عشرہ ذوالحجہ کے فضائل ومسائل
ذوالحجہ کا مہینہ اسلامی تاریخ میں ممتاز اہمیت کا حامل ہے اور بعض خصائص کی وجہ سے اس کی اہمیت دیگر مہینوں سے زیادہ ہے'ملاحظہ فرمائیے:
1.حرمت کا مہینہ
ذوالحجہ حرمت والا مہینہ ہے۔اس اعتبار سے اس کا احترام'باہمی جنگ وجدل سے گریز کرنا'حتی کہ اگر دشمن حملہ آور نہ ہو تو ان سے بھی جنگ میں پہل کرنا حرمت والے مہینوں میں جائز نہیں۔فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم ...﴿
٣٦﴾... سورة التوبة
بے شک اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس میں سے چار حرمت والے ہیں یہی سیدھا دین ہے سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
یہ آیت دلیل ہے کہ چار مہینے حرمت والے ہیں۔ان مہینوں کی وضاحت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔سیدنا ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم:ثلاث متواليات ذوالقعدة و ذوالحجة والمحرم و رجب مضرالذى بين جمادى و شعبان"(صحیح بخاری 4662)
زمانہ گھوم کر (مہینوں کی ترتیب کی)اس ہیئت میں آگیا ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔تین مہینے ذوالقعدہ'ذوالحجہ اور محرم لگاتار ہیں اور چوتھا مہینہ رجب جو جمادی(الآخرۃ)اور شعبان کے درمیان ہے۔
2.حج کا مہینہ
ماہ ذوالحجہ کو اس اعتبار سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ یہ حج کا مہینہ ہے اور مسلمانوں کا مقدس فریضہ حج اس ماہ ادا کیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں۔
3.ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن خاص اہمیت کے حامل ہیں اور ان دنوں میں فرائض و نوافل اور نیک اعمال کا اجروثواب باقی ایام میں کی جانے والی عبادات سے افضل و برتر ہے۔دلائل حسبِ ذیل ہیں:
(1)فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿وَالفَجرِ ﴿١﴾ وَلَيالٍ عَشرٍ ﴿٢﴾... سورة الفجر''فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم''
اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں جن کی مزید فضیلت اس حدیث میں ہے۔سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:
''ماالعمل فى أيام العشر أفضل منها في هذه قالوا:ولاالجهاد في سبيل الله؟قال:ولاالجهاد إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشيئ''(صحیح بخاری:969)
ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل کوئی عمل نہیں۔صحابہ کرام نے عرض کیا:کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟آپﷺنے فرمایا:جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو اس حال میں نکلا کہ اس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا۔
(1)معلوم ہوا کہ عشرہ ذوالحجہ میں کئے گئے اعمال کا ثواب دیگر دنوں کے اعمال سے زیادہ ہے۔لہذاان ایام میں عبادات'نوافل'نفلی روزوں اور اذکار کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
(2)البتہ ایسا مجاہدجو مال وجان لے کر غلبہ اسلام کے لئےٰ دشمنانِ دین کے خلاف برسرپیکار ہےاور راہِ جہاد میں تن من دھن قربان کر دے۔اس کا یہ عمل عشرہ ذوالحجہ میں کئے گئے عمل کے برابر یا اس سے افضل ہے۔
عشرہ ذوالحجہ کے فضائل کے متعلق ضعیف روایات
عشرہ ذوالحجہ کے متعلق کتاب و سنت سے صحیح دلائل پیچھے بیان ہو چکے ہیں۔البتہ ان ایام کے فضائل میں کچھ ضعیف و موضوع روایات بھی ہیں جنہیں بیان کرنے اور ضبطِ تحریر میں لانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ضعیف و موضوع روایات سے نہ تو کوئی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی شرعی مسئلہ کشید ہوتا ہے بلکہ نبیؐ کی طرف جھوٹی روایت منسوب کرنے کی وجہ سے واعظ و مبلغ گناہ گار اور شدید وعید کا مرتکب ٹھرتا ہے۔ذیل میں عشرہ ذوالحجہ کے فضائل کے متعلق کچھ ضعیف و موضوع روایات پیش خدمت ہیں:
(1)سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
"من صام العشر فله بكل يوم صوم شهر وله بكل يوم التروية سنة وله بصوم يوم عرفة سنتان"(کتاب الموضوعات لابن الجوزی:1137)
جس نے عشرہ ذی الحجہ کے روزے رکھے اس کے لئےہر دن کے عوض ایک مہینے کے روزے یوم ترویہ(آٹھ ذی الحجہ) کے بدلے ایک سال کے روزوں اور یومِ عرفہ کے بدلے دو سال کےروزوں کا ثوا ب ہے۔
یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ ابن جوزی نے اسے''الموضوعات''میں بیان کیا ہے۔(حافظ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔سلیمان تیمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن سائب کلبی کذاب راوی ہے ۔(کتاب الموضوعات:2؍566)امام بخاری کہتے ہیں کلبی کو یحیی بن معین اور عبدالرحمن بن مہدی نے متروک قرار دیا ہے۔اس کے بعد امام بخاری علی عن یحیی عن سفیان کی سندسے بیان کرتے ہیں کہ سفیان نے بیان کیا کہ مجھے کلبی نے کہا:كل ما حدثتك عن أبي صالح فهو كذب .....
