نومبر 1974ء

نصیر الدین طوسی

طوس صوبہ خراسان (ایران) کا ایک قدیم شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد ’جمشید پیش دادی‘ نے رکھی تھی۔ زمانے کے انقلابات نے کئی بار ’طوس‘ کو اجاڑا اور بسایا۔ کیانی دور سلطنت میں طوس تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ ایران کی حکومت کیخسرو کے ہاتھ آئی تو اس کے نامور سپہ سالار طُوس ابن نوذر بن منوچہر نے از سرِ نو آباد کیا۔ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ۲۹ھ مطابق ۶۴۹ء میں یہاں اسلامی پرچم لہرایا۔ طوس کی شان و شوکت عباسی دور حکومت میں عروج پر تھی۔ طوس میں حمید بن قحطبہ کا ایک مربع میل میں پھیلا ہوا وہ عظیم الشان محل تھا جس کے باغ میں امام علی رضا اور ہارون الرشید کے مزار تھے۔ ابن خردازبہ (م ۳۰۰ھ) کی روایت کے مطابق طوس کا سالانہ خراج سنتالیس ہزار آٹھ سو ساٹھ درہم یعنی ۱۱۹۶۵ روپے تھا۔

شاہانِ عجم کے زیر نگیں طوس کی کوئی علمی و ثقافتی اہمیت نہ تھی مگر اسلامی دور اقتدار میں طوس کی قسمت جاگ اُٹھی۔ نظام الملک طُوسی جیسا مدّبر اس کی پیشانی کا جھومر بن کر چمکا۔ فردوسی طُوس کی ایک نواحی بستی میں پیدا ہوا۔ امام غزالی رحمہ اللہ  ضلع طوس کے ایک گاؤں میں متولد ہوئے۔ محقق نصیر الدین طُوسی کو بھی اسی خاک سے نسبت ہے۔ عہد عباسیہ کا نہایت بارونق شہر آج کھنڈروں کی صورت میں دعوتِ غور و فکر دے رہا ہے۔ طوس کے کھنڈروں میں پانچ سوافراد کی آبادی کا ایک گاؤں ’سجادیہ‘ ہے جس نے قدیم طوس کو کامل تباہی سے بچا رکھا ہے اور دنیا بھر کے سیاح فردوسی کے مزار پر حاضر ہونے کی خاطر ان کھنڈروں میں پہنچ جاتے ہیں۔

ولادت و خاندان:   نصیر الدین طُوسی ۱۱؍جمادی الاولیٰ ۵۹۷ء؍۱۸ فروری ۱۲۰۱ء کو پیدا ہوا ۔[1] ابو عبد اللہ کنیت، محمد نام اور نصیر الدین لقب تھا۔ باپ کا نام بھی محمد اور دادا کا نام حسن تھا۔ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن محمد بن حسن بن ابو بکر۔

نظامی بد ایوانی نے امام فخر الدین رازی (م ۶۰۶ھ) کو خواجہ نصیر الدین کا والد ظاہر کیا ہے ۔[2] نہیں کہا جا سکتا

انہیں یہ مغالطہ کیوں ہوا؟ خواجہ نصیر الدین طُوسی اور فخر الدین رازی (م ۶۰۶ھ) میں کوئی رشتہ نہیں تھا۔

تعلیم و تربیت:  شرعی علوم میں خواجہ کو اپنے والد محمد بن حسن سے تلمذ حاصل تھا۔ دوسرے علوم میں انہوں نے متعدد اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ فرید الدین داماد نیشا پوری، شیخ کمال الدین بن یونس موصلی اور معین الدین سالم بن بدران مصری معتزلی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں۔

نصیر الدین آغاز شباب میں نیشا پور چلے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے امام سراج الدین قمری کے حلقہ درس میں شامل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ نیشا پور علمی و فکری مرکز تھا۔ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ  (م ۱۹۱۴ء) رقم طراز ہیں۔

