توہینِ رسالت کا مسئلہ اور عمار خان ناصر
محدث کا گزشتہ شمارہ مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں حنفیہ کے موقف کی وضاحت پر مشتمل تھا،جس میں علمائے احناف کے موقف کا دفاع ان کے نامور علماء فقہا کی تحریروں کی مدد سے کیا گیا تھا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ شاتم رسول کی سزائے قتل ہونے میں حنفیہ کا موقف بھی امت اسلامیہ کے ساتھ ہی ہے جیسا کہ اجماع کی متعدد تصریحات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ آج بعض لوگ حنفیہ کو بلاوجہ ملت اسلامیہ سےاس مسئلہ میں علیحدہ باور کراکے توہین رسالت کی شرعی سزا میں گنجائشیں اورشکوک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناروا کوشش سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں توہین رسالت کی بدترین کوششوں کو مزید تقویت حاصل ہوگی۔شمارہ سابقہ میں راقم کے علاوہ حنفی بریلوی مکتبِ فکر کے نامور عالم مفتی محمد خاں قادری کے ادارے کے مہتمم علامہ خلیل الرحمٰن قادری نے بھی احناف کے اسی موقف کی مفصل وضاحت کی تھی۔ یوں تو مزید تحقیق کی ضرورت نہ تھی کیونکہ بعض چیزوں میں تکرار کا بھی اندیشہ ہے، تاہم علمائے احناف دیوبندیہ کااپنا موقف مفصل طور پر شائع نہ ہوا تھا۔اس بنا پر ذیل میں ہم لاہور کے موقر ادارے جامعہ مدنیہ کے مفتی ڈاکٹر عبدالواحد﷾ کا مضمون شائع کر رہے ہیں تاکہ مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں علمائے احناف کا براہِ راست موقف بھی سامنے آجائے۔ مفتی صاحب نے اس موقف میں حنفی موقف کی تفصیل کے ساتھ اس کی توجیہ کرنے کی جابجا سعی فرمائی ہے اور مدیر ماہنامہ ’ الشریعہ‘ جناب عمار خاں ناصر کی تردید و تغلیط کرتے ہوئے اسی موقف کو پوری قوت سے پیش کیا ہے کہ’’ علمائے دیوبند احناف کے نزدیک بھی شاتم رسول کی سزا قتل ہی ہے اور اگر شاتم ذمی ہو تو اس کی تعزیر میں بھی اصل سزائے قتل ہی ہے، جبکہ حنفیہ کے موقف میں شاتم رسول کے لیے کوئی نرمی اور گنجائش نہیں پائی جاتی۔‘‘ مفتی موصوف کے بعض استدلالات سے جزوی اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ، یہ محققانہ تحریر ہدیۂ قارئین ہے۔ تحریر کی طوالت کی بنا پر بعض مقامات کو حذف اور بعض کی ضروری ترتیب بندی کی گئی ہے۔ حسن مدنی
حدودوقصاص اور جہادکےبعد عمار خان صاحب نےتوہین رسالت کے موضوع پر'توہین رسالت کا مسئلہ'کےنام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ذمی یعنی مسلمان ملک کا کافر شہری اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟عمارخان صاحب نے اسی سے متعلق یہ کتاب لکھی ہے۔اگرکوئی مسلمان توہین رسالت کرے تو اس کا کیاحکم ہے؟اس سوال سے متعلق انہوں نے اس کتاب میں کوئی بحث نہیں کی۔
عمارخان صاحب کے بارےمیں ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ ان کےاور ہمارے درمیان کوئی ایسی قدرِمشترک نہیں ہےجسکی بنیاد پر فریقین کی بات کوناپا تولا جا سکے۔اس لیے اس کتاب کو دیکھ کررکھ دیا تھاکہ اس پر تبصرہ کرنے کا فائدہ نہیں۔البتہ یہ خیال بھی تھا کہ اگر عمار خان اس تبصرہ سے فائدہ نہ اٹھائیں تو وہ جانیں دوسر ے لوگوں کو توکچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا۔اتنے میں مولانا سرفراز خان صفدر کے خاندان کے ایک فرد مولانا سرفراز حسن حمزہ کی جانب سے ماہنامہ صفدر کا ایک شمارہ ملا اور ساتھ ہی ان کا یہ مطالبہ بھی کہ عمار خان صاحب کی کتاب پرکچھ لکھ دو۔ان کی تحریر اور مطالبے نے تحریک پیدا کی اور یوں بنام خدا ایک مضمون تیارہوگیا۔
اس مضمون وتبصرے سے غرض کسی خاص واقعہ یا مقدمہ سے متعلق کچھ لکھنا نہیں ہےبلکہ غرض صرف اتنی ہے کہ عمار خان نے اپنی کتاب کے ذر یعے سے جو مغالطے دینے کی اور امت میں انتشار پھیلانےکی کوشش کی ہے اس کا توڑ ہو سکےاور لوگ ان کے مغالطوں کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔
عمار خان ناصر کے دو مقاصد
عمارخان صاحب اپنی تازہ تحقیق کےدو مقاصدقراردیتےہوئے لکھتےہیں:
جہاں تک ریاست کی سطح پر قانون سازی کا تعلق ہےتوظاہر ہے کہ قانون ساز ادارےکسی ایک فقہی مکتب فکر کی آراکے پابند نہیں ہیں ایک اجتہادی مسئلےمیں انہیں پوراحق حاصل ہےکہ وہ دین وشریعت کی جس تعمیر کو زیادہ درست سمجھیں اس پرقانون سازی کی بنیاد رکھیں لیکن اس کی وجہ سےنہ تو علمی دائرے میں بحث ومباحثہ کے نتیجے میں قانون ساز ادارے کسی دوسری تعبیر کی صحت پر مطمئن ہوجائیں تو پھر وہ اسے قانون کا درجہ دےدیں۔چنانچہ 1986ء میں پارلیمنٹ نے توہین رسالت سے متعلق قانون سازی کرتےہوئےسزائے موت کے علاوہ عمرقید کی متبادل سزا کی گنجائش بھی رکھی تھی۔اس کے بعد1990ءمیں یہ مسئلہ وفاقی شرعی عدالت میں زیربحث آیا توعدالت نے مخالف نقطہ نظر کو راجح قرار دیتے ہوئےیہ فیصلہ دیا کہ اس جرم پر سزائےموت ہی واحد سزا ہوسکتی ہے۔اسی طرح اگر یہ مسئلہ آئندہ کسی موقع پر عدالت یاپارلیمنٹ میں دوبارہ زیر بحث آتا ہےتواس کاپورا امکان ہے کہ سزائے موت کےساتھ ساتھ متبادل اور کمتر سزاؤں کی گنجائش کو دوبارہ کتابِ قانون میں شامل کر لیا جائے۔عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ
(1)جومسئلہ فقہی روایت میں ایک اختلافی اور اجتہادی مسئلہ کے طور پر معروف چلاآرہا ہے اسے متفقہ اور اجتماعی مسئلے کےطور پر بیان کرنااور اس حوالےسےآزادانہ بحث ومباحثہ کے راستےمیں رکاوٹ پیداکرنا علمی واخلاقی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔
(2)اسی طرح نبیﷺکی ذات گرامی کےحوالے سےتوہین وتنصیص کےواقعات پر ردِعمل ظاہر کرنے اور خاص طور پر قانونی سطح پر کوئی اقدام کرتےہوئےان بہت سےحکیمانہ پہلوؤں کا لحاظ بھی بہت ضروری ہےجن کا ثبوت خودنبی ﷺکےاسوہ حسنہ اور صحابہ کرام کےطرزعمل میں ملتاہے۔ان تمام پہلوؤں کونظر اندازکر کےاگر اس معاملےمیں محض جزباتی انداز اختیار کرلیا جائے یا اس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعمیر پر اصرار کیا جائےجس کے نتیجے میں ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کویکسر قربان کردینا پڑےجن کی رعایت خود نبیﷺاور آپ کے صحابہ نے کی تویقینی طورپر اس رویے کوکوئی متوازن اور دین وشریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جاسکتا۔(توہین رسالت کا مسئلہ ص90'89)
ہم کہتے ہیں کہ عمار خان صاحب کا معاملہ عجیب ہے۔جوپالیسی انہوں نے اختیارکی ہے اس میں کہیں تووہ تمام فقہاء کو ایک طرف کرکے اور اجماع کے وجود کا انکار کرکے اپنا اجتہاد پیش کرتے ہیں اور صرف اسی میں ان کو حکمتیں اور مصلحتیں نظرآتی ہیں اور کہیں وہ کسی فقیہ کی بات پر ایسے ریجھتے ہیں کہ گویا ان کی تقلید ہی کر رہے ہوں۔لیکن عمار خان کی خواہ یہ بات ہویا وہ بات ہو ان کا مقصد تو دراصل امت میں دین وعلم کے نام پر انتشار پیدا کرنا اور ائمہ پرطعن کرنا ہے۔اس کی نقدمثال عمارخان کی مذکورہ عبارت ہے جو دوبارہ ملاحظہ کریں:
یااس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعبیر پر(جیسے توہین رسالت کے مسئلےمیں ائمہ ثلاثہ کےقول پر)اصرارکیاجائےجس کےنتیجےمیں ان تمام حکمتوں اورمصلحتوں کویکسرقربان کردیناپڑےجن کی رعایت خود نبیﷺاورٖآپ کےصحابہ کرام نے کی(لیکن ان ائمہ نےنہیں کی)تو یقینی طور سےاس رویےکو(یعنی ائمہ ثلاثہ کے قول کو حکم و قانون بنانے پراصرار کرنا)کوئی متوازن اور دین وشریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جاسکتا۔(توہین رسالت کامسئلہ ص 90'89)
ائمہ ثلاثہ پرعمار صاحب کے انتہائی گمراہ کن دوالزام:دیکھئےعمار صاحب یہاں انتہائی خطرناک اور گمراہ کن باتیں کہہ گئے ہیں۔ان کی وضاحت ہم ذیل میں کرتے ہیں:
(1)انہوں نے ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک'امام شافعی اور احمد بن حنبل پرالزام لگایا ہے کہ نبیﷺنےاور آپ کےصحابہ نے تو جن حکمتوں اور مصلحتوں کی خودرعایت کی ہے ان ائمہ نے ان کی رعایت نہیں کی۔
ہم کہتے ہیں جو شخص احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سےواقف نہ ہویا حکم میں ان کی رعایت نہ کرتا ہووہ مجتہدکیسے ہوسکتا ہے؟کجا یہ کہ وہ نبیﷺکی رعایت کردہ حکمتوں کو بھی نہ سمجھ سکے۔
(2)عمارصاحب نے اس عبارت میں ائمہ ثلاثہ پر الزام بھی لگایا کہ انہوں نےپہلے الزام کےنتیجےمیں دین وشریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی نہیں کی۔اسی لئےائمہ ثلاثہ کےقول کوقانون بنانے اور پھر باقی رکھنے کارویہ یقینی طور سےدین وشریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنےوالا رویہ نہیں کہا جاسکتا۔
یہ عبرت کی جا ہےتماشا نہیں ہے!