ميں تجھے ابوصالح سے جو بھی حدیث بیان کروں وہ جھوٹ ہے۔(میزان الاعتدال:3؍577 )
اور سند مذکور میں کلبی ابوصالح سے روایت کر رہے ہیں جوان کی اپنی زبانی کذاب وافترا ہے۔)
(2)ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا:
"ما من أيام أحب إلى الله أن يتعبد له فيها من عشر ذى الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر"(جامع ترمذی:758 سنن ابن ماجه:1728 شعب الایمان للبیهقی:3757 مسند ابی عوانه:3021 السلسلة الضعیفة:5142؍م)
عشره ذوالحجہ سے بڑھ کر کوئی ایسے ایام نہیں جن میں عبادت اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہو۔ان میں ہر دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر اور ان میں سےہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مسعود بن واصل اور نہاس بن قہم ضعیف راوی ہیں۔
(3)عن عائشة أن شابا كان صاحب سماع وكان إذا أهل هلال ذى الحجة أصبح صائما فأرسل رسول اللهﷺفقال:مايحملك على صيام هذه الأيام؟قال:بأبي و أمي يارسول الله!إنها أيام المشاعر وأيام الحج عسى الله أن يشركنى في دعائهم-فقال:لك بكل يوم تصومه عدل مائة رقبة تعتقها،ومائة بدنة تهديها إلى بيته الله،ومائة فرس تحمل عليها في سبيل الله،فإذا كان يوم التروية فذلك عدل ألف رقبة،وألف بدنة وألف فرس تحمل عليها في سبيل الله،فإذا كان يوم عرفة فذلك عدل ألفي رقبة و ألفي بدنة،وألفي فرس تحمل عليها في سبيل الله،وصيام سنتين سنة قبلها و سنتين بعدها"(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی:6؍2153 کتاب الموضوعات لابن الجوزی:1136 میزان الاعتدال:3؍669)یہ حدیث ضعیف ہے۔
سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان موسیقی کارسیا تھا لیکن جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوتا تو وہ روزہ رکھنا شروع کر دیتا۔رسول اللہﷺ نے اسے بلوایا اور پوچھا ان دنوں کے روزوں پر تجھے کون سی چیز آمادہ کرتی ہے؟اس نے عرض کیا یارسول اللہﷺمیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ مناسکِ حج کے دن ہیں ہو سکتا ہے اللہ تعالی مجھے ان حجاج کی دعا میں شامل کر لے اس پر آپﷺ نے فرمایا:تیرے لئے ہر دن کے بدلے جو تو روزہ رکھتا ہے سو گردن آزاد کرنے،سو اونٹ قربانی کرنے جو تو بیت اللہ کی طرف قربانی کےلئے بھیجے اور سو گھوڑے جو تو راہِ جہاد میں سواری کےلئے پیش کرنے کے برابر ثواب ہے اور جب ترویہ(آٹھ ذوالحجہ)کا دن ہو(اس دن کے روزے کا ثواب)ایک ہزار گردن،ایک ہزار قربانی کے اونٹ اور ایک ہزار گھوٖڑےجو تو راہِ جہاد میں سواری کے لئے وقف کرے کے برابر ثواب ہے اور عرفہ(نو ذوالحجہ) کا دن یہ(اس دن کے روزے کا اجر)دو ہزار گردن آزاد کرنے،دو ہزار اونٹ قربان کرنے اور دو ہزار گھوڑے جو جہاد کےلئے وقف ہیں کے برابر اور دو سال کے گزشتہ روزوں اور دو سال کے آئندہ روزوں کے برابر اجروثواب ہو گا۔
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع کے قبیل سے ہے اور اس کا راوی محمد بن عمر المحرمی بہت ہی جھوٹا شخص ہے۔(کتاب الموضوعات:2؍560)محمد بن عمر المحرمی متروک و کذاب راوی ہے۔
ابو حاتم کہتے ہیں:یہ بہت ہی کمزور راوی ہے اور ابن معین کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں کچھ اہمیت کا مالک نہیں۔(میزان الاعتدال:3؍669)
عشرہ ذوالحجہ افضل ہے یارمضان المبارک کا آخری عشرہ؟
ان دونوں عشروں کی افضلیت کے متعلق کتاب و سنت میں متعدد دلائل آتے ہیں۔
اب ان میں سے افضل عشرہ کون سا ہے تو اس بارے میں صحیح اور درست موقف یہ ہے کہ سال بھر کے دنوں سے عشرہ ذوالحجہ افضل ہے اور سال بھر کی راتوں میں سے رمضان کی آخری دس راتیں افضل ہیں۔اس بارے میں امام ابنِ تیمیہ کا فتوی بڑا ممدو معاون ہے۔
سوال:عشرہ ذی الحجہ اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سے کون سا افضل ہے؟
جواب:ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔
حافظ ابن قیم بیان کرتے ہیں کہ جب فاضل اور سمجھدار شخص اس پر غوروخوض کرے گا تو وہ اسے شافی و کافی پائے گا کیونکہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ ایام کے اعمال اللہ تعالی کو دس ذوالحجہ کے اعمال سے زیادہ محبوب نہیں اور ان ایام میں یومِ عرفہ،یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں(جو خاص فضیلت کے حامل ہیں)اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہﷺرات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شبِ قدر بھی۔چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا اس کےلئے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کر سکے۔(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ:25؍287)
عرفہ کے روزہ کی فضیلت
عرفہ کا روزہ انتہائی فضیلت کا حامل ہے کہ اس دن کے روزے سے دو سالوں،ایک سال گزشتہ اور سال آئندہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں لہذا اس دن کے روزہ کا اہتمام کرنا انتہائی مستحب عمل ہے۔سیدنا قتادہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
''صیام یوم عرفة احتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده''(صحیح مسلم:11562 سنن ابو داود:2420 جامع ترمذی:749 سنن ابن ماجہ:1713)
میں اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ دوسال:ایک سال گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ کا کفارہ ہے۔
علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے'سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔اگر صغیرہ گناہ نہ ہوں تو کبائر میں تخفیف واقع ہوتی ہے اور اگر روزہ دار صغائروکبائر سے پاک ہو تو اس مناسبت سے درجات بلند ہوتے ہیں۔چنانچہ ملاعلی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ المصابیح میں امام الحرمین کا قول بیان کرتے ہیں:
عرفہ کا روزہ صغیرہ گناہ مٹاتا ہے۔
قاضی عیاض کہتے ہیں:
اہل السنۃ والجماعۃ بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔البتہ کبیرہ گناہ توبہ یا رحمتِ الہی ہی سے مٹتے ہیں۔پھر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرفہ کا روزہ اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ کیسے بنتا ہے حالانکہ اس سال کے گناہ تو آدمی پر ہوتے ہی نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس روزہ دار کو آئندہ سال کے گناہوں سے محفوظ رکھے گااور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی اسے رحمت اور ثواب سے اس قدر نوازے گاکہ یہ رحمت و ثواب گزشتہ و آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔(تحفۃ الاحوذی3؍377)
ذوالحجہ کے نو روزے رکھنا مسنون عمل ہے!
ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں کےروزے رکھنا نبیؐ کی سنت اور مستحب عمل ہے لہذا ان دنوں کے روزوں کا اہتمام مشروع ہے۔بعض امہات المؤمنین سے مروی ہے:
أن النبيﷺ كان يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر أول اثنين من الشهر والخميس (سنن ابو داود:2437)
بلاشبہ نبیﷺذوالحجہ کے پہلے نو دن کا'دس محرم کا'ہر مہینے تین دن اور مہینے کی پہلی سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔اس کےتمام راوی ثقہ ہیں اور ہنیدہ بن خالد صحابی اور ان کی زوجہ محترمہ صحابیہ ہیں لہذا ان کا غیر معروف ہونا قادح نہیں۔
ایک تعارض اور اس کا حل:مذکورہ بالا حدیث دلیل ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے رکھنا مسنون و مستحب عمل ہے۔لیکن اس بیان کردہ حدیث کے معارض سیدہ عائشہؓ کی یہ حدیث ہے:
ما رأيت رسول اللهﷺ صائما في العشر قط(صحیح مسلم:1176)
میں نے رسول اللہﷺکو ذوالحجہ کے دس دنوں میں کبھی بھی روزہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔
اس تعارض کا حل امام نووی یوں پیش کرتے ہیں:
علماء بیان کرتے ہیں کہ حدیثِ عائشہؓ سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ ذوالحجہ کے روزے مکروہ ہیں-یہاں عشرہ ذوالحجہ سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں۔یہ مفہوم کشید کرنے سے ان روزوں کی کراہت پابت نہیں ہوتی بلکہ ان دنوں کے روزے بہت ہی مستحب ہیں۔بالخصوص نو ذی الحجہ یعنی عرفہ کا روزہ تو خاص استحباب کا حامل ہے اس کی فضیلت کے متعلق احادیث گزر چکی ہیں اور صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:عشرہ ذی الحجہ کے مقابلے میں باقی ایام کی عبادات افضل نہیں۔(یہ روایت دلیل ہے کہ دیگر عبادات کی طرح ان دنوں کے روزے بھی افضل و مستحب ہیں)
حدیثِ عائشہؓ کہ رسول اللہﷺنے عشرہ ذوالحجہ کے روزے نہیں رکھے'سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے کسی عارضے'مرض یا سفر وغیرہ کی وجہ سے ان دنوں کے روزے نہ رکھے ہوں یا عائشہؓ نے آپؐ کو ان دنوں میں روزےسے نہ دیکھا ہواور ان کی نفی سے حقیقت میں روزوں کی نفی لازم نہیں آ تی کیونکہ ان روزوں کے اثبات پر ابوداود اور سنن نسائی کی یہ روایت بھی دالّ ہے کہ رسول اللہﷺذوالحجہ کے نو روزے رکھا کرتے تھے۔(شرح النووی8؍72)
کیا عرفہ کا روزہ مکہ مکرمہ کی تاریخ کے مطابق رکھا جائے؟
عرفہ کا روزہ سعودی تاریخ کے مطابق رکھا جائے یا ہر علاقے کے لوگ قمری تاریخ کے اعتبار سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھیں۔موجودہ دور میں یہ ایک اشکال پیدا کر کے یومِ عرفہ کی تعیین میں شکوک و شبہات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یومِ عرفہ کی آڑ میں اس مقدس روزہ کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حالانکہ اس موقف کے قائل علماءرمضان کے روزوں'دیگر نفلی روزوں اور شبِ قدر کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے نتھی کرنے کی فضول کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی۔کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے۔چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یومِ عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عیدالاضحی منائی جارہی ہوتی ہے تو اس غیرمنصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گےکیونکہ عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔اس اعتراض کا مزید تشفی بخش جواب آئندہ فتاوی میں ملاحظہ کریں:
حافظ عبدالستار حماد﷾ کا فتوی
سوال:سیف الرحمن صدیقی سوال کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھنا چاہئے یا جس دن مکہ میں عرفہ کا دن ہوتا ہے؟خواہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی سات یا آٹھ تاریخ ہو۔
جواب:رسول اللہﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔(صحیح مسلم:11562 سنن ابی داؤد: 2420 جامع ترمذی:749 سنن ابن ماجہ:1713)
رسول اللہﷺرسول رحمت ہیں اور آسان دین لے کر آئے ہیں۔اس رحمت اور آسانی کا تقاضا یہ ہے کہ عرفہ کا روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھا جائے۔سعودیہ میں یومِ عرفہ کے ساتھ اس کا مطابق ہونا ضروری نہیں۔اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
(1)میں نے علامہ البانی کی تصانیف میں خود اس روایت کو دیکھا ہے لیکن اب اس کا حوالہ مستحضر نہیں۔اس روایت میں یومِ عرفہ کے الیوم التاسع کےالفاظ ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھا جائے۔
(2)تیسیر اور رحمت کا تقاضا اس طرح ہے کہ اس امت کو عبادت کی بجاآوری میں اپنے احوال وظروف سے وابستہ کیا گیا ہے۔اگرچہ آج ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیں لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے جن سے سعودیہ میں یومِِ عرفہ کا پتا لگایا جا سکتا اب بھی دیہاتوں اور دراز کے باشندوں کو کیسے پتا چلے گا کہ سعودی میں یومِ عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزے کا اہتمام کریں۔لہذا اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نویں ذوالحجہ کا تعین کر کے عرفہ کا روزہ رکھ لیا جائے۔
(3)روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کےلحاظ سےیومِ عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کےلئےروزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگا؟اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو وہ رات کا روزہ رکھیں گے حالانکہ رات کا روزہ شرعاًممنوع ہےاور اگر وہ اپنے حساب سےروزہ رکھیں گے تو عرفہ کا روزہ ختم ہو چکا ہوگااس لئے آسانی اسی میں ہے کہ اپنے حالات وظروف کے اعتبار سے روزہ رکھاجائے۔
(4)ہمارےہاں پاکستان میں یومِ عرفہ کو سات یا آٹھ ذوالحجہ ہوتی ہے۔کچھ مغربی ممالک ایسے بھی ہیں کہ وہاں یومِ عرفہ کو ذوالحجہ کی دس تاریخ ہوتی ہے۔اگر سعودیہ کے اعتبار سے انہیں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کا مکلف قرار دیا جائے تو وہ اپنے لحاظ سے دس ذوالحجہ کو روزہ رکھیں گے۔حالانکہ رسول اللہﷺنے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔لہذا ضروری ہے کہ اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھیں۔
