شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)

 شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) 

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالٰى: ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ۰۰۵۸﴾ [الذاريات ]

باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” میں بہت روزی دینے والا ‘ زوردار مضبوط ہوں۔ “

امام  ابن بطال ﷫فرماتے ہیں کہ یہ  باب اللہ تعالیٰ کی دو صفات پر مشتمل ہے ۔ ایک صفت ذاتی ہے جبکہ  دوسری فعلی ہے ۔ رزق دینا اللہ تعالیٰ کے افعال میں سے ایک فعل ہے ، اور یہ فعلی صفت ہے ۔ اور  رزّاق ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ   رزق اس  کی طاقت میں   بھی ہو ۔۔۔اس لیے   ذوالقوة ذاتی صفات میں سے ہے اور اس کا معنی شدید  قدرت والا ہے ۔پس    اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے  طاقت والا ہے اور قدرت رکھنے  والا ہے ۔   اور متین کے معنی مضبوط کے ہیں اس لئے رزق اسکے لئے نہایت آسان ہے   ۔[1]

صحیح بخاری میں  قراءات  کا  تنوع

صحیح بخاری میں مروی   قراءات  کا   محض سبعہ احرف کے تنوع میں سے ہونا کافی ہے خواہ  یہ قراءات ہزاروں مروجہ وجوہ قراءات کے علاوہ ہوں [2]۔  امام بخاری﷫   ترجمۃ الباب میں حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜  کی قراءت  ﴿ إِنِّي أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتِينُ﴾ لائے ہیں، جیساکہ صحیح بخاری کے  سارے قدیم نسخوں میں ہے۔ اردو شروحات میں سے صرف مولانا وحید الزمان ﷫کے ہاں  ترجمۃ الباب درست ہے ۔ البتہ جدید نشریاتی اداروں نے کتاب تیار کرتے ہوئے ہر جگہ پر مصحف مدینہ (جو قراءت حفص  پر تیار کیاگیا ہے)سےآیت  کو کاپی پیسٹ کیا ہے، قطع نظر اس بات کے کہ امام بخاری ﷫نے کس جگہ پر کونسی قراءت لی ہے  ؟اس طرح انہوں نے امام بخاری ﷫کی اختیار کردہ قراءت کو چھوڑ کر ہر جگہ روایت  حفص لگا دی ہے۔

طباعتی اداروں نے یہی زیادتی علامہ  شوکانی ﷫کی تفسیر’’ فتح القدیر فی معرفة الرواية والدراية‘‘ کے ساتھ بھی  کی  ہے ۔ علامہ  شوکانی  ﷫نے مستقل طور پر  اپنی  تفسیر میں امام نافع  ﷫کی قراءت   اختیار کی  ہے ، لیکن آج کل جو تفاسیر چھپ رہی ہیں،   ان  میں ناشرین نے مصحف مدینہ سے کاپی کر کے     روایت  ِحفص لگادی ہے جو درست نہیں  ہے ۔سبعہ احرف  اور وجوہ قراءت میں فرق ہے اور  سبعہ احرف درجہ میں سب برابر ہیں اس لئے کسی قراءت کوکم  اہمیت  دینا زیادتی ہےلہذا مطبوعہ تفاسیر یا کتب احادیث    میں  قراءت  کو تبدیل کرنا   مناسب نہیں ہے ۔

ادارہ ہذا نے مجلہ رشد کے متنوّع قراءات  پر چھ خاص شمارے  شائع کیے ہیں ، اور انہی میں سے خاص نمبر 3  میں اسی موضوع پر باقاعدہ ایک تحقیقی مضمون   موجود  ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ  صحیح بخاری کے 183 مقامات پر قراءت   میں تبدیلی  کی گئی ہے کہ امام بخاری کی بیان کی گئی قراءت کی بجائے مروجہ  روایت حفص کو صحیح بخاری میں کاپی پیسٹ کر دیا گیا ہے۔  اور  یہ علمی طور درست طرز عمل نہیں ہے لہذا پبلشرز کو  اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

7378 - حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ، يَدَّعُونَ لَهُ الوَلَدَ، ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ».[3] 

’’ ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمزہ نے ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے ‘ ان سے ابو عبد الرحمن سلمی نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ﷜نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا    کہ تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے ، اس کے باوجود وہ انہیں  عافیت   دیتا ہے اور   رزق  بھی۔‘‘

