’’ محدث ‘‘ اور ’’ معارف اسلام ‘‘ کے ایک مضمون کا موازنہ
دونوں کے ایک عام قاری کی طرف سے
’’محدث‘‘ ایک علمی اور اصلاحی مجلہ ہے اس کا مقصد ہر قسم کے قدیم و جدید مسائل پر کتاب و سنت کی بنیاد پر محققانہ اور سنجیدہ تحریریں پیش کرنا ہے۔ یہ مجلہ اس اعتبار سے کسی فرقہ کی نمائندگی یا ترجمانی نہیں کرتا کہ اسے کسی دھڑے کا تحفظ یا دوسرے کو نیچا کرنا ہے بلکہ اس کی پالیسی فرقہ بندی اور دھڑے بندی کے خلاف ہے۔ مختلف اصولی اور فروعی مسائل پر مباحث کے سلسلہ میں اس کا مقصد خالق علم و تحقیق کی تبلیغ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ملتِّ اسلامیہ کے کسی فرعی مسئلے کی اہمیت اس کے نزدیک اتنی ہی ہے جتنی کسی اصول کی۔ کیونکہ محدث مسائل کے باہمی تفاضل کے باوجود ان کی علمی اہمیت اسی طرح مساوی سمجھتا ہے جس طرح انبیاء یا ائمۂ دین کے باہمی تفاضل کے باوجود ان کا احترام۔ اپنے اندازِ فکر میں وہ لا الٰہ الّا اللّٰہ کو اپنا شعار سمجھتا ہے یعنی دعوت و تبلیغ میں اثباتاً و نفیاً اس کا مقصود اطاعتِ حق ہے۔ اپنے قلمی معاونین اہلِ علم سے بھی وہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ تائید و تردید کی صورتوں میں اس کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھیں گے۔
زیرِ نظر مضمون کے سلسلہ میں بھی ہماری خواہش ہے کہ اگر بحث علمی تبادلۂ خیال کی حد تک قائم رہے تو ’محدث‘ میں اس کی اشاعت کی جائے ورنہ اس میدانِ کار زار سے پہلو تہی کر لی جائے۔ ترکی بہ ترکی جواب کی امید ہم سے نہ رکھی جائے اس سے ہم پیشگی معذرت کر لیتے ہیں۔ (ادارہ)
مولانا عزیز زبیدی ایک پختہ کار عالمِ دین اور پرانے صحافی ہیں۔ علمی حلقوں میں ان کی وسعتِ نظر اور محنت معروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ گرفت کرتے ہیں تو اس کا جواب بڑا مشکل ہوتا ہے۔ شیعہ کے ماہوار مجلہ ’معارفِ اسلام‘ کے ایڈیٹر جناب غیاث الدین صاحب آج کل اپنا حساب چکانے کے در پے ہیں اور صفحات کے صفحات کالے کر رہے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ کاغذ کی اس گرانی اور دیگر طباعتی مہنگائی کے دنوں میں اگر آپ کو اپنی فارغ البالی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہی تھا تو کم از کم ان مسائل کی طرف تو توجہ دیتے جو زیر بحث آئے تھے اور جن کی نشاندہی مولانا زبیدی صاحب نے معارفِ اسلام جون جولائی ۷۳ھ کے تعاقب کے جواب محدث کے سالِ رواں کے دو شماروں میں تفصیلاً کر کے اپنے موقف کی وضاحت کی تھی۔ دوسری قسط کے آخر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اصولی باتوں کی بجائے ادھر ادھر کی نوک جھونک پر وقت ضائع کرنا ہے تو ہم الوداعی سلام کہتے ہیں۔
میری سرِ راہ مولانا عزیز زبیدی صاحب سے ملاقات ہوئی تو معارف کے تازہ شمارہ اکتوبر ۷۴ء کے تازہ نگارشات اور مندرجات کی طرف توجہ دلائی۔ مولانا موصوف نے فرمایا کہ اگر جناب غیاث الدین صاحب اصولی مسائل اور علمی مباحث کی طرف آتے تو ہم بھی ان میں دلچسپی لیتے لیکن اب نوک جھونک کے جس میدان میں وہ الجھانا چاہتے ہیں وہ سب بے سود ہے۔ پھر ہماری تو پوزیشن یہ ہے کہ جب انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ تاریخی اور دینی مسائل میں ثقاہت اور علمی احتیاط کو ملحوظ رکھیں تو سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ مجتہدوں کو یہ مشورہ دینے والا کون؟ یہ ہمیں جاہل بتاتا ہے۔ پھر تعجب یہ کہ اگر دوست، معزز، فاضل اور محترم کے الفاظ سے ان کا ذِکر کیا جائے تو بھی برا مناتے ہیں۔ معاصر موصوف کی اس زود رنجی اور جذباتیت میں تبادلۂ خیال کیا لطف دے گا؟ میرا جواب تو یہ ہے کہ محدث اور معارفِ اسلام کے دونوں پرچے سامنے رکھ کر وزن کر لیا جائے۔ ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