ہم کہتےہیں کہ امام ابوحنیفہ کےمطابق اللہ تعالی کے نزدیک حق اگرچہ ایک ہےلیکن عمل سب کامقبول ہے۔علاوہ ازیں اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد کا قول صواب'محتمل خطاہوتاہےاور ان میں سےکسی کےقول کویقینی طور پردرست یاخطانہیں کہاجاسکتا۔
عمار صاحب نےاوپرکی عبارت میں اپنی تحریر کےدومقاصدبتائےہیں۔آگےہم ان کےدونوں مقصدوں پرالگ الگ کلام کرتےہیں۔
عمارخان صاحب کاپہلامقصد
عمارخان کا یہ اقتباس ہم پہلےذکرکر چکےہیں کہ جومسئلہ فقہی روایت میں ایک اختلافی اور اجتہادی مسئلہ کےطور پر معروف چلاآرہاہےاسےمتفقہ اور اجماعی مسئلےکےطور پر پیس کرنااور اس حوالےسےآزادانہ بحث ومباحثہ کےراستےمیں رکاوٹ پیداکرنا علمی واخلاقی بددیانتی کےزمرےمیں آتاہے۔
عمارصاحب یہ کہناچاہتےہیں کہ ذمی اگرتوہین رسالت کرے تواس کےحکم میں اختلاف ہے۔ائمہ ثلاثہ اس کی سزائےموت کوحدکہتےہیں جب کہ امام ابو حنیفہ اس کوتعزیرکےتحت لاتےہیں اور تعزیر میں قتل متعین نہیں ہے۔قانون بنانےکےوقت میں بھی اور قانون میں ترمیم پرغور کرنےکےوقت میں بھی یہی کہےجاناکہ ذمی توہین رسالت کرےتوآزادانہ غوروفکر اور بحث ومباحثہ میں رکاوٹ پیداہوتی ہے۔
تبصرہ:عمارخان صاحب نےواضح نہیں کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جوایک اختلافی مسئلےکواجماعی اورمتفقہ بتارہےہیں۔جولوگ اجماع کے قائل ہیں وہ بعض اوقات ائمہ اربعہ کےیاچاروں فقہی مذاہب کےاتفاق کومجازًااجماع کہہ دیتےہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔
علامہ ابن عابدین لکھتےہیں:
وقال الإمام السبكي أيضا ماحاصله لاأعلم خلافابين القائلين بقتله من المذاهب الثلاثة المالكية والشافعيةوالحنابلةفى أنه لاتصح توبته مع بقائه على الكفر(رسائل ابن عابدين:1؍352)
امام سبکی نےجوکلام کیاہےاس کاحاصل یہ ہےکہ تین مذاہب والےیعنی مالکیہ'شافعی اورحنابلہ جوکہ نبیﷺپرسب وشتم کرنےوالےذمی کےقتل کےقائل ہیں ان کا اس بارےمیں کچھ اختلاف نہیں ہےکہ اس ذمی کی کفر پررہتےہوئےتوبہ قبول نہیں ہے۔
(اس کےعلامہ ابن عابدین نےائمہ مجتہدین کےبراہ راست اقوال بھی ذکر کیے ہیں اور ائمہ ثلاثہ کے یہ اقوال عمارصاحب کی پیش نظر کتاب کےصفحہ 25 پر بھی ملاحظہ کئےجاسکتےہیں)
حنفیہ کااجمالی موقف
(1)حكي عن أبي حنيفة رحمه الله قال:لايقتل الذمي بشتم النبيﷺ لأن ماهم عليه من الشرك أعظم(رسائل ابن عابدین:1؍352)
امام ابوحنیفہ سےمنقول ہےکہ ذمی کونبیﷺپرسب وشتم کرنےسے(حدکےطورپر)قتل نہیں کیاجائےگاکیونکہ وہ جس کفروشرک میں مبتلاہےوہ اس برائی سےزیادہ بڑی برائی ہے۔
(2)قاضی ایاض اس پر یہ اضافہ کرتےہیں:ولکن یؤدب ویعزر البتہ اس کوتعزیر کی جائےگی۔
(3)علامہ خیرالدین رملی لکھتےہیں:
وهويدل على جوازقتله زجرالغيره إذايجوزالترقي في التعزيرإلى القتل إذاعظم موجبه(ایضا:1؍353)
تعزیر کئےجانےکا قول مجرم کےقتل کےجوازپردلالت کرتاہےتاکہ دوسروں کوزجر ہوکیونکہ جب کسی کاجرم بڑاہوتوتعزیرمیں قتل بھی شامل ہوجاتا ہے۔
ابن کمال پاشانےلکھا:
والحق أنه يقتل عندناإذاأعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام صرح به سيرالذخيرةحيث قال:واستدل محمد لبيان قتل المرأة إذاأعلنت بشتم الرسول بماروي...
حق یہ ہےکہ جب ذمی نبیﷺپراعلانیہ سب وشتم کرےتوہمارےنزدیک اس کوقتل کیاجائےگا۔ذخیرہ کی کتاب السیر میں اس طرح سےاس کی تصریح کر کےبتایا کہ امام محمد نےاس بات پر کہ جب ذمی عورت نبیﷺپراعلانیہ سب وشتم کرےتو اس کوقتل کیاجائےگااس روایت سےاستدلال کیا۔
الغرض مالکیہ'شافعیہ اور حنابلہ کےنزدیک ایسےذمی کوقتل کیاجائےگاالا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائےجبکہ حنفیہ کےنزدیک اس کو تعزیر کی جائےگی اور وہ تعزیر قتل بھی ہوسکتی ہے۔اب ہم کہتےہیں کہ تعزیر کاایک طریقہ یہ ہےکہ اسےحاکم کی صوابدیدپرمتروک ہے۔اور دوسراطریقہ یہ ہےکہ قانون سازادارےقانون سازی کرکےتعزیر کی کوئی خاص صورت مثلاقتل کومتعین کریں اور اس کو قانون بنادیں۔موجودہ دور میں یہ دوسراطریقہ رائج ہےاور حاکم کی طرف براہ راست مقدمات نہیں جاتےجیساکہ سلطنت عثمانیہ کےدور میں یہ قانون جاری ہوا تھا:
ثم رأيت في معروضات المفتى أبي السعودأنه ورد أمرسلطاني بالعمل بقول أئمتنا القائلين بقتله إذاظهر أنه معتاده
مفتی ابوسعودکی معروضات میں ہےکہ سلطانی حکم جاری کیاگیاکہ ہمارےوہ ائمہ جوذمی کےقتل کےقائل ہیں جبکہ وہ عادی ہوجائیں انکےقول پر عمل کیاجائے۔
چنانچہ عمارصاحب کاقول کہ اختلافی مسئلہ کومتفقہ واجماعی کہناعلمی واخلاقی بددیانتی ہےاس موقع پر درست نہیں۔وجہ یہ ہےکہ اجماع کےمجازی استعمال میں وسعت ہے۔حنفیہ میں سےامام محمدکےنزدیک ذمی اگرتوہین رسالت اعلانیہ کرےتو پہلی ہی دفعہ میں اس کی سزاموت ہے۔اس قول کےبعد یہ چاروں مذاہب کےائمہ قول ہوا۔اوراگرایسانہ بھی ہوتااورائمہ ثلاثہ کےقول پر ہی سزائےقتل کومتعین کردیاجائےاورقانون بنادیاجائےتواس وقت کہاجاسکتاہے کہ چاروں مذاہب والوں کااس سزاپراتفاق واجماع ہے۔اس کو عمارخان صاحب یہ کہیں کہ اسےمتفقہ اور اجماعی مسئلےکےطورپر پیش کرنااور اس حوالےسےآزادانہ بحث ومباحثہ کےراستےمیں رکاوٹ پیداکرناعلمی واخلاقی بددیانتی کےزمرےمیں آتا ہےخوددیانت واخلاق اور انتظام مملکت کےخلاف ہےجس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
(1)قانون سازادارےاوروفاقی شرعی عدالت نےحنفیہ کےقول کو چھوڑکر ذمی میں دیگرتین ائمہ کےقول کولیااور اس کےموافق قانون بنادیاجب کہ خودعمارخان صاحب لکھتےہیں کہ قانون سازادارےکسی ایک فقہی مکتب فکر کے پابند نہیں ہیں اور وہ دین وشریعت کی جس تعبیر کوزیادہ درست سمجھیں اس پرقانون سازی کی بنیادرکھیں۔اس کےباوجودعمارخان پارلیمنٹ اور وفاقی شرعی عدالت کےبارےمیں یہ خیال کریں کہ بعض لوگوں کےاس دعوےپرکہ توہین رسالت کرنےوالامسلمان ہویاکافردونوں کی سزائےموت پراجماع واتفاق ہے وہ دونوں ادارےبہک گئےاور ذمی کےبارےمیں حنفیہ کےموقف کونظرانداز کرگئےمعقول بات نہیں ہے۔
(2)عمارخان لکھتےہیں کہ نویں صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں اندلس میں مسیحی راہنماسینٹ یولوجیس کی تحریک پر اسلام اور نبیﷺکی شان میں گستاخی کر کےشہادت کامرتبہ پانےکی ایک باقاعدہ تحریک چلائی گئی تھی جس میں پچاس کےقریب مسیحیوں نےمختلف اوقات میں اس جرم کی پاداش میں سزائےموت پائی۔اس تحریک اور اس میں قتل کئےجانےوالےمسیحیوں کی پوری داستان خود سینٹ یولوجیس کےقلم سےتاریخ میں محفوظ ہےاور اس سےمعلوم ہوتا ہےکہ نہ صرف عام مسلمانوں نےابتداءً اس طرح کےواقعات کونظراندازکیا بلکہ مالکی قاضیوں نےبھی بعض مجرموں کوموت دینےسےگریز کرتےہوئےاپنی روش سےبازآنےکاموقع دیا۔لیکن پھر ان کی ہٹ دھرمی اور ضدکودیکھتےہوئےانہیں سزائےموت دےدی۔(توہین رسالت کا مسئلہ:ص27)
عمارخان صاحب غور کریں کہ ان کےذکر کردہ واقعہ میں عیسائیوں کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سےگستاخی کرنےوالوں کوموت کی سزادی گئی۔سزائےموت کے باوجود ان کی ہٹ دھرمی اس وقت رکی جب ان کےپچاس آدمی مارےگئے۔اگران کوسزائےموت سےکمتر سزادی جاتی تو شاید پانچ سوسےبھی زیادہ آدمی توہین رسالت پرجری ہوجاتے۔کیاہمارےملک کےحالات اس کا تقاضانہیں کرتےجب کہ عیسائی طاقتیں توہین کرنےوالوں کی اعلانیہ پشت پناہی کررہی ہیں اگرقانون میں نرمی ہوگی توان طاقتوںکی شہ پرذمی توہین رسالت پرجرات کریں گی ۔
