حفظِ قرآن کے اُستاد کے اَوصاف

جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ )میں اساتذۂ حفظ ومجودین سے خطاب
ڈاکٹر معصراوی مصری شيخ عموم المقاري المصرية(عام مصری قراء کے شیخ)اور مصر کے سرکاری ادارے مجمع البحوث الإسلامية کے تحت مصحف کی نگران کمیٹی لجنة مراجعة المصاحف کے 2014ء تک صدرنشین رہے ہیں۔ آپ نے قراءات ِ عشرہ میں ایم فل (ماجستير)، پھر حدیثِ نبوی میں ایم فل کیا، پھر 1992ء میں آپ نے علومِ حدیث میں پی ایچ ڈی کی سند خاص امتیاز کے ساتھ حاصل کی۔ مصر و سعودی عرب میں آپ کی تدریس کا سلسلہ چار دہائیوں میں پھیلا ہوا ہے۔
مارچ 2019ء میں آپ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سالانہ پروگراموں میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔جامعہ کی عالمی محفل قراءات ،مقابلہ حفظ ِقرآن، علمامشائخ وقراے کرام کی علمی ملاقات کے علاوہ جامعہ میں مختلف مدارس وجامعات سے تعلق رکھنے والے اساتذۂ حفظ ومجودین کی ایک روزہ تربیتی ورکشاپ میں آپ نے صدارتی خطاب کیا۔ اس ورکشاپ میں پاکستانی قراء کے شیخ قاری محمد یحییٰ رسول نگری  مہمانِ خصوصی تھے، جبکہ دو تربیتی سیشنوں میں ڈاکٹر عبد الرحمٰن حفیظ اور قاری عبد القیوم صاحبان نے شرکاء کی تفصیلی رہنمائی کی۔ ورکشاپ کی تکمیل پر سو سے زائد شرکا کو شیخ معصراوی ﷾ اور رئیس الجامعہ (ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾) کے دستخطوں سے جامعہ کی طرف سے سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔اس دورہ میں شیخ محترم نے جامعہ سلفیہ( فیصل آباد)، دار العلوم الاسلامیہ(اقبال ٹاؤن لاہور)، کلیۃ القرآن والتربیۃ الاسلامیہ( پھول نگر) کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ (البیت العتیق ) میں بھی فاضلانہ خطبے ارشاد فرمائے۔
جامعہ کے مرکزی کیمپس میں شیخ معصراوی کے عربی خطاب کی ترجمانی ورکشاپ کے منتظم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی﷾ نے انجام دی جو ضروری تہذیب واصلاح کے بعد ہدیۂ قارئین ہے۔ (ادارہ)
شیخ محترم ڈاکٹر احمد عیسیٰ معصراوی ﷾ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا :
اے بھائیو ! ، اے اہل قرآن !، اے اللّٰہ کے خاص بندو !، تم سب بہترین کام سے وابستہ ہو ۔ یاد رکھو ! اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں اس کام کے لیے چنا ہے ۔ یہ عظیم شرف ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں عزت دی ہے ۔ تم سب قرآن کی طرف سبقت لے جانے والے ہو ۔ اور اس کے لیے اپنے آپ کو خاص اور خالص کرچکے ہو ۔یہ اللّٰہ تعالیٰ کا آپ پر بہت بڑا احسان ہے ۔ آپ ہی کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ﴾
''تم سب اُمتوں میں سے بہترین ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں۔ اچھے کاموں کا حکم کرتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور اللّٰہ پر ایمان لاتے ہو۔'' (آلِ عمران :110)
معلّم قرآن کا مقام
یعنی اُمت ِ محمدی بہترین امت ہے ، اور تم اس اُمت میں سے بھی سب سے بہترین ہو، کیونکہ تمہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی تلاوت کے لیے چنا اور لوگوں کی تعلیم وتربیت کے لیے پسند کیا ہے ۔ آپ ہی کے متعلق رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ».
''تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں سیکھائے ۔''
لہٰذا آپ کو اپنا مقام سمجھنا چاہیے۔ غور کریں تو قرآنِ کریم ہی نبوت ورسالت ہے ۔ ایک حدیث میں یہ آتا ہے کہ جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم دے دیا ، گویا کہ اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے نبوت کا پیغام اور خلاصہ عطا کر دیا ۔ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام اور سب سے بڑا معجزہ ہے ، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو دیا ہے:
﴿اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ﴾ (العنكبوت:51)
''کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے ۔''
عرب اپنی زبان دانی پر بہت ہی ناز کرتے تھے ۔ عربوں کے بڑے بڑے شعرا نے سات قصائد بیت اللّٰہ کی دیواروں کے ساتھ ٹانگ رکھے تھے ، جنہیں سبعہ معلقہ کہا جاتا تھا۔ یہ عرب شاعری کا جوہر تھا ۔ قرآن کریم نے اعجاز ، فصاحت اور بلاغت کے ساتھ ان کی زبان دانی کو چیلنج کیا، اور کہا کہ تمہیں اگر اپنی زبان دانی پر فخر ہے ، تو ایک مختصر سورت کے برابر ہی ایسا کلام بنا کر لے آؤ ۔ ﴿ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ...﴾
قرآن کریم نے الٓمّٓاور حروفِ مقطعات جو مختلف سورتوں کے آغاز میں موجود ہیں ۔ ان حروف مقطعات کے ذریعے بھی عرب کو چیلنج کیا کہ تم الٓمّٓجیسا کچھ بنا سکتے ہو، تو لاؤ۔ کم ازکم ان کا مطلب ہی واضح کر کے بتادوکہ ان میں اللّٰہ تعالیٰ نے کیا پیغام دیا ہے ؟
آپ اہل قرآن ہیں ۔آپ کو اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ عزت دی ہے ،سب سے بڑا اعزاز آپ کے پاس ہے ۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے کہ اللّٰہ نے آپ کے سینوں کو قرآن کا محافظ بنا دیا ہے ۔ قرآن کریم کے حافظ کے پاس سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اہل قرآن ہے۔ اگر آپ اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو اس سے بڑا دنیا میں کوئی انعام ہے ، نہ ہی اس سے بڑا کوئی مقام ہے !!
قرآن کریم کا علم ،اشرف علم ہے۔ قرآن کریم کے علم والا سب سے بڑے علم پر قائم ہے ،وہ اعظم الناس ہے ۔ ہمارے ربّ کا تمام انسانوں سے مطالبہ ہے کہ ہر جگہ قرآن کے عالم کو فوقیت دی جائے ۔ جنگ اُحد میں ستّر صحابہ کرام شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ، ان میں کئی بڑے صحابہ بھی شامل تھے ۔ جب اُنہیں دفن کرنے لگے تو ہر شخص کے لیے کفن کا کپڑا مکمل نہیں تھا ۔ تو رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا : ایک ایک کفن میں دو دو آدمیوں کو لٹا دو ، اور حافظِ قرآن کو يہاں بھی ترجيح دو۔ اسی طرح جب اُنہیں دفن کرنے کی باری تھی ، تو قبریں کافی نہ تھیں ، تو رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ حفاظِ قرآن کو اوّلیت دو ، یعنی اُنہیں پہلے اور قبلہ رخ پر رکھو ۔ نبی ﷺ نے اہل قرآن کو صرف امامت کی وجہ سے اعزاز نہیں دیا، بلکہ ہر کام میں ان کو فوقیت دی ہے ۔ لہٰذا آپ کو اپنا مقام سمجھنا اور اس پر فخر کرنا چاہیے اور اس کے تقاضوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
تعلیم قرآن کے تقاضے
1.  اپنے اعزاز پر دلی اطمینان: سب سے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں ، جس سعادت پر آپ قائم ہیں ،کیا اس سعادت پر آپ راضی بھی ہیں ؟ کیا دل سے آپ نے اس کا انتخاب کیا ہے؟ اگر آپ راضی ہیں تو اس عظمت پر آپ کو اپنے ربّ کا شکر گزار ہونا چاہئے ، اس پر مطمئن ہو جائیے اور اس شرف کا دل سے احترام کریں۔ جب آپ اس منصب کا دل سے احترام کریں گے، تو اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اپنی زندگی میں اطمینا ن بھی عطا کردیں گے ۔
قرآن کریم رفعت اور سربلندی عطا کرنے والی کتاب ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ذریعے قوموں کو رفعت دیتا ہے اور جو اسے چھوڑ دیتا ہے، اسے زوال پذیر کردیتا ہے ۔اللّٰہ تعالیٰ نے اس شرف کےذریعےدوسری اقوام بلکہ مسلمانوں پر بھی آپ کو عزت دی ہے ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ».
