مسئلۂ توہین رسالت اور قانون کو ہاتھ میں لینا؟
پاکستان میں اس وقت توہین رسالت کا ایک اہم وقوعہ در پیش ہے جس میں ملوث ہونےکی بنا پرپنجاب کےگورنرسلمان تاثیرکوہلاک کردیاگیاپنجاب کی دہشت گردی کی عدالت نےقتل کرنےوالےممتازقادری کوموت کی سزاسنائی.سرزمین پاکستان کےبعض مشہورتاریخی واقعات مثلاًلاہورمیں غازی علم دین شہیداورکراچی میں غازی عبدالقیوم کےاقدامِ قتل کےبعدتحفظِ ناموسِ رسالت کےسلسلے کایہ تیسرامشہورمقدمہ ہے۔
پاکستان کےدینی افق پراس وقت ممتازقادری کاکیس اہم حیثیت اختیارکرتاجارہاہے.4جنوری2011ءکی سہ پہرممتازقادری نےپنجاب کےگورنر سلمان تاثیرکواسلام آبادمیں ان کی حفاظت پرمامورہونےکےدوران گولیوں کابرسٹ مارکرہلاک کردیا.گرفتاری کےبعدممتازقادری نےگورنرکےقتل کابرملااعتراف کیااورابتدائی تفتیش میں یہ بیان دیاکہ گورنرپنجاب نےقانون توہینِِ رسالت کوکالاقانون قراردیااس لیےگستاخِ رسول کی موت سزا ہے.سلمان تاثیرگستاخِ رسول تھااس لیےگستاخِ رسول کی سزاموت ہے.سلمان تاثیرگستاخِ رسول تھااس نےچونکہ قانون توہینِ رسالت کےتحت عدالت سےسزاپانےوالی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانےکاعندیہ دےکرخودکوگستاخِ رسول ثابت کردیا تھاتواس پرمیں نےاپنافرض پوراکردیا.
دہشت گردی کی عدالت میں ان پرمقدمہ چلایاگیااورعدالت میں یہ بیان دیا:
اپنےمحلےمسلم ٹاؤن میں ہونےوالی تحفظِ ناموسِ رسالتﷺسےمتاثرہوکرگورنرسلمان تاثیرکوواجب القتل مانتےہوئےقتل کاارادہ کیاتھااورقتل سےقبل یہ لکھ کراپنی جیب میں چٹ ڈال لی:گستاخِ رسول کی سزاموت ہے،موت ایک دن آنی ہےتوپھرناموسِ رسالت کےتحفظ پرجان قربان ہوجائےتو کیاکہنا.
ممتازقادری کی سزا کا معمہ اس وقت پاکستان کےمقتدرطبقہ اورعدلیہ کےلئے گلےکی پھانس بناہواہے ۔اس کومعاف کیاجائےتوپاکستان کےاہلِ اقتدار'ذمہ داران اورایسےدین سےبیزارقائدین کی جان کوہروقت خطرات لاحق رہتے ہیں جوبیانات دیتےہوئےاسلامی تقاضوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ممتازقادری نےمحافظ ہوتےہوئےجس جارہیت کےساتھ سابق گورنرپرگولیوں کابرسٹ مارااس میں دوسروں کےلئےعبرت کےبہت سےنشان موجود ہیں۔دوسری طرف قانون کوہاتھ میں لینااورکسی کو ماورائے عدالت قابلِ قتل ہونے کا ذاتی فیصلہ کرکےاس پرعمل درآمدکرلینا،ایک ایسےباب کوکھولنےکےمترادف ہےجوپاکستان میں قتل وغارت گری کاایک نہ ختم ہونےوالا سلسلہ شروع کردےگا۔لیکن اگرممتازقادری کوسزادی جائےتووہ کون ہےجوشانِ رسالتﷺمیں گستاخی کرنےوالےکاحامی وناصربنناپسندکرے۔کیونکہ ممتازقادری نےجس صورتِ حال میں ارتکابِ قتل کیاہےاس میں مقتول کےرویےاوراقدامات کےبارےمیں ہرذہن میں گہرےشبہات پائےجاتےہیں اورقومی میڈیاپرہرایک نےاس تحفظ کابرملااظہاربھی کیاہے۔
یکم اکتوبر2011ء کودہشت گردی کی عدالت نمبر2کےجج پرویزعلی شاہ نےدس ماہ کےبعداڈیالہ جیل راولپنڈی میں ممتازقادری کےمقدمےکافیصلہ سناتےہوئے قراردیاکہ''آپ نےجوکام کیاہےاسلام کی روسےوہ ٹھیک ہےلیکن ملکی قانون کی دفعہ302ت پ کےتحت آپ کودوبارہ سزائےموت اوردولاکھ روپےجرمانہ کی سزاسنائی جاتی ہے۔پانچ صفحات پرپھیلےفیصلےمیں کہاگیاکہ ملزم نےکہاکہ مرتدکوماراہےقتل نہیں کیا ۔اس طرح ملزم نےاعترافِ جرم کیاہے۔فیصلےکی روسےسات روزکےاندرہائیکورٹ میں اپیل دائرکرسکتےہیں''
عدالت کےاس فیصلےکےبعدسےملک بھرمیں مظاہرےاورشدیداحتجاج شروع ہوگئے7اکتوبرکےجمعۃالمبارک کودینی جماعتوں کی اتحادکونسل نےہڑتال کی کال دی جس کےنتیجےمیں پورےملک میں بھرپورہڑتال مناکرممتازقادری کیس کےفیصلےکےخلاف اظہارِیکجہتی کیاگیا۔ممتازقادری کےمسلسل انکارکےباوجود آخرکارانہیں اپیل پرراضی کرلیاگیااورلاہورہائیکورٹ کےسابق چیف جسٹس خواجہ محمدشریف اورجسٹس نذیراحمدغازی وغیرہ پرمشتمل وکلاکی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جواسلام آبادہائیکورٹ میں اپیل کےدوران ممتازقادری کی طرف سےدفاع اوروکالت کےفرائض انجام دےگی۔اس اہم قانونی وشرعی مرحلےپراس شدیدامرکی ضرورت ہےکہ اس وقوعہ کاشریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں تجزیہ کیاجائےاورجرم توہینِ رسالت کےبارےمیں جودعوےمختلف اطراف سےکیےجارہےہیں ان کاقرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیاجائے۔
اس سلسلےمیں عوام الناس'پڑھےلکھےلوگوں اورقانون سےوابستہ افرادمیں ایک سوال کابڑی شدت سےتذکرہ کیاجاتاہےقانون کوہاتھ میں لیناایک سنگین جرم ہےاگرسلمان تاثیرنےتوہینِ رسالت کاارتکاب کیابھی تھاپھرعدالت کواس سےمطلع کرناچاہئےتھانہ کہ خودقانون کوہاتھ میں لےلیاجاتااگرقانون کوہاتھ میں لینےکی یہ روش یونہی جاری رہی تومعاشرےمیں کسی کی جان ومال محفوظ نہ رہےگی۔