(5)ہمارے اور سعودیہ کے طلوع و غروب میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔اگر عرفہ کے روزہ کو سعودیہ میں یومِ عرفہ سے وابستہ کر دیا جائے تو جب ہم روزہ رکھیں گے تو اس وقت سعودیہ میں یومِ عرفہ کا آغاز نہیں ہوا ہو گا۔اسی طرح جب ہم روزہ افطار کریں گے تو سعودیہ کے لحاظ سے یومِ عرفہ ابھی باقی ہوگا۔یہ الجھنیں صرف اس صورت میں دور ہو سکتی ہیں کہ ہم اپنے روزے کو سعودیہ سے وابستہ نہ کریں بلکہ اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا تعین کر لیں۔ان وجوہات کا تقاضا ہے کہ عرفہ کا روزہ ہم اپنے لحاظ سے نویں ذوالحجہ کو ہی رکھیں خواہ یومِ عرفہ ہو یا نہ ہو۔(فتاوی اصحاب الحدیث1؍221'220)
حافظ عبدالمنان نورپوری﷾ کا فتوی
سوال:نو ذوالحجہ کے روزے کے فضائل تو حدیث میں ثابت ہیں۔رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یومِ عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کے بدلے میں اللہ تعالی ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے اور یومِ عاشوراکے روزہ کے بدلے میں گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف فرمائیں گے۔(مختصرصحیح مسلم:620)
ایک عالمِ دین جو بخاری پڑھاتے ہیں ان کا موقف ہے کہ عرب کا نو ذوالحجہ کا روزہ ہمارے ہاں آٹھ ذوالحجہ کا روزہ بنتا ہے لہذا ہمیں نو کے بجائے آٹھ ذوالحجہ کا روزہ رکھنا چاہئے۔نیز عرفہ کا روزہ میدانِ عرفات میں حاجی صاحبان رکھیں یا نہ رکھیں؟
جواب:پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قمری تاریخ کا فرق ہے۔کبھی ایک یوم اور کبھی دو یوم'معلوم ہے بڑی عید اور چھوٹی عید پاکستان کی تاریخ کے مطابق منائی جاتی ہے اسی طرح رمضان المبارک کا آغاز بھی ملکی تاریخ کے موافق ہوتا ہے۔ان تینوں امور میں اپنے ملک کی قمری تاریخ کو رکھا جاتا ہے۔لہذا نوذوالحجہ میں بھی اپنے ملک ہی کی قمری تاریخ معتبر ہو گی۔
حضرت کریبؓ جو ابن عباسؓ کے غلام ہیں سے مروی ہے کہ عباسؓ کی زوجہ ام فضلؓ نے انہیں(کریبؓ کو)معاویہؓ کے پاس شام بھیجا۔کریبؓ کہتے ہیں کہ میں نے شام آکر ان کا کام کیا۔میں ابھی شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا۔میں نے بھی جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آگیا۔عبداللہ بن عباسؓ نے چاند کے بارے میں مجھ سے دریافت کیا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا؟میں نے جواب دیا ہم نے تو جمعہ کی رات کو دیکھا تھا۔عبداللہ بن عباسؓ نے پھر پوچھا کیاتم نے بھی دیکھا تھا؟میں نے جواب دیا ہاں'بہت سے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا اور سب لوگوں نے معاویہؓ کے ساتھ(دوسرے دن بھی یعنی ہفتہ کا)روزہ رکھا تھا۔عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن(یعنی ایک دن کے فرق سے)دیکھا ہے۔ہم اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس دن پورے کر لیں۔کریبؓ نے کہا کیا آپ معاویہؓ کی رؤیت اور ان کے روزے کو کافی نہیں سمجھتے؟فرمایا:نہیں!ہمیں رسول اللہؐ نےاسی طرح حکم فرمایا ہے۔(مختصرصحیح مسلم:578)
اس حدیث سے پتا چلا کہ ہر علاقے کا علاقائی طور پر چاند کا نظر آنا اور دیکھنا معتبر ہو گا۔
اور روزہ عیدین'یوم عاشوراء'یوم عرفہ اور دوسرے تمام شرعی احکامات میں ہر علاقہ کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہو گی۔(احکام ومسائل از حافظ عبدالمنان نور پوری:2؍419'418)
سال بھرکا افضل دن
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن اس بنا پر بھی اہم ہیں کہ ان میں دسویں ذوالحجہ کا دن سال بھر کے ایام سے افضل و ارفع ہے۔عبداللہ بن قرطؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
''إن أعظم الأيام عندالله يوم النحر ثم يوم القر وهو الذي يليه''(سنن ابی داؤد:1765 مسند احمد:4؍530 صحیح ابن خزیمہ:2917 مستدرک حاکم:4؍221 اسنادہ صحیح)
اللہ تعالی کے نزدیک عظیم ترین دن یوم نحر(دس ذوالحجہ)پھر دس ذوالحجہ سے اگلا دن(گیارہ ذوالحجہ)ہے۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ یوم نحر سال کے تمام ایام سے افضل دن ہے اور امام ابن تیمیہ نے بھی اسی کی تائید کی ہے۔
سوال:یومِ عرفہ'جمعہ'عیدالفطراور یوم النحر میں سے کونسا افضل دن ہے؟
جواب:علماء کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ ہفتہ کےدنوں میں سے جمعہ کا دن افضل ہے اور سال کےتمام دنوں سے یوم نحر(دس ذوالحجہ)افضل ہے۔البتہ کچھ علماء نے یوم عرفہ کو بھی افضل قرا ردیا ہے لیکن پہلا موقف راجح ہے کیونکہ اس کی فضیلت میں نبیؐ سے مروی ہے کہ اللہ کے نزدیک تمام ایام سے افضل دن یوم نحر (دس ذوالحجہ)پھر گیارہ ذوالحجہ ہے۔
نیز یہ دن اس لئے بھی فضیلت کا حامل ہے کہ اس میں مزدلفہ کا وقوف'جمرہ عقبہ کو رمی کرنا'قربانی'حلق اور طوافِ افاضہ جیسی عظیم عبادات کا اہتمام ہوتا ہے اور باتفاق علماء یہ سال بھر کی افضل عبادات ہیں جو اس مبارک دن میں انجام پذیر ہوتی ہیں۔(فتاوی ابن تیمیہ:25؍288)
یوم عرفہ کا روزہ میدانِ عرفات میں
یوم عرفہ کا روزہ میدانِ عرفات میں مکروہ ہے کیونکہ اس دن کی مشقت طلب مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں جن کی حالتِ روزہ میں انجام دہی کافی مشکل ہے۔لہذا حجاج کرام کے لئے یوم عرفہ کا روزہ ترک کرنا بہتر ہے۔نیز عرفات میں نبی کریمﷺکا یوم عرفہ کا روزہ چھوڑنا بھی اس عمل کے مکروہ ہونے کی دلیل ہے۔
(1)ام الفضل بنتِ حارث بیان کرتی ہیں:
شك الناس يوم عرفة في صوم النبي فبعثت إلى النبي بشراب فشربه(صحیح بخاری:1658 صحیح مسلم:1123)
عرفہ کے دن لوگوں نے نبیؐ کےروزے میں شک کیا(کہ نہ معلوم آپؐ نےاس کا روزہ رکھا ہے یا نہیں؟)تو میں نے نبیؐ کی طرف (حقیقتِ حال سے واقفیت کےلئے)مشروب(دودھ)بھیجا تو آپؐ نے اسے نوش فرمایا۔
(2)نیز جس روایت میں عرفات میں یومِ عرفہ کی ممانعت ہے وہ کمزور اور ناقابل احتجاج ہے۔وہ ضعیف روایت یوں ہے کہ ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں:
