بین الاقوامی معاہدے اور'اَرضِ صلح '

غیرمسلموں کے مساوی مذہبی حقوق کے تناظر میں
بعض اہل علم کی رائے ہےکہ پاکستانی ریاست معاہدۂ صلح کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، اورشریعت اسلامیہ میں ارضِ صلح کے احکام ، بالخصوص عبادت گاہوں کی حیثیت ، بزورِ طاقت حاصل ہونے والی زمین سے مختلف ہے۔ حکومت کو اس کی روشنی میں غیر مسلموں کو شرعی حقوق دینے چاہئیں۔
جبکہ دیگر اہل علم اس سے آگے بڑھ کر واضح طور پر کہتے ہیں کہ 1950ء کے 'لیاقت ۔نہرو معاہدہ' کی روسے پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ہمیں اس معاہدے کی پاس دار ی کرنی چاہیے ۔
اسی عہدِ صلح کی نشاندہی دستور پاکستا ن میں 'بنیادی حقوق' کے تحت آرٹیکل نمبر 20بھی کرتا ہے جس میں اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ اور یہ دستوری کا 'عمرانی معاہدہ' داخلی سطح پر بھی اہل پاکستان پر لازمی کرتا ہے کہ وہ اپنے معاہدے نبھائیں۔ عالمی ادارے اور قومی عدالتیں اسی بنا پر اقلیتوں کی نئی عبادت گاہوں کی تائید کرتی ہیں اور ان کے مساوی حقوق کے لئے کوشاں ہیں۔
مذکورہ بالا تمام دعووں کو ایک جملہ میں یوں سمو دیا جاتا ہے کہ ''شریعتِ اسلامیہ کے احکام اپنی جگہ لیکن حالات بد ل گئے ہیں، اب ماضی کے شرعی احکام کو ہوبہو نافذ نہیں کیا جاسکتا...!''
ذیل میں ان سوالات واعتراضات کی شرعی دلائل کی روشنی میں وضاحت پیش کی گئی ہے۔
اسلام میں معاہدوں کی اہمیت
مذکورہ اکثر دعوؤں کی بنیاد' معاہدوں اور ان کی شرعی حیثیت ' پر ہے، اس لئے سب سے پہلے ہمیں اس سلسلے میں اسلامی موقف کو واضح اور تازہ کرلینا چاہیے۔
اسلام ہمیں معاہدوں کی پاسداری کی پرزور تلقین کرتا ہے۔قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا﴾ (بني اسرائيل: 34)
'' اور عہد کی پابندی کرو کیونکہ عہد کے بارے میں تم سے باز پرس ہوگی۔''
اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :
«لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ ».
''اس کا ایمان نہیں جس کو امانت کا پاس نہیں۔ اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا، اس کا کوئی دین نہیں۔''
اور ایفاے عہد نبی مکرم ﷺکی دعوت کا امتیاز ہے، جیسا کہ قیصر روم هرقل نے اپنے دربار میں کہا تھا:
«وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ».
''تمہیں وہ نماز ، صدقہ ، پاک بازی ، ایفاے عہداور اداےامانت کا حکم دیتے ہیں۔ پھر ہرقل کہنے لگا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے۔''
حتی کہ معاہدوں میں کبھی کوئی شق اپنے یا ملت کے خلاف بھی پڑتی ہو تو نبی کریمﷺ نے اس کی پاسداری سے گریز نہیں کیا ، جیسا کہ صلح حدیبیہ میں سیدنا ابو جندلؓ کا مشہور واقعہ موجود ہے۔
اور نبی کریمﷺ نے ایلچیوں کے مرتد ہونے کے باوجود، ان پر ایسی حالت میں سزا ے ارتداد کو نافذ کرنے سے گریز کیا، جیساکہ 'ملی مجلس شرعی' کے صدر مولانا زاہد الراشدی ﷾ اپنے مراسلہ میں لکھتے ہیں:
''نبی کریمﷺ نے مسیلمہ کذاب کے دو قاصدوں کو فرمایا: «لولا الرّسُل لا تقتل لضربتُ أعناقكما» یعنی شرعاً تو ان کی سزا قتل ہی تھی، مگر نبی کریمﷺ نے اسی عرف کی بنا پر انہیں چھوڑ دیا کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔ ''
معاہدوں کی پاسداری ہی اسلام ہے!
معاہدے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ معاہدہ کی پاسداری کے بارے میں بھی شریعتِ اسلامیہ سے ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے۔دنیا کا تو آغاز ہی عہد ومعاہدہ سے ہوا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے انسانیت سے'امانتِ اسلام' کا عہد لیا۔ ہر انسان سے 'عہدِ الست' کیا جو روزِ محشر میں وجہِ احتساب ہوگا، پھرہر نبی ورسول سے رسالتِ محمدیﷺ پر ایمان لانے کا میثاق کیا۔ دنیوی زندگی میں اسلام کا آغاز بھی ایک عہد سے ہوتا ہے، اور یہ سب سے بڑا عہد ہے جو اللّٰہ کے نبیﷺ کے دستِ مبارک پر اللّٰہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے۔قرآن کریم میں ہے:
﴿وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا. اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (النحل: 91)
''اور اگر تم نے اللّٰہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو ۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو ۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللّٰہ کو ضامن بناچکے ہو جو تم کرتے ہو، اللّٰہ اسے خوب جانتا ہے۔''
کلمہ طیبہ کے ذریعے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں اس کے نبی کے اُسوۂ حسنہ پر گزارنے کا عہد کرتے ہیں۔ یہی عہدِ نبوی اسلامی حکومت کی اساس ہے جس میں حاکم اور محکوم کے حقوق وفرائض ، اللّٰہ کے دیے ہوئے احکام(وحی) کی روشنی میں گزارے جاتے ہیں۔ عہدِ اسلامی کے ذریعے ہی مسلمانوں میں سیاسی (بیعت)، ازدواجی زندگی(نکاح ) اور خرید وفروخت (بیع) کے معاہدے کئے جاتے ہیں۔
معاہدوں کی شرائط
1. یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ معاہدوں کے اندر درجہ بندی ہے اور مسلمانوں کے دیگر تمام ذیلی معاہدے اس بالاتر 'عہد اسلام 'کی روشنی اور دائرہ کار میں طے پاتے ہیں کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
«لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ».
"اللّٰہ تعالیٰ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔''
2. اور آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ
«كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، كِتَابُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ».
