سیدنا عیسیٰ الٰہ تھے، یا نبی؟ سیدنا عیسیٰ ﷤کی زبانی

اور عیسائیوں کے شبہات کی تفصیلی وضاحت
جناب مسیح ﷤ کا خود کے بارے میں دعوائے نبوت نہ کہ دعوائے اُلوہیت !
1.     قرآن مجید نے تو واضح الفاظ میں مسیح ﷤ کے رسول ہونے کی صراحت کی ہے ۔اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿مَا المَسيحُ ابنُ مَريَمَ إِلّا رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدّيقَةٌ كانا يَأكُلانِ الطَّعامَ انظُر كَيفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الءايـٰتِ ثُمَّ انظُر أَنّىٰ يُؤفَكونَ ﴿٧٥﴾... سورة المائدة
’’مسیح ابن مریم ایک رسول ہی تھے، جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اور اس کی والدہ راست باز تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھئے ہم ان کے لیے کیسے واضح دلائل پیش کر رہے ہیں پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ لوگ کدھر سے بہکائے جارہے ہیں؟‘‘
2.  اور یہ بھی مکالمہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے:
﴿وَإِذ قالَ اللَّهُ يـٰعيسَى ابنَ مَريَمَ ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلـٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ قالَ سُبحـٰنَكَ ما يَكونُ لى أَن أَقولَ ما لَيسَ لى بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلتُهُ فَقَد عَلِمتَهُ تَعلَمُ ما فى نَفسى وَلا أَعلَمُ ما فى نَفسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلّـٰمُ الغُيوبِ ﴿١١٦﴾ ما قُلتُ لَهُم إِلّا ما أَمَرتَنى بِهِ أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ رَبّى وَرَبَّكُم وَكُنتُ عَلَيهِم شَهيدًا ما دُمتُ فيهِم فَلَمّا تَوَفَّيتَنى كُنتَ أَنتَ الرَّقيبَ عَلَيهِم وَأَنتَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ شَهيدٌ ﴿١١٧﴾... سورة المائدة
’’جب (قیامت کے دن) اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے:’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللّٰہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الٰہ بنا لو ۔‘‘ حضرت عیسیٰ جواب دیں گے:’’ اے اللّٰہ! تو پاک ہے، میں ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہوں جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا۔ کیونکہ جو کچھ میرے دل میں ہے وہ تو تو جانتا ہے لیکن جو تیرے دل میں ہے وہ میں نہیں جان سکتا۔ تو تو چھپی ہوئی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔میں نے تو انہیں صرف وہی کچھ کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللّٰہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی اور جب تک میں ان میں موجود رہا، ان پر نگراں رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا۔ اور تو تو ساری چیزوں پر شاہد ہے۔‘‘
3.  بائبل کا عہد جدید بھی اس پر گواہی دیتا ہے، چنانچہ لکھا ہے :
’’حضرت عیسیٰ ﷤ نے فرمایا : اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خداے واحد اوربر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تونے بھیجا ہے، جانیں ۔‘‘[1]
4.  اس اردو کی جب ہم عربی دیکھتے ہیں تو یوں لکھی ہوئی ملتی ہے :
والحیاة الأبدية أن یعرفوك أنت الإله الحق وحدك ویعرفوا یسوع المسیح الذی أرسلته[2]      اگر حضرت مسیح ﷤ خود ہی خدا تھے تو یہ بات کس سے کر رہے تھے ؟
5.  آپ مبعوث (بھیجے گئے ) تھے اور یہ اظہر من الشمس ہے کہ بھیجنے والا اور بھیجا گیا دونوں میں فرق ہوتا ہے ۔
6.  تثلیث اور اقانیم کے متعلق حضرت عیسیٰ ﷤ ہرگز کچھ نہ جانتے تھے ۔
7.  حضرت عیسیٰ ﷤ نے اُلوہیت کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا کیونکہ اُنہوں نے الٰہ حقیقی ہونے کی نسبت دوسری ذات کی طرف فرمائی ہے نہ کہ اپنی طرف ۔
8.  پس یسوع نے کہا کہ ’’جب تم ابن آدم کو اونچے پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ میں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا، اسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے ، اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند آتے ہیں ، جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو بہتیرے اس پر ایمان لائے ۔‘‘[3]
کوئی بھی انسان تعصّب کی عینک اتارکر بتا سکتا ہے کہ یہ جملے سن کر ایمان لانے والوں کا ایمان کیسا ہوگا؟
حضرت عیسیٰ﷤ بذاتِ خود خدا ہیں اور وہ مدعی الوہیت تھے یا کہ الٰہ کوئی دوسرا ہے اور یہ اس کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسول اور نبی تھے ؟
9.  انجیل لوقا کا مصنف حضرت مسیح ﷤ کے حوالے سے نقل کرتا ہے کہ ’’انھوں نے یسعیاه نبی کا صحیفہ پڑھ کر یہودیوں کو سنایا : خدا کا روح مجھ پر ہے ، اس لیے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لیے مسح کیا ، اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں، کچلے ہؤوں کو آزاد کروں اور خداوند کے سالِ مقبول کی منادی کروں ، پھر وہ کتاب بند کرکے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادت خانے میں تھے، سب کی آنکھیں اس پر لگی تھیں ۔ وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہو ا ہے اور سب نے اس پر گواہی دی ۔‘‘[4]
جناب مسیح ﷤ نے یسعیاه نبی کی یہ پیشین گوئی اپنے حق میں قرار دی ہے ، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نبی اور رسول تھے ،نہ کہ خدا تھے ۔
