فروری 2011ء

توہین رسولﷺکی شرعی سزا:بعض اہم سوالات

توہین رسالت کےحوالہ سے ملک بھر میں جاری بحث مباحثہ میں بعض ایسے اعتراضات بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ توہین رسالت کی سزا یا تو شرعی طورپر ایک مسلمہ امر نہیں، یا اس کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کے اعتراضات نے چونکہ میڈیا کے ذریعے ہر عام وخاص کو متاثر کیا ہے، اس لئے ان کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کے موقف کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ تو معاف کرنے والے اور رحمت للعالمین ہیں!
کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ سے توہین رسالت کی اتنی سنگین سزا کا صدور بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔
جواب: آپ کی سیرتِ مطہرہ کا یہ پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کےعلاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اُصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہےبلکہ نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا۔ اور صحابہ کرام کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اُن کو قتل کرنے کی دعوتِ عام دی ۔ ایسے جانثار صحابہ کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اُن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولید، حضرت زبیر، عمیر بن عدی او رمحمد بن مسلمہ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ نے کھلی دعوت دی۔ محمد بن مسلمہ کو آپ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی ، ایسے ہی حضرت حسان بن ثابت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
''روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما!''
جہاں تک سیرتِ نبوی کے اس پہلو کا تعلق ہے جس میں آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا، تو اس کی وضاحت یہ ہے :
1. اس سلسلے میں آپ کو شخصی اذیت دینے والے اور آپ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں فرق کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کی ذاتِ مبارکہ یعنی محمد بن عبد اللہ کو اذیت دی، تو آپ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ کے منصب ِرسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اُنہیں آپ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصب ِرسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا او راپنے رسول مکرم کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔آپ کی ذات کے سلسلے میں زیادتی کی معافی بھی آپﷺ خود ہی دے سکتے ہیں، آپ کا کوئی اُمتی ایسا نہیں کرسکتا۔
2. تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو منصب ِنبوت میں نقب لگانے والے تھے، ان کا عبرت ناک انجام ہوا۔ ان لوگوں میں ابو لہب کے ذکر بد کے لئے ایک پوری سورت مخصوص کرکے اُسے نمونۂ عبرت بنادیا گیا، ابو جہل بدر میں مارا گیا، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ، اَسود بن عبد یغوث، اَسود بن مطلب، حارث بن عبطل سہمی اور عاص بن وائل یہ تمام نام اس انجام کا مظہر ہیں جو اللہ ربّ العزت ایسے لوگوں کا کیا کرتے ہیں۔تفسیر در ِّ منثور میں مذکور ہے :
''[مذکورہ بالا] افراد نے نبی کریم کا استہزا کیا جس سے آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ فوراً حضرت جبریلؑ تشریف لائے، اور ولید بن مغیرہ کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا، اس کی آنکھ پھوٹ گئی،آپﷺ نے فرمایا: میں نے تو کچھ نہیں کیا اورنہ کچھ کہا تو جبریل بولے: میں نے آپ کی طرف سے انتقام لیا ہے۔ پھر حارث کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑے درد سےلوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ آپ نے کہا : میں نے تو کچھ نہیں کیا،
تو جبریل بولے : میں نے آپ کا دفاع کیا ہے۔ ایسے ہی عاص بن وائل کے پاؤں کے ساتھ ہوا، اسود بن مطلب ایک درخت کے نیچے لیٹا تھا کہ ایک ٹہنی درخت سے گر کر اس کی آنکھ میں پیوست ہوگئی اور وہ اندھا ہوگیا۔ اسود بن یغوث کے سر میں شدید زخم نمودار ہوگیا جس سے وہ مارا گیا۔ اورحارث بن غیطل کے پیٹ میں صفرا اتنا شدید ہوگیا کہ غلاظت اس کے منہ سے خارج ہونے لگی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوئی۔ یہ پانچوں اپنی قوم کے سردار تھے، نبی کریم ﷺکا مذاق اڑانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ ''1
جب طائف کی وادی پر محسن انسانیت ﷺکو پتھرمارے گئے اور آپ کے قدمِ مبارک سے خون جاری ہوگیا تو جبریل امینؑ نےآسمان سے نازل ہوکر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان پر میں طائف کے پہاڑوں کو اُلٹادوں۔جواب میں آپ نے تاریخ ساز جملہ بول کر اپنی رحمت للعالمینی کو ثابت کردیا: جعلوا يرجمونه بالحجارة، وهو يقول:«اللهم اهد قومي، فإنهم لا يعلمون»2
'' طائف کے بدبختوں نے] آپ پر پتھراؤ شروع کردیا اور آپ جواب میں فرماتے جاتے: الٰہی ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ جانتے نہیں ہیں۔''
انسانی تاریخ میں شاتمانِ رسالت کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا، اس کےلئےدیکھئے مضمون: 'شاتمین رسول کا عبرت ناک انجام: تاریخ کے آئینے میں'3
3. بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خودایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اُس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی او رنبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں4 جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے5 عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں اور دیوانہ ہے؟6 قرآنِ کریم میں صحابہ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی:
﴿لَتُبلَوُنَّ فى أَمو‌ٰلِكُم وَأَنفُسِكُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَ‌كوا أَذًى كَثيرً‌ا وَإِن تَصبِر‌وا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذ‌ٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ‌ ١٨٦ ﴾.... سورة آل عمران
''البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤگے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔''
سیدنا اُسامہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ
«وکان رسول اللہ ﷺ یتأول في العفو ما أمرہ اللہ عزوجل به حتی أذن اللہ فیھم فلما غزا رسول اللہ ﷺ بدرًا فقتل اللہ بها من قتل من صنادید الکفار وَسَادَةِ قُرَيْشٍ»7
''نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو ان کے بارے اجازت دے دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔''
گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں، ان کی توجیہ بھی یہی ہے جیسا کہ حبر الامہ سیدنا ابن عباس فرماتے8 ہیں:
﴿فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ کا عفو و درگزر والا حکم آیت ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ﴾....التوبة "سے منسوخ ہوا۔ «فنُسِخ ھذا عفوہ عن المشرکین» ''اس نے مشرکوں کے بارے میں آپ کی معافی کو منسوخ9 کردیا ہے۔'' (مختصراً)
ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں گستاخانِ رسول کی باقاعدہ سزا سے قبل اللہ تعالیٰ نے شاتمانِ رسالت کو خود کیفر کردار تک پہنچایا اور اس وقت تک مسلمانوں کو اس دشنام طرازی کا ردّعمل پیش کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مزید برآں نبی کریمﷺ اپنی رحمت وشفقت کی بنا پر اپنا شخصی حق معاف توفرما سکتے تھے، لیکن شان رسالت میں زیادتی پر معافی کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔
شاتم رسول کی توبہ کا مسئلہ؟
اس سوال کے دو مختلف پس منظر ہیں او رہر دو کی وضاحت بھی علیحدہ ہے:
(1) اُصولی طورپر شاتم رسول کی توبہ کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ اس بنا پر دیگر جرائم کی طرح جب اس کا علم عوام تک ہوجائے، مسلم حکمران اور اسلامی عدالت تک پہنچ جائے تو دیگر جرائم کی طرح اس کی سزا کی معافی نہیں ہوسکتی۔جیسا کہ چوری ایک گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے یعنی دنیا میں ا س فعل کے ارتکاب پر مسلم حکومت اس کی سزا دینے کی پابند ہے۔چوری کے بارے میں مشہور واقعہ کتب ِاحادیث میں آتاہے :
«عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً فَرَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ قَالَ: فَلَوْلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ يَا أَبَا وَهْبٍ فَقَطَعَهُ رَسُولُ الله ﷺ»10
''صفوان بن اُمیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے چادر چوری کی تو اس کا کیس نبی کریمﷺ تک پہنچایا گیا، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ شکایت کنندہ نے کہا : میں نے اس کو معاف کردیا تو آپ نے فرمایا: ابو وہب ! میرے پاس آنے سے پہلے پہلے تو نے اسے معاف کیوں نہ کردیا۔ سو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔''
اسلام میں جرائم کے حوالے سے دو طرح کےحقوق میں خلل واقع ہوتا ہے: پہلا حق اللہ اور دوسرا حق العباد۔ یعنی ان جرائم کو اللہ نے بھی حرام قرار دیا ہے اور انسانوں کے مصالح بھی اس سے متاثرہوتے ہیں۔ چوری اور زنا کی طرح شتم رسول کے مسئلے میں بھی حق اللہ کے علاوہ حقوق العباد میں نبی کریمﷺ کا حق شدید متاثر ہوتاہے او رعامتہ المسلمین کا حق بھی،جنہیں نبی کریم سے غایت درجہ محبت کی بنا پر اس فعل پر شدید تکلیف ہوتی ہے۔
جہاں تک توبہ کی قبولیت کی بات ہے تو جب تک یہ معاملہ اللہ اور بندے کے مابین ہوتا ہے، اس وقت تک اللہ کے حق کی تکمیل خلوصِ دل سے توبہ کرنے کے ذریعے ہوسکتی ہے، ایسے ہی متاثر ہ فریق جس کے حق میں زیادتی کی گئی ہے، اگر وہ چوری کی صورت میں قاضی کے پاس پہنچنے سے قبل معاف کردے تو تب بھی مجرم کی سزا معاف ہوسکتی ہے۔ البتہ جب یہ معاملہ عوام الناس اور حاکم وقاضی کے پاس پہنچ جائے ، تو اس وقت مسلم حکام پر برائی کی نشرواشاعت کے خاتمہ اور نفاذِ شرع کی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ تاہم جرائم کے اس سلسلے میں قتل کا معاملہ دیگر جرائم سے مختلف ہے ،کیونکہ کسی نفس کوقتل کردیا جانا ایک بہت ہی اہمیت والا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر حدود یا جرائم سے قطع نظر قصاص کی صورت میں جواباً قتل کی سزا کی معافی کا اختیاربھی حاکم کے پاس پہنچ جانے کے باوجود متاثرہ فریق کے پاس رہتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَمَن قُتِلَ مَظلومًا فَقَد جَعَلنا لِوَلِيِّهِ سُلطـٰنًا فَلا يُسرِ‌ف فِى القَتلِ إِنَّهُ كانَ مَنصورً‌ا ٣٣ ﴾.... سورة الاسراء
''اور جو انسان ناحق قتل کردیا جائے تو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی۔''
دوسرے مقام پر قرآن کریم میں ہے:
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعر‌وفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ ذ‌ٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَ‌بِّكُم وَرَ‌حمَةٌ....١٧٨ ﴾.... سورة البقرة
''اور جو شخص اپنے بھائی کی طرف سے معاف کردیا گیا،تومعروف طریقہ سے دیت کا تصفیہ ہونا چاہئے اور قاتل کو چاہئے کہ راستی کے ساتھ ادائیگی کرے۔یہ تمہارے ربّ کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔''
واضح ہوا کہ اسلام میں جرائم کی توبہ کے دو پہلو ہیں: اللہ کا حق اور بندوں کا حق۔ مسلمان کی مخلصانہ توبہ سے اللہ کاحق تو ختم ہوجاتا ہے،لیکن متاثرہ فریق اور بعض اوقات مسلم معاشرے کا حق برقرار رہتا ہے، جس بنا پر اس کو دنیاوی سزا دی جاتی ہے۔ اگر محض توبہ کرنے سے اسلام میں سزا معاف ہوجاتی تو اس توبہ کا سب سے زیادہ حق ان صحابہ کرام کو حاصل تھا جنہوں نے گناہ کی سرزدگی کے بعد اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کے لئے حضور ﷺ کے دربارِ رسالت میں پیش کردیا تھا۔ دورِ رسالت میں ایسے واقعات جن میں زنا اور چوری کے مرتکب صحابہ نے اپنے آپ کو خود پیش کیا، ان کی تعداد درجن سے زائد ہے۔ اور اُنہی میں سے ایک صحابیہ غامدیہ کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے اس صحابیہ کو بار بار واپس بھیجا کہ
٭ کیا تمہیں دیوانگی تو لاحق نہیں ہے؟
٭ وضع حمل کے بعدآنا: «فاذهبي حتى تلدي فلما ولدت أتته بالصبي في خرقة»
٭ پھر وہ صحابیہ وضع حمل کے بعد آئی تو کہا : بچے کی رضاعت کے بعد آنا
٭ تب وہ صحابیہ آئیں اور بچے کےہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ (صحیح مسلم:1695)
اگر محض توبہ سے شریعت ِاسلامیہ کے بیان کردہ جرائم کی سزا ختم ہوجاتی تو اس صحابیہ کی ختم ہونا چاہئے تھی جن کے بارے میں نبی کریم نے تعریفی جملہ ارشاد فرمایا تھا۔ ایک اورروایت میں مختصر واقعہ اور تعریفی جملہ یوں بیان ہوا ہے:
«امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللہ ﷺ وَهِيَ حُبْلَى مِنْ الزِّنَى فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللہِ أصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَدَعَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ وَلِيَّهَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ تُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اللهِ وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا للہِ تَعَالَى»11
''جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی اور وہ زنا کی بنا پر حاملہ تھی۔کہنے لگی: یارسول اللہ! مجھ پر حد لگا دیجئے، میں نے شرعی حد کو پامال کیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا او رکہا کہ اس سے اچھا سلوک کرنا اور وضع حمل کے بعد میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسے ہی کیا، تب نبی کریم نے اس کے بارے میں حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیے گئے پھر اس کو رجم کردیا گیا۔ نبی کریم نے اس عورت کی دعائے مغفرت کی۔ سیدنا عمر کہنے لگے: آپ اس کی دعاے مغفرت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ وہ تو زانیہ تھی۔ سید المرسلین نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ستر اہل مدینہ پر بھی تقسیم کردی جائے تو ان کو بھی کافی ہوجائے۔ اس سے بہتر توبہ کیا ہوگی جس میں اس نے اپنے آپ کو خود ربّ کے حضور پیش کردیا۔''
دورِ نبوی میں ایسے واقعات صرف زنا کے بارے میں نہیں بلکہ چوری وغیرہ کے بارے میں بھی ملتے ہیں۔ ان اعترافات کے پیچھے دراصل شریعت ِاسلامیہ کا یہ تصور موجود ہے:
«قَالَ مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتُهُ فِي الدُّنْيَا فَالله أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَى عَبْدِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَهُ الله عَلَيْهِ وَعَفَا عَنْهُ فَالله أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَى شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ»12
نبی کریم ﷺ کا فرما ن مروی ہے کہ جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا، اور اسے دنیا میں ہی اس کی سزادے دی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عادل ہیں کہ اس شخص پر آخرت میں سزا کو دوبارہ عائد کریں۔اور جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا او راسے معاف کردیا تو اللہ اس سے کہیں زیادہ کریم ہیں کہ معاف کردہ جرم کی پھر سزا دیں۔''
ان شرعی تصورات کو ملایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ جرائم کی سزا محض توبہ،حتیٰ کہ خود اعترافِ جرم کرلینے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردینے سے بھی رفع نہیں ہوجاتی۔ تاہم اگر کوئی انسان دنیا میں یہ سزا پالے تو قیامت کے روز یہ سزا اس کے لئے جرم سے کفارہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی اس حالت میں جب اس سزا کے ملنے پر وہ نادم ہو۔ اگر وہ نادم نہیں تو دنیا میں ملنے والی سزاکے باوجود آخرت میں بھی اس پر مزید سزا دی جائے گی۔ ان حالات میں کسی مجرم کا اپنے آپ کو خود سزا کیلئے پیش کرنا ایک قابل قدر ، قابل تعریف اورعزیمت والا فعل ہے جس کی تعریف خود زبانِ رسالت سے بیان ہوئی ہے۔
توہین رسالت دیگر جرائم کی طرح ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مل کررہے گی۔ مذکورہ بالا استدلال کے علاوہ شاتم رسو ل کی توبہ قبول نہ ہونے کی براہِ راست دلیل حدیث ِنبوی میں درج وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں شاتم رسول عبد اللہ بن ابی سرح کی توبہ کا مسئلہ پیش آیا۔ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے:
«أَمَّا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ بَايِعْ عَبْدَ اللهِ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللهِ مَا فِي نَفْسِكَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»13
''جہاں تک عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کی بات ہے تو اس نے سیدنا عثمان بن عفان کے ہاں پناہ لےلی او رجب نبی کریم ﷺنے لوگوں کو بیعت کے لئے دعوت دی تو عثمان اس کو بھی ساتھ لے آئے۔ حتی ٰ کہ اس کو نبی کریم کے پاس لا کھڑا کیا اور کہنے لگے: یارسول اللہ! عبد اللہ کی بیعت قبو ل کر لیجئے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ آپﷺ نے سرمبارک بلند کیا اور تین بار اس کی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت سے انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ ﷺ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی عقل مند آدمی نہیں تھا ؟ جو عبد اللہ کو قتل کردیتا جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سے ہی اشارہ فرما دیتے۔تو آپﷺ نے کہا: کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارے کرے۔''
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے جرم سے معافی کی سزا اسی وقت مل سکتی ہے جب نبی کریم ﷺ خود اپنے حق میں زیادتی کو معاف فرما دیں جیسا کہ مذکورہ بالا واقعات ميں بادلِ نخواستہ آپ نے عبد اللہ بن ا بی سرح کی توبہ کو منظور کرلیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد چونکہ اَب آپ کی ذات کی طرف سے یہ معافی دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ، اس لئے گستاخِ رسول کی سزا بھی معاف نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال یہ بعض اہل علم کا قول ہے، تاہم توہین رسالت میں اگر مسلمانوں کی حق تلفی کو بھی شامل کیا جائے جو بہت اہم پہلو ہے، تو اس کی سزا کی معافی کا کوئی اِمکان نہیں رہتا۔
٭ یاد رہے کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ توہین رسالت کے مجرمین سے توبہ کا مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا اور ان کا جرم اتنا سنگین ہے کہ فتح مکہ کےموقع پر عام معافی کے دن اور امن و امان کے مرکز مسجد ِحرام میں بھی آپﷺ نے ان کی سزا میں کوئی رعایت نہیں کی ۔ جب آپﷺ نے تمام لوگوں کو امن وامان دے دی تو اس دن بھی گستاخانِ رسول کو امان نہ دی:
«لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ اقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ»14
'' فتح مکہ کے روز نبی کریمﷺ نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے ۔ فرمایا: ان کو قتل کردو، اگرچہ تم اُنہیں کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے بھی پالو۔ ان میں ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا، دوسرا عبد اللہ بن خطل، تیسرا مقیس بن صبابہ اور چوتھا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبد اللہ بن خطل کو تو اس حال میں قتل کیا گیا جبکہ وہ کعبہ کے غلاف سے لپٹا ہوا تھا۔'' حدیث میں آگے باقی لوگوں کی سزا کا تذکرہ ہے۔
٭توہین رسالت کو فقہاے کرام نے ارتداد قراردیتے ہوئے اس کی سزا قتل بیان کی ہے۔ اس سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ ارتداد کےتمام احکام مثلاً توبہ اور معافی وغیرہ بھی اس پر لاگو ہیں۔ بلکہ توہین رسالت کی ارتداد سے جزوی مشابہت پائی جاتی ہے اور فقہا نے سزائے قتل کی توجیہ کے طور پر اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ وگرنہ اِرتداد ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی بغیر سزا کے بھی توبہ ہوسکتی ہے ۔ جبکہ توہین رسالت ارتداد سے زیادہ بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے جس کی چوری اور زنا وغیرہ کی طرف سزا معاف نہیں کی جاسکتی۔
توہین رسالت کے ارتداد سے بڑا جرم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ارتداد میں تو صرف اسلام سے خروج پایا جاتا ہے، جبکہ توہین رسالت میں نبی اسلامﷺ پر جارحیت کرتے ہوئے اسلام سے خروج کیا جاتا ہے۔ اور اس میں آپ کے خلاف پروپیگنڈا اور زبان درازی بھی شامل ہے۔ چنانچہ خروج کی حد تک توہین رسالت کا جرم ارتداد ہے جبکہ مزید زیادتیوں کی بنا پر ایک قابل سزا جرم ہے جو صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ محدث کے گذشتہ شمارے میں توہین رسالت کےقابل سزا جرم ہونے کے بارے میں مسالک اربعہ کے ممتاز فقہا کے اقتباسات شائع کئے گئے تھے۔