’نیشا پور کی علمی حالت یہ تھی کہ اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ جو تعمیر ہوا یہیں ہوا۔ جس کا نام مدرسہ ’بیہقیہ‘ تھا۔ امام الحرمین (امام غزالی) کے استاد نے اسی مدرسہ میں تعلیم پائی تھی۔ عام شہرت ہے کہ دنیائے اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ بغداد کا نظامیہ تھا۔ چنانچہ ابن خلکان نے بھی یہی دعویٰ کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ فخر بغداد کے بجائے نیشا پور کو حاصل ہے۔ بغداد کا نظامیہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا کہ نیشا پور میں بڑے بڑے دار العلوم قائم ہو چکے تھے۔ ایک وہی بیہقیہ جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے۔ دوسرا سعدیہ، تیسرا نصریہ جس کو سلطان محمود کے بھائی نصر بن سبکتگین نے قائم کیا تھا۔ ان کے سوا اور بھی مدرسے تھے جن کا سرتاج نظامیہ نیشا پور تھا ۔ [3]

نصیر الدین طوسی نے نیشا پور کے علمی ماحول سے بھرپور استفادہ کیا اور علوم مرّوجہ میں کمال حاصل کیا۔

اسماعیلیوں کی قید میں:   بلاد خراسان میں مغلوں کی چیرہ دستیوں کے پیش نظر خواجہ نصیر الدین، ناصر الدین محتشم کے بلانے پر قہستان چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسماعیلیوں کے راہنما نے کچھ فدائیوں کو مامور کیا تھا کہ وہ خواجہ کو نیشا پور سے اغوا کر کے قلعہ ’الموت‘ میں لے آئیں۔ چنانچہ فدائیوں نے ڈرا دھمکا کر خواجہ کو ’الموت‘ آنے پر مجبور کر لیا۔ خواجہ عرصہ تک ناصر الدین کے پاس قہستان میں رہے۔

قہستان میں خواجہ نہایت آرام و اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن وہ اسماعیلیوں کا کردار پسند نہ کرتے تھے۔ انہوں نے خلیفہ معتصم کی مدح میں قصیدہ لکھا اور ایک خط کے ساتھ بغداد بھیج دیا۔ یہ خط اور قصیدہ ابن علقمی کے ذریعے خلیفہ کے حضور پیش ہونا تھا۔ جو اس وقت وزارت کے منصب پر فائز تھا۔ یہ خط کسی طرح ناصر الدین محتشم کے جاسوسوں نے اڑا لیا اور خواجہ کو حوالہ زنداں کر دیا گیا۔

جب ناصر الدین قہستان سے ’لیموں دز‘ گیا تو خواجہ کو بھی ساتھ لے گیا۔ اس دوران میں اطلاع آئی کہ علاؤ الدین کو سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا اس کی جگہ رکن الدین خور شاہ اورنگ نشین ہوا۔ خواجہ رکن الدین خورشاہ کی

حکومت کے آخری ایّام تک قلعہ ’الموت‘ ہی میں رہے۔ خواجہ کو اگرچہ وزارت کا منصب حاصل تھا مگر اطمینانِ قلب نصیب نہ تھا۔ اسماعیلیوں کی جا و بے جا تعریف کرنا پڑتی تھی۔ جو ایک روحانی عذاب سے کم نہ تھی۔

خواجہ کی رہائی کا سبب ہلاکو خان بنا۔ جس نے ۶۵۴ ہجری میں ممالک غربی پر یلغار کی اکیس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ ہلاکو خان حملہ آور ہوا اور یکے بعد دیگرے اسماعیلیوں کے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ خواجہ کے سمجھانے بجھانے پر رکن الدین خور شاہ نے ہلاکو کی اطاعت قبول کر لی اور اپنی اور خورشاہ کی جان بچالی۔