مزید تائید ایسے ہوتی ہے کہ یسعیاه نبی کی کتاب آج بھی بائبل میں موجود ہے اور اس سے ملتی جلتی عبارت موجود[5] ہے لیکن کسی یہودی نے یہ نہیں سمجھا کہ جس پر یہ صادق آئے گی، وہ خدا ہو گا ۔
10.  کسی بیوہ کا اکلوتا بیٹا مرگیا تو حضرت عیسیٰ﷤ نے اس کو ( اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ) زندہ کیا ، آگے لکھا ہے :
’’سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی اُمّت پر توجہ کی ہے اور اس کی نسبت یہ خبر سارے یہودیہ اور تمام گردونواح میں پھیل گئی ۔‘‘[6]
اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود حاضرین نے انھیں خدا نہیں بلکہ نبی سمجھا اور تما م علاقے میں بھی یہ بات معروف ہو گئی ۔ایسے موقع پر حضرت عیسیٰ﷤ واضح کرسکتے تھے کہ میں خدا ہوں اور تم مجھے نبی سمجھ رہے ہو۔
ان کی خاموشی کونسی بات بتا رہی ہے ؟     ہر زیرک شخص سمجھ سکتا ہے ۔
11.  معاشرے میں ان کی شہرت بطورِ نبی تھی، اس کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ ایک فریسی[7] یہودی نے حضرت عیسیٰ﷤ کی دعوت کی ، کھانے پربیٹھے تو ایک بدچلن عورت آ کر ان کے قدموں میں گر پڑی ، روئی، اور آنسوؤں سے بھیگے ہوئے جناب مسیح ﷤ کے پاؤں کو اپنے بالوں سے پونچھا اوران پر عطر ڈالا اور بہت چوما۔ آگے لکھا ہے : ’’اس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا: اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اسے چھوتی ہے، وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ وہ بدچلن ہے ۔‘‘[8]
جناب مسیح ﷤ کا دعویٰ اُلوہیت کا ہوتا تو اس فریسی یہودی کو ان کے الٰہ ہونے میں شک گزرنا چاہیے تھا، نہ کہ نبی ہونے پر۔
12.  عہد جدید میں سیدنا عیسیٰ﷤ کے مرنے اورپھر جینے کا تذکرہ ہے ، دو آدمی آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے ، ان میں سے ایک ان کا پیروکار تھا اور اس کا نام کلیپاس تھا ،حضرت مسیح ﷤ خود زندہ ہونے کے بعد ان کے پاس آکھڑے ہوتے ہیں اور ان سے ان کی آپس کی باتوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اس سے کہا: یسوع ناصری کا ماجرا جو خدا اور ساری امت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا...۔‘‘[9]
کلیپاس کے پیروکار ہونے کی صراحت بائبل کی مطالعاتی اشاعت والوں نے کی ہے ۔[10]
واضح ہوا کہ جناب مسیح ﷤ کے ساتھ واقعہ صلیب کے بعد تک بھی ان کے پیروکار اُنہیں ایک نبی و رسول کی حیثیت سے ہی جانتے اور مانتے تھے ۔
13.  جناب عیسیٰ﷤ نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فقیر پیدائشی اندھے کی بینائی لوٹائی تو بعد میں اس کو فریسی یہودیوں کے پاس لے جایا گیا، انھوں نے پھر اس اندھے سے کہا کہ اس نے جو تیری آنکھیں کھولیں تو اس کے حق میں کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا :’’وہ نبی ہے ۔ ‘‘[11]
بعد میں اس آدمی اور یہودیوں کے مابین جناب عیسیٰ﷤ کے سچے ہونے پر مناظرہ ہوا تو اس نے اپنی بینائی کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہوئے کہا :
’’دنیا کے شروع سے کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں ، اگر یہ شخص خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا ۔ ‘‘[12]
واضح ہوا کہ حضرت عیسیٰ﷤ کے پیروکاروں اور یہودیوں کے مابین بحث مباحثہ بھی دعوٰی نبوت پر ہوتا تھا، نہ کہ دعویٰ اُلوہیت پر۔
14.  اور جب وہ یروشلیم میں داخل ہوا تو سارے شہر میں ہل چل پڑگئی اور لوگ کہنے لگے: یہ کون ہے ؟بھیڑ کے لوگوں نے کہا:’’ یہ گلیل کے ناصرة کا نبی یسوع ہے۔‘‘[13]
اس موقع پر جناب عیسیٰ﷤ کے ساتھ ان کے شاگرد بھی تھے لیکن نہ تو انھوں نے اور نہ ہی کسی شاگرد نے اس پر کوئی تنقید کی ۔
15.  تقریبا پانچ ہزار افراد کو معجزہ کے طور پر تھوڑا سا کھانا پورا ہو گیا تو وہاں موجود سب لوگ کہنے لگے، جبکہ مسیح ﷤ اور ان کے شاگرد بھی وہاں موجود تھے :
’’پس جو نبی دنیا میں آنے والا تھا، فی الحقیقت یہی ہے ۔ ‘‘[14]
16.  حضرت عیسیٰ﷤ نے جب دیکھا کہ ان کے علاقے ناصرةکے لوگ ان کے معجزات دیکھنے کے باوجود ان پر ایمان نہیں لائے تو فرمانے لگے :
’’نبی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہوتا ۔‘‘[15]
17.  جناب عیسیٰ﷤ کو آکر جب بعض فریسیوں نے ڈرایا کہ یہاں سے بھاگ جا کیونکہ ہیرودیس تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے تو انھوں نے جواب دیا : اس لومڑی سے کہہ دو کہ دیکھ میں آج اور کل بدروحوں کو نکالتا اور شفا بخشنے کا کام انجام دیتا رہوں گا اور تیسرے دن کمال کو پہنچوں گا مگر آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پرچلنا ضرور ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلیم سے باہر ہلاک ہو ۔‘‘[16]
18.  اپنے شاگردوں کو فرمانے لگے :
’’جو تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔ جو نبی کے نام سے نبی کو قبول کرتا ہے، وہ نبی کا اجر پائے گا۔‘‘[17]
19.  جناب عیسیٰ﷤ اپنے معجزات کے سبب معاشرے میں کافی مشہور ہوگئے یہاں تک کہ ہیرودیس بادشاہ تک ان کے چرچے پہنچ گئے۔ ان معجزوں کی وجہ سے لوگوں میں کیا چہ مگوئیاں ہوتی تھیں، ملاحظہ فرمائیں :
’’اور ہیرودیس بادشاہ نے اس (مسیح ) کا ذکر سنا کیونکہ اس کا نا م مشہور ہو گیا تھا اور اس نے کہا کہ یوحنا بپتسما دینے والا مردوں میں سے جی اُٹھا ہے، اس لیے اس سے معجزے ظاہر ہوتے ہیں ، مگر بعض کہتے تھے کہ ایلیاہ ہے بعض یہ کہ نبیوں میں سے کسی کی مانند ایک نبی ہے مگر ہیرودیس نے سن کر کہا کہ یوحنا (یحییٰ﷤) جس کا سر میں نے کٹوایا، وہی جی اٹھا ہے ۔‘‘[18]