توہینِ رسالت کی شرعی سزاسےصرفِ نظرکرتےہیں کیونکہ اس ضمن میں کتاب وسنت کی واضح ہدایات اورائمہ اسلاف کےفرامین کےعلاوہ اجماعِ امت کاتذکرہ اس سےقبل متعددبارہوچکاہے۔ذیل میں ہم دورِرسالت سےایسےواقعات کوپیش کرتےہیں جن میں توہینِ رسالت کےجرم میں قانون کوہاتھ میں لیاگیا۔ہم دیکھتےہیں دربارِرسالتِ مآبﷺسےایسےمجرموں کےبارےمیں کیافیصلےصادرہوئے؟
مغربی قانون کایہ مسلمہ تصورہےکہ ماتحت عدلیہ بالاترعدالتوں کےفیصلوں کی پابندہوتی ہیں۔مسلمان ہونےکےناطےکسی بھی مسلمان جج کےلئےسب سےبڑی عدالت سیدالمرسلین اورنبی آخرالزمان محمدﷺکی عدالت ہے۔اس نوعیت کےجھگڑےاورقتل دورنبوی میں آپﷺکےسامنےپیش آئےاورآپ نےاسلامی ریاست کےعظیم ترین اوراوّلین قاضی ہوتےہوئے اپنی رہنمائی امتِ محمدیہ کےلئےچھوڑی ہے۔اس سلسلےمیں درج ذیل احادیث ہماری رہنمائی کرتی ہیں:
1۔نابیناصحابی کاگستاخِ رسول ام ولدکوقتل کردینا
یہ مشہورواقعہ بہت سی کتب حدیث میں سیدناابن عباس سےمروی ہے:
«أَنَّ أَعْمَى كَانَ عَلَى عَهْدِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍوَكَانَ لَهُ مِنْهَاابْنَانِ وكَانَتْ تُكْثِرُالْوَقِيعَةَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وتَسُبُّهُ فَيَزجُرُهَافَلَاتَزْدَجِرُوَيَنْهَاهَافَلَاتَنْتَهِي،فَلَمَّاكَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ذَكَرَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَتْ فِيهِ فَلَمْ أَصْبِرْأَنْ قُمْتُ إِلَى الْمِعْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَافَاتَّكَأْتُ عَلَيْهِ فَقَتَلْتُهَافَأَصْبَحَتْ قَتِيلًا، فَذُكِرَذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ، وَقَالَ: «أَنْشُدُ اللهَ رَجُلًالِي عَلَيْهِ حَقٌّ فَعَلَ مَا فَعَلَ إِلَّاقَامَ» فَأَقْبَلَ الْأَعْمَى يَتَدَلْدَلُ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ أَنَاصَاحِبُهَاكَانَتْ أُمَّ وَلَدِي وَكَانَتْ بِي لَطِيفَةً رَفِيقَةً وَلِي مِنْهَاابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَلَكِنَّهَاكَانَتْ تُكْثِرُالْوَقِيعَةَ فِيكَ وَتَشْتُمُكَ فَأَنْهَاهَافَلَاتَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَافَلَاتَزْدَجِرُفَلَمَّاكَانَتِ الْبَارِحَةُ ذَكَرْتُكَ فَوَقَعَتْ فِيكَ فَقُمْتُ إِلَى الْمِعْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَافَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَاحَتَّى قَتَلْتُهَا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ»
رسول اللہﷺکےزمانہ میں ایک نابیناصحابی تھا۔اس کی ایک باندی تھی جس سےاس صحابی کےدوبچےتھے۔وہ اکثراللہ کےرسولﷺکوبرابھلاکہتی۔نابینااسےڈانٹتالیکن وہ نہ مانتی،منع کرتاتووہ بازنہ آتی۔وہ شخص کہتاکہ ایک رات میں نےنبی ﷺکاتذکرہ کیاتواس نےآپ کی شان میں گستاخی کی تومجھ سےصبرنہ ہوسکا،میں نےخنجراٹھایااوراس کےپیٹ میں دھنسادیاوہ مرگئی۔صبح جب وہ مردہ پائی گئی تولوگوں نےاس کاتذکرہ نبیﷺسےکیا۔آپﷺنےلوگوں کوجمع کیااورفرمایا:
میں اسےخداکی قسم دیتاہوں جس پرمیراحقِ نبوت ہےکہ جس نےیہ کام کیا ہےوہ اٹھ کھڑاہو۔یہ سن کروہ نابیناگرتاپڑاآگےبڑھااورعرض کی:اےاللہ کےرسولﷺیہ میراکام ہے۔یہ عورت میری لونڈی تھی اورمجھ پربہت مہربان اورمیری رفیق تھی۔اس کےبطن سےمیرےدوہیرےجیسےبچےہیں لیکن وہ اکثرآپؐ کوبراکہتی تھی۔میں منع کرتاتووہ نہ مانتی'جھگڑتاتوبھی نہ سنتی'آخرگزشتہ رات اس نےآپؐ کاتذکرہ کیااورآپؐ کی شان میں گستاخی کی۔میں نےخنجراٹھایااوراس کےپیٹ میں مارایہاں تک کہ وہ مرگئی۔رسول اللہﷺنےفرمایا:سب لوگوگواہ رہواس لونڈی کاخون رائیگاں ہے
2 .عمیربن امیہ کااپنی گستاخِ رسول بہن کوقتل کرنا
اسی نوعیت کاواقعہ عمیربن امیہ کابھی ہےجنہوں نےگستاخی پراپنی مشرکہ بہن کوقتل کردیا۔جب مقتولہ کےبیٹوں نےشوروغل کیااورقریب تھاکہ اس بناپروہ کسی اورمشکوک شخص کوقتل کربیٹھتےتوعمیرؓنبی کریمﷺکےپاس آئےاورسارےمعاملےکی خبردی توآپﷺنےعمیرؓسےپوچھاکہ «فأخبره فقال:«أقتلت أختك؟»قال:نعم,قال:«ولم؟»قال:إنهاكانت تؤذينى فيك فأرسل النبيﷺ إلى بنيهافسألهم فسموا غيرقاتلها فأخبرهم النبي به و أهدر دمها قالوا : سمعا و طاعة (المعجم الکبیر للطبرانی17/64 (124) مجمع الزوائد:6/398(10570)ورواته ثقات"اسدالغابه:4/273الاصابه:4/590
آپﷺنےپوچھا:کیاتونےاپنی بہن کوقتل کردیاہے؟جواب دیا: ہاں! نبیﷺنےپوچھاتو نے اسےقتل کیوں کیا ؟عمیرؓنےجواب دیا:وہ آپؐ کوبرابھلاکہہ کرمجھےتکلیف دیتی تھی۔آپؐ نےاس عورت کےبیٹوں کی طرف پیغام بھیج کران سےقاتلوں کےبارےمیں دریافت کیاتوانہوں نےکسی اورکانام لیا۔آپؐ نےانہیں صحیح قاتل کےبارےمیں بتایااوراس عورت کاخون رائیگاں قراردیاتوان بیٹوں نےکہاکہ ہم نےسنااورمان لیا۔
