نومبر 1974ء

استفتاء

۱۔   ارشادِ ربانی ہے ’خُذِ الْعَفْوَ‘ مگر سوشلسٹ اس کے برعکس یوں تاویل کرتے ہیں کہ جو کچھ وافر ہے سب لے لو۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

۲۔   بے نماز یا غیر دیندار سیاسی لیڈر کو اپنا لیڈر بنانا کیسا ہے؟

۳۔  مسلمان اور اسلام کے دعویدار اَن گنت، اسلام کے نعرے بھی بہت لگائے جاتے ہیں اس کے باوجود ہم تنزّل کا شکار ہو رہے ہیں کیوں؟

کہا جاتا ہے (نعوذ باللہ) اسلام پرانا ہو چکا ہے ورنہ ہم ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ اس کی وجوہات تحریر فرمائیں۔

الجواب

(الف) عفو اور سوشلزم:

جو نام نہاد مسلمان سوشلزم پر ایمان رکھتے ہیں وہ برائے نام اسلام کا نام لیتے ہیں یعنی کاروباری حد تک۔ الا ما شاء اللہ! اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ ان کو سارے قرآن میں صرف یہی دو آیتیں نظر آتی ہیں، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ کسی طرح اس قرآنی منتر کے ذریعے ’خداوندان سوشلزم‘ تک ان کو رسائی حاصل ہو سکے اور مسلمانوں کے حلقوں میں وہ اچھوت ہو کر نہ رہ جائیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ان ’جعلی مساواتیوں‘ کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کے پیٹ کا دھندا دوسروں سے بڑھ کر کامیاب رہے۔ گویا کہ یہ لوگ جس ‘بدنام ازم‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، اس میں بھی وہ مخلص نہیں ہیں۔

ہمارے نزدیک یہ سوشلسٹ قادیانیوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ انہوں نے جن کو یہ تشریعی اختیارات دے رکھے ہیں وہ خدا کے بھی منکر ہیں۔ غلام احمد مرزا کم از کم خدا کو تو مانتا تھا۔ گو وہ ترنگ میں آکر خود بھی خدا بن جاتا تھا، تاہم اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی ضرورت اور وجود کا قائل تھا۔ کارل مارکس، لینن اور ہیگل وغیرہ تو خدا کی ضرورت کے بھی قائل نہیں تھے۔ گو بات کڑوی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ، ملکی آئین کی رُو سے بلکہ خود ان ترمیمات کی رُو سے بھی جو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا موجب بنیں، قادیانیوں کی طرح ان سوشلسٹوں کو بھی ’غیر مسلم اقلیت‘ قرار دیا جانا چاہئے اور جس طرح ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے، اسی طرح ان کی ’سوشلزم‘ کی تبلیغ پر بھی پابندی عاید کی جائے۔ لیکن سنا ہے، جب جناب بھٹو روس کے دورہ پر تشریف لے گئے ہیں، صدرِ مملکت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سوشلزم کی تبلیغ کیوں؟ عیاں راچہ بیاں!

بہرحال یہ تحریک روحِ اسلام کے خلاف ہے۔

خُذِ الْغَفْو۔ پہلے تو اس کے وہ معنی نہیں جو وہ کرتے ہیں۔ اصل اس کے معنی ہیں کہ: درگزر کیجئے! یعنی درگزر کرنا شیوہ بنا لیجئے! حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ف ۶۳ھ) فرماتے ہیں:

امر اللّٰہ نبيّه  صلی اللّٰہ علیہ وسلم  ان يَاْخُذَ الْعَفْوَ من اخلاق الناس او كما قال (بخاري كتاب التفسير باب قوله خذ العفو)

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے کہ: لوگوں کی عادات کے بارے میں ’’عفو‘‘ (درگزر کا شیوہ) اختیار فرمائیں۔

حضرت جابر رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت خذ العفو وامر بالعرف نازل ہوئی تو آپ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اس کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا، رب سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ پھر آکر بتایا کہ آپ کا رب آپ سے فرماتا ہے کہ، جو آپ سے توڑے، آپ اس سے جوڑیں، جو آپ کو نہ دے، آپ اس پر داد و دہش فرمائیں اور جو آپ سے زیادتی کرے آپ اس سے درگزر کیا کریں۔‘‘

