب :آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے قاریوں میں تحقیق کا مزاج نہیں ہے، وہ  صرف   حسنِ تلاوت جانتے ہیں، اس لیے اختیارکے لیے جن علمی مہارتوں، محنتوں اور تحقیقی مزاج کی ضرورت ہے اس  کا فقدان ہے۔   علامہ  ابن حجر﷫ نے کہا ہے کہ قراء    کا مزاج  تحقیقی نہیں ہوتا اور  وہ صرف نقل اتارنے کے ماہر ہوتے ہیں۔تحقیقی مزاج محدثین اور فقہاء کا ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کو جمع اور مدون کرنے کے حوالے سے جتنی شاندار بحث ابن حجر﷫نے  فتح الباری میں کی ہے،  کوئی قاری نہیں کرسکا ۔ دوسری بات یہ کہ تحقیقی مزاج نہ ہونے کی وجہ سے قراء  نے  ’رسم عثمانی ‘کو ’رسم نبوی ‘بنایا ہوا ہے۔اگر یہ رسم نبوی تھا تو  سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’تابوت ‘ کے رسم  کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضرت عثمان﷜ نے فرمایا کہ  اسے لغت قریش کے مطابق لکھو ، یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے لمبی ’ت‘ کے ساتھ لکھوایا تھا۔ اس کا صاف مطلب  ہے کہ یہ رسم عثمانی  ہے، رسم نبوی نہیں ۔رسم نبوی  تبھی ہوسکتا ہے جب رسول اللہﷺ سے   اس کی روایت ہوتی ۔[6]

سوال : رسم عثمانی کا شرعی مقام  کیا ہے؟ دوسرا  کیا رسم عثمانی سبعہ احرف کا مکمل احاطہ کرتا ہے؟

جواب: اس میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے جو کمیٹی بنائی تھی وہ سب  ماہرین  قرآن مجید    صحابہ کرام  تھے۔ مزید  انہوں نے   باقاعدہ نبی اکرمﷺ کے زمانہ کی تحریریں  جمع کر لی   تھیں۔ انہیں  دیکھ کر انہوں نے  مصاحف ثبت کئے تھے ۔ دوسری بات  یہ ہے کہ اصل چیز تو تلاوت ہے کیونکہ تحریر کے اندر سب چیزیں آنہیں سکتیں ۔  مثال کے طور پرآپ  ’اشمام‘ تحریر میں  نہیں لاسکتے ۔ یہ اندازِ تلاوت کا  حصہ ہےاور تلاوت ہی کو امت کا تواتر حاصل ہے، جو قرآن کریم کی رو سے اصل کلام الہی ہے ۔ باقی رہا اس کا  شرعی مقام تو وہ یہ ہے کہ خلیفہ راشد نے صحابہ کی جماعت کو ساتھ لے کر مصحف ثبت کیاہے۔ اگر کہیں سبعہ احرف کا تنوع  تھا تو اسے مختلف مصاحف  کی صورت محفوظ کردیا۔مصحف عثمانی کے علاوہ دوسرے کئی مصاحف کا تاریخی طور  پر ذکر تو ملتا ہے مگر کوئی ایک مصحف بھی متواتر اًمحفوظ نہیں ہے۔سیوطی نے روایات کی بنیاد پر کوئی  بیس صحابہ  کے مصاحف اور ان میں اختلاف  کاذکر کیا ہے، لیکن ان میں سے کوئی ایک  مصحف کامل موجود نہیں ہے ،لہٰذا مصحف عثمانی کے مطابق ہی قرآن مجید پڑھنا چاہیے،یہی رسم عثمانی کی اہمیت ہے۔

سوال: جو لوگ عربی لکھنا نہیں جانتے مثلاً  جو لوگ  چینی انداز    لکھنا جانتے ہیں یاکوئی رومن انداز  جانتا  ہے ، کیا  وہ لوگ اپنے انداز میں  قرآن مجید لکھ سکتے ہیں؟  