٭پاکستان یا عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے موجودہ حالات میں توہین رسالت کے جرم کا اگر دینی مصالح کے لحاظ سے بھی جائزہ لیا جائے تو اس کو کسی طورقابل توبہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس دورِ زوال میں ہر کہ ومہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہونے کے بعد ، بظاہر توبہ کا داعی بن بیٹھے گا، حالانکہ توبہ کی اس کی کوئی خالص نیت نہ ہوگی۔ اس سے رحمۃ للعالمین کا تقدس اور ناموس دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل بن جائے گی۔یہ دور اس لحاظ سے بڑا دردناک ہے کہ اس میں غیر مسلموں نے اہانت ِرسول کو ایک کھیل اور مشغلہ بنا رکھا ہے، میڈیا کے اس دور میں تاریخ کی سب سے بڑی اور وسیع اہانت کا ارتکاب کیا جارہا ہے، جو مسلسل بھی ہے اور تنوع پذیر بھی۔ حتی کہ مسلم ممالک کے حکمران بلادِ اسلامیہ میں ایسا ظلم کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے ان کو فوری طورپر کفار کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچانے کی جلدی کرتے ہیں۔ اور پاکستان میں تو صورتحال یہاں تک افسوس ناک ہے کہ ایسے شاتم رسول افراد اور ان کے گھرانے عیسائی کمیونٹی او رمغرب نواز این جی اوز کی طرف سے سپانسر کئے جاتے اور خصوصی اعزاز وپروٹو کول کے مزے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورتحال کسی باخبر شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ ان حالات میں شریعت ِاسلامیہ کے اس حکم کی معنویت بالکل واضح بلکہ انتہائی ضروری نظر آتی ہے۔
(2) توہین رسالت کی توبہ کا دوسرا پہلو، اسلام سے قطع نظر، خالص جرم وسزا کےقانونی پہلو سے متعلق ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت ایک طے شدہ جرم ہے جس کے جرم قرار پانے کے تمام قانونی ضابطے بالکل مکمل ہیں۔کیا پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں کوئی اور بھی ایسے قوانین ہیں جن کی توبہ کی بنا پر ان کی سزاساقط ہوجاتی ہے۔ کیا پاکستان میں چوری یا فراڈ یا دہشت گردی کرنے کے بعد کوئی مجرم اگر توبہ کرلے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے؟ اگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے تو پھر کیا توہین رسالت ہی ایسا ہلکا جرم ہے جسے ایک مستند قانون ہوتے ہوئے بھی قابل توبہ قرار دینے کی سعی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح سے 20 نومبر کو شیخوپورہ میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ہمراہ ملاقات میں یہی قرار دیا تھا کہ ''آسیہ مسیح بے گنا ہ ہے۔ اگر اس نے کوئی کوتاہی کی بھی ہے تو وہ اب توبہ کرچکی اور معافی کی طالب ہے۔''
کیا توہین رسالت کی سزا غیر مسلم کو بھی دی جائے گی؟
میڈیا میں یہ سوال بھی تکرار سے اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ اگر یہ اسلامی قانون ہے تو پھر اس کو صرف مسلمانوں پر ہی نافذ ہونا چاہئے۔ غیرمسلم اور مسیحیوں پر اس قانون کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کے بھی دو مختلف تناظر میں دو علیحدہ جوابات ہیں:
(1) اسلامی پہلو سے:
1. یہ بات درست ہے کہ یہ اسلامی قانون ہے، لیکن اسلام کا یہ قانون، مسلمانوں سمیت تمام غیرمسلموں کو شامل ہے۔ اسلام کی رو سے جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہو، اس کویہ سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ
1. نبی کریم ﷺ نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
2. ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سےقتل کرایا۔ آپ نے عبد اللہ بن عتیک کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔15
3. حضرت زبیر کوآپ ﷺنے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔
4. عمیر بن اُمیہ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔
5. بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنت ِمروان کو عمیر بن عدی خطمی نے قتل کردیا اور نبی کریمﷺ نے اس فعل پر عمیر بن عدی کی تحسین کی۔
6. دورِ نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم ﷺکو دشنام کیا کرتی اورگستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اُس کا خون رائیگاں قرار دیا۔16
7. سیدنا عمر بن خطاب نے اپنے دورِ خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔
8. مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سےہم کنار کیا۔
ان تمام صورتوں میں کسی کے ذہن میں یہ شبہ تک نہیں اُبھراکہ اسلام کی رو سے غیر مسلموں کو توہین رسالت پر قتل کرنا درست نہیں، تاآنکہ مملکت ِاسلامیہ پاکستان کےمغرب زدہ دانشوروں کی عقل ومنطق کو یہ بات کھٹکی اور اُنہوں نے اس کے لئے حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے۔شریعت کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ
2. اسلام ، جو اللہ کا آخری اور مکمل دین ہے، اپنے بھرپور استحقاق کے باوجود اپنے ماننے والوں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر مسلموں کے معبودوں اوران کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں۔ اسلام کا یہ اُصول اس آیت ِکریمہ میں موجود ہے:
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ‌ عِلمٍ.....  ١٠٨ ﴾.... سورة الانعام
''اور تم اُن معبودوں کو جنہیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا عبادت کے لئے پکارتے ہیں، گالی مت دو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جواباً غصے میں اللہ تعالیٰ کو بغیر علم کے گالیاں بکیں گے۔''
جب اسلام اس ضابطہ اخلاق کو اپنے ماننے والوں پر عائد کرتا ہے تو پھر اسلام اس کا حق رکھتا ہے کہ دیگر مذاہبِ باطلہ کے لوگ بھی اسلام کی مقدس شخصیات اور مقامات وشعائر کا پورا احترام کریں۔
3. اسلام نے صرف اس کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب ﷺ کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب کا فرمان ہے:
«من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه»17
''جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔''
4. اسلام ایک الہامی شریعت کے ساتھ ساتھ ایک کامل نظریۂ حیات بھی ہے، جس میں سیکولرزم کی طرح پرائیویٹ اور پبلک کی کوئی تقسیم نہیں ہے، نہ ہی دین ودنیا کی کوئی تقسیم موجود ہے۔ چنانچہ اسلام کے سیاسی نظم کا تقاضا یہ ہے کہ دار الاسلام میں اسلامی قوانین کی پاسداری کی جائے۔اگر دار الاسلام میں غیرمسلم لوگ چوری کریں تو ان پر اسلام کا قانونِ سرقہ یعنی قطع ید کو نافذ کیا جائے گا، جیسا کہ موسوعۃ الاجماع میں ہے:
«إن إجماع المسلمین علی أن المسلم تقطع یدہ إذا سرق مالاً لمسلم ولغیرمسلم، وعلى أن غیر المسلم یقطع بسرقة مال المسلم ومال غیرالمسلم»18
''اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ ایسے مسلمان شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔ اسی طرح ایسے غیر مسلم شخص کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔''
جیسے کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ توہین رسالت ایک قابل سزا جرم اور اسلام کا پبلک قانون ہے جس کی پابندی اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کو کرنا ہوگی۔دارالاسلام میں ذمی حضرات اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب وہ ریاستی قانون کی پابندی کریں گے۔ بصورتِ دیگر ذمی حضرات کا عہد اورامان نامہ ٹوٹ جائے گا۔دورِ نبوی میں مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف، بنوخطمہ کی گستاخ عورت اورابو رافع سلام بن الحقیق وغیرہ کے گستاخی رسول پر قتل کے رائیگاں جانے کی شرعی اساس یہی ہے۔
