ہماری موجودہ قومی   زبوں حالی ۔۔ وجوہات  اور حل

ہماری موجودہ قومی   زبوں حالی ۔۔ وجوہات  اور حل

آج کل وطن عزیز اپنی  76 سالہ عمر کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہا ہے لیکن   پاکستانی قوم اور  حکمران طبقہ ہے کہ سنبھلنے کی طرف آ ہی نہیں رہا۔ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کی کرنسی کی صورت حال یہ ہے کہ 85 افغانی  کی ویلیو ایک ڈالر کے برابر ہے حالانکہ افغانستان  چالیس برس سے مسلسل اندورنی و بیورنی  جنگ میں ہےجبکہ پاکستان میں ایک ڈالر اوپن مارکیٹ میں 300 روپے سے بھی اوپر چلا  گیا ہے۔ دوسرا  پڑوسی ملک چاند پر اپنا  مشن بھیج کر خلاء کی تسخیر کے مواقع پیدا کر رہا ہے جبکہ  تیسرا ہمسایہ ملک روڈ اکنامک بیلٹ کے ذریعے وسط ایشیا اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔   اور ہم بحیثیت قوم ابھی یہی طے نہیں کر سکے کہ ہمیں نیا پاکستان بنانا ہے یا پرانے پر ہی اکتفا کرنا ہے۔کلرک سے لے کر وزیر اعظم تک سب پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ کرپشن ایک ناسور کی طرح پوری  قوم کے جسم میں سرایت کر چکی ہے۔ کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ حقوق لینے کے لیے سب انجمنیں بنا رہے ہیں۔  ہماری قومی اور معاشرتی صورت حال ابھی حال ہی میں پیش آنے والے چند ایک حادثات پر   ہمارے رد عمل سے واضح ہوجاتی ہے ۔

ٹرین حادثہ

مبینہ ذرائع کے مطابق،  06 اگست 2023ء بروز اتوار  ، صوبہ سندھ میں  نواب شاہ کے قریب ،  کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی انیس میں  سے دس بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور ٹرین حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس المناک حادثے میں 30 مسافر جاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔  حادثے کا سنتے ہیں مقامی افراد نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو اپنے رکشوں، ریڑھیوں اور گدھا گاڑیوں پر ڈال کر مقامی ہسپتال پہنچایا۔

 ڈان اخبار  کی رپورٹ کے مطابق ریلوے کی چھ رکنی کمیٹی نے جانچ پڑتال کے بعد حادثے کی وجہ ریل ٹریک کے ٹوٹنے اور فش پلیٹس کے غائب ہونے کو قرار دیا۔ جائے حادثہ سے آگے بھی پٹڑی پر سے لوہے کی فش پلیٹس اور لکڑی کے ٹرمینل جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے تھے۔  حادثے کی دوسری وجہ ٹرین کے انجن کی پھسلن کو بھی قرار دیا گیا کہ ٹرین کا انجن سینیئر افسران کی جانب سے بغیر جانچ کے روانہ کر دیا گیا تھا۔تحقیقاتی کمیٹی نے  اس حادثے کی ذمہ داری ریلوے کی مکینیکل اور انجینیئرنگ برانچ پر ڈالی ہے ، لیکن وہ دونوں شعبہ جات نے حادثے کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہیں بلکہ ہر شعبہ  حادثے کی ذمہ داری  دوسرے پر ڈال  رہا ہے ۔  فی الحال کسی عہدیدار کے خلاف تادیبی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ صرف ریلوے ہی نہیں تقریباً ہر سرکاری محکمے کی یہی صورت حال  بن چکی ہے کہ وہاں حادثات پر حادثات ہو رہے ہیں، قوم کے سپوت مررہے ہیں ، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو کر بے سہارا ہورہے ہیں  لیکن ذمہ داری لینے کو  کوئی بھی تیار  نہیں ہے۔  ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم ہے۔ رشوت اور کرپشن عام ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے الا ما شاء اللہ۔

خود کش دھماکہ

مبینہ  ذرائع کے مطابق، 30 جولائی 2023ء بروز اتوار،  صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل خار  میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن میں خود کش دھماکہ ہوا کہ جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ پہلے اس قسم کے دھماکوں کا الزام مذہبی طبقات پر دھر دیا جاتا تھا لیکن اب تو وہ خود اس ظلم کا شکار ہیں۔ واللہ اعلم اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔  افغانستان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئیٹ کیا کہ امارت اسلامیہ خیبر پختونخوا باجوڑ ایجنسی کے دھماکے کی مذمت کرتی ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ایسے جرائم کسی طور بھی جائز نہیں ہیں۔