جواب: رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص  رسم الخط پر قرآن  مجید نہیں  لکھوایا ، یا کسی ایک اندازِ تحریر  کو اختیار کرنے  کا حکم  نہیں دیا اور  نہ کسی رسم الخط میں لکھنے پر پابندی لگائی۔ اس لیے میرا خیال  ہے کہ اس میں گنجائش ہونی چاہیے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے بڑے علماء کا طرز عمل بھی اُن کے ہاں اِس کے جائز ہونے کی  ایک دلیل ہے۔  برصغیر پاک وہند   میں نور محمد اصح المطابع  کراچی نے صحاح ستہ تیار کروائی ہے،  مشکوۃ  شریف طبع کی ہے ، صحیح بخاری پر  مولانا احمد علی سہارن  پوری﷫ نے کام کیا ہے۔اس میں انہوں نے جو  قرآن مجید لکھا ہے،  وہ سب کا سب خطِّ  نستعلیق میں لکھا  گیا ہے۔ نستعلیق میں لام الگ نہیں لکھا جاتا ،اس میں جگہ جگہ ملِک کو ’مَالک‘ لکھا ہوا ہے،اسی طرح ’زکاۃ ‘  میں الف لکھا ہوا ہے جب کہ قرآنی رسم الخط میں  واؤ  کےساتھ ’زکوۃ‘ لکھا   جاتا ہے۔ قرآن مجید کو     دوسرے رسم الخط  میں لکھنے سے منع کرنا در اصل قُرّاء  کا تقلیدی  تشدّد  ہے۔

حضرت عثمان﷜ نے جو رسم الخط اختیار کیا ہے اس کی اہمیت   تاریخی تقدس کے اعتبار سے  ہے کہ وہ محفوظ ہے۔اس لیے جو نئے قرآن مجید  شائع کیے جاتے ہیں،  ان میں  رسم  عثمانی کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی شخص  تعلیم کی غرض سے  کسی دوسرے رسم الخط میں مصحف لکھنا چاہے  تو میں اس کے جواز کا قائل ہوں ، اور یہ  میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا  بلکہ یہ امام مالک﷫      کا فتویٰ ہے کہ یہ جائز ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت عثمان﷜ کا کام اہمیت کے اعتبار سے بہت بڑا ہے لیکن حضرت عثمان﷜ اس کو واجب نہیں کر سکتے کیونکہ  شریعت تو رسول اللہﷺ پر مکمل ہو چکی ہے۔پس عام حالت میں قرآن مجید ثبت کرتے ہوئے حضرت عثمان کے رسم الخط کو اختیار کرے  کہ یہ   اہتمام  مخصوص علمی اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔  میں سمجھتا ہوں کہ اگر قرآن مجید   کے لئے  حضرت عثمان﷜ والا  رسم الخط محفوظ  رہے گا تو یہ کھیل نہیں بنے گا۔اس خطرے کے پیش نظر کہ قرآن  مجید کھیل تماشا نہ  بن جائے،   میں  عام طور پر  ناشرین کو   قرآن مجید کو  دوسرے رسم الخط میں  طباعت   کی اجازت نہیں دیتا ۔  تو میرے نزدیک یہ مسئلہ شرعی نہیں بلکہ سد الذرائع کے باب سے تعلق رکھتا ہے۔

