گستاخِ رسول کی سزا اور فقہائے احناف

آج کل تجدد پسنددانشوروں کی طرف سے شتم رسول کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفی فقہا کے اقوال کا بہ کثرت تذکرہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اجماعِ اُمت تو کجا، قرآنی آیت واحادیثِ مبارکہ کو بھی کوئی وزن دینے کو تیار نہیں ۔اس کے باوجودمیڈیا پر ان کے مسلسل بیانات کے دفاع میں، مدیر 'محدث' کے مطالبے پر،اَحناف کے ایک معتمد عالم دین مولانا تصدق حسین نے فقہاے کرام کے اس حوالے سے اہم اقوال کو جمع کردیا ہے۔حب ِنبویﷺ اور اتباعِ سنت کے حوالے سے کی جانے والی یہ کاوش قابل تحسین ہے ۔ اِدارہ
عصر حاضر میں اُٹھنے والے فتنوں میں سے سب سے عظیم فتنہ جو دنیا کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہ شعائر اللہ کی توہین ہے اور رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں، یہود و نصاری نت نئے طریقوں سے اُمت ِمسلمہ کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سعی میں مصروف ہیں، نوبت بایں جارسید کہ اسلام کی دعویدار حکومتوں کی ریاست میں سرعام رسول اللہﷺ کی حرمت و ناموس کے حوالے سے عوام کے اَذہان و قلوب کو منتشر کیا جارہا ہے، انگریز کے زرِ خرید غلام مسلمانوں کو محبت ِمصطفیﷺ سے تہی دامن کرنا چاہتے ہیں۔
فتنہ و فساد کی اس شورش میں یہود و ہنود کے کچھ گماشتے ملک پاکستان کی بنیادوں میں لادینیت اور سیکولر ازم کا زہر گھولنا چاہتے ہیں، کوئی کہتا ہے: قائداعظم سیکولر تھے، تو کوئی یہ راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نظامِ مصطفیٰ کے لئے نہیں بنا۔ انہی حالات میں جب آسیہ ملعونہ نے نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس پرحملہ کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے۔اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے۔اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے:
1. امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
«کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه»1
''ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔''
2. علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
«کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب»2
''ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ یا شیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔''
3. امام ابن بزار علیہ الرحمہ
«إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة»3
''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''
4. علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
«الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر»4
''کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔''
5. علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
«واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما»5
''تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔''
6. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
«ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل»6
''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔''
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
7. امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی»7
''اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔''
8. امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
''میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔''8
9. علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
«فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم»9
''جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔''
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابیؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا:
«لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله»
''میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔''
علامہ ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم»10
''بے شک حضور نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔''
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسولﷺ کی محبت عطا فرمائے، او رقرآن و سنت کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
رکن صوبائی شوریٰ جمعیت علما پاکستان، ناظم تعلیمات جامعۃ المرکز الاسلامی، مین والٹن روڈ، لاہور کینٹ


حوالہ جات

1. فتح القدیر: 5 /332

2. الاشباه والنظائر: 158،159

3. رسائل ابن عابدین: 2/327

4. درمختار: 6 /356

5. روح البیان: 3 /394

6. احکام القرآن: 3 /112

7. الصارم المسلول:ص 260

8. فتح القدیر: 5 /303

9. رد المحتار: 6 /331

10. الصارم المسلول:ص24