آلِ سعود اور عثمانی سلاطین کا تقابلی مطالعہ

ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ سعودی عرب کے حالیہ حکمران خاندان: آلِ سعود اور اس سے ماقبل سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران خاندان: عثمانی ترکوں میں خیر کے پہلو بھی ہیں اور شر کے بھی لیکن دونوں خاندانوں میں خیر کا پہلو غالب ہے۔ لہٰذا اللّٰہ عزوجل سے اُمید ہے کہ ان سے درگزر کا معاملہ فرمائے لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان دونوں کو اُن کے شر کی وجہ سے پکڑ لے اور بالکل معاف نہ کرے، واللّٰہ اعلم، کیونکہ نبی کریمﷺ کے بہت سے فرامین میں حکام کی کوتاہیوں پر سخت ترین وعیدیں بھی آئی ہیں۔ البتہ ہم ان دونوں خاندانوں کے خیر کی وجہ سے اُن سے محبت رکھتے ہیں اور ان میں موجود شر سے اعلانِ براءت کرتے ہیں اور ان دونوں حکومتوں کو ایسی مسلمان حکومتیں بھی سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے دین کی بہت زیادہ خدمت کی ہے۔
کچھ عرصے سے ہمارے بعض دوستوں نے سوشل میڈیا، خاص طور فیس بک اور وٹس ایپ گروپس میں آلِ سعود اور عثمانی سلاطین کا تقابل شروع کر رکھا ہے کہ جس میں آلِ سعود کو عثمانی سلاطین کے مقابلے میں ڈاکو لٹیرے، غاصب، باغی اور خارجی تک ثابت کیے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اور جو کچھ زیادہ مہربان دوست ہیں تو وہ تو عرب بادشاہوں کو برطانوی استعمار کی پیداوار، برطانوی گماشتے، اُمتِ مسلمہ کے نمک حرام، سور اور خنزیر جیسی گالیاں دینے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ دوسری طرف عثمانی سلاطین کو خلفاے اُمت قرار دے کر ان کی نیکی کے یوں گن گاتے ہیں جیسے وہ کوئی مقدس گائے ہوں۔ ہماری نظر میں اس تقابلی جائزے کے پیچھے محض مسلکی تعصب کارفرما ہے کیونکہ آلِ سعود، سلفی فکر رکھتے ہیں جبکہ عثمانی سلاطین، حنفی المذہب تھے لہٰذا عثمانی سلاطین کو فرشتے اور آلِ سعود کو شیطان ثابت کیا جاتا ہے۔
ہم جب آلِ سعود اور عثمانی سلاطین کے دستور، نظام حکومت اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سعودی عرب کے دستور میں جتنا اسلام موجود ہے اور عملا ً بھی جس قدر اسلام سعودی عرب میں نافذ ہے، عثمانی سلطنت کے، نہ تو دستور میں اتنا اسلام موجود تھا اور نہ ہی وہاں عملا ً اتنا اسلام نافذ تھا، لہٰذا دستور ونظام کی سطح پر سعودی حکومت، عثمانی سلطنت سے زیادہ اسلامی رہی ہے اور ابھی تک ہے بھی۔ یہ تو ان کے طرزِ حکمرانی کی بات ہے ، جہاں تک دوسری بات رہی شخصی کردار کی تو اللّٰہ جانے، اللّٰہ کے ہاں کسی کا کیا مقام ہے لیکن آلِ سعود کے شروع کے حکمران عثمانی سلاطین سے کئی اعتبار سے کردار میں بھی بظاہر بلندنظر آتے ہیں۔
سعودی وعثمانی دستور اور نظام کا تقابلی مطالعہ
اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہمارا ایک تجزیہ ہے اور اس سے آپ کو دلیل کی بنیاد پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ بس کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ جو تاریخی حقائق میں بیان کر رہا ہوں اور جن مصادر سے بیان کر رہا ہوں، آپ یہ واضح کر دیں کہ ہمارے مصادر ناقابل اعتبار ہیں اور آپ اس کے برعکس جو دوسرا موقف رکھتے ہیں تو اس کے مصادر ہمارے بیان کردہ مصادر سے زیادہ مستند ہیں اور ان ان وجوہات سے ہیں، بس اتنی سی بات ہے۔ باقی اللّٰہ عزوجل نے ہم انسانوں کو اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم یہ کرتے رہیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿١١٨﴾ إِلّا مَن رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذلِكَ خَلَقَهُم ...﴿١١٩﴾... سورة هودذ
’’اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے ہی رہیں گے، سوائے ان کے جن پر آپ کا ربّ رحم کرے، اور (اسی طرح) تو ان کے ربّ نے ان کو پیدا کیا ہے۔‘‘
دوسرا تاریخی حقائق کے بیان میں بعض کے نزدیک کچھ مصادر مستند ہیں اور کچھ ہمارے نزدیک، اس میں ضروری نہیں کہ ہمارا اتفاق ہو سکے۔ اب یہ رویّہ درست نہیں ہے کہ میں جن مصادر سے حقائق بیان کر رہا ہوں ان میں سے ہر مصدر آپ کے نزدیک سطحی ہے اور بغیر کسی وجہ کے اور جن مصادر سے آپ بیان کر رہے ہیں، ان میں سے ہر مصدر بخاری ومسلم کی طرح مستند ہے اور بلا کسی وجہ کے۔ اب خلافت ِعثمانیہ اور آلِ سعود تو قریبی زمانے کی باتیں ہیں جس میں کتبِ حدیث جیسے مستند اقتباس پیش کرنا ناممکن ہے۔سو حالیہ مصادر کے بیان میں دو چیزیں اہم ہوتی ہیں، ایک مؤرخ کی فکر وکردار یعنی وہ صالح ہونا چاہیے، اور دوسرا اہلیت اور محنت یعنی وہ مؤرخ اس موضوع کو بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور اس نے تحقیق کرتے وقت اس پر خوب محنت کی ہو۔ تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ اس تاریخی مصدر کو ردّ کریں، ہاں اس کے بیان سے آپ کو اتفاق نہیں ہے تو آپ اس کا جواب ضرور دیں، یہ آپ کا حق بنتا ہے۔
تیسرا اگر میں سعودی دستور ونظام کو عثمانی دستور ونظام پر ترجیح دیتا ہوں تو مجھے بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ مسلکی تعصب میں ایسا کر رہے ہیں تو دیکھیں یہ بات درست ہے کہ ذاتی اعتبار سے آلِ سعود کی عثمانی سلاطین پر ترجیح کی ایک وجہ تو ہمارے نزدیک آل سعود کی سلفی سوچ اور عقیدہ ہے۔ عثمانی سلاطین صوفی سوچ اور عقیدے کے حامل تھے، اگرچہ ان کا مذہب حنفی تھا۔ تو یہ عین ممکن ہے کہ احناف کو عثمانیوں کے حنفی المذہب ہونے کی وجہ یا صوفی ہونے کی وجہ اُن سے زیادہ قربت محسوس ہو اور وہ اس کے لیے اپنے آپ کو حق بجانب محسوس کرتے ہوں گے تو یہی صورت حال ایک سلفی فکر رکھنے والے عالم دین کی بھی ہوتی ہے کہ جس سوچ کو وہ حق سمجھتا ہے اور جس عقیدے کو اس نے حق سمجھ کر اختیار کیا ہے تو اب اسے طبعاً ان حکمرانوں کی طرف زیادہ میلان اور قرب محسوس ہو گا جو اس سوچ اور عقیدے کے حامل ہوں گے۔ دوسری بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ آلِ سعود خود سلفی سوچ اور فکر کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی مذہبی فکر میں آل الشیخ (محمد بن عبد الوہاب) کے قریب ہونے کی وجہ سے سلفیہ کے نزدیک ممدوح قرار پاتے ہیں۔ اور سلفی سوچ اور فکر کے اصل نمائندے آل الشیخ ہیں ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عصبیت سب میں ہوتی ہے، کوئی اس سے خالی نہیں ہے کہ آپ فکری اعتبار سے پہلے ہی سے کوئی نہ کوئی پوزیشن لیے ہوتے ہیں، کسی لااَدری (Agnostic) کی طرح خلا میں نہیں ہوتے۔ قرآن مجید نے جس عصبیت سے منع کیا ہے، وہ جاہلیت کی عصبیت ہے یعنی جس میں جذبات انسان کی سوچ اور فکر پر غالب آ جائیں[1]۔
مزید برآں جب عصر حاضر کی دو جہادی تحریکوں، تحریک طالبان افغانستان اور القاعدہ کا ہم نے اپنی کتاب ’عصر حاضر میں تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذِ شریعت کا منہج‘ میں تقابلی مطالعہ پیش کیا تو وہاں بعض وجوہات کی بنا پر واضح طور تحریک طالبان، افغانستان کو القاعدہ پر ترجیح دی ہے۔ ایک محقق کا کام مسلکی تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر حقائق کی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ جب نتیجہ مخالف فرقے کے حق میں جاتا ہو تو مخالفین محقق کو ’حق گو‘ کہنا شروع کر دیتا ہے لیکن جب اس کے خلاف جاتا ہو تو وہی محقق مسلک پرست بن جاتا ہے۔ ہماری نظر میں مسلک پرست محقق وہ ہوتا ہے کہ جس کی ہر تحقیق صرف اپنے مسلک ہی کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہو۔ جس محقق کی تحقیقات اس کے معروف مسلکی بیانیات کے خلاف بھی چلی جاتی ہوں تو اس کی بات سے کلی اتفاق نہ سہی لیکن وہ قابل غور ضرور ہوتی ہیں، اس اعتبار سے کہ وہ کل حقیقت نہ بھی ہو تو بھی حقیقت کا ایک اہم رخ ضرور بیان کر رہی ہوتی ہیں۔
اوّل: ملوکیت اور خلافت
سعودی عرب کے نظام پر جو اہم تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ملوکیت ہے۔ لیکن مجھے یہ بتلائیں کہ ملوکیت کی کون سی تعریف ایسی ہے کہ جس پر دولتِ عثمانیہ پوری نہ اُترتی ہو؟ کیا وہاں باپ کے بعد بیٹا جانشین نہیں بنتا تھا؟ کیا وہاں چھ صدیوں تک ایک ہی خاندان کی حکومت نہیں رہی؟ کیا اس خاندان نے بزورِ شمشیر اپنی حکومت قائم نہیں کر رکھی تھی؟ ...تو اور ملوکیت کس کو کہتے ہیں؟ 1876ء کے عثمانی اساسی دستور کی دفعہ 3 میں واضح طور موجود ہے کہ اقتدار آلِ عثمان سے باہر نہیں جائے گا اور اس کے بڑے بیٹے کو منتقل ہو گا جیسا کہ ماضی میں یہی اُصول کار فرما رہا ہے[2] بلکہ دفعہ 5 میں تو یہ بھی موجود ہے:
"أن ذات حضرة السلطان هو مقدس وغير مسؤول."[3]
’’حضرت سلطان مقدس ہیں اور کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔‘‘
یعنی اس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا کہ وہ کسی فرد یا ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ دوسری طرف آلِ سعود نے کم از کم اپنے دستور میں یہ طے کیا ہے کہ اقتدار صالح بیٹے (اَصلح)کو منتقل ہو گا جیسا کہ 1992ء کے دستور کی دفعہ 5 کی شق ب میں یہی بات[4] موجود ہے۔ بڑا ہونا کوئی معقول وجہ نہیں ہے لیکن افسوس کہ آلِ سعود کے ہاں بھی اس شق پر عمل نہیں کیا گیا، البتہ نظریے کے اعتبار سے ان کا موقف درست ہے۔ اگرچہ عثمانی سلطنت کا اساسی دستور تھوڑے عرصے کے لیے نافذ العمل رہا ہے لیکن توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ یہ دستور عثمانی سلطنت کے عرف ورواج کو بھی متعین کر رہا ہے کہ وہ کیا رہا ہے۔تو عثمانی سلطنت میں حکمران آلِ عثمان میں سے ہی ہو گا، یہ بات ایسے ہی چلی آ رہی تھی، کوئی دستور نے پہلی مرتبہ نافذ نہیں کی بلکہ دستور نے صرف یہ واضح کیا کہ ماضی کے اُصول اور رواج کے مطابق آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
باقی یہ سوال کہ آپ عثمانی سلطنت کو خلافت سمجھتے ہیں یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بھی ملوکیت والی خلافت تھی جیسا کہ سعودی عرب میں ہے۔ اور میرے نزدیک ملوکیت والی خلافت، خلافت ہی کا ایک کم تر درجہ ہے کہ جس میں کم از کم مسلمانوں کی سیاسی اور ملی وحدت برقرار رہتی ہے۔ ’ملوکیت والی خلافت‘ سے مراد یہ ہے کہ حکومت وسلطنت تو ایک ہی خاندان میں رہے جیسا کہ ملوکیت میں ہوتا ہے لیکن اسلام بطور نظریہ اور نظام کے غالب رہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے فقہ، کلام اور تصوف ہمارے ہاں کی روایتیں ہیں اور ہمیں ان کی اصلاح کی پوزیشن لے کر ان پر ناقدانہ جائزہ لینا ہے، کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنی ہے، بعینہٖ اسی طرح خلافت کے نظام کی روایت پر بھی نقد کی ضرورت ہے لیکن مخالفت کی نہیں بلکہ اصلاح کی پوزیشن لے کر۔ اس نقد وتبصرے سے اسلامی تحریکوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے صحیح رخ میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ ہماری نظر میں عثمانی سلاطین اس طرح کی مقدس شخصیت نہیں ہیں کہ ان پر بات نہ ہو سکے جیساکہ آلِ سعود بھی اس طرح کے مقدس نہیں ہیں، نہ تنقید سے بالاتر ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ دونوں پر نقد وتبصرہ میں عدل کے دامن کو تھامنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
تو ملوکیت کی رٹ لگا کر آلِ سعود سے بغض کا اظہار کرنے والوں کو یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ سلطنت ِعثمانیہ بھی ملوکیت ہی کی ایک صورت تھی لیکن وہاں چونکہ مسلکی تعصب آڑے آ جاتا ہے لہٰذا یہ چیز نظر انداز ہو جاتی ہے۔ تو ملوکیت اگر فی نفسہٖ بری ہے تو صرف آلِ سعود کی نہیں، سلطنتِ عثمانیہ کی بھی بری ہے، دونوں میں فرق کیوں کیا جاتا ہے۔ باقی ہماری نظر میں ملوکیت فی نفسہٖ بری نہیں ہے بلکہ بادشاہ اچھے برے ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف﷤بھی ایک بادشاہ تھے، حضرت سلیمان ﷤نے بھی بادشاہت وراثت میں حضرت داؤد ﷤سے حاصل کی۔ تو بادشاہ اچھا ہے اور اسلام کے نظام عدل کو نافذ کرنے والا ہے تو ملوکیت رحمت ہے اور خلافت ہی کا ایک درجہ ہے اور اگر بادشاہ ظالم اور برا ہے اور اسلام کا نفاذ کرنے والا نہیں ہے تو ملوکیت بری ہے اور خلافت کے ادنیٰ درجے میں بھی شامل نہیں ہے۔ تو سعودی دستور میں کہیں بھی بادشاہ کو مقدس شخصیت نہیں کہا گیا ہے جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے دستور میں ہے البتہ عملا ً صورت حال یہی ہے کہ سعودی عرب میں بادشاہ پر تنقید کرنے کو پسند نہیں کیا جاتا بلکہ بعض اوقات بعض علماے کرام کو ایسا کرنے پر قید بھی کر دیا جاتا ہے۔ تو اس پر آپ نقد کریں، ضرور کریں۔ تاہم حکام اور عوام سب پر شریعتِ اسلامیہ ہی غالب ہے، اوررعایا کو بھی تنقید کرتے ہوئے شرعی ضوابط کو ترک نہیں کرنا چاہیے، جن میں سے اہم تر شرعی ضابطہ یہ ہے کہ تنقید کسی اجتہادی موقف کی بجائے، مسلمہ شرعی مسئلہ میں کوتاہی پر ہوسکتی ہے، نیز شریعت ہمیں حاکم کی خیر خواہی اور ان کے ذاتی ظلم وجور پر خاموشی کا پابند کرتی ہے، سویہ تنقید اصلاح وخیر خواہی سے بڑھ کر تمسخر واستہزا تک نہیں پہنچنی چاہیے۔
غرض آلِ سعود کی خارجہ پالیسی اور سیاسی فیصلوں شرعی حدود میں تنقید ہو سکتی ہے بلکہ ہونی بھی چاہیے لیکن ان سے اختلاف کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ مسلکی اختلاف کی بنا پر اُمتِ مسلمہ کے ہر نقصان کی ذمہ داری ان پر ڈال دی جائے اور یہ کہ ان کے خیر کے پہلو کو تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کو بیان کیا جائے۔ اب تو بعض مخالفین کی یہ صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ان کی گلی کے گٹر کا ڈھکن نہیں ہے تو اُن کے خیال میں اس کے ذمہ دار بھی آل سعود ہیں لہذا اس پر اُن کو گالیاں دینی بنتی ہیں۔
دوم: اسلامی شریعت کا نفاذ
مخالفین کا دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ سعودی عرب کا نظام مکمل طور اسلامی نہیں ہے کہ وہاں سودی کاروبار کو حکومتِ وقت نے جواز بخش رکھا ہے جو خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مانا کہ سعودی عرب کا نظام مکمل طور اسلامی نہیں ہے اگرچہ اس کا آئین اسلامی ہے، اس میں شک نہیں۔لیکن سعودی عرب کے نظام میں دو بڑی خیریں موجود ہیں؛ ایک یہ کہ ان کا آئین کتاب وسنت کو فائنل اتھارٹی قرار دیتا ہے اور اسی کو یعنی کتاب وسنت ہی کو مملکت کا آئین قرار دیا گیا ہے اور کتاب وسنت کی کسی متعین تعبیر کو بھی قانون کے طور نافذ کرنے سے گریز کیا گیا ہے جیسا کہ دستور کی پہلی دفعہ میں ہے:
’’مملکت سعودیہ مکمل طور پر خود مختار عرب اسلامی ملک ہے، اس کا دین ’اسلام‘، دستور کتاب اللّٰہ اور سنت رسولؐ، زبان عربی اور دارالحکومت ’الریاض‘ہے۔‘‘ [5]
اور دفعہ 48 میں ہے:
’’تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت ِاسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی جیساکہ وہ کتاب اللّٰہ اور سنت رسولﷺسے ثابت ہیں۔ نیز انتظامی عدالتیں حکام کی طرف سے نافذ کردہ اُن نظاموں کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللّٰہ اورسنت رسولﷺ کے مخالف نہ ہوں۔‘‘[6]
اسی طرح دفعہ 46 میں ہے:
’عدلیہ‘ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہوگا جس پرشریعت ِاسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔‘‘[7]
اور سعودی عرب کے نظام میں دوسرا خیر یہ ہے کہ کتاب وسنت کی تعبیر اور نفاذ عدل کا کام سکہ بند علما پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں قاضی اور ججز حضرات خالص علماء وفقہاء ہوتے ہیں، جو شرعی علوم کے ماہر ہونے کی بنا پر خالص کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب میں شریعت میں مذکور جرائم کے حوالے سے ، جس میں تمام اہم ترین جرائم آجاتے ہیں، کوئی متعین وضعی قانون نافذ نہیں بلکہ کتاب وسنت ہی براہِ راست نافذ ہیں یعنی ان کی نصوص۔ اور ان نصوص کی تعبیر کلیتاً علماء پر چھوڑ دی گئی ہے۔
البتہ سعودی عرب نے ’نظام‘ کے نام سے کچھ قوانین کو نافذ کیا ہے اور ’نظام‘ دراصل وہ مسائل ہیں جن میں براہِ راست شرعی احکام موجود نہیں، اور ان میں شوری مصلحت کے مطابق کوئی بھی قانون بنا سکتی ہےجیسا کہ ٹریفک یا دوسری اقوام سے تجارتی لین دین کے قوانین وغیرہ۔ ان کے نزدیک جہاں دوسری اقوام سے لین دین کا معاملہ آتا ہے تو اس پر اسلامی دستور لاگو نہیں ہو گا جیسا کہ دستور کی دفعہ 81 میں ہے:
"اس دستور کو ان معاہدات اور بین الاقوامی سمجھوتوں پر نافذ العمل نہیں کیا جائے گا جو مملکت نے دوسری حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے طے کئے ہوئے ہیں۔"[8]
اگرچہ اس معاملے میں سعودی عرب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ ’نظام‘ کی بعض چیزیں بھی شریعت کے دائرے میں براہ راست آسکتی ہیں لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں انسانی زندگی کے ایک بڑے دائرے میں کتاب وسنت نافذ ہے بلکہ نظام سے متعلق اگرچہ عدالتیں علیحدہ سے بنی ہوئی ہیں لیکن نظام کے تحت کوئی مسئلہ اگر کسی شرعی عدالت میں چلا جائے تو اس کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں ہی ہوتا ہے اور وہ نافذ العمل بھی ہوتا ہے۔ تو سعودی عرب میں دو عدالتی نظام چل رہے ہیں؛ ایک شرعی عدالتی نظام اور دوسرا نظام کے عنوان سے وضعی قوانین پر مبنی عدالتی نظام۔ اور سعودی عرب نے یہ عدالتی ڈھانچہ سلطنتِ عثمانیہ سے لیا کہ سلطنت عثمانیہ میں 1940ء میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا کہ جسے مؤرخین کے ہاں تنظیمات کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں فرانسیسی، اطالوی اور انگریزی قوانین کو سلطنت میں نافذ کیا گیا اور اس کے لیے علیحدہ سے عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔[9] مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ نے فرنچ ضابطہ فوجداری کو اپنے ہاں 1840ء میں نافذ کیا تھا اور اس میں سے زنا اور چوری کی حد وغیرہ کو ساقط کر دیا لیکن سعودی عرب نے حدود کو باقاعدہ نافذ کیا بلکہ اس طرح سے نافذ کیا ہوا ہے کہ وہ اس حوالے سے دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرم کی شرح (Crime rate) بہت کم [10]ہے۔
واضح رہے کہ اُنیسیویں صدی کے ربع ثانی میں سلطنتِ عثمانیہ میں یورپی ممالک کے قوانین کا نفاذ شروع ہو چکا تھا اور اُنیسیویں صدی کے اختتام تک صورت حال یہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ میں سوائے ایک دیوانی قانون (Civil Law) یعنی مجلّة الأحكام العدلية کے ہرقانون یورپی اقوام سے ماخوذ ومستعار تھا اور مجلّة الأحكام العدلية کا نفاذ بھی اس عرفی حیثیت کے ساتھ تھا کہ عدالتوں میں قاضی حضرات اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند نہیں تھے تو گویا سلطنت کا واحد اسلامی قانون بھی لازمی کی بجائے اختیاری ہی تھا۔[11]
البتہ اُنیسیویں صدی عیسوی(یعنی 1801ء تا 1900ء) سے پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے قانونی مصادر میں شریعتِ اسلامیہ کی فقہی تعبیر فقہ حنفی کے علاوہ، قانون [عثمانی سلاطین کے تحریری فرامین]، قومی وملکی رسم ورواج اور مقتدر سلطان کے فرامین شامل ہوتے تھے۔[12] اگرچہ کہا یہی جاتا تھا کہ عثمانی سلاطین کے فرامین، شریعت سے بالاتر نہیں تھے لیکن عملا ًایسا نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عثمانی سلاطین نے جو چیزیں اپنے فرمان کے ذریعے بطورِ قانون نافذ کروانا ہوتی تھیں تو وہ علماء وفقہاء سے زبردستی اس کے حق میں فتوے لے لیتے تھے جیسا کہ سلطان محمد الفاتح نے سب سے پہلے ’بھائی کے قتل کا قانون‘نافذ کیا تھا اور اس کے فرمان میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اس نے علماء وفقہاء کی اجازت سے یہ قانون جاری کیا ہے۔ اس قانون کے الفاظ یہ تھے:
"إذا تيسرت السلطنة لأي ولد من أولادي فيكون مناسبًا قتل أخوته في سبيل تأسيس نظام العالم وقد أجاز هذا معظم العلماء فيجب العمل به."[13]
’’جب میری اولاد میں سے کسی کو اقتدار حاصل ہو جائے تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ سلطنت کے نظام کی بنیاد رکھنے کے لیے اپنے بھائیوں کو قتل کر دے اور اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، لہٰذا اس پر عمل ضروری ہے۔‘‘
اس قانون کے مطابق عثمانی خلیفہ کے لیے یہ فرض تھا کہ وہ اپنے تمام بھائیوں کو قتل کروا دے یہاں تک کہ سلطان محمد الفاتح نے تو اپنے شیر خوار یعنی دودھ پیتے بھائی کو قتل کروا دیا تھا۔ اگرچہ اس بارے یہ بحث بھی موجود ہے کہ بعض مؤرخین کے نزدیک سلطان الفاتح نے اپنے شیر خوار بھائی کو قتل نہیں کروایا تھا بلکہ کسی اور نے اس کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے اس کا قتل کیا تھا۔ [14] البتہ شیر خوار بھائی کو قتل کرنے کے واقعے کا تذکرہ مسلمان مؤرخین کے ہاں بھی ملتا ہے جیسا کہ ترک نژاد مصنف محمد فرید بک[15] اور دارلمصنفین، الہند کے رفیق مصنف ڈاکٹر محمد عزیر نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔[16]
سوم: خروج اور بغاوت
پھر اچھے بھلے پڑھے لکھے حنفیہ کا دعوی ہے کہ آل سعود باغی اور خوارجی ہیں کہ اُنہوں نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت اور خروج کیا تھا۔ اصل میں ان بیچاروں کا اور کوئی مسئلہ نہیں، بس انہیں سلفیوں کے خلاف چارج کیا گیا ہے اور یہ چارج انہیں ان کے علماء نے کیا ہے۔ چارج کا مطلب یہ ہے کہ حنفی عوام کو ان کے علماء نے اہل حدیث اور سلفیوں کے خلاف بھرا ہے اور اتنا بھرا ہے کہ ابھی تک حنفی دلی طور پر برصغیر کے اہل حدیث اور سعودی عرب کے سلفیوں کو ایک مکتبِ فکر کے طورقبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ اب ان کا بھی ایک جماعت کے طور کوئی وجود ہے۔ تاریخ نجدیہ[17]، تاریخ وہابیت، تاریخ نجد وحجاز جیسی کتابیں اور پھر قاضی ابن عابدین شامی سے لے کر مولانا حسین احمد مدنی تک کے فتاوی نے یہی کام کیا ہے کہ سعودی سلفی عثمانی سلاطین کے باغی، تکفیری اور خارجی ہیں۔ وہ تو اللّٰہ بھلا کرے ،مولانا علی میاں ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منظور احمد نعمانی رحمہم اللّٰہ کا کہ ان جیسے اہل علم نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے چند کلماتِ خیر کہہ [18]دیے، ورنہ برصغیر کے حنفی، سعودی سلفیت کو سفلیت سے کم درجہ تیار دینے کو جو تیار نہیں ہیں تو ان کے پیچھے حنفی علماء کے فتاوی کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی شیخ محمد بن عبدا لوہابکے بارے کلمہ خیر ہی کہا تھا لیکن ان کے شاگردوں میں جو رائے عام ہوئی، وہ اس کے برعکس تھی۔[19]
اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ یہ لوگ اگر تاریخ کا غیرجانبدار مطالعہ کریں تو ان سے اعتراض ہی نہ بن پڑے۔ ویسے تو سعودی سلطنت تین مرتبہ قائم ہوئی ہے لیکن دو مرتبہ کا قیام قابل ذکر ہے اورعموماً کتب تاریخ میں دو مرتبہ کا ہی ذکر ہے تو دونوں مرتبہ کے قیام میں سعودی سلطنت کا مرکز نجد کا علاقہ تھا۔ اور نجد 500 ہجری کے بعد کسی بڑی سلطنت کی عمل داری میں نہیں رہا اور نہ ہی یہاں عثمانیوں نے کبھی قبضہ کیا بلکہ یہاں کا نظام حکومت یہ تھا کہ مختلف شہروں پر مختلف قبائل کے اُمرا کا قبضہ ہوتا تھا اور کوئی مرکزی حکومت قائم [20]نہ تھی۔ پہلی سعودی سلطنت 1744ء میں درعیہ یعنی نجد میں آل سعود اور آل الشیخ میں باہمی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوئی اور مقامی قبائل کو دعوت اور ان سے قتال کے نتیجے میں قائم ہوئی۔ اور اس قتال کی وجوہات بھی یہی بیان کی جاتی ہیں کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کی توسیع اور اثر ورسوخ سے مقامی قبائل نے ان کے معتقدین کو ستانا اور اذیت پہنچانا شروع کر دیا تھا کہ جس کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں اور نجد کا پورا علاقہ آلِ سعود کے قبضے میں آ گیا۔ اور جہاں تک حجاز پر قبضے کی بات ہے تو حجاز اگرچہ عثمانیوں کی عمل داری میں تھا لیکن آل سعود نے اس پر حملہ میں پہل نہیں کی۔ البتہ آلِ سعود کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے ڈر کر عثمانیوں کے والی شریفِ مکہ[21] نے 1205ھ (1790ء) میں نجد پر حملوں کی ابتدا کی۔[22] دوسری طرف حجاز میں ہی عثمانیوں کے خلاف مقامی قبائل نے بغاوت کر دی اور وہ کمزور پڑ گئے۔ اور آل سعود نے مکہ مکرمہ 1806ء میں قتال نہیں بلکہ صلح کے نتیجے میں حاصل کیا کیونکہ ان کا اثر ورسوخ حجاز کے قبائل میں بھی بڑھ چکا تھا۔[23]
البتہ احساء کے علاقے کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ براہ راست عثمانیوں کی عمل داری میں رہا تھا لیکن آل سعود نے یہ علاقہ بھی بنو خالد سے حاصل کیا تھا جو عثمانیوں کے باغی تھے۔ عثمانیوں کی اس علاقے میں عمل داری 1552ء سے 1669ء تک رہی تھی جبکہ آل سعود نے اسے بنو خالد سے بزور شمشیر 1794ء میں حاصل کیا تھا اور اس کی وجہ بھی بنو خالد کے نجد پر حملوں کے جواب دیتے ہوئے اس علاقے کو فتح کرنا تھا۔[24] البتہ 1818ء کی جنگ میں آلِ سعود کی شکست کے بعد یہ علاقہ دوبارہ عثمانیوں کے مصری گورنر محمد علی پاشا کے واپس پاس چلا گیا تھا لیکن محمد علی پاشا کہ جس نے عثمانیوں کی ایما پر آل سعود کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا، خود عثمانیوں کا باغی ہو گیا اور 1832ء کی جنگ میں عثمانیوں کو شکست دے کر مصر پر قبضہ کر لیا اور اپنے تئیں اسے عثمانیوں سے آزاد کروا لیا۔ [25]
آلِ سعود کے اثر ورسوخ کے بڑھنے کی اصل وجہ عثمانیوں کا محلاتی سازشوں میں اُلجھ جانا تھا۔ جب آل سعود نجد وحجاز میں اپنی حکومت قائم کر رہے تھے، اس وقت سلطان مصطفی الرابع اپنے باپ سلطان سلیم الثالث کو قتل کر کے خود پایۂ تخت کو سنبھال رہا تھا۔ اور پھر سلطان مصطفی الرابع نے بھی کوئی ایک سال ہی حکومت کی ہو گی کہ اس کے بھائی سلطان محمود الثانی نے اسے قتل کر کے سلطنت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔[26]
تو آلِ سعود پر خروج کا الزام لگا کر انہیں عثمانی سلطنت کی کمزوری کا سبب بنانے کی بجائے خود عثمانیوں کی باہمی ریشہ داوانیوں اور جنگوں پر غور کریں۔ جتنے خروج عثمانیوں نے عثمانیوں کے خلاف کیے، اتنے شاید ہی اور سب نے مل کر ان کے خلاف کیے ہوں۔ یہاں تو ہر اگلی حکومت ہی خروج پر قائم ہوتی تھی۔ سلطان بایزید اول یلدرم کے چار بیٹے: محمد، سلیمان، عیسیٰ اور محمد آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ محمد سلطان بن گیا۔[27] اسی طرح بایزید ثانی کے تین لڑکے کرکود، احمد اور سلیم آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ سلیم غالب آ گیا اور اپنے باپ بایزید کو تخت سے اُتار کر حکمران بن گیا۔[28]
پھر آلِ سعود کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ عثمانیوں کے خلاف کفریہ طاقتوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ یہ کام آلِ سعود نے تو کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن عثمانی شہزادوں نے ضرور کیا ہے۔ یہ شہزادے آپس کی باہمی جنگوں میں غالب آنے کے لیے یورپ کے عیسائی حکمرانوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ اس حوالے سے ایک ترک شہزادے جم کی کہانی کافی معروف ہے۔ تو پہلے تو ان بغاوتوں اور خروجوں کی شرعی حیثیت کا تعین کریں جو عثمانیوں نے عثمانیوں کے خلاف برپا کیے ہیں، پھر آلِ سعود کی بات کیجیے گا۔
دوسری مرتبہ سعودی سلطنت 1902ء میں قائم ہوئی اور اس مرتبہ بھی نجد پر عثمانیوں کی عمل داری نہیں تھی اور آلِ سعود نے ریاض شہر آلِ رشید سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد آل سعود کی تیسری حکومت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے عثمانی خلافت کو کمزور کیا ۔ تو حجاز بھی 1925ء میں آلِ سعود نے شریف مکہ سے حاصل کیا ہے جو کہ عثمانیوں کا باغی تھا اور اس نے بغاوت کر کے 1916ء میں حجاز میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔[29] آل سعود کے مذکورہ تینوں مراحل کے حقائق سے ثابت ہوا کہ تینوں مرتبہ انہوں نے خلافت عثمانیہ سےٹکراؤ کے بجائے ان کے بعد آنے والے حکام سے ان علاقوں پر حکومت حاصل کی۔
چہارم: مسلمانوں سے قتال
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آلِ سعود نے مسلمانوں سے جنگیں کر کے نجد اور حجاز کا اقتدار حاصل کیا ہے۔ تو اس کا الزامی جواب یہ ہے کہ عثمانی سلاطین نے شام ومصر، فلسطین وحجاز کے علاقے کیا اصحابِ رسول ؓ سے وراثت میں حاصل کیے تھے ؟ سامنے کی بات ہے کہ عثمانیوں کے جد امجد نے ایشیائے کوچک میں ایک چھوٹی سی شہری سلطنت کی بنیاد رکھی تھی تو اس کے بعد جو سلطنت میں اتنی توسیع ہوئی ہے، تو وہ کیا انگریزوں سے ہی لڑ کر ہوئی ہے؟ نہیں ایسا بالکل نہیں بلکہ عثمانیوں سے حجاز اور بلاد حرمین کے علاقے مصر کے ماتحت ہوا کرتے تھے اور مصر پر عثمانیوں سے پہلے ’ممالیک‘ سلاطین کا قبضہ تھا جسے سلطنت مملوک (Mamluk Sultanate) کہتے ہیں جو تقریباً اڑھائی سوسال(1250ءتا 1517ء) تک قائم رہی یہاں تک کہ عثمانیوں نے آ کر اسے ختم کیا۔
پہلے 1516ء میں حلب کے مقام پر جنگ میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور اس کے نتیجے میں شام عثمانی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد 1517ء میں مصر فتح ہوا، قاہرہ میں خوب قتل عام ہوا جس کے نتیجے میں عثمانیوں کے ہاتھوں پچاس ہزار مسلمان مارے گئے کیونکہ مصر کے ممالیک نے خوب مزاحمت کی تھی۔[30] تو عثمانیوں نے بھی مسلمانوں کے قتل عام کے نتیجے میں تمام مسلمان علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا، تو اگر آلِ سعود کے ہاں یہ باہمی قتل وغارت ناجائز ہے تو عثمانیوں کے ہاں کیسے جائز ہے؟ یا تو دونوں جگہ ناجائز کہیں، یا دونوں جگہ جائز کہیں۔ اور عثمانیوں نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے مسلمانوں کی جس قدر قتل وغارت کی ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ آل سعود نے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا کیونکہ اتنی وسیع سلطنت کا قیام اتنے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دوسرا یہ کہ عثمانیوں نے محض اپنی سلطنت کی توسیع کےلیے اسلامی ممالک کی مسلم آبادیوں کو روندا جبکہ آل سعود کے پاس کم از کم یہ توجیہ موجود ہے کہ انہوں نے حملوں میں پہل نہیں کی تھی بلکہ دوسروں نے کی تھی اور ان کا حملہ جوابی کاروائی تھی۔
عثمانی حکمران سلطان بایزید یلدرم(م1403ء) نے امیر تیمور کے مخالفین کو پناہ دی تو امیر تیمور نے اُنہیں سلطان سے واپس مانگا تو اس پر سلطان نے امیر تیمور کو ٹکا سا جواب دے دیا اور دونوں طرف کی خط وکتابت میں ایک دوسرے پر تند وتیز جملے کسے گئے۔[31] اس خط وکتابت میں امیر تیمور نے آل عثمان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا لیکن ساتھ میں انداز بھی توہین کا رکھا[32] کہ جس کے نتیجے میں 1402 ہجری میں انقرہ؍انگورہ کی جنگ ہوئی اور عثمانیوں کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ ایک مرتبہ عثمانی سلطنت ختم ہو گئی جیسا کہ آلِ سعود کی حکومت بھی ختم ہو گئی تھی۔ اور بقول بعضے: امیر تیمور سلطان بایزید کو قید کر کے پنجرے میں لیے اپنے ساتھ مہینوں پھرتا رہا جو کہ بالکل بھی مناسب طرزِ عمل نہیں تھا لیکن اسی تذلیل کی وجہ سے سلطان بایزید کی وفات ہو گئی۔[33] امیر تیمور نے قیدی سلطان بایزید کو یہی کہا کہ کفار یعنی یورپ کے ساتھ تمہارے جہاد کی قدر میرے دل میں ہے اور جب تک تم وہ کرتے رہتے، میں تمہیں ہر طرح سے اسپورٹ کرتا، مال سے بھی اور لشکر سے بھی، لیکن تم مجھ سے اُلجھنے لگ گئے اور نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔[34]
پھر یہ کہ شام ومصر کی فتح میں سلطان سلیم نے یہ سب قتل وغارت گری صرف اس لیے کی تھی کہ اس کے نام کا خطبہ پڑھا جائے اور اسے خادم الحرمین الشریفین کا لقب حاصل ہو لیکن دوسری طرف آل سعود کے ہاں اس قتل وغارت کی معقول مذہبی وجہ موجود تھی، اور وہ شریعت کا نفاذ تھا۔ اب بھلے آپ اس مذہبی وجہ سے اتفاق نہ کریں اور انہیں خارجی قرار دیں لیکن عثمانیوں کے پاس تو سوائے ذاتی اقتدار کے اور کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔ پھر یہ کہ عثمانیوں کے جد امجد ارطغرل (م 1288 ء) نے جب اس سلطنت کی بنیاد رکھی تھی تو مذہب دور دور تک اس کے پیش نظر نہیں تھا، وہ صرف اپنے قبیلے کا اقتدار چاہتا تھا بلکہ بعض مؤرخین کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن یہ ایک ضمنی بحث ہے۔
پنجم: انگریزی استعمار کی پیداوار اور آلہ کار
پھر اعتراض یہ ہے کہ آلِ سعود برطانوی استعمار سے معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئے، لہٰذا یہ اس کے گماشتے ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت سے عاری ، نرا الزام ہے کہ وہ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئے البتہ اُنہوں نے ریاست قائم کر لینے کے بعد برطانیہ سے معاہدہ ضرور کیا، اس لیے کہ وہ اس وقت کی سپر پاور تھا، اور اس لیے کہ وہ اسے تسلیم کرے، کیونکہ اس دور میں اقوام متحدہ جیسا کوئی ادارہ تو موجود نہیں تھا، اور دنیا میں 1965ء سے قبل ڈالر کی بجائے پاؤنڈ کا سکہ چلتا تھا۔ برطانیہ سے آل سعود کا معاہدہ 1915ءمیں ہوا ہے، جبکہ آل سعود کی منظم پیش قدمی 1902 ء میں شروع[35] ہوئی اور 1914 تک پورے جزیرہ عرب تک پھیل گئی۔
میں نے سارا معاہدہ پڑھا ہے، مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں ہو سکی جو ان حالات میں کسی قوم کے لیے شرعی طور ناجائز ہو سکے کہ اس معاہدے کی اصل یہ تھی کہ برطانیہ اُنہیں تسلیم کرے گا اور وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر ان مسلمان علاقوں پر حملہ نہیں کریں گے کہ جن پر برطانیہ کا قبضہ ہے۔
معاہدہ تو سید المرسلینﷺ جو مدینہ کے حاکم تھے اور شرعی سزائیں نافذ کرتے تھے، نے بھی مدینہ کے یہود سے کیا تھا یعنی میثاقِ مدینہ اور مشرکین مکہ سے بھی کیا جیسا کہ صلح حدیبیہ۔ تو کیا کفار سے صرف معاہدہ کرنے سے مسلمان کفار کے گماشتے بن جاتے ہیں؟ پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی برطانیہ سے ایک معاہدے کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا، کیا ہم محض اس بنیاد پر اسے برطانوی استعمار کی پیداوار کہہ دیں کہ اس کا خالق برطانیہ ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو آل سعود کے خلاف ان کے سلفی ہونے کی وجہ سے،حنفی مولویوں کی طرف سے چارج زیادہ کیا گیا ہے۔
آلِ سعود اور خلافت عثمانیہ کی یہ ساری بحث کشمیر کے مسئلے پر چلی ہوئی ہے کہ جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے مودی سے ہاتھ ملائے، معاہدے کیے، اسے میڈل پہنائے تو ہمارے پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر عربوں کو نمک حرام اور برطانوی گماشتے اور معلوم نہیں کیا کیا کہنے کی یلغار کر دی۔ تو آپ عربوں پر ضرور تنقید کریں لیکن پہلے آئینہ بھی دیکھ لیں۔ مجھے اس میں زیادہ مسئلہ نہیں ہے کہ آپ عربوں کو نمک حرام کہیں یا امریکی غلام ،مجھے زیادہ مسئلہ اس میں ہے کہ آپ نمک حراموں اور امریکی غلاموں سے تیل اُدھار لے کر اپنا ملک چلا رہے ہیں، کہاں گئی آپ کی غیرت ؟
دوسرا آپ کو اعتراض یہ ہے کہ انڈیا کشمیر میں ظلم کر رہا ہے اور عرب دنیا انڈیا کے ساتھ معاشی معاہدے کرتی پھر رہی ہے۔ تو آپ کی حکومت نے بھی یہی کام کیا ہے کہ جب چین سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم کر رہا تھا تو آپ سی۔پیک کی خوشیاں منا رہے تھے۔ اور سنکیانگ کے مسلمانوں کے لیے میڈیا میں کوئی آواز نظر آ رہی تھی تو وہ ہیومن رائٹس والوں کی تھی، اگرچہ وہ یہ سب کچھ اپنے ایجنڈے کے لیے کر رہے تھے لیکن اس وقت تمہاری یہ ساری غیرت کدھر تھی؟ یہ ٹوئٹر کی مہم جوئی، یہ فیس بک اور واٹس ایپ پوسٹیں۔ یہ نمک حرامی اور بے غیرتی کے تمغے۔ اسی طرح جب برما میں مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا ہوتی ہے، پاکستانی میڈیا یہ ظلم نہیں دکھاتا، انٹرنیشنل میڈیا دکھاتا ہے، پھرامریکی حکومت اور یورپین ممالک اپنے مفاد کی خاطرہی سہی، برما کے مسلمانوں کے حق میں بولتے ہیں اور پاکستان ان حالات میں برما کی حکومت کو جنگی طیارے بیچنے کے معاہدے کر رہا ہوتا ہے تو پاکستانی کیسے امت مسلمہ کے وفادار ہو گئے؟ اسی طرح امریکہ افغانستان پر حملہ کرتا ہےتو ہم اسے لاجسٹک اسپورٹ فراہم کرتے ہیں، رستے دیتے ہیں۔ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نام پر اپنے ملی، نظریاتی تعلق اور علاقائی مفادات کوبھی بالاے طاق رکھ دیتے ہیں۔
تو مسلمان دنیا میں کیا صرف کشمیر میں بستے ہیں۔ اگر عربوں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وفا نہ کی تو ہم نے بھی تو وہی حرکت برما، چین اور أفغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کی ہے کہ جس کی شکایت ہم کشمیر کے حوالے سے عربوں سے کر رہے ہیں۔ تو جب سبھی مسلمان حکمران ایک جیسے ہیں تو ایک کو برا بھلا کہنے کا فائدہ یا ایک ہی کو ٹارگٹ کیے جانے کا مقصد ؟ ہاں، ایک مقصد پورا ہوتا ہے، مسلکی عصبیت اتارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے ضائع نہ ہو جائے۔
حالیہ بحث کشمیر کے مسئلے پر چلی ہے، پاکستان ایٹمی طاقت ہے، اسے بھارت سے کشمیر لینے کے لیے کیا عربوں کی حمایت کی ضرورت ہے ؟ عربوں کو پاکستان کی حمایت کے لیے دوڑنا چاہیے تھا، نہ کہ پاکستان کو۔ یہ تو ہماری ناکامی ہے تو اس کی گالیاں عربوں کو کیوں دیں ؟ میں یہ نہیں کہتا کہ آل سعود ٹھیک کر رہے ہیں، ان کا یہ رویہ درست نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حکمران سب ایسے ہی ہوتے ہیں، اس حمام میں سب ننگے ہیں، صرف عربوں کو گالیاں دینے کا فائدہ نہیں۔ اب ایک گندگی کا ڈھیر، دوسرے گندگی کے ڈھیر کو یہ کہتا اچھا لگے گا کہ تم تو گندگی کے ڈھیر ہو۔
آلِ سعود کی عثمانی سلاطین پر ترجیح کی وجہ
اگر آپ یہ کہیں کہ آل سعود کو عثمانیوں پر ترجیح دینے کی معقول وجہ آپ کے پاس کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی معقول ترین وجہ یہ ہے کہ آلِ سعود کی حکومت توحید اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نعرے پر وجود میں آئی اور یہ آل سعود اور آل الشیخ کے باہمی معاہدے کا نتیجہ تھی جو تقریبا 1157 ھ یعنی 1744ء میں ہوا کہ جس کے مطابق امیر درعیہ محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کی تھی کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اسے اسپورٹ کریں گے تو وہ بدلے میں توحید کا نظام قائم کرے گا، شرک اور بدعات کا خاتمہ کرے گا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اہتمام کرے گا۔[36]
شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کے نتیجے میں پہلے امیر عیینہ نے محمد بن سعود کی بیعت کی اور پھر اہل حریملا نے بھی کی اور اس طرح شروع میں دعوت کے نتیجے میں آلِ سعود کی سلطنت وسیع ہوئی۔ اس کے بعد مقامی عرب قبائل سے ان کی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں لیکن ان کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے متبعین کو اہل شرک وبدعت ستاتے اور اذیت پہنچاتے تھے کہ جس کے نتیجے میں یہ جھڑپیں ہوئیں اور نجد کے قلب پر 1187 ھ تک آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ تاریخی کتب میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ چونکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کا آغاز نجد سے ہوا تھا جبکہ حجاز ابھی ان کے پاس نہیں تھا تو نجد کے حجاج کو حج کرنے سے باقاعدہ روکا جاتا تھا اور جو کسی طرح پہنچ جاتے تھے تو اُنہیں قید کر لیا جاتا اور اسی قید میں بعض کی وفات بھی ہوئی۔[37] اس کے بعد حجاز کی حکومت بھی بزور شمشیر آل سعود کے پاس آ گئی۔
یہ بھی واضح رہے کہ آلِ سعود کی حکومت ایک مذہبی معاہدے کا نتیجہ تھا جبکہ عثمانیوں کی حکومت، آلِ سلجوق کی حمایت کا نذرانہ تھی اور اس کے بدلے عثمانیوں نے آلِ سلجوق سے رہتے دم تک وفا کی، اس میں شک نہیں۔ پھر آلِ سعود پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو قتل کروا دیتے ہیں تو یہی کام عثمانیوں نے کیا ہے بلکہ آلِ سعود سے بہت بڑھ چڑھ کر کیا ہے۔ تو دونوں نے غلط کیا ہے۔ ہم کسی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن ہم صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ عثمانی جب اپنے بھائیوں کو قتل کر دیتے تھے، ان میں سے بعض بغاوت کے نتیجے میں قتل ہوتے تھے اور بعض نے ابھی بغاوت نہیں کی ہوتی تھی، پھر بھی قتل کر دیے جاتے تھے اور اس کی دلیلیں قرآن سے ڈھونڈی جاتی تھیں کہ فتنہ، قتل سے بھی بڑا گنا ہے۔ تو آل سعود تو اس حد تک نہیں گرے کہ اپنے بھائیوں کو محض بغاوت کے اندیشے سے ہی قتل کروا دیں اور اس کا کوئی اسٹیٹ آڈر بھی جاری کروا دیں۔
خلاصۂ کلام
اس ساری بحث میں اصل سوال ہے کہ تاریخ میں جب یہ بات ثابت ہے کہ اس قسم کی مسلمانوں کی باہمی قتل وغارت گری کے بغیر کوئی بڑی اسلامی سلطنت قائم نہیں ہو سکی اور جو قائم ہوئیں، وہ آج ہمارے لیے آئیڈیل ہیں تو پھر آج القاعدہ، داعش اور طالبان افغانستان کو اس باہمی قتل وغارت گری پر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیا یہ امکان نہیں ہے کہ اگر انہیں غلبہ حاصل ہو جائے تو سو سال بعد وہ بھی مسلمانوں کے خلیفہ اور ہیرو قرار پا جائیں، ہماری خود کش حملہ آوروں کے خلاف کی جانے والی تمام فیس بکی پوسٹوں کے باوجود۔ ہم ماضی اور حال میں کیوں ایسا فرق روا رکھتے ہیں کہ ماضی پر ہونٹ سی لیں اور حال کے واقعات پر تنقید کریں۔ کیا ماضی، صرف روایت ہونے کی وجہ سے مقدس گائے بن گیا ہے ؟ تو خلافت کی روایت کو بھی ناقدانہ نظر سے دیکھیں۔ بلاشبہ یورپ کے خلاف جہاد میں عثمانیوں کی بہت خدمات ہیں، ان کی سلطنت ایک مذہبی سلطنت تھی کہ جس میں خیرغالب تھی لیکن یہ سلطنت جس طرح سے قائم ہو رہی تھی یعنی مسلمانوں کے باہمی قتال کے نتیجے میں تو کیا وہ طریقہ جائز تھا ؟ تو یہ تو بعد کی بات ہے کہ عثمانی سلاطین کی یہ خدمت کیا کم ہے کہ انہوں نے عالم اسلام کو یکجا اور جمع کیا تھا۔
پہلے تو یہ واضح کریں کہ عالم اسلام کو جمع کیسے کیا ؟ یہ اصل سوال ہے کیا جس طرح انہوں نے جمع کیا، اس طرح ہم بھی تمام عالم اسلام یا اس کے ایک حصے کو جمع کرنے کا حق رکھتے ہیں ؟ اگر ہاں، تو القاعدہ، داعش اور طالبان افغانستان کیوں غلط ہیں ؟Top of Form
ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہے، اچھا یا برا، اس لیے اس سوال کا جواب لازم ہے تا کہ عصر حاضر کی اسلامی تحریکوں کے لیے کوئی لائحہ عمل طے ہو سکے۔ ہماری رائے میں مسلمانوں کے ہر قسم کے باہمی قتال کی نفی کرنی ہے اور اسے شر ہی کہنا ہے لیکن اگر اس کے نتیجے میں کسی گروہ کو اقتدار اور غلبہ حاصل ہو جائے تو اب اسے تسلیم کر لینا چاہیے، چاہے وہ سلفی ہو یا حنفی۔ ہم نے طالبان افغانستان کے بارے یہی کہا تھا کہ افغانستان میں ان کا غلبہ شر یعنی مسلمانوں کی باہمی قتل وغارت کے رستے ہوا لیکن جب ہو گیا تو اب تسلیم کر لینا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ تو بہت مرتبہ اللّٰہ عزوجل شر سے خیر برآمد کر دیتے ہیں لیکن ہم شر کو شر ہی کہیں گے، بھلے اس سے برآمد ہونے والا خیر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اور ہم شر سے خیر پیدا کرنے والے رستوں کے خلاف بھی بات کریں گے کہ ان کا استعمال کسی طور جائز نہیں ہے۔ باقی آل سعود کوئی مقدس گائے نہیں ہیں، ان کے حالیہ حکمرانوں کو ضرور تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن مسلکی تعصب نکالنے کے لیے نہیں، امت کی خیر خواہی کے جذبے سے۔ اور وہ تبھی نظر آئے گی جبکہ ان کے شر پر نقد کے ساتھ ان خیر کی تعریف بھی کریں گے۔ اگر حنفیوں کو آل سعود میں کوئی خیر نظر نہیں آتا تو پھر سلفیوں کو بھی عثمانیوں میں کوئی خیر نظر نہیں آئے گا۔ آپ اکثریت میں ہیں، اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہر وقت لینے والا ہاتھ آگے کیے رکھیں۔     ٭٭
نوٹ: اس موضوع کی مزید تفصیل اور شواہد کےلئے مدیر محدث کا تفصیلی مضمون اگلے شمارہ میں ملاحظہ کریں۔
حوالہ جات:
[1]    ﴿اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ ...﴿٢٦﴾... سورة الفتح
[2]    القانون الأساسي، مطبعة الآداب، بيروت، 1908ء، ص 4
[3]    ايضاً
[4]    آرٹیکل 5(ب) :يكون الحكم في أبناء الملك المؤسس عبد العزيز بن عبد الرحمن الفيصل آل سعود وأبناء الأبناء، ويُبايع الأصلح منهم للحكم على كتاب الله تعالىٰ وسنة رسوله ﷺ.