سوال : جو حروف کتبِ حدیث  میں وارد ہیں،  کیا ان سب  کی تلاوت کرنی   جائز ہے  ؟

جواب : ماہرین نے  قرآن مجید کے ثبوت کے لیے تین شرطیں لگائی ہیں :عربی زبان کے مطابق ہو، عثمانی رسم الخط کے مطابق ہو اور  تواتر سے ثابت ہو۔ یہ شرائط  دراصل قراءات کے ثبوت کے لیے ہیں،  سبعہ احرف کے لیے نہیں۔    اعلیٰ معیار کی حامل احادیث کی کتابوں مثلاً  بخاری ومسلم  وغیرہ میں جو حروف روایت ہوئے ہیں ہم ان کو  بطور حروف ثابت مانتے ہیں،  لیکن ان کی بطور قرآن تلاوت کی اجازت نہیں دیتے ،اس لیے کہ  وہ تواتر سے ثابت نہیں جبکہ اصولاً  قرآن مجید کی تلاوت کے لیے کسی حرف کا  تواتر سے ثابت ہونا  ضروری ہے۔ یہ دو مستقل  بحثیں ہیں؛ ایک یہ کہ حرف ثابت کیسے ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ حرف کو پڑھنے کا کم از کم معیار کیا ہے؟

سوال :اگر حضرت عثمانؓ نے اپنا  رسم الخط  لازم  کیا تھا تو  باقی لوگوں کے مصاحف جلا کر ختم کیوں کیے ؟

 جواب :   حضرت عثمان﷜ نے صرف وہ تحریریں جلائی تھیں  جو عام لوگوں کے پاس تھیں، باقی جو ماہر قراء    مشہور صحابہ  مثلاً حضرت عائشہ، عبد اللہ بن مسعود، ابی بن کعب  ﷢وغیرہ  کے   مصاحف موجود تھے، وہ نہیں جلائے گئے ۔ صحف ابی بکر﷜  تو مروان کے دور تک موجود رہے  ۔

سوال :  کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت  عثمانؓ کے رسم  الخط پر  انتظامی طور پر اجماع  ہوگیا تھا  اور   اسلامی حکومت  کسی مسئلے پر  لوگوں کو پابند کردے تو آج بھی انتظامی طور اس رسم کا پابند کیا جا سکتا ہے؟

جواب :میں اجماع کا لفظ اس لیے استعمال نہیں کرتا  کہ اجماع کی جو تعریفیں  آج کل معروف  ہیں ،  سلف صالحین  سے مختلف  ہیں۔مثلاً  امام بخاری﷫ کے نزدیک   علماء یا عوام کا اکٹھ اجماع نہیں ہے جس کو ہم اجماع کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل﷫ وغیرہ  بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ امام بخاری﷫ نے اجماع کی دلیل یہ  دی ہے :

«لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من نَاوأَهم[7]»

’’میری امت میں ہمیشہ ایسے لوگ رہیں گے جو حق پر مضبوطی سے قائم رہ کر دشمنوں پر حجت بنیں گے‘‘

  دراصل    اجماع کا   مقصد  لوگوں پر حجت قائم کرنا  ہے خواہ حجت قائم کرنے والا ایک ہی آدمی  ہو یا   ایک  گروہ ہو۔ اس لیے متقدمین سلف  اور متاخرین(علماء او رعوام ) کے تصور اجماع میں بڑا   فرق ہے۔ نیز  امام شافعی نے اپنے رسالہ کے اندر اجماع صرف اصولی چیزوں   میں حجت  قرار دیا ہے، فروعات میں نہیں  ۔

اس لیے اجماع کی بجائے یہ کہیے کہ حضرت عثمان﷜نے سرکاری سطح پر اس کا اہتمام کیا تھا ۔ ایسی مثالیں  اور بھی پائی جاتی ہیں مثلاً  حضرت عثمان﷜نے جمعہ کی دو اذانوں کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلےایک آذان  ہوتی  تھی۔  امام بخاری﷫ دوسری اذان کی جو روایت لائے ہیں اس کے آخر پر الفاظ ہیں؛ وثبت الامر علی ذلکیعنی اس کے بعد لوگ اسی معمول پر چل پڑے۔حضرت عمر﷜نے اکٹھی تین طلاقیں دینے پر انسدادی کاروائی کے طور پر  سخت رویہ اپنایا   تو لوگوں نے اسی   کو اختیار کرلیا حالانکہ آپ نے اسے شرع قرار  نہیں دیا تھا۔ آپ نے صرف رجوع سے روکا تھا طلاقِ ثلاثہ کو شرع قرار نہیں دیا تھا ۔ اس کے برعکس آپ نے  ایک مرتبہ زیادہ مہر دینےسے منع کیا تو ایک عورت نے ٹوکتے ہوئے  کہا آپ اس سے کیسے منع کرسکتے ہیں  ؟جبکہ قرآن مجید میں  ہے:﴿ وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا﴾ [النساء: 20] ’’اگر تم نے عورت کو بطور مہر خزانہ دیا ہو تو وہ واپس نہ لو‘‘۔ اس کا   مفہوم  یہ ہے کہ مہر بہت زیادہ باندھنا    جائز ہے،  حرام  نہیں ۔  