لطائف الاسناد

ا س حدیث کی سند میں مسلسل تین تابعی ہیں ، اور تینوں کوفہ سے تعلق رکھتے  ہیں ۔ نیز  امام بخاری ﷫اور تابعین کے درمیان صرف دو واسطے ہیں۔  ان  میں ابو حمزہ سے مراد ابو حمزہ السُکری ﷫ہیں ۔ السکری کا معنی میٹھے والا ، ان کا یہ نام کھانڈ یا میٹھا بیچنے کی وجہ سے نہیں تھا ، بلکہ ان  کا  کلام   شکر  کی طرح میٹھا تھا اس وجہ سے ان کا نام السکری یعنی میٹھا بولنے والا پڑ گیا ۔  دوسرے سلیمان الاعمش ﷫ہیں جو بیک وقت امام المقرئین و المحدثین تھے ۔

شرح الحدیث

امام بخاری  ﷫نے اس باب میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا اثبات کیا ہے ، ایک اللہ تعالیٰ کا رازق یا رزاق ہونا ، اور دوسرا مضبوط اور  طاقتور ہونا ۔ اللہ تعالیٰ کے صاحب قوت اور  مضبوط ہونےکے بہت سارے دلائل قرآن مجید میں موجود ہیں :مثلاً سورۃ النجم   میں  ﴿عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى ۙ۰۰۵ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ۙ۰۰۶وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ؕ۰۰۷﴾[النجم: 5 - 7]  میں سیّدنا ابن عباس ﷜کی تفسیر کے مطابق یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہاں حضرت جبرئیل﷤ نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی صفات کا بیان ہے ۔ اس  تفسیر کی تائیددیگر آیات  بھی کر رہی ہیں  جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے؛

﴿يَوْمَ نَطْوِي السَّمَآءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ وَعْدًا عَلَيْنَا اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ۰۰۱۰۴﴾ [الأنبياء: 104]

’’ اس دن ہم آسمان کو یوں  لپیٹ دیں گے جیسے تحریروں  کا طومار  بنا  دیا جاتا ہے ۔ جس طرح ہم نے  تمہاری تخلیق کی ابتدا کی تھی، اسی طرح اس کا اعادہ کریں گے ۔ یہ ہمارے ذمہ ایک وعدہ ہے اور ہم یہ کرکےرہیں گے ۔‘‘

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ وَ الْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۶۷﴾ [الزمر: 67]

’’ اور ان  لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیساکہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے ۔ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے   ہوں گے اور وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے جو یہ لوگ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘

یہی بات حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللہَ يَقْبِضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الأَرَضَ، وَتَكُونُ السَّمَوَاتُ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ[4].

"سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمینوں  کو اپنی مٹھی میں لے لے  گا جبکہ آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور  پھر کہے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔“

طاقت کی اصل علامت : صبر اور برداشت  ہے

طاقت کی اصل علامت قوتِ برداشت ہوتی ہے جیساکہ حدیث میں ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ»[5]

’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پہلوان وہ نہیں جو کشتی کرتے وقت دوسرے کو بہت زیادہ پچھاڑنے والا ہو  بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں خود کو کنٹرول میں رکھے۔“

اللہ تعالیٰ چونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہے ، اس لیے اس میں سب سے زیادہ  برداشت بھی ہے ، کیونکہ  بندوں سے نہایت  ناپسندیدہ بات سن کر بھی نہ صرف برداشت کرتا ہے بلکہ  ان کو رزق دیتا رہتا ہے ،ان کی  ضروریات زندگی بند نہیں کرتا ہے ،اسی طرح گناہ گار کے لیے موت تک توبہ کا دروازہ   کھلا رکھتا ہے  ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی صفت صبر پر روشنی پڑتی ہے ۔ جیساکہ حضرت عیسیٰ ﷤  کی دعا میں ہے :

﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۱۱۸﴾ [المائدة: 118]

’’ اگر تو انہیں  سزا دے تو وہ  تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں معاف  کر دے تو بلا شبہ تو  غالب  دانا ہے۔‘‘

اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ بات:  اللہ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا

اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے،قرآن مجید نے اسے  شرک اکبر  قرار دیا ہے۔

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ۰۰۸۸ لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّاۙ۰۰۸۹تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙ۰۰۹۰اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاۚ۰۰۹۱وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ۰۰۹۲﴾ [مريم: 88 - 92]

’’اور بعض لوگوں نے کہا  کہ رحمٰن کی اولاد ہے ۔یہ تو تم  اتنی بری بات   گھڑ لائے ہو کہ جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھڑام سے گر پڑیں ، اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا حالانکہ رحمن کے  شایانِ  شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے ۔‘‘

اگر چہ  انسان کے لیے اولاد بظاہر   شان و شوکت کی علامت ہےجیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِيْنَ ﴾ [آل عمران: 14]