یہ ایک فطری بات ہے کہ کسی بھی انسان کا روحانی مرتبہ زیادہ سے زیادہ نبی تک جاسکتا ہے ، اس لیے تمام لوگ جناب مسیح ﷤ کو نبی کی مانند یا نبی ہی خیال کرتے تھے۔کسی ایک انسان نے بھی ان کی زندگی میں ان کو خدا نہیں سمجھا۔
20.  ایک عورت کو حضرت عیسیٰ﷤ نے جب اس کی مخفی زندگی کا چہرہ کروایا تو کہنے لگی :
’’مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے ۔‘‘[19]
مسیح ﷤ نے اس عورت کو غلط نہیں کہا اور نہ ہی اس کی تصحیح کرتے ہوئے ، اپنے آپ کو خدا بتایا ۔
21.  عید کے آخری دن عیسیٰ﷤نے لوگوں کو تبلیغ کی تو ان کی باتیں سن کر وہاں موجود لوگوں نے ان کی حیثیت متعین کرنےمیں اختلاف کیا۔ لکھاہے : ’’پس بھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سن کرکہا: بے شک یہی وہ نبی ہے ، اوروں نے کہا: یہ مسیح ہے اور بعض نے کہا: کیوں ؟ کیا مسیح گلیل سے آئے گا؟ کیا کتاب مقدس میں یہ نہیں آیا کہ مسیح داود کی نسل اور بیت لحم کے گاؤں سے آئے گا، جہاں داود تھا ، پس لوگو ں میں اس کے سبب اختلاف ہوا ، اور ان میں سے بعض اس کو پکڑنا چاہتے تھے مگر کسی نے اس پر ہاتھ نہ ڈالا۔‘‘[20]
عیسی ﷤ اگر خدا ہوتے تو ایسے موقع پر اپنی حیثیت واضح کرکے لوگوں کا اختلاف دور کرسکتے تھے ، لیکن ایسا نہیں کیا ،معلوم ہوا ان کی حکمت بھری گفتگو سن کر لوگ ا نہیں نبی اور مسیح ہی خیال کرتے تھے، نہ کہ خدا ۔
مسیحی ردّ عمل
یہ اور اس طرح کے دیگر دلائل جب پیش کیے جاتے ہیں تو مسیحی حضرات ان کا جواب یوں دیتے ہیں :
جناب مسیح کی دو حیثیتیں ہیں :ایک انسانی دوسری الوہی! آپ ایک کامل انسان بھی ہیں اور کامل خدا بھی ، لہذا یہ جتنے بھی دلائل ہیں، ان سب میں ان کی انسانیت کا روپ ہے یعنی بطورِ انسان یہ کام ان سے صادر ہوئے ۔
جواب
1.     اصل جواب سے پہلے یہ حوالہ فائدہ سے خالی نہیں ہو گا کہ 325ء کی ’نقایہ کونسل‘ میں ہی کلیسیا نے فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ نجات دہندہ (مسیح) کی ذات بابرکات میں خدائی اورانسانی اوصاف کاملیت کے ساتھ موجود ہیں۔[21] معلوم ہوا کہ ابتدا سے ہی مسیحی لوگ جناب عیسیٰ ﷤ کی حیثیت میں مختلف اعتقاد رکھتے تھے، اسی لیے تو ان کو سرکاری طور پر اس کا اعلان کرنا پڑا،مزید یہ کہ آج تک عیسائیوں میں ایسے فرقے چلے آتے ہیں جو جناب عیسیٰ ﷤ کی صرف ایک حیثیت یعنی انسانی کے قائل ہیں، ان کو خدا تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ یونی ٹیرین فرقہ ہے ۔اگر دو حیثیتوں والا نظریہ حقیقی ہوتا تو ابتدا سے لے کر آج تک دوہزار سال گزرنے کے باوجود اختلافی نہ رہتا ۔
2.  جناب مسیحی ﷤ نے کبھی اپنی دو حیثیتوں کا دعویٰ نہیں کیا یہ تو مدعی سست اورگواہ چست والا معاملہ ہے ۔
بلکہ اس کے برخلاف بائبل واضح اور صاف الفاظ میں خدا تعالیٰ کا یہ قول نقل کرتی ہے :
’’میری شفقت موجزن ہے، میں اپنے قہر کی شدت کے مطابق عمل نہیں کروں گا۔ میں ہرگز افراہیم کو ہلاک نہ کروں گا، کیونکہ میں انسان نہیں، خدا ہوں۔‘‘[22]
مزید لکھا ہے: ’’خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے اور نہ وہ آدم زاد ہے کہ اپنا ارادہ بدلے ۔‘‘[23]
یعنی خدا کی دو حیثیتیں ہو ہی نہیں سکتیں۔
3.  مسیحی حضرات نے ان دو حیثیتوں کو تجسیم کی اصطلاح پہنائی ہوئی ہے جس کے حوالے سے عیسائی سکالر کہتے ہیں : ’’ذاتِ الٰہی کے دوسرے اقنوم (بیٹے ) نے جسم اختیار کیا۔ ‘‘... آگے جا کر رقم طراز ہیں :
’’اگر اس عقیدے کو عہدِ عتیق کے توحید پرستی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو کفر نظر آتا ہے اورکٹر یہودی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔‘‘[24]
جناب عیسیٰ ﷤ نے یہودیوں کے سامنے جب اللّٰہ تعالیٰ اورخود کو ایک کہا تو یہودی پتھر اٹھا کر انہیں سنگسار کرنے لگے ،تو عیسیٰ ﷤ نے پوچھا : میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھا ئے ہیں ، ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو ؟ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اوراس لیے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے ۔یسوع نے انہیں جواب دیا کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ
’’میں نے کہا تم خدا ہو ؟ جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا ۔ ‘‘[25]
یہ دو حیثیتیں واضح کرنے کا موقع تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ وضاحت کردی کہ اگر میں اپنے آپ کو اورخدا کو ایک کہتا ہوں تو یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پہلے انبیاء کو اللّٰہ تعالیٰ نے خداکہا ۔ اگر سیدنا مسیح کی دو حیثیتیں ہیں تو پھر پہلے انبیا بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ، جبکہ کوئی مسیحی اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
معلوم ہوا کہ جناب عیسیٰ﷤ کے حوالے سے جو بعض ایسے مبہم کلمات آئے ہیں، ان سے ہرگز ان کی اُلوہی حیثیت مترشح نہیں ہوتی ، یہ مسیحی حضرات کا تحکم اور سینہ زوری ہے ۔
4.  اگر جناب مسیح ﷤ کی دو حیثیتیں تھیں تو سولی پر جس نے جان دی تھی وہ کون تھا جسے مارا گیا ، منہ پر تھوکاگیا، کانٹوں کا تاج پہنایا گیا وغیرہ کون تھا؟ اگر انسان (ناسوت )تھا تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ابن اللّٰہ نے ہمارے گناہوں کے کفارے میں جان دی ، پھر اس نظریے کو ترک کر دینا چاہیے ۔
دریں صورت ماننا پڑے گا کہ جناب مسیح ﷤ پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ محض انسان تھے ، ان کی اُلوہی حیثیت ختم تھی۔اور اگر کہا جائے کہ یہ ابن اللّٰہ (لاہوت ) تھا، خدائی حیثیت تھی تو کیا خدا اتنا کمزور ہو سکتا ہے ؟ اورکیا خدا کو موت آسکتی ہے ؟آیا خدا کے منہ پر کوئی تھوک سکتا ہے ؟ خدااتنا عاجز ودرماندہ ہو سکتا ہے ؟