(3)توہین رسالت پرسزا کاقانون بنانے کاہمیں حق حاصل ہے۔اور وہ قانون بن چکاہےلیکن ہمارےملک کےبےدین طبقےکواور عیسائی حکومتوں کویہ قانون پسند نہیں ہے۔امریکہ اوریورپ کی عیسائی حکومتوں کاہمارےملک کی حکومتوں پرمسلسل دباؤہےاور اس کےلئےوہ میڈیاپربےتحاشہ خرچ کر رہی ہیں کہ اس قانون کوختم کیاجائےتاکہ عیسائی اور قادیانی اور دیگر گمراہ لوگ اس قانون کی پکڑسےآزادہوکر جیسی چاہیں گستاخی کریں اور یاتو بالکل سزانہ پائیں یامحض خانہ پری کر دی جائے۔اسی طرح ہمارادین بیزار اور حکمران طبقہ اس قانون کوبراکہےتواسکو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ان حالات میں ملک کےعوام وعلما اگر ذمی کی سزائےموت کوضروری سمجھیں تو عمار خان کوکیا حق پہنچتا ہے کہ وہ امت کےاندر انتشار پیدا کریں اور لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ قانون سازی میں مسئلہ کےتمام پہلوؤں پرغورنہیں کیاگیا۔حکمتوں اورمصلحتوں پرغورنہیں کیاگیااورحنفیہ کی رائے کو یکسرنظراندازکیاگیاہےلہذاقانون سازادارےدوبارہ غوروفکر کر کےتوہین رسالت کےقانون میں ترمیم کریں۔
احناف کاتفصیلی موقف:امام محمدکےعلاوہ دیگرمتقدمین کا موقف
امام سبکی نےاپنی کتاب السیف المسلول میں ذکر کیاہےکہ
وحكى عن أبي حنيفة قال لايقتل الذمي بشتم النبيﷺ لأن ماهم عليه من الشرك أعظم وقال القاضي عياض إلاأباحنيفة والثوري وأتباعهمامن أهل الكوفة فإنهم قالوا:لايقتل لأن ما هو عليه من الشرك أعظم ولكن يؤدب ويعزر(رسائل ابن عابدین:1؍352)
روایت ہےکہ امام ابوحنیفہ نےفرمایاکہ ذمی اگرتوہین رسالت کرےتواس کو قتل نہیں کیاجائےگاکیونکہ جس کفر وشرک پروہ قائم ہےوہ اس سےبڑاجرم ہے۔قاضی عیاض نے کہاکہ اگرذمی توہین رسالت کرےتوابوحنیفہ اور سفیان ثوری اور اہل کوفہ میں سےان کےپیروکار اس بات کےقائل ہیں کہ ذمی کوقتل نہیں کیا جائےگاکیونکہ جس کفروشرک پروہ قائم ہےوہ اس سےبڑاجرم ہےالبتہ اس کوتعزیر کی جائےگی۔
امام طحاوی فرماتےہیں:
قال أصبحنافي من سب النبيﷺ أوعابد ولو كان ذمياعزر ولم يقتل
ہمارےاصحاب کہتےہیں کہ ذمی توہین رسالت کرےاسےتعزیرکی جائےگی البتہ قتل نہ کیا جائےگا۔
امام طحاوی مختصر الطحاوی میں لکھتےہیں:
ومن كان ذلك منه من الكفار ذوى العهود أمر أن لايعاوده فإن عاوده أدب عليه ولم يقتل
اگر توہین رسالت کرنےوالاکافر ذمی ہوتواس کوحکم کیا جائےگا کہ وہ آئندہ توہین کااعادہ نہ کرےاوراگر وہ اعادہ کرےتواس کوتعزیرکی جائےگی اور اس کوقتل نہ کیا جائےگا۔
ہم کہتےہیں کہ یہاں دواحتمال ہیں:
(1)پہلایہ کہ امام ابوحنیفہ کےقول 'لایقتل' کامطلب یہ ہوکہ لایقتل حداً یعنی حدکےطور پرقتل نہیں کیاجائےگا۔البتہ اس کوتعزیر کی جائےگی۔جس میں مجرم کی زیادہ سرکشی کی صورت میں قتل کی سزابھی شامل ہے۔اس صورت میں امام ابوحنیفہ اورامام محمداورمتاخرین کاتعزیر بالقتل پر اتفاق ہے۔
(2)اگر امام ابوحنیفہ کی مراد یہ ہوکہ خواہ کتنی سرکشی ہوذمی کوتعزیر میں قتل نہ کیاجائےگاتوعمارصاحب بھی اس کےقائل نہیں اور امام صاحب سےبھی یہ بعید معلوم ہوتاہے۔
امام محمداورمتاخرین حنفیہ کاقول
درمختارکےباب الجزیہ میں ہے:
ويؤدب الذمى ويعاقب على سبه دين الإسلام أوالقرآن أوالنبي ﷺحاوى وغيره قال العينى واختياري في السب أن يقتل وتبعه ابن الهمام قلت وبه أفتى شيخاالخير الرملي وهوقول الشافعي ثم رأيت في معروضات المفتي أبي السعود أنه ورد أمر سلطاني بالعمل بقول أئمتنا القائلين بقتله إذا ظهر أنه معتاده وبه أفتى ثم أفتى في بكراليهودى قال لبشر النصراني نبيكم عيسى ولد زنا بأنه يقتل لسبه للأنبياء عليهم الصلاة والسلام قلت ويؤيده أن ابن كمال باشا في أحاديثه الأربعينية والحق أنه يقتل عندناأذاأعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام صرح به في سيرالذخيرة حيث قال واستدل محمد لبيان قتل المرأةإذاأعلنت بشتم الرسولﷺ بما روى أن عمر بن عدي لما سمع عصماء بنت مروان تؤذي الرسول فقتلها ليلا مدحه على ذلك(رسائل ابن عابدین:1؍305'306)
اس ذمی کوتعزیر کی جائےگی جودین اسلام کی یاقرآن کی یانبیﷺکی توہین کرےحاوی وغیرہ میں ایسےہی منقول ہے۔اسی بات کوابن ہمام نےلیاہے۔میں کہتاہوں کہ اسی کافتوی ہمارے شیخ خیررملی نےبھی دیااور امام شافعی کا قول ہے۔پھرمیں نےمفتی ابوسعود کی معروضات میں لکھادیکھاکہ عثمانی سلطان کا حکم واردہوا ہےکہ ہمارےان ائمہ کےقول پر عمل کیاجائےجوکہتےہیں کہ ذمی کوسب وشتم کرنےکی عادت ہوجائےتواس کوقتل کردیاجائےاور اسی کاانہوں نےفتوی دیا۔پھر یہ فتوی دیا کہ جوکوئی یہودی کسی عیسائی کوکہےکہ تمہارےنبی عیسی ولد الزناتھےتوچونکہ یہودی نےانبیاءعلیہم السلام کی توہین کی ہےلہذااسےقتل کیاجائے۔
میں کہتا ہوں کہ اس بات کی تائید ابن کمال پاشا کی اس کتاب سےہوتی ہےجوانہوں نےاپنی اربعین میں لکھی ہے۔وہ یہ ہے:حق یہ ہےکہ ذمی جب نبیﷺکی توہین اعلانیہ کرےتو ہمارےنزدیک اس کوقتل کیاجائےگا۔اس کی تصریح الذخیرۃ کے باب السیر میں ان الفاظ میں ہے:کوئی ذمی عورت جب نبیﷺکی علانیہ توہین کرےتواس کوقتل کیاجائےگااس کی دلیل کی بناپرکہ عمربن عدی نےجب عصمابنتِ مروان کورسول اللہﷺکی توہین کرتے سناتوایک رات اس کوقتل کردیا۔ان کےاس فعل پررسول اللہﷺنےان کی تعریف کی۔
اس عبارت میں صرف اس بات کاذکر ہےکہ اگر کوئی رسول اللہﷺکی علانیہ توہین کرےتو اس کی سزا قتل ہےاور یہ بات علامہ عینی'ابن ہمام'مفتی ابو سعود'شیخ خیررملی'ابن کمال پاشا اور امام محمدرحمہم اللہ کی کہی ہوئی ہے۔البتہ امر سلطانی میں علانیہ توہین کےبجائےعادت بن جانےکاذکر ہے۔
اب یہاں ہم ان میں سےہر ایک کی عبارت الگ الگ ذکر کرتےہیں:
(1)امام محمداستدل لبيان قتل المرأة إذاأعلن بشتم الرسول...
عورت جب توہین رسالت اعلانیہ کرےتواس کوقتل کیاجائےگا۔
نوٹ:امام محمد متاخرین میں سےنہیں ہیں بلکہ کلاسیکی یعنی متقدمین فقہامیں سےہیں۔
(2)علامہ عینی
قال الرملي عبارة العيني قال الشافعي ينتقض به لأنه ينقض بنقض الإيمان فالأمان أولى وبه قال مالك وأحمدواختياري هذا فقوله هذاإشارة إلى النقض لاإلى القتل ولايلزم من عدم النقض عدم القتل إذصرحواقاطبة بأنه يعزر على ذلك ويؤدب وهو يدل على جواز قتله زجرالغيره إذيجوز الترقي في التعزير إلى القتل إذاعظم موجبه(البحرالرائق حاشیہ:5؍115)
علامہ رملی نےلکھاہےکہ علامہ عینی کی عبارت یہ ہے:امام شافعی نےفرمایاکہ توہین نبی سےذمہ ختم ہوجاتا ہےکیونکہ کوئی مسلمان کسی نبی کوسب وشتم کرےتواس کا ایمان جاتارہتاہےپھر اگرکوئی ذمی ایساکرےتو اس کوجوامان اور ذمہ حاصل ہےوہ بطریق اولی جاتارہےگا۔یہی امام مالک اورامام احمد کاقول ہےاور میں بھی اسی کویعنی ذمہ ختم ہونےکواختیار کرتاہوں۔علامہ رملی کہتےہیں ذمہ نہ ٹوٹنےسےیہ لازم نہیں آتاکہ قتل نہ ہوکیونکہ تمام فقہااسکی تصریح کرتےہیں کہ ذمی کوتوہین کرنےپر تعزیر کی جائےگی اور یہ بات اس پر دلیل ہےکہ دوسروں کوزجر کرنےکےلئےمجرم کوقتل کرنا جائز ہےکیونکہ جرم بڑا ہوتوتعزیر میں قتل بھی شامل ہوجاتا ہے۔
(3)ابن ہمام
قال والذي عندي أن سبه عليه الصلاة والسلام أونسبة مالاينبغي إلى الله تعالى إن كان مما لايعتقدون كنسبة الولد إلى الله تعالى وتقدس عن ذلك إذاأظهره يقتل به وينتقض عهده وإن لم يظهره ولكن عثر عليه وهو يكتمه فلاةوهذا لأنه الغايةفي التمرد والاستخفاف بالإسلام والمسلمين فلايكون جارياعلى العقد الذي يدفع عنه القتل وهو أن يكون صاغرا ذليلاإلى أن قال وهذاالبحث منا يوجب أنه إذااستعلى على المسلمين على وجه صار متمرداعليهم يحل للإمام قتله أويرجع إلى الذل والصغار(ردالمختار:3؍305)