مذکورہ بالادونوں واقعات میں گستاخِ رسولؐ کوسزادینےوالےنےقانون کوہاتھ میں لیااورنبیؐ نےقانون کوہاتھ میں لینے پران کوکوئی سزا دینےکی بجائے اہانتِ رسول کاجرم ثابت ہوجانےپرمقتولین کاخون رائیگاں قراردیااورقاتلوں پرکوئی سزاعائدنہ کی بلکہ ذیل کےدوواقعات میں توشاتم رسول کوکفریہ کردارتک پہنچانےوالےکےحق میں زبانِ رسالت سےتعریف بھی مذکورہے۔ملاحظہ فرمائیے:
3. بنوخطمہ کی شاتمہ عصمابنتِ مروان کاقتل
عصمابنتِ مروان نبی کریمﷺکی عیب جوئی کرتی،آپؐ کوایذا پہنچاتی ، لوگوں کوآپؐ کےخلاف ابھارتی اوراکثرہجویہ اشعارپڑھاکرتی۔
عمیربن عدی خطمی تک جب یہ اشعارپہنچےاورنبیﷺکی عیب جوئی پہنچی توانہوں نےاس گستاخ عورت کوقتل کرنےکی نذر مان لی۔جنگِ بدرسےواپسی پرایک رات عمیرؓنےاس عورت کواس کے گھرمیں داخل ہوکرقتل کردیا۔یہ بات نبیؐ کواللہ تعالی نےوحی کےذریعےبتادی۔قتل کرنےکےبعدعمیرنےفجرکی نمازنبی کریمؐ کےساتھ پڑھی تو آپؐ نےکہا:تم نےآخرکاراسےقتل کردیا؟
قال:نعم بأبي أنت يارسول اللهﷺ فالتفت النبيﷺ إلى من حوله فقال:إذاأحببتم أن تنظرواإلى رجل نصرالله ورسوله بالغيب فانظرواإلى عميرابن عدي(کتاب الاموال ازابوعبيد قاسم،طبقاتِ سعد،المغازی للواقدی:ج1؍ص147.الصارم المسلول:1؍104)
ہاں!میرے ماں باپ آپ پرقربان ۔نبیﷺنےاپنےصحابہ کی طرف متوجہ ہوئےاورکہاکہ اگرتم ایسےشخص کودیکھناچاہوجس نےغیب سےاللہ اوراس کےرسول کی مددکی ہےتوعمیربن عدی کودیکھ لے۔
اس موقع پرشاعرِرسولﷺسیدناحسان بن ثابت نےیہ اشعارکہے:
بني وائل وبني واقف وخطمة دون بني الخزرج
متى مادعت أختكم ويحها بعولتهاوالمنايا تجي
فهزت فتى ماجداعرقه كريم المداخل والمخرج
جس فعل كی زبانِ رسالت سےتائیدصادرہوئی ہواس کےبارےمیں یہ کیوں کرکہاجاسکتاہےکہ نعوذباللہ وہ قابلِ سزاجرم ہے۔
4. یہودیہ کاقتل
شاتم رسول کوخودسزادینےتائیدسیدناعلی کی اس حدیث سےبھی ہوتی ہے:
أن يهودية كانت تشتم النبيﷺوتقع فيه فخنقهارجل حتى ماتت فأبطل رسول اللهﷺدمها-(ابوداود:4362 السنن الكبرى:7/60' 9/200'9/375 علامہ البانی نےفرمایا:أسناده صحيح على شرط الشيخين''اس کی سندبخاری ومسلم کی شرط پرصحیح ہے(ارواءالغلیل:5؍91 رقم 1251))
بلاشبہ ایک یہودیہ عورت نبیﷺکوگالیاں دیاکرتی اورآپ کےبارےمیں نازیبا کلمات کہاکرتی تھی۔ایک آدمی نےاس کاگلاگھونٹ دیایہاں تک کہ وہ مرگئی تونبیؐ نےاس کاخون باطل قراردیا۔
5. خیرالقرون میں ایسےواقعات اوربھی ہیں جن میں شاتم رسول کوازخودسزادی گئی اوربعدمیں عدالتِ نبویہ یاخلفائےراشدین کےپاس ایسے مقتولین کی شکایت کی گئی اورحاکم وقت نےایسےمعاملات کونظراندازکیا۔ان واقعات میں حضرت عمرؓ کاوہ مشہورواقعہ بھی ہےجب انہوں نےایک ایسے منافق کوجونبیﷺکافیصلہ تسلیم نہ کرنےکےبعدآپؓ کےپاس فیصلہ کےلئےآیاتھا'قتل کردیاتھا۔اس کےورثایہ معاملہ نبیﷺکےپاس لےکرگئےاورنبی کریم کواللہ تعالی نےوحی کےذریعےاس واقعہ کی خبردےدی تھی۔نبیؐ نےمقتول کاخون رائیگاں قراردیا۔
اس مرحلہ پرسیدناعمرکےالفاظ قابلِ توجہ ہیں۔
هكذاأقضي بين من لم يرض بقضاءرسول الله فأتى جبريل رسول الله فقال:إن عمرقدقتل الرجل وفرق الله بين الحق الباطل على لسان عمرفسمي الفاروق(تفسیرالدررالمنشور:2؍180 لباب النقول:1؍90 مسندالفاروق:2؍876)
اس(بظاہر مسلمان)کےبارےمیرایہ فیصلہ ہےجورسول اللہﷺکےفیصلےکوتسلیم نہیں کرتا-پھرجبریل ؑ نبیﷺکےپاس آئےاورانہیں بتایاکہ عمرنےاسےقتل کردیاہےاوراللہ تعالی نےعمرکی زبان سےحق اورباطل کافیصلہ کردیاہے-اس بناپرعمرکانام''فاروق''رکھ دیاگیا۔
اس مشہورواقعہ کےبارےمیں یادرہنا چاہئےکہ ابن لہیعہ کےضعیف طریق کےعلاوہ ابومغیرہ اورشعیب بن شعیب کی صحیح سندسےبھی مروی ہے۔اس بناپرامام احمدبن حنبل'ابن تیمیہ اورحافظ ابن کثیرکی تحقیق یہ ہےکہ دیگرصحیح اسانیدکی بناپریہ واقعہ پایہ ثبوت کوپہنچتاہے۔جیساکہ علامہ ابن تیمیہ اس واقعہ کےتذکرہ کےبعدلکھتےہیں:
وهذاالمرسل له شاهدمن وجه آخريصلح للاعتبار(الصارم المسلول ازشيخ الاسلام ابن تيميه:1؍43)
دیگرشواہدکی بناپراس مرسل روایت پراعتبارکرنادرست ہے۔
مذکورہ بالادونوں واقعات میں اللہ تعالی نےخوداپنےرسولﷺکوشاتم رسول کےقتل کئےجانےکی خبردی جبکہ پہلےواقعہ میں جبریل امین نےیہ کہہ کرعمرفاروق کی تعریف کی کہ اللہ تعالی نےعمرؓکی زبان پرحق وباطل کونمایاں کردیا۔
6. سیدناعمربن خطاب کےدورمیں بحرین کےبشپ کوبھی یونہی قتل کیاگیا:
أن غلمانامن أهل البحرين خرجوايلعبون بالصوالجة وأسقف البحرين قاعدفوقعت الكرة على صدره فأخذهافجعلوايطلبونهامنه فأبى فقال غلامهم سألتك بحق محمدصلى الله عليه وسلم إلارددتهاعلينافأبي لعنه الله وسبّ رسول الله فأقبلواعليه بصواليجهم فمازالوايخبطونه حتى مات فرفع ذالك إلى عمربن الخطاب فوالله مافرح بفتح ولاغنيمة كفرحه بقتل الغلمان لذلك الأسقف وقال: الآن عزّالإسلام إن أطفالاصغاراشتم نبيهم فغضبوا له وانتصروا(ربيع الابراراز زمخشرى:1/403 ....المتطرف فى كل فن مستطرف:ج1/ص462)