5.  ان تمام بائبلی حوالہ جات سے پیچھا چھڑانے کے لیے مسیحیوں کا سیدنا مسیح ﷤ کی دو حیثیتوں کو ماننا ، ہر مذکورہ بات میں جاری نہیں ہوتا کیونکہ کئی ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق (ناسوت ) جسم سے ہے ہی نہیں ۔
مثلا انھوں نے اپنے دوبارہ آنے کے وقت سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔
انجیر کے درخت کو دور سے دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ پھل ہے کہ نہیں؟
6.  ’’اوریسوع حکمت اورقدوقامت میں اورخدا اورانسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا ۔‘‘ [26]
جسم کبھی علم اوربے علمی سے متصف ہوتا ہے؟ نیز کیا جسم بھی کبھی حکیم ودانا ہوا ہے ؟
اسی طرح جناب مسیح ﷤ کا خوف زدہ ہونا، غم زدہ ہونا، مضطرب ہونا کیا ان کا تعلق جسم سے ہے ؟
7.  جناب مسیح ﷤ کا دو حیثیتیں تسلیم کرنا یعنی لاہوتی (الوہی)اورناسوتی (بشری)تقاضا کرتا ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں خالق بھی ہوں اورمخلوق بھی ہوں ،رازق بھی ہوں اور مرزوق بھی ہوں ،غنی بھی ہوں اور محتاج بھی ہوں ،کامل بھی ہوں اورناقص بھی ہوں ، ہرچیز کو جاننے والا بھی ہوں اورجاہل بھی ہوں ، قدیم بھی ہوں اورحادث بھی ہوں ۔
کیا یہ محال نہیں ؟اورکیا کوئی عقل مند ایسی ناممکن چیز کو تسلیم کرلے گا ...؟
بالفرض اگر کوئی کہہ دے کہ یہ دونوں حیثیتیں اکٹھی طاری نہیں ہوتی تھیں تو اس کا جواب یوں ہے :
جناب مسیح﷤ پر جب ناسوتی (انسانی )کیفیت ہوتی تھی وہ اس وقت خدائی صفات سے خالی ہوتے تھے ، یعنی کوئی وقت ایسا بھی ان پر آتا تھا جب وہ خدائی صفات سے عاری ہوتے تھے ۔
کیا خدا ایسا ہوتا اور ہوسکتا ہے ...؟
یہ اعتراضات ملاحظہ کرنے کے بعد عیسائیوں کی طرف سے یہ جواب آتا ہے کہ ناممکنات اشیا کا اجتماع مخلوق میں محال ہے، خدا میں نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ
8.  اس طرح تو پھر ہر مذہب والا سچا ہے خواہ اس کا تعلق ہندومت سے ہو یا یونانی بت پرستی سے کیونکہ انھوں نے اپنے دیوتاؤں کے حوالے سے جو دیومالائی داستانیں گھڑی ہوئی ہیں وہ بھی درست قرار پاتی ہیں ، نیز مسیحیوں کی طرح تثلیث ہی کیا پھر تو ہزاروں خداؤں کا تصور بھی صحیح ہوا ۔
کوئی مسیحی اس کو اپنے ہی اصولوں کے مطابق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے ؟ ہرگزایسا کوئی نہیں ملے گا
جس سے معلوم ہوا کہ ان کی طرف سے آنے والا درج بالا جواب حقیقت کے خلاف ہے ۔
9.  اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت گو کہ غیر محدود اورمطلق ہے لیکن اس کا تعلق عقلی لحاظ سے ممکن اشیا سے ہے، نہ کہ غیر ممکن سے مثلاً :انہی مسیحی لوگوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ آیا اللّٰہ تعالیٰ اپنے جیسا کوئی دوسرا خدا پیدا کرسکتا ہے ؟اگروہ کہیں جی ہاں تو ہم پوچھیں گے یہ تو مخلوق ہو گا، وہ اللّٰہ ٰ کے برابر اور اس جیسا کیسے ہو گیا ؟
اگر وہ مخلوق ہے تو الٰہ نہیں اگر الٰہ ہے تو مخلوق نہیں ۔
کیا یہاں بھی درج بالا اصول لاگو ہو سکتا ہے ؟
10.  ایک اورانداز سے : کیا اللّٰہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنی خدائی اوراختیارات سے باہر کر سکتا ہے ؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو مطلب ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بادشاہی اختیارات اورطاقت ایک خاص حد اورعلاقے تک ہے ۔ اور اگرجواب نفی میں ہے اوریہی صحیح ہے تو معلوم ہوا کہ قدرت الٰہی کا تعلق عقلی لحاظ سےمحال اور ناممکن چیزوں سے نہیں ۔
11.  ملحدین اکثریہ سوال کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسا پتھر بنا سکتا ہے جس کو وہ خود بھی نہ اٹھا سکے ؟
مسیحی کیا جواب دیں گے ؟ ...اگر جواب ہاں میں دیا جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کی کمزوری ثابت ہوتی ہے اوراگر نفی میں جواب ہو تو اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت میں نقص لازم آتا ہے۔
لامحالہ یہی کہا جائے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت وطاقت لاانتہاہے۔ یہ چیز اس میں نقص ثابت کرتی ہے، اس لیے اس کی شان کے لائق ہی نہیں لہذا وہ کسی چیز سے عاجز نہیں آ سکتا ، اوراس کا عاجز نہ آنا اس کی کمالِ قدرت وطاقت پر دلالت کرتا ہے ۔
اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نہ تو بھولتا ہے اورنہ ہی کوئی چیز اس سے چھپ سکتی ہے ۔
مسیحی لوگوں کے بقول یہ محال اشیا اللّٰہ تعالیٰ میں پائی جانی چاہئیں۔نعوذ باللّٰہ من ذلک!
خلاصہ
انا جیل نے جناب مسیح﷤ میں بشری کمزوری واضح کی ہے جواللّٰہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہرگز نہیں، لہٰذا ان کمزوریوں کے باوصف حضرت مسیح﷤ خدا نہیں ہو سکتے ۔
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔
چنانچہ لکھا ہے : ’’کیوں کہ میں خداوند لاتبدیل ہوں ۔ ‘‘ [27]
یعقوب کے خط میں ہے: ’’اے میرے پیارے بھائیو ! فریب نہ کھانا ، ہر اچھی بخشش اورہر کامل انعام اوپرسے ہے اورنوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اورنہ گردش کے سبب سے اس پر سایہ پڑتا ہے ۔‘‘ [28]
ایک افسردہ دل خدا تعالیٰ کو مخاطب ہو کر کہتا ہے :
’’تو ان کو لباس کی مانند بدلے گا اوروہ بدل جائیں گے، پر تو لاتبدیل ہے ۔ ‘‘    [29]
عیسائیوں کے قولی شبہات کا اِزالہ
شبہ اوّل: بائبل میں ’مسیح کو ابن اللّٰہ ‘ کہا گیا ہے!