أن رسول اللهﷺ نهى عن صوم عرفة بعرفة(سنن ابو داؤد:2440 سنن ابن ماجہ:1732 الضعیفۃ:404)
بےشک رسول اللہؐ نے عرفات میں عرفہ کے دن کےروزے سے منع فرمایا ہے۔
اس میں مہدی بن حرب العبدی مجہول راوی ہے۔مزید تفصیل کےلئے السلسلۃ الضعیفۃ نمبر404 کا مطالعہ کریں۔
عشرہ ذوالحجہ میں ممنوع کام
جوشخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہووہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد نہ سر کے بال کٹوائے منڈوائے'نہ مونچھیں کتروائے'نہ زیر ناف بال مونڈے'نہ زیر بغل بال اکھاڑے اور نہ ناخن ترشوائے تاوقتیکہ وہ قربانی نہ کر لے۔یہ تمام کام ایسے شخص کےلئے ناجائز وممنوع ہیں۔
(1)ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحى فلايمس من شعره وبشره شيئا(صحیح مسلم:1977 سنن نسائی:4369 سنن ابن ماجہ:3149)
جب دس ذوالحجہ(یعنی ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو)کا آغاز ہو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور جلد کے کسی حصے کو نہ لے(یعنی بدن کے کسی حصہ سے بال نہ اتروائے)
گویا قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص ذوالحجہ کا چاند نظرآنے کے بعد ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں جسم کے کسی بھی حصہ کے بال نہ کاٹے'نہ مونڈے'نہ اکھاڑے'نہ ہی ناخن ترشوائے ان ایام میں یہ کام حرام ہیں۔
(2)امام نووی بیان کرتے ہیں:
بعض شافعیہ کہتے ہیں:ناخن نہ لینے کی ممانعت سے مراد ناخن تراشنا توڑنا یا کسی بھی طریقے سے ناخن زائل کرنا ہے اور بال کاٹنے کی ممانعت سے بال مونڈنا'ہلکے کرنا'اکھڑنا'جلانا یا بال صفاپاؤڈر کے ذریعے زائل کرنا ہے۔یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں اور اس حکم میں زیرِ بغل'زیرِ ناف'سر کے بال اور مونچھیں یکساں حکم رکھتی ہیں۔-(شرح النووی:13؍138 '137)
بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں مذاہب و آرا
قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کےلئے ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بال اور ناخن زائل کرنا حرام ہے'مکروہ تنزیہی ہے یا جائز؟اس بارے میں ائمہ اربعہ کی مختلف آرا ہیں۔
(1)سعید بن مسیب'ربیعہ'احمد بن حنبل'اسحاق بن راہویہ'داؤدظاہری اور بعض شافعیہ کا موقف ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہےاس کےلئے جسم کے کسی حصہ کےبال اتارنا اور ناخن تراشنا حرام ہے تاوقتیکہ وہ قربانی نہ کر لے۔
(2)امام شافعی اور ان کےاصحاب کا مذہب ہے کہ یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے'حرام نہیں ہے۔
(3)امام ابوحنیفہ کہتے ہیں:
یہ عمل مکروہ نہیں(بلکہ جائز ہے)کیونکہ قربانی کرنے والے پر نہ تو بیوی سے مباشرت حرام ہے اور نہ ہی لباس پہننا۔لہذا جیسے قربانی نہ کرنے والے کےلئےبال اتروانا اور ناخن تراشنا مکروہ نہیں اسی طرح قربانی کرنے والے کےلئے بھی یہ چیزیں مکروہ نہیں۔(نیل الاوطار:5؍119 لیکن حدیث الباب اس موقف کی تردید کرتی ہے)
(4)امام مالک سے تین اقوال منقول ہیں:
1 مکروہ نہیں۔ 2 مکروہ ہے۔
3 نفل قربانی میں حرام اور فرض قربانی میں غیر مکروہ ہے۔(شرح نووی:13؍137 المغنی ابن قدامہ الشرح الکبیر:11؍96)
راجح موقف:
اول الذکرعلماء کا موقف ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بال اور ناخن زائل کرنا حرام ہے'راجح ہے کیونکہ نہی حرمت پر دلالت کرتی ہےاور یہاں کوئی قرینہ صارفہ نہیں جو نہی کو کراہت پر محمول کرے۔جیسا کہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں:
یہاں نہی حرمت کو متقاضی ہے ۔(المغنی لابن قدامہ مع شرح الکبیر:11؍96)
اور امام شوکانی رقم طراز ہیں کہ
(مذکورہ حدیث کا)ظاہر مفہوم حرمت کے قائلین کے موقف کی تائید کرتا ہے کہ جس کا قربانی کا ارادہ ہو اس کےلئے(ان دنوں میں)بال اور ناخن زائل کرنا حرام ہے۔(نیل الاوطار:5؍119)
بال اور ناخن زائل نہ کرنے کی حکمت امام نووی کی زبانی یوں ہے:
عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنےکی حکمت یہ ہے کہ قربانی کرنے والا کامل الاعضاء رہے اور جہنم سے کامل الاعضاء ہی آزاد کیا جائے۔(شرح النووی13؍138 نیل الاوطار:5؍119)
بال اور ناخن قطع کرنے والے پر کوئی فدیہ ہوگا؟
قربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اگر عشرہ ذوالحجہ میں بال یا ناخن قطع کروائے تو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا اس لئے اس حرام عمل سے اجتناب ضروری ہے اور بدعملی کی صورت میں استغفار کرنا چاہئےالبتہ اس پر کوئی فدیہ یا جرمانہ لاگو نہیں ہوگا۔ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں:
إذا ثبت هذا فإنه يترك قطع الشعر وتقليم الأظفار فإن فعل استغفرالله تعالى ولافدية فيه إجماعا سواء فعله عمدا أو ناسيا(المغنی لابن قدامہ مع الشرح الکبیر:11؍97)
جب(عشره ذوالحجہ میں بال اور ناخن زائل کرنے کی حرمت)ثابت ہوچکی تو قربانی کرنے والے کو بال قطع کرنے اور ناخن تراشنے سےباز رہنا چاہئے پھر اگر وہ اس گناہ کا مرتکب ہو تو اسے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہئے۔نیز اس گناہ کے ارتکاب پر بالاجماع کوئی فدیہ نہیں۔خواہ اس نے یہ کام قصداً کیا ہو یا بھول کر۔
کیا اس حکم میں گھر کے تمام افراد شامل ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ عشرہ ذوالحجہ میں بال کاٹنے اور ناخن تراشنے سےصرف وہ شخص اجتناب کرےگا جو قربانی کا منتظم اور سرپرست ہے۔باقی اہل خانہ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یا گھر کے دیگر افراد جو قربانی میں شامل ہیں وہ اس ممانعت میں شامل نہیں کیونکہ احادیث میں قربانی کا ارادہ رکھنے اور قربانی کرنے والے شخص کےلئے ہی بال اور ناخن زائل کرنے کی ممانعت ہے باقی افراد اس حکم میں شامل نہیں۔جیسے سعودی افتاء کونسل کا فتوی ہے کہ یہ حدیث جس میں بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ لوگ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے'انہیں بال کاٹنے'مونڈنے اور ناخن تراشنے کی ممانعت نہیں کیونکہ اصل جواز ہے اور ہمیں اس جواز کے خلاف کوئی دلیل معلوم نہیں۔(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء:13؍500)