اہالیانِ بحرین کےبچےباہرنکل کرصوالجہ(ہاکی جیسا)کھیل رہےتھےاوربحرین کابڑاپادری وہاں بیٹھاہواتھا۔اچانک گینداس کےسینےپرجالگااس نےاسےپکڑلیابچےاس سےگیندمانگنےلگےاس نےدینےسےانکارکردیااورنبیؐ کوبھی گالی دی سارےبچےمل کراپنی کھیل کی لاٹھیوں کےساتھ اس پرپل پڑےاوراس کواس وقت زدوکوب کرتےرہےحتی کہ وہ مرگیا۔یہ قضیہ عمربن خطاب کی طرف بھیجاگیاتوبخداآپ فتح یامالِ غنیمت سےاس قدرخوش نہیں ہوئےجتنےبچوں کےاس بشپ کوقتل کرنےپرمسرورہوئے ۔اورآپ نےکہاکہ آج اللہ نےاسلام کوعزت دےدی ہےکہ بچوں نےاپنےنبی کی گستاخی پرغیظ وغضب کامظاہرہ کیااورانہوں نےانتقام لےلیا۔
7.عبداللہ بن سعدبن ابوسرح'عکرمہ بن ابی جہل'مقیس بن صبابہ اورعبداللہ بن خطل کامشہورواقعہ جس میں نبیﷺنےفتح مکہ کےروزانہیں کعبۃاللہ سےلٹکےپائےجانےکےباوجودقتل کرنےکاحکم صادرفرمایاتھاجس کےنتیجےمیں صحابی سعدبن حریث نےعبداللہ بن خطل کوبیت اللہ کےپردےسےلٹکنےکی حالت میں قتل کردیااورمقیس کوصحابہ نےبازارمیں قتل کیابعدمیں عبداللہ بن ابوسرح کاسیدناعثمانؓ کےذریعےآپ سےمعافی اورامان طلب کرنےکی کوشش کاتفصیلی واقعہ۔اس مرحلہ پرنبیؐ نےاپنےصحابہ کویوں تنبیہہ کی تھی:
فنظرإليه ثلاثاكل ذالك يأبى فبايعه بعدثلاث ثم أقبل على أصحابه فقال أماكان فيكم رجل رشيديقوم إلى هذاحيث رآني كففت يدي عن بيعته فيقتله فقالواومايدرينايارسول الله مافي نفسك هلاأومأت إلينابعينك قال إنه لاينبغي لنبي أن يكون له خائنة أعين(سنن نسائى رقم:3999)
نبیؐ نےتین باراس کی جانب دیکھاہربارآپ بیعت کاانکارکرتےرہےآخرکارتیسری بارکےبعدآپ نےبیعت لےلی۔پھرآپ صحابہ کرامؓ کی طرف متوجہ ہوئےاورفرمایا:تم میں سےکوئی داناآدمی نہیں تھا؟جوعبداللہ کوقتل کردیتاجب وہ مجھےدیکھ رہاتھاکہ میں نےاس کی بیعت کرنےسےاپنےہاتھ کوروک رکھاہے۔صحابہ نےجواب دیاکہ یارسول اللہ!ہمیں پتہ نہ چل سکاکہ آپ کےجی میں کیاہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سےہی اشارہ فرمادیتے۔توآپؐ نےکہا:کسی نبی کویہ لائق نہیں کہ وہ ان آنکھوں سے اشارےکرے۔
اس حدیث سےاستدلال یوں ہےکہ اوّل توفتح مکہ کےروزجب نبیؐ نےاپنےتمام دیرینہ دشمنوں کوعام معافی دےدی لیکن اس کےباوجوداس امن کےدن اورامن کےمرکزبیت اللہ الحرام میں بھی گستاخانِ رسول کومعافی نہیں دی گئی۔مزیدبرآں مذکورہ بالاحدیث میں آپؐ نےشاتم رسول کوازخودقتل نہ کرنےپرصحابہ کرامؓ سےناراضگی کااظہارکیااورانہیں تنبیہ فرمائی۔معلوم ہواکہ انہیں قانون کوہاتھ میں لےکرقتل کردیناچاہئےتھا۔
الغرض ایک واقعہ میں زبانِ رسالتؐ سےایک واقعہ میں جبریلؑ کی زبانی اورایک واقعہ میں سیدناعمرفاروقؓ نےشاتم رسول کوکیفرپرپہنچانےکی تعریف کی ہے۔اوراس آخری واقعہ میں ایسانہ کرنےوالوں پرنبیؐ نےاظہارِناراضگی فرمایاہے۔دورِنبوی یادورِخلافتِ راشدہ میں کسی بھی واقعہ میں قانون کوہاتھ میں لینےکی بناپرمجرم کوسزانہیں دی گئی بلکہ جرم کافیصلہ عدل وانصاف کےحقائق کی روشنی میں کیاگیاہےجیساکہ مذکورہ بالاتمام واقعات میں اہانتِ رسول ثابت ہوجانےپرمقتولین کےخون کورائیگاں قراردیاگیا۔
8.شریعتِ اسلامیہ کی ایک اصولی ہدایت بھی ہےکہ برائی کاانسدادہاتھ سےروک کرکیاجائےگا۔جیساکہ اس فرمانِ نبوی میں ہے:
يقول:من رأى منكم منكرافاستطاع أن يغيره بيده فليفعل، والافبلسانه، والافبقلبه، وذلك أضعف الايمان (صحیح مسلم:رقم 70))
تم میں جوکوئی براکام ہوتےدیکھےتواس کواپنے ہاتھ روکےعمل نہ ہونےدے۔اگراس کی استطاعت نہ ہوتوزبان سےاس برےکام کوروکے۔اگراس کی قوت بھی نہ ہوتوزبان سےاس برےکام کوروکے۔اگر اس کی قوت بھی نہ ہوتوکم ازکم دل سےبراجانےاور یہ ایمان کاآخری درجہ ہے۔
اس حدیث سےیوں استدلال کیاجاتاہےکہ مغربی قانون کی روسےجرم کے انسدادکی ذمہ داری صرف پولیس پرعائدہوتی ہےجبکہ شریعتِ اسلامیہ میں برائی کاخاتمہ ہرمسلمان کی ذمہ داری قراردیاگیاہے۔فرمانِ نبوی ہےکہ جو شخص اسلام میں ذمہ دارہےاوراس سےاس کی ذمہ داری کی بابت محشرمیں پوچھاجائےگا۔اس بناپرتوہینِ رسالت جوایک سنگین جرم ہے'کےارتکاب کےموقع پراختیاروقوت رکھنےوالےمسلمان کوچاہئےکہ اس جرم کےمرتکب کوبزورِبازوروک کرآئندہ سےجرم کی بیخ کنی کردے۔
کسی مسلمان کےلئےسب سےبڑی شہادت نبیؐ کےفرمان اورفیصلےکی ہےاوراسےتسلیم نہ کرنےکی کسی مسلمان کےلئےکوئی گنجائش نہیں ہےبلکہ اللہ تعالی نےجس طرح دنیاجہاں سےبڑھ کررسول اللہؐ سےمحبت کرنےکوایمان کا لازمی تقاضاقراردیاہےاسی طرح اطاعتِ رسول سےبھی ایمان کومشروط ٹھہرایاہے۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿
٦٥﴾... سورة النساء
ميرےرسول! تیرےرب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتےجب تک کہ آپ سےاپنےجھگڑےمیں فیصلہ نہ کروائیں پھراس کےبعدان کےدلوں میں آپ کےفیصلےسےمتعلق معمولی سی خلش بھی باقی نہ رہےاوراس کودل وجان سےبسروچشم تسلیم کریں۔
اس فرمانِ الہی میں آپؐ کےفیصلوں کوبنیادی حیثیت قراردینےکوشرطِ ایمان قراردیاگیاہےبلکہ اس پرتین بارتاکیدی الفاظ ایزادکئےگئےہیں جس کامقصودمسلمان کوپوری طرح متوجہ کرنااورانہیں مکمل باخبرکرناہے۔
امتِ مسلمہ میں اہلِ سنت کاموقف تومذکورہ بالااحادیثِ نبویہ کی بناپرواضح ہےجبکہ اہلِ تشیع کےامام آیت اللہ خمینی نےماضی قریب میں سلمان رشدی کےبارےمیں مشہورفتوی دیاتھاکہ جوبھی مسلمان اس کوقتل کرسکتا ہےتواس کوایساکرناچاہئے۔اس فتوی میں بھی انہوں نےقانون ک ہاتھ میں لینےکی پرواہ نہ کرتےہوئےشاتم رسول کوسزادینےکی تلقین کی۔ان تصریحات کےبعدامتِ اسلامیہ کامتفقہ موقف بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
قانون کوہاتھ میں لینےپربانیانِ پاکستان کاطرزِعمل:
یوں تو احادیثِ نبویہؐ کی واضح دلالت کے بعد کسی مسلمان کے لئے اس امر کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ دیگر مسلمان رہنما اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟تاہم پاکستانی معاشرے میں جس طرح اقبال وقائد کا نام لے کر اسلام سے انحراف کی راہیں تلاش کی جاتی اور انہیں روشن خیال اسلام کا علمبردار بتا کر اس کے پردے میں من مانی کی جاتی ہے اس بنا پر اس حساس مسئلے میں ان کی شہادت اور رائے کی بھی اہمیت ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح دونوں جدید قانون کے مغرب سےتعلیم یافتہ اور بیرسٹری کے سند یافتہ تھے۔گویا قانون کے تقاضوں کو بخوبی جانتے اور سمجھتے بوجھتے تھے۔
ان کے موقف کو جاننے کےلئےماضی قریب سے غازی علم الدین شہید اورغازی عبدالقیوم کے واقعات پر قانون کو ہاتھ میں لینے سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔یہ دونوں واقعات پاکستان کے دو مرکزی شہروں لاہور اور کراچی میں چند سالوں کے وقفے سے پیش آئےاور قیام پاکستان سے قبل ان شہروں کے باسیوں نے بھی اپنے موقف کو واضح کر دیا۔خصوصاًہردو کیسوں میں علامہ اقبال نے قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کی تائید کی تھی اور اول الذکر میں تو باقاعدہ محمدعلی جناح کو بھی غازی علم الدین کی وکالت کے لئے دعوت دی تھی اور جناح نے غازی شہید کی وکالت بھی کی۔معلوم ہوا کہ ان دونوں واقعات میں یہ قائدین اس حساس مسئلے پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی گنجائش کا تصور رکھتے ہیں۔یاد رہےکہ دونوں رہنما قانون کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے اور اخلاق کے اس درجہ پر تھے کہ اسی معاملہ کی وکالت کرتے جس کی صداقت کے دل سے قائل ہوتٰے۔
ماضی میں لاہورمیں غازی علم دین شہید کا مقدمہ ہو یا کراچی میں غازی عبدالقیوم کا ایمان افروز مقام۔ان دونوں واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا'آج کے وقوعہ قتل اور ان میں مماثلت کے بہت سے پہلوتلاش کو سکتا ہٰے۔80برس قبل لاہورمیں غازی علم دین شہیدنے جب شانِ رسالت میں گستاخی ہوتے ہوئے دیکھی اوریہ جان لیا کہ اس دور کا قانون اس ظلم کا راستہ روکنے کی بجائے اس کو تحفظ ہی دے گا تو اس نے قانون کو ہاتھ میں لے کرراج پال کو خود موت کے گھاٹ اتاردیا۔جانےسےقبل اپنےباپ سےہونےوالے مکالمہ کےنتیجےمیں اس پر بخوبی یہ واضح ہو چکا تھاکہ موجودہ قانون کے تحت اس کو اس قتل کی سزامیں کسی رعایت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔لیکن غازی علم دین کےاس اقدامِ قتل اورقانون کو ہاتھ میں لینے کو اسلامیانِ برصغیر نے جو پزیرائی بخشی وہ بے مثال ہے۔مذہبی طبقے سے بڑھ کر اس دور کے مغربی تعلیم یافتہ طبقہ نے بھی اس پر بےپناہ داد و تحسین دی اس کا اندازہ اس بات سےہوتا ہےکہ غازی علم دین کے قانون ہاتھ میں لینے پراسے جوابی سزا سے بچانے کے لئے اسلامیانِ برصغیرکےقائدعلامہ اقبال پوری طرح متحرک ہوئے اوراانہوں نے محمدعلی جناح کے ساتھ اپنےگہرےتعلقات کوبروےکارلاتے ہوئے انہیں اس مقدمہ کی پیروی کرنے کی درخواست کی۔اپنے وقت کےسب سے نامور مسلمان وکیل محمدعلی جناح نے لاہور میں جس واحد مقدمے میں اپنی وکالت کےجوہردکھائے اور بطورِخاص بمبئی سے یہاں تشریف لائے'وہ یہی غازی علم دین کامقدمہ ہے۔اس مقدمے میں انہوں نےلاہورہائیکورٹ کےدوانگریزصاحبان کےسامنے یہ موقف اختیارکیا یہ قتل مذہبی جزبات کی توہین کےنتیجےمیں واقع ہواور اس قانون کو ہاتھ میں لینے کی اساس فوری اشتعال ہے جس کودنیا بھر کےمجموعہ ہائے تعزیرات کےساتھ ساتھ اس وقت کا رائج العمل انڈین پینل کوڈ بھی تحفظ دیتا ہے۔آج ممتازقادری کے اقدامِ قتل کے تناظر میں وقت کا مؤرخ یہ دیکھ رہا ہےکہ پاکستان کےوکلا قائداعظم کےکردارِوکالت کواختیارکرتےہیں۔انکے موقف کےحامی ہیں یا انگریز حکومت کےاٹارنی کےدلائل کی سمت اپنا پلڑا جھکاتے ہیں۔