''بلاشبہ اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے اقوام کو سربلند کرتا ہے ، اور باقیوں (یعنی اسے چھوڑنے دینے والو) کونیچے گرادیتا ہے ۔''
اگر آپ اس شرف پر مطمئن ہیں تو اللّٰہ اس کے ذریعے آپ کو رفعت عطا کریں گے ۔ اب سوال پید ا ہوتا ہے کہ رفعت ملتی کیسے ہے ؟ یہ رفعت اسے ملتی ہے جس نے قرآن کریم کا مقام پہچانا ، اس کا حق جانا ، اس پر عمل کیا ، اس کی قدر کی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اس کی تعلیم دی جس طرح تعلیم دینے کا حق ہے ۔
قرآن کریم ایسی عظمت والی کتاب ہے کہ جس دل میں یہ موجود ہو ، اسے یہ زندگی عطا کر دیتی ہے ، صرف زندگی عطا نہیں کرتی بلکہ اس دل کو روشن اور منور کر دیتی ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَاالْاِيْمَانُ﴾ (الشورىٰ:52)
'' اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے قرآن نازل کیا، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ۔''
یہ قرآن کریم روحِ زندگی ہے ۔ یہ اُمت کے احیا کا پیغام ہے ۔ جس اُمت میں قرآن نہیں رہتا ، جو قوم قرآن کو چھوڑ دیتی ہے ، اس کی حقیقت میں موت ہو جاتی ہے ۔ قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ قرآن کریم پر اس طرح عمل کریں جس طرح نبی ﷺ اور صحابہ نے اس پر عمل کر کے دکھایا ۔صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہماری عمر دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ، مگر ہم قرآن کریم کے حافظ ہوتے تھے ۔ اور صرف حفظ نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے ۔ اس پر تدبر اور دوسروں کو تلقین بھی کرتے تھے ۔
2.  فکروتدبر:اللّٰہ نے یہ کتاب غور کرنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کے لیے دی ہے،ارشادِ ربانی ہے:
﴿كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْۤا اٰيٰتِهٖ وَ لِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ (صٓ :29)
'' ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل مند نصیحت حاصل کریں۔''
جو اس کلام کی عظمت کا قائل ہے، وہ اس کی قدر کرتا ہے ، اس پر عمل کرتا ہے ،اس میں تدبر کرتا ہے ،تفکر کرتا ہے اور اس کو قائم کرنے کی جدوجہد بھی کرتا ہے ،وہ صرف تلاوت پر اکتفا نہیں کرتا ۔
3. قرآن پر عمل: ہر وہ زمانہ تاریک ہے جس میں قرآن کریم کو قائم نہیں کیا جاتا ۔ آپ اس کو قائم کرنے والے بنیں ، محض حفظ پر اکتفا نہ کریں ۔ حفظ کے ساتھ اس کی تعلیم ہو ،اس میں تدبر ہو ،اس کے بعد اس کی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ قرآنِ مجید سے محروم ہر دور ظلمات اور تاریکی کا دور ہے ، جس میں قتل بھی ہوتا ہے ، زنا بھی ہوتا ہے ، عورتوں کو زندہ گاڑا بھی جاتا ہے ، سود بھی ہوتا ہے ۔ یہ جہالت کا دور ہے، جس میں قرآن کریم نہیں ہے ۔ کیونکہ قرآن جہاں بھی آتا ہے، قتل کو ختم کرتا اورزنا کی جڑ کاٹتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس معاشرے کی طرف جانا ہے جو معاشرہ اللّٰہ نے فلاح کا معاشرہ بنایا ہے۔ فلاح کا پیغام اور نبوت کا خلاصہ یہ 'کلام الٰہی' ہے ۔
قرآن ہی حق اورقرآن ہی خیر ہے۔ یہ سراسر اطمینان اورتمام نعمتوں کا محور ہے ۔ اس کا علم صرف اسے حاصل ہوتا ہے جو اس پر عمل کرتا ہے اور عملاً اس کا احساس کرتا ہے ، اور اس کا شعور رکھتا ہے۔ ان سعادتوں کا احساس اس کو ہے جس نے عمل کیا ہے ۔ جو اس تجربے سے گزرا نہیں ،اس کے لیے یہ ساری باتیں عام سی باتیں ہیں ۔ اور جو اس تجربے کو سیکھتا ہے، اس میں اُترتا ہے ، اسے پتا چلتا ہے کہ قرآن کریم حق ہے ، یہی خیر اور اطمینان ہے ۔ اس کا احساس اس کو ہے جس نے قرآن کو اپنی زندگی بنایا ۔ دورِ صحابہ میں ایسا ہی ہوتا تھا کہ صحابہ کرام نے قرآن کریم کی حیات میں زندگی صرف کی تھی ۔ وہ قرآن کا دور تھا ۔ اللّٰہ نے ان صحابہ کرام کو کہا تھا :
﴿اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾ (محمد :24)
'' پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔''
وه تدبر كرنے والے تھے ۔قرآن کریم کا پہلا مقصد، قرآن کریم کی پہلی دعوت ہی تدبر کی ہے۔ قرآن کریم کا سب سے پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کے معانی پر غور کیا جائے ۔ اور اگلا تقاضا اس پر عمل کرنے کا ہے۔ قرآنِ کریم کے علوم سب سے اشرف علوم ہیں، ان میں سب سے اہم علم ،جو اصل مقصود ہے وہ تدبر ہے ،کہ قرآن کریم سیکھا جائے ، اس کے معنی پر غور کیا جائے ۔ تلاوت اس تدبر کا ایک مبارک وسیلہ ہے ۔ نبی ﷺ نے تدبر کیا ، پھر اسے اپنی زندگی میں اختیار کیا ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں: كان خلقه القرآن کہ نبی ﷺ صرف قرآن کی تلاوت ہی نہیں کرتے تھے، دوسروں کو سکھاتے ہی نہیں تھے ، بلکہ عمل کے اعتبار سے آپ ﷺ مجسم قرآن تھے ۔
علم کے بعد اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس نعمت پر عمل کرنے والا ہی اس نعمت کا دراصل حامل ہے۔ جو انسان قرآن کریم کا حامل ہے ، ضروری ہے کہ اس کی شخصیت میں بھی قرآن نظر آئے ۔ قرآن مجید جن چیزوں کی ہدایت دیتا ہے ، جن کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، صاحبِ قرآن کے وجود میں نظر آنی چاہیے ، اس کا اخلاق ایسا ہونا چاہیے ، اس کی گفتگو ایسی ہونی چاہیے ، اس کے لوگوں سے معاملات ایسے ہونے چاہیے ، اس کا لوگوں کے ساتھ ادب کے ساتھ چلنے کا طریقہ ، اس کا اُٹھنا ،بیٹھنا ، بلکہ اس کی ہر چیز میں نظر آئے کہ یہ آدمی حاملِ قرآن ہے ۔ اس کے ایمان پر عمل کی تصدیق ہونی چاہیے ۔ کیونکہ حدیث میں بے عمل حافظ قرآن کو منافق قرار دیا گیا ہے ، سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
«الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ وَالْمُؤْمِنُ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ أَوْ خَبِيثٌ وَرِيحُهَا مُرٌّ».
'' اس مؤمن کی مثال جو قرآن پڑھتا اور اس پر عمل بھی کرتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا مزہ بھی لذیذ اور خوشبو بھی اچھی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہيں ہوتی۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی ہے، جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن کی طرح ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس کی بو بھی خراب ہوتی ہے۔ ''
یعنی جو شخص قرآن پڑھتا ہی نہیں ، یا پڑھتا تو ہے لیکن عمل نہیں کرتا ، رسول اللّٰہ ﷺ نے اسے منافق قرار دیا ہے ۔ ایک حديث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے منافق کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا... : إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ». ''چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو دغا بازی کرے اور جھگڑے تو بے ہودہ بکواس کرے۔''
یہ صفات اور عادات اہل قرآن میں بالکل نہیں ہونی چاہییں ۔ اس کے برعکس مؤمن قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی انجام دیتا ہے ۔ جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم دیا ہے، اسے اللّٰہ نے ایمان کی حلاوت عطا کر دی ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآنِ کریم تو کتاب حیات ہے :
﴿اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ﴾ (الانعام:122)
'' بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی دی کہ اسے لوگوں میں لیے پھرتا ہے وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو، وہاں سے نکل بھی نہیں سکتا ۔ ''
یعنی وہ شخص جسے اللّٰہ نے قرآن کے ذریعے زندگی اور نور عطا کیا ہے ، اور اس زندگی کے ساتھ وہ معاشرے میں نو ر بن کر چلتا ہے ۔اور وہ شخص جو قرآن کے نور سے محروم ہو کر ظلمات اور اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے ۔