ان ربك يامرك ان تصل من قطعك وتعطي من حرمك وتعفوا من ظلمك (فتح الباري كتاب التفسير باب خذ العفو ص ۳۰۶، ۸ بحواله ابن مردويه)

اس سے جو اگلی آیت ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نزغ فاستعذ باللّٰہ (اعراف ع ۲۴) یعنی اگر شیطان کی تحریک پر آپ کے دل میں (انتقام کی) آتحریک پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو)

لیکن یہ معنی ایک سوشلسٹ کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اختلاف رائے کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ درگزر کہاں؟

جن اکابر (مثلاً ابنِ عباس رضی اللہ  عنہما) نے اس کے معنی ’مالِ زاید‘ کے لئے ہیں ان کے متعلق مفسرین مثلاً مسدی (ف ۱۲۷ھ) ضحاک (ف ۱۰۵ھ) عطاء (ف ۱۳۵ھ) ابو عبیدۃ (ف ۲۱ھ) فرماتے ہیں، یہ حکم نزولِ زکوٰۃ سے پہلے کا تھا، وَاَسْاَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ سے وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ تك كا ٹكڑا چھوڑ کر باقی ساری سورۂ اعراف مکی ہے یعنی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے اور معروف معنی میں زکوٰۃ کا حکم ۸ھ میں نازل ہوا ہے۔ اس سے پہلے ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ صدقہ و خیرات کے معنی میں مستعمل ہوتا تھا اس لئے وہ فرماتے ہیں، نزولِ زکوٰۃ کے بعد خُذِ الْعَفْو کا حکم منسوخ ہو گیا ہے لیکن امام طبری (ف ۳۲۰ھ) پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں (فتح الباری ص ۲۰۵،۲۰۶/۸)

ہاں سورۂ بقرہ جس میں آیت یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ؟ قُلِ الْعَفْو‘‘ ہے مدنی ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے لیکن یہ ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں بالکل ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔

البقرة جميعھا مدنيه بلا خوف وھي من اوائل ما نزل بھااللّٰہ  (ابن كثير ص ۳۵  /۱ سورة بقره)

زکوٰۃ کا نزول اس سے کہیں بعد نازل ہوا یعنی ۸ھ میں۔ اس لئے جن بزرگوں نے قُلِ الْعَفْو کو منسوخ قرار دیا ہے اس کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے۔

حضرت مجاہد (ف ۱۲۳ھ) فرماتے ہیں زکوٰۃ کا حکم اس کا ناسخ نہیں بلکہ اس اجمال کی تفصیل ہے، یعنی عفو سے مراد مالِ نصاب میں جو شرح زکوٰۃ مقرر ہے وہ ہے۔ وقال اخرون: مع ذلک الصدقة المفروضة (ابن جرير ص ۳۶۵/۲) وقيل مبنية باية الزكوٰة قاله مجاھد وغيره (ابن كثير ۲۵۶/۱ وجامع البيان ص ۳۳)

حضرت ربیع بن انس (ف ۱۴۰ھ) اور قتادہ بن وعامہ (ف ۱۱۷ھ) فرماتے ہیں۔ اس سے مراد سب سے عمدہ اور بہتر مال ہے۔ افضل مالک واطيبه (ابن جرير ص ۳۶۴/۲)

ابن ابی حاتم (ف ۳۲۷ھ) نے اس کی جو شانِ نزول بیان کی ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے حضرت معاذ (ف ۱۸ھ) اور حضرت ثعلبہ (ف ھ) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ:

حضور! ہمارے پاس غلام بھی ہیں اور نفیس مال بھی، اس پر آیت مذکور نازل ہوئی۔

یحیی انه بلغه ان معاذ بن جبل وثعلبة اينا رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم  فقال يا رسول اللّٰہ ان لنا ارقاء واھلين من اموالنا فانزلاللّٰه: يسئلونك ما ذا ينفقون۔ (ابن كثير ص ۲۵۶)

صاحب لباب النقول نے ابن ابی حاتم سے بہ روایت سعید اور عکرمہ حضرت ابن عباس سے یہ الفاظ بیان کئے ہیں:

ان نفراً من الصحابة حين امروا بالنفقة في سبيل اللّٰہ اتوا النبي  صلی اللّٰہ علیہ وسلم  فقالوا الا ندري ما ھذه النفقة التي امرنا في اموالنا فما ننفق منھا فانزل اللّٰہ الاية.