’’جناب مسیح﷤ کو انا جیل اربعہ اوردیگر خطوط ورسائل میں کئی مرتبہ ’ابن اللّٰہ‘ کہہ کر پکارا گیا ہے جس سے ان کی اُلوہیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ بیٹا اپنے باپ کے جوہر سے ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
جواب: جو لوگ بائبل کا مطالعہ نہیں رکھتے، ان کی نظر میں یہ بہت وزنی دلیل ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ابن اللّٰہ کا لفظ فقط جناب عیسیٰ﷤کے حوالے سے ہی نہیں آیا بلکہ بائبل اس سے بھری پڑی ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ بائبلی اصطلاح کے مطابق خدا کا بیٹا اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ، مقرب،اورپسندیدہ شخص پر بولا جاتا ہے ، نہ کہ اس کا حقیقی معنیٰ مراد لیا جائے گا۔ورنہ سب وہ لوگ جن کے حق میں بائبل کے اندر یہ لقب استعمال ہوا وہ بھی خدا تعالیٰ کے حقیقی فرزند کہلانے کے حقدار ٹھہرتے ہیں ، ان کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔
دوم: جناب مسیح﷤ کے لیے آنے والا لفظ ’ابن اللّٰہ‘ اگر اپنے حقیقی معنی میں ہے تو پھر بائبل میں ہی ان کے لیے آنے والے الفاظ ابن آدم[30] اورابن داود[31]کے متصادم ہے کیونکہ یہاں بھی حقیقی معنی ہی مراد ہے اوریہ ممکن ہی نہیں کسی کے دو حقیقی والد ہوں ،لامحالہ ایک کو مجازی معنی میں ماننا پڑے گا ۔سو مجازی معنیٰ اسی کا لیا جائےگا جس کی بائبل تصدیق کرتی ہے اوروہ ’ابن اللّٰہ‘ ہے۔
اگر کوئی یہ کہےکہ جنا ب عیسیٰ﷤ ناسوت کے لحاظ سے ابن انسان اورلاہوت کے اعتبا رسے ابن اللّٰہ تھے تو یہ بھی ناقابل قبول اورکمزور بات ہے کیونکہ جیسا کہ پیچھے گزرا کہ ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں خالق ومخلوق ، رازق ومرزوق ، الٰہ اوربندہ نہیں ہو سکتے ۔
سوم: کسی بھی کتاب کے مغلق لفظ کی بہترین اورمعتبر تشریح وہی ہوتی ہے جو اسی کتاب میں کردی گئی ہو ،چنانچہ لفظ ’ابن اللّٰہ‘ کی تشریح عہد جدید میں یوں کی گئی اوروہ بھی جناب عیسیٰ﷤ کے متعلق:
’’انجیل مرقس کا مصنف جناب مسیح ﷤ کے آخری لمحات کی تصویر کشی یوں کرتا ہے : اورجو صوبہ دار اسکے سامنے کھڑا تھا اس نے اسے یوں دم دیتے ہوئے دیکھ کر کہا بے شک یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا ۔‘‘[32]
جبکہ یہی واقعہ انجیل لوقا کے مصنف نے یوں نقل کیا ہے :
’’اے باپ! میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اوریہ کہہ کر جناب مسیح ﷤ نے دم دےدیا ، یہ ماجرا دیکھ کر صوبہ دار نے خدا کی تمہید کی اور کہا: بے شک یہ آدمی راست باز تھا۔‘‘[33]
معلوم ہوا خدا کا بیٹا نیک صالح اور برگزیدہ شخص پر بولا جا تا ہے نا کہ خدا کے حقیقی بیٹے پر ۔
’خدا کا بیٹا ‘
یہ اصطلاح یہودیوں میں پہلے سے رائج تھی لیکن جو مفہوم عیسائی حضرات نے بعد میں گھڑا ، اہل یہود کے ہاں وہ سراسر کفراورقابل گردن زدنی ہے ، چنانچہ جب یہ کسی کو خدا کا بیٹا کہیں گے تو لامحالہ وہی مطلب ہوگا جو توحید کے منافی نہ ہواوربائبل عہدقدیم کے مطابق ہو اور وہ ہے :محبوب ،پیارا ،نیک ، صالح اور راست باز۔
1.     سو ایک یہودی عالم نتن ایل کو جناب عیسیٰ ﷤ کے شاگرد فلپس نے کہا :
’’جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے، وہ ہم کو مل گیا ۔ وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے ، نتن ایل نے اس سے کہا: کیا ناصرة سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟ فلپس نےکہا: چل کر دیکھ لے ۔ یسوع نے نتن ایل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس کے حق میں کہا: دیکھو یہ فی الحقیقت اسرائیلی ہے ، اس میں مکر نہیں ۔ نتن ایل نے اس سے کہا: تو مجھے کہاں سے جانتا ہے ؟یسوع نے اس کے جواب میں کہا: اس سے پہلے کہ فلپس نے تجھے بلایا، جب تو انجیر کے درخت کے نیچے تھا تومیں نے تجھے دیکھا۔ نتن ایل نے اس کو جواب دیا : اے ربی! تو خدا کا بیٹا ہے ۔‘‘ [34]
یہ واقعہ اس دن کا ہے جبکہ ابھی تبلیغ شروع کیے جنا ب عیسیٰ﷤ کو دوسرا دن تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک یہودی عالم ’خدا کے بیٹے‘ کی اصطلاح ایسے مفہوم میں بولے جوابھی ایجاد ہی نہیں ہوا اورنہ ہی معروف ہوا ۔ لامحالہ وہ اس کا وہی مطلب لے رہا ہے جو اس کی شریعت میں تھا اوروہ نیک ،صالح اورراستباز کا مفہوم ہے ۔
2.  یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بائبل میں برے انسان کو ’شیطان کا بیٹا‘ کہا گیا ہے۔ [35]
3.  جناب مسیح ﷤ نے فرمایا تھا : ’’مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کا بیٹا کہلائیں گے ۔ ‘‘[36]
اسی انجیل کے اسی باب میں آگے جاکر یہ قول لکھا ہوا ہے :
’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھواورستانے والوں کے لیے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے، بیٹے ٹھہرو۔ ‘‘[37]
4.  انجیل لوقا میں لکھا ہے :’’ تم اپنے دشمنو ں سے محبت رکھو اوربھلاکرو اوربغیر نا اُمید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہو گا اور تم خداتعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے۔ ‘‘[38]
جناب عیسیٰ﷤ نے اہل جنت کے متعلق فرمایا :
’’ان میں بیاہ شادی نہ ہوگی کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔ اس لیے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اورقیامت کے فرزند ہو کر خدا کے بھی فرزند ہوں گے۔‘‘[39]
5.  انجیل یوحنا میں یوں آیا ہے : ’’لیکن جتنو ں نے اسے (یعنی مسیح کو ) قبول کیا، اس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنھیں جو اس کے نام پرایمان لاتے ہیں۔وہ نہ خون سے، نہ جسم کی خواہش سے، نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے ۔ ‘‘[40]
اناجیل کے ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے مصنفین کے ہا ں ’ابن اللّٰہ‘ اور ’خدا کا بیٹا‘ نیک صالح اوراللّٰہ تعالیٰ کے محبوب مقرب شخص پر بولا جاتا ہے۔
’خدا کا بیٹا‘ مجازی مفہوم میں
6.  عہد جدید کے بعض خطوط میں’ ابن اللّٰہ‘ کا مجازی معنیٰ اس قدر واضح موجود ہے کہ کسی شک وتردّد کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔چنانچہ یوحنا کے پہلے خط میں لکھا ہے :
