اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کا مسئلہ

اہل علم ودانش کے موقفوں کا خلاصہ اورتحلیلی تجزیہ
جون 2020ء کے اَواخر میں اسلام آباد کے ایچ نائن؍2 سیکٹر میں چار کنال کے پلاٹ پر ’شری کرشن بھگوان‘ کے مندر کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس میں وزارتِ انسانی حقوق کے پارلیمانی سیکرٹری لال مالہی(ایم این اے) مہمانِ خصوصی تھے۔ 2017ء میں اسلام آباد میں دو صد ہندو ملازمین کی عبادت کے لئے ’ہندوپنچائیت‘ نامی تنظیم کو CDA (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی طرف سے الاٹ کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ایسی نظریاتی ریاست کے ’اسلام‘ کے نام سے ’آباد‘ کردہ دارا لحکومت کے عین قلب میں بت کدے کی تعمیر سے اسلامیانِ پاکستان کے دینی جذبات بری طرح متاثر ہوئے، اور اسلام آباد سمیت ملک بھر میں مظاہروں اور احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
عوامی جذبات میں شدت کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس مندر کی تعمیر سے 10 ماہ قبل حکومت نے کرتارپور میں سکھوں کے لئے بہت بڑے گودوارےکی توسیع کی تھی۔ ماضی میں چار ایکڑ پر محیط ا س گوردوارے کو 800 ایکڑ پر توسیع دے کر، دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ نہ صرف قائم کیا بلکہ پاکستانی حکومت نے اس کے لئے راہداری بھی تعمیر کی، اور قومی خزانے سے اس پر ڈیڑھ ارب روپے کی خطیر رقم بھی صرف کی۔ اسی طرح حکومت نے کچھ عرصہ سے ننکانہ میں بابا گورونانک یونیورسٹی کے منصوبے کو بھی فعال کرنے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں، اس کےعلاوہ ملک   کی دوسری یونیورسٹیوں میں ’بابا گورنانک ریسرچ چیئرز ‘بھی قائم کی گئی ہیں۔
26؍ جون 2020ء کے اخبارات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے پی ٹی آئی کے چار غیرمسلم ارکانِ اسمبلی نے وفاقی وزیر مذہبی اُمور نور الحق قادری کے ساتھ مل کر ملاقات کی جس میں وزیر اعظم نے مندر کی تعمیر کے لئے فوری فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی۔
جیو نیوز پر یکم جولائی 2020ء کو چلنے والی ویڈیو میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ
’’اسلام آباد میں نیا مندر بنانا نہ صرف اسلام کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاستِ مدینہ کی بھی توہین ہے۔فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ﷜ کے ساتھ بیت اللّٰہ میں موجود 360 بتوں کو توڑا اور فرمایا کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ‘‘
اس اہم دینی مسئلہ پر علماے کرام نے عوام کی رہنمائی کا شرعی فریضہ بخوبی انجام دیا ، چنانچہ امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث، اسلام آباد حافظ مقصود احمد﷾ کی دعوت پر یکم جولائی 2020ء کو ’نیشنل پریس کلب‘ میں جمعیت علماے اسلام، جماعت اسلامی اور جماعت اہل سنت کی مشترکہ پریس کانفرنس   کی گئی ۔ اس کے ساتھ دیگر اہل علم حضرات نے بھی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر عوام کے ساتھ آواز بلند کرنا شروع کردی۔اسلام آباد کے تمام قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ
’’نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد میں کسی بھی صورت مندر تعمیر نہیں کرنے دیں گے، کیونکہ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کے منافی ہے۔ چاروں ائمہ کرام: امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور تمام ائمہ محدثین وفقہاے اُمت رحمہم اللّٰہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلامی مملکت میں بتوں کے عبادت خانے کی تعمیر ناجائز ہے۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی جمعیت اہل حدیث ، اسلام آباد کے امیر حافظ مقصود احمد اور تمام مسالک کے علماے کرام نے کیا۔ اس موقع پر جے یوآئی(ف) کے امیر مولانا عبد المجید ہزاروی، مفتی محمد عبد اللّٰہ، محمد کاشف چوہدری، مفتی عبد السلام، مولانا حمد اللّٰہ، مولانا محمد ادریس، ودیگر موجود تھے۔ علماے کرام نے کہا کہ ’’اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ نبی کریمﷺ، آپ کے خلفاے راشدین﷢، یا ان کے بعد اسلامی ادوار میں کسی اسلامی حکومت نے شرک کا مرکز قائم کیا ہو۔ مسلمانوں کے ٹیکس سے شرک کا اڈہ تعمیرہوا تو قبر وحشر میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ اگر حکومت کسی وجہ سے مندر تعمیر کرنا ہی چاہتی ہے تو پاکستان کے دینی مسالک کے جید مفتیانِ کرام کے سامنے اس مسئلے کو رکھے اور ان سے شرعی رائے لے۔ وگرنہ حکومت کو شدید ردّ عمل کا سامنا کرنا ہوگا اور 22 کروڑ اسلامیانِ پاکستان کی دل آزاری ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ووٹر لسٹ کے مطابق صرف 186 ہندو ہیں، اور ان کے لئے قریبی گاؤں سید پور میں پہلے سے ایک مندر موجود ہے۔ ‘‘[1]
چیئرمین ’رؤیت ہلال کمیٹی‘ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے ایک ویڈیو بیان میں یہ وضاحت کی:
’’ریاستِ مدینہ ہمارا نعرہ ہواور بیت المال سے بت کدے تعمیر کئے جائیں، اس کا کسی درجے میں کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اقلیتوں کے حقوق کے ہم دعویدار ہیں، لیکن اقلیتوں کی اصطلاح بھی مغالطہ آمیز ہے۔’مسلم پاکستانی‘ اور ’نان مسلم پاکستانی‘ کے الفاظ زیادہ بہتر ہیں، کیونکہ اقلیت ایک متعلقہ Relativeاصطلاح ہے۔پاکستان میں ہندو اقلیت ہیں تو ہندوستان میں 20 کڑوڑ مسلمان اقلیت میں ہیں۔ میں تو ’غیرمسلم پاکستانیوں‘ کے حقوق کے احترام کی بات کرتا ہوں جس کے لئے مسلمانوں نے معاہدے بھی کئے، اور بیت المقدس کے باشندوں سے سیدنا عمر ﷜کا معاہدہ بڑا مشہور ہے۔
غیرمسلم اپنی زمین خرید کر، اپنا معبد بناسکتے ہیں لیکن حکومت آگے بڑھ کر بت کدے بنائے تو ریاستِ مدینہ کا نام لینے والی یا کسی بھی درجے کی اسلامی ریاست میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے ، نہ اس کا کوئی تصور کیا جانا چاہیے۔اگر یہاں سو مندر بھی بنادے جائیں تو بھی ہنود ویہود حکومت سے راضی نہیں ہوں گے، اور وہ حکومت سے مزید جھکنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ ‘‘[2]
اسی طرح مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ
’’اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حق ہے کہ جہاں ان کی آبادی کے لئے ضروری ہو، وہ اپنی عبادت گاہ برقرار رکھیں اور پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے، وہاں ضرورت کے مطابق نئی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔لیکن حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے ،خاص طورپر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو۔‘‘[3]
حکومت نے عوامی غیظ وغضب کو محسوس کرتے ہوئے، اسلامی نظریاتی کونسل سے اس موضوع پر شرعی رہنمائی کا مطالبہ کردیا۔ اورانہی دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں مندر کی تعمیر رکوانے کے لئے چوہدری تنویر کی طرف سے درخواست بھی دائر کر دی گئی۔ چند سماعتوں کے بعد جسٹس عامر فاروق نے یہ فیصلہ سنایا کہ
’’ اگرچہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں مندر کے لیے جگہ مختص نہیں کی گئی تھی لیکن اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کا چیئرمین اور سی ڈی اے کے بورڈ ممبر لے آؤٹ پلان کے تحت بھی وفاقی دارالحکومت کے کسی سیکٹر میں پلاٹ الاٹ کرنے کے مجاز ہیں۔
تاہم مندر کا نقشہ جمع کرانے کے حوالے سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی، لہٰذا قانون پر عمل درآمد تک مندر کی تعمیر رُکی رہے گی۔
عدالت نے کہا کہ چونکہ مندر کی تعمیر کی فنڈنگ کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بھیج دیا گیا ہے اور اب تک کوئی فنڈ جاری نہیں کیا گیا، اس لیے عوام کا پیسہ ضائع ہونے کا کوئی معاملہ نہیں اُٹھتا۔
عدالت نے مندر کی تعمیر کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا اور درخواست گزار کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تینوں مماثل درخواستیں نمٹا دیں۔‘‘[4]
عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے پر فوری ردّ عمل دیتے ہوئے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے شدید احتجاج کیا:
’’اسلام آباد میں مندر کی تعمیر روکنا متعصّبانہ اور غیر ذمے دارانہ عمل ہے۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر روکنے کا فیصلہ فوری واپس لیاجائے،پاکستان میں ہر ایک کومذہبی آزادی یاعقیدے کا حق ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مذہبی آزادی یا عقیدے کے حق کی آئین پاکستان میں ضمانت دی گئی ہے،پاکستان کومذہبی آزادی کےحق کی ضمانت دیناعالمی ذمے داری بھی ہے۔‘‘[5]
تنظیم اسلامی، پاکستان نے معروف دینی مراکز سے فتاویٰ لے کر دینی موقف کو منظم کرنے کی جدوجہد کی، 2؍ جولائی 2020ء کو تمام مسالک کی مشترکہ کونسل ’ملی مجلس شرعی‘ کے اجلاس میں بھی یہ مسئلہ پیش ہوا، جہاں راقم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ اس اہم مسئلہ پر شرعی دلائل اور فقہا ے کرام کے اقوال سے مزین جامع ومدلل اسلامی موقف کو تحریر کیا جائے ، جسے بعد میں ملّی مجلس شرعی کی طرف سے عام کردیا جائے۔
بظاہر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے مندر کی تعمیر کا قضیہ فوری طور پر رک گیا، لیکن اس فیصلے کے دو روز بعد 9؍ جولائی کو ہائیکورٹ میں حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اور محمد یونس قریشی وغیرہ کی طرف سے ایک اور درخواست دائر کر دی گئی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ شہری قوانین کے تحت زمین کی الاٹمنٹ کینسل کرکے اور مندر کی تعمیر کی ممانعت کے علاوہ مستقل طورپر شرعی احکام کے تحت اسلام آباد جیسے شہر میں نئے مندر کو تعمیر کرنا ممنوع قرار دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، اسلام آباد میں آباد کاری 1962ء کے بعد سے قائم گرجا گھروں کی تعمیر کو بھی غیر شرعی قرار دیتے ہوئے، عدالتِ عالیہ سے ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مندر کی تعمیر کے تین پہلو
اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کے تین پہلو ہیں:
1. اگر مندر کو کسی ایسی جگہ پر تعمیر کرنے کی کوشش کی جائے جو حکومت یا کسی دوسرے فرد کی ملکیت ہو، یا اس کی تعمیر سے آمد ورفت یا رہائشیوں کے حقوق میں خلل پڑتا ہو ، یا اس کے نقشے اور تعمیری منصوبے کو حکومت کے پاس پیشگی منظوری کے لئے پیش نہ کیا گیا ہو، یا کسی علاقے میں اس کی تعمیر کے لئے درکار رہائشیوں کی تعداد پوری نہ ہو وغیرہ وغیرہ، تو ایسے شہری قوانین کو نظرانداز کرنے کی بنا پر ، کسی ناجائز تعمیر کو روک دینے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ یہ سارے تقاضے جب کسی مسجد کی تعمیر کے لئے پیش نظر رکھے جاتےہیں ، تو کسی اور مذہب کی عبادت گاہ کے لئےبھی ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عدالتِ عالیہ نے اسی بنیاد پر مندر کی تعمیر کو اس وقت تک ملتوی کردیا ہے جب تک اس کا نقشہ مجاز اتھارٹی سے منظور نہیں کروالیا جاتا۔
2. نئے مندر کی تعمیر پر اعتراض کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت نے پاکستانی مسلمانوں کے ٹیکسوں سے مندر کی تعمیر کے لئے گرانٹ عطا کی ہے۔ اگر حکومت یہ گرانٹ مندرا ور گوردوارے کی تعمیر کے لئے تو دے لیکن مساجد کو نظر انداز کردے تو یہ بھی وزنی اعتراض ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کو فروغ دینے کا حلف اُٹھانے والے حکام مساجد ومدارس کو تو قومی خزانے سے تعمیر نہیں کرتے، لیکن غیر مسلموں کی کفریہ دعوت کے فروغ کے لیے قومی خزانے سے کروڑوں روپے کا اعلان کرنے سے نہیں ہچکچاتے جو آئینی تقاضوں اور مسلم روایات سے انحراف ہے۔ عدالت میں پیش کردہ حکومتی موقف کے مطابق ابھی صرف اعلان ہی کیا گیا ہے، جبکہ حکومتی خزانے سے اس قسم کی کوئی گرانٹ ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔
عدالتِ عالیہ نے جس بنیاد پر مندر کی تعمیر روکنے کا حکم دیا ہے، وہ خالص انتظامی بنیاد ہے جو نہایت کمزور ہے۔ اس سے مندر کی تعمیر رکنے کی بجائے عوامی جوش ٹھنڈا ہونے تک ا س میں تاخیر ہوجائے گی ۔ جہاں تک حکومتی گرانٹ کی ممانعت ہے تو یہ بھی کمزور بات ہے کیونکہ کوئی مالدار ہندو شخص یا انسانی حقوق کا محافظ کوئی بھی ادارہ بیرونی مدد سے اس کی تعمیر کرادے تو یہ رکاوٹ بھی ختم ہوجائے گی۔
3. مسئلہ کا تیسرا اور حقیقی پہلو خالصتاً شرعی نوعیت کا ہے کہ اسلامی مملکت میں، جہاں غیرمسلموں کو بہت سے حقوق حاصل ہیں، وہاں بہرحال اُنہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تلقین کریں ۔ ہر ریاست کسی بنیادی نظریہ پر قائم ہوتی ہے، اور وہ اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو قبول نہیں کرتی۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’ہمارے پڑوس میں کوئی شخص دو قومی نظریہ پر ایمان رکھ کر سانس نہیں لے سکتا۔ روس میں کمیونزم کے بنیادی اُصولوں کے منکرین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ... ریاست ان کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ان نظریات کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سےبرپا اور ان کو اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں پر بالفعل غالب کرنے کی کوشش کریں ۔ ‘‘[6]
جب اسلامی حکومت کا بنیادی فریضہ ، توحید ورسالت کو قائم کرکے، اسے فروغ دینا ہے۔ یہ ملک   کی نظریاتی اساس ہے،اور اسی مرکزی نکتہ کو ہمارے دستور نے حاکمیتِ الٰہیہ کی اصطلاح سے بیان کرکے، سرنامہ میں درج کردیا ہے اور دستور کے دسیوں آرٹیکلز نے اس بنیادی مقصدکے تحفظ اورفروغ کے لئے قانون سازی کررکھی ہے ،تو ایسے حالات میں پاکستانی حکومت اپنے بنیادی فریضے سے انحراف نہیں کرسکتی۔
شرعی احکام[7] دائمی نوعیت رکھتے ہیں اور اگر اسلام آباد یا کسی اور شہر میں شہری قوانین کے تقاضے پورے کربھی لئے جائیں تو اس بنیاد پر دیگر مذاہب کی نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کو روکا جاسکتا ہے۔ اس مسئلہ میں شدت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جو قیام پاکستان کے 15 سال بعد ، حکومتی مقاصد کے تحت بسایا گیا ہے اور ایسے شہر جنہیں مسلمانوں نے ہی بسایا ہو، اور وہاں پہلے سے غیرمسلموں کی کوئی آبادی نہ ہو، تو ان شہروں میں کفریہ عبادت گاہوں کی تعمیر سرے سے ممنوع ہے، جیسا کہ امام عینی حنفی (855ھ) لکھتے ہیں:
مَا مَصَّرَهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْهَا، کَالْکُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ وَبَغْدَادَ وَوَاسِطٍ، فَلَا یَجُوزُ فِیهَا ِإحْدَاثُ بِیعَةٍ، وَلَا کَنِیسَةٍ وَّلَا مُجْتَمَعٍ لِصَلَوَاتِهِمْ وَلَا صَوْمَعَةٍ بِإجْمَاعِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَلَا یَمْلِکُونَ فِیهِ شُرْبَ الْخَمْرِ وَاتِّخَاذَ الْخِنْزِیرِ وَضَرْبَ النَّاقُوسِ. [8]
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو، جیسے کوفہ، بصرہ، بغداد اور واسط ہوئے۔ ان میں نیا گرجا یا کنیسہ بنانا جائز نہیں۔ اسی طرح کفار کی انفرادی اور اجتماعی عبادت گاہ نہیں بنائی جائے گی، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ ایسے شہر میں شراب پینے ، خنزیر رکھنے اور ناقو س بجانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔‘‘
اور شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (م 728ھ)لکھتے ہیں:
وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَا بَنَاهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ الْمَدَائِنِ لَمْ يَكُنْ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُحَدِثُوا فِيهَا كَنِيسَةً؛ مِثْلَ مَا فَتَحَهُ الْمُسْلِمُونَ صُلْحًا وَأَبْقَوْا لَهُمْ كَنَائِسَهُمْ الْقَدِيمَةَ. [9]
’’مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہوتو اہل ذمہ کو اس میں اسی طرح نیا گرجا بنا نے کی اجازت نہیں ہے،جس طرح کسی علاقے کو مسلمانوں نے صلح سے فتح کرکے صرف سابقہ گرجوں کو باقی رہنے کی اجازت دی ہو۔‘‘
شرعی مباحثہ اور اس کی تحلیل
راقم نے اسلام آباد کے اس واقعہ سے چند ماہ قبل کرتار پور گوردوارے کے موقع پر میں اس موضوع پر تفصیلی تحقیق کرچکا تھا، جس کا پہلا حصہ محدث کے شمارہ نومبر 2019ء میں شائع ہوا۔راقم نے اپنی تحقیق میں جہاں یہ موقف اپنایا کہ نبی کریمﷺ نے خود مفتوحہ علاقوں میں بت کدے ڈھا دیے، مکہ مکرمہ میں بیت اللّٰہ کو 360 بتوں سے پاک کیا اور یمن میں خودساختہ بیت اللّٰہ ذي الخلصة کو مسمار کرنے کے لئے اپنے صحابی سیدناجریر بن عبد اللّٰہ بجلی﷜ کو بھیجا۔ پھر عرب میں کئی صنم کدے منہدم کرنے کے لئے صحابہ کرام: سیدنا خالد بن ولید ، سعد بن زید ، عمر و بن العاص اور سیدنا علی ﷢ کی ذمہ داریاں لگائی جاتی رہیں۔اہل طائف مسلمان ہوئے تواُنہوں نےقبول اسلام کےلیے چند ایک شرائط رکھیں۔ان میں ایک شرط یہ تھی کہ اُن کے بتلَات کوتین سال تک کے لیے چھوڑ دیا جائے لیکن آپ نے تسلیم[10] نہ کیا،پھر اُنہوں نےدوسال کی مہلت مانگی مگرآپ نہ مانے اور لات کو منہدم[11] کردیا گیا۔ جس سے علم ہوتا ہے کہ نہ صرف مفتوحہ علاقوں میں بلکہ صلح سے حاصل ہونے والی سرزمین میں بھی کفر وشرک کے عبادت خانوں کو لازماً برقرار رکھنا سنتِ نبوی نہیں۔
اس شرعی موقف میں قرآن وسنت پر مبنی صحابہ کرام﷢ کے دو اجماعات کو بھی مرکزی حیثیت دی گئی،جن میں پہلا اجماع 15ھ میں سیدنا عمرؓ نے بلادِشام میں بسنے والے عیسائیوں پر 22 کے قریب شرطیں عائد کرنے کے وقت منعقد کیا، جبکہ دوسرا اجماع سیدنا عبد اللّٰہ بن عباسؓ کے اس موقف پر بھی ہوا تھا جو اُنہوں نے مسلم علاقوں میں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ ان کے موقف پر بھی صحابہ کرام میں اجماع[12] ہوگیا اور بعد میں ان دونوں اجماعوں کو محدثین کرام اور فقہاے عظام رحمہم اللّٰہ نے ہردور میں اختیار کیا اور یہی موقف مسلم اُمہ میں چودہ صدیوں سے ،آج تک جاری وساری ہے۔
اس موقف کی علمی تفصیلات ایک مستقل کتاب میں راقم نے جمع کردی ہیں جن میں 15شرعی دلائل کےساتھ، شریعت کے آٹھ عمومی دلائل کوبھی پیش کیا گیا ہے۔ نیز اس مسئلہ پر اصل مراجع سے فقہاے کرا م کےاقوال کی بھی تفصیلی وضاحت کر دی گئی ہے ۔مزید برآں پاکستان کے دینی مراکز ومدارس کے بارہ فتاویٰ جات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس تفصیلی تحقیق کی تیاری کے دوران مجھے پاکستانی اہل علم کے مختلف موقفوں کو دیکھنے، سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کا موقع ملا، جس کا مختصر تحلیلی تجزیہ حسب ذیل ہے کہ
1.    شہری قوانین کی پاسداری پر علماے کرام سمیت کسی بھی ذی شعور شخص میں کوئی اختلاف نہیں ، کہ مندر ہو یا مسجد، اس کے لئے زمین کی ملکیت درست اور اس کا نقشہ وغیرہ منظور شدہ ہونا چاہیے۔
2. اس بارے میں بھی علماے کرام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ غیرمسلموں کی عبادت گاہ کو مسلم حکومت کو قومی خزانے سے گرانٹ نہیں دینی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ میں تعاون کے طور پر ناجائز[13] ہے۔ تاہم بعض دین سے لاعلم لوگوں کا خیال ہے کہ جب وہ ٹیکس دیتے ہیں تو ان کو بھی قومی خزانے سے حصہ ملنا چاہیے۔ اسی اُصول کی بنا پر CDA نے جہاں مساجد کے لئے ہر علاقے میں بلامعاوضہ پلاٹ فراہم کئے ہیں، وہاں دیگر مذاہب کو بھی قیمتی اراضی الاٹ کی گئی ہے۔ راقم نے اپنی کتاب میں اس اعتراض کی شافی وضاحت کردی ہے کہ بلادِ اسلامیہ میں غیرمسلموں کو بے شمار مذہبی حقوق حاصل ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو اپنے غلط عقائد کی دعوت نہیں دےسکتے۔ چنانچہ غیر مسلموں کا ٹیکس بھی ان جائز شرعی مصارف پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی اسلامی شریعت نے وضاحت کردی ہے۔ جیسا کہ وہ امن وامان اور تحفظ ودفاع کے ساتھ درجنوں شہری سہولیات سے اسی ٹیکس کی بنا پر ہی استفادہ کرتے ہیں ۔ اور کوئی پاکستانی شہری ٹیکس کے نام پر حکومت کے مسلمہ نظریات کے خلاف ناجائز اقدامات کا جواز اور اس بنا پر گرانٹ کا استحقاق حاصل نہیں کرسکتا۔ غرض غیرمسلموں کو شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے اندر ہی مذہبی حقوق دیے جائیں گے، جسے دستور پاکستان پر متعدد آرٹیکلز کے ذریعے نگران کی حیثیت حاصل ہے۔
قابل تعجب امر یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں حکومت کے تعاون کو غلط کہنے والے علماے کرام نے کرتار پور کے مسئلہ پر حکومت کے اس ڈیڑھ ارب روپے کے اخراجات پر کڑی تنقید نہیں کی، جسے وزراتِ اوقاف کے اس فنڈ سے صرف کیا گیا جہاں بعض جائیدادوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے وقف کیا جاتا ہے۔ ہوسکتاہے کہ کرتارپور گوردوارے کا یہ پہلو اس طرح عوام اور علما میں پھیلا نہ ہو، وگرنہ بعید نہیں کہ علماے کرام اس سلسلے میں بھی حکومتی تعاون کو ناجائز ہی قرار دیتے۔