جب اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کو کہا تو صحابہ کی ایک جماعت حضور کی خدمت میں آئی اور کہا کہ ہم کو معلوم نہیں کہ ہم اپنے مالوں میں سے کیا خرچ کریں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

گویا کہ اس کے یہ معنی نکلے کہ: آپ کو جو مال زیادہ بہتر معلوم ہو، وہ خدا کی راہ میں دو۔ فہو المراد۔ قرآن حکیم بھی اسی بات کی سفارش کرتا ہے:

﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ (پ۴۔ اٰل عمران۔ ع۱۰)

(لوگو!) جب تک آپ وہ مال خرچ نہیں کیا کریں گے۔ اس وقت تک، نیکی تک آپ کو رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ جو آپ کو پیارا ہے۔

چنانچہ اس آیت کے نزول پر حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ  عنہ (ف ۳۱ھ) حضرت عمر رضی اللہ  عنہ (ف ۲۴ھ) اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  عنہ (ف ۷۳ھ) نے اپنی عزیز ترین چیزیں خدا کے حضور پیش کر کے تعمیل کی۔ (ابن کثیر ص ۳۸۱/۱)

اعراب:

قُلِ الْعَفْو کے اعراب میں اختلاف ہے، بعض امام ’العَفْوَ‘ یعنی ’واؤ‘ پر زبر پڑھتے ہیں اور کچھ حضرات اس پر پیش پڑھتے ہیں۔ مگر امام ابن جریر فرماتے ہیں جمہور کا مسلک پہلا ہے اور وہی صحیح ہے۔ فرماتے ہیں اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے۔

يَسْئَلُوْنَكَ اَيَّ شَيْءٍ يُنْفِقُوْنَ؟ قُلِ الَّذِيْ الْعَفْوَ (ابن جرير طبري)

آپ سے پوچھتے ہیں کون سی شے خرچ کریں؟ فرما دیجئے: جو ‘عَفْو‘ ہو۔

اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے، جو آپ کو عمدہ لگے؟ کیونکہ ’اَیُّ‘ جب استفہام کے لئے ہو تو اس وقت اس سے جنس یا نوع مراد ہوتی ہے (راغب) اس لئے اب سوال یہ نہیں ہو گا کہ کتنا خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہو گا کہ ’کیسا‘ خرچ کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ معنی بھی اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں جو حضرت ربیع (۱۴۰ھ) اور حضرت قتادہ (۱۱۷ھ) نے پیش کیا ہے اس لئے یہ سوشلسٹوں کے مکروہ عزائم اور نظریہ کا ماخذ بالکل نہیں بن سکتی۔

اس سے قریب تر قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں:

جتنا خوش دلی سے دے سکو، دو، یعنی جو تمہاری طبیعت پر شاق نہ رہے اور دل کو خوش لگے۔ مثلاً حضرت طاؤس بن کیسان خولانی (ف ۱۰۵ھ) حضرت حسن بصری (۱۱۰ھ) اور حضرت عظاء کا بھی یہی قول ہے۔ (ابن جریر ص ۳۶۴/۲)

حضرت امام ابن القیم نے اسی قول کو ترجیح دی ہے (زاد المعاد ص ۱۱۵/۲)

ان یاخذ من الحق الذی علیھم ما طوعت به انفسھم وسمحت به وسھل عليھم ولم يشق وھو العفوا الذي لا يلحقھم ببذله ضور ولا مشقة