اس سے وطن عزیز کی سیکورٹی کا اندازہ لگا ئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ ذہین اور قابل افراد اپنے ملک کی خدمت کی بجائے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں کہ یہاں ہماری جان مال محفوظ نہیں ہے۔ چہار سو مذہبی، لسانی، سیاسی، صوبائی، علاقائی اور نسلی شدت پسندی کا دور دورا ہے۔ کوئی کسی کو سمجھنے اور اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ برداشت کا ماحول مفقود ہے۔ سب اپنی رائے دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کے در پے ہیں۔شدت پسندوں سے آپ کی جان، مال اور عزت وآبرو  بچ بھی جائے تو گھر سے باہر نکلنے پر چور اچکے ہر سڑک پر آپ کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ شاید ہی آپ کے ارد گرد کوئی ایسا شخص ہو کہ جس کے ساتھ موبائل یا والٹ  چھینے جانے کا واقعہ نہ پیش آ چکا  ہو۔

عوام کے حقیقی  مسائل

مبینہ ذرائع کے مطابق، 04 اگست 2023ء کو،  فیصل آباد میں خواتین کے کپڑوں کے معروف برانڈ سفائر کی طرف سے سستے لان کی سیل کے موقع پر خواتین میں لڑائی نے اسٹور کو میدان جنگ میں بدل دیا۔باہمی تکرار سے شروع ہونے والی گفتگو پہلے گالم گلوچ میں بدلی اور پھر  لاتوں، مکوں، گھونسوں اور جوتوں  میں تبدیل ہو  گئی۔ خواتین کی دیکھا دیکھی ان کے مرد رشتہ دار بھی میدان میں کود پڑے اور ایک مرد نے تو باقاعدہ پستول بھی نکال لی اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔خواتین ایک دوسرے کے بال نوچتی رہیں کہ جس کے نتیجے میں  چار خواتین زخمی بھی ہوئیں۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر مجمعے کو منتشر کیا جبکہ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔ پولیس کی طرف سے چھ نامزد اور دس نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ دائر کر لیا گیا۔

ایک طرف سرکار کی صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ کوئی سرکاری ملازم اپنے فرائض صحیح طور ادا کرنے کو تیار نہیں اور سب قوم کا پیسہ کھائی جا رہے ہیں۔ دوسری طرف سیکورٹی کے مسائل یہ ہیں کہ آپ کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ ہر طرف چور اچکے اور لٹیرے جگہ جگہ  لوٹنے کو تیار  بیٹھے ہیں۔ اور عوام الناس میں سے  بہترین کلاس یعنی اشرافیہ کےمسائل دیکھیں کہ وہ کیا ہیں۔ ان کے مسائل یہ نہیں ہیں کہ معاشرے کا اخلاقی معیار کیسے بہتر کرناہے؟ قوم کو معاشی ترقی کی راہ پر کیسے لگانا ہے؟ ملت اسلامیہ کو دین اسلام پر عمل کرنے پر  کیسے آمادہ کرنا ہے؟ ان کے مسائل صرف یہ ہیں کہ سستی لان کے سیل کے موقع پر وہ کپڑا کیسے زور زبردستی سے خریدنا ہے کہ جس پر دوسرے نے ہاتھ رکھ لیا ہو۔ سرکاری محکموں اور عوام الناس کی اخلاقی صورت حال  یکساں طور پر  ابتر ہو چکی   ہے۔ کرپشن اور امن و آمان کی مخدوش صورتحال  ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، ان دو مسائل کو حل کیے بغیر ترقی  کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن عملاً ترقی کرنا ممکن نہیں ہے ۔اور افسوس  ان حالات میں حالات سدھرنے کی کوئی روشنی کی کرن اور امید نظر نہیں آ رہی۔