ہلاکو خان نے خواجہ اور ان کے ساتھیوں کا بہت اعزاز کیا۔ خواجہ کو اپنا مصاحب بنالیا۔ ہر معاملے میں وہ ان سے مشورہ لیا کرتا تھا اور ان کی رائے کا احترام کرتا تھا۔ خواجہ نے کئی نازک موقوعوں پر ہلاکو خان سے اپنے حسب منشا کام لیکر اپنے ہم مسلکوں کی جان بخشی کرائی۔

ایک بار ہلاکو نے ایک عہدے دار کے قتل کا حکم دیا۔ اس کے احباب و رفقاء دوڑے ہوئے خواجہ طوسی کے پاس گئے کہ اس کی جان بخشی کرائی جائے۔ خواجہ نے ہاتھ میں عصا، تسبیح اور اضطرلاب لیا اور اس کے پیچھے کچھ لوگ آتشدان میں عود و لوبان سلگاتے ہوئے چلے اس ہیئت کذائی میں جب یہ لوگ ہلاکو کے خیمے کے پاس پہنچے۔ تو خواجہ نے اور بھی زیادہ لوبان و عود جلایا۔ اور اضطرلاب کو بار بار اُٹھا کر دیکھتا۔ ہلاکو کو خبر ہوئی تو اس نے خواجہ کو خیمے کے اندر بلایا اور پوچھا واقعہ کیا ہے؟ خواجہ نے من گھڑت افسانہ شروع کیا کہ علم نجوم سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت آپ پر ایک بڑی مصیبت آنے والی ہے۔ اس کے لئے ہم نے لوبان و عود جلایا اور دعائیں مانگیں کہ خدا وند اس مصیبت کو دور کر دے۔ اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ بادشاہ تمام سلطنت میں فرمان جاری کر دے کہ جو لوگ قید میں ہیں رہا کر دیئے جائیں گے۔ جو لوگ مجرم ہیں وہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جن لوگوں کے قتل کا اعلان ہو چکا ہے ان کی جان بخشی کی جائے گی۔ چنانچہ ہلاکو اس افسانے سے اتنا متاثر ہوا کہ فرمان خواجہ کی حسب خواہش جاری کر دیا گیا۔ اور اس طرح وہ معزز عہدیدار قتل ہونے سے بچ گیا۔

بغداد پر حملے کے دوران میں عز الدین عبد الحمید بن ابی الحدید مصنّف شرح نہج البلاغہ اور ان کے بھائی موفق الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور یہ اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہ تیغ کر دیئے جائیں گے۔ ابن علقمی نے خواجہ سے ان کی سفارش کی۔ وہ دربار میں گئے اور استدعا کی کہ ان کی جان بخشی کی جائے چنانچہ دونوں باعزت بری کئے گئے۔

مذہب:   یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ شیعی اور معتزلی تھا۔ صلاح الدین صفدی نے اس کی تصانیف میں ایک کتاب کا ذکر کیا ہے۔ جو اس نے ’فرقہ نضیریہ‘ کے لئے لکھی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ میرے خیال میں اس کا یہ عقیدہ نہ تھا۔ کیوں کہ ’نضیریہ‘، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیوں کر خدا تسلیم کر سکتا ہے۔

تصانیف:   خواجہ نصیر الدین کو مروّجہ علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ اُن کا مطالعہ نہایت وسیع اور کتب خانہ بے نظیر تھا۔ ان کے کتب خانے میں چار لاکھ کے لگ بھگ کتابیں تھی، پروفیسر براؤن لکھتا ہے:

Mongol army which destroyed Baghdad, He profited by the plunder of many libraries to rich his own which finally came to comprise according to Ibni Shakir more than ۴,۰۰,۰۰۰ volumes.  [4]

پروفیسر براؤن خواجہ کی تصنیفی صلاحیت کے بارے میں رقم طراز ہے۔

He was a most productive writer on religious, philosophical, mathematical, physical and astronomical subjects.  [5]

