گورنر کا جنازہ :عبرت آموز حقائق

14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ کے ایک نواحی گاؤں اِٹانوالی میں عیسائی مذہب کی مبلغہ آسیہ مسیح نے قرآنِ مجید اور حضور نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں نہایت نازیبا، دل آزار اور گستاخانہ کلمات کہے جن کو دہرانے کی میرا قلم اجازت نہیں دیتا۔ آسیہ مسیح کے شوہر عاشق مسیح نے فوری طور پر وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہباز بھٹی سے رابطہ کیا جن کی مداخلت پر کئی دن تک ملزمہ کے خلاف پرچہ درج نہ ہوسکا۔ وفاقی وزیر کی اس حرکت سے علاقہ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔بالآخر 19جون 2009ء کو آسیہ مسیح کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت ایف آئی آر نمبر 326 درج کرلی گئی اورملزمہ کو گرفتار کرکے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھیج دیا گیا ۔
اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی تفتیش پنجاب پولیس میں نیک نامی اور دیانت داری کی مثالی شہرت رکھنے والے جناب سید محمد امین بخاری ایس پی شیخوپورہ نے کی، جنہوں نے 26 جون 2009ء کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت آسیہ مسیح کا بیان ریکارڈ کیا اور نہایت جانفشانی ، غیر جانبداری اور شفاف طریقے سے اس کیس کے تمام پہلوؤں کی مکمل تفتیش کرتے ہوئے آسیہ مسیح کو واقعی ملزمہ قرار دیا او راپنی رپورٹ میں لکھا کہ
''ملزمہ آسیہ مسیح کا حضور نبی کریمﷺکی شان میں اور قرآنِ مجید کے متعلق گستاخانہ باتیں کرنا قانونی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔ ملزمہ نے یہ تمام باتیں نہ صرف تسلیم کیں ہیں بلکہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی ہے۔''
اس مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب، جناب محمد نوید اقبال کی عدالت میں ہوئی۔ملزمہ کی طرف سے اکبر منور درّانی ایڈووکیٹ، طاہر گل صادق ایڈووکیٹ، چوہدری ناصر انجم ایڈووکیٹ،جسٹن گل ایڈووکیٹ، طاہربشیر ایڈووکیٹ، ایرک جون ایڈووکیٹ اورمنظور قادر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جبکہ استغاثہ کی طرف سے میاں ذوالفقار علی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت ہوتی رہی۔ 8 نومبر 2010ء کو اس مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزمہ آسیہ مسیح کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت سزائے موت کامستحق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا :
''یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس گاؤں میں عیسائی حضرات کی ایک کثیر تعداد مسلمانوں کے ساتھ کئی نسلوں سے آباد ہے۔ لیکن ماضی میں اس قسم کا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور اعتقادات کے سلسلے میں برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔ اگر توہین رسالت کا اس قسم کا کوئی واقعہ پہلے کبھی اس گاؤں میں پیش آیا ہوتا، تو یقیناً فوجداری مقدمات اور مذہبی جھگڑے اس گاؤں میں پہلے سے موجود ہوتے۔لہٰذا اس دفعہ یقیناً توہین رسالت کا ارتکاب ہوا ہے۔ جس کے باعث مقدمہ درج ہوا اور عوامی اجتماع منعقد ہوا اور یہ معاملہ اس قصبے اور اِرد گرد میں موضوعِ بحث بن گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ نہ تو ملزمہ خاتون نے اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش کی، اور نہ ہی دفعہ (2)340، ضابطہ فوجداری کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کئے۔مندرجہ بالا بحث کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمہ کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کردیا ہے۔تمام استغاثہ گواہان نے استغاثہ کے موقف کی متفقہ اور مدلل اندازمیں تائید و تصدیق کی ہے۔استغاثہ گواہان او رملزمہ، اُن کے بزرگوں، یا ان کے خاندانوں میں کسی دشمنی کا وجود نہیں پایا جاسکا۔ لہٰذا ملزمہ خاتون کوناجائز طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیے جانے کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ملزمہ کو اس مقدمہ میں کوئی رعایت دیئے جانے کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔لہٰذا میں ملزمہ آسیہ بی بی زوجہ عاشق کو زیر دفعہ 295سی تعزیراتِ پاکستان، موت کی سزا کا مجرم ٹھہراتا ہوں۔''