''ہر وہ شرط جو اللّٰہ کی شریعت کے خلاف ہے، وہ کالعدم ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں۔ اللّٰہ کی کتاب سچی ہے، اور اس کی شرط زیادہ مضبوط ہے (جس کو بجالانا ضروری ہے)۔''
ان شرائط سے معاہدوں کے وقت ہونے والی ایسی شرطیں مراد ہیں، جو شریعتِ اسلامیہ کے بتائے احکام کو معطل یا باطل کرنے والی، حلال ومباح کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والی نہ ہوں۔ جیساکہ نبی کریمﷺ نے سیدہ بریرہؓ کے معاہدۂ وَلاء کے وقت یہ ارشاد فرمایا تھا، جب سیدہ بریرہؓ سے مکاتبت کرنے والوں نے طے شدہ ادائیگی کے باوجود حق ولاء کو اپنے لئے برقرار ر کھنے کی شریعت سے متجاوز شرط مقرر کردی تھی۔ چنانچہ آپﷺ نے معاہدہ میں شرط مقرر ہوجانے کے باوجود سیدہ عائشہؓ کو اس کے غیر مؤثر ہونے کی وضاحت کی تھی کیونکہ خلافِ شریعت شرط پر فریقین رضامندی کا اظہار کردیں تب بھی وہ قانونی طور کالعدم ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مسلمان اپنی رضاعی بہن سے نکاح کرلے تو نکاح کے میثاق غلیظ کے باوجود، نبی کریمﷺ نے ایک عورت کی گواہی رضاعت کے بعد ،شرعی حکم واضح ہونے پر صحابی عقبہ ؓ بن حارث کے نکاح کو باطل قرار دیا ۔ اسی طرح کوئی مضاربت کا معاہدہ یا وصیت کی ایسی تحریر جس میں شرعی شرائط کی مخالفت پائی جائے ، ا س کو ہو بہو معاہدے کی بجائے شرعی اُصولوں کے مطابق ہی نافذ کیا جائے گا۔ اور جتنی شرائط کی گنجائش شریعتِ اسلامیہ نے دی ہے، اُن کی پوری طرح پاسداری کی جائے گی۔
3. دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ہر ایسا معاہدہ جو پہلے معاہدے کو متاثر کرنے والا ہو، یعنی معاہدے پر معاہدہ، اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جیساکہ نکاح پر نکاح اور سودے پر سودا کرنے سے شریعت میں روکا گیا ہے۔اس معاہدے کی اتنی صورتیں ہی واجب الاتباع ہوں گی، جس سے سابقہ معاہدہ متاثر نہ ہو۔
4.  شریعت نے جو آزادیاں انسان کو عطا کی ہیں، ان کو جبر وتہدید کے ذریعے، یا دھونس دھاندلی کے ذریعے چھینا بھی نہیں جاسکتا۔ جس طرح مشہور حدیث کے مطابق رضا مندی کے بغیر لڑکا لڑکی کا نکاح نہیں ہوتا، اسی طرح امام مالک (م193ھ) کے مشہور واقعہ کے مطابق جبری طلاق بھی نہیں ہوتی۔
5. یہ اہم اصول بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ معاہدوں کی پاسداری یک طرفہ نہیں ہے۔ اس میں فریقین معاہدوں کی پاسداری کی عہد او رکوشش کرتے ہیں، اور اگر ایک فریق کھلم کھلا معاہدے کو نظر انداز کرنے کی روش اپنا لےتو دوسرے فریق کے لئے اس کی پاسداری کرنا شرعاً لازمی نہیں رہتا۔ جیسا کہ یہود مدینہ نے میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ نے جب جب صلح حدیبیہ کی مخالفت کی، تو نبی کریمﷺ نے یک طرفہ ان معاہدوں کا تحفظ نہیں کیا۔مذکورہ اُصولوں کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
6. بعض انسانی اور اسلامی مفادات کا شریعت نے تعین کردیا اور بعض میں گنجائش دے دی ہے۔ کسی معاہدے کا تعلق اس میں درج تفصیلات اور مدت سے ہوتا ہے جن کی پاسداری ضروری ہوتی ہے۔ غیرمسلموں سے ہونے والے معاہدے لمحہ بہ لمحہ بدلنے والے ملی مفادات کے تابع ہوتے ہیں، جن میں شرائط کی پوری پاسداری کرتے ہوئے بہتر پوزیشن حاصل کرنے کی داخلی کوشش جاری رکھی جاتی ہے۔ اور مقررہ مدت پوری ہوجانے پر اسکو برقرار رکھنایا ختم کردینا، فریقین کے آزاد فیصلے پر موقوف ہوتا ہے۔
نبی کریمﷺ کے دستِ مبارک پر ہونے والا میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ، بین الملّی سیاستِ نبویہ کا ایک زرّیں باب ہے، جس کو ایسے حالات پیش آنے پر دوبارہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن ان دونوں کو نبی کریم اور ملتِ اسلامیہ کی منزل مقصود قرار دینا، یا صلح حدیبیہ جیسے حالات کو قائم کرنے کی دعوت دینا یا اس کی کوشش کا کوئی بھی ذی شعور مسلمان قائل نہیں ہوسکتا۔ اس کی تفصیل بھی راقم نے اپنی کتاب میں اپنے مقام پر پیش کردی ہے۔
جہاں تک 'قاصدوں کو قتل کرنے کی ممانعت ' کی حدیث کا تعلق ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے، اس کو عام حکم قتل سے نبی کریمﷺ نے ہی خاص کردیا ہے، اس بنا پر اس کے جواز میں کوئی کلا م نہیں ۔ تاہم اگر کوئی ایسی عرفی یا طے شدہ شرط ہو جس کی گنجائش شریعت مطہرہ میں نہیں ملتی، اور وہ شرعی نصوص کے خلاف ہو تو پھر سیدہ بریرہؓ کے معاہدہ ولاء کی شرطوں کی طرح اس کا شریعت میں کوئی اعتبا رنہیں ہے۔
گویا مسلمان فردی واجتماعی زندگی کے ہر دائرے میں میں شرعی رہنمائی سے بالاتراور غافل نہیں ہوسکتے، اور ان کے عمرانی معاہدے بھی انہی شرعی حدود پر قائم اور عہدِ اکبر کی نگرانی میں ہوتے ہیں اور یہی اسلام وطاعتِ(نبوی) کا اصل منشا ہے۔ اما م ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ کھتے ہیں:
"لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ الشَّرِيعَةِ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِهِ، بَلْ كُلُّ مَا يَصْلُحُ لَهُ فَهُوَ فِي الشَّرْعِ مِنْ أُصُولِهِ وَفُرُوعِهِ وَأَحْوَالِهِ وَأَعْمَالِهِ وَسِيَاسَتِهِ وَمُعَامَلَتِهِ وَغَيْرِ ذَلِكَ."
''انسان کیلئے جائز نہیں کہ اپنے اُمور میں کسی بھی طور پر شریعت سے باہر نکلے۔ بلکہ اس کے لئے مفید ہر چیز شریعت میں موجود ہے۔اس کے اُصول وفروع، احوال واعمال، سیاسیات ومعاملات وغیرہ۔''
مزید لکھتے ہیں:
"لو وُلّي شخص وكان شرط توليته أن يحكم بغير حكم الله ورسوله أو لا يتبع قواعد العدل التي أمر بها الشرع أو أمر بما يخالف حكم الله فإن الشرط يقع باطلا ولا يعتد به."
''اگر کوئی شخص اس شرط پر حاکم بنايا جائے کہ وہ اللّٰہ کی شریعت کو چھوڑ کر فیصلہ کرے گا، یا نظام عدل میں شریعت کی اتباع کا پابند نہیں ہوگا، یا ایسے احکام جاری کرسکے گا جو شریعت کے مخالف ہوں تو ایسی تمام شرطیں ؍ صورتیں باطل ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔''
مشہور مسلم ماہر عمرانیات علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون لکھتے ہیں:
"إن سياسة الدنيا مقيدة بالدين، وعلل ذلك بأن أحوال الدنيا ترجع كلها عند الشارع إلى اعتبارها بمصالح الآخرة."