ہمارے نزدیک اس ’خوش دلی‘ کے پیمانے جدا جدا ہیں، کچھ تو واقعۃً زائد مال ہی خدا کی راہ میں لٹا دیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو فرائض مالیہ کی حد تک پوری دیانت داری اور خوش دلی کا ثبوت دیتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو سارا گھر سمیٹ کر راہِ خدا میں جھونک دیتے ہیں اور قرار پاتے ہیں مثلاً حضرت صدیق رضی اللہ  عنہ کی ذات گرامی ہے۔ اور کچ وہ بھی ہیں جو چیز ان کو بہت اچھی لگتی ہے اسے وہ خدا کی راہ میں خرچ کر کے ہی چین پاتے ہیں۔ اور یہ وہ سٹیج ہے کہ جہاں سوشلسٹ مزاج جیسے رنگیلوں کے پَر جلتے ہیں، وہ مساوات کے نام پر دنیا سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اپنے مال سے آدھا ہمیں بھی دو، لیکن وہ یہ بھی کہیں کہ: ہم سے یہ وافر ہے یا ہمیں یہ سب سے زیادہ محبوب شے ہے، اس لئے خدا کی رضا کے لئے دیتا ہوں       ؎         ایں خیال است محال است و جنوں انہوں نے مساوات کے مسئلے تو صرف لوگوں سے بٹورنے اور اپنا گھر بھرنے کے لئے گھڑ رکھے ہیں ورنہ ان کو خدا یا خلقِ خدا سے کیا واسطہ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ساری دنیا سے بڑھ کر خدا، رسول، قرآن اور عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ خدا ان کو سمجھے۔

بہرحال ہمارے نزدیک ’خُذِ الْعَفْو‘ سے مراد ’درگزر‘ کا شیوہ اختیار کرنا ہے۔ اگر اس کے معنی ’مال زائد‘ ہی کیے جائیں تو پھر اس سے مراد عام صدقات ہیں، جبری ٹیکس یا جبری جیب تراشی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے حضور نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں، وہ خدا کے شایانِ شان، عمدہ سے عمدہ شے دینی شرط یہ ہے کہ جو دیں، تاوان سمجھ کر نہ دیں، خوش دلی سے دیںِ اور دل پر پتھر رکھ کر نہ دیں بلکہ نہایت حضورِ قلب کے ساتھ پیش کریں، جس میں ان کو آسانی بھی محسوس ہو۔ یہ آیت پاک بہرحال سوشلسٹوں کے ناپاک اغراض اور جذباتی افکار کا ماخذ نہیں بن سکتی جو بناتے ہیں وہ قرآن سے بے خبر ہیں یا بد نیت، ان کا صحیح علاج یہ ہے کہ ان کا مقاطعہ کیا جائے اور وزیر اعظم سے درخواست کی جائے کہ ان کو ہمارے  قرآن سے کھیلنے سے روکیں۔ اور جو ان کا مقام ہے، ان کو اسی پر رکھیں۔ مسلمانوں کی طرح سیدھے طریقے سے قرآن کا نام لیں یا کوئی اور دھندا کریں، قرآن کی تحریف سے بہرحال ان کو روکا جائے۔

(ب) بے نماز سیاسی لیڈر:   یہ سوال کہ جو سیاسی لیڈر بے نماز ہو اسے اپنا رہنما بنایا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ سوال کرنے کا نہیں تھا، یقین کیجئے! یہ سوال پڑھ کر ہمیں بڑا دکھ ہوا ہے کیونکہ کبھی ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ آج شاید ہمیں اس کے لئے بھی کچھ گنجائش نظر آنے لگی ہے۔ فلیبک من کان باکیا۔

یقین کیجئے! بالکل نہیں، بالکل نہیں، بالکل نہیں! جو بنا لیتے ہیں۔ ان کی آخرت بڑی خطرے میں ہے بلکہ دنیا بھی۔ خسر الدنیا والاخرۃ۔