مولانا زبیدی صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے دونوں کے متعلقہ شماروں کا موازنہ کیا تو مولانا زبیدی صاحب کے پیش کردہ حقائق اور بنیادی سوالات کا وزن معلوم ہوا۔ کاش کہ جناب غیاث الدین صاحب طعن و تشنیع کی بجائے شیعہ سے منسوب عقائد و افکار کی حقیقت سے انکار کرتے بلکہ وہ و سٹپٹاتے بھی ہیں اور تسلیم بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں چڑ کر اور کہیں مسائل سے پہلو تہی کر کے یعنی خاموشی اختیار کر کے۔ تاہم موازنہ میں سہولت کے پیش نظر عام قارئین کے لئے چند امور پیش کیے دیتا ہوں تاکہ جناب غیاث الدین صاحب کی طول طویل تحریر کی نقاب کشائی ہو سکے۔
تازے شمارے کی بات: تقریباً ہر سال ’معارف اسلام‘ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نمبر نکلتا ہے۔اس کے پےدر پے چرکوں سے قاری کے زخم گہرے ہوتے رہتے ہیں۔ عموماً باتیں وہی ہوتی ہیں جو پہلے پرچوں میں آچکیں جن سے پچھلا تاثر بھی ہرا رہتا ہے گویا لفظوں کا ہیر پھیر تو ممکن ہے لیکن ایک سے مفاہیم و مطالب کی بار بار رٹ ہوتی ہے اور پرانے مغالطات دہرائے جا رہے ہوتے ہیں اس لئے جناب غایث الدین صاحب کا اس بات پر جزبز ہونا کہ کسی سابقہ اشاعت یا اشاعتوں پر تبصرہ کیوں کیا گیا معقول بات نہیں ہے۔ نیز تقریر و تحریر کا فرق بھی واضح ہے۔ تحریر جب بھی نظر کے سامنے آئے تازہ ہی کی مانند اثر کرتی ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ جناب غیاث الدین صاحب اگر ’معارف اسلام‘ کی تحریروں کا اثر اتنا وقتی اور فوری زوال پذیر سمجھتے ہیں تو اس صحافت سے کیا فائدہ؟ لکھنے والے کو تو بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہئے تاکہ بعد میں پشیمانی نہ ہو کیونکہ تحریریں نہ صرف دائم العمر بلکہ دنیا سے جانے کے بعد بھی تازہ ہی رہتی ہیں۔ کما قال القائل
یلوح الخطّ فی القرطاس دھرا وکاتبه رميم في التراب
یعنی کاغذ میں تحریر زمانہ بھر جھلکتی رہتی ہے حالانکہ اس کے کاتب کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکتی ہیں۔
واقعی جناب ایڈیٹر ‘معارفِ اسلام‘ تحریر کی اتنی سی اہمیت سے ناواقفی کے بعد اپنی صحافت دانی کے بڑے زعم میں معذور ہی نظر آتے ہیں۔ ایسوں کو تو کوئی سکھانے سے بھی رہا۔
علاوہ ازیں آپ ہی بتائیے کہ شیعہ حضرات آج بھی بنو امیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کی تیرہ چودہ صد سالہ پرانی آویزش کو بھولی بسری قرار دینے کے لئے تیار نہیں۔ جب محرم کے دن آتے ہیں تو ان کا لہو گرم ہو جاتا ہے اور آپ وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا! اگر اس ساری نوحہ گری اور سینہ کوبی کا جواز تیرہ صدیوں بعد بھی تبّروں کی صورت میں آپ کے ہاں تسلیم ہے تو ایسی تحریر کو آپ ’ناقابلِ مواخذہ‘ منوانے پر تلے بیٹھے ہیں جسے شائع ہوئے ابھی تیرہ سال بھی نہیں گزرے۔ یاللعجب!!