''دنیا کی تمام مصلحتیں دین کے ساتھ مشروط ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ کے ہاں دنیا کے تمام حالات کا انجامِ کارآخرت میں ان کے نتائج وفوائد پر موقوف ہے۔ ''
غیرمسلموں کے ہاں معاہد ے اوران کی حیثیت
پوری حیات ِانسانی معاہدوں کی پاسداری پر ہی موقوف ہے، حتی کہ اسلام کو نہ ماننے والے 'کافر 'بھی انہی معاہدوں پر اپنی زندگی کو منحصر کرتے اور ان کو پورا کرنے کا بظاہر دعویٰ ضرور کرتے ہیں۔معاہدوں کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ شریعت اسلامیہ کی ہدایت سے بےبہرہ اور طاعتِ نبوی کا معاہدۂ عظمیٰ نہ کرنے والے بھی اپنے معاشروں میں سماجی معاہدہ Social Contractکے تحت ہی زندگی گزارتے ہیں جس میں وہ حاکم کے فرائض اور اپنے حقوق کو اپنی اکثریت کے طے کردہ فیصلہ سے متعین کرتے ہیں۔ اسی طرح ان میں نکاح و بیوع کے معاہدے بھی ان کے من چاہے اُصولوں پر قائم ہوتے ہیں۔اگر اکثریت یہ فیصلہ کردے کہ لڑکے کی لڑکے سے شادی کرنا جائز ہے تو ایسے معاہدے کے جواز کو جاری کردیتے ہیں۔
وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ اگر ملکی قانون سے بالا کوئی معاہدہ ہوجائے تو وہ قوانین کی درجہ بندی کرکے بالاتر قانون کو ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ دستوری معاہدہ ، قانون ساز اسمبلی کی ذیلی قانون سازی سے بالاتر اور ان پر نگران ہوتا ہے۔
ان چند اشاروں کے بعد مروّجہ قومی معاہدوں کی حیثیت کے بارے میں مختصراً عرض ہے کہ
اوّل:مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ﷾کے موقف پر تبصرہ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مندر کی تعمیر کے موقع پریہ موقف اختیار کیا ہے کہ
'' پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے، وہاں ضرورت کے مطابق نئی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے خاص طورپر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو۔''
کیا پاکستان شرعاً ارضِ صلح ہے؟ ہم ذکرکر چکے ہیں کہ معاہدوں کی غیرمعمولی اہمیت کے ساتھ ساتھ، شریعت میں معاہدہ کی حدود وشرائط کی پاسداری کرنا بھی انتہائی ضروری ہے ۔اور شرعی حدود سے بالاتر معاہدوں کو شریعت کے منصوص اور بڑے معاہدوں کی روشنی میں ہی سمجھا جائے گا۔
1. قیام پاکستان کے جس معاہدہ صلح (تقسیم ہند کونسل) کا حوالہ دیا جاتا ہے ، وہ 22؍جولائی 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ، برطانوی وائسراے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کیا تھا۔ جس میں جنگ عظیم دوم کے بعد کمزور پڑتے ہوئے برطانوی استعمار نے اپنی شرائط پر ہند وپاک کے دو مستقبل کے ممالک کو ایسی محدود آزادی عطا کی تھی جس میں مغربی اقوام کے نظریات اور قوتوں کے محافظ ادارے: اقوام متحدہ کے اُصولوں کی پاسداری کرنا لازمی قرار پایا تھا۔بظاہر اسی کو مولانا عثمانی نے معاہدۂ صلح قرار دیا ہے ، جس کو عام طورپر 'اعلانِ آزادی' بھی کہہ دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف اسلامی شریعت اور مسلم تاریخ ہمیں جس معاہدہ صلح سے باخبر کرتی ہے، وہ جہاد کے نتیجے میں بزور طاقت یا صلح کے طورپر حاصل ہونے والی سرزمین سے متعلق ہے جس میں مسلمانوں کی شرائط پر مغلوب قوت کو کچھ حقوق دیے جاتے ہیں۔ پیش نظر تحقیق میں راقم نے ایسےنصف درجن معاہدے ذکر کئے ہیں جن پر شرعاً ارضِ صلح کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ نبی کریمﷺ اور خلفاے راشدین کے کئے صلح ناموں اور آزادی پاکستان کے صلح ناموں کی نوعیت میں ہی جوہری فرق ہے، تو پھر دونوں کے احکام صلح کو کس طرح ایک دوسرے پر قیاس کیا جاسکتا ہے ۔جن علماے کرام نے ارضِ پاکستان کو ارض صلح قرار دے کر اس کے احکام واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اُنہوں نے معاہدہ کے مشترک لفظ سے ، پاکستان کو وہی ارضِ صلح قرار دے لیا ہے۔ حالانکہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ میں ، یا اقوام متحدہ بننے سے قبل تک، اسلامی تاریخ میں ایسے صلح ناموں کی کوئی مثال نہیں ملتی جس پر شریعت کی بیان کردہ 'ارضِ صلح' کا اطلاق کیا جائے۔
 عجیب تر بات ہے کہ غیروں کی محکومیت کے لئے تو ہم ماضی کے فقہی احکام سے مثالیں لے آتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کے غلبہ اور فروغ دین کی بات آئے تو ہم اسے کلاسیکل فقہ یا تبدیلی حالات قرار دے کر، پابندی سے نکل جاتے ہیں حالانکہ رعایت اور پابندی ہر دو میں فقہی جزئیات کی بجائے کتاب وسنت کے وہ شرعی احکام ہی اصل معیار ومیزان ہیں جو زمان ومکان سے بالاتر تاقیامت واجب الاتباع اور جاری وساری ہیں۔
٭ایسا ہی ایک صلح نامہ شریف مکہ کے بیٹوں کے ساتھ برطانوی حکام نے 1920ء کے آس پاس کیاتھا، جس کے تحت خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کرنے کے انعام کے طور پر شریفِ مکہ شاہ حسین بن علی کے غدارِ خلافت بیٹوں کو عراق اور اُردن میں حکومت عطا کی گئی۔ عراق میں شریف مکہ کے بیٹے فیصل اوّل کی بادشاہت كا آغاز ہوا جو 1958ء کے انقلاب تک 40 برس جاری رہی جبکہ ارض اُردن میں آج بھی یہی شریفِ مکہ کی آل اولاد حکمران چلے آتے اور اپنے آپ کو آلِ رسول 'قریشی ہاشمی' کہلاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صلح کے احکام بھی وہی ہوں گے جو سیدنا عمرو بن العاص ، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمر کے معاہدات کے نتیجے میں ملنے والی ارضِ صلح کے احکام ہیں، جن میں لفظ 'عہد' یا 'صلح' کے علاوہ کوئی بات ہی مشترک نہیں۔
الغرض قیام پاکستان کے معاہدے کو ، خلفاے راشدین والی ارض صلح قرار دینا قیاس مع الفارق ہے۔جب اس معاہدہ کی نوعیت ، مسلم فاتحین کے معاہدوں سے بالکل مختلف ہے تو اس کے نتائج واحکام کو بھی صلح کے مشترک لفظ کی بنا پر، مسلم فتوحات کے معاہدوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ خلافتِ راشدہ کےسب صلح ناموں کے متن ملاحظہ کریں ۔ ان میں اسلامی عساکر نے کفار کو اپنی شرائط پر صلح کرنے پر آمادہ کیا اور اسلامی احکام کو غالب رکھتے ہوئے چند پہلوؤں سے کفار کو تحفظ فراہم کرنے کا معاہد ہ کیا۔ ان صلحوں میں مسلمان بالاتر حیثیت میں رہتے ہوئے، فریق مفتوح کو بعض چیزوں کی امان دیا کرتے، جبکہ یہاں برطانوی غالب فریق نے اپنی مجبوریوں کی بنا پر ، جاتے ہوئے بعض عمرانی شرائط جبراً منوا کر قیام ہند وپاک کا مشروط معاہدہ کیا تھا۔
نبی کریمﷺ نے تو مشرکین مکہ کے اُصول ونظام کے تحت حکومت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، کیونکہ اسلام میں نری حکومت مقصد نہیں بلکہ اس کے ذریعے اللّٰہ کے احکام کا فروغ مقصود ہے۔
٭ھرقیام پاکستان کو معاہدۂ صلح باور کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اسے' غاصبوں کا جبر وظلم' قرار دیا جائے جو برصغیر پر چھ صدیاں پُرشکوہ حکومت کرنے والوں کے ساتھ برطانوی سامراج نے روا رکھا کہ جاتے ہوئے ایک وسیع سرزمین میں تجارت کی اجازت کے نام پر گھسنے والے، سازشوں سے حکومت کرکے، ایک سرحدی پٹی مسلمانوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس دوران اربوں ڈالرز ارضِ ہند سے برطانیہ پہنچائے گئے، ہندوستانی قوم کو سوفیصدی تعلیم کی روشنی سے نکال کر، جہالت کے اندھیروں میں پھینک دیا گیا ۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کے زیر اثر کرنے اور کمزور کرنے کی ہر تدبیر اورسازش اس برطانوی دور میں ہوئی تھی۔ہندووں کے ساتھ ساز باز کرکے، مسلم قوم کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اورکشمیر وحیدرآباد اور جوناگڑھ جیسے بہت سے سلگتے مسائل مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیے گئے۔یہ تو انگریز کا ایسا معاہدۂ 'صلح 'تھا جو بیک وقت دو محکوم طاقتوں: ہندو اور مسلمانوں سے کیا گیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے جیل میں ان کی اہلیہ نے برطانوی حکام سے معافی نامہ لکھنے کی درخواست کی تو مولانا نے کہا کہ میں غاصبوں سے کبھی رحم کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔یہ ہے اس قوم سے صلح کی حقیقت!!