ہمارے نزدیک یزید اور حجاج بہت بدنام سیاسی لیڈر ہیں لیکن بے نماز وہ بھی نہیں تھے، اگر وہ بے نماز  ہوتے تو یقین کیجئے، اس کو ایک ’شمر‘ بھی نہ ملتا۔ کیونکہ شمر بہت بڑا بد سہی لیکن ذوق کے لحاظ سے وہ اس قدر ننگا نہیں تھا کہ وہ ایک بے نماز کو بھی اپنا پیشوا بناتا۔ بہرحال بقولِ علامہ اقبال        ؎

یہ زائرانِ حریم مغرب ہزار رہیر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں

سیاسی لیڈر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سرکاری جماعت کے رہنما ہوتے ہیں پہلے ان کو سمجھائیں اگر راہ پر نہ آئیں تو ان کی قیادت کو قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیں۔ کیونکہ جماعت کی کامیابی کی صورت میں بالآخر یہی لوگ بر سرِ اقتدار آئیں گے جن میں سرتاپا دین اور آخرت کا ضیاع ہے۔ ان کے مظالم اور نہ کردینوں سے تعاون کریں گے تو ایمان ضائع ہو گا، خدا ناراض ہو گا اور آخرت تباہ ہو گی۔ اگر ان کی سیئات کو خاموش ہو کر برداشت کریں گے تو جو انجام معاونین کا ہو گا وہی آپ کا ہو گا۔ جیسا کہ سبت کے دن یہود کا ہوا۔ اگر ان کی مخالفت کریں گے تو اپنی دنیوی عافیتوں کو امتحان میں ڈالنے والی بات ہو گی جو بہرحال خطرے سے خالی نہیں۔ استقامت رہے یا نہ۔

اگر وہ سرکاری جماعت کے رہنما اور حکمران بھی ہیں تو نہایت خیر خواہی کے ساتھ پہلے ان کو تبلیغ کی جائے اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب نہ رہے تو عوام کو صحیح صورتِ حال اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے، ہو سکتا ہے کہ عوامی دباؤ کی وجہ سے ان کی زندگی کا کانٹا بدل جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ رہے تو ملک میں پارلیمانی طریقے پر عوام کو تیار کیا جائے ہو سکتا ہے کہ جمہوری طریقے پر ’صالح انقلاب‘ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ بہرحال باغیانہ سرگرمیوں کے ساتھ بے دین اور بے نماز حکمرانوں کو بھی بدلنے کی کوشش سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس سے ملک کمزور ہوتا ہے اور قوم کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ ہاں ملک جو خواص ہیں وہ ازراہِ تبلیغ ان حکمرانوں کی مصاحبت، تائید اور حمایت سے پرہیز کریں اور احتجاجاً ان کا بائیکاٹ کریں، جیسے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا، آپ نے دو آدمیوں کو سمجھایا کہ اشرفیوں سے سونا اور دراہم سے چاندی نہ خریدیں۔ کیونکہ یہ ’’ربا‘‘ (سود) ہے، میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا، فرماتے تھے کہ، سونا سونے کے بدلے نہ خریدو نہ بیچو مگر برابر سرابر، نقد بہ نقد۔

لا تبتاعوا الذھب بالذھب الا مثلا بمثل لا زیادۃ بینھما ولا نظرۃ (ابن ماجه) وقت کے حکمران بولے: یہ صرف ادھار کی صورت میں ہے۔ حضرت عبادہ نے فرمایا: کہ میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث بیان کرتا ہوں اور آپ اپنا خیال بتاتے ہیں، اگر اللہ نے موقع دیا تو میں جا کر آپ کے علاقہ میں واپس نہیں آؤں گا۔ لئن اخرجنی اللّٰہ لا اساکنک بارض لک علی فیھا اِمرۃ (ابن ماجه) جب واپس ہوئے تو سیدھے مدینے پہنچے، یہ قصہ حضرت عمر رضی اللہ  عنہ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا۔ اس سرزمین کا برا ہو جس میں آپ نہ ہوں، آپ واپس تشریف لے جایں اور گورنر کو لکھا کہ بات وہی ہے جو حضرت عبادہ رضی اللہ  عنہ نے بیان کی ہے، لوگوں کو اس کے مطابق حکم دیں۔ آپ کو حضرت عبادہ پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔

لا امرۃ لک علیه واحمل الناس علٰي ما قال فانه ھو الامر (ابن ماجه ص ۱۲، ۱)

غرض یہ ہے کہ اتنی بڑی صریح خلاف ورزی کے باوجود آپ نے ان کے خلاف محاذ نہیں بنایا لیکن ذاتی طور پر اس کا بائیکاٹ ضرور کیا کیونکہ خواص کا یہ فریضہ ہے کہ حکمرانوں کو سیدھی راہ پر رکھیں۔ اگر نہ رہیں تو ذاتی حیثیت میں ان کا بائیکاٹ ضرور کریں تاکہ وہ راہ پر آجائیں۔

مسلم شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ تمہارے بہترین حکمران وہ لوگ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور ایک دوسرے کے لئے دعاگو رہو، اور بدترین وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور تم پر لعنت کریں۔ صحابہ نے عرض کیا تو اس صورت میں ہم ان کی بیعت فسخ نہ کر دیں۔ آپ نے فرمایا:

لا، ما اقاموا فیکم الصلٰوۃ لا ما اقاموا الصلٰوۃ فیکم۔

نہیں نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں۔ دوبار فرمایا: پھر فرمایا: ہاں ان کی سیئات سے نفرت کریں لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہ کریں۔ (مسلم)

گویا کہ ان کو برداشت کرنے کی صرت ایک شرط ہے کہ نماز خود بھی پڑھتا ہو اور لوگوں میں بھی اس کو قائم کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ نماز کے تارک رہیں تو خوش دلی کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے کہا کہ تو پھر ہم ان کے خلاف جہاد نہ کریں فرمایا: لا ما صلوا لا ما صلوا (مسلم) جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ ایسا نہ کیجیو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کو دل میں جگہ نہ دیں۔

ای من کرہ بقلبه وافكر بقلبه (مشكوٰة۔ ام سلمة)

حضرت عمر رضی اللہ  عنہ نے اپنے تمام عاملوں اور گورنروں کو یہ حکم کیا تھا کہ جو نماز کے احکام یاد نہیں رکھتا اور نہ وقت پر اسے ادا کرتا ہے مجھے ان کی دوسری کسی ڈیوٹی اور ذمہ داری پر بھروسہ نہیں ہے۔ یعنی وہ دوسری تمام صلاحیتوں کے باوجود ’نا اہل‘ تصوّر کیے جائیں گے: الفاظ یہ ہیں:

ان عمر بن الخطاب کتب الی عماله ان اھم امركم عندي الصلوٰة فمن حفظھا و حافظ عليھا حفظ دينه ومن ضيعھا فھو لما سواھا اضيع (رواه مالك باب وقوت الصلوٰة)

اس سے معلوم ہوا کہ بے نماز لیڈر سے دین و ملت کی کسی قسم کی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ گو بظاہر ایسا نظر آئے کہ ترقی ہو رہی ہے لیکن انجام کار پوری قوم اپنی روایات سے اجنبی اور اپنے مرکزی محور سے بہت دور جا پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ غیر مسلموں کی طرح وہ بھی ملک اور قوم کی دنیا بنا ڈالیں لیکن ایک مسلم کی حیثیت سے ان سے دین و ملت کو فروغ نصیب ہو، مشکل ہے۔ جیسا کہ اب تک ان ظالموں کو برداشت کرنے کی سزا ہم پا رہے ہیں کہ گو ہم جیتے ہیں لیکن ایک مسلم کی حیثیت سے بالکل نہیں۔ بالکل نہیں! حالانکہ ہمارا معیار یہی ہے اور صرف یہی۔

(ج) کیا اسلام پرانا ہو گیا ہے: اسلام ازلی اور ابدی ہے۔ ایسی شے کبھی بھی کہنہ نہیں ہوتی۔ اسلام اور اس کا نظام آج بھی ایسا ہی فطری اور توانا ہے جیسا کہ وہ روزِ اول تھا۔