عشرہ ذوالحجہ کی تکبیرات کا آغازواختتام
عشرہ ذوالحجہ میں تکبیرات کا آغازواختتام کب کیا جائے اس بارے علماء کے مختلف اقوال ومذاہب ہیں:
(1)احمد بن حنبل'ابویوسف اورامام محمد کا موقف ہے کہ تکبیرات کا محل عرفہ(نو ذوالحجہ)کی فجر سے لے کر ایام تشریق(تیرہ ذوالحجہ)کے آخر تک ہر نماز کے بعد ہے۔
(2)عثمان بن عفانؓ'عبداللہ بن عباسؓ'زید بن علیؓ'امام مالک کا قول اور امام شافعی کا ایک قول ہے کہ تکبیرات کا وقت دس ذوالحجہ کی ظہر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی فجر تک ہے۔
(3) امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ تکبیرات کا وقت دس ذوالحجہ کی نمازِمغرب سے لے کرتیرہ ذوالحجہ کی فجرتک ہے۔
(4) امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ تکبیرات کاوقت عرفہ نوذوالحجہ کی فجر سےلے کر دس ذوالحجہ کی عصر تک ہے۔(نیل الاوطار:3؍333)
(5)داؤد ظاہری'زہری اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ تکبیرات کا وقت دس ذوالحجہ کی ظہر تا تیرہ ذوالحجہ کے عصر تک ہے۔
راجح قول:حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دنوں میں تکبیر ات کی تعین کے بارے میں نبیؐ سے صحیح حدیث ثابت نہیں اور صحابہ کرام میں سیدنا علیؓ اور ابن مسعودؐسے صحیح منقول اقوال کی رو سے راجح ترین موقف یہ ہے کہ تکبیرات کا وقت عرفہ نوذوالحجہ کی صبح سے لے کر آخر دن(تیرہ ذوالحجہ)کی عصر تک ہے۔(فتح البخاری:2؍595)
اس موقف کے قرین صواب ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:
(1)عمر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ علیؓ بن ابی طالب:کان یکبرمن صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق(مصنف ابن ابی شیبہ اسنادہ صحیح )
عرفہ کے دن نماز فجر سے لے کر تشریق کے آخری دن(تیرہ ذوالحجہ)کی عصر تک تکبیرات کہتے ہیں۔
(2)حکم بن فروخ بیان کرتے ہیں:
أن ابن عباس كان يكبر من غداة عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق(مستدرک حاکم:1؍299 بیہقی:3؍314 اسنادہ صحیح)
بلاشبہ ابن عباسؓ عرفہ(نوذوالحجہ)کی صبح سے لےکر ایام تشر یق کے آخری دن(تیرہ ذوالحجہ)کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔
(3)امام اوزاعی کا فتوی:ولید بن مزید بیان کرتے ہیں کہ امام اوزاعی سے عرفہ کےدن تکبیرات کہنے کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے کہا:
يكبر من غداة عرفة إلى آخرأيام التشريق كما كبر علي وعبدالله(مستدرک حاکم:1؍300 اسنادہ صحیح۔عباس بن ولید بن مزید صادق راوی ہیں)
یوم عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشریق کےآخری دن(کی نماز عصر)تک تکبیرات کہی جائیں جیسے(ان دنوں میں)علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ نے تکبیرات کہی ہیں۔
ضعیف روایات کی نشاندہی:یوم عرفہ کی صبح سےلےکر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کے بارے میں جتنی روایات منقول ہیں وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔
(1)جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللهﷺ إذا صلى الصبح من غداة عرفة يقبل على أصحابه فيقول: "على مكانكم"ويقول:الله أكبر،الله أكبر،لاإله إلا الله والله أكبر ولله الحمد فيكبر من غداة عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق(دار قطنی:1719 ارواء الغلیل:3؍124 ضعیف جداً اس حدیث کی سند میں عمرو بن شمر متروک راوی اور جابر جعفی ضعیف راوی ہے)
رسول اللہﷺجب یوم عرفہ کی صبح نماز فجر ادا کرتےتو صحابہ کرامؓ کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے اپنی جگہوں پر ٹکے رہو اور یہ کلمات الله أكبر ،الله أكبر ،الله أكبر لاإله إلا الله والله أكبر ولله الحمد کہتے۔پھر آپﷺعرفہ کی صبح سے لےکر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیرات کہتے رہتے تھے۔
(2)جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتےہیں:
كان رسول اللهﷺ يكبر صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق حين يسلم من المكتوبات(دار قطنی:2؍1718 ضعیف جداَ)
رسول اللہﷺعرفہ کے دن نماز فجر سےلے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک فرضر نمازوں سے سلام کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔
اس میں عمرو بن شمر متروک ہے اور جابر جعفی ضعیف و کذاب راوی ہے۔
اس بارے میں کئی اور ضعیف روایات بھی موجود ہیں لیکن بخوف طوالت انہیں بیان کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
کیا یکم ذوالحجہ سمیت ذوالحجہ کے ابتدائی آٹھ دنوں میں تکبیرات کہنا مشروع ہے؟
عید الاضحی کا چاند نظر آنےپر تکبیرات شروع کرنے کے بارے میں کوئی واضح صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔بلکہ اس بار ےمیں منقول مرفوع و موقوف روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں لہذا صحیح موقف کی رو سے عیدالاضحی میں تکبیرات کا آغاز نو ذوالحجہ کی فجر کے وقت کرنا چاہئےاور اختتام تیرہ ذوالحجہ کی عصر کے بعد کرنا چاہئےجیسا کہ گزشتہ بحث میں مفصل وضاحت بیان ہوئی ہے۔
ضعیف روایات کا بیان
(1)عبداللہ بن عمرؓسےروایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
ما من أيام أعظم عندالله ولا أحب إليه من العمل فيهن من هذه الأيام العشرفاكثروافيهن من التهليل والتكبير والتحميد (مسند احمد:2؍2 '75؍131 اسنادہ ضعیف 'اس میں یزید بن ابی زیادکوفی ضعیف مدلس راوی ہے اور اس حدیث میں اس کا عنعنہ بھی ہے )
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالی کے ہاں عظیم دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال سے بڑھ کر عام دنوں کے اعمال اللہ تعالی کو زیادہ محبوب نہیں ہیں سو تم ان دنوں میں تہلیل وتکبیر اور تحمید کا کثرت سے اہتمام کرو۔
(2)ابن عباسؓ سےمروی ہےکہ رسول اللہﷺنےارشادفرمایا:
ما من أيام أفضل عندالله ولا العمل فيهن أحب إلى الله عزوجل من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير وذكر الله فإنها أيام التهليل وذكر الله(شعب الایمان للبیہقی:3؍356 ضعیف ترغیب و ترہیب:7305 اسنادہ ضعیف اسنادہ ضعیف جداًعبداللہ بن محمدبن وہب دینوری متہم بالکذب اور یحیی بن عیسی رملی ضعیف راوی ہے)