2. شرعی ارضِ صلح کا نتیجہ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں کی زمین عشری کی بجائے خراجی قرار پاتی ہےکیونکہ ان غیرمسلموں سے عشر کی بجائے خراج لیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کی زمین کے خراجی ہونے کاقول اور اس پر فتویٰ دینا، ایک بڑا نادر وشاذ موقف ہے۔
3. مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے بیان میں پاکستان کو ارضِ صلح قرار دینے کی بنا پر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر کوئی شرعی اعتراض کرنے کی بجائے صرف مسلم حکومت کے اُن سے تعاون پر اعتراض کو کافی سمجھا ہے۔ حالانکہ بت پرستی پرحکومت کا تعاون تو ناجائز ہے ہی، اس کے ساتھ ارضِ صلح میں نئے معابد بنانا بھی بالاجماع ناجائز ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ مسلمانوں کے اسلام آبادجیسے کسی نئے آباد شدہ شہر میں بنائی جائے، تو اس وقت اس کی حرمت میں تو کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جہاں تک اس سلسلے میں سیدنا ابن عباسؓ کے اساسی موقف پر فقہی اقوال اور اجماع کا تعلق ہے تو ان کو مستقل کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے ، نیز اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کو ایک اہم تاریخی مثال: قاہرہ جیسے نئے اسلامی شہر میں نئے معابد کی تعمیر سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، جس کی پوری تفصیل بھی راقم کی کتاب میں موجود ہے۔
دوم: بھارت سے مساوی مذہبی حقوق کا معاہدہ ؟
بعض اہل علم نے قیام پاکستان کے بڑے معاہدے کی بجائے، نہرو۔ لیاقت معاہدے 1950ء(معاہدۂ دہلی) کا حوالہ دیا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک میں اقلیتوں کو مذاہب سے قطع نظر یکساں شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ اور اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق میں شامل سمجھے جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ
چنانچہ ملی مجلس شرعی کے نائب ناظم علامہ خلیل الرحمٰن قادری لکھتے ہیں:
''مندر کی تعمیر کے حوالے سے میری معروضات :میں فقہاے احناف کی آرا کا احترام کرتا ہوں لیکن ان کی تعبیرات کو یہاں منطبق کرنا محل نظر ہے کیونکہ نہ تو پاکستانی غیر مسلم ذمی ہیں اور نہ ہی مذہبی و سماجی حقوق کے اعتبار سے ان کی حیثیت مسلمانوں سے کم ہے اور یہ حیثیت اُنہیں تحریری معاہدہ نے دی ہے ۔ اس معاہدہ میں جب پاکستان نے ان کی اس حیثیت کو قبول کیا تو معاہدہ ہی میں اعتراف کیا کہ ہمارے آئین میں قرار دادِ مقاصد موجود ہے جو غیر مسلم پاکستانیوں کی اس حیثیت کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ معاہدہ نواز شریف یا زرداری وغیرہ نے نہیں کیا تھا بلکہ لیاقت علی خان جیسے مخلص اور دین دوست وزیر اعظم نے کیا تھا ۔ ہمیں اس معاہدہ کا پس منظر بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ دو طرفہ فسادات کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا جو کہ بجائے خود ایک ارفع مقصد تھا ۔
ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ معاہدہ اسلامی ریاست کا غیر مسلم اقلیتوں سے براہِ راست نہیں طے پایا تھا بلکہ یہ دو ریاستوں کے مابین برابری کی بنیاد پر طے پایا تھا جس میں کوئی ایک ریاست نہ فاتح تھی اور نہ ہی مفتوح ۔ ایسے معاہدات مطلقاً کسی ایک فریق کی خواہش پر طے نہیں پایا کرتے بلکہ معروضی حالات میں کچھ لو اور کچھ دو کے اُصول پر طے پاتے ہیں ۔ اس فقیر کی یہ دیانت دارانہ رائے ہے کہ اگر لیاقت علی خان کی جگہ پر معاہدہ کے معترضین جید علماء خود بھی ہوتے تو یہی معاہدہ عمل میں آتا ، یا دو طرفہ فسادات کا سلسلہ جاری رہتا جو خونریز جنگ پر منتج ہوتا ۔
اس معاہدہ کو حدیبیہ کے معاہدہ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس سے اس معاہدہ پر براہ راست روشنی پڑتی ہے کیونکہ یہ بھی دو مختلف ریاستوں کے درمیان طے پایا تھا ، اس میں کسی ایک فریق کی خواہش کے مطابق شرائط نہیں طے ہوئی تھیں بلکہ دیکھا جائے تو حضور ﷺنے بظاہر کمزور شرائط پر معاہدہ فرمایا تھا جس کا اظہار حضرت عمر ؓ نے کر بھی دیا تھا ۔ احرام پہننے کے باوجود عمرہ ادا کئے بغیر واپسی کی شرط کو مانا ، یہاں تک تحریری معاہدہ سے 'رسول اللّٰہ ' کے الفاظ کو مٹانا پڑا ۔ دیگر شرائط کو بھی اہل علم مجھ نا چیز سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ الغرض ایسے معاہدات کبھی بھی کسی ایک فریق کی خواہش پر نہیں ہوتے، لہٰذا معاہدہ کو ہدف تنقید بنانے سے پہلے ہمیں مذکورہ پہلو بھی سامنے رکھنا ہوں گے ۔اگر معاہدہ توڑنے کا مطالبہ بھی کرنا ہے تو بھی ان عواقب کو پیش نظر رکھنا ہو گا جن کا سامنا ہمارے بھارتی مسلمانوں کو وہاں کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ''
تبصرہ وتجزیہ
1.  معاہدہ نبوی بالاتر ہے اور معاہدہ پر معاہدہ حرام ہے! اس سیاسی دوقومی معاہدے کو بھی اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے کئے ہوئے معاہدے یعنی شریعت کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں ہی دیکھنا ہوگا۔ پہلے تو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پیش نظر معاہدہ کل حقیقت نہیں بلکہ معاہدۂ نبوی اصل اور اوّلین حقیقت ہے۔ معاہدے غلط بھی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ مغربی انسانی حقوق کے نعرے 'آزادی اظہار' سے اگر کوئی توہین رسالت کا جواز نکالنا شروع کردے۔ یا مغرب کے پیش کردہ انسانی حقوق میں مذہبی حقوق سے کوئی مسلمانوں کو کفر کی دعوت دینے کا حق نکال لے اور بت کدے تعمیر کرنا شروع کردے تو ہم ایسے معاہدوں کی ایسی تشریح کریں گے، جو شرعی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہو نہ کہ معاہدہ کے نام پر اس کو رواج دینے لگ جائیں گے۔
اگر کسی وقت لاعلمی یا مجبوری سے ایسا معاہدہ ہوجائے ، جیسے کوئی شخص ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کرجائے تو اس کی وصیت کو شرعی تعلیمات کے دائرے میں ہی جاری کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہر ایسا معاہدہ جو پہلے معاہدے کو متاثر کرنے والا ہو، یعنی معاہدے پر معاہدہ، اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جیساکہ نکاح پر نکاح کرنے اور سودے پر سودا کرنے سے شریعت میں روکا گیا ہے۔اس معاہدے کی اتنی صورتیں ہی واجب الاتباع ہوں گی، جو شرعی حدود کے اندر ہیں۔ اور صورتِ واقعہ واضح ہونے کے ساتھ ہی حکام کو اس بات کو واضح کردینا چاہیے۔
2.  کتاب اللہ کے خلاف شرائط غیرمعتبر ہیں: پیچھے سیدہ بریرہؓ کے معاہدۂ ولا کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کا واضح فرمان بھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ شرط طے ہوچکنے کے باوجود نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کتاب وسنت کے مخالف شرط کا کوئی اعتبار نہیں ۔اور یہ شرعاً معاہدہ توڑنا قرار نہیں پائے گا، بلکہ اوّلین نبوی معاہدے سے ملنے والے شرعی احکام سے تجاوز کی بنا پر غیر معتبر ہوگا۔
3.  ایسی ارض صلح کی تاریخ اسلامی میں کوئی مثال نہیں ہے: یہ بھی پہلے گزر چکا ہے کہ جب معاہدے کی حالیہ صورتیں اسلامی تاریخ میں موجود صورتوں سے سراسر مختلف ہیں، اور اقوام متحدہ کی صورت میں مغرب کی عالمی حکومت کے قیام سے قبل اس نوعیت کی کوئی صلح اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی، تو پھر اس پر ارض صلح کے احکام کس طرح لاگو کئے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں تو شریعت محمدیہ کے عام اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا، کہ اسلامی قلم رو میں دو قبلے نہیں ہوسکتے ، مسلمانوں کو کفر کی دعوت نہیں دی جاسکتی ، اور مسلمانوں پر کفر کو غالب کرنے کا معاہدہ نہیں ہوسکتا۔