اس فیصلہ کے خلاف دنیابھر کی سیکولر لابیاں، نام نہاد 'انسانی حقوق' کی تنظیمیں اور عیسائی نمائندے میدان میں آگئے۔ عیسائی پوپ بینڈکٹ نے آسیہ ملعونہ کے دفاع میں احتجاج کرتے ہوئے اس فیصلہ کی مذمت کی او رکہا کہ وہ ایسے کسی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔پوپ نے ویٹی کن میں منعقدہ خصوصی دعائیہ تقریب میں آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے نہ صرف اس کا نام لے کر دعا کرائی بلکہ صدرِ پاکستان سے بھی اپیل کی کہ اس کی سزا معاف کی جائے۔ اُنہوں نے حکومت ِپاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قانون توہین رسالت کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
پوپ کے بیان کے بعد 20 نومبر 2010ء کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر عدالت سےمجرمہ قرار دی جانے والی خاتون سے ملنے کے لیے فوراً ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ پہنچے۔ جہاں اُنہوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل شیخوپورہ کے وی آئی پی کمرہ میں آسیہ مسیح سے خصوصی ملاقات کی اور اُسے حکومتی سطح پر ہرممکن امداد کا یقین دلایا۔ وہ گورنر ہاؤس سے اپنے ساتھ آسیہ مسیح کو ملنے والی سزا کی معافی کی ٹائپ شدہ درخواست بھی ہمراہ لائے تھے۔ گورنر سلمان تاثیرنے میڈیا کی موجودگی میں آسیہ مسیح سے کہا کہ یہ آپ کی طرف سے تحریر کردہ درخو است ہے، آپ اس پر دستخط کردیں تاکہ میں بطورِ گورنر اس درخواست کوصدر آصف علی زرداری تک پہنچا کر سزا کی معافی ممکن بنوا سکوں۔ سزا کی معافی کے بعد آپ کو یورپ کے کسی ملک میں بھجوا دیا جائے گا۔ اس موقع پر گورنر پنجاب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ مسیح کو معصوم قرار دیا او رکہا کہ دنیا کی کوئی طاقت آسیہ مسیح کوسزا نہیں دے سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ قانونِ توہین رسالت ایک 'امتیازی، غیر انسانی او رکالا قانون ' ہے جس کو ہر حالت میں ختم ہونا چاہئے۔
اس پریس کانفرنس کے ذریعے یورپی ممالک کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ حکومت آسیہ مسیح کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہے اور حکومت ایسے تمام قوانین کو بھی ختم کردے گی جواقلیتوں کی 'آزادئ اظہار' کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال ، جنہوں نے شانِ رسالت میں گستاخی کا جرم ثابت ہونے پر آسیہ مسیح کو سزائے موت سنائی تھی، کو ٹیلی فون کیا او رنہایت غلیظ زبان استعمال کی۔ اس کے بعد وہ آئے روز مختلف ٹی وی چینلز پر برملا کہتے رہے کہ قانون توہین رسالت ضیاء الحق کے دور میں انسانوں کا بنایا ہوا 'کالا قانون' ہے، اس کے رد عمل میں دی یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے ، نیک بخت طالب علم صاحبزادہ عطاء الرسول مہاروی نے 16 نومبر 2009ء کو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجاً براؤنز میڈل وصول کرنے سے انکار کیا او رحقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخانِ رسول کی سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ توہین رسالت ایکٹ 295سی کو ظالمانہ اور ختم کرنے کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔ اس طرح آپ بذاتِ خود توہین رسالت کےمرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں۔
