نومبر 1974ء

تعارف و تبصرہ کتب

نام کتاب        :                   Motivation for EconomicAchievement in Islam

مؤلّف          :                   مظفر حسین 

صفحات          :                   ۲۰ x ۲۶ /۸، ۵۰ صفحات

قیمت :                   ساڑھے تین روپے

ملنے کا پتہ        :                   آل پاکستان ایجوکیشن کانگرس۔ ۷ فرینڈز کالونی ملتان روڈ لاہور

جناب مظفر حسین ان جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں سے ہیں جو اسلام کی تجدید و احیاء کا جذبہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لئے اسلامی تعلیمات کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کا داعیہ رکھتے ہیں۔ اِن دنوں وہ’Philosophy of Agricultural Extention‘کے موضوع پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس موضوع سے متعلق انہوں نے ’اِن سروس ایگریکلچرل انسٹیٹیوٹ سرگودھا‘ میں افسروں کے ریفریشر کورس میں ایک لیکچر دیا۔ یہی لیکچر حک و اضافہ کے بعد Motivation For Economic Achievement in Islam کے نام سے کتابی صورت میں زیرِ نظر ہے۔

بعض مغربی مستشرقین اسلام کی صحیح تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے یہ لکھتے رہے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات معاشی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور مسلمان ان تعلیمات کو اپناتے ہوئے اقتصادی ترقی نہیں کر سکتے۔ اس غلط تصور کی تردید فاضل مؤلف نے دلنشیں انداز میں کی ہے۔ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ اسلام ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والوں کا دین نہیں بلکہ وہ تو اپنے ماننے والوں میں محنت کی لگن، دیانت داری اور پیشہ ورانہ مہارت پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔ البتہ ایسے تمام ذرائع معاش کو ممنوع قرار دیتا ہے جو معاشرے کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ محنت کے استحصال، سود اور جوا وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے۔

فاضل مقالہ نگار نے اپنے نقطۂ نظر کی حمایت میں بعض مغربی مفکرین اور علامہ اقبال کے اقوال و اشعار سے استفادہ کیا ہے۔ اسلوب بیان دلکش اور مؤثر ہے۔ کتاب کا ٹائٹل پیچ (Title Page) جاذبِ نظر اور فکر انگیز ہے۔

اگرچہ مقالہ میں قرآنی آیات اور احادیث کی تخریج کی ہے مگر اس سلسلے میں مزید احتیاط برتنی چاہئے۔ ’الفقر فخری‘ معروف قول کو حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  قرار دیا گیا ہے (ص۲۴) جو درست نہیں۔ اس سلسلے میں مزید توجہ کی ضرورت ہے۔

(۲)

نام کتاب        :                   لغات القرآن (پہلا پارہ) 

مؤلّف          :                   عزیز احمد

صفحات          :                   ۲۰ x ۳۰ / ۸، ۱۱۷صفحات

قیمت :                   آٹھ روپے پچاس پیسے

ملنے کا پتہ        :                   مسلم اکادمی۔ ۱۸/۲۹ محمد نگر لاہور

علامہ اقبال رحمہ اللہ  نے کہا تھا                   ؎

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر            اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

بلاشبہ ہماری خواری و زبوں حالی کے اسباب میں سرِ فہرست قرآن سے بے اعتنائی ہے۔ ہماری آبادی کا زیادہ حصہ یا تو قرآن کریم پڑھتا نہیں اور اگر پڑھتا ہے تو اس کے مفہوم سے نا آشنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا ہر فرد قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ ہو۔ اس مقصد کے لئے جتنی بھی کوشش کی جائے قابلِ قدر ہے۔

’لغات القرآن‘ کے مؤلف جناب عزیز احمد صاحب بچپن میں ناظرہ قرآن کریم تک نہ پڑھ سکے مگر جب قرآن فہمی کی لگن پیدا ہوئی تو علامہ عبد اللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمہ سے استفادہ کرنے لگے اور آخر اس لگن میں پچاس سال کی عمر میں قرآن کریم پڑھا اور آج ان کی لگن اس درجہ میں ہے کہ وہ خود ہی نہیں اوروں کو بھی اس سعادت میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔

جناب عزیز احمد صاحب نے مطالبِ قرآن کی تفہیم کے لئے اردو تفاسیر اور قرآنی لغات کا مطالعہ کیا ہے مگر انہیں کوئی ایسا لغت نظر نہیں آیا جو قرآنی آیات کی ترتیبِ تلاوت اور پاروں کے لحاظ  سے مدوّن ہو۔ تاکہ ایک مبتدی قرآن کھولے اور ساتھ ہی لغات سے مفہوم و مطلب پر غور کرتا جائے۔ اسے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیئے ہوئے لغات کی ورق گردانی نہ کرنی پڑے۔ عزیز احمد صاحب نے اس احساس کو ’لغات القرآن‘ کی ترتیب و تسوید شروع کر کے عملی جامہ پہنایا ہے۔

مرتب نے الفاظ کے لغوی معانی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی بھی دیئے ہیں۔ نیز قرآنی الفاظ پر اعراب بھی لگائے ہیں۔ نمونۂ لغات ملاحظہ ہو۔

الارض (زمین): سماء (آسمان) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے۔ اس کے لغوی معنی حرکت اور چکر کھانے کے ہیں۔ زمین چونکہ چکر کھاتی ہے اس مناسبت سے یہ نام رکھا گیا ہے۔ کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کے نیچے کا حصہ مراد لیتے ہیں جس طرح سما کا لفظ اعلیٰ حصہ پر بولا جاتا ہے۔ ص ۳۳

جستہ جستہ مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لغات مبتدی حضرات کے لئے نہایت سود مند ہے اور اس کے ذریعے قرآن کریم کے مفہوم کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

مرتب لغات نے دیباچہ میں مشہور قول ’سیکھو خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑے‘ کو عام غلط فہمی کی بنا پر حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  قرار دیا ہے جو درست نہیں۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کسی قول کو منسوب کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا از حد ضروری ہے۔ محض سنی سنائی باتوں پر اعتماد اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔

(۳)

نام کتاب        :                   مشاہد التوحید 

مؤلّف          :                   ملک  حسن علی جامعی

صفحات          :                   ۴۵۶ صفحات

قیمت :                   دس روپے صرف

ملنے کا پتہ        :                   مکتبہ سلفیہ۔ شیش محل روڈ۔ لاہور

ملک حسن علی جامعی اپنی تالیف ’تعلیمات مجدّدیہ‘ کی بدولت علمی و اسلامی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے زیرِ نظر تالیف میں اسلام کے اصل الاصول ’توحید‘ کو موضوع بحث بنایا ہے ضمناً دائرۂ بحث میں بہت کچھ آگیا ہے۔ مثلاً اسلامی عبادات میں سے نماز پر تفصیلی گفتگو ہے اس سلسلے میں سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص اور معّوذتین کی تفسیر بھی آگئی ہے۔ پھر حج بیت اللہ کے فلسفہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فرستادۂ ’توحید‘ کی تعلیم دیتے رہے اور ہر نبی کی تعلیمات کی اساس و بنیاد توحید  رہی ہے۔ جب کسی قوم میں مشرکانہ رسومات عام ہوئیں اور توحید کی نورانی تعلیم ماند پڑی تو دوسرے نبی نے اس اصل الاصول زندگی کو ابھارا۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم کا مقصود و مطلوب بھی یہی ہے کہ بندے صرف ’اللہ‘ کے ہو جائیں اور بقول مولانا جوہر                  ؎

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے           یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے

آج ہم میں بہت سی مشرکانہ رسومات و بدعات ہیں مگر قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی وجہ سے ’توحید‘ کی تعلیم آج بھی تابندہ و روشن ہے۔ ضرورت ہے ایسے مجاہدوں کی جو قرآن کریم کی تعلیمات کو عام کریں اور بھولے ہوئے مسلمانوں کو پھر سوئے حرم لے چلیں۔

فاضل مؤلّف نے جچے تُلے انداز اور سہل زبان میں اپنا نقطۂ نگاہ واضح کیا ہے۔ ایسی کتابوں کی اشاعت میں ہاتھ بٹانا ’کارِ ثواب‘ ہے۔

(۴)