4. ہرلمحہ خدمت اور فروغِ قرآن کے لئے مستعد:ہم دعویٰ حفاظت اور حفظِ قرآن کاکرتے ہیں ۔قاری کہتا ہے کہ میں قرآن کریم سے تعلق رکھتا ہوں ، لیکن جب اسے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بات سناؤ یا کوئی مسئلہ بتاؤ ۔ تو و ہ کہتا ہے کہ میں اس وقت مستعد نہیں ہوں ، میں نے ابھی تیاری نہیں کی ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس انسان نے قرآن کریم میں اپنے اوقات کو صرف کیا ہو ، صبح شام قرآن کو پڑھتا ہو، اس پر تدبر کرتا ہو ، اس پر عمل کرتا ہو ، جب اسے قرآن کریم سے متعلق کچھ پوچھا جائے تو کہے کہ میں تیار نہیں ہوں۔ اس کی مثال تو اس شخص جیسی ہےجس کا تذکرہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کیاہے :
﴿كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا١ۚ وَ كَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى﴾ (طهٰ :126)
''اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انہیں بھلا دیا تھا، اور اسی طرح آج تو بھی بھلادیا گیا ہے۔''
جس آدمی کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم دیا ، مگر وہ کہتا ہے کہ میں تیار نہیں ہوں ، اسے قرآن مجید کو بھلانے والی وعید سامنے رکھنی چاہیے ، اور نبی کریم ﷺ کے اس شکوے کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے ، جو وہ روزِ قیامت اللّٰہ کے سامنے رکھیں گے۔ ارشاد باری تعالی ٰ ہے:
﴿وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا﴾ (الفرقان:30)
'' اور رسول کہیں گے :اے میرے ربّ بے شک میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑ دیا تھا ۔''
اس کے برعکس وہ شخص کس قدر عظیم ہے جو قرآنِ مجید پر غور وفکر کرتا ،اس پر عمل کرتا ہے ، اور ہر وقت اس کے لیے مستعد ہوتا ہے ۔ آپ ماشاءاللّٰہ حافظِ قرآن ہیں۔ اور ہر حافظ قرآن کو یہ بات ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اس سے بڑا کوئی گنا ہ نہیں دیکھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کسی شخص کو قرآن کریم کی ایک سورت عطا کی ہو ۔ اور وہ اسے یاد کر ے ، پھر اس کو بھلا دے ۔
اور یہ حدیث بھی آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے ، رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا، وَيُعَلِّمُهَا النَّاسَ».
'' صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیے : ایک ، جسے اللّٰہ نے مال دیا ، اور وہ حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرتا ہے ۔ دوسرا ، جسے اللّٰہ نے (قرآن و ) حکمت دی ہو ، اور وہ اس کے مطابق (اپنی زندگی کے ) فیصلے کرتا ،ا ور اسے لوگوں کو سکھاتا ہے ۔''
آپ کو وہ حدیث بھی ذہن نشیں رکھنی چاہئے ، جس میں ہے :
«مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ».
''لوگوں کو خیر (یعنی قرآن ) کی بات سکھانے والے کے لیے (کائنات کی) ہر چیزحتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعاے مغفرت کرتی ہیں ۔''
اے میرے مسلمان بھائیو !، اے حفاظِ قرآن ! ، اے حاملینِ کتاب اللّٰہ ! آپ کو صرف قرآن کریم یاد ہی نہیں کرنا ، بلکہ قرآن کریم کے معنیٰ پر غور کرنا ہے۔ اور قرآن کریم کے اخلاق کو اپنی شخصیت میں اُتارنا ہے ، کہ لوگ آپ کے ذریعے قرآن کو پہچانیں ۔ آپ کے ذریعے قرآن میں وسعت آنی چاہیے ۔اپنے عمل پر توجہ کیجئے! آپ لوگوں کے لیے قرآن کریم کی مثالیں ہیں، مثلاً جب اللّٰہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ آپ أهل الله اورخاصة الله ہیں ۔ آپ اللّٰہ کے سب سے قریبی لوگ ہیں ، تو قریبی صرف وہ نہیں ہوتے ، جن کے سینوں میں قرآن ہو ، جو صرف زبان سے پڑھتے ہوں ۔ قریبی لوگ تووہ ہیں جن کے عمل سے قرآن مترشح ہوتا ہو ۔
ہمیں اپنے اوپر، اپنے گھروں ، اپنے معاشروں اور اپنی حکومتوں میں، بلکہ ہر جگہ قرآن کی حکومت قائم کرنی چاہیے ، اپنے عمل سے اس کا اظہار کرنا چاہیے ، ورنہ ہمارا عمل ایک منافق کا عمل بن جائے گا ۔ اللّٰہ ہم سب کو اس سے عافیت عطا فرمائے ۔آمین!