خلیفہ راشد کا معنیٰ   یہ  ہے کہ اس نے رسول اللہﷺکے طریقے پر حکومت کی ہے، یہی اسلامی  نظام حکومت   کا ماڈل  ہے،خلیفہ  کا شرعی جزئیات میں دخل نہیں ہوتا۔ اگر خلیفہ راشد کو شرعی جزئیات میں دخل کی اجازت ہوتی تو وہ عورت حضرت عمر﷜کو کبھی نہ ٹوکتی۔ علاوہ ازیں خلیفہ راشد کا امتیاز نظام ِ حکومت ہوتا ہے خواہ صحابی ہو یا تابعی، اسی طرح امام مہدی   بھی خلیفہ راشد ہو ں گے ۔  

حضرت عثمان﷜ کا رسم الخط بڑا مبارک ہے کہ تاریخی اعتبار سے حکومتی سطح پر اجل صحابہ کا   تیار کردہ ہے۔  اسی طرح تدوین  حدیث بھی بہت مبارک  کام ہے جو عمر بن عبد العزیز ﷫نے امام  زہری ﷫وغیرہ سے  کروایا ہے اور اس کی برکتیں اپنی جگہ ہیں،لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایسی چیزکو  شرعی طور پر واجب قرار دے جسے رسول اللہﷺ نے واجب نہیں کیا۔  اگر رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی شخص کسی جائز  کام کو شرعاً  واجب قرار دیتا ہے تو  وہ بدعت بن جائے گی ۔ اور  مصلحت مرسلہ اور  بدعت  کا یہی فرق ہے۔ مصلحت مرسلہ وہ ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے نہ تو   اسے  کیا  ہو اور نہ اسے لغو قرار دیا ہو     جیسے تدوین قرآن ہے۔   کل  قرآن  کو تحریر ی طور پر  رسول اللہ ﷺ  نے جمع  نہیں کیا ، بعد میں حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے یہ کام کیا  لیکن یہ مصلحت مرسلہ (مقاصد شریعت) کے تحت ہوا ہے ۔جبکہ  بدعت اس کام کو کہتے ہیں  جو مقاصد شریعت کے خلاف ہو۔ جیسے آج کل بعض لوگ  نظام ِزکوٰۃ کے بجائے  ٹیکس لینے کو مصلحت مرسلہ کے نام پر جائز قرار دے رہے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر  ٹیکس کی شدید  مذمت کی ہے۔