’’حکومت، بانی سلطنت عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن الفیصل آلِ سعود کے بیٹوں اور پوتوں میں ہوگی۔ ان میں سے جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ كے نفاذ كے لئے اصلح (موزوں ترین ) فرد ہوگا، اس کی بیعت کی جائے گی۔ ‘‘
(سعودی عرب کا دستورِ جدید از ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد، ماہنامہ محدث، جنوری 1993ء، 23؍1، شمارہ 193، ص 212)
[5]    سعودی عرب کا دستورِ جدید از ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد:ص 211
[6]    ایضاً: ص 216-217
[7]    ایضاً: ص 216
[8]    ایضاً: ص 220
[9]    الدولة العثمانية: عوامل النهوض وأسباب السقوط للدكتور على محمد محمد الصلابي، دار التوزيع والنشر الإسلامية، 2001ء، ص 380-381
[10] روزنامہ جنگ کے کالم نگار خلیل احمد نینی تال والا لکھتے ہیں: ’’آج سے 40 سال قبل شاہ فیصل مرحوم سے دورۂ امریکہ میں ایک مشہور یونیورسٹی میں ایک پروفیسر نے سوال کیا سعودی عرب میں سزائے موت کیوں ہے؟ جبکہ امریکہ جیسے مہذب ملک میں قتل کے بدلے قید کی سزا ہوتی ہے ۔اس کے جواب میں مرحوم شاہ فیصل نے 2 دلائل دیئے ۔پہلا: آپ کا قانون مظلوم کو انصاف دینے کے بجائے ظالم کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔ اورصرف ایک کمزور دلیل پر رہا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے صرف نیویارک میں ہر سال 10ہزار سے زیادہ بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ملزم چند سال گزار کر رہا ہو جاتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ صرف نیویارک میں 8 ہزار سے زیادہ اس سال قتل ہو چکے ہیں ۔ جواب میں 5ہزار کے قریب افراد پکڑے گئے جن کو 14 سال کی سزا ہوئی جوکٹ کر آدھی رہ جائے گی ۔ بتایا جائے مقتول کو کہاں انصاف ملا ؟جبکہ نیویاریک سے 5 گنا بڑے ملک سعودی عرب میں پورے سال میں 10 قتل ہوئے۔ ہم نے ان قاتلوں کو چند ہفتوں میں مجرم ثابت کر کے ان کے سر قلم کر دیے۔ ایک طرف مقتول خاندان کو انصاف مل گیا تو دوسری طرف کروڑوں افراد کو سبق مل گیا کہ قاتل بچ نہیں سکتا اور قتل کرنے سے پہلے 100 دفعہ سوچے گا ۔ بتائیں صرف 10؍افراد کی قربانی دے کر ہم نے کروڑوں افراد کو تحفظ فراہم کر کے مثال قائم کردی ہے ۔ آپ کا مہذب معاشرہ پانچ ہزار افراد کو سزائیں دے کر بھی تحفظ فراہم نہ کر سکا تو ظالم آپ ہوئے یا ہم ۔‘‘(روزنامہ ’جنگ‘ لاہور:4؍ فروری 2018ء )
[11] مجلّہ، اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، طبع اول، 1985ء، 18؍ 586
[12] دولتِ عثمانیہ از ڈاکٹرمحمد عزیر، دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، الہند، 2009ء، 2؍313
[13] الدولة العثمانية المجهولة للدكتور أحمد آق كوندر وسعيد أوزتورك مكتبة آمرو توران، استنبول، ص 129
[14] ایضًا: 140-141
[15] تاريخ الدولة العلية العثمانية از محمد فريد بك، دار النفائس، بيروت، 1981ء، ص 161
[16] ڈاکٹر عزیر احمد کی کتاب کا نام دولت عثمانیہ ہے اور سید سلیمان ندوی کے شاگرد ڈاکٹر عزیر احمد ہیں اور سید صاحب کے بقول یہ کتاب سات سال کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے اور اُردو زبان میں دولت عثمانیہ کی تاریخ پر پہلی جامع اور مستند ترین کتاب ہے۔ اس کتاب کو دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ ، الہندنے شائع کیا ہے۔
[17] اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر یہ عبارت ثبت ہے: ’’اس کتاب میں نجد ،شیخ نجدی اور اُس کے بنا کردہ فرقۂ وہابیہ کے حالات، عقائد اور کارنامے بیان کئے گئے ہیں کہ اُس نے کس بے دردی سے مسلمانوں کو قتل کیا۔ اُن کے اموال لوٹے اور اُن کے مقاماتِ مقدسہ کی بے حرمتی کی۔ جس پر تُرک غازیانِ اسلام شمشیر بکف نکلے اور نجدیوں کو بداعمالیوں کی خوب سزادی۔ ابن سعود کی سابقہ مسلم کشی اور طائف میں ہونے میں مظالم کا بھی اس میں ذکر ہے۔ انجمن حزب الاحناف لاہور نے اپنے اسلامی بھائیوں کو حقیقتِ حال سے باخبر کرنے کیلئے ربیع الثانی 1343ھ میں شائع کیا۔‘‘
[18] مولانا منظور احمد نعمانی کی کتاب کا نام’شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے پروپیگنڈا اور ہندوستان کے علماے حق پر اس کے اثرات‘
[19] مولانا کی یہ رائے فتاوی رشیدیہ میں موجود ہے۔
[20] دعاوي المناوئين لدعوة الشيخ محمد بن عبد الوهاب از عبد العزيز بن محمد بن علی آل عبد اللطيف،دار الوطن، الرياض، 1412ھ، ص 235-238
[21] شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس منصب كی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔        (ح۔م)
[22] ’ محمد بن عبد الوہاب: ایک بدنام اور مظلوم مصلح ‘از مسعود عالم ندوی ، فیصل اکیڈمی، لائل پور، 1975ء ،ص 71
[23] ايضاً: ص 76-77
[24] تاريخ المملكة العربية السعودية از عبد الله الصالح عثیمین، مكتبة العبيكان، الرياض 2005ء، ص 1؍125-130
[25] دولتِ عثمانیہ: 2؍61-64
[26] ايضاً: 1؍423
[27] ايضاً: 1؍73-74
[28] ايضاً: 1؍141-142
[29] مختصر تاريخ الدولة السعودية از ڈاکٹر فيصل بن مشعل ، ص 84-86
[30] دولتِ عثمانیہ: 1؍146، 153
[31] النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة از يوسف بن تغري الحنفي، دار الكتب، مصر، 12؍267
[32] الدولة العثمانية: عوامل النهوض وأسباب السقوط: ص 61
[33] امیر تیمور کو بعض مورخین نے تعزیہ نکالنے کی وجہ سے شیعہ لکھا ہے لیکن زیادہ تر مؤرخین کی نظر میں وہ سنی تھا اور شافعی المسلک تھا۔ بہر حال اس کا سنی ہونا ہی زیادہ قرین قیاس ہے جیسا کہ ڈاکٹر محمد الصلابی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے، البتہ یہ بات درست ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے حق میں وہ دوسرا حجاج تھا کہ جس نے کافروں سے زیادہ مسلمانوں کو فتح کرنے میں اپنی زندگی گزار دی۔
[34] دولتِ عثمانیہ: 1؍70-71
[35] 1902ء میں حالیہ شاہ سلمان کے والد عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف آل رشيد کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم كيا۔ اس كى بعد اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔اس كى بعد آل سعود كی حکومت مختلف علاقوں میں آگے بڑھتی رہی، تاآنکہ 1913ء میں اُنہوں نے خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔حجاز میں 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو بريلوی حمایت یافتہ شريف مکہ حسین بن علی نے شکست دی۔حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دیے اور آخر کار 1925ء میں شریف مکہ حسین بن علی سے اقتدار لے لیا۔ 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے عبدالعزیز بن سعود نے خود کو بادشاہ قرار دیا۔
[36] ’محمد بن عبد الوہاب: ایک بدنام اور مظلوم مصلح‘ از مسعود عالم ندوی: ص 41
[37] ایضاً: ص 61-62