آج ہمارے چوّن (54)ممالک ہیں ۔ ان اسلامی ممالک نے قرآن کریم کے حقوق ضائع کردیئے ہیں ۔ آج ہم نے قرآن کریم کو وہ مقام نہیں دیا ، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کلام کو دے رکھا ہے ، جو مرتبہ نبی ﷺ کے فرامین میں موجود ہے ، ہمارے ممالک ، ہمارے گھروں بلکہ ہمارے سینوں میں اس کا وہ مقام موجود نہیں ۔
تین نصیحتیں
تین باتیں میں آپ کو بطورِ نصیحت اور وصیت کہنا چاہتا ہوں :
1. حامل قرآن کے لئے عمل کرنے کی بڑی آزمائش ہے! قرآن کریم پر عمل کرنا یہ صرف سعادت کی بات نہیں ہے۔ جو قرآن کریم پر عمل نہیں کرتا اور وہ حامل قرآن ہو تو دراصل یہ بہت بڑی آزمائش کی بات ہے ۔ قیامت کے دن بہت بڑے محاسبے کی بات ہے ۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن تین آدمی لائے جائیں گے ۔ ان تینوں میں سے ایک وہ ہو گا جو قرآن کریم کا حامل ہوگا ۔ اللّٰہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے : تو نے قرآن کریم پر کیا عمل کیا تھا؟ اللّٰہ تعالیٰ قارئ قرآن سے قرآن کریم پر عمل کرنے کا محاسبہ کریں گے، تووہ کہے گا کہ میں نے قرآن کریم کو اس لیے پڑھا تھا کہ میں اللّٰہ کو راضی کر سکوں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے: تم تو قرآن اس لیے پڑھتے تھے کہ لوگ تمہیں بڑا قاری کہیں ۔ پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر قراے کرام کو یہ وعید بھی یاد رکھنی چاہئے ، جو قرآن کریم میں موجود ہے :
﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَ هُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ . اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُۖٞ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾
'' جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہے تو ان کے اعمال ہم یہیں پورے کر دیتے ہیں اور انہیں کچھ نقصان نہیں دیا جاتا۔ان لوگوں کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا اور خراب ہو گیا جو کچھ کمایا تھا۔ '' (ہود:15،16)
یعنی جو شخص محض دنیا کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں اس کا بدلہ مل جاتا ہے، آخرت میں اس کے لیے کچھ نہیں ۔ اگر آپ اہل قرآن ہو کر ، اور حفظ ِقرآن کریم کے اساتذہ ہو کر بھی اس وعید کو نہیں سمجھے تو گویا آپ نے قرآن کا پیغام سمجھا ہی نہیں ۔
2. ترتیل کے ساتھ پڑھنا اور درست وقف کرنا : قرآن مجید کوئی معمولی سی کتاب نہیں اور قرآن کا معلم کو ئی عام سا معلم نہیں ۔ یہ قرآن محض ایک کتاب کے طور پر نہیں ملا ، یہ ہمیں ایک کیفیت کے ساتھ ملا ہے ، کچھ خصوصیات کے ساتھ حاصل ہوا ہے ۔ باقی علوم اور دوسرے مدرسین میں یہ صفات موجود نہیں ہیں ۔ نزولِ قرآن اور اس کی قراءات کی خاص کیفیات کو اللّٰہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
﴿وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا﴾ (المزمل:4) '' اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھا کرو۔''
ترتیل نام ہے: دو باتوں کا۔ ایک حروف کو اچھی طرح ادا کیا جائے ، دوسرا وقف بھی اس جگہ پر کیا جائے جو معنی ٰکے عین مطابق ہو ۔ اس لیے قرآن کریم کی تعلیم دینے والے کو اس کی خصوصیات کا بھی دھیان کرناچاہیے اور اس کی کیفیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ بڑےبڑے قرا، جو قرآن کریم کو بڑی خوبصورتی سے پڑھتے ہیں ، مگر وقف پر دھیان نہیں دیتے ۔ اس سے بعض اوقات معانی بہت زیادہ خراب ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا آپ کو چاہیے کہ بچوں کو معنی ٰکی طرف توجہ دلائیں اوراُنہیں وقف کے مقامات بتائیں۔ آدھی تجوید تو صحیح جگہ وقف کرنے کا نام ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے غلط جگہ پر وقف کیا ، تو آپ ﷺنے فرمایا : «قُمْ، بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ».