نام کتاب        :                   پنجاب کی سبزیاں 

مؤلّف          :                   چوہدری الطاف حسین

صفحات          :                   ۲۳۸صفحات

طباعت         :                   عمدہ

قیمت :                   سات روپے

ملنے کا پتہ        :                   شعبہ زرعی مطبوعات (حکومت پنجاب) ۵۰ آریہ نگر (سمن آباد) لاہور 

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد زراعت پر گزر بسر کرتا ہے۔ قومی آمدنی کا تقریباً نصف حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ برآمدات میں زرعی اجناس اور زرعی اشیاء کی مصنوعات سرفہرست ہیں۔ اس لئے ملک کی معاشی ترقی کا انحصار زرعی ترقی پر ہے۔

پاکستان کے کئی ایک معاشی مسائل، قلیل آمدنی، بے روزگاری، زرِ مبادلہ کی کمی اور غذا کی قلت وغیرہ کو حل کرنے میں زراعت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ شعبہ زراعت اس مقصد کے لئے مفید اور معلوماتی لٹریچر شائع کرتا رہتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ’پنجاب کی سبزیاں‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ مؤلف نے سبزیوں کی اہمیت اور جملہ سبزیات پر فنی نقطۂ نظر سے گفتگو کی ہے۔ یعنی ہر سبزی کی اقسام، ان کے لئے زمین کی تیاری، طریقۂ کاشت، آبپاشی، گوڈی، مصنوعی کھاد کے استعمال وغیرہ پر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ کتاب میں ایک کسان کو سبزیوں کی کاشت سے برداشت تک جو مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ ہر ایک

 پر آسان اور عام فہم انداز میں لکھا ہے۔

زرعی شعبہ مطبوعات کی ایسی مفید کتابوں کو عام ہونا چاہئے اور خاص طور پر کسانوں کو ان سے خاطر خواہ استفادہ کرنا چاہئے۔

(۵)

نام کتاب        :                   تاریخ مرزا 

مؤلّف          :                   مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ  

صفحات          :                   ۷۲ صفحات

کتابت و طباعت :                   عمدہ

قیمت :                   دو روپے پچیس پیسے 

ناشر            :                   المکتبۃ السلفیہ۔ شیش محل روڈ، لاہور

مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرت سری نے مرزائیت کا تعاقب اتنا شدید کیا تھا کہ مرزا علیہ ما علیہ خود چلا اٹھا کہ ‘اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔‘ چنانچہ مرزا صاحب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مولانا ثناء اللہ کی زندگی میں اپنے کذب و افتراء پر دلیل بن کر سدھار گئے۔

مولانا امرتسری رحمہ اللہ  نے اس کتاب میں مرزا کی تحریروں سے اس کے مختلف دعاوی دکھائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب آہستہ آہستہ بتدریج دعاوی میں بلند ہوتے گئے اور آخر تک اس میں رد و بدل نہیں کرتا مگر مرزا صاحب ہر لمحے اپنی پیش گوئیوں میں رد و بدل کرتے رہے۔

مولانا امرتسری رحمہ اللہ  کی اس کتاب سے مرزا کی صحیح تاریخ سامنے آجاتی ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ یہ کتاب ہر مسلمان کے ہاتھ میں پہنچ جائے۔ (ابو شاہد)

(۶)

نام کتاب        :                   کتاب الفقہ (اردو) 

مؤلّف          :                   عبد الرحمٰن جزیری

مترجم :                   منظور احسن عباسی

صفحات          :                   ۴۹۳

جزء (جلد)       :                   سوم

قیمت :                   ۴۵ روپے

ناشر            :                   علماء اکیڈمی۔ محکمہ اوقاف پنجاب۔ لاہور

پتہ             :                   شعبۂ مطبوعات۔ محکمہ اوقاف پنجاب۔ لاہور

کتاب و سنت سے ماخوذ مسائل عملیہ اور احکام پر مشتمل علم کا نام ’فقہ‘ ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ رائیں ہو سکتی ہیں اور ہیں اور تا ابد رہیں گی۔