ابن ہمام کہتےہیں کہ میرےنزدیک ذمی کا نبیﷺکی توہین کرنااور اسکا اللہ تعالی کی طرف کسی ناروابات کی نسبت کرنا مثلا اللہ کی طرف اولاد ہونےکی نسبت کرنا جب وہ اس کوعلانیہ کرےتواس کی وجہ سےاس کوقتل کیاجائےگااور اس کا ذمہ ٹوٹ جائےگا۔اوراگر وہ اس کواعلانیہ نہ کرےبلکہ چھپاکر کرتا ہےلیکن مسلمانوں کواس کی اطلاع ہوجائےتو پہلی دفعہ میں اس کوقتل نہ کیا جائےگا۔
یہ حکم اسی وجہ سےہےکہ ذمی کانبیﷺکواعلانیہ سب وشتم کرناتوسرکشی کا اور اسلام ومسلمین کی توہین کا انتہائی درجہ ہےلہذا یہ ذمی اس عہدپرجاری نہ رہےگا جواس سےقتل کودور رکھتا ہےاور وہ عہد اس بات کا ہےکہ وہ نیچا اور ذلیل بن کررہےگا۔ہماری یہ بحث واجب کرتی ہےکہ ذمی مسلمان پرسرکشی دکھائےتوامام اس کوقتل کرسکتاہےیاوہ دوبارہ پستی اورذلت اختیار کرلے۔
(4)شیخ خیرالدین رملی
خیررملی نےتعزیر کےطور پر قتل کرنےکافتوی دیاہےجیساکہ اوپر کی عبارت میں گزراہے۔
(5)مفتی ابوسعود
ان کےدوفتوےذکرہوئے:
أنه ورد أمر سلطاني بالعمل بقول أئمتناالقائلين بقتله إذاظهر أنه معتاده وبه أفتى-
ثم أفتى في بكراليهودى قال لبشرالنصراني نبيكم عيسى ولد زنا بأنه يقتل لسبه للأنبياء عليهم الصلاة والسلام
ایک میں انہوں نےذکر کیا کہ امر سلطانی جاری ہواہےکہ جب کسی ذمی کوسب وشتم کرنےکی عادت ہوجائے(جوکہ کم ازکم دودفعہ سےثابت ہوتی ہے)تواس کوہمارےان کےمطابق جوقتل کرنےکوکہتےہیں'قتل کیا جائے۔
دوسرافتوی یہ ہےکہ یہودی اگرکسی عیسائی کوکہےکہ تمہارےنبی ولد زناتھےتوانبیاکی توہین کرنےکی وجہ سےیہودی کوقتل کیاجائےگا۔
(6)ابن کمال پاشا
والحق أنه يقتل إذاأعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام
حق یہ ہےکہ ذمی اگرتوہین رسالت اعلانیہ کرےتواس کوہمارےبزدیک قتل کیاجائےگا۔
مذکورہ بالاحوالوں سےمعلوم ہوا کہ حنفیہ کےیہاں ذمی اگرتوہین رسالت کرےتوراجح قول یہ ہےکہ اس کوتعزیر میں سزائےموت دی جائےگی اور اس کی شرط یہ ہےکہ ذمی نےیا توایک دفعہ اعلانیہ سب وشتم کیاہویا اگرچھپ کر کیا ہولیکن مسلمانوں نےاس کوسن لیا ہوتواس کوحکم دیاجائےگاکہ وہ آئندہ نہ کرےلیکن اگر پھر ایسی بات پیش آئےتواس وقت ذمی کوتعزیر میں قتل کیا جائےگا۔ہمارےاس دعوےکی دلیل یہ ہےکہ مذکورہ بالاتمام حوالوں میں ذمی کوقتل کرنےکی صرف ایک شرط مذکورہے:
(1)عینی نےیہ ذکر کیا کہ جب سبب بڑاہو توزجر کےطورپر ذمی کوقتل کرسکتےہیں۔
(2)ابن ہمام نےاظہار یعنی اعلانیہ سب وشتم کرنےکوشرط کہا۔
(3)خیررملی نےکوئی شرط ذکر نہیں کی سوائےاس کےکہ جرم بڑاہو۔
(4)ابوسعودنےسلطانی حکم نامہ میں صرف عادت ہونےکی یعنی تکرار کی شرط ذکرکی جب کہ دوسرےفتوےمیں صرف اعلانیہ کاذکر ہواہے۔
(5)ابن کمال پاشا نےاعلانیہ کرنےکی شرط ذکر کی۔
(6)امام طحاوی نےصرف اعادہ کا ذکرکیاہےاعلانیہ کانہیں۔
(7)امام محمد نےبھی اعلانیہ کرنےکی شرط ذکرکی ہے۔
مذکورہ حوالوں سےمعلوم ہوا کہ تعزیر کےطورپر قتل کرنےکےلئےذمی سےتوہین رسالت صرف ایک شرط کےساتھ مشروط ہےیعنی یاتواعلانیہ کی ہویاخفیہ کی ہوتوایک دفعہ کی تکرار کےساتھ کی ہو۔
غلطی کہاں ہوئی اور ابن عابدین کومغالطہ کیالگا؟
یہ علامہ ابن تیمیہ ہیں جنہوں نےاپنی کتاب الصارم المسلول میں حنفیہ کاموقف بیان کرتےہوئےاشارۃًدونوں شرطوں کوجمع کردیا اور ان سےابن عابدین نےاس کولےکرصراحت سےکئی جگہوں پرذکر کیا جس سےعمار صاحب سمیت عام طورسےپڑھنےوالے دونوں شرطوں کےمجموعہ کوحنفیہ کےنزدیک شرط سمجھنےلگے۔ابن تیمیہ لکھتےہیں:
وأماأبوحنيفة وأصحابه فقالوالاينتقض العهد بالسب ولا يقتل الذمى بذلك لكن يعزر على اظهارذلك كمايعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلهاكإظهار أصواتهم بكتابهم ونحوذلك ومن أصولهم أن مالاقتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل إذاتكرر فلإمام أن يقتل فاعله وكان حاصله أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التى تعظمت بالتكرار وشرع القتل في جنسهاولهذاأفتى أكثرهم بقتل من أكثرمن سب النبيﷺ من أهل الذمة وأن أسلم بعد أخذه(الصارم المسلول:ص11)
امام ابوحنیفہ اور ان کےاصحاب کہتےہیں کہ سب وشتم سےمعاہدہ نہیں ٹوٹتااور ایساکرنےپرذمی کوقتل نہ کیاجائےالبتہ اس کےاظہار یعنی اعلانیہ کرنےپر اس کوتعزیر کی جائےگی جیساکہ جیساکہ دوسرےمنکرات کےاظہار پر جن کو کرنےکی ذمی کواجازت نہیں ہےجیساکہ ذمیوں کی اپنی اپنی دینی کتاب کوآواز سےپڑھناوغیرہ اورحنفیہ کےاصولوں میں سےایک اصول وضابطہ یہ ہےکہ جن جرائم پرقتل کی سزا نہیں ہےجیسےکسی بھاری چیزسےقتل کرنا یالواطت کرنا جب مجرم ان جرائم کوبہ تکرار کرےتوامام اس کےمرتکب کوقتل کرسکتاہےاس ضابطہ کا حاصل یہ ہےکہ وہ جرائم جوتکرارسےبڑےبن جاتےہیں اور جن کی جنس میں قتل کی سزاہےتوان کےمرتکب کوحاکم تعزیر میں قتل کرسکتا ہے۔اسی وجہ سےبہت سےحنفیہ نےیہ فتوی دیاہےکہ جوذمی باربار توہین رسالت کرےتواس کوقتل کیاجائےگااگرچہ پکڑےجانےکےبعدوہ مسلمان کیوں نہ ہوجائے۔
ابن تیمیہ نےایک تواظہار یعنی اعلانیہ سب وشتم کرنےکی شرط ذکر کی اور دوسرےحنفیہ کا ایک اصول ذکر کیاجس کی روسےتعزیری قتل اس وقت آتا ہےجب تکرار کی وجہ سےجرم بڑاہوجائےابن تیمیہ نےواضح طور پر دونوں شرطوں کوجمع نہیں کیااورنہ ہی یہ بتایا کہ تکرار واکثار میں دومرتبہ بھی شامل ہےیانہیں اورنہ ہی اس بارےمیں حنفی فقہا کاکوئی حوالہ ایساذکر کیاجس سےمعلوم ہوتا ہےکہ سب النبیﷺمیں حنفی فقہانےدونوںشرطوں کوجمع کر کےحکم نکالاہولیکن ابن عابدین نےغلطی کھاتےہوئےان کی بات سےیہی اخذکیاہے۔وہ لکھتےہیں:
فلاينبغي لمسلم التوقف في قتله وإن تاب لكن بشرط تكررذلك منه وتجاهره به كماعلمته ممانقلناعن الحافظ ابن تيمية عن أكثر الحنفية ومما نقلناه عن المفتى أبي السعود(رسائل ابن عابدين:1/356)
ایسےشخص کوقتل کرنےکےبارےمیں کسی مسلمان کےلائق نہیں کہ وہ توقف کرےلیکن شرط یہ ہےکہ اس نےیہ جرم بہ تکرار اورلوگوں کےسامنےاعلانیہ کیا ہوجیساکہ ہم نےحافظ ابن تیمیہ کےحوالےسےاکثر احناف کا موقف اور اس کےعلاوہ مفتی ابوسعود کافتوی نقل کیاہے(حالانکہ مفتی ابوسعود نےسلطانی حکم نامہ نقل کیا ہےاس میں تکرار کا ذکر ہےاعلانیہ کانہیں اوران کےاپنےفتوےمیں اعلانیہ کاذکر ہےتکرارکانہیں)
ابن عابدین کی اس بات کوفتح المبین کےمصنف مولانامحمد منصور علی مراد آبادی نےبھِی لیاہےجیساکہ انہوں نےاپنی کتاب میں ردالمختارکاحوالہ دیا ہے۔عمار صاحب نےوہاں سےاس طرح نقل کیا:
حدیث میں' کانت تشتم' کالفظ اس پردلالت کرتا ہےکہ جومکررسب وشتم واقع ہواور عادت بن جائےتو اس کوقتل کرنا چاہئے۔پس لفظ حدیث سےمعلوم ہواکہ جب تک مکررنہ ہوتو قتل نہ کرناچاہئے۔سوامام صاحب بھی اس کےمخالف نہیں کہتے...معلوم ہواکہ امام صاحب کا قول بھی حدیث کےمطابق ہےاور حدیث میں عادت اور کثرت کی وجہ سےقتل ہےسواس کاامام صاحب انکار نہیں کرتے۔امام صاحب غیرمعتاد(جس کی عادت نہ ہو)کےواسطےیہ حکم بیان کرتےہیں کہ قتل نہ کیاجائے۔چنانچہ ردالمختار میں ہےکہ اصول حنفیہ میں سےیہ امر ہےکہ جس چیز میں حنفیہ کےنزدیک قتل مقررنہیں جس وقت وہ فعل مقررہوپس چاہئےامام کوکہ اس کےکرنےوالےکوقتل کرے۔(توہین رسالت کا مسئلہ:ص 58'59)
ابن تیمیہ کےکلام میں کچھ اوربھی دوفروگذاشتیں ہیں:
(1)ابن تیمیہ نےامام ابوحنیفہ اور ان کےاصحاب کےبارےمیں کہاکہ ان کےنزدیک سب وشتم کےاظہار واعلان پرقتل سےخالی تعزیرہےحالانکہ امام محمد کےبارےمیں گزراہےکہ وہ ایک مرتبہ اعلانیہ سب وشتم کی صورت میں تعزیر کےقائل ہیں۔
(2)ابن تیمیہ نےلکھاکہ بہت سےحنفیہ نےیہ فتوی دیا ہےکہ جوذمی باربار توہین رسالت کرےتواس کوقتل کیاجائےگا۔ابن تیمیہ نےاس کاکوئی حوالہ نقل نہیں کیا۔ابن تیمیہ کےیہ الفاظ ہیں:من أكثر من سب النبىﷺ یعنی جوسب وشتم بہت زیادہ کرےیابہت مرتبہ کرےابن تیمیہ نےاس کابھی حوالہ نہیں دیا۔
بہت مرتبہ یا باربارکرنےسےکوئی خاص عددمرادہےیانہیں؟اگر کوئی خاص عددمرادہےتووہ کونساہے؟اوراگرکوئی خاص عددمرادنہیں ہےتوپھریہ کون طےکرےگاکہ اکثارپایاگیاکہ نہیں؟اگراس کوحاکم کی رائےپرچھوڑاجاتاہےلیکن جب حاکم میں اس کوجانچنےکی صلاحیت نہ ہویاوہ متعین قانون کی شکل میں اس کونافذکرےیاپارلیمنٹ قابل تعزیرتوہین رسالت کی تعریف کرےاور قانون بنائےتووہ کس عددپربناکرےگی؟
عمارخان صاحب اس کامعیار تویہ بتاتےہیں:
جب کہ مجرم سب وشتم کااعلانیہ اظہار کرےاوراس کوایک روش کےطور پراختیار کرلے۔لیکن یہ معیار بھی مبہم ہےکیونکہ دومرتبہ سےروش تونہیں بنتی اوردوسےاوپرجتنےبھی عددہیں وہ بلامزاحم نہیں ہیں۔کوئی تین مرتبہ سےروش کہےگا اورکوئی چھ مرتبہ پربھی روش کے اطلاق سےپس وپیش کرےگا۔عمارخان صاحب تواس پربھی خوش ہیں قانون میں ابہام پیداکردیاجائےجس سےوہ بےاثرہوکر رہ جائے۔
حاصل کلام یہ ہےکہ کوئی ذمی ازخودلوگوں کےسامنےاعلانیہ توہین رسالت کرےتویہ ایک دفعہ کرنا ہی اس کی بڑی سرکشی ہےجس کی اجازت معاہدہ ذمہ میں ذمی کوحاصل نہیں۔تمردوسرکشی کےلیےایک دفعہ توہین رسالت کافی ہےباربارکرنےکی گنجائش کیوںرکھی جائے۔اس صورت میں عادت ہونےیابہ تکرار کرنےکا محل اعلانیہ توہین نہیں بلکہ خفیہ توہین ہےلیکن انتظام میں کچھ کوتاہی کی بناپرذمی کےمقام کےقریب سےگزرنےوالےمسلمان اس کوسن لیتےہیں ۔چونکہ ذمی اس کوخفیہ کرناچاہتاہےاس لیےاس میں سرکشی وتمردکی کمی ہے۔اس لیےپہلی دفعہ میں اس کوقتل نہ کیاجائےگابلکہ اس کوتنبیہ کی جائےگی کہ آئندہ نہ کرناورنہ تم قتل کردیےجاؤگے۔اس تنبیہ کےبعدبھی پھر دوبارہ اس ناقص خفیہ طریقےسےتوہین کرےتو اس کی سرکشی ثابت ہونےمیں کچھ کمی نہیں رہی اوروہ سزائےقتل کا مستحق بن گیا۔
دودفعہ کےہونےسےتکرار ثابت ہوتی ہے:
ولايجد عندالإمام إلاإذاتكررفيقتل على المفتى به قال البيرى والظاهرأنه يقتل فى المرةالثانية لصدق التكرار عليه(ردالمختار:3؍171)
پاخانےکی جگہ میں وطی کرنےکےمسئلہ میں امام ابوحنیفہ کےنزدیک اس پرحدنہیں ہےالبتہ اگر وہ دوبارہ ایسا کرےتومفتی بہ قول کےمطابق اس کوقتل کیاجائےگا۔علامہ بیری کہتےہیں کہ ظاہر بات یہ ہےکہ دوسری مرتبہ میں اس کوقتل کیاجائےگاکیونکہ دودفعہ پرتکرار کا معنی صادق آتاہے۔
ذمی نبیﷺپرسب وشتم کرےتواس کی تعزیر میں اصل قتل ہے!
اس کےدلائل مندرجہ ذیل ہیں جوعمارخان صاحب ہی ذکرکےکردہ ہیں:
(1)سیدناابوبکر کےبارےمیں مستندروایات سےثابت ہےکہ انہوں نےنبیﷺکی شان میں گستاخی کی سزاموت بیان فرمائی ہے۔تاہم ان کےفیصلوں سےواضح ہےکہ وہ اسےحد نہیں سمجھتےچنانچہ نبیؐ کی وفات پربعض خواتین نےخوشی کےاظہارکےلیےدف بجائےتوابوبکرؓنےصرف ان کی ہاتھ کٹوادیئے۔اس طرح ان کےعہدمیں مہاجربن ابی امیہ کےسامنےایک عورت کوپیش کیاگیاجس نےنبیؐ کےبارےمیں ہجویہ اشعارگائےتھےانہوں نےاس کا ایک ہاتھ کاٹ دیااور ایک دانت اکھاڑدیا۔ابوبکرؓکوخبر ملی توانہوں نےکہاکہ اگر تم یہ فیصلہ نافذنہ کرچکےہوتےتومیں تمہیں اس عورت کوقتل کرنےکا حکم دیتا کیونکہ انبیاکی توہین کی سزاعام سزاؤں کی طرح نہیں ہے۔(توہین رسالت کامسئلہ:ص91)
(2)امام موسی کاظم روایت کرتےہیں کہ مدینہ کےعامل زیادبن عبیداللہ کےدور میں اس نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس نےمدینہ کےفقہاسےرائےطلب کی توامام جعفر صادق نےکہا کہ نبیؐ اور آپ کےاصحاب کےمابین فرق ہوناچاہئےچنانچہ ان کی رائےکےمطابق مجرم کوقتل کردیاجائےگا۔(توہین رسالت کا مسئلہ:ص24)
مذکورہ بالاحوالوں میں دلیل یہ ضابطہ ہےکہ توہین رسالت کی سزاتوہین صحابہ سےزیادہ ہونی چاہئے۔توہین صحابہ کی سزاقتل سےکمترہےتوتوہین رسالت کی سزاقتل ہونی چاہئے۔
(3)ابن عباسؓ بیان کرتےہیں کہ ایک شخص کی لونڈی جواس کےبچوں کی ماں بھی تھی نبیؐ کوبرابھلا کہتی اور آپؐ کی توہین کیاکرتی تھی اور اپنےمالک کےمنع کرنےاور ڈانٹ ڈپٹ کےباوجود اس سےباز نہیں آتی تھی۔ایک دن اسی بات پر اس نےاشتعال میں آکر اسےقتل کردیا۔رسول اللہؐ کےعلم میں یہ بات آئی تو آپ نےاس کوبلاکرپوچھ گچھ کی اور پھر اس کی وضاحت سننےکےبعد فرمایاکہ''ألا أشهدواأن دمها هدر'' يعنی گواہ رہوکہ اس عورت کاخون رائیگاں ہے۔(ایضا:ص10'11)
(4)عمیربن امیہ کی بہن مشرک تھی اور اس نےنبیﷺکی ذات گرامی کےبارےمیں سب وشتم کرکےعمیر کواذیت پہنچانےکوایک وتیرہ بنارکھاتھا۔اس کےاس رویےسےتنگ آکر ایک دن عمیر نےاسےقتل کردیا۔نبیؐ نےصورت حال معلوم ہونےکےبعد اس عورت کےخون کورائیگاں قرار دےدیا۔(توہین رسالت کامسئلہ:ص 11)
اگرذمی کےسب وشتم پرتعزیر میں اصل سزا قتل کی نہ ہوتی تواہتمال تھا کہ مذکورہ بالا دو واقعات میں قائلین سےبازپرس ہوتی اوران سےکہاجاتاکہ تم کچھ اور صبر کرتےیا کچھ ہلکی سزادیتےشاید کہ ان کو توفیق ہوتی اوروہ مسلمان ہوجاتی اور تمہاراان کوقتل کرناحکمت ومصلحت کےخلاف تھا۔لیکن جبکہ آپ نےایسانہیں فرمایا بلکہ ان کےاقدام قتل کوروارکھاتواس سےمعلوم ہواکہ ان کی سزاقتل ہی بنتی تھی جوکہ دی گئی۔
(5)حضرت عبداللہ بن عمرؓکےپاس ایک راہب کولایاگیااورانہیں بتایاگیا کہ یہ نبیؐ کوبرابھلاکہتا ہے۔ابن عمرنےکہا کہ اگر میں اس کی زبان سےسن لیتا تو اسےقتل کردیتا۔(توہین رسالت کامسئلہ:ص22)
مذکورہ بالا واقعات سےدوباتیں سامنے آئیں:
رسول اللہﷺپرسب وشتم کرنےوالےذمی کی تعزیر میں اصل قتل ہے۔اگر کسی نےاس کوموت سےکمتر سزادی توچونکہ قتل بھی تعزیر کےطورپر ہےاس لئےجب ایک دفعہ کمتر تعزیر کردی گئی تو اب دوبارہ اس کوتعزیر نہ کریں گے۔
تعزیر کا اجراجیسےحکومت کر سکتی ہےاسی طرح کوئی دوسرا بھی کرےتوجائزہے۔
تعزیرکون کرسکتا ہے؟
یادرہےکہ عمارخان صاحب کا موقف ہےکہ تعزیر صرف حکومت کرسکتی ہے۔عمار خان صاحب نےہماری ذکر کردہ دوسری بات کےبرعکس اپنی کتاب میں ایک پوراباب باندھا ہےاوراس کاعنوان رکھاہے: سزاکےنفاذ کااختیار (ایضاً:ص91۔104)
عمارخان اس میں مولانا سرفراز خان کی کتاب ذخیرۃ الجنان کا یہ اقتباس نقل کیا ہے۔
حدودوتعزیرات کےجتنےبھی احکام ہیں یہ افراد کے لیےنہیں ہیں۔عام آدمی میں کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ چورکوپکڑ کراس کےہاتھ کاٹ دے۔غیرشادی شدہ مردوعورت زناکریں تو ان کوکوڑےمارنےکاحکم قرآن میں مذکورہےمگرحکومت کےبغیر کسی کوحق نہیں کہ وہ کوڑےمارےیہ حکومت کاکام ہے۔اسی طرح یہود ونصاری اوردیگر کافروں سےلڑناانفرادی کام نہیں ہےیہ اجتماعی طورپر حکومت کاکام ہے۔تمہیں زبان سےسمجھانےکاحق ہے۔ اگرتمہیں اللہ تعالی نےہاتھ سےروکنےکی طاقت عطافرمائی ہےتمہارےپاس کوئی منصب ہےتوروکوکیونکہ ہاتھ سےتوحکمران ہی روک سکتےہیں عام آدمی تو ہاتھ سےنہیں روک سکتا۔(توہین رسالت کا مسئلہ :ص97'98)
اس اقتباس کےبعد عمار صاحب لکھتےہیں:
اس اصول کےمطابق توہین رسالت کی سزاکےنفاذپر بھی وہ تمام قیودوشرائط لاگوہوتےہیں جن کااطلاق دوسری شرعی سزاؤں یعنی حدود وقصاص پر ہوتاہے۔چنانچہ کوئی شخص یاگروہ اپنی انفرادی حیثیت میں توہین رسالت کےمجرم کےلیےسزاکااعلان کرنےیااسےسزاکامجازنہیں ہےاوردوسرےتمام جرائم کی طرح یہاں بھی جرم کےاثبات اورمجرم کوسزادینےکےلیےباقاعدہ عدالتی کاروائی ضروری ہے۔(ایضاً:ص98)
پیچھےذکر کردہ بعض واقعات سےمختلف تاثرسامنےآتاہےاس لیےعمارصاحب ان کی توجیہ کرتےہیں:
ان واقعات میں جن مخصوص پہلوؤں کواس رعایت کا موجب کہاجاسکتاہے وہ تین ہیں:ایک تویہ کہ یہاں جرم کےتحقق اور ثبوت کےمعاملےمیں کوئی خفا یاشبہ نہیں تھا۔روایت میں جس اسلوب سےان کاجرم بیان کیاگیاہےاس سےواضح ہےکہ ان کا یہ طرزِعمل عمومی طورپر معلوم ومعروف تھا یعنی ایسا نہیں تھاکہ جرم کاافشا یااس کا ثبوت محض قاتل کےبیان پر منحصر تھا اور اس کےعلاوہ اس کاکوئی ثبوت میسرنہیں تھا۔دوسرےیہ کہ ان میں جرم کوایک معمولی اورعادت بنا لینےوالےمجرموں کاذکر ہواہےجوجان بوجھ کر اور قصداًاشتعال پیداکررہےتھےاورمسلسل تنبیہ کےباوجود ایساکرنےسےبازنہیں آرہےتھے۔ظاہر ہےکہ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔
تیسرےیہ کہ یہاں جن افراد نےمجرموں کوقتل کیاتھاانہوں نےغیرمعمولی جذبہ ایمانی کا اظہار کرتےہوئےاپنےعزیزترین قرابت داروں کوپیغمبرﷺکی حرمت وناموس پرقربان کردیاتھا۔
ان تینوں وجوہ کوسامنےرکھاجائےتوواضح ہوگاکہ جرم کی سنگین نوعیت اور اس کےوقوع کےبالکل قطعی اوریقینی ہونےکی وجہ سےیہاں مجرم اصولی طورپرمباح الدم ہوچکےتھےاوراس کےبعد اگر کسی نےانہیں قتل کردیاتوزیادہ سےزیادہ اسےکوئی تعزیری اور تادیبی سزادی جاسکتی تھی لیکن چونکہ جان لینےوالےافرادنےیہ قدم نبیؐ کی محبت میں اٹھایاتھااور اس کےلیےبہن اوربیوی جیسےرشتوں تک کوقربان کردیاتھااس لیےان کی اس غیرمعمولی غیرت وحمیت کےپیش نظر نبیؐ نےانہیں اپنےدائرہ اختیار سےتجاوز پر کوئی سزادینا مناسب نہیں سمجھتا۔چنانچہ ان واقعات سےاگرکوئی قانونی نکتہ اخذکیاجاسکتاہےتووہ صرف یہ ہےکہ اگر مقتول کاجرم ثابت ہواور اپنی نوعیت کےاعتبار سےواقعتاًقتل کی سزاکامستوجب ہوتوقاتل کومخصوص صورتحال کی رعایت سےسزاسےبری کیاجاسکتاہے۔اس سےیہ کسی طرح اخذنہیں کیا جاسکتاکہ کسی بھی شخص کوقانون اورعدالت سےماوراایسےقضیےخودنمٹانےکی اجازت حاصل ہے۔
ہم کہتےہیں کہ تعزیر صرف حاکم ہی نہیں کوئی دوسرابھی مجرم کوارتکاب جرم کی حالت میں نہی عن المنکرکےطور پر کر سکتا ہے۔ملاحظہ فرمائیے:
(1)علامہ ابن عابدین نےحد اورتعزیر کےدرمیان فرق کرتےہوئےجونکات ذکرکئےہیں ان میں سےایک یہ ہے:
وزادبعض المتأخرين أن الحدمختص بالإمام والتعزيريفعله الزوج والمولى وكل من رأى أحدايباشرالمعصية(ردالمختار'کتاب الحدود'باب التعزیر)
بعض متاخرین نےحد اورتعزیر کےدرمیان اس فرق کا اضافہ کیاہےکہ حد کا اجرا صرف حکومت ہی کرسکتی ہےجب کہ تعزیر کوشوہر مالک اور ہر وہ شخص جاری کرسکتاہےجو کسی کوبرائی کاارتکاب کرتےدیکھے(یہ حنفیہ کےیہاں اس پرمحمول نہیں ہےکہ حاکم نےشوہر ومالک کوتعزیر کرنےکا اختیاردیاہوبلکہ یہ نہی عن المنکر پرمحمول ہے)
(2)علامہ ابن عابدین مزیدلکھتےہیں:
لورأي رجلايزني بامرأته أوامرأةآخروهومحصن فصاح به فلم يهرب ولم يمتنع عن الزناحل له قتله ولاقصاص عليه(ردالمختار:3؍197)
زیدنےاگرایک شخص کودیکھاکہ اس کی بیوی کےساتھ یاکسی اورکی عورت کےساتھ زناکررہاہے حالانکہ وہ محصن ہےاور زیدنےاس کوللکارا لیکن مجرم نہ توبھاگااور نہ زناکرنےسےبازآیاتوزیداس کوقتل کرسکتاہےاور زیدپر قصاص نہ ہوگا۔
تنبیہ:قال في النهرو رده ابن وهبان بأنه ليس من الحد بل من الأمر بالمروف والنهى عن المنكر(ردالمختار'کتاب الحدود'باب التعزیر)
محصن ہونےکی شرط کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ قتل زناکی حدکےطورپر نہیں ہےبلکہ امربالمعروف اورنہی عن المنکر کےطورپرہے۔
(3)علامہ ابن عابدین لکھتےہیں:
رجل رأى رجلا مع امرأته يزني بها أويقبلهاأويضمهاإلى نفسه وهي مطاوعة فقتله أوقتلهمالاضمان عليه ولايحرم من ميراثها إن أثبته بالبينة أوبالأقرارولورأى رجلامع امرأته في مفازةخاليةأورأه مع محارمه هكذاولم يرمنه الزناودواعيه قال بعض المشائخ حل قتلهماوقال بعضهم لايحل حتى يرى منه العمل أى الزناودواعيه(ردالمختار:3/197)
زیدنےایک شخص کودیکھاکہ وہ اس(یعنی زید)کی بیوی کےساتھ زناکررہاہےیااس کابوسہ لےرہاہےیااس کواپنےساتھ چمٹائےہوئےہےاورعورت اس پرراضی ہےتوزیداس شخص کوقتل کر سکتاہےیادونوں کوبھی قتل کرسکتاہےاورزید پرکچھ تاوان نہ آئےگااور نہ ہی وہ اپنی بیوی کی میراث سے محروم ہوگا جب کہ وہ اس واقعہ کےثبوت پیش کردے یامجرم کااقرار ثابت کرد ے(اقرار کی صورت یہ ہےکہ مجرم پہلےبھی ایسی حرکت کرچکاہواور کچھ لوگوں کےسامنےاقرار کرچکاہو لیکن زید کےمشاہدہ میں نہ آیاہو)اوراگر زیدنےایک ویران جنگل میں ایک شخص کےساتھ اپنی بیوی یااپنی کسی محرم کودیکھالیکن ان کو زنایادواعی زناکرتےنہ دیکھاتوبعض مشائخ کاکہناہےکہ زیدان دونوں کوقتل کرسکتاہےجب کہ دوسروں کاکہناہےکہ جب تک ان کوزنایادواعی زنامیں مبتلانہ پائےان کوقتل نہیں کرسکتا۔
علامہ حصکفی درمختار میں لکھتےہیں:
وعلى هذاالقياس المكابر بالظلم وقطاع الطريق وصاحب المكس وجميع الظلمة بأذنى شيئ له قيمة وجميع الكبائر والأعونة والسعاة يباح قتل الكل ويثاب قاتلهم (کتاب الحدود'باب التعزیر)
بدکاری کی مذکورہ صورت پرقتل کرنےکی مثل ان لوگوں کوقتل کرنا بھی ہےجوزوروزبردستی کی وجہ سےظلم کرتےہوں اورجورہزنی کرتےہوں اورجوزبردستی کاٹیکس وصول کرتےہوں اور جوذرا سی قیمت والی چیزوں کی وجہ سےظلم کرتےہوں اورجوکبائر کےمرتکب ہوں اور جوحکمرانوں کےپاس جاکر لوگوں کی جھوٹی سچی چغلیاں کرتےہوں اورجوزمین میں فساد پھیلاتےہوں ان کاقتل مباح ہےاور قاتل کواس پرثواب ملتاہے۔
اوپرکےواقعات میں جس شخص نےتوہین رسالت پراپنی بہن یاباندی کوقتل کیاعمارصاحب کےذکر کردہ ضابطہ کےمطابق کہ تعزیر کاحق صرف حاکم کوہےخود ان کےخلاف بہت کچھ کلام ہوسکتاہےمثلاً:
(1)ان قاتلین کےبارےمیں نبیﷺسےیہ منقول نہیں کہ آپﷺنےان کوقتل کرنےسےپہلےآپ سےرجوع نہ کرنےپرکوئی تنبیہ کی ہو۔
(2)عمارصاحب کی کتاب کےص101پرمذکورہ باندی اور بہن کےواقعات میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جواس پردلیل ہوکہ مجرم عورت علانیہ سب وشتم کرتی تھی۔
(3)ان دوحضرات نےمشتعل ہوکر قتل کیاحالانکہ سب وشتم کاواقعہ پہلی مرتبہ کانہیں تھااوروہ حضرات نبیﷺکی خدمت میں آکرپہلےآپ سےاس کاتذکرہ کرسکتےتھے۔قومی احتمال ہےکہ آپؐ ان کوکوئی مناسب مشورہ دیتےجس سےان مقتولین کی دنیاوآخرت دونوں بن جاتیں۔صرف ایک عصمابنت مروان جوبنوخطمہ کی عورت تھی اس کےبارےمیں ہےکہ وہ انتہائی توہین آمیز اشعار کہتی تھی اور نبیؐ کی ذات اور اسلام پرطعنہ زنی کرتی تھی اورلوگوں کوآپ کےخلاف بھڑکاتی تھی۔اس کوعمیرکوعمیر بن عدی نےقتل کردیاتھاجواسی کی قوم میں سےتھے۔
اس کےبرعکس عمارخان صاحب کہتےہیں کہ ان مقتولین عورتوں کا طرزِعمل معلوم ومعروف تھا یعنی پبلک میں علانیہ تھااور جرم کوعادت بنالیاتھااورمنع کرنےکےباوجود بازنہیں آٖئیں اس سےمباح الدم ہوچکی تھیں اورایک غیرمعمولی صورتحال بن چکی تھی۔ان حضرات کاان عورتوں کوخودقتل کرناضابطہ کی روسےتوجائز نہیں تھالیکن مباح الدم ہونےکی وجہ سےاور اس قرینہ سےکہ مقتول عورتیں قاتلوں کےتعلق والی اور رشتہ دار تھیں'رسول اللہﷺنےان کوماورائےعدالت کاروائی کرنےپرکوئی سزانہیں دی۔لیکن دوسری طرف خود عمارخان صاحب نےچند اورایسےواقعات ذکرکئےہیں جوان کےفلسفہ اور فکر سےمطابقت نہیں رکھتےمثلاًِ