’’ لوگوں  کے لیے  خواہشات نفس   کے تحت   عورتوں  اور  بیٹوں کی محبت    کو دلفریب بنا دیا گیا  ۔‘‘

لیکن حقیقت میں اولاد کی طلب انسان کے کمزور، بے بس ، فانی اور محتاج  ہونے کی علامت ہے جیساکہ حضرت زکریا ﷤  نے دعا کرتے ہوئے کہا :

﴿وَ زَكَرِيَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَۚۖ۰۰۸۹فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ وَ وَهَبْنَا لَهٗ يَحْيٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ﴾ [الأنبياء: 89، 90]

’’  اور زکریا کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا : اے میرے پروردگار! مجھے تنہا  نہ چھوڑیں اور بہترین  وارث تو آپ ہی ہیں ، سو ان کی بھی ہم نے دعا قبول کی۔ اور انہیں یحییٰ عطا کیا اور ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنادیا۔‘‘

جبکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری ، بےبسی اور احتیاج سے پاک ہے۔  لہذا اللہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے تو گویا  اللہ تعالیٰ کے کمزور اور محتاج ہونے کا دعویٰ کیا   گیا ہے  ۔

رزق سے مراد   کیا ہے ؟

رزق سے مراد  صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں ہوتیں  ، بلکہ رزق سے مراد تمام ضروریات زندگی ہیں ۔جو لوگ عبادت میں غفلت برتتے اور پہلو تہی کرتے ہیں ، رزق اور حاجت روائی کے لیے وہ بھی اپنے سے برتر   ذات   کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ لیکن  عام لوگوں میں  چونکہ توحید کی معرفت نہیں ہوتی ،  اس لیے وہ اَن دیکھے خدا سے مانگنےکی بجائے ظاہر پرستی پر زیادہ  یقین رکھتے ہیں  لہذا یہ لوگ  درباروں  اور مزاروں  اپنی حاجت براری کے لیے جاتے ہیں ۔ ان کی پوجا پاٹ کا اصل مقصد بھی اپنی ضروریات پوری کرنے اور مشکلات سے  نجات کے لیے ان کا تعاون حاصل کرناہوتا  ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہےکہ وہ ہر شخص  کو زندگی گزارنے کے وسائل مہیا کرتا ہے ، اور ہر مضطراور پریشان حال کی نصرت فرماتا ہے، خواہ  وہ اللہ کے سامنےجھکے یا غیر اللہ کے دربار پر سجدہ ریز ہو۔  اگر لوگوں کو  یقین  آجائے  کہ اللہ تعالیٰ نے   ہر شخص کا رزق اپنے ذمہ لیا ہوا  ہے، اور وہ ہر ایک کی خود  مشکل کشائی کرتا ہے،  یعنی  وہ کسی ظاہری وسیلے کا محتاج نہیں ہے،  تو لوگ کبھی بھی مزاروں پرجاکر پوجا پاٹ  نہ کریں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نےانسان کی ضروریات پوری کرنے کےلیے ظاہری اسباب کا ایک نظام بھی قائم کیا ہے۔ جاہل شخص ظاہری اسباب کو خدا سمجھ لیتا ہے ، جبکہ صاحب ایمان  اسباب کے پیچھے مسبب الاسباب کا ہاتھ دیکھتا ہے۔ اس لیے وہ اللہ کےسوا کسی کی عبادت نہیں کرتا  اورغیر اللہ کے سامنے دست دعا دراز نہیں کرتا ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عظیم صبر اور بڑی  برداشت والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ   انسانوں کےبڑے  بڑے گناہوں اور  گستاخیوں کے باوجود  انہیں رزق اور وسائل زندگی مہیا کرتا رہتا  ہے اور گناہوں کےسبب اس میں تعطل نہیں آنے دیتا ۔  

اہم فوائد

  • اللہ تعالیٰ کی صفت فعلی رازق یا رزاق ثابت ہے ، اور یہ ایسی صفت ہے جو اللہ کی ذات کےساتھ خاص ہے ۔
  • اللہ تعالیٰ کی صفت قوتِ    برادشت بھی ثابت  ہے ۔

رزق سے مراد محض کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ ملائکہ اور انس و جن وغیرہ تمام مخلوق  کی  زندگی گزارنے کے تمام وسائل رزق   ہیں ۔

 

[1]      فتح الباری :14/307،308   

[2]    اس کے لئے مدنی صاحب کا انٹریو  از ڈاکٹر حافظ زبیر تیمی پڑھیں جو اسی شمارہ میں موجود ہے ۔ادارہ

[3]      راجع :6099

[4]      صحيح البخاری :7412

[5]       صحيح البخاری:6114