30 نومبر 2010ء کو ملک کے جید علماے کرام نے قانون توہین رسالت کو 'کالا قانون' کہنے اور ملعونہ آسیہ مسیح کی بے جا حمایت و سرپرستی کرنے پرسلمان تاثیر کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اسی دن پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر اطلاعت و نشریات شیری رحمٰن نے قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کا بل اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا۔اس سے اگلے روز صدر پاکستان آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہبازبھٹی مسیح کی سربراہی میں اراکین اسمبلی پر مشتمل 9 رُکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے قانونِ توہین رسالت کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک ماہ کے اندر حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرنی تھی ۔
4 جنوری 2010ء کو گورنر سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری محافظ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ واقعات کے مطابق گورنر پنجاب، اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس ٹو کی کوہسار مارکیٹ میں واقع ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں اپنے کاروباری دوست شیخ وقاص کے ساتھ کھانا کھا کر واپس اپنی گاڑی کی طرف آرہے تھے کہ ان کے سرکاری محافظ گن مین غازی ملک ممتاز حسین قادری نے ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی جس پر وہ شدید زخمی ہوگئے۔ اُنہیں فوری طور پر پولیس کی گاڑی میں ڈال کر پولی کلینک لے جایا گیا، لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے موقع پر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ گرفتاری کے وقت وہ حیران کن حد تک نہایت پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ اس نے ابتدائی تحقیقات میں اعتراف کیا کہ
''گورنر پنجاب نے قانون توہین رسالت کو ' کالا قانون' قرار دیا تھا، ا س لیے گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا، اس نے چونکہ قانون توہین رسالت کے تحت عدالت سےسزا پانے والی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانے کا عندیہ دے کر خود کو گستاخِ رسول ثابت کردیا تھا، اس پر میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ ''
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
''اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین پر فساد پیدا ہوجائے، مگر اللہ سب جہانوں پر فضل کرنے والا ہے۔''(البقرۃ:251)
اسی روز تمام مکاتب ِفکر کے 500 سے زائد جید علماے کرام نے یہ فیصلہ کیا کہ توہین رسالت کے جرم میں سزا یافتہ ملعونہ آسیہ مسیح کی حمایت کرنے اور قانونِ توہین رسالت کو 'کالا قانون' کہنے کے باعث سلمان تاثیر کی نمازِ جنازپڑھی جائے او رنہ ہی اس کا افسوس کیا جائے۔ کمشنر لاہور خسرو پرویز نے رات گئے بادشاہی مسجد کے خطیب عبدالخبیر آزاد کو فون کیا اورکہا کہ آپ نے کل ایک بجے سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھانا ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد کو حالات کی سنگینی کا احساس تھا۔ اُنہوں نے کمشنر لاہور سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر سے باہر ہیں اور کل تک واپسی ناممکن ہے۔ لہٰذا ان کے لیے نمازِ جنازہ پڑھانا ممکن نہیں ہے۔بعد ازاں اعلیٰ انتظامیہ نے داتا دربار مسجد کے خطیب مولانا محمد رمضان سیالوی سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اپنی بیماری کا کہہ کر جنازہ پڑھانے سے معذرت کرلی۔ اس کے بعد گورنرہاؤس کے اعلیٰ حکام نے گورنر ہاؤس کی مسجد کے خطیب قاری محمد اسماعیل سے رابطہ کیا اور اُنہیں دھمکی آمیز لہجے میں سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے کا حکم دیا۔ جناب قاری محمد اسماعیل نے نماز جنازہ پڑھانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے ملازمت سے برخاست کرنا چاہیں تو میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں، مگر میں گستاخِ رسول سلمان تاثیر کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔ چاروں طرف سے انکار کے بعد اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے نمازِ جنازہ کے لیے محکمہ اوقاف کے متعدد سرکاری علماے کرام سے رابطے کیے گئے مگر کسی نے حامی نہ بھری بلکہ اکثریت نے اپنے موبائل فون بند کرلیے:

ایک چہرہ بھی شناسا نہیں نکلا اُس کا
وہ جو کہتا تھا کہ میری سب سے شناسائی ہے!