خواجہ نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں کتابیں لکھی ہیں۔ پروفیسر براؤن نے ’۵۶‘ تصانیف بتائی ہیں۔ تصانیف متنوع موضوعات پر ہیں تاہم زیادہ تر ریاضی، ہندسہ اور طب کے موضوع پر ہیں۔ چند اہم تصانیف کا تعارف ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

۱۔  شرح اشارات:

 خواجہ نے یہ کتاب بیس (۲۰) سال کے عرصہ میں لکھی ہے۔ ’اشارات‘ (مؤلفہ بو علی سینا) پر امام فخر الدین رازی نے اعتراض کیے تھے۔ خواجہ نے اپنی شرح میں امام رازی کے اعتراضات کا تفصیل سے جواب لکھا ہے۔ اور امام رازی کو تعصّب اور تنگ نظری کا شکار گردانا ہے۔ حالانکہ امام رازی، خواجہ کے استاد فرید الدین داماد نیشا پوری کے استاد تھے مگر خواجہ نے اس کے باوجود نہایت بے باکی سے امام رازی پر جرح کی ہے۔

’شرح اشارات‘ کے بارے میں مولانا عبد السلام ندوی لکھتے ہیں ’اس (شرح) میں اُس (خواجہ) کی کوئی چیز طبع زاد نہیں ہے۔ اس سے پہلے علّامہ سیف الدین آمدی نے ’کشف التمویہات عن الاشارات والشبہات‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ جس میں امام رازی کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے تھے۔ محقق طوسی نے اس کتاب اور امام رازی کی شرح اشارات کے مباحث کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اور اس میں کوئی معتد بہ اضافہ نہیں کیا۔ [6]

۲۔  اخلاقِ ناصری (فارسی):  

ابو علی مسکویہ (م ۱۰۳۰ھ) نے ’تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق‘ نام کی ایک کتاب لکھی تھی۔ خواجہ نے ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور حاکم قہستان کے ایماء سے قصبہ قائن میں اس کا ترجمہ کیا اور جابجا اضافے کر کے مستقبل تصنیف کا درجہ دیا۔

یہ کتاب اس زمانے میں لکھی گئی جب خواجہ اسماعیلیوں کی قید میں تھے۔ مقدمہ میں خواجہ نے بادل ناخواستہ اسماعیلیوں کی تعریف کی تھی۔ اسماعیلیوں کی قید سے نجات پانے کے بعد انہوں نے پہلا مقدمہ خارج کر کے دوسرا مقدمہ شامل کیا۔

۳۔  تجرید:

۴۔  زیچ الخانی:

ہلاکو خان نے نصیر الدین طوسی کو سیاروں کے زائچے تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس کام کی انجام دہی کے لئے دنیائے اسلام کے مشہور ہیت دان مراغہ (صوبہ آذربائیجان) میں جمع ہوئے۔ مراغہ میں عظیم رصد گاہ بنائی گئی اور ضروری آلات و کتب فراہم کی گئیں۔ ہلاکو خان نے اس کام پر بے پناہ سرمایہ خرچ کیا۔ کتاب بارہ سال کے عرصہ میں تیار ہوئی۔ لیکن اس وقت ہلاکو خان فوت ہو چکا تھا۔

وفات:

خواجہ نے ذی الحجہ ۶۷۲ھ (جون ۱۲۷۴ء) میں وفات پائی اور مشہد کاظم میں دفن ہوئے۔ جنازہ میں اکابر و اعیان نے شرکت کی۔

[1]        انسائیکلوپیڈیا آف اسلام

[2]        قاموس المشاہیر جلددوم ،ص: ۲۶۰

[3]        الغزالی صفحہ نمبر ۴

[4]        A LITERRY HISTORY OF PERSIA VOL II P. 485

[5]        ایضاً

[6]        حکمائے اسلام جلد دوئم صفحہ نمبر ۲۵۴