’’جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے وہ اس کی اولاد سے بھی محبت رکھتا ہے ، جب ہم خدا سے محبت رکھتے اور اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کے فرزندوں سے بھی محبت رکھتے ہیں ۔‘‘[41]
اس خط کے اسی باب کے آخر میں ہے :
’’ہم جانتے ہیں کہ جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے، وہ گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کی حفاظت وہ کرتا ہے جو خدا سے پیدا ہوا اور وہ شریر اسے چھونے نہیں پاتا ۔‘‘[42]
اسی خط کے تیسرے باب میں مزید وضاحت ہے :
’’جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے، وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کرہی نہیں سکتا کیونکہ خدا سے پیدا ہوا ہے، اسی سے خدا کے فرزند اورابلیس کے فرزند ظاہر ہوتے ہیں۔ ‘‘[43]
باب چہارم میں یوں لکھاہے :
’’اے عزیزو ! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے، وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اورخدا کو جانتا ہے ۔‘‘[44]
7.  پولوس نے ایک خط میں لکھا ہے :
’’اس لیے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں، وہی خدا کے بیٹے ہیں، کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ابّا یعنی اے باپ! کہہ کر پکارتے ہیں ۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہےکہ ہم خدا کے فرزند ہیں ۔ ‘‘[45]
8.  اپنے دوسرے خط میں پولوس یوں گویا ہوا :
’’ سب کام شکاىت اورتکرار کے بغیر کیا کرو تاکہ تم بے عیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کج رو لوگوں میں خدا کے بے نقص فرزند بنے رہو۔‘‘[46]
ان تمام حوالہ جات میں خدا کا بیٹا خدا کے بیٹے اورخداسے پیدا ہوئے جیسے الفاظ اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی طور پر مستعمل ہیں ۔
انبیاے بنی اسرائیل کے لئے ’خدا کا بیٹا ‘
9.  عہد قدیم اورعہد جدید میں کئی مقامات پر بنی اسرائیلی انبیاے کرام کے لیے بھی ’خداکا بیٹا‘ اور کئی کے لیے ’خدا کا پہلو ٹھا بیٹا ‘ کی اصطلاح بولی گئی ہے :
’’انجیل لوقامیں جناب مسیح ﷤ کا نسب نامہ لکھا ہوا ہے جسے آدم ﷤ تک پہنچایا گیا اوران کا تذکرہ پھر یوں ہے: آدم ابن خدا ۔ ‘‘[47]
یہ بات واضح ہے کہ سیدنا آدم ﷤ خدا تعالیٰ کے حقیقی بیٹے نہ تھے۔ کوئی مسیحی بھی ان کو حقیقی بیٹا ماننے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا سیدنا مسیح﷤ کے لیے آنے والا یہی لفظ ان کے حقیقی بیٹے ہونے پر کیسے دلالت کر سکتا ہے ۔
مزید یہ کہ جناب آدم ﷤ بغیر ماں اوربغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے جبکہ حضرت عیسیٰ﷤ کی والدہ تو تھیں، لہٰذا اگر حقیقی بیٹا ماننا ہی ہے تو آدم ﷤ اس کے زیادہ حق دار تھے ، جبکہ نہ مسلمان ایسا مانتے ہیں اور نہ ہی مسیحی ۔
10.  موسیٰ ﷤ کو اللّٰہ تعالیٰ نے جب فرعون کے پاس بات چیت کے لیے بھیجا تو فرمایا :
’’تب تو فرعون سے یوں کہنا کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا پہلوٹھا بیٹا ہے ، اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ میرے بیٹے کو جانے دے تاکہ وہ میری بندگی کرے اور اگر اسے نہیں جانے دیتا تو دیکھ میں تیرے پہلوٹھے بیٹے کو مار ڈالوں گا۔‘‘[48]
11.  حضرت داود ﷤ کو اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’اور جب تیرے دن تمام ہوجائیں اورتو اپنے باپ داد کے ساتھ سو جائے اورجب میں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیری صلب سے ہو گی برپا کروں گا اوراسی سلطنت کو مستقل کروں گا تو وہ میرے نام کے لیے ایک گھر بنائے گا اورمیں اس کی سلطنت کے تخت کو ابد تک برقرار رکھوں گا۔ میں اس کا باپ ہوں گا اوروہ میرا بیٹا ہو گا۔‘‘[49]
12.  داود ﷤ کے حوالے سے خدا تعالیٰ نے کہا:
’’وہ مجھے پکارے گا کہ تو میرا باپ ہے، میرا خدا اورمیری نجات کی چٹان ہے اورمیں اسے پہلو ٹھا بناؤں گا، میں بادشاہوں میں سب سے اعلیٰ ۔‘‘[50]
13.  یرمیاہ نبی کی کتاب میں خدا تعالیٰ کا قول یوں لکھا ہے:
’’میں اسرائیل کا باپ ہوں اورافرائیم (اسرائیل کا ہی دوسرا نام) میرا پہلو ٹھا ہے۔ ‘‘[51]
اگر خدا کا بیٹا کہنے سے حقیقی بیٹا مراد ہے تو سیدنا داود﷤ اورسیدنا یعقوب (اسرائیل )﷤ زیادہ حق دار ہیں کیونکہ سابقہ شریعتوں اورمعاشرتی رواج کے مطابق پہلوٹھا (بڑا بیٹا) بعد والوں سے باپ کے زیادہ قریب اور احترام کے زیادہ لائق ہوتاہے بلکہ بعض علاقوں میں تو اس کو باپ کی جگہ پر ہی سمجھا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل ’خدا کے فرزند‘
14.  عہد قدیم سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ کئی مقامات پر سیدنا یعقوب﷤ کی تمام اولا د کو بھی خدا کے فرزند کہا گیاہے،چنانچہ لکھا ہے : ’’تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو ۔‘‘[52]
15.  اسی کتاب میں بنی اسرائیل سے خدا کی ناراضگی کے حوالے سے لکھا ہے :
’’اورخدا نے دیکھا اورمتنفرہوا اور بیٹوں اوربیٹیوں سے غصہ ہوا ۔ ‘‘[53]
16.  زبور میں آیا ہے:’’میں نے کہا تم خدا ہو تم سب حق کے فرزند ہو تو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گےاورسرداروں میں سے ایک کی طرح گر جاؤ گے۔‘‘[54]
17.  بنی اسرائیل کے حوالے سے خدا نے کہا:’’ میں نے فرزندوں کی تربیت کی اورانھیں سرفراز کیا مگر انھوں نے میرے خلاف سرکشی کی ۔‘‘[55]
18.  مزید لکھا ہے : ’’اور بنی اسرائیل کا شمار ساحل کی ریت کی طرح ہو گا جو ناپی نہیں جاتی اور گنی نہیں جاتی اور اس کی بجائے کہ ان سےکہا جائے کہ تم میری امت نہیں ۔وہ زندہ خدا کے فرزند کہلائیں گے۔ ‘‘[56]
19.  اس کتاب میں آگے جا کر خدا تعالیٰ کا یہ قول لکھا ہے: ’’ جب بنی اسرائیل ہنوز بچہ ہی تھا تو میں نے اس سے محبت رکھی اور میں نے مصر سے اپنے بیٹے کوبلایا۔‘‘[57]
فرشتے ’خدا کے فرزند‘
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ فرشتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے اورفرزند کہا گیا ہے، چنا نچہ لکھا ہے: ’’اور ایک دن خدا کے بیٹے خداوند کے حضور حاضر ہونے کے لیے آئے اورشیطان بھی ان کے درمیان آیا۔ ‘‘[58]
یہی بات اسی کتاب کے دوسرے باب ،فقرہ ایک میں بھی لکھی ہوئی ہے۔
کوئی بھی مسیحی ان مقامات پر حقیقی معنی لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا، لہٰذا جناب مسیح ﷤ کے متعلق آنے والے اسی لفظ کو بھی انہی دلائل کی روشنی میں مجازی معنی میں لیا جائے گا۔