5. اسلام کی رو سے نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد تمام انسان، آپ کی اُمت کا حصہ ہیں۔ چاہے وہ آپ کی دعوت کو قبول کرکے اُمت ِاجابت کی سعادت حاصل کریں یا قبول نہ کرکے اُمت ِدعوت کی حیثیت پر برقرار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو کائنات کے لئے رحمت للعالمین اور انسانیت کا محسن ومعلم بنا کر بھیجا ہے حتیٰ کہ آپ کی یہ فضیلت اور امامت سابقہ تمام انبیا پر بھی حاوی ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں کفار اور عاصیوں کو نبی کریم ﷺکی اُمت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَكَيفَ إِذا جِئنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنا بِكَ عَلىٰ هـٰؤُلاءِ شَهيدًا ٤١ يَومَئِذٍ يَوَدُّ الَّذينَ كَفَر‌وا وَعَصَوُا الرَّ‌سولَ لَو تُسَوّىٰ بِهِمُ الأَر‌ضُ وَلا يَكتُمونَ اللَّهَ حَديثًا ٤٢ ﴾..... سورة الانعام
'' پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول کے نافرمان رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔''
اس آیت ِمبارکہ میں کفار اور عاصیانِ رسول کو بھی آپ ﷺکی اُمت قرار دیا گیا ہے، جنہیں شرعی اصطلاح میں 'اُمت ِدعوت' کہا جاتاہے۔اس اُمت پر بھی اسلام کی رو سے آپ کا حق احترام واجب ہوتا ہے۔ایک اور مقام پر بھی قرآنِ کریم میں ہے :
﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٢٨ ﴾.... سورة سبا
6. آزادئ اظہار کا جدید تصوربھی ، انسانی آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کو اُس حد تک محدود کرتا ہے جہاں اس سے کوئی دوسرا متاثر نہ ہو۔ آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتا ہے۔ جس کی رو سے
''آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کیا جاسکتا ہے، تاکہ یہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ،امن وامان اور دیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔'' (مجریہ ١٩٥٠،روم)
یوں بھی یہ مطالبہ ہی ایک مہذب معاشرے میں کراہت آمیز ہے کہ انسانیت کی مسلمہ مقدس اور محسن شخصیتﷺ کے تقدس کو پامال کرنے کو انسانی حق قرار دیا جائے۔ آپﷺ کی توہین سے پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔انسانی حقوق کے ایسے تصور جن سےایسے رویے استدلال لیتے
ہیں، اس قابل ہیں کہ اُنہیں قوت سے کنٹرول کرکےمسلمہ تہذیب وآداب کا مقید بنایا جائے ۔
(2) جدید قانون کی رو سے: نیشنل [وطنی] ریاست کے نقطہ نظر سے جس پر اس وقت دنیا بھر کی تمام ریاستیں قائم ہوئیں اور کاربند ہیں، یہ مسئلہ تو بڑا ہی سادہ ہے کہ کیا توہین رسالت کا پاکستانی قانون پاکستان کے غیرمسلم شہریوں پر لاگو کیا جائے گا؟
توہین رسالت کا قانون پاکستان کا 'لاء آف لینڈ' ہے جس کے قانونی ہونے کے تمام سیاسی مطالبے مثلاً پارلیمنٹ کی توثیق ومنظوری اور عدالتی تقاضے بخیر وخوبی پورے کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ قانون آخر کار 1992ء میں پاکستانی پارلیمنٹ کی منظوری کی بنا پر نافذ العمل ہے، کیونکہ جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے جس میں 30/اکتوبر 1991ء کی تاریخ دی گئی تھی، اس میں سزائے قید کے خاتمے کے ساتھ اس سزاے موت کو تمام انبیا کی توہین تک وسیع کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔ لیکن جب قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ معاملہ دوبارہ 1992ء میں پیش ہوا تو تمام انبیا کی توہین پر سزاے موت کی شق کو ختم کردیا گیا اور آج پاکستان میں یہی قانون نافذ ہے جو تمام تر ارتقاکے بعد آخرکار پارلیمنٹ کی طرف سے اسی صورت میں منظور ہوا ہے کہ اس میں صرف نبی کریمﷺ کی توہین وگستاخی پر سزاے موت کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔
٭ یہاں موضوع سے قطع نظر ایک اور وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ 1992ء میں بینظیر بھٹو کا اس قانون کےبارے میں کردار کیا تھا؟ جیسا کہ راقم اپنے سابقہ مضمون میں واضح کرچکا ہے کہ بینظیر اس قانون کی سخت مخالف تھیں اور اسے پاکستان کے لئے بدنامی کا سبب قرار دیتی تھی، ان کا تفصیلی بیان اور ردّ عمل اُس مضمون میں مذکور ہے۔ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب 'چاہ ِیوسف سے صدا'میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو بھی اس قانون کی مؤید تھیں، حالانکہ یہ بات تاریخی طورپر حقائق کے منافی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس اپنے مراسلے میں دراصل اس موقف کی حمایت کی تھی جو 1986ء میں ضیا حکومت کے وزیر قانون اقبال احمد خاں کا تھا اور جس کی مخالفت وفاقی شرعی عدالت نے اپنی ڈیڈ لائن 30/اکتوبر1991ء کے ذریعے کی۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ اگر حکومت نے قانون توہین رسالت کی سزا سے سزاے قید کا خاتمہ نہ کیا تو 30/اکتوبر 1991ء تک یہ سزا ے قید ختم ہوکر از خود صرف سزاے موت رہ جائے گی۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت اپنا مراسلہ لکھ کر، سزاے قید کو برقرار رکھنے کی حمایت کی تھی۔یہ ہے بینظیر بھٹو کی حمایت کی وہ حقیقت جس کا ڈھنڈورا آج پیپلز پارٹی کے عہدیداران بشمول وزیر اعظم پاکستان پیٹتے پھرتے ہیں۔
٭جہاں تک نواز حکومت کی 1992ء میں اسمبلی سے منظوری او رتائید کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مجاہدِ ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو ان کے والد محترم میاں محمد شریف سے ملاقات کرکے، اس قانون کی حمایت پر نہ صرف آمادہ کیا گیا تھا، بلکہ ان کے والدصاحب نے اس قانون کے خلاف اپیل پر اُنہیں ڈانٹ پلائی تھی۔ بعد میں جب یہ پدرانہ دباؤ نہ رہا تو اسی نواز حکومت نے 1998ء میں اس قانون کے قابل عمل ہونے کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی تفصیل میرے سابقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔یہ نواز حکومت ہی تھی جس نے 1994ء میں سلامت اور رحمت مسیح کو چندگھنٹوں میں جرمنی کے سفر پر روانہ کردیا تھا۔
ان واقعاتی وضاحتوں اور حقائق کی درستگی سے قطع نظربہرحال توہین رسالت پاکستان کا منظور شدہ قانون ہے جو بلاامتیاز نہ صرف پاکستان کے تمام شہریوں بلکہ پاکستان میں آنے والے مسافروں اور زائرین پر بھی عائد ہوتا ہے، جیساکہ لاہور میں دوہرے قتل کے امریکی مجرم ریمونڈ ڈیوس کا فیصلہ بھی پاکستانی قانون کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اس میں مذہبی حوالے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ پاکستان کا پبلک لاء ہے جو پاکستان کی دھرتی پر نافذ ہے۔
٭جس طرح پاکستانی تارکین وطن پر جرمنی یا امریکہ کا قانون ان ممالک میں رہتے ہوئے نافذ ہوتاہے ، اسی طرح پاکستان کا قانونِ دہشت گردی پاکستان میں قیام پذیر لیکن دنیا بھر کے شہریوں پر نافذ ہوتا ہے۔ یادش بخیر، ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر افغانستان کی بگرام ائیربیس میں ہونے والے ایک واقعہ کا مقدمہ امریکی عدالت میں کیوں چلایا جارہا ہے؟ جبکہ عافیہ صدیقی پر ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یاتو پاکستان میں پاکستانی قانون او رعدلیہ کے تحت کیس چلنا چاہئے یا افغانستان میں وقوعہ ہونے کی بنا پر افغانستان میں کیس چلنا چاہئے۔