سوال: فقہاء کے ’اجتہادات‘  اور قراء کے ’اختیارات‘ میں کیا فرق ہے؟

جواب:جیسا کہ میں  نےپہلے واضح کردیا ہے کہ  اختیار کا مسئلہ قراءات میں ہوتا ہے  کہ  متنوع  قراءات سے ایک ایک چیز لے  کر ایک نئی قراءت بنا لی  جائے ۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سبعہ احرف کے تنوع کی اجازت دی تھی اس لیے اب سبعہ احرف خلط ملط ہو چکے ہیں۔ اس کےعلاوہ قراء نے تلاوت میں نئے نئے انداز  اختیار کیے ہیں ، یہ اختیار ہر آدمی کو نہیں، صرف  بڑے عالم  اور ماہر قراء ہی  کو  حاصل ہے۔ لیکن فقہ میں ایسا نہیں ہوتا ۔  فقہ میں اجتہاد  ایک مخصوص معاملے میں شرعی رائے ہوتی ہے۔اگر بعد میں کسی وقت اس معاملے میں تبدیلی ہو جائے  تو اس کے متعلق جو اجتہاد کیا گیا تھا، وہ بھی  بدل جائے گا۔ جبکہ قرآن مجید میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اجتہاد در حقیقت  استنباط واستدلال ہوتا ہے، جب کہ قراءات استنباط نہیں ہوتیں، وہ  سبعہ احرف کے خلط ملط سے   عالم قراء کا چناؤ ہوتا ہے ۔

سوال: کتب احادیث میں سبعہ احرف کی روایات ہیں  جبکہ موجودہ  قراءات قراء کے  اختیار کا نتیجہ ہے اور  ہم سبعہ احرف  جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، کے پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے، جبکہ قراء کے اختیارات سے ترتیب پانے والی قراءات پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہے ؟

جواب :  سبعہ احرف  کو خلط ملط کرنے اور قراءات  کا جواز سنت سے ثابت ہے۔ تو جب  رسول اللہﷺ کی اجازت سے یہ خلط ملط ہوا ہے تو یہ جائز ہوگیا ، جس طرح رسول اللہﷺ اگر فقہی اجتہاد کے تحت دو کاموں کی اجازت دے دیں تو دونو ں کام جائز ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر بنو قریظہ میں عصر کی نماز پڑھنے کا مسئلہ ۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچ کر نماز عصر پڑھنے کا حکم دیا ، لیکن صحابہ میں سے بعض نے ان الفاظ پر من و عن عمل کیا جبکہ بعض نے رستے میں نماز عصر پڑھ لی تھی۔ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی تو آپ نے دونوں کے عمل  کو جائز قرار دیا ۔اسی طرح  جب  قراءات کا تنوّع  رسول اللہ ﷺ کی اجازت ہے  تو ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں ، جبکہ  وہ معیاری احادیث سے بھی  ثابت ہو ۔

سوال :بخاری میں ایک  قراءت  آ گئی ، لیکن قولی تواتر اسے حاصل نہ ہو سکا تو کیا  ہم  یہ کہہ سکتے ہیں  کہ امت نے اس  قراءت  کو ردّ کر دیا ہے؟

جواب :امت معتبر  روایت کو ردّ نہیں کر سکتی،  ہاں ایسی احادیث پر عوام کے اندر  مصلحتاً  عمل نہ کریں ۔ تلقی بالقبول والی خبر واحد  ثبوت کے اعتبار سے ’علم ِ یقین ‘    کا فائدہ دیتی ہے۔  جب علم کا فائدہ دیتی ہے تو اس میں جو حکم ہو گا، اگروہ واجب ہو گا تو وہ واجب ہی  رہے گا اور مباح ہو گا  تو وہ مباح ہی  رہے گا۔ متنوّع  قراءات  مباح کی قسم سے ہیں ،یہ  واجب نہیں ہوتیں ۔   چونکہ   سبعہ احرف میں اختیارات کی بحث نہیں تھی، وہ بعد میں پیدا ہوئی ہے ، لہذا  اب جو حرف  معیاری حدیث میں آئے گا ہم اس کا انکار نہیں کرسکتے ، لیکن جو چیز تواتر سے ثابت نہیں ہے اس کی تلاوت نماز با جماعت  میں اور عوام کے سامنے نہ کی جائے ، ہاں تعلیم و تعلم کے لیے   جائز ہے۔

سوال: قراء کا تخصص تلاوت واداء کی مہارت ہے جبکہ تحقیق و فتویٰ میں فقہائے محدثین کا   مقام ہے؟