غازی علم دین کو ممتازقادری کی طرح قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا تو ہو گئی لیکن اس سے اسلامیانِ برصغیر کا جوش و خروش شعلہ جوالہ کا روپ دھار گیااور اس وقت کی تمام مسلم قیادت جس میں محمدعلی جوہر اور مولانا ظفرعلی خاں وغیرہ کےنام نمایاں ہیں'نے حکومتِ وقت سےمطالبہ کیا کہ غازی کی میت ہمارے حوالے کی جائے۔جیل کے احاطے میں غازی کی تدفین کے چند ہی دنوں کے اندراندر لاہور میں فضا اس قدر پرجوش ہو چکی تھی کہ صرف تیرہ دنوں کے بعد غازی کےجسد خاکی کو مسلمانوں کےحوالے کر دیا گیا'علامہ اقبال کو عالمِِدین کا جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے دمہ کے مرض کے باوجود غازی کی قبر میں اتار کر اس کی چٹائی پر چند لمحے لیٹنے کو سعادت جانا۔مولانا ظفرعلی خاں نے قبر میں اتر کر ان کے آخری دیدار کی سعادت حاصل کی اور اس موقع پر اقبال نے یہ تاریخ ساز جملہ کہا کہِ''ترکھانوں کا بیٹا پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا''
جس کا مطلب یہ تھا کہ اگران کوموقع ملتا تو وہ خود بھی یہی اقدام کر گزرتے۔یہ واقع محض ایک مقدمہ قتل اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا کا نہیں بلکہ اس کے ذریعے تحریک پاکستان کے اس رخ کا اٹھارہ برس قبل ہی تعین ہو گیا جس کےلئےپاکستان کی دھرتی حاصل کی گئی۔متفقہ مسلم قیادت کا جوش و ولولہ ظلم وستم کےاس نظام کےخلاف تھا جو ان کے نبی کےناموس کی جفاظت کرنے کا حق بھی مسلمانوں کو نہیں دیتی۔ٖآج افسوس کہ کلمہ طیبہ اور ناموسِ رسالت کے نام پر حاصل کردہ پاکستان میں علامہ اقبال اور قائد کے خودساختہ افکار کا حوالہ دے کر لادینیت کی راہ ہموار کی جاتی ہےجبکہ ان حضرات کا توہینِ رسالت کےضمن میں قانون کو ہاتھ میں لینے پر موقف بڑا ہی واضح تھا۔
یہ اکیلا واقعہ نہیں'اہالیانِ کراچی بھی ناموسِ رسالت کےاس تحفظ میں پیچھے نہیں رہے۔
غازی علم دین کی شہادت کےصرف تین سال بعد کراچی میں نتھورام نے ''ہسٹری آف اسلام'' میں قانونِ وقت مسلمانوں کے جذبات کو تحفظ دینے کی صلاحیت سے محروم تھا'ہزارہ کے نوجوان عبدالقیوم نے ناموسِ رسالت کےلئےجان ہتھیلی پر رکھ دی اور عین کمرۂعدالت میں نتھورام کو جج کے سامنے ذبح کر دیا۔ایک بار پھر عدالت میں قانون کو ہاتھ میں لے لیا گیا۔انگریز جج دہشت زدہ ہو کر بولا:تم نے آخرکار اسے قتل کردیا۔غازی عبدالقیوم نے ایمان افروز جواب دیاکہ تمہارے سامنے موجود وائسرائے کی میں توہین کروں تو تم کیا ردِعمل پیش کرو گے؟وہ تو پھر کائنات کی اشرف ومقدس ترین ہستی ہےجن پر ہمارے ایمان واعتقاد کا پورا سلسلہ استوار ہے۔غازی علم دین کی حمایت میں ایک عظیم الشان جلوس نکلا جس نے حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔آج چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک بار پھر ممتاز قادری کی سزا پر کراچی اور پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔اہل کراچی کا یہ پہلا ایمانی مظاہرہ نہیں۔غازی کی حمایت میں نکلنے والےجلوس پر برطانوی پولیس نے فائرنگ کی کئی زخمی اور شہید ہوئے لیکن اہل کراچی ناموسِ رسالت کے محافظ کی حمایت سے باز نہ آئے۔کراچی کے لوگ لاہور علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ آپ وائسرائے سے مطالبہ کریں کہ قانون سازی ہونی چاہئے مسلمان اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہے ہمارے جذبات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ہمارے نبی کی ناموس پر حملے ہو رہے ہیں اور ہم قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہیں۔علامہ اقبال نے ایمان افروز جواب دیا:کیا غازی عبدالقیوم ڈگمگا گیا ہےِ'اس کےقدم لڑکھڑا گئے ہیں؟اس کو بتاؤ کہ جنت کو اس سےچند لمحوں کی مسافت پر دیکھ رہا ہوں۔کراچی کے لوگ آخر انسان تھے اقبال کو کہنے لگے کہ مسلمانوں کے جذبوں کو دوبارہ نہ آزمائیے علمِ دین کی روایت دوبارہ دہرائی جائے گی وائسرائے کو درخواست کریں کہ ناموسِ رسالت کےتحفظ کےلئےعملی اقدام کرتےہوئےقانون سازی کی جائے۔اقبال نے جلال میں جوجواب دیا وہ آج بھی ضربِ کلیم میں''لاہور و کراچی''کے عنوان سے ایک رباعی کی صورت موجود ہے۔
نظراللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ!