4.  کلی مساوی مذہبی حقوق پر وطنی ریاست قائم کرنا شریعت سے تجاوز ہے: یہ سوال بھی اُصولی طور پر قابل غور ہے کہ قرآن وسنت کی کس نص کی بنا پر ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جہاں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں بالکل برابر حیثیت میں رہائش پذیر ہوں، جیسا کہ وطنیت پر قائم قومی ریاست کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ نظریہ کی بجائے، شہریت و علاقہ کی بنا پر مساوی حقوق دیے جاتے ہیں۔ قرآن وسنت کی نص تو کجا، کیا کسی فقیہ کے قول میں بھی اس کی کوئی مثال یا گنجائش ملتی ہے، اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہو اور کسی نے اس کو شرعاً قبول کرتے ہوئے جائز بھی قرار دیا ہو۔
بلکہ ہم تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آج سعودی عرب کی یمن سے جنگ کا معاملہ ہو، یا پاکستان کو کشمیر پر ملت اسلامیہ کی حمایت درکار ہو، شام وفلسطین، لیبیا وبرما اور ہندوستان کے مسلمانوں کی ہردم بڑھتی مشکلات کی بنیادی اور اہم ترین وجہ یہی اقوام متحدہ کا قائم کردہ مغربی نظریۂ وطنی ریاست ہے۔ جس نے امت کو سیاسی افتراق اور علاقائی اغراض میں بانٹ دیا ہے۔ حتی کہ بعض ملّی غیرت سے عاری امارت وبحرین جیسے مسلم ممالک تو اسی نظریہ وطنیت کی بناپر اسرائیل کے ساتھ وفاداری اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔
یہ جان لینا چاہیے کہ اگر میثاقِ مدینہ کی صورت میں وطنی معاشرت کا کوئی امکان ملتا ہے تو وہ اسی طرح کا ایک عبوری مرحلہ ہے، جیسے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں (1956ء تک )میں یہاں تاجِ برطانیہ کا نام لیا جاتا تھا۔اور پاکستان کے سب سے بڑے عہدیدار صدر کی بجائے 'تاج برطانیہ کے گورنر جنرل' کے عہدے کا حلف اُٹھایا کرتے تھے۔ اس عبوری دور کی دعوت دینے، اس کو اصول بنانے اور جاری کرنے کی بجائے، اس سے جلد از جلد نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
٭  میثاقِ مدینہ کو دورانِ جنگ اس پس اندازی اور پیچھے ہٹنے کے جواز سے بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے جس کی حیثیت وقتی تدبیر سے زیادہ نہیں ۔اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ . وَ بِئْسَ الْمَصِيْرُ﴾ (الانفال: 16)
'' اور جو کوئی اس دن دشمن سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو تو یقیناً وہ اللّٰہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔''
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
'' پوری فوج کی جنگی پالیسی ہی یہ ہو کہ اس مقام سے ہٹ کر فلاں مقام سے حملہ کرنا زیادہ سودمند ہوگا یا کوئی فوجی دستہ وہاں سے ہٹ کر اپنے مرکز سے جا ملنا چاہتا ہو، یا کوئی فرد پینترا بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ آیا تو ایسی سب صورتیں جنگی تدبیریں کہلاتی ہیں ۔ اُنہیں جنگ سے فرار یا پسپائی نہیں کہا جاتا بلکہ فرار سے مقصد ایسی پسپائی ہے جس سے محض اپنی جان بچانا مقصود ہو اور یہ گناہِ کبیرہ ہے اور رسول اللّٰہ ﷺنے اس فعل کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کر دینے والے ہیں ۔ (بخاری، کتاب المحاربین، باب رمی المحصنات)''
5. دوطرفہ پاسداری: معاہدوں کی پاسداری کے سلسلے میں جس طرح یہ واضح ہے کہ دوسرا معاہدہ ، پہلے معاہدے کو توڑ نے والا نہیں ہونا چاہیے، شرعی تعلیمات کے مطابق ہو، عین اسی طرح مسلمان یک طرفہ طور پر معاہدوں کی پاسداری کے پابند نہیں ہیں۔ بلکہ اگر فریق مقابل اپنا معاہدہ توڑ دے تو قرآن وسنت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مسلمانوں کے لئے بھی ان معاہدوں کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔قرآن کریم کی رہنمائی اس سلسلے میں بڑی واضح ہے:
﴿وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَآىِٕنِيْنَ﴾
''اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت (عہد شکنی) کا خطرہ ہو تو برابری کی سطح پر ان کا معاہدہ ان کے آگے پھینک دو ۔ کیونکہ اللّٰہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' (سورۃ الانفال:58)
میثاق مدینہ کے بعد جب یہودیوں نے عہد شکنی کی تواللّٰہ تعالیٰ نے خود نبی کریمﷺ کویہ تلقین فرمائی کہ ان کو مدینہ سے نکال باہر کیا جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ... وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَآءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ﴾ (الحشر:23)
''وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، پہلے اکٹھ ہی میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔''...''یہ اس لیے کہ بےشک انھوں نے اللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت(عہد شكنی) کی اور جو اللّٰہ کی مخالفت کرے تو بلاشبہ اللّٰہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔''
مولانا عبد السلام بھٹوی ﷾اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
''رسول اللّٰہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان سے صلح کرلی، اور معاہدہ کیا کہ نہ آپ ان سے لڑیں گے، اور نہ وہ آپ سے لڑیں گے۔ مگر انہوں نے آپ کے ساتھ کئے ہوئے اس عہد کو توڑ دیا۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرمایا جو ہٹایا نہیں جاسکتا اور ان پر اپنا وہ فیصلہ جاری فرمایا جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ نبی کریم نے انہیں جلا وطن کردیا، اور ان کے مضبوط ومحفوظ قلعوں سے نکال باہر کیا۔ ''... مدینہ کے یہودیوں کو مشرکین مکہ نے اپنے عہد (میثاقِ مدینہ ) کو توڑنے کے لئے خط لکھا تو بنونضیر نے عہد توڑنے پر اتفاق کرلیا ، اُنہوں نے اپنے اور مسلمانوں کے تیس تیس اہل علم کو ایک جگہ جمع ہوکر دعوت وتبلیغ کی پیش کی جس پر نبی ﷺنے انہیں فرمایا: «إنكم والله لا تأمنون عندي إلا بعهد تعاهدوني عليه» (صحیح سنن ابو داود: 3004)''اللّٰہ کی قسم تمہیں میرے پاس کوئی امن نہیں ہوگا، جب تک تم نئے سرے سے میرے ساتھ کوئی عہد نہیں کرو گے۔ '' مختصراً
ایسے ہی صلح حدیبیہ 6ھ کے اہم ترین معاہدے کے بعد فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے کیسے معاہدوں کی پاسداری کی؟صلح حدیبیہ کی رو سے مسلمان بنوخزاعہ کے حلیف ہوئے اور قریش بنوبکر کے۔ بعدازاں شعبان 8ھ میں قریش نے مکہ مکرمہ میں بنوبکر کے ظلم وقتل کے جواب میں نہ تو حرم کا پاس کیا اور نہ ہی معاہدے کی رو سے اپنے زیر سایہ بلکہ اپنی مدد سے ہونے والے بنو خزاعہ کے قتل کا خون بہا دینے پر آمادہ ہوئے تو عمر و بن سالم خزاعی نے مدینہ پہنچ کر نبی کریمﷺ سے مدد کی فریاد کی، اور انہیں ان کا معاہدہ یاد دلایا۔ نامور سیرت نگار مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں :
''قریش اور اس کے حلیفوں نے جو کچھ کیا، وہ کھلی ہوئی بدعہدی اورصریح پیمان شکنی تھی، جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی...قریش نے ابوسفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا، مدینہ سے واپس پہنچ کر ابوسفیان نے قریش کو یہ رپورٹ دی کہ میں محمد کے پاس گیا، تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، ابوبکر کے پاس گیا تو کوئی بھلائی نہ ملی، عمر بن خطاب کے پاس گیا تو سب سے سخت پایا، پھر علی کے پاس گیا تو انہوں نے نرم ترین بات کی۔ پھر نبی کریمﷺ نے رمضان 8ھ میں فتح مکہ کے لئے لشکر کی قیادت کی۔'' مختصراً
چنانچہ فتح مکہ دراصل کفار کی عہد شکنی کے بعد مسلمانوں کا ایسا مستحسن اقدام تھا جس کی ہمیں سیرت طیبہ سے رہنمائی ملتی ہے۔
قرآن کریم کی آیات اور سیرت ِ طیبہ کے ان دو معاہدوں کی عہدشکنی کے واضح انجام سے پتہ چلتا ہے کہ معاہدوں کی پاسداری یک طرفہ نہیں ہے۔ اور عہدشکنی کے بعد نبی کریم ﷺ نے فریق ثانی کے مطالبے اور اصرار کے باوجود ان کی تجدید نہیں کی، کیونکہ یہ صرف عبوری مراحل تھے، حقیقی منزل نہیں۔
بھارت کی معاہدات کی خلاف ورزی
انڈیا نے مسلمانوں سے کہاں کہاں عہد شکنی کی، یہ ایک لمبی داستان ہے، اور ہم عہد کی پاسداری کا اسی طرح یک طرفہ علم بلند کئے ہوئے ہیں جیسا کہ انڈیا کی آئے روز سرحدی دہشت گردی اور فضائی دخل اندازی پر ہم اپنے پرامن ہونے کا اعلان کردیتے ہیں۔ یہ بجا کہ ہمیں اپنی طاقت دیکھ کر اور مناسب تیاری کے ساتھ ہی جوابی اقدامات کرنے چاہئیں لیکن جوابی اقدامات کی شرعیت پر ہی سوال اٹھانا اور مزاحمت کو ہی سرے سے ناجائز ہی قرار دینا، اور اسی کے مطابق پرہزیمت شرعی رہنمائی کرنا کیسا اسلام ہے...؟
1. ریاست جوناگڑھ پر انڈیا کا غاصبانہ قبضہ اور عہدشکنی: برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم سے قبل 262 ریاستوں اور راجواڑوں کو پاکستان، انڈیا یا آزادانہ حیثیت میں رہنے کا حق دیا تھا۔ ان ریاستوں میں جونا گڑھ کی ریاست بھی شامل تھی جس کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ ریاست جونا گڑھ انڈین گجرات کے کاٹھیاواڑ ریجن میں واقع ہے۔ یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر پر مشتمل تھی۔ اس کی زمین سرسبز جبکہ ایک حصہ بحیرہ عرب سے ملتا تھا۔
تقسیم ہند کے دوران جونا گڑھ کے نواب محمد مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 15 ستمبر 1947 کو پاکستان نے سرکاری گزیٹیر بھی جاری کیا۔ تاہم اس ریاست کی پاکستان سے کہیں سے سرحدیں نہیں ملتی تھیں۔9 ؍نومبر 1947 کو انڈیا نے امن و امان کی بحالی کے نام پر ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں سخت احتجاج کیا اور انڈیا کے اقدام کو پاکستان اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ایڈووکیٹ سید سکندر کے مطابق جونا گڑھ پر قیام پاکستان کے دو ماہ کے بعد انڈیا نے قبضہ کرلیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے رجوع کر رکھا ہے۔اور 73 سالوں کے بعد بھی اس عہدشکنی کا کوئی فیصلہ ہونے کی نوبت نہیں آئی۔
2.  تقسیم ہند کے بعد عدم تشدد کے دو طرفہ معاہدے کی بھارتی خلاف ورزی: پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے اُصولی معاہدے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ 22؍جولائی 1947ء کے 'تقسیم ہند کونسل' کے معاہدے کے بعد ، دو طرفہ طورپر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے شہری ، سیاسی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کی پاسداری کی جائے گی۔ وی پی مینن اس معاہدے کا متن درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
Both the Governments further undertake that there shell be no discrimination against those who before August 15, may have be political opponents.
The guarantee of protection which both Governments give to the citizens of their respective employs that in no circumstances will violence be tolerated in any form in either territory.
''دونوں حکومتیں اس بات کی ذمہ داری بھی لیتی ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی امتیازی سلوک نہیں کریں گی، جو 15؍ اگست سے پہلے سیاسی طور پر ان کے مخالف رہ چکے ہوں۔ دونوں حکومتیں اپنے شہریوں کی حفاظت کی جو ضمانت دے رہی ہیں، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی قسم کا متشددانہ اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ''
قیام پاکستان کے فوری بعد، بھارت کی طرف سے ہونے والی معاشرتی دہشت گردی او ر ہندو سکھ اتفاق کے نتیجے میں جس طرح تاریخ کی بدترین قتل وغارت ہوئی، 30 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوگئے، 80 ہزار مسلم خواتین ہندو اور سکھوں نے قبضہ میں کرلیں۔آغاز میں معاہدے کی بنا پر پرامن قیام یا پرسکون ہجرت کی امید رکھنے والوں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں پر انڈین شہروں میں جس طرح قیام پاکستان کے بعد کے مہینوں میں قتل وغار ت کی گئی اور بعض جگہ بھارتی انتظامیہ بھی اس پرتشدد سازش میں شریک تھی، اس کی بازگشت آج بھی متعدد واقعات میں سنائی دیتی ہے۔ چنانچہ آغاز میں ہی مساوی حقوق کا معاہدہ بری طرح پامال کیاگیا اور ارضِ صلح کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ اس کے بعد یک طرفہ طور پر کس طرح معاہدوں کی پاسداری کی تلقین کی جاسکتی ہے۔
3.  مساوی مذہبی حقوق کے باوجود بابری مسجد کا انہدام : بھارت نے بابری مسجد کے مسئلہ پر نہ صرف عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ، بلکہ دوطرفہ نہرولیاقت معاہدہ کی مخالفت کا بھی ارتکاب کیا۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر 80ء کی دہائی میں انڈیا بھر میں بی جے پی نے رتھ مہم چلائی ، مذہبی جنون پیدا کیا، اپنے معاہدوں کے خلاف کھلم کھلا نعرے لگائے اور آخر کار تاریخی مسجد کو منظم منصوبہ بندی کے ساتھ منہدم کردیا۔ اس وقت پاکستان کو بھی اس معاہدہ کی دہائی دینا چاہیے تھی، جبکہ پاکستان میں عوام کے جلائے بعض مندروں کو حکومت وقت نے زرِتعمیر ادا کیا۔
بابری مسجد کے سانحے کو 30 سال عدالتوں میں گھسیٹا گیا، پھر انڈین سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019ء کو یہ فیصلہ دینےکے باوجود کہ بابری مسجد کا انہدام غیرقانونی ہے، مسجد کی جگہ مندر بنانے کے احکام جاری کردیے۔ اس کے بعد پاکستان ہی کیسے مساوی مذہبی حقوق کے معاہدے کا یک طرفہ پابند رہ گیا۔یہ پابندی قرآن وسنت اور عقل ومنطق کے کسی مسلّمہ ضابطے پر پورا نہیں اُترتی جس کی مزید تفصیل آگے اعتراض نمبر 9 بابت بابری مسجد کی وضاحت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
٭ قابل غور امر یہ ہے کہ 6؍دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت سے ڈیڑھ برس قبل 11؍جولائی 1991ء کو بھارت میں Places of Worship Act 1991 منظور کرایا گیا۔ جو 'مقدس مقامات کا قانون' کہلاتا ہے۔ اس قانون کے آرٹیکل نمبر 2میں یہ قرار دیا گیا کہ
''یہ قانون عبادت کی جگہوں: مندر، مسجد، چرچ، صومعہ یا ہر قسم کے مذہبی گروہ کے کسی بھی نام سے بننے والی عبادت گاہ کو شامل ہے۔ '' آرٹیکل نمبر3 میں ہے کہ
''کوئی بھی شخص کسی بھی مذہبی گروہ یا فرقے کی عبادت گاہ کو اسی مذہب کے گروہ یا فرقہ کی عبادت گاہ میں، یا کسی دوسرے مذہب کے گروہ یا فرقہ میں تبدیل نہیں کرسکے گا۔ ''
آرٹیکل نمبر 4 میں یہ قرار دیا گیا کہ ''جس عبادت گاہ کی جو حیثیت 15؍اگست 1947ء کو (یوم آزادی کے موقع پر ) تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔''
کسی عبادت گاہ کی تبدیلی کے جرم کی سزا آرٹیکل نمبر 6 میں تین سال قید اور جرمانہ مقرر کی گئی۔
اب اس قانون کی معنویت اور داخلی تضاد ملاحظہ کریں کہ آرٹیکل نمبر5 کی روسے
''یہ قانون اس بابری مسجد پر لاگو نہیں ہوگا جو ایودھیا کے مقام پر واقع ہے۔ اس قانون کا اس مقام سے کسی بھی حوالے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ''
اس سے علم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت پہلے ہی قانون کے منصفانہ تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، دراصل مسلمانوں سے سودے بازی کے طورپریہ قانون منظور کرا رہی تھی کہ باقی عبادت گاہوں کا تحفظ اس شرط کے ساتھ قانون عطا کرسکتا ہے جب بابری مسجد کے مسئلے کو اس تحفظ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس کے ڈیڑھ برس بعد ہونے والے بابری مسجد کے انہدام میں حکومت کی نیت اور منشا بھی اس قانون سے بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے۔
4.  انڈیا کا شہریت بل 2019ء اور مساوی مذہبی حقوق: مساوی مذہبی حقوق پر ایک اور ضرب کاری انڈیا کے شہریت بل دسمبر2019ء نے لگائی، جس کی تفصیل راقم کے اس مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔اس بل کے ذریعے آسام کے 17؍ لاکھ مسلمانوں کو، دیگر مذاہب سے کھلا امتیاز کرتے ہوئے ، حق شہریت سے محروم کرکے جیلوں کی نذر کردیا گیا ہے اور کئی ماہ سے اس کے خلاف طویل مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں کو ختم کرنے کے لئے بھارتی حکومت مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، جس کی الم ناک گواہی دارالحکومت دلی کے درودیوار پر کنندہ ہے۔ اس شہریت بل کی پوری دنیا مذمت کررہی ہے اور یہ عہد شکنی کے ساتھ بھارت کے سیکولرزم کے جھوٹے دعوے کی طشت ازبام حقیقت ہے جس کی یقین دہانی بھارتی آئین ، وہاں کے مسلمانوں کو کرواتا ہے۔ اس بل کے ذریعے مساوی مذہبی حقوق کے معاہدے کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ہم پاکستانی تو تمام شہری حقوق کو بحال رکھتے اور پرانے گرجا اور مندر وں کو تحفظ کے داعی ہیں، اور نئے بنانے پر مزاحمت کررہے ہیں۔ جبکہ بھارت تو مسلمانوں کا اپنی دھرتی پر وجود برداشت کرنے اور انہیں شہری حقوق دینے کو ہی تیار نہیں۔ پھر مساوی حقوق کے یک طرفہ معاہدے کی کیا حیثیت باقی رہ گئی۔
٭انڈیا کے اقلیتی کمیشن نے دہلی فسادات 2020ء پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ
سنہ 1931 کے کانپور فسادات سے سنہ 2020 کے دہلی فسادات تک، 89 برسوں میں کچھ نہیں بدلا؟
134 صفحات پر پھیلی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ''دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں 23 فروری 2020 کو جو پرتشدد واقعات ہوئے اور کئی دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہے وہ بظاہر ایک فرقہ کو، جنھوں نے ایک امتیازی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کی تھی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔''ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا شامل نہ کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا جانا غیر منطقی ہے۔
دہلی انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے 23 فروری کو کہا تھا: ''جب تک امریکی صدر انڈیا کے دورے پر ہیں ہم اس وقت تک پُرامن رہیں گے لیکن اگر تین دن میں جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی نہیں کی گئیں تو اسکے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے، سڑکوں پر آ جائیں گے۔''
رپورٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے جس رہنما کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیان کے بعد فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، پولیس نے اب تک ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
'شہریت کے قانون کے خلاف جو مظاہرہ کر رہے تھے اور جو فسادات کی زد میں تھے انھی کو فسادی قرار دیا گیا۔ پولیس نے انھی لوگوں کا نام چارج شیٹ میں ڈالا ہے اور میڈیا والے انھی کے پیچھے پڑے ہیں۔'
دہلی پولیس کے رویے پہلے ہی جانبدارانہ رہے ہیں۔ 'ایک جانب اگر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں وہ طلبہ کے خلاف زیادہ قوت کا استعمال کرتی ہے وہیں جے این یو میں وہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں تشدد کرنے والے کس مکتبۂ فکر سے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ اب جبکہ رپورٹ سامنے آئی ہے تو مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ دہلی پولیس ان کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
ریسرچ سکالر ابھے کمار نے رپورٹ میں لفظ 'پوگروم' یعنی نسل کشی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کے فسادات کو دو فرقوں کے مابین لڑائی کے طور پر دکھایا جا رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک مذہب کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ '' شہریت کے متنازع بل کے خلاف جو سیکولر طاقتیں کھڑی ہوئی تھیں ان کا دباؤ حکومت پر بڑھتا جا رہا تھا اور حکومت نے بات چیت کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور طاقت کا استعمال کیا اور دہلی کا جو فساد ہے اس کے تار کہیں نہ کہیں اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔''
رپورٹ کی ایگزیکٹو تلخیص میں کہا گیا ہے کہ جنوری اور فروری میں دائیں بازو کے ہندو گروپس اور ان کے حامیوں کی جانب سے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو واضح طور پر دھمکانے کی کوششیں ہوئی ہیں اور کھلے ‏عام گولی مارنے کے دو واقعات ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'یہ فسادات میں منصوبہ بندی کے تحت، منظم اور ٹارگٹڈ حملے ہوئے۔ حملہ آور 'ہر ہر مودی'، 'مودی جی کاٹ دو ان ملّوں (مسلمانوں) کو'، آج تمہیں آزادی دیں گے' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
شواہد میں بتایا گیا ہے حملہ آور ہجوم میں بہت سے لوگ باہر کے تھے۔ مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا گیا اور انھیں نذر آتش کر دیا گیا۔ لوگوں کی باتوں سے لگتا ہے کہ یہ فساد فوری اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ کے تحت اور منظم تھا۔
رپورٹ میں مذہبی مقامات یعنی مساجد، مدارس اور مزاروں کی بات کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ان کے نام بھی شائع کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر تقریبا دو درجن مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی، قرآن کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے جلے اوراق بھی دستیاب ہوئے۔
اس رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور جو ریلیف کیمپ میں رہ رہے تھے وہ بھی کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے سبب کیمپ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔فسادات شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار، کھجوری خاص، چاند باغ، گوکل پوری، موج پور، قراول نگر، جعفرہ آباد، مصطفی آباد، اشوک نگر، بھاگیرہ وہار، بھجن پورہ اور کردم پوری علاقوں میں ہوئے۔
5.  کشمیری مسلمانوں سے عہد شکنی: بھارت نے 1948ء میں ہی کشمیری مسلمانوں سے معاہدہ کرتے ہوئے، اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کے ذریعے یہ قرار دیا تھا کہ دفاع اور مواصلات کے علاوہ کشمیر پر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا، نیز 35 ؍ اے بتاتا ہے کہ کشمیر میں پیدا نہ ہونے والا یہاں کے شہری حقوق مثلاً جائیداد خریدنے، کشمیری خاتون سے شادی کرنے اور ووٹ دینے کا مجاز نہیں۔ بیک جنبش قلم5؍اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے ان حقوق کو کالعدم کردیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود کشمیر دنیاکی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔ پاکستان سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کا یہ تعلق ہے کہ کشمیر ، انڈیا کا نہیں بلکہ تقسیم ہند کے اصولی فیصلے کی رو سے پاکستان کا حصہ ہے جس کے ایک حصے پر انڈیا نے اقوام متحدہ کی مدد سے عارضی کنٹرول حاصل کررکھا ہے۔
تقسیم ہند کے وقت استصواب رائے سے جن ریاستوں کو پاکستان سے ملحق کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا، ان میں کشمیر بھی شامل تھا اورآج 73 سال گزرنے کے باوجود بھارت وہاں ووٹنگ کرانے کو تیار نہیں ہے۔ جس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ وہ طویل ترغیبی اور ترہیبی کوششوں کے باوجود راے عامہ میں اپنے لئے کوئی ہمدردی اور گنجائش نہیں بنا سکا۔
بالفرض شملہ معاہدہ 1972ء کی رو سے کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا، توجب انڈیا نے یکطرفہ طور پر آئینی دہشت گردی کی، تو اس طرح بھی وہ اپنے معاہدے سے منحرف ہوگیا اور شملہ معاہدہ کی بھی کوئی حیثیت باقی نہ رہی، جیساکہ پاکستان کے حالیہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی لگاتار یہی بات کہہ رہے ہیں۔ جب کشمیریوں کے سیاسی حقوق پر پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے تو پھر اسلامیانِ پاکستان کے مذہبی حقوق اور مندروں کی تعمیر پر پاکستان کا یہ اُصولی موقف کیوں نہیں ہوسکتا ؟
6.  عالمی معاہدے: بعض لوگ یہاں اقوام متحدہ سے معاہدات کے تقاضے بھی لے آتے ہیں۔یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوگا کہ کیا اقوام متحدہ کے معاہدے ہم مسلمانوں کے بڑے اور پہلے معاہدے کی جائز حدود میں آتے ہیں؟ پھر اس سے اگلا سوال پیدا ہوگا کہ کیا اقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ کئے اپنے معاہدات کی پاسداری کرتی ہے؟ اقوام متحدہ نے پاکستانی افواج کو کشمیر سے نکال کر 21 ؍اپریل 1948ء کو قرارداد نمبر 47 کے ذریعے آزادانہ ووٹنگ کرانے کی ضمانت دے رکھی ہے، لیکن سنگین ترین حالات کے باوجود اقوام متحدہ اس کو نہ صرف اپنے ایجنڈے پر لانے کو تیار نہیں بلکہ خالص اپنے وضع کردہ شہری حقوق بھی کشمیریوں کو دینے کی کوشش نہیں کررہی۔ اس کی جامع تفصیل راقم کے مسئلہ کشمیر پر مضمون میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
جب بھارت سے اقوام متحدہ نے اپنے تقاضے پورے کروانے ہوں تو اس کے مسلّمہ عالمی انحرافات اور عہدشکنی کے باوجود وہ بے بس اور لاچار دکھائی دیتی ہے ، چاہے کشمیر کا مسئلہ ہو، بابری مسجد ہو ، جوناگڑھ، حیدرآباد و گجرات کے مسلمانوں کا مسئلہ ہو، یا شہریت بل 2019ء کی بات۔ اور جب بھارت کے یک طرفہ دعوے اور مطالبے پر بعض پاکستانی شخصیات پر الزام کی بات ہو تو اقوام متحدہ نہ صرف انہیں دہشت گرد قرار دیتا، بلکہ پاکستان کے قرضوں کو ان سے مشروط کرتا اور عالمی تجارت کو اس سے مربوط کرتا ہے۔ اور پاکستانی حکومت بلاچون چرا، اس کے احکامات بجا لانے پر مجبور ہوتی چلی جاتی ہے جس کی بےشمار تفصیلات سے ہر ذی شعور بخوبی آگاہ ہے۔
7.  امریکہ ؍ایران کا عالمی جوہری معاہدہ : ماضی قریب میں امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں مغربی ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا کیا حشر کیا جبکہ 2014ء میں ہونے والے چھے مغربی طاقتوں کے معاہدے کا امریکہ اہم ترین رکن تھا، اس سے بھی عالمی طاقتوں کے ہاں معاہدوں کی پاسداری کا علم ہوتا ہے ، چنانچہ 6؍ مئی 2018ء کو عالمی ذرائع ابلاغ کی خبر کے مطابق
'' 2015 میں ایران، امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کا معاہدہ کیا تھا، جس کے بعد ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کی گئی تھیں۔فرانس، برطانیہ اور جرمنی امریکی صدر کو قائل کر رہے ہیں کہ وہ معاہدے کو ختم نہ کریں کیونکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیے یہ معاہدہ بہت اہم ہے۔
جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2015ء میں ہونے والے اس معاہدے کے خلاف ہیں اور وہ اسے 'شرمندگی' اور 'تاریخ کا بدترین معاہدہ'قرار دیتے ہیں۔ وہ ماضی میں اس معاہدے کو 'تباہی' اور 'پاگل پن' بھی قرار دے چکے ہیں اورانھوں نے دو بار کانگریس کو اس بات کی توثیق کرنے سے انکار کیا کہ ایران معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری معاہدے کی تعمیل کے حوالے سے کانگریس کو وضاحت دینے کا مطالبہ مسترد کر چکے ہیں۔
انھوں نے جنوری 2018ء میں خبردار کیا تھا کہ اگر کانگریس اور یورپی ممالک نے اس معاہدے کی تباہ کن خامیوں کو دور نہ کیا تو 12 مئی 2018ء کو امریکہ معاہدے سے نکل جائے گا۔''
روس نے اس امریکی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''روس کو امریکی صدر کے اس فیصلے پر شدید مایوسی ہوئی ہے اور یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔''
پھر جب امریکہ نے اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تو ایران نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اس معاہدے کی یک طرفہ پاسداری پر قائم نہیں رہے گا۔ چنانچہ 29؍ستمبر 2017ء کو ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے قطری ٹیلی ویژن چینل الجزیرة سے نیویارک میں بات کرتے ہوئے کہا کہ
'' معاہدے کے تحت ایران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کر دے گا جس کے عوض اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔اگر امریکہ ایران کے ساتھ ہونے والے چھ ملکی ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہوا تو ایران بھی ایسا ہی کرے گا۔ ایران کے پاس معاہدے سے دستبرداری اور دوسرے راستے موجود ہوں گے۔ایرانی حکام نے بارہا کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو پہلے نہیں توڑیں گے۔ ''
مذکورہ جائزے سے علم ہوتا ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے کے لئے کبھی 'مقدس مقامات کا قانون ' 1991ء کا سہارا لیا تو کبھی طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ کے 2019ء کے جانبدارانہ فیصلوں کا۔ اسی طرح بھارت کے سرپرست امریکہ نے عالمی معاہدات سے نکلنے کے لئے بڑی کوشش کی کہ معاہدے میں کسی خلاف ورزی کا شائبہ پیدا کرکے، معاہدہ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈا جائے اور جب یہ ممکن نہ رہا تو کانگرس کو جواب دہی کی بجائے، ٹرمپ نے ڈھٹائی سے اس پر دستخط نہ کرنے اور اس کو سابقہ حکومت کے ظالمانہ اقدام سے تعبیر کرکے، نکل بھاگنے اور نئے مفادات بٹورنے کا چوردروازہ نکالا۔
ہماری مذکورہ بالا معروضات کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی حکومت کو فوری طورپر عالمی معاہدوں کے خلاف کھڑے ہوجانا اور مزاحمت شروع کردینا چاہیے، تاہم اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ معاہدوں کی پاسداری میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ اور شرع وقانون میں اس کی پاسداری کے تقاضے کیا ہیں؟ ان کی مسلسل پابندی ہمیں کس طرف دھکیل رہی ہے۔ اور دنیا کے مختلف ممالک معاہدات کی یک طرفہ پاسداری کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان ظالمانہ معاہدات کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں لیکن ہمیں ان معاہدات پر خوشدلی سے راضی ہوکر، ان کو آگے توسیع دیتے چلے جانا چاہیے یا ان کی اصلاح کی بھرپور جدوجہد شروع کردینی چاہیے اور ملی اتحاد کے ساتھ ضروری تیاری پر مرکوز ہونا چاہیے۔ ان معاہدوں کی پابندی شرع وقانون سے زیادہ ہماری بے عملی اور کمزوری کی ترجمان ہے۔ اور ہمارے اہل دانش کو ان معاہدوں کی اسی حیثیت کو ہی واضح کرنا اور درست سمت رہنمائی کرنی چاہیے۔
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ ہمارے بعض بڑے نامور دانشور ان تضادات کو سمجھ بوجھ کر قبول کرنے، انہی اصطلاحات کو رواج دینے اور اسی کو حقیقت بنانے کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ وہ قوم میں ان کے فروغ کی دعوت دیتے اور شریعت اسلامیہ کی تعبیرات کو اسی مغرب زدہ جامے میں بیان کرتے ہیں۔ مرعوبیت ، فکری ہزیمت اور ذہنی شکست خوردگی کی اس سے قابل رحم مثال کیا ہوگی.... ؟
ابتدائی نوٹ کے باقی سوالات کی مفصل وضاحت کے لئے مستقل کتاب کا مطالعہ کریں۔
'پاکستان میں نئے مندر، گوردوارے اور گرجا گھر تعمیر کرنے کے شرعی احکام ' ازقلم: ڈاکٹر حافظ حسن مدنی