اس صورتِ حال پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بے حد پریشان ہوئی۔ لہٰذا اُنہوں نے فوری طور پر اپنی جماعت سے وابستہ ایک آزاد خیال مولوی افضل چشتی کو جنازے کے لیےبلایا۔ جنازے کے لیے ایک بجے دوپہر کا وقت مقرر کیاگیاتھا ،لیکن جیالوں کی ہلڑبازی، بدنظمی او رمست قلندر کی وجہ سے صفیں ترتیب دینے میں دقت ہورہی تھی۔ حکومت اور پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیدار وقفے وقفے سے جنازہ میں آرہے تھے تاکہ وہ ٹی وی چینلز پر دکھائی دے سکیں۔ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی تقریبا ڈیڑھ بجے کے قریب جنازہ میں شرکت کے لیے آئے تو جیالے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ان پر مکھیوں کی طرح اُمڈ پڑے جس سے وہاں شدید بدنظمی پیدا ہوئی۔ان سب چیزوں سے بے نیاز ایک کونے میں وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان گورنر پنجاب بننے کی افواہ پر پیپلزپارٹی کے کارکنان سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملا رہے تھے۔سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال جنازے کے لیے جب گورنر ہاؤس پہنچے تو پیپلزپارٹی کے کارکنان نے نوازشریف کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔ اس پر وہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کےکہنے پر وہاں سے واپس چلے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ، سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر امتیاز صفدر وڑائچ ہنس ہنس کر کارکنان سے مل رہے تھے، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ اُنہیں سلمان تاثیر کی موت کا کوئی دُکھ نہیں ہوا بلکہ وہ اس کی آڑ میں مخصوص سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی اثنا میں تقریبا ایک بج کر 52 منٹ پر سپیکر سے اچانک 'اللہ اکبر' کی آواز سنائی۔ جو جہاں کھڑا تھا، جس حالت میں تھا، فوراً ناف پرہاتھ باندھ لیے۔ پانچ سیکنڈ بعد دوسری تکبیر 'اللہ اکبر' ہوئی، چھ سیکنڈ بعد تیسری تکبیر اللہ اکبر او رپانچ سیکنڈ بعد چوتھی اللہ اکبر کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ دیا گیا۔ یعنی 15، 20 سیکنڈ میں نمازِ جنازہ پڑھا دیا گیا۔ یہ دنیا کا واحد جنازہ تھا کہ جس کے امام کا کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہےکہ امام کے آگے بھی تین صفیں تھیں۔ اس نان سٹاپ جنازہ کے بعد افضل چشتی نے دعا مانگی اورکہا: یا اللہ! مرحوم کو حضور نبی کریمﷺ کی شفاعت نصیب فرما!حیرانگی ہے کہ اس کے لیے اس رسول معظمﷺ کی شفاعت طلب کی جارہی تھی کہ جن کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کو سلمان تاثیر 'امتیازی قانون،غیر انسانی قانون اور کالا قانون' کہتے رہے۔اس جنازہ کی خاص بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم او راے این پی ایسی سیکولر جماعتوں کے علاوہ کسی بھی دینی، سیاسی جماعت کےکسی معمولی سے عہدیدار نےبھی شرکت نہیں کی۔ یہاں تک کہ گورنر ہاؤس میں ملازمت کرنے والا کوئی بھی شخص جنازے میں شامل نہیں ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کے تابوت سے اس قدر بدبو آرہی تھی کہ اس کے قریب کھڑا ہونا محال تھا۔ لہٰذا گورنر ہاؤس کی انتظامیہ نے فوری طور پر تابوت پر خالص عرق گلاب اور مختلف قیمتی پرفیومز کا سپرے کیا، لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا۔
بعدازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے تابوت کیولری گراؤنڈ کے فوجی قبرستان میں لایاگیا، جہاں فوج او ررینجرز کی کڑی نگرانی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ رسیوں کی مدد سے اُسے زمین میں اُتارا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر گورنر سلمان تاثیر عوامی آدمی تھے اوراُنہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے عام لوگوں کے لیے بھی کھول دیئے تھے تو اُنہیں کسی عوامی قبرستان (میانی قبرستان وغیرہ) میں دفن کرنا چاہئے تھا۔کیولری قبرستان میں جانے کا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عوامی ردعمل کے پیش نظر اُنہیں کسی ایسے قبرستان میں دفن نہیں کیا گیا، جہاں عوام الناس کا داخلہ ہر وقت عام ہو۔ یاد رہے کہ جنر ل یحیی خاں کوبھی پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیاگیا تھا، جس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔باقی اُس کے کردارکے بارے میں ہر شخص بخوبی جانتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کی عیسائی اور قادیانی کمیونٹی نے مقتول گورنر سلمان تاثیر کو اپنا ہیرو قرا ردیتے ہوئے پورے ملک کے سینکڑوں گرجا گھروں او رقادیانی عبادت گاہوں میں ان کے لیے پندرہ روز تک دعاؤں کو عبادت کا حصہ بنائے رکھا۔ گورنر کے لیے قادیانی جماعت کی طرف سے ایک بڑا ایوارڈ دینے کا اعلان متوقع ہے جسے گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہریار لندن میں قادیانی جماعت کےسربراہ مرزا مسرور احمد سے وصول کریں گے۔
یہاں ایک بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ معروف نعت خوان اختر حسین قریشی اور نقیب محفل قاری محمد یونس قادری نے مقتول گورنر کے ایصالِ ثواب کے لیے ہونے والی تقریبات میں شرکت پر علماے کرام کے فتویٰ کے بعد تجدید ِایمان کیا اور کہا کہ ہم لاعلمی کے باعث تقریبات میں شریک ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق قاری محمد یونس نے گورنر ہاؤس میں سلمان تاثیر کی رسم قل جبکہ اختر قریشی نے صوبائی وزیر تنویر الاسلام کی رہائش گاہ پر گورنر کے ایصالِ ثواب کی تقریب میں نعت خوانی کی تھی، فتویٰ کی روشنی میں اُنہوں نے جامعہ رسولیہ شیرازیہ میں مولانا راغب نعیمی، ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی اور دیگر علماے کرام اور گواہان کی موجودگی میں اپنی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور تجدید ایمان کیا۔
جنازہ کے موقع پر کئی جیالے سگریٹ نوشی کررہے تھے۔ ایک بزرگ کے منع کرنے پر اُن کا کہنا تھا کہ وہ سلمان تاثیر کی موت کا غم بھلانے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اکثر کارکنان سلمان تاثیر کو 'شہید' قرار دے کر نعرے بازی کررہے تھے۔افسوس! اسلامی تعلیمات سے نابلد ان کارکنوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں کہ شہید کسے کہتے ہیں یا شہادت کے عظیم رُتبے پر کون کیسے فائز ہوتا ہے؟
1978ء میں پیپلزپارٹی، مرید کے ضلع شیخوپورہ کے نائب صدر عبدالجبار نے محلے کی ایک نابالغ کمسن لڑکی سے ز یادتی کی جس پر وہ جاں بحق ہوگئی۔اس مقدمہ کی سرسری سماعت فوجی عدالت میں ہوئی۔ ضلعی مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر کرنل بشیر نے کیس کی مکمل سماعت کے بعد ملزم کو سزاے موت کا حکم سنایا۔ شیخوپورہ جیل سے پھانسی کے بعد جب ملزم عبدالجبار کی میت مرید کے لائی گئی تو ملزم کے متعلق شہید کے نعرے لگائے گئے اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکنان نےمریدکے شہر میں عبدالجبار 'شہید' کے بینر لگائے اور جنازہ پر ''تم کتنے جبارمارو گے، ہر گھر سے جبار نکلے گا۔'' کے نعرے لگاتے رہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1971ء کے انتخابات میں جب الیکشن سرگرمیاں عروج پر تھیں تو ننکانہ صاحب کے قریب ایک قصہ موڑکھنڈا میں پیپلزپارٹی کا جلسہ منعقد ہوا۔اس جلسہ میں پیپلزپارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود کو اس وقت شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک جیالے نے سپیکر پرنعرۂ تکبیر لگایا تو پنڈال سے بیک زبان زندہ باد کا جواب آیا۔ ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ نعرۂ تکبیر کا جواب اللہ اکبر ہوتا ہے۔
حال ہی میں وفاقی کابینہ کے ایک اہم اجلاس میں جب وزیرداخلہ رحمٰن ملک کو تلاوت قرآنِ مجید کے لیے کہا گیا تو اُنہوں نے کوٹ کی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور سورۂ اخلاص پڑھنا شروع کی اور اُس میں عجیب و غریب الفاظ خلط ملط کردیئے۔ وزیر داخلہ کی بدحواسی پر وزیراعظم سمیت سب وزرا نے فلک شگاف قہقہے لگائے۔ رحمٰن ملک نے دوبارہ تلاوت شروع کی تو وہ پھر غلط پڑھ گئے۔اس پر کابینہ کے تمام ارکان نےدوبارہ قہقہے لگانا شروع کردیئے۔ یاد رہے کہ سورۂ اخلاص قرآن مجید کی چھوٹی لیکن نہایت اہم سورت ہے جو ہر چھوٹے بڑے مسلمان کو ازبر ہوتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ رحمٰن ملک کی اس غلطی پر چاہیے تو تھا کہ کوئی دوسرا رکن تلاوت کردیتا مگر اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہ دلچسپ ویڈیو انٹرنیٹ پرموجود ہے۔ سلمان تاثیر کس قبیل کے آدمی تھے، ان کے شب و روز کس طرح گزرتے تھے؟ اس کی مکمل تفصیلات بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ آپ گوگل (Google)پر سلمان تاثیر لکھ کر سرچ کروائیں، وہاں آپ کو ایسی رنگین وسنگین تصاویر اور اندرونی داستانیں ملیں گی جس کو دیکھنے سے آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ سلمان تاثیر کے صاحبزادے آتش تاثیر نے اپنی کتاب (Stranger to History)میں اپنے والد پر جو سنگین الزامات عائد کیے ہیں، وہ ہر شخص کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ یاد رہے کہ گورنر سلمان تاثیر نے معروف بھارتی صحافی تلوین سنگھ (جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے) سے دوسری شادی کی تھی۔ جس سے ان کا بیٹا آتش تاثیر پیدا ہوا۔ علماے کرام نے جب اس شادی کی شرعی حیثیت پر اعتراض کیا تو سلمان تاثیر نے علماے کرام کو جاہل، اُجڈ اور غیر تعلیم یافتہ قرار دیا۔معروف ترقی پسند اور روشن خیال بھارتی صحافی خشونت سنگھ نے گورنر سلمان تاثیر کی نجی زندگی کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں، اُسے پڑھ کر آدمی حیرت کے سمندر میں گم ہوجاتا ہے۔ یہی حال شیری رحمٰن اور پرویز مشرف کے گرم مصالحوں کا ہے۔ انٹرنیٹ پر ان سب کی تصاویر کوملاحظہ کریں اور خود سوچیں کس قماش کے لوگ ہمارے حکمران ہیں جو قانونِ توہین رسالت کو ختم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔
10 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو تاثیر نے ناموسِ رسالت قانون کے مسئلہ پر اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کے والد نے قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کے بارے میں جو سوچا تھا ، وہ اب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اُس نے مزید کہا کہ ان کے والد آئین کی اس شق کے بھی زبردست مخالف تھے جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے بعض ناعاقبت اندیش نام نہاد دانشور آج کل حکومتی ایما پر مختلف ٹی وی چینلوں پر سلمان تاثیر کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ چند ٹکوں کی خاطر ناموسِ رسالت کی مخالفت کا سودا کرنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں!

تمہیں رُسوا سر بازارِ عالم ہم بھی دیکھیں گے!

ماہنامہ الشریعة گوجرانوالہ کی
خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمدغازیؒ
نامور اہل علم،معاصرین،تلامذہ اور متعلقین کے قلم سےعصر حاضر کے
ایک جید عالم اور محقق کے احوال وخدمات اور افکار وتحقیقات کا تذکرہ
صفحات تقریباً 600 سو ــــــ ہدیہ بشمول رجسٹرڈ ڈاک خرچ: 200 روپے
رابطہ: ناظم ترسیل ماہنامہ'الشریعہ' گوجرانوالہ
جامع مسجد شیرانوالہ باغ،گوجرانوالہ،فون:0306-6426001