(1)عرفہ بن حارث کندی کےپاس سےایک نصرانی گذراانہوں نےاسےاسلام کی دعوت دی تواس نےغصےمیں آکررسول اللہﷺکی شان میں گستاخی کردی۔اس پرعرفہ نےزور سےمکہ مار کراس کی ناک توٗڑدی۔معاملہ عمروبن العاص کےسامنےپیش کیاگیاتوانہوں نےعرفہ سےکہا کہ ہم نےتوان کےساتھ معاہدہ کیاہواہے۔عرفہ نےکہاکہ اس بات سےاللہ کی پناہ کہ ہم نےان کےساتھ رسول اللہﷺکی شان میں کھلم کھلا گستاخی کی اجازت دینےپرمعاہدہ کیاہو۔عمروبن العاص نےبھی ان کی بات سےاتفاق کیاہے(توہین رسالت کامسئلہ:ص23)
اس قصہ میں عرفہ بن حارث نےماورائےعدالت مجرم کومکامار کر اس کی ناک توڑدی۔اس وقت اس کی جگہ کےحاکم عمروبن عاص کےپاس جب مقدمہ لایاگیاتوانہوں نےعرفہ کویہ نہیں کہا کہ تم ازخودیہ اقدام کیوں کیا۔اب جوتم میرےپاس اس کولائےہوپہلےکیوں نہیں لائےتھے۔
(2)ایک موقع پر ابن یامین نضری نےمحمدبن مسلمہ کےسامنےسیدنامعاویہ(اور ایک روایت کےمطابق مروان بن الحکم)کی مجلس میں یہ کہہ دیاکہ یہودیوں کےقبیلہ بنی نضیرکےسردار کعب بن اشرف کوبدعہدی کرتےہوئےقتل کیاگیاتھا۔اس پرمحمد بن مسلمہ نے(جنہوں نےنبیؐ کےکہنےپرکعب بن اشرف کوقتل کیا تھا)سیدنامروان بن حکم یاسیدنامعاویہ سےکہا کہ آپ کی مجلس میں نبیؐ کی طرف بدعہدی کرنےکی نسبت کی جارہی ہےاور آپ اس پرکوئی انکار نہیں کررہے۔پھرانہوں نےابن یامین کودھمکی دی کہ میں تمہارےساتھ کسی مجلس میں نہیں بیٹھوں گااوراگر کہیں تم مجھےتنہا مل گئےتومیں تمہیں قتل کردوں گا۔اس کےبعد ایک موقع پر ابن یامین ان کےقابو میں آگیا توانہوں نےچھڑیوں سےاس کی خوب پٹائی کی اور کہاکہ میرے پاس اس وقت تلوار ہوتی تومیں تمہیں قتل کردیتا(توہین رسالت کامسئلہ:ص 23'24)
اس واقعہ میں حاکم کی مجلس میں محمد بن مسلمہ نےمعاملہ کوحاکم پرنہیں چھوڑاحالانکہ ہوسکتاہےکہ حاکم نےتوجہ دلائےجانےکےباوجود اس لیے تعزیر نہ کی ہوکہ اس میں کوئی مصلحت سمجھی ہومحمدبن مسلمہ نےیہ دیکھ کر کہ قابل تعزیر فعل پرحاکم نےکچھ بھی تعزیر نہیں کی نہ جسمانی نہ کلامی(یعنی ڈانٹ ڈپٹ)توانہوں نےحاکم کی مجلس میں ہی اسے قتل کرنےکی دھمکی دی اور بعد میں موقع پانےپر اس کی خوب پٹائی کی۔اور ساتھ میں یہ بھی کہا(کہ چونکہ توہین کی تعزیر میں اصل قتل ہے اس لیے)میرےپاس اس وقت تلوار ہوتی تو میں تمیں قتل کر دیتا۔حاکم نےان پر کوئی نکیر نہیں کی اور نہ ہی ان کےخلاف توہین عدالت کا مقدمہ لگایاجس کی وجہ یہی ہوسکتی ہےکہ حاکم کوبھی اندازہ ہوگیاہوگاکہ اس نےقابل تعزیر فعل پر کچھ تعزیر نہ کرکےغلطی کی تھی جوکہ حضرت معاویہ کےحاکم ہونےکی صورت میں اجتہادی تھی کیونکہ وہ فقیہ تھے۔
حاصل کلام یہ ہےکہ کوئی ذمی رسول اللہﷺکی شان میں گستاخی کرےتوامام شافعی'امام مالک اور امام احمدبن حنبل کےنزدیک تووہ واجب القتل ہےہی الا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لے۔امام ابوحنیفہ کےنزدیک بھی وہ واجب التعزیر ہےاور تعزیر میں بھی فوقیت قتل کوہے۔البتہ اگر کوئی حاکم اس کوکم سزادےتواس کابھی تحمل کیا جائےگابشرطیکہ مجرم نےاعلانیہ گستاخی نہ کی ہو چھپاکرکی ہو۔
تعزیر کرنےکاحق عدالت کوتوہےہی کوئی اور اگر مجرم کوتعزیر میں قتل کردےتویہ بھی جائز ہےبلکہ جب مسلمانوں کی حکومت اورعدالت سزادیناتودرکنار مجرم کی کافروں کی اوربددینوں کی پشت پناہی کررہی ہوتواس وقت عام لوگ اگر توہین رسالت کےواقعی مجرم کوخودقتل کردیں تویہ نہ صرف جائز ہےبلکہ نہی عن المنکر کےتحت ثواب کاکام بھی ہےجیساکہ محمدبن مسلمہ اورابن یامین نضری کےقصہ سےمعلوم ہوا۔
یہاں کوئی اعتراض کرےکہ نہی عن المنکر کےطور پرکوئی دوسراجرم کےارتکاب کی حالت میں ہی تعزیر کرسکتاہےبعدمیں نہیں تومحمدبن مسلمہ نےبعد میں کیسےکی؟اس کا جواب یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ نےابن یامین کی بات کوتوہین پرمحمول کیاہےاوروہ واجب التعزیر فعل تھا۔جب حاکم نےاس کوتعزیر نہ کی تومحمدبن مسلمہ نےخود تعزیر کی۔غرض یہ تھی توہین رسالت کاجرم تعزیر سےخالی نہ رہناچاہیے۔
تنبیہ1:یہاں یہ نکتہ اٹھایاجاسکتاہےکہ اس طرح سےکوئی توہین رسالت کےقانون کوغلط استعمال کرسکتاہےاور کسی سےاپنی دشمنی نکال کریہ دعوی کرسکتاہےکہ مقتول نےاس کےسامنےرسول اللہﷺکی شان میں گستاخی کی ہےجس سےمشتعل ہوکر اس نےمجرم کوقتل کردیایاکچھ لوگوں نےشورمچادیاکہ فلاں نےتوہین رسالت کاارتکاب کیاہےاورقاتل نےلوگوں کوسچا سمجھ کر بلاتحقیق اس کوقتل کردیا۔
اس کاجواب یہ ہےکہ ہم نےیہ نہیں کہا کہ جوکوئی مقتول یامضروب کےخلاف توہین رسالت کادعوی کرےتواس کادعوی ضرور سچاہوگابلکہ تحقیق کی جائےگی اوراگر ثابت ہوکہ قاتل یاضارب کادعوی جھوٹاتھااور اس نےاس قانون کی آڑ میں اپنی دشمنی نکالی ہےتو اس کواس کےمطابق سزادی جائےگی۔بہن اور باندی کےقتل کےجوقصےگزرےان میں بھی ذکرہےکہ رسول اللہؐ نےقاتلین سےتحقیق کی تھی۔علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہےکہ واقعی مجرم ہےاس کوسزادینےمیں حکومت اور عدالت لیت ولعل سےکام نہ لےتاکہ لوگ ان سےمایوس ہوکر از خود قتل کااقدام نہ کرنےلگیں۔
تنبیہ2:توہین رسالت پرقتل کےقانون کوکسی مسلمان کابراکہنااس کوبھی توہین رسالت لازم ہےکیونکہ جس قانون کی بنیادشرعی دلیل ہواور اس سےلوگوں کوزجرہواور جس پر رسول اللہؐ نےعمل کرایاہواور صحابہ نےعمل کیاہواس کی توہین کرنا ایک توشریعت کےحکم وقانون کی توہین کرنا ہےجوخودکفر کی بات ہےاوردوسراکہ یہ کہنےکایہ مطلب نکلتاہےکہ کہنےوالاتوہین رسالت کےسدباب کوپسندنہیں کرتااورچاہتاہےکہ صاحبِ رسالت کی شان میں لوگوں کوجووہ چاہیں کہنےکی آزادی ہو۔یہ بھی ایک بڑی خرابی ہےاور اس کی اجازت نہ کسی مسلمان کوہےنہ کسی کافرکو۔
عمارخان صاحب کےاستدلال کا جواب:عمارخان نےاپنےمدعایعنی سزاکےنفاذکااختیارحاکم تک محدودکرنےمیں مندرجہ ذیل حدیث سےاستدلال کیاہے:جب زناکاجرم ثابت کرنےکےلیےچارگواہ پیش کرنےکاقانون نازل ہواتوسعد بن عبادہ نےکہاکہ میں تواگر اپنی بیوی کےساتھ کسی شخص کودیکھوں گاتوسیدھی تلوار کےساتھ وارکر کےاس کاکام تمام کردوں گا۔یہ تبصرہ رسول اللہﷺتک پہنچاتوآپ نےفرمایا تم سعد کی غیرت پرتعجب کرتےہو'بخدامیں سعد سےزیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سےبھی زیادہ غیرت مندہے۔اس نےغیرت ہی کی وجہ سےبےحیائی کےکھلےاورچھپےکاموں کوحرام کیاہےلیکن بات یہ ہےاللہ سےبڑھ کر کسی کویہ بات پسندنہیں کہ مجرم کوصفائی پیش کرنےکاموقع دیاجائے۔(توہین رسالت کامسئلہ ص:92)
جواب:اس حدیث کی متعدد صورتیں بن سکتی ہیں:
(1)اجنبی مردوعورت دونوں قریب بیٹھےہوں یاکھڑےہوں لیکن کوئی ناجائز حرکت میں مبتلانہ ہوں۔ایسی صورت میں مرد وعورت کواپناعذرپیش کرنےکاموقع ملناچاہیےاور شوہر کوچاہیےکہ وہ پاس پڑوس سےمدد لےکر غیرمرد کوپکڑکر عدالت میں لےجائےیاحاکم کےپاس پیش کرے۔دوسرےلفظوں میں وہ ان کوتھانےمیں پیش کرے۔اس کی وجہ یہ احتمال ہےکہ مجرم نےعورت کومجبورکیاہو۔
(2)دونوں قابل اعتراض حالت میں ہی یعنی جماع کی حالت میں ہوں یامردعورت کواپنےساتھ چمٹائے ہوئےہواور عورت مزاحمت نہ کررہی ہوبلکہ اس کی مرضی معلوم ہوتی ہوتواگریہ ممکن ہوکہ شوہر اس وقت میں گواہ بنالےتب توخود قتل نہ کرےبلکہ ان کوپکڑکر عدالت میں پیش کرےاورگواہ گواہی دیں۔