امریکہ جہاں بھی اپنی افواج بھیجتا ہے، وہاں اپنے فوجی کیمپ بناتا ہے، جن کے بارے میں مقامی حکومت سے وہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہاں امریکہ کا قانون نافذ ہوگا اور امریکی عدالتیں ہی اس کا فیصلہ کریں گی۔ اس بنا پر افغانستان کا بگرام ائیربیس ہو یا پاکستان کا جیکب آباد کا امریکی کیمپ، ان دونوں مقامات پر ہونے والے جرائم کا تعین اور ان کی سزا کا فیصلہ امریکی عدالتیں کریں گی، چاہے مجرموں کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔نیشنل ریاستوں کے اس مسلمہ تصور کے بعد یہ ایک قانونی مذاق ہے کہ کہا جائے کہ آسیہ مسیح پر پاکستانی قانون کے مطابق کیوں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور اسے توہین رسالت کی سزا کیوں دی جاسکتی ہے؟
٭یورپی ممالک سیکولر ریاستیں ہیں، جو اپنے ہاں دیگر مذاہب کی آزادی کے نظریے کے داعی اور محافظ ہیں۔ یہ ممالک مذہبی جبر کے شدید ناقد ہیں۔اس کے باوجود فرانس ، بلجیم اور اٹلی میں پہلے حجاب وسکارف اور چھ ماہ قبل چہرے پر نقاب کے حوالے سے قانون پاس ہوا ہے جس کی رو سے فرانس میں چہرے پر نقاب ڈالنے والی عورت کو 725یورو جرمانہ19 اور قید کی سزا دی جائے گی۔فرانس ، سیکولرزم کا چیمپئن ملک اور مذہبی تحفظ کا داعی، اپنے ہاں مسلم خواتین پر اپنا غیراسلامی قانون نافذ کرنے میں کوئی جھجک نہیں رکھتا۔ دوسری طرف پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اور یہ ملک دستوری طورپر سیکولر ہونے کی بجائے اسلام کے فروغ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے لادین دانشوروں کو یہاں غیرمسلموں پر تو اسلام کا نفاذ چبھتا ہے، لیکن یورپ کے سیکولر ملک میں مسلمان خواتین پر یہ مذہبی جبر دکھائی بھی نہیں دیتا !!
شاتم رسو ل اورحنفی فقہا  کا موقف؟
شاتم رسول کی سزا ایک مسلمہ شرعی تقاضا ہے۔ اس کے منکرین کو تو قرآنِ کریم اور احادیث ِمبارکہ کی صریح نصوص کی کوئی فکر نہیں، لیکن ہمارے بعض ایسے بزعم خویش اسلامی دانشور بھی ہیں جو اس سلسلے میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف کا شوشہ پیدا کرکے مطلب براری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے مفکرین حنفی فقہ کا حوالہ کس منہ سے دیتے ہیں حالانکہ کسی مسئلہ کے اجماعی طورپر اُمت اسلامیہ کا موقف ہونے اور قرآن وحدیث میں اس کا غیرمتزلزل اثبات موجود ہونے کے باوجود یہ مفکرین اس کودرخورِ اعتنا نہیں جانتے، جیساکہ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔تاہم اہل مغرب سے اس کی کوئی تائید مل جائے یا ان کے مفادات پر کوئی حرف گیری کرنے لگے تو تب ایسے دانشور اسلام سے اس کے خلاف دلائل ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔
ٹی وی کے مباحثوں میں جاوید احمد غامدی عام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ''اے مسلمانانِ پاکستان! آپ اس سلسلے میں میری نہ مانیں، امام ابو حنیفہ کی ہی تسلیم کرلیں جو شاتم رسول کی سزا قتل قرار نہیں دیتے۔'' غامدی صاحب کے ادارے 'المورد' کے سکالرزنے ایسے تمام اقتباسات کو بڑی جستجو کے بعد جمع کرکےمختلف ذرائع کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے پیش کردہ موقف میں بہت سے مغالطے دیے جاتے ہیں:
1. اوّل تو یہ ملت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اس میں حنفی علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن المنذر لکھتے ہیں:
«أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل»20
''اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے ۔''
2. یہی حنفیہ کے معتبر فقہا کا بھی موقف ہے جیساکہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
«کل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا، فالساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل»21
''جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ''
اور قاضی ابو یوسف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
«وأیما مسلم سبّ رسول الله ﷺ أو کذبه أو عابه أو تنقصه فقد کفر بالله وبانت منه امرأته»22
'' جس مسلمان نے بھی رسول اللہ ﷺ کو گالی دی ، آپ کی تکذیب یا توہین کی تو وہ کافر ہوگیا ، اس کی عورت اس سے جدا ہوجائے گی ۔''
جیسا کہ اوپر دو معتبر حنفی علما کا قول ذکر ہوچکا ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ شرعی حد کے قتل ہے اور ا س کی توبہ ناقابل قبول ہے۔ یاد ر ہے کہ احناف کے ہاں اسی قول کا اعتبا رکیا جاتا ہے جس پر ان کے ہاں فتویٰ دیاجاتا ہو اور پاکستان کے علماے احناف کا فتویٰ بھی وہی ہے جو پوری ملت ِاسلامیہ کا ہے، جیسا کہ اس سلسلے میں پاکستان کے علماے احناف نے اپنا موقف پیش کردیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور بعض علما احناف کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں!
3. اگر امام ابو حنیفہ کی طرف اس قول کی نسبت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا موقف کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے او راس سے موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
«والسّابّ إن كان مسلما فإنّه يكفر ويقتل بغير خلاف، وهو مذهب الأئمّة الأربعة وغيرهم، وإن كان ذمّيّا فإنّه يقتل عند الجمهور ، وقال الحنفيّة : لا يقتل، ولكن يعزّر على إظهار ذلك»23
''اگر دشنام طرازی کرنے والا مسلمان ہو تو وہ کافر ہوجائے گا، اور بلا اختلاف اس کی سزا قتل ہے۔یہی ائمہ اربعہ وغیرہ کا متفقہ موقف ہے۔ تاہم اگر وہ ذمی ہے تو جمہور کے ہاں اس کی سزابھی قتل ہے، لیکن حنفیہ کا موقف ہے کہ اس کو لازما ً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس جرم کے اظہار پر اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔''
علامہ ابن تیمیہ نے بعض حنفی علما کا موقف ان الفاظ میں درج کیا ہے:
«وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك، وحكاه الطحاوي عن الثوري»24
''امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا یہ ہے کہ ذمی کا عہد نبی کریم ﷺکو گالی دینے سے ٹوٹتا نہیں ہے اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی جس طرح دیگر منکرات وغیرہ کی سزا اُنہیں دی جاتی ہے، جن میں سے ان کا اپنی کتب کو بلند آواز سے پڑھنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اور یہی موقف امام طحاوی نے ثوری سے بھی نقل کیا ہے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی دشنام طرازی پر علمائے اُمت اور احناف میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی سزا قتل ہے۔تاہم بعض احناف کا یہ موقف فقط ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں ہے جو دارالاسلام میں رہتے ہوں کہ اگر وہ شتم رسول کریں گے تو ان کی معاہدہ اور امان نامہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اُنہیں اس جرم کی سزا ضرور دی جائے گی جو لازمی نہیں کہ قتل ہی ہو، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔پتہ چلا کہ احناف کا یہ موقف ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں جو دارالاسلام میں رہ کر ذمی کے فرائض یعنی جزیہ بھی ادا کرتے ہوں۔ احناف کے اس موقف سے اگر یہ ثابت شدہ ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان کے غیرمسلم نہ تو ذمی ہیں اور ہی ذمی کی حیثیت کو قبول کرکے جزیہ وغیرہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ تو برابر کے شہری ہونے کے داعی ہیں۔ دراصل پاکستان خالص طورپر اسلامی مفہوم میں دارالاسلام نہیں بلکہ ایک وطنی ریاست ہے جس میں رہنے والے ایک باہمی متفقہ دستور کی بنا پر اپنے حقوق کا تعین کرتے ہیں۔ان حالات میں ایک ایسی ریاست میں ذمی کا مسئلہ ڈال کر معاملہ کو اُلجھانا مغرب زدہ دانشوروں کا وطیرہ ہی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف حنفیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد امین عرف قاضی ابن عابدین نے اپنی کتاب میں علامہ ابن تیمیہ کے اس اقتباس کو بیان کرکے اس کی وضاحت یوں کی ہے :