’خدا کے فرزند‘ کی اصطلاح عہد قدیم میں آئی ہے جس کے اوّلین مخاطب یہودی ہیں اور ان کی ہی زبان میں ہے، لہذا جب یہ لوگ اس کو مجازی مفہوم میں لیتے ہیں تو بعد میں نئے آنے والے غیر زبانوں کے افراد اس کا مفہوم کیسے بدل سکتے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ لفظ فرزند اوربیٹے کی اصطلاح ہر لغت میں پائی جاتی ہے اوروہاں اس کو مجازی معنی میں ہی لیا جاتا ہے، مثلاً ہمارے ہاں ابن الوقت کا لفظ ہے، عربی میں مسافر کو ابن السبیلکہا جاتا ہے، اس طرح کسی بھی تعلیمی ادارے سے تعلیم مکمل کرنے والوں کو أبناء جامعه کہا جاتا ہے ۔وغیرہ
بائبل میں بھی اس طرح ہے:
’’چنانچہ جناب مسیح ﷤ نے جہنم میں جانے والوں کو جہنم کے فرزند کہا۔ ‘‘[59]
اور یروشلیم شہر کے رہنے والوں کو ’اس کے بچے‘ قرار دیا ۔[60]
دنیا دار لوگوں کو اس ’عالَم کے فرزند‘ کہا ہے ۔ [61]
جبکہ نیک اورراست باز لوگوں کو ’قیامت کے فرزند‘ کہا ہے ۔ [62]
یہ تو جناب عیسیٰ ﷤ کے اقوال تھے جبکہ پولوس نے تهسل نیکیوں کو ’نور‘ اور ’دن کے فرزند‘ کہا ہے۔[63]
کیا اب بھی کوئی گنجائش باقی ہے ؟
اعتراض : اس تفصیل کے باوجود مسیحی حضرات جناب مسیح ﷤ کو خدا کا حقیقی بیٹا قرار دینے کی ضد کرتے ہیں اوران دلائل کے مقابل کہتے ہیں كہ دراصل ان کو خدا نے ’اکلوتا فرزند‘ کہا ہے جبکہ باقی مقامات پر ایسا نہیں۔[64]
جواب : از روئے بائبل لفظ’اکلوتا ‘کوئی ایسی حیثیت نہیں رکھتا کہ جس میں حقیقی معنی کے علاوہ کوئی دوسرا مفہوم پایا ہی نہیں جا سکتا۔ بلکہ اس میں رفعت ، بلندی اور خصوصیت کا معنی بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ تورات میں سیدنا ابراہیم ﷤ کے چھوٹے بیٹے اسحاق کو ان کا ’اکلوتا فرزند‘ کہا گیا ہے ۔[65] حالانکہ ابراہیم ﷤ کا بڑا بیٹا اسماعیل ﷤ زندہ اورموجود تھا ۔
کیا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ صرف اور صرف جناب اسحاق ﷤ ہی ان کے حقیقی بیٹے تھے ؟ واضح رہے کہ بائبل میں سیدنا اسماعیل ﷤ کو بھی جناب ابراہیم ﷤ کا بیٹا کہا گیا ہے ۔[66]
دوسرا شبہ: مسیح کا ’اللّٰہ تعالیٰ کو باپ قرار ‘دینا
جناب مسیح ﷤ نے کئی مواقع [67]پر تاکیدی طور پر اللّٰہ تعالیٰ کو اپنا باپ قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ ﷤ اللّٰہ تعالیٰ سے پیدا ہوئے ہیں اوراس صورت میں وہ بھی اپنے باپ کی طرح خدا ہوئے۔
جواب
1.     اوّل: انا جیل سے واضح ہوتا ہے کہ جناب مسیح ﷤ نے اللّٰہ تعالیٰ کو جہاں ’اپنا باپ‘ کہا ہے وہاں کئی مرتبہ ایمان والوں کا بھی باپ قرار دیا ہے، مثلاً متی کے چھٹے باب میں بارہ مرتبہ یہ بات آئی ہے بلکہ فقرہ نمبر 9 میں مسیحیوں کی نماز ہے جس کی ابتدا ىوں ہے : ’’اے ہمارے باپ! توجو آسمان پر ہے ۔‘‘
مزید حوالہ جات یہ ہیں:متی 29:10    لوقا 36:6                               لوقا 12: 31-32                 یوحنا 17:20
اگر اللّٰہ تعالیٰ عیسیٰ ﷤ کا باپ ہے، اس وجہ سے وہ خدا بنتے ہیں تو پھر سب ایمان والے بھی خدا ہوئے اور یہ بات اتفاقی طور پر باطل ہے لہٰذا لامحالہ انجیل کی اصطلاح کے مطابق ہی باپ کا معنی لیا جائے گا یعنی ’’پیار ومحبت اور شفقت کرنے والا لوگوں سے خیروبھلائی کا ارادہ کرنے والا ان کی راہنمائی کرنے والا ۔‘‘
2.  دوم: لفظ’باپ ‘ کا معنی راہبرو راہنما اناجیل سے ہی ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ایک موقع پر یہودیوں اور مسیح ﷤ کا مکالمہ ہو ا تو یہودیوں نے اپنا باپ خدا کو کہالیکن جناب عیسیٰ ﷤ نے فرمایا :
’’ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے ... تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو ۔‘‘[68]
یہود جو کہ عیسیٰ ﷤ کو پکڑ کر قتل کرنا چاہتے تھے اور ان کے منکر تھے وہ چونکہ شیطان کے بہکاوے میں آئے تھے، اس لیے جناب عیسیٰ ﷤ نے ’شیطان کو ان کا باپ‘ کہا ۔
مزید وضاحت پولوس نے کرنتھیوں کی طرف پہلا خط لکھتے ہوئے کی :
’’میں تمھیں شرمندہ کرنے کے لیے یہ باتیں نہیں لکھتا ،بلکہ اپنے پیارے فرزند جان کر تم کو نصیحت کرتا ہوں کیونکہ اگر مسیح میں تمہارے اُستاد دس ہزار بھی ہوتے تو بھی تمہارے باپ بہت سے نہیں، اس لیے کہ میں ہی انجیل کے وسیلہ سے مسیح یسوع میں تمہارا باپ بنا ۔ ‘‘[69]
پولوس اپنے آپ کو راہبر ومقتدیٰ قرار دے رہا ہے، نہ کہ حقیقی ولدیت بتائی جا رہی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے معاشرے میں ’استاد کو باپ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔
3.  سوم:بائبل میں فقط عیسیٰ ﷤ نے ہی اللّٰہ تعالیٰ کو ’اپنا باپ‘ یا ’میرا باپ‘ کہہ کر نہیں پکارا بلکہ کئی انبیا سے ایسا ملتا ہے، لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں لفظ ’اپنا‘ یا ’میرا‘ سے شک پیدا ہوتا ہے تو یاد رکھ لے کہ یہ نہایت کمزور اور تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ ناپائیدار دلیل ہے۔ حوالہ جات ملاحظ فرمائیں:
اللّٰہ تعالیٰ نے داود ﷤ کے حوالے سے فرمایا کہ :
’’وہ مجھے پکارکر کہے گا: تو میرا باپ میرا خدا اورمیری نجات کی چٹان ہے۔ ‘‘
آگے خود اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اور میں اس کو اپنا پہلو ٹھا بناؤں گا ۔ ‘‘           [70]
یسعیاهنبی نے خدا تعالیٰ کو یوں مخاطب کیا:’’یقیناً تو ہمارا باپ ہے اگرچہ ابراہام ہم سے ناواقف ہو اور اسرائیل ہم کو نہ پہچانے۔ تو اے خداوند! ہمارا باپ اورفدیہ دینے والا ہے ۔‘‘[71]
اسی کتاب کے اگلے باب میں اس طرح ہے :
’’اے خداوند! تو ہما را باپ ہے۔ ہم مٹی ہیں اورتو ہمارا کمہار ہے ۔‘‘[72]
4.  یہ تو انبیا کی بات ہے۔ عام انسانوں نے بھی اللّٰہ تعالیٰ کو اپنا باپ کہا ہے :مثلاً یہودیوں نے ایک موقع پر جناب عیسیٰ ﷤ کو ان الفاظ میں جواب دیا تھا : ’’ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا۔ ‘‘[73]
5.  اسی طرح مسیحیوں کی نماز کی ابتدا یوں ہوتی ہے :
’’اے ہمارے باپ! تو جو آسمان پر ہے ۔ ‘‘[74]
پولوس نے کئی مرتبہ خداتعالیٰ کو ہمارے باپ خدا کہہ کر یاد کیا ہے ۔[75]
لا محالہ ان انبیا اوردیگر لوگوں کا مقصد مجازی تھا ناکہ حقیقی ۔