اس سے غرض پیش آمدہ غیر منصوص مسائل اور صورتوں کا حل پیش کرنا اور خلقِ خدا کے لئے اس کو مرتب اور مدون کر کے آسانی مہیا کرنا ہے۔ اس علم سے غرض تخریب نہیں تھی اور نہ ہی کتاب و سنت کے علاوہ لوگوں کے لئے ایسے مرجع خلائق کی تخلیق مقصود تھی جو قرآن و حدیث کے درمیان میں حائل ہو رہیں۔ بہرحال اس سلسلے میں امامانِ دین نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ انتہائی قابلِ قدر ہیں جن کی آنے والی نسلیں تا ابد ممنون رہیں گی۔

جن بزرگوں نے اس بارے میں کام کیا ہے، ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے، اگر ان سب کے افکار پر مبنی حلقے بن جاتے تو جتنے انسان ہوتے اتنے فقہی مذاہب تشکیل پا جاتے۔ جو ملت اسلامیہ کی ملی وحدت کے لئے انتہائی فالِ بد ثابت ہوتے۔ تاہم بعد میں آنے والوں نے اِن کی فکری تخلیقات کو ایک حد تک جمع کر دیا تاکہ اس میدان کے طلباء کے لئے ان سے استفادہ کرنا آسان ہو رہے۔ ان بزرگوں میں سے جن اکابر امت کو اہل قلم تلامذہ میسر ہو گئے ان کے افکار بھی مدون و مرتب ہو گئے۔ ان میں سے ائمہ اربعہ ہیں اور جن کو نہ مل سکے، جزوی طور پر ان کی فکری تخلیقات کا ذِکر تو مختلف شکلوں میں جاری رہا لیکن بالاستیعاب ان کی تدوین نہ ہو سکی۔ جیسے امام اوزاعی، لی، داؤد ظاہری، طبری، ابن ابی لیلیٰ وغیرھم جزاھم اللّٰہ عنا وعن سائر المسلمین۔ جن کا ذکر عموماً ائمہ اربعہ کے سلسلے کی کتابوں، عظیم فقہا اور اہل قلم ائمہ کی تالیفات میں کسی نہ کسی طرح آتا ہی رہتا ہے۔

ایک زمانہ آیا کہ مجتہدین کے افکار کو الگ الگ پیش کرنے کے بجائے، ایک ساتھ مدون و مرتب کرنے کی کوشش کی گئی، جن میں سے امام ابن رشد (ف ۵۹۵ھ) کی ایک کتاب ہدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد ہے۔ جس میں سب کے وجوہ استدلال سے بھی بحث کی گئی ہے۔

بعض بزرگوں نے ائمہ اربعہ کی طرف منسوب مسائل میں سے ایسے مسائل کی تدوین کا اہتمام کیا، جو ان کے  نقطۂ نظر سے ائمہ اربعہ کی طرف اب منسوب نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ دلائل کی رو سے ان کو کتاب و سنت کی تائید حاصل نہیں تھی۔

کچھ علما نے ائمہ اربعہ کے صرف ان مسائل کی تدوین و تہذیب اور ترتیب کا اہتمام فرمایا جو ان کے نقطۂ نظر سے صحیح معنوں میں ان کے مسائل اور افکار تھے۔ اور عام فہم بنانے کے لئے فقہی دلائل اور حکمت تشریح کے بیان کرنے سے عمداً احتراز کیا تاکہ کتاب طویل نہ ہو اور سمجھنے میں الجھاؤ پیدا نہ ہو۔ زیر تبصرہ کتاب اسی نقطۂ نظر کی حامل ہے۔

اس کتاب سے وہ عدالتیں اور حکام مدد لے سکتے ہیں جو اسلامی نقطۂ نظر سے سوچنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ مترجم، ناشر اور مصنف کے پیش نظر بھی تھا۔

کتاب کا اسلوبِ بیان واقعی عام فہم ہے۔ ہر ملک کے لوگوں کے لئے اس سے استفادہ کرنا کافی آسان ہو گیا ہے۔ اس حصہ میں صرف مندرجہ ذیل احکام کا ذکر ہے۔