«ومن أصولهم: يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل، إذا تكرر فللامام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك، ويحملون ما جاء عن النبي ﷺ وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأى المصلحة فذلك ويسمونه القتل سياسة.»
«وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها، ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي ﷺ من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم اهـ . فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره.
وقوله: وإن أسلم بعد أخذه، لم أر من صرح به عندنا، لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل»25
''اُصولِ حنفیہ میں سے یہ ہے کہ احناف میں بھاری آلہ سے قتل پر یا قُبل کے علاوہ کسی جگہ میں جماع کرنے پر سزاے قتل ضروری نہیں ۔ تاہم جب یہ فعل تکرار سے ہوں تو حاکم اس کے فاعل کو قتل کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے او رحاکم کو یہ صلاحیت بھی حاصل ہے کہ مصلحت ِعامہ کا لحاظ کرتے ہوئے متعین حد پر سزا کا اضافہ بھی کرسکتا ہے۔اس کی دلیل نبی کریمﷺ او رآپ کے صحابہ کرام کا اس جیسے جرائم میں عوامی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کی سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔ احناف میں ایسی سزائے قتل کو سیاستاً سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (یعنی ایک تو وہ سزاے قتل جو شرعاً مقرر ہے او ردوسری جو شرعی مصلحت کی بنا پر دی جائے ،وہ 'سزاے قتل سیاستاً 'کہلائے گی)
حاصل بحث یہ ہے کہ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ تکرار سے ہونے والے جرائم کی شدت کی بنا پر ان میں قتل کی سزاجاری کرے۔ اسی بنا پر بہت سے احناف نے ایسے بہت سے شاتمان رسول کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جو ذمی ہونے کے باوجود تکرار سے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے تھے، باوجود اس امر کے کہ مجرم ذمی پکڑے جانے کے بعد توبہ کرکے اسلام بھی لے آئے۔او رحنفیہ نے کہا کہ ایسے شاتمان کو سیاستاً [مصلحت ِشرعی کی بنا پر]قتل کیا جائے گا۔اور یہ موقف ان کے اصول سے ثابت شدہ ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے[حنفیہ] کے ہاں بھی شاتم ذمی کا قتل کرنا جائز ہے، جب وہ تکرار کا مرتکب ہو او رکھلم کھلا یہ جرم کرے۔
امام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ اگر چہ ایسا ذمی پکڑے جانے کے بعد اسلام بھی لے آئے [تب بھی اس کو قتل کیا جائے گا] تو مجھے علم نہیں کہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کی صراحت بھی کی ہے یا نہیں؟ تاہم جب امام ابن تیمیہ  حنفیہ کے بارے میں یہ بات جو بتا رہے ہیں توایک معتبر شخصیت ہونے کے ناطے ان کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہئے۔''
مذکورہ بالا طویل اقتباس سے معلوم ہوا کہ
٭ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں ذمی کو تعزیری سزا دی جائے گی۔
٭ احناف کے ہاں ذمی کومسلسل یا کھلم کھلا توہین رسالت پرقتل کی سزا دی جاسکتی ہے۔
٭ اس سزا کی اساس شریعت کے براہِ راست حکم کی بجائے قاضی کے پیش نظر مصلحت شرعی ہوگی جسے اصطلاحاً 'سزاے قتل سیاستاً' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
٭ اگرشاتم رسول ذمی توبہ کے بعد اسلام بھی لے آئے تو اس کی توبہ ناقابل قبول ہوگی۔
4. احناف کے اس موقف کی وضاحت کے بعد، آخر میں سب سے اہم نکتہ جو ایک مسلمان کے لئے اساسی حیثیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے دور میں ایسے شاتمانِ رسول سے جو غیر مسلم اور ذمی تھے، کوئی رعایت ملحوظ نہ رکھی اور ان کو خود اپنے حکم سے قتل کروایا ۔ احادیث کے یہ چھ واقعات چار صفحات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
اس ضمن میں کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کے واقعات، جن میں آپ نے خود صحابہ کو ان شاتمانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے بھیجا، صحیح بخاری کی احادیث ہیں اور امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق: إذا صح الحدیث فهو مذهبي ''جب کوئی حدیث ِصحیح آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔'' ان کا قول بھی ان احادیث کے بعد یہی بنتا ہے جودیگر علماے اُمت کا ہے جیسا کہ مشہور حنفی امام قاضی ابن عابدین فرماتے ہیں:
«إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ وَكَانَ عَلَى خِلَافِ الْمَذْهَبِ عُمِلَ بِالْحَدِيثِ، وَيَكُونُ ذَلِكَ مَذْهَبَهُ وَلَا يَخْرُجُ مُقَلِّدُهُ عَنْ كَوْنِهِ حَنَفِيًّا بِالْعَمَلِ بِهِ، فَقَدْ صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِي. وَقَدْ حَكَى ذَلِكَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ» (رد المحتار: 1 / 166)
'' جب کوئی حدیث صحیح اور مستند ہو حالانکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہو تو اس صحیح حدیث پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہوگا۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ کا مقلد حنفیت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوگا۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ سے یہ بات درست طورپر منقول ہے کہ جب حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ یہ بات ابن عبد البر اور دیگر ائمہ اسلاف نے امام ابو حنیفہ سے بیان کی ہے۔''
الغرض یہی مستند شرعی مسئلہ ہے اور یہی حقیقی حنفی موقف ہے جیسا کہ اوپر کی تصریح سے معلوم ہوا اور اسی کو تمام فقہاے عظام اورمحدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین نے اختیار کیا ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم!
چنانچہ ذمی کے لئے توہین رسالت کی سزا میں رعایت نہ تو امام ابو حنیفہ کا موقف ہے، نہ ہی پاکستان کے عیسائی یا دیگر غیر مسلم ذمی ہیں، نہ وہ اس حیثیت کو مانتے او رنہ ہی اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں، پھر جاوید غامدی کا واویلا اور ان کے لئے رعایت کا مطالبہ کس بنا پر ہے؟ پاکستان کے ایک شہری ہونے کے ناطے ان پر پاکستان کاہی قانون توہین رسالت لاگو ہوگا، اور یہی پاکستان کے قانون او راسلام کا تقاضا ہے۔
٭ آج بعض لوگ یہ شبہ بھی پیدا کرتے ہیں کہ گستاخِ رسو ل کی سزا عورت کو نہیں دی جائے گی، حالانکہ احادیث ِرسول میں یہودیہ،عمیر بن اُمیہ کا اپنی گستاخ مشرکہ بہن کوقتل کرنے اور عمیر بن عدی کے عصما بنت مروان کو قتل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس جرم کی سزا میں عورت او رمرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔


حوالہ جات

1. دلائل النبوۃ از اصبہانی :1/63، طبرانی الاوسط، دلائل النبوۃ للبیہقی، درّمنثور: 5/101 (زیر آیت الحجر:95)

2. تفسیر ابن كثير:ج 6/ ص 571

3. فرائیڈے سپیشل بحوالہ کتابچہ 'قانونِ توہین رسالت کیوں ضروری ہے؟'

4. قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ۰۰۳۳
اور وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَۙ۰۰۹۷

5. ﴿إِنّا كَفَينـٰكَ المُستَهزِءينَ ٩٥﴾.... سورة الحجر

6. ﴿فَسَتُبصِرُ‌ وَيُبصِر‌ونَ ٥ بِأَييِكُمُ المَفتونُ ٦ ﴾..... سورة ن

7. صحيح بخاری: رقم 5739

8. تفسیر ابن كثیر:1/ 383

9. مزید تفصیل کے لئے مولانا مبشر ربانی﷾ کا مضمون [صفحات تا ] میں ملاحظہ فرمائیں۔

10. سنن نسائی: 4796

11. صحيح مسلم رقم: 3209، ج 9/ص 70

12. جامع ترمذی: 2550

13. سنن نسائی رقم:3999، ج 12/ ص 427

14. سنن نسائی: 3999

15. صحیح بخاری: 4039

16. سنن ابو داود: 4262، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/60

17. كنز العمال: 335465 ، الصارم المسلول:201

18. موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي: 1/342

19. تفصیلات : 'یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم' از راقم (ماہنامہ 'محدث': اپریل 2010ء)

20. موسوعة الدفاع عن رسول الله ﷺ: ج1/ص12

21. فتح القدیر بحواله البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 13/ ص 495

22. کتاب الخراج بحواله حاشية رد المحتار ج 4 /ص 419

23. الموسوعة الفقهية الكويتية ج 2 / ص 4883

24. الصارم المسلول: 1/17

25. ردّ المحتار على الدر المختار: 4 /233