طلاق کےضروری مسائل واقسام

تفسیر اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ یعنی ’’طلاق دو مرتبہ ہے !   ‘‘
وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر)رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا۔ آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا۔ اس طرح سے اسے نہ بساتا تھا، نہ آزاد کرتا تھا۔ اللّٰہ نے اس ظلم کا راستہ بند کر دیا۔ اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لیے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں اللّٰہ تعالیٰ نےطلقَتَان (دو طلاقیں) نہیں فرمایا ، بلکہ ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ﴾ طلاق دو مرتبہ فرمایا، جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور اُنہیں بیک وقت نافذ کر دینا حکمتِ الٰہیہ کے خلاف ہے۔ حکمتِ الٰہیہ اس بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یاکئی ایک)اور اس طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد(چاہے وہ ایک ہو یاکئی ایک)مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یاغصے میں کئے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے۔ یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے جیسا کہ اہل حدیث کا مذہب ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کر دینے کی صورت میں جیسا کہ بعض لوگوں کا اصرار ہے۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ اور غلط طریقے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا حل
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طلاق دینے کا وہ صحیح طریقہ بھی بیان کر دیا جائے جو شریعت میں پسندیدہ ہے اور غلط طریقے سے یعنی ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے جو معاشرتی مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کا صحیح حل بھی عرض گزار کر دیا جائے، تاکہ عوام مشکلات سے بچ جائیں۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالتِ طہر میں بیوی سے صحبت کیے بغیر صرف ایک طلاق دی جائے، اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اس کے بعد اگر رجوع اور صلح کی صورت بن جائے تو محدثین اور فقہاے اربعہ سب کے نزدیک تین حیض یاتین مہینے کے اندر رجوع اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح ہو سکتا ہےاور اگر طلاق دینے کے بعد رجوع نہ ہو اور عدت(تین حیض)گزر جائے تو ان کے مابین تعلق زوجیت ختم ہو جائے گا۔ مطلقہ بیوی اس کے بعد آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرے،حتیٰ کہ پہلے خاوند سے بھی نکاح کر سکتی ہے۔ اس طریقے میں دوسری اور تیسری طلاق دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اور موٹی سی بات ہے کہ جب ایک مرتبہ ہی طلاق دینے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو بیک وقت تین طلاقیں کیوں دی جائیں؟ لیکن ہمارے ملک میں جہالت عام ہے، حتی کہ وکلا اور عرضی نویس حضرات بھی بے علم ہیں اور جس طرح جاہل لوگ بے سوچے سمجھے ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں، اگر کوئی وکیل یاوثیقہ نویس سے طلاق لکھواتا ہے تو وہ بھی تین طلاقیں لکھ کر اسے دے دیتے ہیں۔ حالانکہ نبیﷺ نے ایک مرتبہ تین طلاقیں دینے پر شدید غصے کا اظہار فرمایا ہے اور اسے اللّٰہ کی کتاب کے ساتھ استہزا اور مذاق قرار دیا ہے۔ (اس کی سند میں اگرچہ ضعف ہے لیکن دیگر احادیث اس مفہوم کی مؤید ہیں) اور اسی غلط طریقے کی وجہ سے پھر اختلاف بھی واقع ہوتا ہے۔
کچھ علماء کہتے ہیں کہ اس طرح تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور اب حلالہ کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس کے بغیر دونوں کا دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ حلالے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے، یہ ایک لعنتی فعل ہے جسے کوئی غیرت مند مرد اور عورت برداشت نہیں کر سکتی اور نبی ﷺنے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے: «لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ المُحِلَّ وَالمُحَلَّلَ لَهُ» [1]۔ اور حلالہ کرنے والے کو التَّيْسِ الْـمُسْتَعَارِ[2] ’کرائے کا سانڈ‘ کہا ہے۔
اس کے برعکس دوسرے علماء کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاقِ رجعی شمار ہوں گی، یعنی اس کے بعد خاوند اگر رجوع کرنا چاہیے تو وہ تین مہینے کی عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، اس کے لیے اسے نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر عدت گزرنے کے بعد صلح کرنا چاہیں گے تو پھر نکاح ضروری ہے اور حلالے کے بغیر ان کا باہم نکاح کرنا جائز ہوگا۔ پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق میں یہی حکم ہوگا۔ البتہ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ نکاح﴿حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾’’ جب تک کہ وہ کسی اور جگہ نکاح نہ کرے۔‘‘اس موقف کے دلائل حسب ذیل ہیں:
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ...﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة
’’ طلاق دو مرتبہ ہے، پس(اس کے بعد)بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو طلاق دینے کےبعد بیوی سے رجوع کرکے اپنے پاس روک لینے یا طلاق کو مؤثر کر کے احسان کے ساتھ اسے اپنے سے جدا کر دینے کا دو مرتبہ حق حاصل ہے۔ یعنی پہلی اور دوسری طلاق، طلاقِ رجعی ہے جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق شرعی طور پر حاصل ہے۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق نہیں۔ تیسری طلاق کے بعد بیوی ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتی ہے، اس سے رجوع ہو سکتا ہے نہ نکاح۔ یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے آباد ہونے کی نیت سے باقاعدہ نکاح کرے۔ پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یافوت ہو جائے، تو پہلے خاوند سے اس کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کر کے بیوی کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے۔ لیکن لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی صحیح اور مستحسن نہیں، کیونکہ اس طرح وہ حکمت فوت ہوجاتی ہے جو پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرنے کی گنجائش میں مضمر ہے۔ اس لیے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاقِ رجعی شمار کرنا، جس کے بعد عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، قرآن کریم کی رو سے زیادہ صحیح ہے اور ذیل کی احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟» قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: «فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ» قَالَ: فَرَجَعَهَا [3]
’’ حضرت ابن عباس﷜ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ﷜ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللّٰہﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟ انہوں نے کہا:’تین مرتبہ‘۔ آپ نے نے پوچھا:’’ ایک ہی مجلس میں طلاقیں دی تھیں؟‘‘اُنہوں نے کہا:’’ہاں‘‘ آپ نے فرمایا:’’پھر یہ ایک طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوئ حدیث حضرت ابن عباس﷜ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت رکانہ﷜ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ‘‘
2.  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً [4]
’’ عبداللّٰہ بن عباس﷜ فرماتےہیں کہ عہدِ رسالت مآب اور عہد ابوبکر﷜ اور سیدنا عمرفاورق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔‘‘
( ان دونوں حدیثوں سے بھی واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق رجعی شمار ہو گی )۔
ان ہی مذکورہ تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا اور عدت گزرنے کے بعد بہ نکاح جدید (بغیر حلالہ مروّجہ کے) اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے گھر بسانے کا حق حاصل ہے۔ جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی( مدیر ماہنامہ’برہان‘ دہلی)، مولانا عبدالحلیم قاسی(جامعہ حنفیہ، گلبرگ، لاہور) ، مولاناپیر کرم شاہ ازہری( دار العلوم محمدیہ، بھیرہ)، مولاناحسین علی (واں بھچراں)، حکیم محمد یٰسین (جھنگ،متوفی1999ء)اور دیگر حضرات ہیں۔ جس کی تفصیل ’ایک مجلس کی تین طلاقیں‘ نامی کتاب اور راقم کی کتاب’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا حل‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔اوّل الذکر کتاب میں پیرکرم شاہ کا ایک مدلل مقالہ بھی شامل ہے، جس میں اسی مسلک کی تائید کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی سے پوچھا گیا کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ لیکن زید کو اپنی بیوی سے نہایت اُلفت ہے اور مفارقت ناقابل برداشت، تو بدرجۂ مجبوری مذہبِ شافعی کی تقلید کرتے ہوئے نکاح جائز ہوگا یا نہیں؟ اس کے جواب میں مولانا عبدالحی مرحوم نے فرمایا:
’’ ضرورتِ شدیدہ کے وقت مذہبِ شافعی کی تقلید کرنا جائز ہے۔‘‘[5]
مطلب مولانا عبدالحی مرحوم کا یہ ہے کہ اگر مفاسد کا اندیشہ ہو تو دوسرے مذہب کے فتوے کے مطابق رجوع یا نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر لیا جائے۔ یہی اجازت مولانا کفایت اللّٰہ مرحوم (مفتی اعظم ہند )نے مخصوص حالات کے لیے دی ہے۔ چنانچہ ان کے مجموعہ فتاوی میں ایک سوال جواب درج ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک حنفی نے طلاقِ ثلاثہ کے بعد اہل حدیث عالم سے فتویٰ لے کر اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ جس پر دوسرے علماء نے اہل حدیث مفتی پر کفر کا فتوی لگا دیا اوراس کے مقاطعے کا حکم دیا اور مسجد میں آنے سے روک دیا۔ (سوال کیا گیا کہ ) کیا یہ فعل جائز ہے؟ اس کاجواب دیا گیا:
’’ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کے علاوہ بعض علماء اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک طلاقِ رجعی ہوتی ہے اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس﷜ اور طاؤس وعکرمہ وابن اسحٰق سے منقول ہ۔ے پس کسی اہل حدیث کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں اور نہ وہ قابل مقاطعہ اور نہ مستحق اخراج المسجد ہے۔ ہاں حنفی کا اہل حدیث سے فتویٰ حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا تو یہ بہ اعتبارِ فتوی نا جائز تھا۔ لیکن اگر وہ بھی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کا مرتکب ہوا ہو، تو قابل درگزر ہے۔‘‘ [6]
اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کا مقالہ ’مسئلہ طلاق ثلاثہ‘ در کتاب’صراطِ مستقیم اور اختلافِ اُمت‘ از مولانا صغیر احمد شاغف بہاری اور راقم کی کتاب جس کا حوالہ اوپر گزرا: ’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا حل ‘۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طلاق سے متعلق کچھ ضروری باتیں مزید بیان کر دی جائیں :
طلاق اور اس کا طریقہ
1.     مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہوجانے کے بعد اکثر مذاہب میں علیحدگی اور طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے، حالانکہ بعض دفعہ جب دونوں کے مزاجوں میں موافقت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکے تو طلاق اور علیحدگی ہی میں دونوں کی بھلائی ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے مرد کو طلاق کاحق دیا ہے تاہم مرد کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے اس حق طلاق کو آخری چارۂ کار کے طور پر ہی استعمال کرے۔ اس سے پہلے اصلاح کی جو چار تدابیر اللّٰہ نے سورۃ النساء میں بیان فرمائی ہیں(جن کی تفصیل آگے آئے گی) ان کو بروئے کار لایا جائے۔ پھر بھی بات نہ بنے تو پھر طلاق کا فیصلہ کیا جائے۔
2.  یہ فیصلہ کر لینے کے بعد یوں ہی طلاق نہ دی جائے بلکہ اس کے لیے یہ طریق کار بتلایا گیا ہے کہ ایامِ حیض میں طلاق نہ دی جائے۔ نبیﷺ نے سیدنا عبداللّٰہ بن عمر﷠ پر برہمی کا اظہار فرمایا تھا جب اُنہوں نے ایام حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ بلکہ اس وقت طلاق دی جائے جب بیوی کے ایامِ حیض ختم ہو جائیں اور وہ پاک ہو جائے۔ اس حالت کو طہر کہا جاتا ہے تو حکم یہ ہے کہ حالتِ طہر میں طلاق دی جائے اس سے صحبت کیے بغیر۔
اس حکم کا فائدہ یہ ہے کہ اکثر مرد حق طلاق کا بے جا استعمال کرتے ہوئے وقتی طور پر اشتعال اور غصے میں فورا ًطلاق دے بیٹھتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ جبکہ ہم میاں بیوی کا نباہ صحیح طریقے سے ہو رہا ہے۔ اگر اشتعال اور غصے میں طلاق نہ دی جائے اور ایسے طہر کا انتظار کیا جائے جس میں خاوند نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو، جیسا کہ حکم ہے تو اس انتظار کی وجہ سے اکثر وبیشتر غصے اور اشتعال کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور آدمی کو طلاق دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اور یوں طلاق کی شرح بہت ہی گھٹ جاتی ہے۔ پھر طلاق صرف اسی صورت میں دی جائےگئی جب مرد نے قطعی طور پر، اصلاح کی ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد، طلاق دینے ہی کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔
3.  جب طلاق دی جائے تو ایک ہی طلاق دی جائے، یعنی طلاق کا لفظ صرف ایک مرتبہ ہی استعمال کیا جائے: میں تجھے طلاق دیتا ہوں، یا تجھے طلاق ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر طلاق دینے کے بعد صلح کی صورت بن جائے تو نہایت آسانی سے صلح کا مرحلہ طے ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک طلاق کی صورت میں تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک عدت(تین حیض یا تین مہینے) کے اندر بغیر نکاح کے رجوع اور صلح کرلینا جائز ہے اور رجوع کے لیے زبان ہی سے رجوع کا اظہار کر دینا کافی ہے۔ اس کے لیے کسی خاص عمل کا کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر عدت گزر جائے تو ان کے درمیان دوبارہ نکاح کے ذریعے سے تعلق بحال ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ رجوع کرنے کے بعد دوبارہ بھی ایک طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر رجوع کرنے کی اور عدت گزر جانے پر نئے نکاح کے ذریعے سے تعلق بحال کرنے کا موقع رہتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللّٰہ نے﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ﴾ (البقرۃ229:2) میں دو مرتبہ طلاق دے کر مرد کو رجوع کرنے کا حق دیا ہے۔
پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک ہی مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے، حالانکہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا ممنوع ہے اور نبیﷺ نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس لیے اس میں بھی تمام مکاتبِ فکر متفق ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا ناجائز ہے۔ لیکن عوام جہالت کی وجہ سے غصے میں اسلام کی اس اہم ہدایت کی پروانہیں کرتے اور ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علمائے احناف اس کو تین ہی قرار دے کر صلح اور رجوع کا راستہ بالکل بند کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں عوام بڑے پریشان ہوتے ہیں، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیت بیوی سے جدائی کی نہیں تھی، بس غصے میں طلاق دے بیٹھے، اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ جب تک طلاق کا لفظ تین مرتبہ استعمال نہیں کریں گے تو طلاق ہی نہیں ہو گی، اشٹام پیپر میں بھی اس لیے تین طلاقیں لکھوائی جاتی ہیں۔
بنابریں طلاق دینے کا اگر فیصلہ کر ہی لیا جائے تو ایک ہی طلاق دی جائے۔ اس کے بڑے فائدے ہیں کیونکہ بعض دفعہ آدمی طلاق تو دے بیٹھتا ہے لیکن جب اس کے نقصانات اس کے سامنے آتے ہیں، مثلاً: میاں بیوی میں آپس میں بڑا پیار ہے، وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، یا اولاد کا مسئلہ ہے، طلاق کے بعد ان کا مستقبل تاریک ہو جائےگا وغیرہ۔ اس قسم کی صورتوں میں اگر وہ دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو ایک طلاق کی صورت میں عدت کے اندر صلح اور رجوع کر کے اپنی غلطی کا ازالہ کر لیا جانا بڑا آسان ہے۔ اس کی راہ میں فقہی اختلاف بھی آڑے نہیں آتا۔ اس کے برعکس اکٹھی تین طلاقیں دینے کی صورت میں فقہی اختلاف کی وجہ سے معاملہ گھمبیر ہو جاتا ہے کیونکہ حنفی علماء اس صورت میں صلح کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ حلالہ کروا کے دوبارہ نکاح کی بحالی کا فتویٰ دیتے ہیں جو ایک لعنتی اور بے غیرتی کا کام ہے، جسے کوئی غیرت مند مرد گوارا نہیں کرتا، علاوہ ازیں رسول اللّٰہﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کروایا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔[7]
بصورتِ دیگر یہ گھرانہ اُجڑ جاتا ہے ، مرد الگ پریشان ہوتا ہے، بیوی کی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے اور بچوں کا مستقبل بھی تباہ۔ اور بعض دفعہ بچوں کو لینے دینے کے لیے عدالتی کار روائی میں دونوں میاں بیوی خوب خوار ہوتے ہیں۔ تا ہم کسی ایک کے حق میں فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی بچے پریشان کن صورت حال سے دو چار رہتے ہیں، ان کو ماں کی جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے یا باپ کی۔
فقہی جمہود میں مبتلا علماء کےپاس اس معاشرتی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، البتہ شریعت اسلامیہ میں اس کا حل موجود ہے کہ ایک و قت کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کر کے رجوع کر لیا جائے جیسا کہ قرآن وحدیث کی تصریحات سے ثابت ہے۔ اس طرح ہزاروں ،لاکھوں گھرانے برباد ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ [8]
4.  چوتھی ہدایت یہ ہےکہ پہلی طلاق یا دوسری طلاق میں بیوی سےعلیحدگی تو ضروری ہے لیکن عدت کے اندر اس کو گھر ہی میں رہنے دیا جائے، یعنی خاوند کےگھر میں ۔ جہاں سے اسے نہ نکالا جائے ۔ اس کا فائدہ اللّٰہ نے یہ بتلایا ہےکہ مطلقہ کے اسی گھر میں رہنے سے ، خاوند کےاندر رجوع کرنے کی رغبت اور جذبہ پیدا ہوجائے ۔
﴿ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴿١﴾... سورة الطلاق
’’ تم نہیں جانتے شایداللّٰہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ‘‘
اس لیے بعض مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے صرف ایک طلاق دینے کی تلقین اور بیک وقت تین طلاقیں دینے سےمنع فرمایا ہے کیونکہ اگر مرد ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے (شریعت اسے جائز قرار دے کر نافذ بھی کر دے) تو پھر یہ کہنا بے فائدہ ہےکہ شاید اللّٰہ تعالیٰ کوئی نئی بات (خاوند کے دل میں صلح کی رغبت)پیدا کر دے۔ (فتح القدیر از امام شوکانی)
عورت کو اپنا رویہ صحیح رکھنا چاہیے!
یہاں تک تو بات تھی مرد کے حق طلاق اور اس کے طریقۂ استعمال کی۔ اس مقام پر ہم چند باتیں خواتین سے بھی عرض کرنا مناسب بلکہ ضرروی سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ مرد اکثر وبیشتر عورتوں کے رویوں کی وجہ سے طلاق دینے پر مجبور ہوتے ہیں، ورنہ کسی کو بھی اپنا گھر اُجاڑنا پسند نہیں۔ بنابریں عورتوں کو ہر وقت اپنا رویّہ درست رکھنا چاہیے اور مرد کو اتنا پریشان نہیں کرنا چاہیے کہ معاملہ طلاق تک پہنچ جائے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے جو نیک عورت کے اوصاف ہیں۔ یہ 19یا 20 کے قریب صفات ہیں جو راقم کی کتاب’حقوقِ مرداں اور حقوقِ نسواں‘میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں عورت مرد کو اشتعال اور غصہ دلانے والی باتوں سے گریز کرے۔ اپنی زبان پر کنٹرول رکھے،بالخصوص جب خاوند غصے میں ہو۔ بالعموم فساد زبان کی بے احتیاطی سے پیدا ہوتا اور بڑھتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے زبان کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔
اسی طرح جب خاوند عورت کے رویے سے تنگ آ کر یہ کہتا ہے کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا تو اکثر نادان عورتیں اپنی اصلاح کرنے کے بجائے، کہہ دیتی ہیں: اچھا طلاق دے دے اور خاوند اس کے جواب میں طلاق دے ڈالتا ہے، ظاہر بات ہے کہ یہ رویہ اپنے پیروں پر آپ ہی کلہاڑی مارنے والی بات ہے۔
بعض عورتیں اپنے خاوند کی ماں(اپنی ساس) یا اس کی بہنوں(نندوں) کی بابت خاوند کو یہاں تک کہہ دیتی ہیں کہ ماں کو (یا بہن) کو رکھ لے یامجھے رکھ لے۔ ساس یا نندوں کے ساتھ گزارا کرنے کے بجائے ان سے اتنی شدید نفرت کا اظہار بھی اکثر وبیشتر طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ ایسے رویے سے بھی بچا جائے۔
عورت کو یاد رکھنا چاہیے کہ آسمان کے نیچے زمین پر خاوند اس کے لیے سائبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے اگر وہ محروم ہوگئی تو عورت کی حیثیت ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہے جس کو تندو تیز ہوائیں کسی ویرانے میں پھینک دیتی ہیں یا آوارہ لڑکوں کے ہاتھوں میں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ یا پھر عورت بھائیوں کی دستِ نگربن کر ذلت وخواری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔
طلاق کی قسمیں
1.     طلاقِ رجعی: وہ طلاق ہے جس میں عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ حق رجوع صرف پہلی اور دوسری طلاق میں ہے، تیسری طلاق کے بعد نہیں۔
2.  طلاق بائن : یہ وہ طلاق ہے کہ خاوند نے ایک طلاق دے کر چھوڑدیا، رجوع نہیں کیا، حتی کہ عدت گزر گئی۔ لیکن یہ بینونہ صغریٰ ہے۔ اس میں عدت گزر جانے کے بعد خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح کے ذریعے سے تعلق بحال ہو سکتا ہے۔( یہ پہلی اور دوسری طلاق کی حد تک ہے کیونکہ رجوع یا نکاح کے بعد بھی حقِ طلاق شمار میں آئے گا، یعنی ایک طلاق کے بعد رجوع یا نکاح ہوا ہے تو دو مرتبہ حقِ طلاق باقی رہے گا۔ دوسری طلاق کے بعد رجوع یا نکاح ہوا ہے تو ایک حقِ طلاق باقی رہ جائےگا۔)
3.  طلاق بائنہ مغلظہ: اس سے مراد وہ طلاق ہے کہ خاوند دو مرتبہ طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کر چکا ہے ، پھر اس نے کچھ عرصے کے بعد طلاق دے دی، یہ تیسری طلاق ، طلاقِ بائنہ مغلظہ ہے، اسے طلاقِ بتّہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس طلاق کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے اور نہ اس سے نکاح۔
اب حلالہ شرعیہ کے بغیر زوجِ اوّل سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اور حلالہ مروّجہ ملعونہ کے ذریعے سے کیا گیا نکاح باطل ہے۔ اس نکاحِ باطل سے عورت زوجِ اول کے لیے حلال نہیں ہوگی۔
4.  طلاق بالکنایہ: اس میں طلاق کا لفظ خاوند استعمال نہیں کرتا بلکہ ذومعنیٰ لفظ استعمال کرتا ہے، جیسے تو میری طرف سے آزاد ہے یا فارغ ہے وغیرہ، اس قسم کے الفاظ سے اگر طلاق کی نیت ہوگی تو طلاق ہوگی بصورت دیگر طلاق نہیں ہوگی۔
احناف کی بیان کردہ طلاق کی تین قسمیں
یہاں ایک بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ فقہائے احناف نے طلاق کی تین قسمیں بیان کی ہیں اور وہ بہت مشہور ہیں۔ ایک طلاق احسن،دوسری طلاق حسن اور تیسری طلاق بدعی۔ طلاق احسن وہ ہے جو خاوند حالتِ طہر میں ہم بستری کیے بغیر ایک طلاق دے اور عدت میں رجوع نہ کرے، حتی کہ عدت گزر جانے پر ان کے درمیان جدائی ہو جائے۔ طلاق حسن یہ ہے کہ ہرطہر میں ایک طلاق دے، اس طرح تین طہروں تین مہینوں میں تین طلاقیں پوری ہوکر طلاق مغلظہ ،یاطلاق بتّہ واقع ہو جائےگی۔ تیسری قسم طلاق بدعی ہے اور اس سے مراد وہ طلاق ہے جو حالت حیض میں دی جائے۔ حیض میں طلاق دیناممنوع ہے تاہم حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی۔
’طلاقِ حسن‘ طلاق کی بد ترین قسم ہے!
’طلاق حسن‘ جوبہت مشہور ہے اور یہ طریقہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود ﷜نے بھی بیان کیا ہے (سنن نسائی، ابن ماجہ وغیرہ) اس لیے اسے مسنون طریقہ سمجھ لیا گیا ہے اور اسے طلاقِ سنت کا نام دے دیاگیا ہے حالانکہ اسے طلاق سنت قرار دینا دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے ۔ اسی لیے مصنّف ابن ابی شیبہ میں وہ طریقہ بھی منقول ہے جو سب سے بہتر بلکہ صحیح طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حالتِ طہر میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ حتی کہ تین حیض گزر جائیں ۔[9]
ہدایہ میں ہے کہ ’’صحابہ اس بات کو مستحب سمجھتے تھے کہ طلاق کا عمل ایک طلاق سے زیادہ نہ کیا جائے حتی کہ عدت گزر جائے، یہ ان کے نزدیک ، ہر طہر میں طلاق دینے کے مقابلے میں افضل ہے۔ ‘‘
طلاق کی دوسری قسم’ طلاق حسن ہے جسے طلاق سنت مشہور کر دیا گیا ہے، طلاق کی بد ترین قسم ہے اس لیے کہ اس طرح طلاق کا عمل (پروسیس) تین حیضوں (یا تین مہینوں) میں مکمل ہوتا ہے اور اس طرح یہ طلاقِ مغلظہ یا طلاق بتّہ بن جاتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی میں دوبارہ تعلق کی بحالی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ اس راستے کو کھولنے کے لیے حلالہ مروجہ ملعونہ کے جواز کا فتوی احناف کی طرف سے دیا جاتا ہے جو کسی غیرت مند مرد یا عورت کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ طریقہ حسن یا سنت کس طرح ہو سکتا ہے۔ اس لیےخود احناف کی سب سے معتبر کتاب ہدایہ میں امام مالک کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ طلاق کایہ طریقہ بدعت ہے طلاق صرف ایک ہی مباح ہے ۔ وقال مالك: إنه بدعة، ولايباح إلا واحدة.[10]
بہرحال طلاق کا صحیح مسنون طریقہ یہی ہے کہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ اگر صلح کی صورت نہیں بنتی اور عدت گزرجاتی ہے تو اس کے بعد عورت آزاد ہے اوروہ اپنے ولی کی اجازت سے جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے۔ اس طریقۂ کارکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عدت کے اندر (پہلی اور دوسری طلاق میں) رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر عدت گزرنے کےبعد صلح کی صورت بنے تو بذریعہ نکاح دوبارہ تعلق بحال ہو سکتا ہے۔ اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ [11]
یہاں تک اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ کی وضاحت ہے۔﴿ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ (دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد) پھر روک رکھنا ہے موافق دستور کے۔ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے اسے بسانا۔ یہ حکم پہلی یا دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد کے لیے ہے، اس کے بعد اس سے نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح۔ اس لیے اسے احسان ،یعنی ہدیے کے ساتھ رخصت کر دو۔
حوالہ جات:
[1]     صحيح الجامع الصغير حديث:5101، جامع ترمذى حديث1120
[2]     ابن ماجه، کتاب النكاح، باب المحلل والمحلل له،حدیث:1936(شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
[3]     مسند احمد بن حنبل :2387۔شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند کو امام احمد، حاکم، ذہبی نےصحیح ، امام ترمذی نے حسن(زیر حدیث 9121) ، امام ابن تیمیہ نے جید (مجموع فتاوی: 3؍ 18)،اور حافظ ابن حجر نے صحیح ہونے کو راجح قرار (فتح الباری: 9؍316)دیا ہے۔ (ارواء الغلیل: 7؍145)
[4]     صحيح مسلم ،كتاب الطلاق،باب الطلاق الثلاث،حديث1472
[5]     فتاوی مولانا عبدالحی لكھنوی : ص166
[6]     کفایت المفتی: 6؍361
[7]     سنن ابی داؤد، حدیث:2078، ابن ماجہ، حدیث: 1936
[8]    مزید تفصیل کے لئے : ’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل‘:’محدث‘ ستمبر 2017ء ، شمارہ نمبر379
[9]     مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:18036
[10]   الهدایة:1/226،المكتبة الاسلامية ،بحوالہ المكتبة الشاملة
[11] اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم کی کتاب’حقوقِ مرداں اور حقوق نسواں‘ :ص286