شرکت، وکالت، حوالہ، ضمانت، اجارہ، ودیعت، عاریت، ہبہ (عطیہ) اور وصیت۔ بعض بعض مقامات پر ذیل میں اس کی مزید وضاحت بھی کر دی گئی ہے جو زیادہ تر حنفی مسئلہ سے متعلق ہے چونکہ مترجم اور ناشر کے سامنے پاکستان کی قانونی عدالتیں اور وکلاء ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ حنفی نقطہ نظر کی زیادہ سے زیادہ وضاحت کر دی جائے کیونکہ ملک میں انہی لوگوں کی اکثریت ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر سے یہ کوشش دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اسلامی قانون کے مآخذ اصلیہ کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس کی روح کے خلاف ہے۔ وکلاء اور قضاۃ (جج) کتاب و سنت کی ترجمانی کے پابند ہیں، کسی فقہی نقطۂ نظر کے نہیں۔ آپ اصل میں اس راہ پر ڈال کر وکلاء اور ججوں کا رخ صحیح سمت کے بجائے غلط رُخ کی طرف موڑنے کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ان میں دلائل سے بحث ہوتی تو شاید ان کے لئے محاکمہ کرنا ممکن ہو جاتا۔

ہاں فقہی مکاتب فکر کے سمجھنے کے لئے کتاب واقعی قابلِ ذکر ہے اور ان کی ایک جاندار خدمت بھی۔ جہاں تک مکمل آئین کی روح کی تسکین کا مسئلہ ہے، وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کی طرف راست توجہ دینے سے حاصل ہو سکتی ہے۔

مکمل آئین میں اسلامی ضوابط اور قوانین کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ بنیادی سرمایہ صرف عربی زبان میں ملتا ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ابھی تک حکومت نے اس کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا، عربی زبان کی تعلیم اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی تعلیم کے لئے احادیث  کی امہات الکتب (صحاح ستہ وغیرہ) کے لئے مناسب مطالعہ کی کوئی مرتب کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے مختلف محکمے، اپنی اپنی حد تک بساط بھر کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ چونکہ اس میدان کے لوگ نہیں ہیں، اس لئے ہزار نیک نیتی کے باوجود ان کی محنتیں ضائع ہو رہی ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ وکلاء اور عدالتوں کو ان جیسی کتابوں سے الگ ہی رکھا جائے تاکہ سب سے پہلے کتاب و سنت سے ان کو مناسبت حاصل ہو، ایسا نہ ہو کہ، ان کو پھر دہری محنت کرنا پڑ جائے۔ ذہن بن کر بدلنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک ان کتابوں کا مطالعہ امدادی حیثیت رکھتا ہے بنیادی نہیں۔

بہتر تھا کہ اس کے بجائے حدیث کی ’جامع الاصول‘ کے ان ابواب کا ترجمہ مع متن ان کو پیش کر دیا جاتا جن کی ان کو فوری ضرورت رہتی ہے۔ عبادات، نماز، روزہ، حج، اسی طرح فضائل، مناقب، کتاب الاطعمہ والاشربہ والعقیقۃ، کتاب العید والذبائح، کتاب الاصناحی، کتاب المرض، جنائز، طب، ادب، رقاق، رجّل، عتاق، قدر، خاتم، ملاحم، فتن، تعبیر، کتاب العلم اور توحید جیسے ابواب کو چھوڑ کر باقی ابواب پر مشتمل حصوں کا ترجمہ اس سے زیادہ آسان، آئین کے قریب اور اقرب الی المقصود تھا۔ جس کی طرف آپ نے عوت دینا شروع کی ہے۔ تفسیر کی حد تک ابن کثیر کا ترجمہ ہو جاتا تو کام اور آسان ہو جاتا۔ یہ اس صورت میں ہے، جب ضرور ترجمہ ہی پیش کرنا ہو، ورنہ اب بھی بہتر یہی ہے کہ ان کو عربی ادب اور قرآن  حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایثار کرنا چاہئے۔ اور یہی بات شایانِ شان ہے۔ بہرحال عدالتوں اور وکلاء کے لئے سفر طویل بنانے سے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے گا۔