(3)اگرشوہر کوخیال ہوکہ جتنی دیرمیں وہ گواہ لائےگااتنی دیرمیں مردمجرم بھاگ چکاہوگااوروہ اپنی غیرت کی وجہ سےیانہی عن المنکر کےجذبےسےدونوں کوقتل کردےتو عنداللہ وہ مجرم نہ ہوگابلکہ مستحق ثواب ہوگالیکن دنیاکی عدالت میں بہر حال اس کواپنی براءت ثابت کرنےکےلیےگواہ یادیگرثبوت پیش کرنےہوں گے۔اگرشوہر کےسچےہونےکےکچھ بھی قرائن نہ ہوں توشوہر کوقصاص میں قتل کیاجاسکتاہےیااس سےدیت لی جاسکتی ہے۔
(4)اگرشوہر کی آمد محسوس کرکےمرد کسی طرح سےبھاگ جائےاور عورت موجود ہوتو مرد اس سےلعان کرسکتاہے۔
عمارخان صاحب کےسابقہ اعتراض کادوسراجواب
عمارخان لکھتےہیں:
ہمارےہاں چونکہ ایک خاص جذباتی فضامیں بہت سےحنفی اہل علم بھی فقہ حنفی کےکلاسیکی موقف کوبعض متاخرین کےفتووں کےپیچھے چھپانےکی کوشش کررہےہیں۔(توہین رسالت کامسئلہ:ص54)
جواب:متقدمین میں سےامام محمدکاقول پیچھےگزراہےکہ جواعلانیہ توہین رسالت کرےاسےقتل کیاجائے۔
(2)ہمیں متاخرین کاقول حدیث اورعمار خان کےذکر کردہ واقعات کےزیادہ موافق نظر آیااس لیےہم نےاس کواختیار کیااور اس کواختیار کرنااگر بےاصولی ہوتی تومتاخرین وہ قبول ہی نہ کرتے۔
(3)متاخرین کاقول ہمیں اپنےزمانےکےحالات کےبھی زیادہ موافق نظر آیاہے۔
(4)خود عمار خان کی بات سےبھی ان کےاعتراض کےجواب نکلتاہے۔وہ لکھتےہیں:
جہاں تک ریاست کی سطح پرقانون سازی کاتعلق ہےتو ظاہر ہےکہ قانون ساز ادارےایک فقہی مکتب فکر کی آراکےپابند نہیں ہیں۔ایک اجتہادی مسئلےمیں انہیں پوراحق حاصل ہےکہ وہ دین وشریعت کی جس تعبیر کوزیادہ درست سمجھیں(خواہ وہ کسی بھی فقہی مکتب کی ہواور خواہ وہ متقدمین کی ہو یامتاخرین کی ہو...عبدالواحد)اسی پر قانون سازی کی بنیاد رکھیں لیکن اس کی وجہ سےنہ توعلمی دائرےمیں بحث ومباحثہ پر کوئی قد غن عائد کی جاسکتی ہےاور نہ اس امکان کادروازہ بند کیاجاسکتاہےکہ اگر غوروفکر اور بحث ومباحثہ کےنتیجےمیں قانون ساز ادارےکسی دوسری تعبیر کی صحت پر مطمئن ہوجائیں تو پھر وہ اسےقانون کادرجہ دےدیں۔(توہین رسالت کا مسئلہ:ص89)
قانون سازی کےکیااصول ہیں؟اس وقت ہماری گفتگوکایہ موضوع نہیں ہے۔لیکن عمار خان صاحب قانون سازی کےمتعلق اپنےذکر کردہ اصول(یعنی یہ کہ قانون ساز ادارےایک فقہی مکتب فکر کی آراکےپابند نہیں ہیں)کےبرخلاف اپنےمقصد کو حاصل کرنےکےلیےموجودہ حنفی اہل علم کوجمودوتعصب کا سبق پڑھا رہےہیں کہ تم توحنفی ہو اور اصلی حنفیت کلاسیکی حنفیت ہےمتاخرین کی نہیں لہذاتم پر لازم ہےکہ تم اس مسئلےمیں کلاسیکی حنفیت پرجمےرہو(امام محمد اگرچہ کلاسیکی فقہا میں سےہیں لیکن نہ جانےعمارخان صاحب ان کےقول کوکیوں بھول جاتےہیں...عبدالواحد)اور اس سےکچھ انحراف نہ کرواور متاخرین کےفتووں کی طرف مت جاؤ۔اگرتم میں سےمتاخرین اور ائمہ ثلاثہ کےفتووں کولیاتوتم نےان کےپردےمیں کلاسیکی حنفیت کوچھپایااوران تمام حکمتوں اور مصلحتوں کوقربان کیاجن کی رعایت خودنبیﷺاور آپ کےصحابہ نےکی۔
عمارخان صاحب سےمتعلق دوباتیں
پہلی بات:عمارصاحب نےیہ کتاب کافروں اور دین بیزارلوگوں کے لیےلکھی ہے۔جب جمہوری اصولوں کےمطابق ایک مسلمان ملک کےمسلمان باشندوں کوبھی خلاف ورزی کو جرم قرار دےکر اس کےسدباب کےلیے ان کاسزائےموت مقرر کرنا ہر لحاظ سےجمہوری اصولوں کےمطابق ہےاور اس سزا کی بہر حال شرعی بنیادیں بھی موجود ہیں اور حالات میں کوئی ایسی تبدیلی بھی نہیں آئی جوخود کسی ترمیم کاتقاضاکرتی ہواور نہ ملک کےمذہبی وابستگی رکھنےوالوں کی طرف سےکسی ترمیم کامطالبہ ہواہوتوعمار خان صاحب ان حالات میں اپنی تحقیق کیوں لائےہیں؟یہ ظاہر ہےکہ ملک کےجمہوری مسلمانوں کو ان کی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ توحسب حال قانون بناچکےتھےاور اس پرمطمئن بھی تھےپھر ہم ان کی کتاب کودیکھتےہیں تومعلوم ہوتاہےکہ یہ جمہوری مسلمانوں میں انتشار پیداکرتی ہےاور موجودہ حالات میں اس کافائدہ صرف کافروں کواور دین سےبےزارلوگوں کوہے۔اس لیےہم کہہ سکتےہیں کہ چونکہ عمارخان صاحب کی یہ کتاب جب صرف کافروں اوردین سےبیزار لوگوں کومفیدہےتویہ حقیقتاًان ہی کی خاطر لکھی گئی ہے۔
دوسری بات:عمار خان ناصر کی حقیقت یہ ہےکہ عمار خان صاحب اس طبقہ سےتعلق رکھتےہیں جن کےبارےمیں حدیث میں آیاہےکہ وہ دیکھیں گےکہ وہی معمول کی باتیں کرتےرہوتولوگوں کی خاطر خواہ توجہ نہیں ملتی لہذاکوئی نئی بات کروجس سےلوگ متوجہ ہوں اورسمجھیں کہ اصل علم ان کےپاس ہے(دوسرےتودقیانوسی لوگ ہیں جن کو اس ترقی یافتہ دور میں زندہ رہنے کا حق ہی نہیں اوراگر رہیں توذلیل و عاجز ہوکر رہیں)
تنبیہ:رہی یہ بات کہ عمار صاحب کی یہ تحریک آئندہ کےغور فکر میں اور آئندہ کی قانون سازی میں مفیدہوگی تو اول توعمارخان کی ساری تحریک وتبلیغ کامدار ابن عابدین کی ترجیح پر ہےحالانکہ ابن عابدین کو یہاں ابن تیمیہ کی عبارت سےمغالطہ ہواہے۔جیساکہ ہم تفصیل سےبیان کرچکےہیں۔دوسرایہ کہ ان کا یہ موقف ایسانہیں ہےجس سےاہل علم بےخبر ہوں۔ابن عابدین کارسالہ جو اس بارےمیں ہےوہ ہر دور میں چھپتا ہی رہاہےاور اہل علم کےمطالعہ میں رہتاہی ہے۔(مکمل مضمون کےلیے مفتی صاحب موصوف یا ادارہ محدث میں رابطہ کریں)
جامعہ ابوہریرہ، نوشہرہ اور ماہنامہ القاسم کے مدیر مولانا عبدالقیوم حقانی کا مکتوبِ گرامی برادرمکرم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب زیدمجدکم 25اکتوبر2011ء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!
ماہنامہ ' محدث' علم و قلم ، تحقیق و تدقیق اور گفتگو میں شائستگی و احترام ، بحث میں اعتدال و میانہ روی اور مضامین کے معیار و انتخاب میں ایک عمدہ نمونہ بلکہ تمام جرائد کےلیے ایک آئیڈیل لائحۂ عمل ہے۔ اب کے بار جو قانون امتناعِ توہین رسالت بالخصوص گستاخِ رسول کی سزا اور احناف کے موقف کے موضوع پر ماہنامہ ' محدث' نےجس طرح بسط و تفصیل سے اور دلائل و براہین کی روشنی میں علوم و معارف کے مربوط اور مستحکم حوالہ جات سے جامع مقالے شائع کیے ہیں، اس حوالے سے ماہنامہ ' محدث' کو خصوصی امتیاز و مقام حاصل ہے۔
؏ تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا!!
دوسری طرف ' حنفیت کےنام پر غامدیت کی ترجمانی' حد درجہ لائقِ صد مذمت کردار ہے، اس سلسلہ میں نرم گوشہ اور تسامح پوری ملت کے لیے خطرناک ہے۔ عمار خان ناصر کی تحریریں، علم و ادب، تصنیف و تالیف، ذوقِ مطالعہ اور تحریر کا ملکہ قابل صد ستائش صحیح مگر غامدی سے تلمذ، ان سے متاثر ہونے اور ان کی ملازمت اور پھر انہی کے فکر و نظر کا پرچار کرنا اتنہائی مہلک، خطرناک، اتحادِ امت، وحدتِ ملت اور امت کی مستحکم عمارت میں قب لگانے کے مترادف ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ آب نے جو اس حوالے سے مفصل مقالہ لکھا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے۔ ہاں! ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ بعض نادان دوست اسے حنفیت اور اہل حدیث کی جنگ کا رنگ دے کر غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر جرح و اعتراض اور مخالفت و مزاحمت کے اندیشوں سے ڈر کر موقفِ حق کو چھوڑنا یا مشن سے ہٹ جانا کوئی دانشمندی ، عقل مندی اور دانائی نہیں۔ میری طرف سےہدیۂ تبریک قبول فرمائیے۔ مرداں چنیں مے کنند!
میں نے عمار خان ناصر کے حوالے سے ' القاسم' میں بہت کچھ لکھا ہے مگر ادھر سے اصل موضوع پر کوئی جواب نہیں دیا گیا اور نہ چھپا۔ صرف لیپا پوتی کرکے غامدی مشن کی تکمیل اور اس کے فروغ و مشن پر کام جاری رکھا جارہا ہے۔ ایں چہ بوالعجبی است!
والسلام عبدالقیوم حقانی