قدروقیمت میں ہےخون جن کاحرم سےبڑھ کر
ہماری عدلیہ کو ممتاز قادری کے مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانانِ برصغیر کا جذبہ ایمانی'غیرتِ ملی اوربانیانِ پاکستان کی اس تاریخ سازرہنمائی کو بھی پیشِ نظررکھنا چاہئے۔
علامہ اقبال کے جذبہ ایمانی اور حمیت و غیرت نےکفار سےقانون کو ہاتھ میں لینےکےاس جرم میں رعایت کے مطالبہ کو درخوراعتنانہ جانا اور کراچی کے غازی عبدالقیوم بھی پھانسی کے تختے پر جھول گیا۔شمع رسالت کے پروانوں نےناموس کےتحفظ کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دے دی لیکن شاتمانِ رسول سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔
چند قابلِ توجہ امور
ممتازقادری کےاقدامِ قتل اور گورنر سلمان تاثیر کوہلاک کردینےکےموضوع پربراہِ راست استدلال اور بحث وتجزیہ سےقبل اوپر مذکورہ احادیثِ نبویہ کے واقعات اور بانیانِ پاکستان کے رجحانات کے سلسلے میں چند باتیں ضرور ملحوظِ خاطررکھنا چاہئے۔
(1)مذکورہ بالاتمام واقعات ایسے ہیں جن میں اہانتِ رسول واضح طور پر ثابت شدہ تھی اورتوہینِ رسالت کےجرم کےصدور میں کوئی دوسری رائے نہ تھی۔حتی کہ بعض مقامات پر اگر کسی صحابیؓ نے کسی شاتمِ رسول کوخودقتل کیا یعنی ثبوتِ جرم کےبظاہر قانونی تقاضے پورے نہ تھےتواس بارے میں علمائےاسلام کا کہنا ہےکہ یا تو اس گستاخی کی اللہ تعالی نے نبی کریمؐ کو وحی سے تصدیق کر دی تھی جیسا کہ عمیربن عدیؓ اور عمرفاروقؓ کے واقعے میں اس کی صراحت بھی موجود ہے یا دیگر گواہوں سے جرمِ اہانت کا وقوع یقینی ہو چکا تھا مثلاًکسی بدبخت کی گستاخیاں'اشعار اور رویے زبان زدِعام تھے۔جہاں تک غازی علم دین'غازی عبدالقیوم شہید اور سلمان رشدی کا معاملہ ہے تو ایسی کتب منصئہ شہود پر موجود تھی جن میں شتم رسالت کا ارتکاب کیا گیا تھا۔مذکورہ بالا تمام واقعات میں کسی مقام پر اہانتِ رسول کے ضمن میں کسی دوسرے امکان کا تذکرہ بھی کتبِ حدیث وتاریخ میں نہیں ملتا۔اس بنا پر یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ اگر صریح اور مسلمہ توہینِ رسالت موجود ہواور اس کے ثبوت میں کوئی کلام نہ ہوتو تب ہی ان واقعات سےاستدلال کیا جاسکتا ہے۔آج بعض لوگ نبی کریمؐ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں بعض نظری اختلافات کو ناموسِ رسالت کا مسئلہ بنا کر اگر ان سے استدلال کرنا شروع کر دیں تو یہ رویہ قانون و شرح کی نظر میں کسی رعایت کا مستحق نہیں ہوگا جیسا کہ عوام میں یہ ریت پختہ ہوتی جا رہی ہے اور اس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے۔
(2)احادیث میں موجود واقعات سے پتا چلتا ہے کہ توہینِ رسالت کا مقدمہ ہو یا کوئی اور تنازعہ ہو 'یہ امور اسلامی عدالت سے بالا تر نہیں کہ جو شخص بھی چاہے تو توہینِ رسالت کا دعوی کرکے قانون سے بالا تر ہو کر رعایت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔بلکہ ان احادیث سے سنتِ نبویہ دراصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسے واقعات ہونے پر شرعی عدالت میں ان کی باز پرس کی جائے'امرِ واقعہ کا پوری طرح جائزہ لیا جائے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔اگرامرِواقعہ میں اہانتِ رسول کا ارتکاب ہوا ہے تو ایسے مجرم کو سزا سے معافی دی جائے اور اگر در حقیقت ایسے نہیں ہوا تو پھر ملزم پر شرع و قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں تاکہ لوگوں کے جان و مال محفوظ رہی۔بالفرض کسی نے توہینِ رسالت کی آڑ میں اپنا غصہ و انتقام پورا کیا جائے تو اس کو جواباً قصاص میں قتل کیا جائے۔
(3)احادیثِ نبویہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شتم رسول کے مرتکب کو سزا دینا ہر مسلمان پر واجب نہیں بلکہ یہ مسلم حکومت کا ہی فرض ہے۔کیونکہ اگر یہ ہر مسلمان پر واجب ہوتا تو پھر صحابہ کرامؓ کو اس میں پہل کرنی چاہئے تھی اور سزا نہ دینے والے صحابہ کرامؓ کو گناہ گار ٹھہرنا چاہئے تھا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔تاہم اگر کوئی مسلمان شاتم رسول کو بہ تقاضائے ایمانی قتل کر دے تو اس کی قانونی باز پرس کی جائے گی اور بعض مخصوص صورتوں میں اس کا یہ اقدام قابلِ تعریف بھی ہو سکتا ہے جب کہ مجرم کی گستاخی حد سے بڑھ چکی ہو اور مسلمان اس کی گرفت کرنے پر قادر نہ ہوں مثال کے طور پر سلمان رشدی کا قاتل آج امتِ اسلامیہ کا محسن قرار پائے گا۔اصول یہی ہے کہ ہر جرم کا معاملہ عدالت میں پیش کیا جائے اور شرعی عدالت سے ہی فیصلہ لیا جائے اور توہینِ رسالت کا مسئلہ بھی اس سے مستثنی نہیں تاہم اگر کوئی بہ تقاضائے ایمانی خود اقدام کربیٹھے تو سنتِ نبویہؐ یہ ہے کہ اس کے اقدام کا عدالت میں جائزہ لے کر عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں'جیسا کہ سابقہ تمام حدیثی اور تاریخی واقعات وقوعہ قتل کے بعد کے ہیں اور ان سے اسی قدر ثابت ہوتا ہے اور کسی مقام پر نبی کریمؐ نے اصولاً شاتم رسول کو از خود سزا دے لینے کی کوئی تلقین نہیں کی ۔