علاوہ ازیں فقہ و قانون جیسے علوم کی کتابوں کے ترجمے خاصا مشکل کام ہے۔ صاحب ترجمہ کی علمی فضیلت کے باوجود ان کی کبر سنی اور نقاہت کے پیش نظر کتاب کے کئی ایک مقامات نظر ثانی کے محتاج ہیں۔ کیونکہ بعض جگہ تسامحات ملتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہو سکا۔ اس جلد کے بعض پیچیدہ مقامات مثلاً ۴۵۵-۴۵۶، ۴۷۹-۴۸۱ وغیرہ کا ترجمہ ’محدث‘ کے ایڈیٹر جناب حافظ عبد الرحمٰن صاحب مدنیؔ نے کیا تھا۔ مگر مرتب نے ان کے بعض حواشی چھوڑ دیئے ہیں اور بعض کو قوسین میں اصل ترجمہ کے ساتھ کر دیا ہے جبکہ زبان و بیان کی نئی ترتیب بھی مسئلہ کی وضاحت پر اثر انداز ہوئی ہے۔ بہرصورت اس علمی کتاب کی دیدہ زیب طباعت محکمہ اوقاف کے لئے لائق تحسین ہے۔ (عزیز زبیدی)

(۷)

نام کتاب        :                   مجلہ علم و آگہی (خصوصی شمارہ بابت ۷۳-۱۹۷۴ء)

                                   برصغیر پاک و ہند کے علمی، ادبی اور تعلیمی ادارے

مرتبین         :                   ابو سلمان شاہجہان پوری، امیر الاسلام

سائز            :                   ۲۲ x ۱۸ /۸

ضخامت         :                   ۳۴۸ صفحات

ملنے کا پتہ        :                   گورنمنٹ نیشنل کالج۔ شہید ملت روڈ، کراچی(۵)

مسلمانوں نے برصغیر پر صدیوں حکومت کی ہے اور اس ملک اور اس کے باشندوں کو مہذب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ برصغیر کے گوشے گوشے میں مسلمانوں کے احسانات و اثرات کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ انگریزوں کی آمد سے ہندوؤں کو مستحکم ہونے کا موقع ملا اور ان دونوں کی ملی بھگت سے مسلمانوں کو اور ان کے اثرات کو مٹانے کی بھرپور کوششیں ہوئیں۔ برصغیر کی مسلم قومیت قابلِ ستائش ہے کہ اس نے اتنے منظم اور طاقتور دشمن کے باوجود اپنے حیات بخش پروگرام جاری رکھے۔ علم و ادب، تعلیم و تحقیق اور تہذیب و ثقافت کے میدانوں میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے تہذیبی و تعلیمی ورثے کو ضائع ہونے سے بچایا۔

یہی عجیب اتفاق ہے کہ سیاسی میدان میں مسلمانوں کی جدوجہد کو محفوظ کرنے کی سنجیدہ مساعی ہوئی ہیں لیکن تعلیمی، تحقیقی اور تہذیبی کاوشوں کے بارے میں مرتب معلومات مہیا کرنے کے سلسلے میں نادانستہ کوتاہی ہوئی ہے۔ برصغیر کی تاریخ کا طالب علم جب ان کاوشوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مایوسی ہوتی ہے۔

گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی کے اساتذہ و طلباء مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کیا ہے۔ تعلیم و تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ میری محدود معلومات کے مطابق اس موضوع پر کبھی یکجا مواد نہیں ملتا۔ خصوصی نمبر کی ترتیب، اداروں کی تقسیم اور پھر ان کے بارے میں مستند کوائف ایسی خصوصیات ہیں جنہیں نظر انداز کرنا زیادتی ہو گی۔ ابو سلمان صاحب نے مقدمے میں مجلہ کی قدر و قیمت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ مجلہ کی ایک اور خصوصیت اس کا رواں اور شستہ انداز ہے۔ مواد اگرچہ تحقیق و تفتیش سے مرتب کیا گیا ہے لیکن ان حوالوں سے بوجھل نہیں بنایا۔ عام قاری بھی بغیر کسی اکتاہٹ کے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ یہ کاوش ایک اعلیٰ درجے کی تحقیقی مقالے کے لئے نہایت عمدہ پیشرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ البتہ اس میں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کا ذِکر کہیں نہیں آیا۔ ممکن ہے وہ کسی اور مرحلے کے لئے مناسب ہو۔

ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ اہلِ علم کو اس خصوصی نمبر کو عام کرنے میں مقدور بھر کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کے ذریعے بہت سے حضرات ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔

ہم سفارش کرتے ہیں کہ یہ کتاب ہر لائبریری میں موجود ہو اور تمام اہلِ علم کی ذاتی لائبریریوں کی زینت،؟         (خالد علوی)