محدث کا عنوان: جناب غیاث الدین صاحب کو محدث کے شمارہ محرم و صفر ۱۳۹۳ھ میں عنوان فرضی خلیفہ بلا فصل۔۔۔ چھپ جانے سے ایک بے سروپا مسئلے پر جولانیٔ قلم دکھانے کا نادر موقعہ بھی مل گیا اور انہوں نے اس یقین پر کہ ’معارف اسلام‘ کا کوئی قاری ’محدث‘ کا ہے کو دیکھتا ہو گا اپنے زعم میں میدان مار لیا ہے کہ یہ عنوان ہی درست نہیں حالانکہ نہ صرف اسی مضمون کی دوسری قسط میں اس ’سہو کتابت‘ کا ازالہ کر دیا گیا اور ادارتی نوٹ کی صورت میں بھی تصحیح کر دی گئی تھی بلکہ اسی پہلی قسط کی دوسری سطر میں ’خلیفہ بلا فصل اور وصی رسول اللہ‘ کا حوالہ بھی موجود ہے۔ اس کے بعد اکتوبر ۱۹۷۴ء مطابق رمضان ۱۳۹۴ء کے شمارہ معارفِ اسلام میں اس عنوان سے بحث بے سود ہے۔ قارئین کے لئے واضح ہے کہ یہ ادھر ادھر کی باتوں میں الجھاؤ اور رکج بحثی صرف اس غرض سے ہے کہ اصل بحث سے تو کنارہ رہے اور پڑھنے والوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ جناب غیاث الدین نے اکیس صفحات میں جواب دیا ہے۔
علمی ثقاہت کا لحاظ: جناب غیاث الدین صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ علمی ثقاہت کو ملحوظ رکھا کریں اور خانہ ساز مفروضات سے پہلو تہی کریں۔ مثلاً جناب نے لکھا ہے کہ قرآن اور احادیثِ صحیحہ کی رُو سے آل جزو محمد مصطفیٰ ہے۔۔۔۔ اسی لئے قرآن حکیم میں آیت درود میں یصلون علی النبی آیا ہے یصلون علی نبی نہیں آیا۔ یعنی (الف لام) جنسی آیا ہے یعنی نبی اور اس کے ہم جنس پر درود ہے۔ (معارفِ اسلام جون ۱۹۷۳ء، ص ۱۴)
اس کا جواب زبیدی صاحب نے لکھا تھا کہ اس کی داد تو علامہ رضی (شیعہ) بو علی سینا، فارابی اور کندی جیسے فلسفی ہی دے سکتے ہیں۔ (محدث جمادیین ۱۳۹۳ھ ملخصاً)
جناب اس تلمیح سے ناراض ہو گئے ہیں کیا یہ انصاف ہے؟ مولانا محترم نے لکھا تھا کہ غیر ذمہ دارانہ اور عامیانہ علم کلام و عربیت کی وجہ سے جدید طبقہ بجائے خود دین سے بدکنے لگا ہے۔ اسلام پر رحم کریں اور کچھ طور بدلیں۔ (محدث محرم و صفر ص ۲۰ ملخصاً)
یہ خالص درد مندانہ بات تھی مگر آپ نے اس کا بھی برا منایا حالانکہ بات اسلام کے مستقبل کے لئے تھی مگر جناب نے اس کو ذاتی مسئلہ بنا لیا۔
حالات کی نزاکت کا واسطہ: مدیر معارفِ اسلام نے لکھا ہے کہ وقت اتحاد کا ہے جھگڑے کا نہیں۔ اس لئے اس مضمون کی ضرورت نہیں۔ اس پر مولانا نے معارف کی جارحیت کے وہ اشتعال انگیز نمونے دکھائے جو صحابہ کرام جیسی نفوسِ قدسیہ اور خود اہلحدیث بزرگوں کے خلاف کی گئی تھی۔‘‘ پھر ان س پوچھا تھا کہ صلح کل کے یہی نمونے ہیں؟ معارف نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اگر دیا بھی تو اور فاش ہو گئے یعنی کہا کہ ہم تو صحابہ کا احترام کرتے ہیں ماسوائے چند افراد کے جو کہ دشمنانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے (اکتوبر ۷۴ء) غور فرمایا: معارف نے کیا کہا؟ پھر ان صحابہ کی لسٹ پیش کی جن کا وہ احترام کرتے ہیں۔ ابو ذر، سلمان، علی، عمار، حذیفہ، جابر، ابو سعید خدر، ابن عباس۔ باقی رہے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم وہ خود ہی سمجھ لیجئے!