بعض لوگ حکومتی گرانٹ کو صرف مزید مالی رقم عطا کرنے تک محدود کردیتے ہیں۔ حالانکہ کسی عمارت کی تعمیر میں سب سے بنیادی حیثیت اور مالیت اُس اراضی کی ہوتی ہے جو اوپر تعمیر ہونے والی عمارت کی مالیت سے کئی گنا زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام آباد مندر کے بارے میں حکومت کا کسی گرانٹ سے انکار اور عدالت کو اس کو قبول کرلینا، اس بنا پر درست نہیں کیونکہ حکومت ایچ نائن جیسے مرکزی علاقے میں پہلے ہی چار کنال کا جوقیمتی پلاٹ ’ہندو پنچائیت‘ کے نام کرچکی ہے، اس کی مالیت 30 کروڑ روپے سے کم نہیں ہے۔ ایسے ہی 800 ایکڑ اراضی کو سکھوں کے حوالے کردینا ، دراصل اربوں روپے مالیت کی قیمتی اراضی کی حقیقی گرانٹ اُن کو دے دینا ہے۔ اور جس طرح مالی تعاون دینا حرا م ہے، اسی طرح یہ بھاری بھرکم مالی اور حکومتی مدد بھی گناہ میں تعاو ن کی بنا پر سراسر ناجائز ہے۔
3. پاکستان میں مندر کی تعمیر کے مسئلہ کی شرعی حیثیت پر دین سے لاتعلق طبقہ اور علماے کرام کی رائے میں واضح اختلاف ہے۔ لبرل طبقہ کی نظر میں پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں، اور دستور میں جب ان کو برابر کے مذہبی حقوق دیے گئے ہیں تو مذہب سے قطع نظر، ہندوؤں کو بھی ہراس مقام پر بت کدہ تعمیر کرنے کا حق ہونا چاہیے جہاں مسلمان اپنی مسجد تعمیر کرسکتے ہیں۔ اور ان کے خیال میں مذہب کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ اقوام متحدہ کا مغربی نظریات کو پروان چڑھانے والا چارٹر بھی یہی قرار[14] دیتا ہے۔ ان کا یہ موقف بھی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں جب مسلمان اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو اپنے ملک میں بھی غیرمسلموں کو اس امر کی اجازت دینی چاہیے۔ لبرل طبقہ کے اس نقطہ نظر کی ترجمانی جناب جاوید احمد غامدی کرتے ہیں کہ پاکستان کا اسلامی ریاست ہونا ہی دراصل ایک ایسا دعویٰ ہے جو محل نظر ہے۔ درحقیقت پاکستان ویسی ہی ایک قومی ریاست ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کے تحت باقی دوصد سے زیادہ ریاستیں ہیں، اور قومی یا وطنی ریاست National State ہونے کے ناطے پاکستان میں مذہب سے قطع نظر تمام شہریوں کے حقوق برابرہیں۔
دوسری طرف اسلامیانِ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ بجا کہ پاکستان اس وقت وجود میں آیا جب اقوام متحدہ پوری دنیا پرزبردست اثرات رکھتا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی دستور میں قرار دادِمقاصد اور دسیوں آرٹیکلز کے ذریعے ہم نے ’قومی ریاست‘ کی بجائے ’نظریاتی حکومت‘ کی طرف مسلسل پیش قدمی شروع کررکھی ہے اور بانی پاکستان نے بھی پاکستان کو ایک جدید اسلامی مملکت کے طور پر ہی قائم کیا تھا۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور دسیوں اسلامی قوانین اسی منزل کی نشاندہی کرتے ہیں جس تک پاکستان پہنچنا چاہتا ہے۔ جب دستور پاکستان کے آرٹیکل نمبر2 کا واضح طور پر دعویٰ ایک اسلامی ریاست ہونے کا ہے اور یہاں کے اراکین اسمبلی کے لئے دستور کے آرٹیکل 62 کے مطابق شریعت کا خاطرخواہ علم ہونا، اور امین وصادق جیسا باعمل مسلمان ہونا قانوناًضروری ہے، یہاں کے حکام آرٹیکل نمبر 42 کی روسے، اسلامی نظریہ کے فروغ کا حلف اُٹھاتے ہیں اور حکومت آرٹیکل نمبر 31 کے ذریعے ، زندگی کے ہر میدان میں اسلام احکام کو پروان چڑھانے کا وعدہ کرتی ہے۔ تو ایسے حالات میں پاکستان کو ایک ’مغربی قومی ریاست‘ قرار دینے کے بجائے، اس کے اسلامی دعوے کی روشنی میں ہی دیکھنا چاہیے جو باضابطہ طورپر دستور میں جابجا موجود ہے۔ اسی عظیم مقصد کے حصول کے لئے علماے کرام مسلسل جدوجہد کررہے ہیں اور یہی مسلمانانِ پاکستان کے دل کی آواز ہے جس کی ترجمانی ہر اسلامی موضوع پر رائے عامہ سے بخوبی ہوتی ہے، جن میں مندر کی تعمیرکا حالیہ واقعہ بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی مسلمان، (وطنی ریاست کی بجائے) ایک اسلامی مملکت کے ناطے ہی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہاں بت کدہ تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔
مساوی مذہبی حقوق کے مسئلہ کی دستوری وضاحت پر راقم کا مستقل مضمون بھی قابل مطالعہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دستور پاکستان کا مساوی مذہبی حقوق والا آرٹیکل نمبر 20 مطلق نہیں بلکہ ’’قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع... ‘‘ کے دستوری الفاظ نے اسی طرح اس آرٹیکل کو مقید ومحدود کررکھا ہے جیسے آرٹیکل نمبر 19 میں اظہارِ رائے کے انسانی حق کو’’ اسلام کی عظمت وتعلیمات یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد‘‘ کے دستوری الفاظ سے مقید کردیا گیا ہے، اور دستور پاکستان میں ایسی اسلامی وتہذیبی شرائط و قیود کی متعدد مثالیں بھی موجود ہیں، کیونکہ پاکستان ’مغربی جمہوریت‘ کی بجائے اسلام کی نگرانی اور حدود میں جمہوری نظریات پر عمل پیرا ایک مسلم ریاست ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی جب قادیانیوں نے دستور کے اسی آرٹیکل 20 کے تحت ہی اپنے مساوی مذہبی حقوق کا مطالبہ کیا تھا، تو وفاقی شرعی عدالت نے بھی فیصلہ نمبر of 1984 17/I اور 2/L کے تحت اس آرٹیکل کو مقید قرار دیتے ہوئے قادیانیوں کو مساوی حقوق دینے سے انکار کردیا تھا۔