جواب: جی بالکل! اور اس کی وجہ یہ ہےکہ  فتویٰ کتاب وسنت سے استدلال کا نام ہے۔ جن قراءات سے فقہی مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے تو یہ فقہائے محدثین   کرتے ہیں۔چونکہ عام  قاریوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ان میں اس کی مہارت بھی نہیں ہوتی۔  البتہ تلاوت واداء ’قراء حضرات ‘   کا میدان ہے ، وہ اس میدان کے شہ سوار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا تلاوت واداء کے معاملے میں ماہر قراء پر اور فتویٰ و اجتہاد کے مسئلہ میں فقہا پر اعتماد کیا جائے۔واضح رہے کہ قراءات کلام الہی ہیں جبکہ فقہاء کے فتوے غیر معصوم کا اجتہاد ہوتے ہیں،اس علمی فرق کو دیکھیں تو ہر معتبر قراءت پر ایمان لانا ضروری ہے جبکہ کسی خاص فقیہ کی تقلیدِ مطلق، حرام ہے ۔

سوال: قراءت شاذہ کامقام کیا ہے؟

  جواب: رسم عثمانی کے مطابق ہو، عربی گرامر کے اعتبار سے درست ہو، اور  تواتر سے ثابت ہو۔ یہ شروط عام قراءات  کی  بنیاد بن گئی ہیں،  جس قراءت میں ان میں سے  کوئی ایک  شرط نہ پائی جائے تو و ہ شاذہ ہے۔قراءات کے لیے تواتر کی  شرط لگائی گئی  ہے تا کہ عوام کے اندر یہ کھیل نہ بن جائے۔سبعہ احرف کے ثبوت کے لیے یہ شروط  بنیاد نہیں ہیں، اس لیے  سبعہ احرف کو قراءت  شاذہ نہیں کہتے ۔  البتہ میں سمجھتا ہوں کہ  سبعہ احرف کی تلاوت کے لیے بھی کسی ملک میں رواج ہونے اور نہ ہونے  کی اہمیت ہے تا کہ بے علم فتنہ کا شکار نہ ہوں۔ اسی مصلحت کی مثال کعبہ میں ’حطیم ‘  کے بغیر  عمارت ہے جسے فتنہ کے خوف سے آج بھی مکمل نہیں کیا جا رہا۔

 

[1]      اسی شمارہ میں شرح  کتاب التوحید (صحیح  بخاری )   کی قسط نمبر 4 میں یہ  مختصر بحث ملاحظہ فرمائیں  ۔

[2]      مصالح کی تقسیم اور مصلحتِ مرسلہ  کی بحث فنِ اصول کا مسئلہ ہے جس کا محل اصول کی کتابیں ہیں، اصول کی عام کتابوں میں مصلحت مرسلہ کی بڑی مثال یہی تدوینِ قرآن ہی دی جاتی ہے۔

[3]       واضح رہے کہ قراء حضرات’ قراءت ‘ اصطلاحا امام کی نقل کو کہتے ہیں جبکہ اس کے شاگردوں کی نقل کو ’روایت‘ اور ان کے شاگردوں کی نقل کو’ طریق‘  کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ان سب کے لیے قراءت کا مبہم لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

[4]      اندازِ تلاوت کے فرق سے ائمہ نے جو عشرہ  صغری اور کبری کے سیٹ بنائے ہیں ۔ ان کو قراء ’تحریرات ‘ کہتے ہیں اور یہ  تحریرات ہزاروں ہیں۔ دوسری طرف ’سبعہ احرف ‘ اللہ کی طرف سے نازل شدہ اور نبی ﷺ کے جبرئیل﷤کے ساتھ سالانہ دور میں شامل  الگ سے ہیں۔

[5]     صحیح  بخاری:4992

[6]      رپورٹ مذاکرہ مطبوعہ محدث شمارہ 391   ملاحظہ فرمائیں۔   

[7]     صحیح مسلم :4956