باقی رہی مسلم کی نکبت، ادبار اور تنزلی؟ سو وہ اس لئے نہیں کہ، مسلمان حاملِ اسلام تھے، اس لئے ان کو یہ سزا ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول جارج برنارڈ شاہ: عیسائیوں نے عیسائیت چھوڑی تو ترقی کی اور مسلمانوں نے ’اسلام‘ کو چھوڑا تو وہ پستی اور تنزل کے گڑھے میں گرے۔ اسلام کو اپنانے کی بنا پر تنزل ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ اسلام لے ڈوبا، حالانکہ یہاں معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔ اصل میں اسلام کے سلسلے میں غفلت ہی ہمیں لے ڈوبی ہے۔

اصل میں یہ غلط فہمی، اسلام نافہمی سے پیدا ہوئی ہے، یار دوستوں نے اسلام کا مفہوم، عام پوجا پاٹ اور نعرہ تصور کر لیا ہے، اس لئے وہ سمجھنے لگے ہیں کہ، جب اسلام کے نام پر جلسے ہوتے ہیں، وعظ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کچھ درود وظیفے اور عبادتیں بھی کر لیتے ہیں تو پھر مسلمان نے ترقی کیوں نہ کی اور اسلام نے ان کو فرش سے اٹھا کر عرش پر کیوں نہ پہنچا دیا؟

حالانکہ یہ اسلام کا بالکل عجمی مفہوم ہے جو عموماً ایک مذہب کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے۔ اسلام کا اسلامی اور قرآنی مفہوم اس سے قطعی مختلف ہے۔

اسلام کا قرانی مفہوم یہ ہے کہ پورے حضورِ قلب کے ساتھ اپنا پورا رخ اپنے اللہ کی طرف کر لیا جائے اور پھرتا آخر اسی کے ہو رہیں۔

﴿بَلٰی مَنْ اَسْلَمْ وَجْھَه لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ﴾ (پ۱۔ بقره۔ ع۱۲)

واقعی بات تو یہ ہے کہ جس نے خدا كے آگے سر تسليم خم كر ديا اور پورے حضور قلب كے ساتھ۔ کیونکہ اِلا (سچا خدا) صرف ایک ہے، اس لئے تم بھی صرف اسی کے ہو رہو!۔

﴿فَاِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَه اَسْلِمُوْا﴾ (پ۱۷۔ الحج۔ ع۵)

جیسے ابراہیم خلیل اللہ کا طریقہ تھا۔

﴿وَاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرَاھِيْمَ حَنِيْفًا ﴾(پ۵۔ النساء۔ ع ۱۸)

اور اس نے حضرت ابراہیم کے طریقے کا اتباع کیا جو سرتاپا حنیف تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور نعرہ یہ تھا۔

﴿اِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْن﴾ (پ۷۔ الانعام۔ ع۹)

(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا) میں نے تو ایک ہی کا ہو کر اپنا رُخ صرف اسی (ذات پاک) کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (یقین کیجئے) میں ’ہرجائی‘ (مشرکوں میں سے) نہیں ہوں۔

جب یہ سٹیج آئی تو رب نے بھی آپ کو اپنا ’دوست اور یار‘ بنا لیا۔

﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرَاھِيْمَ خَلِيْلًا ﴾(پ۷۔ النساء۔ ع۱۸)

محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگوں سے فرما دیجئے کہ اگر میرے طریقے اور طرزِ حیات پر تمہارا دل نہیں جمتا تو نہ سہی، میں تو بہرحال تمہارے باطل معبودوں کے پیچھے چلنے سے رہا۔ میں تو صرف اس کا غلام رہوں گا جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں اس کے ماننے والوں میں سے ہو رہوں اور دین حنیف پر قائم رہوں، ہرجائی نہ بنوں اور نہ ہی اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں۔

﴿قُلْ يٰٓاَيَّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰكُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَكَ لِلْدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. وَلَا تَدْعُ مِنَ اللّٰهِ﴾ الاية (پ۱۱۔ يونس۔ ع۱۱)

چنانچہ مسلمانوں سے فرمایا:

﴿اَنِيْبُوْا اِلٰي رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَه ﴾(پ۲۴۔ زمر۔ ع۶)

اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دو۔

تو جو (یوں) مسلمان ہو گیا (بس) اس نے سیدھا رستہ ڈھونڈھ نکالا۔

﴿فَمَنْ اَسْلَمْ فَاُوْلٰٓئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا﴾ (پ۲۹۔ الجن۔ ع۱)

اس کے لئے پھر دونوں جہانوں میں خطرے والی کوئی بات نہیں۔

﴿فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَلَا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (پ۱۔ بقره۔ ع۱۳)

جس نے یوں رب اور رسول کی اطاعت نہ کی تو پھر ان کے لئے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔

﴿مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَھَنَّمَ﴾ (پ۲۹۔ الجن۔ ع۱)

نیز فرمایا کہ دنیا کی زندگی بھی شکنجہ میں رہے گی۔

﴿وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا ﴾(پ۱۶۔ طہ۔ ع۷)

یہ ہے وہ اسلام جس کے حامل سدا گردن فراز اور اوج ثریا پر فائز رہ سکتے ہیں۔ کیا آج کا مسلمان بھی اسی اسلام کا حامل ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں ہے تو پھر ان نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے جو صرف ’مسلم حنیف‘ کے لئے مخصوص اور موعود ہیں۔

تسلی رکھیے! اللہ تعالیٰ کو تمہیں دکھ دینے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر اب بھی تم اس کے ممنون ہو رہو تو وہ اب بھی بڑا قدر دان ہے، سینہ سے لگا لے گا۔

﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰہُ شَاكِرًا عَلِيْمًا ﴾(پ۶۔ النساء۔ ع۲۱)

باقی رہے ہمارے یہ نعرے، جلسے جلوس اور چند اسلامی رسومات کی پابندی؟ سو پہلے تو وہ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نمونہ ہے، یعنی دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اس کے علاوہ، وہ بھی پورے حضورِ قلب کے ساتھ نہیں ہو رہا، بلکہ اس کا سارا رنگ ’ذہنی تعیش‘ کا رنگ ہے۔ اس لئے آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ اسلام کے نام کے جس کام میں ’رونق میلے‘ ہوں گے وہاں بچے سے لے کر بوڑھے تک سب سرگرم نظر آئیں گے اور جہاں ‘نمائش‘ کے یہ مواقع یا استحصال کے امکانات کم ہو جاتے ہیں وہاں ’اسلام کا رُخِ زیبا‘ لے کر بھی نکلیں گے تو آپ کو ایک بھی ’رفیقِ سفر‘ نظر نہیں آئے گا، خاص کر وہ تنہائیاں جہاں رب سے مناجات ہوتی ہے اور ایک ’مسلم حنیف‘ کی تخلیق اور تعمیر بھی ممکن ہوتی ہے، آپ کو بہرحال ویران اور سنسان نظر آئیں گی، کیونکہ اصل مرض یہ ہے کہ ان کو خدا نہیں چاہئے، نقد چاہئے، فرد کا انتظار کون کرے؟ اس لئے قصور اسلام کا نہیں، نام لیواؤں کا ہے کہ انہوں نے اسلام کی شرم نہیں رکھی اور اسلام کے پیچھے چلنے کے بجائے اسلام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اب ان کے پیچھے چلے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نتیجہ وہی برآمد ہو سکتا ہے جس کا آپ آج شکوہ کر رہے ہیں۔ جو اب شکوہ کے یہ چند بند آپ بھی ایک دفعہ مکرر پڑھ لیں، شاید ایمان تازہ ہو جائے۔

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خُوگر ہیں           امّتی باعثِ رسوائی پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں

بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں        تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آستام نئے بادہ نیا خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟                مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار ہو گئی کس کی نگہ طرزِ اسلاف سے بیزار

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود                      ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود                    یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

ہر کوئی مست مۓ ذوقِ تن آسانی ہے             تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے

حیدری فقرہے نے دولتِ عثمانی ہے              تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، بگڑی اب بھی بن سکتی ہے           ؎

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

یقین کیجئے!

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری         میرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری                        تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں