آدابِ اختلاف اور دعوتِ دین

وٹس ایپ گروپ سے وابستہ اہل علم ودانش کی تربیتی ملاقات
دوسری نشست: علمی اختلاف اور اس کے آداب
زیر صدارت:    مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ﷾
مہمانا ن گرامی: مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی، مولانا عبد الغفار اعوان مدنی
دوسری نشست کا آغاز نمازِ ظہر کے بعد ہوا جس کی نقابت کی ذمہ داری شیخ عبدالرزاق گھمن نے ادا کی ۔
پہلا خطاب:’آدابِ اختلاف کی اہمیت اور ضرورت ‘ از ڈاکٹر مسعود عبدالرشید اظہر﷾
اُنہوں نے فرمایا: یہ کائنات طرح طرح کے اختلافات کا مجموعہ ہے ، مخلوقات میں اختلاف اور تنوع ہے ۔ انسانوں کی تخلیق میں بھی اختلاف اور تنوع موجود ہے، رنگ و زبان اور صلاحیتوں میں ۔ اور انہی صلاحیتوں کے مطابق ہی اسے مکلّف بنایا گیاہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے ۔ انسانوں میں ان کی تخلیق کی طرح ان کے نظریات میں بھی اختلاف اور تنوع ہوتا ہے ، یہ اختلاف کبھی محمود ہوتا ہے اور کبھی مذموم ۔ اختلاف کا منشا حق تک پہنچنا ہو یعنی حق بات سمجھنے کےلیے اختلاف ہو جانا محمود ہے ، مذموم نہیں ۔
اختلاف کا دوسرا سبب انسان کی خواہشات ہیں ۔ کبھی مفاد پرستی ، گروہ بندی ، جھتے اور برادری کےلیے ہوتا ہے ، یہ مذموم ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ ﷺ نے کئی مقامات پر اس کی مذمت کی ہے ۔
جو اختلاف معرفتِ حق اور صراط ِمستقیم پانے کےلیے کیا جائے وہ قابل تحسین ہے ، اس سے بہت سے امکانات اور راستے کھلتے ہیں ۔ اس سے دلائل کا حصول اور علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر آدابِ اختلاف کا خیال رکھا جائے تو حق کی تلاش کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ مگر افسوس ! ہم اختلاف کرتے ہیں ، تو حق کی تلاش مقصد نہیں ہوتا ، بلکہ برتری ، دوسرے کو نیچا دکھانے ، مقابل نظریات کو باطل ثابت کرنے کے لیے اختلاف کرتے ہیں ، افسوس کہ یہ طرز عمل اہل علم میں بھی پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے نظریات کے دلائل درست ہیں ، تو انہیں بلا جھجک تسلیم کریں ۔
دوسرا خطاب: ’آدابِ اختلاف ‘ از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی ﷾
کسی بھی ماحول میں آرا اور تحقیق کا مختلف ہوجانا کوئی عیب کی بات نہیں ، مگر اس کے کچھ تقاضے ہیں ۔ انبیاے کرام ﷩ کے فیصلوں میں بھی اختلاف ہوجاتا تھا ، حضرت سلیمان ﷤ نے ایک قضیے میں اپنے ابا جان حضرت داؤد ﷤کے فیصلے سے اختلاف کیا ،مگر یہ نہیں کہا کہ ابا جی نے غلط فیصلہ کیا۔ بلکہ یوں کہا کہ ’’اگر میں ہوتا تو یہ فیصلہ کرتا۔‘‘
اختلافِ تحقیق اور علم میں ہوسکتا ہے ، مگریہ اختلاف عداوت اور دشمنی نہیں ہوتا ۔ اختلافات صحابہ میں بھی ہوئے۔ اُحد میں کچھ صحابہ کرام﷢سے ایک حکم سمجھنے میں سنگین غلطی بھی ہوگئی تھی ، جس سےحاصل کی ہوئی فتح شکست میں بدل گئی ، اس کے باوجود دوسرے صحابہ کرام﷢ نے کبھی طعنے نہیں مارے کہ تمہاری وجہ سے شکست ہوئی۔ خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطاب﷜ زخمی ہوئے ، شور و غوغا بلند ہوا۔ فرمایا : رونے والے کی وجہ سے مرنے والے کو عذاب ہوتا ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کو اس بات کا پتہ چلا تو فرمایا ، اللّٰہ تعالیٰ ابن خطاب پر رحم فرمائے ! بات ایسے نہیں ہے ، پھر اس کی وضاحت فرمائی ۔
اختلاف ہمیشہ اہل علم کے درمیان ہوتا ہے۔ جاہل بے چارہ کیا اختلاف کرے گا۔لہٰذا علما کے آداب اور احترام کا خیا ل رکھیں ، کسی عالم کو دوٹوک کہہ دینا کہ ’’آپ کی بات غلط ہے۔‘‘ ایک جاہلانہ انداز ہے۔اہل علم سے اختلاف انتہائی مؤدب پیرائے میں ہونا چاہیے۔
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ ...﴿٥٩﴾... سورة النساء
یہ آیات مقلدین پر فٹ کرنے كے لئے ہی نہیں بلکہ باہمی اختلاف میں بھی یہی طرزِ عمل مطلوب ہے۔ مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری ﷫(م1948ء)نے ہمیشہ مرزا قادیانی کے متعلق یوں لکھا : ’’مرزا صاحب کہتے ہیں۔‘‘جبکہ آج نوخیز علماکہتے نظر آتے ہیں: ’’فلاں حنفی عالم کہتا ہے ۔‘‘ مخالف کو ادب سے مخاطب کرنے سے درحقیقت آپ کا احترام بڑھتا ہے۔
مولانا ثناء اللّٰہ امرتسریپر قاتلانہ حملہ کرنے والا جیل چلا گیا تو آپ اس کے گھر والوں کی کفالت کرنے لگ گئے! اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا ہم خیال ہوگیا ۔
سید بدیع الدین راشدی(م1996ء) جب مولانا سلطان محمود جلالپوری رحمہما اللّٰہ (1995ء)کے ہاں آئے تو محدث جلالپوری نے شاگردوں کو تلقین کی کہ مہمان کا خوب ادب کریں۔ اور عالم کا ادب یہ ہے کہ اس سے خوب مسائل دریافت کریں۔ کسی نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا مسئلہ پوچھا۔ محدث راشدی وضع الیدین ، اور محدث جلالپوری ارسال الیدین کے قائل تھے ۔محدث راشدی  نے سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لی اور کہا کہ اپنے شیخ سے دریافت فرمائیں، جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔
اسی طرح محدث جلالپوری بھینس کی قربانی کے قائل تھے، جبکہ حافظ عبد اللّٰہ بہاولپوری ﷫(م1991ء) اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ایک جلسہ میں جہاں شیخین موجود تھے ، کسی نے حضرت بہاولپوری سے سوال کیا کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ تو فرمایا: دریا سے اِس طرف جائز ہے، اُس طرف نہیں (جلالپور اور بہاولپور کے درمیان دریائے ستلج ہے)۔ ہمیں بھی دوسرے علما کرام کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنا چاہیے ۔
تیسرا خطاب:’ ادب الخلاف ‘ از حافظ ندیم ظہیر ﷾
اسے یہ حق ہے ،مجھ سے اختلاف کرے            مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے !
اہل علم کا اختلاف برا نہیں ہے۔ اختلاف کی بنیاد پر عداوت و نفرت کے رویّے برے ہیں۔ اختلاف کو اگر اخلاص اور احسان کے ساتھ مرکب کر لیا جائے تو یہ باعثِ محبت بن جاتا ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی تمنا ہو، تعلی اور مخالف کی تحقیر اخلاص کے منافی ہے۔ احسان یہ ہے کہ اپنے مخالف کو محسن سمجھا جائے کہ وہ آپ کی اصلاح میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اختلاف کی گنجائش ہی ختم کر دینا دوریوں کا باعث ہے۔ سیدنا ابوبکر ﷜نے خطبہ خلافت میں فرمایا تھا :اگر میں حق سے ہٹنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دینا۔ جبکہ ہماری نفسیات ہوتی ہے کہ میری تحریر اور تقریر میں بہتری کی ضرورت نہیں. نتیجتاً اختلاف کرنے والا برا لگتا ہے۔
امام ذہبی ﷫(م1347ء) نے مخلصین کا طریقہ یہ نقل کیا ہے:
"رحم الله من أهدٰى إلي عيوبي"
’’اس پر اللّٰہ کی رحمتیں ہوں جو میرے عیوب مجھے بتائے۔‘‘
صاحبِ مشکاۃ ﷫نے مقدمہ میں یہ کہہ کر اختلاف کی گنجائش باقی رکھی ہے کہ
"رحم الله من إذا وقف على ذلك نبهنا عليه، وأرشدنا طريق الصواب"
وٹس ایپ گروپوں میں ہونے والی بعض بحثیں ’چونچیں لڑانے‘ کے زمرے میں آتی ہیں جیسے میاں بیوی شوقیہ لڑتے رہتے ہیں مگر بات وہیں پر آ جاتی ہے؛ یہی ہمارا حال ہے...اختلاف کو محبت کا ذریعہ بنائیے!!
چوتھا خطاب : ’ہم مسلک جماعتوں سے ہمارا رویہ ‘ از حافظ یوسف سراج ﷾ (سکالر پیغام ٹی وی)
بہت سے نابینا افراد کو ہاتھی سمجھانے کے لیے ہاتھی کے پاس لے جایا گیا۔ انھوں نے اسے چھو کر محسوس کیا۔ جس کا ہاتھ ، ہاتھی کے جس حصے پر لگا ، اس نے اسی کو ہاتھی سمجھ لیا ۔ کسی نے سونڈھ، کسی نے ٹانگ، کسی نے پشت... درحقیقت وہ سبھی درست تھے۔ یہی حالت ہماری ہم مسلک دوسری جماعتوں کی ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہمارا مخالف غلط بھی ہو ۔ دراصل جو شخص کسی مسئلہ کو جس جہت سے دیکھتا ہے ، اسی کو درست سمجھتا ہے ، دوسرا شخص اسی مسئلہ کو دوسری جہت سے دیکھ رہا ہوتا ہے ، جبکہ سب ہی درست ہوتے ہیں ۔
ایک مقام پرپہنچنے کے کئی راستے ہو سکتے ہیں: کوئی مختصر ،کوئی طویل ،کوئی مشکل اور کوئی آسان ۔ جب منزلِ مقصود ایک ہے تو راستوں کا اختلاف کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔
ہمیں بہت سے لوگوں سے اختلاف ہوتا ہے۔ کیا ہمیں ان کے انسان ہونے سے بھی اختلاف ہوتا ہے ؟ یقیناً نہیں ، تو پھر اسے انسانیت کا احترام تو دیں ۔
اختلاف کرنے والی شخصیت محترم بھی تو ہو سکتی ہے۔ کیا اختلاف حفظِ مراتب کا خیال رکھنے میں مانع ہے ؟! امام شافعی اور یونس صدفی رحمہما اللّٰہ میں اختلاف تھا، مناظرہ ہوا. بعد میں جب دونوں ملے تو امام شافعی نے فرمایا : ’’یونس! کیا ہم اختلاف کے باوجود بھائیوں کی طرح نہیں رہ سکتے ؟! ‘‘
اختلافِ رائے کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ داروغہ بن جائیں۔ اختلاف کیجیے مگر مخالف کی شخصیت کا اعتراف بھی تو کیجیے۔
پانچواں خطاب : ’متفقہ ایشوز پر دینی مسالک کا اتحاد ‘ از حافظ ہشام الٰہی ظہیر ﷾
مسالک کا بنیادی اختلاف عقیدۂ اتباع رسالت میں ہے، اور اس کی بنیاد پر عبادات کی ادائیگی میں ہے۔ معاملات میں تقریباً تمام متفق ہیں، مثلا شراب، زنا، سود وغیرہ کی حرمت پر سب ہی متفق ہیں۔
کسی مسئلہ میں متفقات پر اتحاد ہو جانا چاہیے، اس کا مطلب دوسرے کے مسلک کو قبول کرنا قطعاً نہیں۔ مشترکات میں اتحاد کے ذریعے ہم اپنی بعض باتیں منوا سکتے ہیں، جیسے متحدہ مجلس عمل کے دستور میں خلفاے ثلاثہ( سیدنا ابو بکرصدیق ،سید نا عمر،سیدنا عثمان ﷢) پر تبرا بازی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم یہ موقف نہ اُٹھائیں کہ ’’ کتاب و سنت ہی اس ملک کا سپریم لاء ہے۔‘‘ تو ہماری دعوت کے تمام راستے مسدود ہو جائیں۔ کیونکہ یہی موقف ہمارے تمام مطالبات کی بنیاد ہے ۔
چھٹا خطاب: حافظ ارشد محمود﷾      ( منتظم وٹس ایپ گروپ ’علمائے اہل حدیث ‘)
حافظ صاحب نے فرمایا کہ سوشل میڈیا پر جو الحاد کی لہر چل رہی ہے ، اس کا مقابلہ ہمیں کرنا ہے ، اگر ہم اپنے مشائخ سے جڑ جائیں ، تو اللّٰہ تعالیٰ ضرور ہمیں کامیاب کرے گا۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ (لاہور اسلامک یونیورسٹی) کی ایم ۔فل اسناد کی تقسیم
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی﷾نے فرمایا:
عرصہ دراز سے میری خواہش تھی کہ ایک اہل حدیث یونیورسٹی بنائی جائے جو محکمہ تعلیم سے رجسٹرڈہو۔ کیونکہ کوئی بھی دینی مدرسہ محکمہ تعلیم میں رجسٹرڈ نہیں ہے ، اس لیے ان کی اسناد کی بھی کوئی مستند حیثیت نہیں ہے ۔ میں نے  LISS کے نام سے ایک ادارہ رجسٹرڈ کروایا ہے، اس کی اسناد کو حکومت قبول کرتی ہے ۔اس   انسٹیٹیوٹ کا سرگودھا یونیورسٹی سے الحاق Affiliation ہے۔تین سال کے دوران ایم فل علوم اسلامیہ کے لئے ہم نے اس میں 75 طلباء کو داخل کیا جن میں سے کئی طلباء   اپنےتحقیقی مقالہ جات مکمل کر کے جمع کروا چکے ہیں اور بعض کے مقالہ جات ابھی زیرتکمیل ہیں   ۔ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اور حافظ ہشام الٰہی ظہیر سمیت بہت سے اہل علم اسی ادارے   سے ایم فل کررہے ہیں ۔ اور ہمارے دو طلباء کو سرگودھا  یونیورسٹی سے   منظور شدہ ایم فل کی ڈگری بھی جاری ہوچکی ہے۔ ایک طالب علم نے حافظ عبداللّٰہ محدث روپڑی﷫ کی فقاہت پر ایم فل کا تحقیقی تھیسس لکھا ہے ۔اس کے بعد LISS سے ایم فل مکمل کرنے والے دو طلباء پروفیسر عبد الرحمٰن عابداور پروفیسر طارق محمود کو مدنی صاحب نے ایم۔ فل کی ڈگری عنایت کی ۔
تیسری نشست: دعوتِ دین اور عصری تقاضے
زیر صدارت:    مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾
مہمانانِ خصوصی: مولانا نجیب اللّٰہ طارق ، شیخ عابد الٰہی ظہیر
اذانِ عصر سے پندرہ منٹ پہلے کھانے کا وقفہ کیا گیا ۔اور علمائے کرام کو پرتکلف کھانا کھلایا گیا ۔نمازِ عصرکے بعد تیسری نشست شروع ہوئی ، آغاز قاری نوید الحسن لکھوی کی تلاوت سے ہوا ۔قاری شفیق الرحمٰن زاہد(مدیر الحکمۃ انٹر نیشنل) نے اس نشست   کی نقابت کے فرائض انجام دیے ، اُنہوں نے تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا﴾سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ فقہ کے دو حصے ہیں : فقہ الاحکام اور فقہ الواقع۔ ہم آٹھ سال فقہ الاحکام ہی پڑھتے ہیں اور فقہ الواقع کا شدید فقدان ہے ۔دعوت کے اسالیب، ماحول، وسائل اور تحدیات کا علم بہت ضروری ہے۔
دعوت الیٰ اللّٰہ مشکل ترین کام ہے۔ محترم ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ فرماتے ہیں :
’’داعی دنیا سے وہ کام کروانا چاہتا ہے جو وہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ کام چھڑوانا چاہتا ہے جو وہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں!‘‘
داعی کو مخاطب کی حاجات سے کما حقہ واقفیت ہونی چاہیے۔ بھوکے کو لباس کی نہیں، کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخاطب تین طرح کے ہیں : آزاد خیال، مسلک پرست اورجہلا۔ ہر فریق کےلیے دعوت کے اسالیب اور دلائل کی نوعیت کا فرق ہے۔
پہلا خطاب: ’ سوشل میڈیا کے موضوعات کی دائمی افادیت ؟ ‘از حافظ عثمان بن خالد مرجالوی
حافظ عثمان بن خالد مرجالوی وٹس ایپ گروپ   علماء الدعوة السلفیةکے مرکزی منتظم ہیں ۔ انہوں نے سوشل میڈیا کا تعارف پیش کرتے ہوئے موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں سوشل میڈیا میں لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے :
٭        موضوع کو کتنا وقت دینا چاہیے؟
٭        پورے مطالعہ کے بعد رائے
٭        حالات کے موافق گفتگو
٭        کچھ عنوان دائمی ہونے چاہئیں
٭        تنظیمی تعصب نہیں ہونا چاہیے
٭        بحث مباحثہ کم سے کم ہو۔
دوسرا خطاب: ’وٹس ایپ پر علمی گروپس کے فوائد ‘از محترم عابد الٰہی ظہیر ﷾
محترم عابد الٰہی ظہیر، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے برادرِ صغیر ہیں ۔ وہی قد وقامت ، وہی خوبصورت چہرہ، کھڑے ہونے کا وہی انداز ، آواز میں وہی گرج اور مسلک اہل حدیث سے وہی تڑپ ، جو علامہ ﷫ کا خاصہ تھا ۔ فرمانے لگے : ’’ آسمان کے نیچے مسلک ِاہلحدیث سےبڑھ کر کوئی مسلک حق نہیں ہے ۔ ‘‘
امام مالک ﷫(م179ھ) کی طرف ایک قول منسوب ہے کہ اگر دو اَشخاص لڑ پڑیں ، تو دونوں میں سے ایک ہی کے ساتھ حق ہوگا ، دوسرا لازماً غلط ہوگا ۔ ایسی ہی صورت میں ارشاد ربانی ہے :
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾
آپ دیکھیں کہ کتنے مسالک کے لوگ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ آپ کے مسلک کی سربلندی سے آپ کا سر بھی بلند ہوگا ۔
تیسرا خطاب: ’عصری فتنوں کی تردید میں اہلحدیث لٹریچر کی اہمیت‘ از ابو بکر قدوسی ﷾
ابو بکر قدوسی صاحب (ڈائریکٹر مکتبہ قدوسیہ ،لاہور )مولانا عبد الخالق قدوسی شہید کے بڑے بیٹے اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے داماد ہیں ، موصوف نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
ایک زمانہ تھا کہ جب کسی گمراہ اور فتنہ پرورشخص کو اپنے نظریات کی ترویج کےلیے مخصوص ماحول بنانا پڑتا تھا، مگر اب سوشل میڈیا نے یہ مشکل ختم کر دی ہے۔ اب ایک شخص دس پندرہ ہزار روپے کا موبائل لیتا ہے ، اور ہزاروں لوگوں سے مخاطب ہونے لگتا ہے ۔
سوشل میڈیا کی دوسری کرم فرمائی یہ ہے کہ علم پیچھے رہ گیا ہے، زبان آگے نکل گئی ہے۔ مرزا جہلمی اس کی ایک مثال ہے۔ آپ کی دعوت سب سے سچی اور مضبوط دعوت ہے ۔ ضرورت اب دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق لٹریچر کی ہے۔ فقط کتاب کو لٹریچر نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ وہ تمام ذرائع اور طریقے جن کے ذریعے بات دوسرے لوگوں تک پہنچتی ہے ، لٹریچر ہے ۔
بیس سال قبل رفع الیدین وغیرہ کے مسائل انسان کی کایا پلٹنے کےلیے کافی ہوتے تھے۔ اب بات آگے نکل کر الحاد اور انکارِ حدیث وغیرہ تک پہنچ چکی ہے۔ جس طرح اکابرین نے اہل حدیث کے امتیازی مسائل پر لٹریچر لکھا، اب الحاد وغیرہ فتنوں کے خلاف اسی طرح کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے رفع الیدین وغیرہ ہمارے امتیازی مسائل ہیں، تو دفاعِ حدیث جیسے موضوعات بھی اہلحدیثوں کا ہی امتیاز ہیں۔
وٹس ایپ استعمال کرنے والے فیس بک کا اندازہ نہیں کر سکتے، فتنوں سے مقابلے کا اصل میدان وہ ہے ۔ گزارش یہی ہے کہ لٹریچر کے مفہوم کو وسیع کریں، سوشل میڈیا پر لکھیں، یوٹیوب پر کلپس ریکارڈ کروائیں۔ جاوید احمد غامدی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ پہلے بندے کا ذہن بناتے ہیں، اور آخر میں نفس مسئلہ پر اپنی رائے پیش کر دیتے ہیں۔
چوتھا خطاب: ’اختلاف کی وجہ: مطالعے کی کمی‘ ا ز مفسرقرآن حافظ صلاح الدین یوسف ﷾
شیخ محترم نے دردِ دل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ہم طالب علموں کو کہتے ہیں کہ اپنے اکابرین کی کتب کا اس حد تک مطالعہ کریں کہ آپ کو مسلک کی حقانیت اور اس کے دلائل پر مکمل عبور حاصل ہو جائے۔ اس کے دلائل یاد ہوں ، اس کے بعد مخالفین کی کتب کا مطالعہ بھی کریں۔مطالعہ میں کمی ہو ، تو ڈر ہوتاہے کہ آدمی مخالف سے متاثر ہوجاتا ہے ، اسی طرح ابتدا میں مخالفین کی کتب پڑھنے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علماء کتابیں لکھتے ہیں مگر اُنہیں پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ناشر ہزار نسخہ بھی شائع کرے تو وہ کئی سال پڑا رہتا ہے۔ صرف مساجد کے ائمہ و خطبا حضرات ہی اگر نئی آنے والی کتاب کو خرید لیں تو یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ فتنوں کو سمجھنے کےلیے مطالعہ ضروری ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر کم اور مطالعے پر زیادہ توجہ دیں۔
پانچواں خطاب: ’دعوت کا نبوی منہاج ‘ از مولانا نجیب اللّٰہ طارق ﷾(استاذ جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ زوال کا شکار ہے ، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ہمارے پاس مال نہیں ، علم نہیں ، افرادی قوت نہیں اور دعوت نہیں ہے ؟ سب کچھ ہے ، تو پھر زوال کیوں ؟
آج ہمارے پاس زراعت ، فوج اور ایٹم بم سب کچھ ہے ۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ رسول اللّٰہﷺکے پاس ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی ، اس کے باوجود کسی کے سامنے جھکے نہیں تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان میں عدل وانصاف اور صِدق تھا ۔ جب تک کسی قوم میں عدل ، انصاف اور صدق نہیں ہوگا ، وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی ۔ آئیے ! یہ چیزیں اپنے اندر اور اپنی قوم میں پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔
چھٹا خطاب: ’الیکٹرونک میڈیا اور اہل حدیث ‘ از مولانا عبدالمنان راسخ ﷾
مولانا نے اس شعر سے اپنی گفتگو کاآغاز کیا :
وقتِ فرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے              نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!!
آج سب سے زیادہ طاقتور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ہم میں سے ہر شخص پڑھا لکھا نہیں ، اگر پڑھا لکھا ہے تو پڑھنے کا ذوق نہیں ہے ، جبکہ الیکٹرانک میڈیا سب کی دسترس میں ہے ، اس سے ہر ایک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہم مولانا ابو یحییٰ نورپوری﷾کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک مفتری اور کذّاب کا ردّ کیا ہے ۔
اہل حدیث کی جماعت اہل تقویٰ کی جماعت ہے ، تقویٰ کی وجہ سے ہی علماے کرام میڈیا پر آنا نہیں چاہتے۔ ہم مرکزی جمعیت اہل حدیث کی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پیغام ٹی وی جیسا تحفہ جماعت کو عطا کیا ہے ۔
ساتواں خطاب: ’اختلافِ رائے اور قرونِ اولیٰ کا طرز عمل‘ از حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی﷾
حافظ صاحب نے اپنے نام کو القابات فضیلۃ الشیخ ،شیخ الحدیث والتفسیر،بقیۃ السلف وغیرہ کے ساتھ پکارنے پر ناگواری ظاہر کی اور بڑی عمدگی سے حاضرین کو سمجھایا ۔ پھر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بہر کیف ایک فتنہ ہے کہ اپنے موضوع سے متعلق مواد کی تلاش کے ساتھ ساتھ آپ کو غیر متعلق دنیا میں گھسیٹ کر لے جاتا ہے کہ آپ اس سے بچنے کے لیے اللّٰہ کی قسم بھی اُٹھائیں تب بھی بچنا مشکل ہے۔ اس کی مثال شیخ سعدی کے شعر کی مصداق ہے :
شد غلامی بہ جوی کاب آرد                    آب جوی آمد و غلام ببرد
’’ایک غلام دریا سے پانی لینے گیا ، اور پانی اسے بہاکر لے گیا ۔ ‘‘
یعنی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دعوتی اہمیت و افادیت بیان کرتے اور اس کا استعمال کرتے کرتے کہیں ہم اس کے فتنوں میں ہی نہ بہہ چلیں۔ لہٰذا اپنے موضوع کہ جس کو پڑھ یا تلاش  کر رہے ہیں، اس پر ہی توجہ مرکوز کریں۔انٹرنیٹ کے فوائد بھی ہیں مثلاً تحقیق کے ذرائع اور مکتبہ شاملہ وغیرہ۔ اب تو Pdf میں قیمتی کتابیں اَپلوڈ کردی جاتی ہیں، تاہم ناشرین کی حق تلفی سے بھی بچنا چاہیے۔
امام شافعی ﷫ نے تو اپنے نام کے تذکرے کے بغیر بھی اپنی تحریر کے عام ہونے کو پسند کیا کہ مقصد صرف علم کی اشاعت ہے ، نہ کہ حق مصنف کی کوئی قید لگانا۔ حافظ صاحب نے فرمایا کہ اسی طرح میری تفسیر وغیرہ کئی ادارے بغیر استفسار کے شائع کررہے ہیں اور مجھے اس پر مسرت و اطمینان ہے.. الحمد لله
الغرض لائق داد و تحسین ہیں وہ اہل علم جو انٹرنیٹ کو دعوتی مقاصد اور الحاد کی سرکوبی میں عمدگی سے بطورِ آلہ استعمال کررہے ہیں۔
آٹھواں خطاب: شیخ الحدیث حافظ عبدالغفار مدنی﷾
حافظ صاحب نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: جن تین آدمیوں پر جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی ، ان میں ایک ریاکار عالم بھی ہے ۔ علماے کرام کو چاہئے کہ وہ دعوت دینے کے بعد مخاطب کے لیے دعا بھی کریں ۔ رسول اللّٰہ ﷺکی یہی سنت ہے ۔ مولانا اسماعیل روپڑی ہماری جماعت کے بڑے خطیب تھے ، وہ رات کو جلسے میں تقریر کرتے ، اور تہجد پڑھ کر جلسہ میں شریک لوگوں کے لیے دعا کرتے تھے ۔