لطیفہ: جناب نے اویس قرنی کا نام بھی اس لسٹ میں پیش فرمایا ہے (معارف ص ۷۰) ماشاء اللہ کتنی عظیم دریافت ہے؟ اہل حدیثوں اور صحابہ کے سلسلے میں ان کی جارحیت کے نمونے محدث صفر ص ۲۳ تا ۲۶ ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو ان کی صلح جوئی اور نزاکتِ وقت کا اندازہ ہو جائے۔
خلافت و عصمت: پھر مولانا نے خلاف کی حقیقت اور اقسام سے بحث کی اور خوب کی، اس کے علاوہ خلیفہ کے معصوم ہونے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ کیا بات ہے قرآن اور خود شیعہ حضرات کی تصریحات کے خلاف ہے؟ ملاحظہ ہو محدث جمادی الاولیٰ والآخرۃ۔ ص ۲۳ تا ص ۲۵۔
معاصر معارف نے اس پر کتنی توجہ دی؟ وہ آپ کے سامنے ہے!
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام: شیعوں کے معارف کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا ہیں؟ خدا سے بھی اونچے۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایسی ہستی ہے تو پھر خلافت کا مقام ان کے لئے فروتر ہے۔ آپ کے نزدیک ان کے لئے تو عرش و کرسی چاہئے یعنی ’خدا کا سٹیج۔ (ایضاً ص ۲۶ تا ص ۳۶)
اس کا جواب انہوں نے کیا دیا؟ معارف آپ کے سامنے ہے۔
شیعوں کے آئمہ معصومین: شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ معصوم ہوتے ہیں۔ مولانا موصوف نے شیعوں کی اپنی تصریحات کے آئینہ میں ان کو دکھایا ہے کہ کیا معصوم ایسے ہوتے ہیں؟ ص ۳۱ تا ص ۳۵۔ معارف میں اس کا کتنا ذکر ہے خود ہی ملاحظہ فرما لیں۔
شیعوں کا قرآن و حدیث: قرآن و حدیث کے سلسلے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ زبیدی صاحب نے پوری تفصیل دی کہ ان کا اس قرآن پر ایمان نہیں یہ کسی اور قرآن کے منتظر ہیں۔ (محدث ص ۳۰ تا ۳۷)
معارف کو دیکھیے! اس موضوع کا بھی اس میں کوئی نشان نہیں ملتاً
ہم بیعت کرنے کو تیار ہیں:
مولانا زبیدی صاحب نے بڑے اچھوتے انداز میں اس پر روشنی ڈالی ہے کہ! قرآن آپ کا غائب، امام بھی غائب، تقیہ آپ کا ایمان، آخر وہ کس منہ سے شیعی نظامِ سیاست کی طرف دنیا کو دعوت دیتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کی بات مان لے تو یہاں آکر کیا کرے گا۔ ملک کا بنیادی دستور غائب، امام بھی ندارد۔‘‘ پھر بیعت کس کی اور کاہے کے لئے؟ص ۳۵ تا ۳۷ ملاحظہ فرمائیں۔
اس کی طرف کتنی توجہ فرمائی؟ وہ ان سے پوچھیے!
تقیہ: مولانا نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ: تقیہ ان کے مذہب کی جان ہے اس لئے خلافت تو بڑی بات عام معاملات میں بھی ان پر بھروسا کرنا مشکل ہے۔
جناب غیاث الدین صاحب نے اس کی تردید نہیں فرمائی بلکہ مزید تائید فرمائی ہے مگر اس دعوے کے ساتھ کہ تمہارے فلاں بزرگ نے بھی ایسا لکھا ہے۔ یہ بات کہ تمہارے بزرگوں کا کیا نظریہ ہے یہ موضوع الگ۔ جناب مدیر معارف نے بہرحال اس کا اعتراف کر لیا ہے کہ تقیہ ان کے نزدیک کار ثواب ہے۔ فہد المقصود! ہم نے بھی تو یہی کہا ہے کہ تقیہ ان کا مذہب ہے پھر غصہ کاہے کا؟
یہ وہ مسائل تھے جو معارف اسلام سے تنقیحات کی شکل میں مولانا نے پیش کیے تھے۔ قارئین اندازہ فرمائیں کہ معارف اسلام نے اپنے صفحات میں ان کی کیا وضاحت پیش کی اور کس کس کا جواب دیا ہے؟؟