4.  شرعی پہلو کا ایک اور دائرہ خالص علماے کرام کے مابین شرعی مباحثہ کا بھی ہے ۔ علماے کرام کی بڑی اکثریت نئے مندر کی تعمیر کو خالص شرعی احکام کے تناظر میں دیکھتے ہوئے، اس کے جواز پر کڑی تنقید کرتی ہے۔ وہ پاکستانی قانون میں پائے جانے والے بعض ابہامات کی وضاحت اور بصورتِ امکان ان کی اصلاح کی دستوری اور قانونی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان كا موقف ہے کہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس﷜ کے موقف کے مطابق دیارِ اسلامیہ میں نئے مندر اورگرجے بنانا   شرعا ناجائز ہے۔آپ کے اس قول پر دور صحابہ میں اجماع ہوگیا، اور بعد کے ہردور میں یہ اجماع جاری وساری رہا، آپ سے پوچھا گیا:
أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَجَمِ أَلَهُمْ أَنْ يُحْدِثُوا بَيْعَةً أَوْ كَنِيسَةً فِي أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ؟
فَقَالَ: أَمَّا مِصْرٌ مَصَّرَتْهُ الْعَرَبُ فَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يُحْدِثُوا فِيهِ بِنَاءَ بَيْعَةٍ وَلا كَنِيسَةٍ وَلا يَضْرِبُوا فِيهِ بِنَاقُوسٍ وَلا يُظْهِرُوا فِيهِ خَمْرًا وَلَا يتخذوا فيه خِنْزِيرًا. وَكُلُّ مِصْرٍ كَانَتِ الْعَجَمُ مَصَّرَتْهُ فَفَتَحَهُ اللَّهُ عَلَى الْعَرَبِ فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِمْ فَلِلْعَجَمِ مَا فِي عَهْدِهِمْ وَعَلَى الْعَرَبِ أَنْ يوفوا لَهُم بذلك. [15]
’’ان سے پوچھا گیا کہ عجمی (کافر) لوگ بلادِ اسلامیہ میں کوئی نیا گرجا یا کنیسہ بنا سکتے ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ (1) جو شہر مسلمانوں نے آباد کئے ہوں، وہاں عجمیوں (کفار)کو کسی معبد کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ اور ان میں ناقوس بجانا، شراب وخنزیر کو علانیہ رکھنا ناجائز ہے۔ (2) اور ہر ایسا شہر جس کو عجمیوں نے آباد کیا تھا، اور عربوں (مسلمانوں)کو اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر فتح دے دی اور عربوں نے اُنہیں اپنے زیر نگین کرلیا تو عجمیوں کے حقوق اتنے ہی ہیں جن پر معاہدہ ہوجائے اور عربوں کو چاہیے کہ ان حقوق کو پورا کریں۔ ‘‘
دوسری طرف معدودے چند علما ے کرام ایسے بھی ہیں جو اُصولی طور پر تو اسی موقف کے قائل ہیں کہ اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر شرعاً ناجائز ہے۔ تاہم
1.      کبھی وہ پاکستان کو عالمی معاہدوں کا پابند قرار دے کر، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاہدے بھی ایک شرعی حقیقت رکھتے ہیں، اور ہمیں ان کا بھی پاس کرنا چاہیے۔ مزید آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے غیرمسلم ، ذمّی نہیں بلکہ معاہد ہیں۔
2.     یہی موقف ایک اور اُسلوب میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان بزورِ طاقت فتح نہیں ہوا کہ یہاں مسلم حکومت شرعی احکام کی روشنی میں غیرمسلموں کو حقوق دے بلکہ پاکستان صلح اور معاہدہ کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ اس بنا پر اس ’ارضِ صلح ‘کے احکام بزورِ طاقت حاصل ہونے والی زمین سے مختلف ہیں۔
گویا پہلا موقف اَفراد کے لحاظ سے ہے تو دوسرا موقف سرزمین کے حوالے سے ہے۔ اور دونوں موقف دراصل ایک ہی طرزِ فکر کے دو رُخ ہیں ۔
3.      بعض حنفی اہل علم نے فقہ حنفی کے بعض نامکمل جزئیے پیش کرکے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کے شہروں میں پہلے سے آباد غیرمسلموں کو نئے معابد بنانے کی بھی اجازت ہے۔حالانکہ شیخ ابن تیمیہ کے سابقہ فتویٰ اور حنفی فقہی مراجع کی مکمل عبارات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
4.     بعض اہل علم نے فقہی مسئلہ کے تعین میں عرف وحالات کو اہمیت دینے کی بات کی ہے۔ حالانکہ عرف وحالات کو شریعت کے مفہوم واطلاق میں پیش نظر تو رکھا جاتا ہے لیکن عرفِ فاسد کو وزن دینے کی بجائے اس کی اصلاح کی جدوجہد کی جاتی ہے۔
5.      فقہی عبارات پیش کرتے ہوئے، بعض لوگوں نے مسلم علاقوں میں سرے سے نئے شہروں کی تعمیر کے واضح احکام کو بھی نظر انداز کردیا ہے، جیساکہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے سلسلے میں یہ نکتہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ پیچھے مذکور دونوں فتاویٰ میں بھی اس کو واضح کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کے مماثل واقعہ ماضی میں بھی پیش آچکا ہے۔ جب سیدنا عمرو بن العاص ﷜ کے زیر قیادت صلح کے نتیجے میں 20ھ میں مصر دیارِ اسلامیہ میں داخل ہو۔ اس کے تین صدیوں بعد مسلمانوں نے’قاہرہ‘ کا مرکزی شہر تعمیر کیا۔ پھر ارضِ صلح والے قاہر ہ میں بعض رافضی فاطمی حکام کی آشیرباد سے کئی نئے گرجے تعمیر ہوگئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے دورِ حکومت میں ایسے تمام گرجوں کو ڈھانے کا حکم دیے دیا، اور جب شیخ ابن تیمیہ سے اس انہدام پر شرعی رائے مانگی گئی تو آپ نے اس کی پرزور تائید کی۔[16]