اللہ تعالی کے نزدیک ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن باقی دنوں سے افضل ہیں اور ان کے اعمال باقی دنوں کے اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔چنانچہ ان دنوں میں تہلیل و تکبیر اور ذکر کا بکثرت اہتمام کرو کیونکہ یہ تہلیل و تکبیر اور ذکر اللہ کے دن ہیں۔
(3)كان ابن عمر وأبوهريرة يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما(صحیح بخاری ' کتاب العیدین'باب فضل العمل فی ایام العشر 'اسنادہ ضعیف۔یہ اثر معلق اور بے سند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔حافظ ابن حجر کہتے ہیں یہ اثر مجھے مفصل سند کے ساتھ نہیں ملا اور امام بیہقی اورامام بغوی نے بھی اس اثر کو معلق روایت کیا ہے(فتح الباری:3؍590))
ابن عمر ؓاور ابو ہریرہؓ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بازار میں نکل کر تکبیرات کہتے اور لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہتے تھے۔
(4)ابن عباسؓ نے ويذكرواسم الله فى أيام معلومات کی تفسیر بیان کی ہے کہ ایام معلومات سےمراد ذوالحجہ کےابتدائی دس دن ہیں۔
صحیح بخاری'کتاب العیدین'باب فضل العمل في أیام التشریق ابن عباسؓ کے اس تفسیری قول سے یہ استدلال لینا کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں تکبیرات مشروع ہیں درست نہیں کیونکہ ابن عباسؓ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ 'ایام معلومات'یوم نحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور امام طحاوی نے اس مؤخر الذکر قول کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالی کے فرمان:
﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٢٨﴾... سورة الحج''اور وہ چند معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کریں جو اللہ نے انہیں پالتو جانور عطا کئے ہیں)سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایام معلومات سے مراد قربانی کے دن ہیں(فتح الباری2؍590)۔(ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن نہیں ہیں)نیز عبداللہ بن عباسؓ کا ذاتی فعل بھی ان کے اول الذکر قول کے مخالف ہے جیسا کہ عکرمہ بیان کرتے ہیں:
أن ابن عباس كان يكبر من غداة عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق(مستدرک حاکم:1/299، بیهقی: 3/314،اسنادہ صحیح)
بلاشبہ ابن عباسؓ عرفہ کی فجر سےلے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔
تکبیرات کے اوقات
تکبیرات کہنے کے مخصوص اوقات نہیں ہیں بلکہ ان دنوں تمام اوقات میں تکبیرات کااہتمام مستحب ہے۔اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(1)كان عمررضى الله عنه يكبر فى قبته بمنى فيسمعه أهل المسجد فيكبرون ويكبر أهل الأسواق حتى ترتج منى تكبيرا
عمرؓمنی میں اپنے خیمے میں تکبیرات کہتے اور ان کی تکبیرات سن کر اہل مسجد اور بازار میں موجود لوگ تکبیرات کہتے حتی کہ منی تکبیر کی آواز سے گونج اٹھتا۔
(2)وكان ابن عمر يكبر بمنى تلك الأيام وخلف الصلوات وعلى فراشه وفي فسطاطه ومجلسه وممشاه وتلك الأيام جميعا
ابن عمر منی میں'منی کے دنوں میں'نمازوں کے بعد'اپنے خیمے میں'اپنی مجلس میں اور چلتے پھرتے ان تمام دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے۔
(3)كان النساء يكبرن خلف أبان بن عثمان وعمر بن عبدالعزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد(صحیح بخاری'کتاب العیدین'باب التکبیرأيام منى وإذا غدا إلى العرفة)
اور عورتیں تشریق کی راتوں میں ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے مردوں کے ساتھ مسجد میں تکبیرات کہتی تھیں۔
فوائد
(1)حافظ ابن حجر بیان کرتےہیں:
امام بخاری نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ تکبیرات کے دنوں میں تمام اوقات میں سبھی افراد(مردوزن اورمقیم ومسافر)کےلئے تکبیرات کہنا مشروع ہیں اور مذکورہ بالا آثار اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔(فتح الباری:2؍595)
(2)امام شوکانی کہتےہیں:
راجح مسئلہ یہ ہے کہ محض نمازوں کے بعد مخصوص اوقات میں تکبیرات کہنا مستحب نہیں بلکہ تکبیرات کےتمام دنوں میں ہر وقت تکبیرات کہنا مستحب فعل ہے اور اوپر بیان کردہ آثار اس کی دلیل ہیں۔(نیل الاوطار:3؍334)
(3)ایام تشریق میں تکبیرات کے مخصوص اوقات نہیں بلکہ ان دنوں میں ہر وقت تکبیرات کہنا مستحب فعل ہے(فقہ السنۃ:1؍307)۔نیز جس روایت میں فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہنے کی تخصیص ہے وہ روایت ضعیف ہے جو جابر بن عبداللہؓ بیان کرتےہیں:
كان رسول اللهﷺ يكبر في صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق حين يسلم من المكتوبات(دار قطنی:2؍49: 1717 نصب الرایہ:3؍406 اسنادہ ضعیف جداً'عمرو بن شمر متروک اور جابر بن یزید بن حارث جعفی اور کذاب راوی ہے)
رسول اللہﷺعرفہ کے دن نمازفجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک(اس وقت)فرض نمازوں سے سلام پھیرتے وقت تکبیرات کہا کرتے تھے۔
عورتیں بھی تکبیرات کہیں گی؟
جس طرح عیدین میں مردوں کو تکبیرات کہنے کا حکم ہے عورتیں بھی اس حکم میں شامل ہیں اور عورتوں کے لئے بھی تکبیرات کہنا مستحب فعل ہے۔اس کے مزید دلائل حسب ذیل ہیں:
(1)صحیح بخاری میں ترجمۃ الباب میں مذکور ہے:
وكان النساء يكبرن خلف أبان بن عثمان وعمر بن عبدالعزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد(صحیح بخاری'کتاب العیدین'باب التكبير أيام منى وإذا غدا إلى العرفة)
اور عورتیں تشریق کی راتوں میں ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیرات کہتی تھیں۔
تاہم عورتوں کے تکبیرات کہنے کی مشروعیت کے بارے میں علماء کی مختلف آرا ہیں:
(1)مالک اور شافعی کا مذہب ہے کہ ایام تشریق میں نمازوں کے بعد عورتوں پر تکبیرات کہنا لازم ہیں۔
(2)ابو حنیفہ کہتے ہیں:ایام تشریق میں عورتیں تکبیرات نہیں کہیں گی۔
(3)ابو یوسف اور محمد کا موقف ہے کہ عورتوں کےلئے تکبیرات ایسے مشروع ہیں جیسے مردوں کےلئے تکبیرات مشروع ہیں۔(شرح ابن بطال:4؍192)