اللہ عزوجل ہی ہماری  قوم کو ہدایت نصیب فرمائے۔ اور یہ  اسی صورت ممکن ہے کہ جب ہم سب بحیثیت قوم اللہ عزوجل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔کبیرہ گناہوں کو ترک کر کے اپنے  ایمان کی تجدید کریں۔  کرپشن کے ناسور اور رشوت کی لعنت پر کڑی سزائیں نافذ کریں۔ سرکاری محکموں میں موجود نااہل سرکاری افسران کے خلاف  فوری تادیبی کاروائی کریں۔ صادق اور امین قیادت کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں جگہ دیں۔ مسلکی، سیاسی، لسانی اور علاقائی عصبیتوں سے بالاتر ہو کر خالص اسلام کی بنیاد پر ایک ملت ہو کر سوچیں۔  تبہی بحیثیت قوم  دنیا  میں ترقی اور آخرت میں کامیابی  کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

پہلے نواز شریف اور اب عمران خان کے خلاف عدالتی فیصلہ

2017ء میں جب پانامہ کیس میں نواز شریف صاحب کے خلاف ان کی نا اہلی کا فیصلہ آیا تھا اور وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے تو ہم نے اس وقت بھی اس فیصلے کی مخالفت کی تھی کہ یہ انتقامی سیاست ہے اگرچہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے اس عدالتی فیصلے پر بہت قصیدے پڑھے تھے۔

اور اب جبکہ فروری 2024ء میں عمران خان صاحب کے خلاف توشہ خانہ کیس میں پہلے ان کی نا اہلی کا فیصلہ آیا، پھر سائفر کیس میں چودہ سال کی سزا کا فیصلہ ہوا  اور اب شاید آج بشری بی بی نکاح کیس میں بھی کوئی فیصلہ ہونے جا رہا ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ سب سیاسی جماعتیں میچورٹی کا مظاہرہ کریں اور انتقامی سیاست سے گریز کریں۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان دونوں سے  کرپشن نہیں ہوئی۔ کرپشن میں یقینا سب ملوث ہیں، کچھ تھوڑا اور کچھ زیادہ۔ لیکن سزائیں میرٹ پر ہونی چاہییں اور پھر سب کو ہوں۔ قانون اور ضابطے کے مطابق ہوں۔ کوئی تھرڈ پارٹی فیصلہ نہ کرے کہ کس کو  اور کب، اور کیسے سزا دینی ہے۔ عدالتیں آزادی سے فیصلہ کریں، استعمال ہو کر کھلونا نہ بنیں۔

اس وقت تک کی صورت حال تو یہی ہے کہ محلے میں دو لڑکوں کی لڑائی ہو جاتی ہے۔ ایک لڑکا کسی تیسرے  بد معاش کا سہارا لے کر دوسرے کی پٹائی کرواتا ہے۔ پھر دوسرے کو سمجھ میں آتا ہے تو وہ اسی بد معاش سے ساز باز کر کے اسے اپنے ساتھ ملاتا ہے اور پہلے کی پٹائی کروا دیتا ہے۔ کب تک یہ دونوں تیسرے کے بل بوتے پر لڑتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو پچھاڑتے رہیں گے۔ اس گندی سیاست میں سب کے کپڑے اتر چکے ہیں۔ ہم تو صرف اتنا عرض کر رہے ہیں کہ بھئی نیکر اور بنیان ہی پہن لو، بھلے کپڑے پہننا تمہارے نصیب میں نہ ہو۔ یہاں سب اندھے نہیں ہیں۔ کچھ بینا بھی موجود ہیں کہ جنہیں بادشاہ ننگا نظر آ رہا ہے۔

 اور اسٹیبلیشمنٹ کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہ ہو گا۔ اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں کٹھ پتلی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس لولی لنگڑی سیاست کو بالکل اپاہج اور معذور نہ کریں کہ سارا سیاسی نظام مفلوج ہی ہو جائے۔

 باقی نظریاتی لوگوں کو صحیح رخ پر نظام کی اصلاح کے لیے محنت جاری رکھنی چاہیے۔ اور وہ یہ ہے کہ پہلے اچھی ذہانت اور بہترین اخلاق پر مبنی افراد سازی کریں، پھر ان افراد کو ایک نظم میں پروئیں اور پھر حکمت کے ساتھ سیاسی جدو جہد کریں۔                                                   (ڈاکٹرحافظ محمد زبیر  )

 

مولانا   ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی کی     علالت

 مدیر اعلیٰ محدث کی مزمن علالت کی بناء پر  ادار ہ کے اساسی ارکان میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں  صحتِ کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ... آمین