6.       یہاں پر ’ارضِ صلح‘ کا نام لے کر شرعی موقف کو اُلجھانا بھی مناسب نہیں۔کیونکہ خیبر،مکہ مکرمہ اور حنین کے ماسوا ، سارا جزیرۃ العرب ، طائف اور یمن صلح سے ہی فتح ہوئے تھے،لیکن رسول اللّٰہ ﷺ نے سارے پرانے معبد خانے ڈھا دئیے ۔خیبر کے کچھ قلعے بزورِ بازو فتح ہوئے تھے اور باقی علاقے صلح سے لیکن سیدنا عمر فاروق ﷜نےتمام یہود کو یہاں سے نکال کر اُن کے معابد منہدم کرا دیے۔
راقم نے اپنی کتاب میں اِن میں سے ہر ہر اعتراض کی شافی اور تفصیلی وضاحت پیش کر دی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مذکورہ موقف جہاں علمی لحاظ سے کمزور ہیں، وہاں پاکستان کے معروف دینی مراکز ومدارس کی تائید سے بھی محروم ہیں اور الحمد للہ پاکستان کے معروف دینی مراکز:جامعہ نعیمیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ لاہور الاسلامیہ جیسے تینوں مکاتبِ فکر کی مرکزی درسگاہوں کے مفتیانِ گرامی ان مذکورہ شبہات کا شکار ہونے کی بجائے، اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی ممانعت کے واضح اُصولی شرعی موقف پر ہی قائم ہیں۔ اسی طرح ان چند درچند اہل علم ودانش کے ماسوا، برصغیر کے نامور مفتیانِ کرام، اور اُمت کے چودہ صدیوں سے چلے آنے والے فقہاے کرام کے موقف میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں پائی جاتی اور وہ قرآن وحدیث کے احکام ،رسول اللّٰہ ﷺ کاتعامل اور دوجلیل القدر صحابہ کرام کے موقف اور اس پر خیر القرون سے جاری اجماع کی کھلی اور مسلسل تائید کرتے ہیں ،جیسا کہ راقم نے اپنی کتاب میں آخری ادوار میں برصغیر کے مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی، سلطنتِ مغلیہ کے فتاویٰ عالمگیری اور خلافتِ عثمانیہ کے قاضی محمد امین ابن عابدین رحمہم اللّٰہ وغیرہ کی تصریحات بھی پیش کردی ہیں، جس میں پہلے 13 صدیوں کے فقہاء ومحدثین کے بیسیوں اقوال بھی شامل ہیں۔
’بین الاقوامی معاہدے اور ارضِ صلح ‘کے بارے میں پیش نظر شمارہ میں بھی ایک مفصل مضمون موجود ہے۔ اس موقف کی توثیق کرتے ہوئے نامور محقق ومصنف حضرت مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ لکھتے ہیں:
’’بعض حضرات کو مساوی مذہبی حقوق کے معاہدے کی پاسداری کا بڑا احساس ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ معاہدے کس نے طے کیے ہیں؟ جو لوگ ’خاتم النّبیین‘ ﷺ زبان سے کہہ نہیں سکتے، سورۃ قل هو الله أحد پڑھ نہیں سکتے، حتی کہ کلمۂ شہادت بھی صحیح طور پر پڑھ نہ پائیں، وہ مساوی مذہبی حقوق کا چارٹر متعین کریں گے تو کیا وہ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ حقوق متعین کریں گے؟ وہ قرآن وسنت کی وہ کون سی نصوص ہیں جن پرمسلمانوں   اور غیر مسلمانوں کے حقوق کو یکساں اور برابر قرار دیا گیا ہے؟ کیا ان مساوی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کبھی غیر مسلمانوں نے نہیں کی؟ اگر کی ہے تو اس کے بعد مسلمانوں کو ان کی پاسداری کا سبق دینا ،چہ معنیٰ دارد!
اسی نوعیت کے جتنے شبہات ہیں ، محترم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾ نے ان کا تارپود بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ جزاه الله أحسن الجزاء عنّا وعن المسلمین! اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ مسلمانوں کے شہر میں کوئی نیا کفریہ معبد خانہ بنایا جائے یا بنانے کی اجازت دی جائے۔ بالخصوص اسلام آباد جیسے شہر میں جو مملکتِ پاکستان کا دار الخلافہ ہے۔ اسلامی تعلیمات وہدایات کو نظر انداز کر کے اگر کوئی اس کی جسارت بلکہ حماقت کرتا ہے تو اس کی حماقت کا سدباب ہمارے پاس نہیں۔ البتہ ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ اس کے بنانے کے لیے اسلام کا ٹھپہ لگانے کی جسارت نہ کی جائے۔‘‘[17]
المختصر پیش نظر مسئلہ کے پہلے نکتے:شہری اُصولوں کی خلاف ورزی اور دوسرے نکتے: بت کدے بنانے میں تعاون کے ناجائز ہونے میں تو کوئی دوسری رائے نہیں پائی جاتی ۔ جبکہ شرعی حیثیت کے تیسرے نکتے میں ، لبر ل طبقے کی غامدی صاحب تو کھلم کھلا تائید کرتے ہیں جو کوئی انوکھی بات نہیں۔ اور چند علماے کرام فقہی موقف کو تسلیم کرنے کے باوجود، عالمی اور قومی معاہدات کے ذریعے پیدا ہونے والے ابہامات کو غیرضروری اہمیت دیتے ہوئے ایک لحاظ سے لبرل طبقے کے موقف کے مؤید نظر آتے ہیں۔ حالانکہ دوسری طرف علماے کرام کی چودہ صدیوں کے ساتھ حالیہ بڑی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ شریعت اور معاہدوں میں تضاد پیش کرکے شرعی احکام کو پیچھے کرنے کی بجائے، شریعت کی صراحت کے مقابلے میں معاہدوں کے ابہام کی وضاحت کی قانونی جدوجہد کی جائے۔ کیونکہ اوّل تو معاہدے صریح اور دو ٹوک نہیں ، اگر واضح ہوں تو خلافِ شرع ہونے کی بنا پر قابل توجیہ و تاویل ہیں۔ اور پھر یہ معاہدے، فریق مخالف کی خلاف ورزی کی بنا پر رہی سہی شرعی حیثیت بھی کھو بیٹھے ہیں۔
جس ترتیب سے راقم نے شرعی مسئلہ کے تحت تمام مواقف کوپیش کردیا ہے، ان حضرات کی باہمی موافقت اور تائید کی ترتیب بھی یہی ہے۔ اور افسوس کہ لبرل طبقہ کا ’قومی ریاست والا موقف‘ بعض اہل علم کے ہاں: معاہد، ارضِ صلح، عرف اور فقہی توجیہات کے ذریعے آہستہ آہستہ جگہ بنا رہاہے۔ اور سب کے نتائج فکر حیران کن حد تک ملتے جلتے ہیں۔ دراصل یہ سب مغربی فکر کی قبولیت اوراثرپذیری کے مختلف درجے ہیں جو دعوت، قبولیت، مرعوبیت اور مزاحمت کے تدریجی مرحلوں میں تقسیم ہیں۔