(4)سفیان ثوری کی رائےہے کہ عورتیں نماز باجماعت ادا کرنے کی صورت میں تکبیرات کہیں گی۔امام احمد نے اسی قول کو احسن کہا ہے۔
(5)البتہ امام احمد سے ایک دوسرا قول منقول ہے کہ عورتیں تکبیرات نہ کہیں کیونکہ تکبیر ایسا ذکر ہے جس میں آواز بلند کرنا مشروع ہے اور آذان کی طرح تکبیرات میں آواز بلند کرنا عورت کےلئے جائز نہیں۔(المغنی مع الشرح الکبیر:2؍248)
اس مسئلہ میں راجح موقف یہ ہے کہ بلا تعین و تخصیص عورتیں بھی تکبیرات کے دنوں میں ہر وقت تکبیرات کہہ سکتی ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں:
تکبیرات کے اوقات(اور تکبیرات کون کہے)اس بار ے میں کافی اختلاف ہے:
(1)بعض علما نے تکبیرات کا وقت نماز کے بعد مخصوص کیا۔
(2)کچھ علما نے نوافل کی بجائےفرض نمازوں کےبعد کا وقت تکبیرات کےلئے خاص کیا ہے۔
(3)بعض علما نے تکبیرات کو عورتوں کی بجائے مردوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔
(4)کچھ نے منفر د کی بجائے نماز باجماعت کی تخصیص کی ہے۔
(5)بعض نے قضا نماز کو چھوڑ کر ادا نماز کی شرط عائد کی ہے۔
کچھ علما نے مسافر کے سوا مقیم کی قید لگائی ہے لیکن امام بخاری نے اس مسئلہ کو اختیار کیاہےکہ تکبیرات کہنا(تمام اوقات اور)تمام افراد(مرد'عورت اور مقیم و مسافر سبھی کےلیے)مشروع وجائز ہےاور ترجمۃ الباب میں منقول آثاراس موقف کی تائیدکرتےہیں۔(فتح الباری:2؍595)
حائضہ عورتیں بھی تکبیرات کہیں گی؟
عیدین میں حائضہ عورتوں کو بھی تلقین ہے کہ وہ تکبیرات کا اہتمام کریں۔سیدہ عطیہ بیان کرتی ہیں:
كنا نؤمر أن نخرج يوم العيد حتى نخرج البكر من خدرها حتى نخرج الحيض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته(صحیح البخاری:971 )
ہمیں عیدکے دن(عیدگاہ میں)پہنچنےکاحکم دیاجاتا تھا۔حتی کہ(ہمیں حکم ہوتا کہ)ہم دوشیزہ کو اس کی خلوت گاہ سے اور حائضہ عورتوں کو بھی نکالیں اور وہ حائضہ عورتیں لوگوں کے پیچھے رہیں اور ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہیں۔ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں اور وہ اس دن کی برکت اور گناہوں سے پاکی کی امید رکھیں۔
البتہ واضح رہے کہ عورتوں کی آواز مردوں تک نہ پہنچے جیسا کہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
وينبغى لهن أن يخفضن أصواتهن حتى لايسمعهن الرجال(المغنی لابن قدامه مع الشرح الکبیر:2؍248)
عورتوں کےلئےمناسب ہے کہ وہ پست آواز میں تکبیرات کہیں حتی کہ مرد ان کی آواز نہ سن سکیں۔
اور ابن رجب حنبلی رقم طراز ہیں:
جب عورتیں باجماعت نماز ادا کریں تو وہ بھی مردوں کے ساتھ تکبیرات کہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ولكن المرأة تخفض صوتها بالتكبير
تاہم تکبیرات کہتے وقت عورت اپنی آواز پست رکھے۔
تکبیرات کے الفاظ
تکبیرات کے متعلق متعین الفاظ رسول اللہﷺسے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں بلکہ اس بارے میں آپﷺکی طرف منسوب روایت انتہائی ضعیف ہےجسے جابر بن عبداللہ سے روایت کیا گیا ہے:
كان رسول الله ﷺإذا صلى الصبح من غداة عرفة يقبل على أصحابه فيقول:"على مكانتكم "ويقول:الله أكبر' الله أكبر' الله أكبر' لاإله إلا الله' والله أكبر' ولله الحمد
رسول اللہﷺکی عرفہ کی صبح جب نماز فجر اداکرتے تو اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر کہتے اپنی جگہوں پر برقرار رہیےاور آپؐ یہ کلمات:الله أكبر الله أكبر الله أکبر لاإله إلا الله والله أكبر ولله الحمد کہتے تھے۔
اس میں عمرو بن شمر متروک اور جابر بن زید بن حارث جعفی ضعیف اور کذاب ہے۔البتہ بعض صحابہ کرامؓ سے بسند صحیح تکبیرات کے الفاظ منقول ہیں:
(1)عکرمہ بیان کرتےہیں کہ ابن عباسؓ(بایں الفاظ)الله أكبر كبيرا'الله أكبر كبيرا'الله أكبر وأجل'الله أكبر ولله الحمد
(2)ابو عثمان نہدی بیان کرتےہیں:
كان سلمان يعلمنا التكبير يقول:كبرواالله'الله أكبر'الله أكبر مرارا اللهم أنت أعلى وأجل من أن يكون لك صاحبة أو يكون لك ولد أو يكون لك شريك فى الملك أو يكون لك ولي من الذل وكبره تكبيرا 'الله أكبر تكبيرا'اللهم اغفرلنا اللهم ارحمنا
سلمان فارسیؓ ہمیں تکبیرات کے الفاظ کی تعلیم دیتے تھے۔وہ کہتےتم اللہ کی کبریائی بیان کرو۔یعنی باربار اللہ اکبر کہو(پھر یہ کلمات کہو)اللهم أنت أعلى وأجل من أن تكون لك صاحبة أويكون لك ولي من الذل وكبره تكبيرا'الله أكبر تكبيرا 'اللهم اغفرلنا'اللهم ارحمنا
اے اللہ!تو اس سے بالا وبرتر ہے کہ تیری بیوی ہو یاتیری اولاد ہو یا بادشاہت میں تیراکوئی شریک ہویاکمزوری میں تیرا کوئی مددگار ہواور اس کی خوب بڑائی بیان کرو اللہ واقعی سب سے بڑاہے اے اللہ!ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما۔(مصنف عبدالرزاق:11؍290 '20581 بیہقی:3؍316 اسنادہ صحیح حافظ ابن حجر نے اس اثر کو باعتبار سند صحیح ترین قرار دیا ہے۔فتح الباری:2؍595)
ضعیف آثار:
اس بارے میں صحابہ کرامؓ سےبعض روایات بھی مروی ہیں جیسا کہ
(1)عبداللہ بن مسعودؓ ایام تشریق میں ان الفاظ میں الله أكبر'الله أكبر'لاإله إلا الله والله أكبرولله الحمدتکبیرات کہتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:5632 اسنادہ صحیح...ابواسحاق سبیعی کی تدلیس ہے)
(2)شریک بن عبداللہ قاضی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو اسحاق سبیعی سے پوچھا کہ علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ تکبیرات کیسے کہتے تھے؟انہوں نے بیان کیا کہ یہ دونوں حضرات(ان الفاظ میں)الله أكبر 'الله أكبر لاإله إلا الله والله أكبر ولله الحمد تکبیرات کہا کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:5652 اسنادہ ضعیف...شریک بن عبداللہ قاضی سیئ الحفظ ہے)
الغرض چونکہ کتاب وسنت میں تکبیرات کے مخصوص الفاظ وارد نہیں ہیں اس لئے صحیح آثار صحابہ سے ثابت تکبیرات کے الفاظ کا اہتمام کرنا ہی افضل ہے تاہم ضعیف روایت اورآثار میں مذکور الفاظ کا اہتمام کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اس سے اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا مقصود پورا ہو جاتا ہے۔