آخری بات کہتا ہوں کہ اپنی بات پیش ضرور کریں ، لیکن لوگوں پر اپنی رائے ٹھونسیں نہیں ۔
مولانا عبدالقدوس سلفی ﷾ کا جاوید احمد غامدی کے متعلق ایک واقعہ
مولانا عبد القدوس سلفی نے مولانا ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی کے ارشاد پر حاضرین کو ایک واقعہ سنایا کہ جب غامدی صاحب کے افکار ونظریات چھپ کر آنے لگے تو میں نے اُنھیں خط لکھا ، اور پوچھا کہ آپ حدیث کو وحی مانتے ہیں ، یا نہیں ؟ اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ میں حدیث کو حجت مانتا ہوں ، میں نے عرض کیاحجت ایک الگ چیز ہے۔ آپ یہ وضاحت کریں کہ آپ کی نظر میں حدیث وحی ہے یا نہیں؟ تو جواب میں بار بار یہی کہتے رہے کہ میں حدیث کو حجت مانتا ہوں ، اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ حدیثِ رسول کو وحی نہیں سمجھتے !! یہ خط وکتابت محد ث کے ایک 1997ء کے شمارہ سے مکمل طور پر شائع ہوچکی ہے۔
دور دراز سے آنے والے معزز مہمانوں کی مشغولیات اور اَسفار کی وجہ سے مغرب کے وقت یہ پروگرام ختم کرنا پڑا ۔ وقت کی قلت کے پیش نظر مولانا محمد رمضان سلفی(شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ)، پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ اور ڈاکٹر نصیر احمد اختر (چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ،لاہور یونیورسٹی) کے وہاں موجود ہونے کے باوجود خطاب نہ ہوسکے۔ حاضرین ان کی نصائح سننے کی خواہش دلوں میں لئے تقریب ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
آخر میں بعض مکتبوں کی طرف سے علماے کرام کی خدمت میں قیمتی کتب بطورِ ہدیہ پیش کی گئیں ۔ نماز مغرب میں کنونشن کے روحِ رواں ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ﷾نے اپنی خوبصورت اور پر سوز آواز میں قراء اتِ عشرہ میں تلاوت فرمائی ، جس سے تقریب کا روح پرور اختتام ہوا ۔ نماز کے بعد حاضرین دلوں میں حسین یادیں لیے اپنی اپنی منازل کو روانہ ہوگئے ۔
اُستاذِ گرامی قاری نوید الحسن صاحب نے اشعار کی صورت میں علماء کنونشن کو خراجِ عقیدت پیش کیا :
علماے کرام کی آج باہمی زیارتیں                    مسکراتے چہرے میٹھی میٹھی باتیں
بےلوث محبت اور پُرخلوص چاہتیں!
خوب سماں تھا، عمدہ تھے انتظامات                     پُر رونق اسٹیج اور حسیں خیالات
پُر اثر ، فکر انگیز تھے خطابات                   سن کر ہوئے جن سے لبریز جذبات
دعائیں جو نکلیں مسرور دل سے                   دیکھ کر پُرانوار روشن لمحات
سدا متحد رہیں وارثانِ انبیا                      مفسرین و محدثین علما و اتقیا
یکجان ہوکر چلیں ایک جھنڈے تلے                  دشمنِ اسلام جنہیں دیکھ کر جلے
بیتاب قلوب سرشام ہوئے منتشر                کب ہوگا پھر وصال، رہیں گے منتظر!
گنجائش ہونے پر تینوں نشستوں کے ڈیزائن پیج بھی ایک صفحہ پر لگائے جاسکتے ہیں۔ جو ٹائٹل کے اندرونی سمت ہوں