راقم نے اپنی تین صد سے زائد صفحات پر پھیلی کتاب کو اس خلاصہ پر ختم کیا ہے:
’’اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان ظالمانہ وجبری معاہدوں کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں لیکن ہمیں ان معاہدات پر خوش دلی سے راضی ہوکر، ان کو آگے توسیع دیتے چلے جانا چاہیے یا ان کی اصلاح کی بھرپور جدوجہد شروع کردینی چاہیے اور ملی اتحاد کے ساتھ ساتھ ضروری تیاری پر مرکوز ہونا چاہیے۔ ان معاہدوں کی پابندی شرع وقانون سے زیادہ ہماری بے عملی اور کمزوری کی ترجمان ہے۔ اور ہمارے اہل دانش کو ان معاہدوں کی اسی حیثیت کو ہی واضح کرنا اور درست سمت رہنمائی کرنی چاہیے۔
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ ہمارے بعض بڑے نامور اہل علم ودانش ان تضادات کو سمجھ بوجھ کر قبول کرنے، انہی اصطلاحات کو رواج دینے اور اسی کو حقیقت بنانے کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ وہ قوم میں ان کے فروغ کی دعوت دیتے اور شریعتِ اسلامیہ کی تعبیرات کو اسی مغرب زدہ جامے میں بیان کرتے ہیں۔ مرعوبیت، فکری ہزیمت اور ذہنی شکست خوردگی کی اس سے قابل رحم مثال کیا ہوگی؟ ‘‘
حوالہ جات:
[1]   روزنامہ جنگ، راولپنڈی؛ روزنامہ خبریں، اسلام آباد؛ روزنامہ دنیا، اسلام آباد: جمعرات، 2؍ جولائی 2020ء
[2]   ویڈیو مکالمہ ، ٹی وی پروگرام حرفِ راز (نیو نیوز)از اوریا مقبول جان: 4؍ جولائی 2020ء
[4]   ڈان نیوز: 8؍ جولائی 2020ء
[5]   باغی ٹی وی: 7؍ جولائی 2020ء
[6]   ’اسلامی ریاست کے اُصول ومبادی‘ از مولانا امین احسن اصلاحی: ص 214،215
[7]   اس موضوع پر راقم کے قلم سے قرآن وسنت کے مفصل اور براہِ راست دلائل: ہفت روزہ ’الاعتصام‘ لاہور کے شمارہ 10 ستمبر2020ء ومابعد میں ملاحظہ کئےجاسکتے ہیں جو بالاقسا ط شائع ہورہے ہیں۔
[8]   البِنایة شرح الهدایة للعیني:7؍256، البحر الرّائق لابن نجیم :5؍121
[9]   مجموع فتاوی ابن تیمیہ: 28؍634،635
[10]         وكان فيما سألوه: أن يدع لهم اللات لا يهدمها ثلاث سنوات، فأبى. فما برحوا يسألونه سنة، فيأبى. حتى سألوه شهرًا واحدا. فأبى عليهم أن يدعها شيئا مسمّى. فأبى إلا أن يبعث أبا سفيان بن حرب والمغيرة بن شعبة يهدمانها.(مختصر سیرۃ الرسول از شیخ محمد بن عبد الوہاب: ص 218)
[11]         اہل طائف نے قبیلہ ثقیف کے زیر نگرانی بیت الرَبَّة کے نام سے لات کا معبد خانہ قائم کررکھا تھا، یہاں عبادت کے لئے آنے والے سونے چاندی کے بیش قیمت نذرانے دیا کرتے تھے ۔فتح مکہ کے بعد نبی کریمﷺ نے سیدنا مغیرۃ بن شعبہ اور سیدنا ابو سفیان ﷢کو اس کفریہ معبد خانے کو ڈھانے بھیجا، جسے 23 رمضان 9ھ کو منہدم کردیا گیا۔
[12]         اما م سبکی شافعی لکھتے ہیں: "فقد أخذ العلماء بقول ابن عباس هذا وجعلوه مع قول عمر وسكوت بقية الصحابة إجماعًا." (فتاویٰ سبکی: 2؍ 393 اور 405) ’’ علما ے کرام سیدنا ابن عباسؓ کے اس موقف پر متفق ہیں اور اُنہوں نے سیدنا عمر کی شروطِ عمریہ کو اس کے ساتھ ملا لیا ہے اور اس پر باقی صحابہ کرام کا سکوت اجماع قرار پایا ہے۔ ‘‘         
[13]         مولانا عبید اللّٰہ مبارکپوری لکھتے ہیں: ہندؤوں کے مذہبی اُمور عموماً شرکیہ وکفریہ ہوتے ہیں۔ پس ان کے کسی مذہبی کام میں چندہ وغیرہ سے امداد کرنا جائز نہیں ۔ مندر کی تعمیر میں چندہ سے امداد کرنا تو شرک وکفر اور بت پرستی کی صراحتہً اعانت وحمایت ہے جوقطعاً حرام ہے۔ ارشادِ باری ہے: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ (المائدة:2)           (دیکھیے:ماہنامہ ’محدث‘ دہلی: ج ۸؍ ص ۴)
[14]         اقوام متحدہ کے ’چارٹر برائے ریاستی حقوق وفرائض 1949ء ‘Declaration on Rights and Duties of States کے آرٹیکل 6 میں ہے:Every State has the duty to treat all persons under its jurisdiction with respect for human rights and fundamental freedoms, without distinction as to race, sex, language, or religion. ’’ہرریاست کا فرض ہے کہ نسل، صنف، زبان اور مذہب کا امتیازکئے بغیر اپنے دائرہ حکومت میں موجود شہریوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا تحفظ کرے۔‘‘ مغرب کے طے کردہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادی میں اپنے من پسند مذہب پر جینے کی آزادی دینا شامل ہے لیکن اُنہیں سرکاری خزانے سے مذہبی عمارتیں بنا کردینا ہر گز شامل نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر پرعمل پیرا کسی غیر مسلم حکومت نے سرکاری خرچ پر مسجد تعمیر نہیں کی۔اورایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابقہ بیان کو بھی دیکھ لیں کہ وہ غیرمسلموں کے عقیدے کے تحفظ سے آگے مطالبہ نہیں کرسکی۔
[15] مصنف ابن ابی شیبہ: 32982، مصنف عبد الرزاق : 10002،كتاب الخراج از قاضی ابو یوسف: ص 162، مکتبہ ازہریہ ، مصر۔اس سوال کا یہی جواب لفظ بہ لفظ امام احمد بن حنبل سے بھی مروی ہے ۔(احکام اہل الذمہ از ابن قیم: ص674)
[16] مجموع فتاوی ابن تیمیہ: 28؍ 641                    (فتویٰ کا مکمل متن محولہ کتاب میں ملاحظہ کریں)
[17]         ماخوذ از تقریظ ...کتاب: ’پاکستان میں نئے مندر، گوردوارے اور گرجا گھر تعمیر کرنے کے شرعی احکام ‘ از راقم: ص 9