نہ ہی محض یہ دعوی کر دینے سے کوئی شخص قانون سے بالا تر ہو جاتا ہے اور نہ ہی محض قانون کو ہاتھ میں لینےسے قتل کرنے والا لازماًموت کی سزا پائے گا۔بالخصوص وہ جرائم جو مقتول و متاثر فرد کے کسی جرم کے تناظر میں واقع ہوتے ہیں۔شریعتِ اسلامیہ کا موقف ان میں یہ ہے کہ انہیں پہلے جرم کےتناظر میں دیکھ کر حقیقی عدل کیا جائے۔غیرت کے نام پر جرائم کی طرح شتم رسول کے جرم کے نتیجے میں جوابی اقدام کو پہلے جرم کے تناظر میں دیکھ کر حقیقی فیصلہ کیا جانا چاہئے جیسا کہ اس قانون و شرعی نکتہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
(4)غازی علم دین شہید کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے رنگیلا رسول'نامی دل آزادی کتاب کے جس ہندو ناشر راج پال کو موت کے گھاٹ اتارا تھا وہ خود توہینِ رسالت کا مرتکب نہیں تھا بلکہ اصل توہینِ رسالت کا ارتکاب تو اس کتاب کے مصنف ایک ہندو سرکاری پروفیسر نے کیا تھا۔گویا غازی علم دین نے جرم توہینِ رسالت میں معاونت کرنے والے ایک ہندو ناشر کو'' جس نے اس جرم کی تائید کر کے اسے معاشرت میں پھیلایا تھا'' قتل کر دیا تھا تاکہ اہانتِ رسول کے مرتکب کی کسی بد بخت کو تائید کی بھی ہمت نہ ہو اور غازی کے اس اقدام کو اسلامیانِ ہند نے قبولیت و پذیرائی بخش کر ان کی بھرپور تائید کی تھی۔جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔گویا توہینِ رسالت کے جرم کا انتشار وذیوع اور شاتم سے ہمدردی اور معاونت اس کے جرم میں ملوث اور شریک ہونے کے مترادف ہے'جس کے بعد تعاون کرنے والا کسی طور کلی معصوم قرار نہیں پا سکتا۔
(5)لاہور و کراچی کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ شاتمانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مسلمانوں نے اس وقت قانون کو ہاتھ میں لیا جب قانون میں یہ قوت نہیں تھی کہ وہ ایسے مجر موں کو سزا دے سکے۔بلکہ اس وقت تو ایسا قانون ہی موجود نہ تھا جو پیغمبروں کے تقدس کی پامالی کو جرم قرار دے۔یہی وجہ ہے کہ غازی علم دین جانے سے قبل اپنے والد سے جو مکالمہ کر گیا تھا اس میں اسے یقین تھا کہ نہ تو قانون کا در کھٹکھٹانے سے راج پال کو سزا ملے گی اور نہ ہی اسے قتل کرنے پر علم دین کو کوئی رعایت ملے گی۔یہی صورتِ حال غازی عبدالقیوم کی بھی تھی۔سلمان رشدی کے بارے میں عام فتوی قتل کے پس پردہ بھی یہی بات موجود ہے کہ امتِ اسلامیہ کے سامنے ایسا امکان نہیں تھا جس کی بنا پر کسی عالمی عدالت میں وہ اس بدبخت کو اس کی سزا دلوانے میں کامیاب ہوسکیں کیونکہ موجودہ مادہ پرست عالمی ضمیر'اپنے حکمرانوں کے تقدس کو تو قانونی تحفظ دیتا ہے لیکن دین و مذہب کے قائدین اور پیغمبران کو یہ تقدس دینے کو تیار نہیں ہے۔اور ڈھٹائی سے اسے آزادئ اظہار قرار دے کر اس کی تائید کرتا ہے۔جہاں تک احادیثِ رسول کی بات ہے تو ان میں بعض واقعات ایسے ہیں جہاں آغازِاسلام میں مسلمانوں کو یہ خدشہ لاحق ہو سکتا تھا کہ اگر وہ ان مجرموں کی عام سزائے قتل کا اعلان کرے گے تو یہ کفار کے ساتھ مل کر اسلام مخالف سازشوں میں شریک ہوں گے۔اس لئے فتح مکہ سے قبل نبیﷺنے کسی گستاخِ رسول کی کھلم کھلا سزا کا اعلان نہیں کیا۔اس بنا پر یہ ممکن ہے کہ بچوں کی ماں باندی'عمیربن امیہ کی مشرکہ بہن'عمیربن عدی کے قبیلہ کا کافر فرد عصما اور یہودیہ وغیرہ کے سلسلے میں قانون کو اس لئے ہاتھ میں لیا گیا ہو جبکہ دستیاب حالات و واقعات کی رو سے ان شاتمان کی قانونی گرفت کے مکمل امکانات موجود نہ ہوں۔تاہم بعض واقعات میں اس کے باوجود اس غیرتِ ایمانی اور حبِ رسول کے شدید تقاضے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو کسی باحمیت مسلمان کا امتیاز ہونی چاہئے جیسا کہ سیدنا عمر فاروق کا اپنا اور ان کے دورِخلافت میں ہونے والا بچوں کا واقعہ اس کی شہادت دیتا ہے۔
مذکورہ بالا توضیحی نکات کے بعد یہ امر بہرحال واضح ہے کہ اگر کوئی بدبخت توہینِ رسالت کا ارتکاب کرے اور کوئی مسلمان ایمان کے تقاضے سے مجبور ہو کر اس کو قتل کر دے تو قتل کرنے والے کے خلاف محض قانون کو ہاتھ میں لینے کو دلیل بنا کر مروجہ قانون کی بنا پر اس کو دوہری سزائےموت دینا شریعتِ اسلامیہ کی رو سے درست نہیں ہے'جیسا کہ نبی کریمﷺاور صحابہ کرام نے اس بنا پر کسی کو سزا نہیں دی بلکہ صورتِ واقعہ اور حقائق کے پیشِ نظر اصل مجرم کی سزا پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔
جہاں تک ہمارے پیشِ نظر واقعہ یعنی ممتاز قادری کا گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا تعلق ہے تو انہی معروضات اور رہنما ہدایات کے پیشِ نظر ہم اگلے شمارے میں براہِ راست اصل مسئلہ پر شرعی تجزیہ پیش کریں گے۔ان شاءاللہ