'' اُٹھ جا ، تو بہت برا خطیب ہے ۔''
لہٰذا قرآن کریم میں وقف وہاں کرنا چاہیے ،جہاں اس کے معنی ٰکی خاص کیفیت ہے ۔ میں نے پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے جو تلاوت کے درمیان جملوں کو کاٹتے اور معنیٰ کو خراب کر دیتے ہیں ۔ یہاں لوگ قراءات سبعہ عشرہ کی کتب :شاطبیہ اور طیبہ کوتو جانتے اور سمجھتے ہیں ، اس کے احکام سیکھنے پر بہت سی صلاحیت صرف کرتے ہیں، لیکن اس کے معنیٰ کے لیے اُنہیں قرآن کریم کے ترجمہ پر بھی توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ شاطبیہ اور طیبہ کاموضوع قرآن مجید کا معنی ٰ نہیں ہے جبکہ تجوید کا اصل موضوع قرآن کریم کا معنیٰ ہے۔ جب تک کسی کو ترجمہ نہیں آتا، تب تک وہ تجوید وقراءت کا ماہر نہیں بن سکتا ، کیونکہ آدھی تجوید تو صحیح جگہ رکنا ہے ۔
c تعلیم قرآن کا مقصد اُخروی نجات ہونی چاہیے: اے معلّمین قرآن ! اپنی ذمہ داری کو سمجھیے! قرآن کریم کا کام دنیا کے لیے کرنا ، یہ بہت ہی چھوٹی چیز ہے۔ اس کی تعلیم و تعلّم صحیح ہونی چاہیے ۔آپ کا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا ہے ۔ یہ قرآن آپ کے پاس اللّٰہ کی امانت ہے ۔ آپ اللّٰہ کی امانت اس کے بندوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ، اور اس کا بدلہ آپ نے قیامت کے روز اللّٰہ سے لینا ہے ، یہ کوئی چھوٹی ذمہ داری نہیں ہے !!
جہاں تک اس کے حفظ کروانے کا طریقہ کار ہے ، تو طریقہ آپ ہم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ اہل پاکستان حفظ کے طریقے کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ سارا دن کس طرح بچے کو پڑھانا ہے، وہ آپ بہتر سمجھتے ہیں ۔ یہ ہر علاقے میں مختلف طریقہ ہے ۔ البتہ جہاں تک اس کی ادا کا معاملہ ہے ،اسے پڑھنا کیسے ہے؟ وہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید کو عرب کے لہجوں میں پڑھو۔ اس کی قراءت کا طریقہ پوری دنیا میں ایک ہے۔ اس کو ایسے پڑھناہے جیسے وہ نازل کیا گیا ، اور جیسے اس کی قراءت کی جاتی ہے ۔
اگر آپ نے ان تین چیزوں کو پیش نظر رکھا تو آپ اس بات کے مصداق ہوں گے جو نبی ﷺ نے فرمائی تھی : «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» (صحیح البخاري:5027)
''تم میں بہترین وہ ہے جس نے قرآن کریم کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔''
آپ نے سب سے بہترین کس کو کہا ہے ...؟
آپ نے سب سے بہترین اس انسان کو قرار دیا ہے ، جو ان اوصاف کی پاسداری کرتا ہے ۔ اپنے عمل سے وہ قرآن کریم کو اختیار کرتا ہے ، اس کام کو ایک امانت اور ذمہ داری کے طور پر ادا کرتا ہے۔ اور اس کو اس کیفیت اور اس وصف کے ساتھ تلاوت کرتا ہے جیسے یہ نبی ﷺ پر اُترا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے قراے کرام بنائے جو اس کے حقوق کی پوری حفاظت کرنے والے ہوں!!٭