جناب عیسیٰ ﷤ جو کہ یہودیوں کو مخاطب کرتے تھے ان کی کتاب کو جانتے اوران کے محاورے کو پہچانتے تھے، انھوں نے بھی مجازی لحاظ سے اس نسبت کو بولا ، ورنہ ضرور کسى موقع پر اس کی وضاحت کر دیتے ، کیونکہ انبیا کے آنے کا مقصد ہی لوگوں کے عقائد ونظریات کو درست کرنا ہوتا ہے ، مزید شکوک وشبہات میں ڈالنا نہیں، اور اگر پورے تبلیغی دور (جو تین سال پر محیط تھا ) میں یہودیوں كو ذرا سا بھی شک ہوا تو انھوں نے فوراً جناب عیسیٰ ﷤ کو پتھروں سے سنگ سار کرنا چاہا لیکن حضرت عیسیٰ نے وضاحت کر کے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، جس کی تفصیل اگلے شبہ کے تحت آرہی ہے ۔
تیسرا شبہ: مسیح کا قول:’’میں اور باپ ایک ہیں۔‘‘
مسیحیوں کی طرف سے جناب مسیح ﷤کے اس قول کو خوب اچھالا جاتا ہے اور انہیں الٰہ کے مرتبہ پر فائز کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا تھا :              ’’میں اور باپ ایک ہیں۔ ‘‘[76]
جواب: اس جملے کو اگر اسی حد تک پڑھیں تو واقعی عام آدمی پریشان ہو سکتا ہے لیکن اگر اصول کے مطابق اس کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیں تو پھر حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مکمل عبارت یوں ہے:
’’یروشلیم میں عیدِ تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدہ میں ٹہل رہا تھا۔پس یہودیوں نے اس کے گرد جمع ہو کر اس سے کہا: تو کب تک ہمارے دل کو ڈانوانڈول رکھے گا؟ اگر تو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے ۔یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔جوکام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں، وہی میرے گواہ ہیں۔لیکن تم اس لیے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں ۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔میراباپ جس نے مجھے وہ دی ہیں، سب سے بڑا ہے او رکوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔میں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اسے سنگ سار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائےہیں۔ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگ سارکرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگ سار کرتے ہیں اور اس لیے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو ؟ جبکہ اس نے اُنہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا (اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں )۔آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کرکے دنیا میں بھیجا، کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے، اس لیے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں ؟ اگر میں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر ان کاموں کا تو یقین کرو تا کہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ۔ اُنہوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ ‘‘[77]
1.     جناب مسیح ﷤نے کس قدر واضح الفاظ میں تشریح کر دی کہ ’میرا اپنے آپ کو خدا کے ساتھ ایک‘ کہنے یا ’خدا کا بیٹا‘ کہنے کا مطلب اسی طرح کا ہے جس طرح کہ اسی شریعت میں انبیا کو خدا کہہ کر پکارا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کو اس کے سبب نہ تو حقیقی خدا مانا گیا ،نہ ہی اُنھوں نے لوگوں کو اس کی تبلیغ کی اور نہ ان پر کفر لازم آیا ،لہٰذا میں بھی نہ تو کفر کہہ رہا ہوں اور نہ ہی قتل کی سزا کا مستحق ہوں ۔
نوٹ:انبیاء ﷩ کو خدا کہہ کر پکارنے والی بات زبور مىں ہے۔[78]
2.  جناب مسیح ﷤ نے’میں اور باپ ایک ہیں ‘کی مزید تشریح کرتے ہوئے یہودیوں کو کہا کہ مجھ پر اس لیے تم کفر کا فتویٰ لگاتے ہو کہ میں نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے یعنی انھوں نے ایک ہونے والے جملے کے باوجود اپنے آپ کو ہر لحاظ سے باپ (خدا) کے برابر قرار نہیں دیا بلکہ اپنا رتبہ ان سےنیچے ہی رکھا یعنی (بیٹا ) کہا ، ورنہ کسی ایک موقع پر ہی کبھی انھوں نے اپنے آپ کو باپ کہا ؟ ہرگز نہیں ۔معلوم ہوا کہ زیر بحث جملے کا مفہوم ومطلب وہ نہیں جو کشید کیا جارہا ہے۔
3.  یہ بات بھی قابل غورہے اگر جناب مسیح﷤ واقعی حقیقی خدا یا خدا کے حقیقی بیٹے تھے تو اُنہیں واضح الفاظ میں اس کا اقرار کرنا چاہیے تھا، یہی موقع تھا کیونکہ یہودیوں نے ان کے جملے (میں اورباپ ایک ہیں ) سے حقیقی دعویٰ ہی سمجھا تھا لیکن حضرت عیسیٰ ﷤نےیہودیوں کی تردید کی اوران الفاظ کو مجازی معنی میں استعمال کر کے باقاعدہ زبور سے دلیل بھی دی۔ اگر مسیحیوں کا استدلال تسلیم کریں تو ثابت ہوتا ہے جناب مسیح ﷤ نے یہودیوں کو دھوکے میں رکھا ہے ان کے سامنے دعویٰ کو واضح نہیں کیا اوران کے ساتھ مغالطہ انگیزی سے کام لیا ۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک!
4.  یہ بھی معلوم ہوا کہ جناب مسیح﷤ نے اپنے اوپر’خدا کا بیٹا ‘ اور’خدامجھ میں ہے۔‘ وغیرہ جملے اللّٰہ تعالیٰ کااُنہیں رسول مقرر کرنے کے سبب بولے تھے یعنی وہی بات کہ یہ الفاظ محبوب پیارے اورمقرب کے مفہوم میں ہیں، نہ کہ حقیقی معنی میں ۔
5.  ’ایک ہونے والی بات‘ جناب مسیح ﷤ نے اپنے حواریوں اور ان کے شاگردوں کے حوالے سے بھی کی ہے تو کیا ان سب کو ہر لحاظ سے اللّٰہ تعالیٰ اور عیسیٰ ﷤کے برابر قرار دیا جائے گا ؟اور کیا حواریوں کے شاگردوں کو کسی لحاظ سے ان کی برابری مل سکتی ہے ؟ اسی انجیل یوحنا میں لکھا ہے :
’’میں صرف ان (حواریوں ) ہی کے لیے درخواست نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے بھی جو ان کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گئے تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ تو مجھ میں ہےاور میں تجھ میں ہوں، وہ بھی ہم میں ہوں اوردنیا ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے کو بھیجا ہے اوروہ جلال جو تو نے مجھے دیا ہے میں نے اُنہیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔ میں ان میں اور تو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں ۔ ‘‘[79]
کیا مسیح یہ دعا مانگ رہے تھے کہ میرے شاگرد اور انکے شاگرد سب خدا بن جائیں ؟لاحول ولا قوۃ الاباللّٰہ
لامحالہ ایسا مفہوم لیا جائے گا جو تمام عبارات کےموافق ہو اوروہ ہے مقصد اورہدف میں ایک ہونا ،نہ کہ ہر لحاظ سے ایک ہونا۔ عام محاورہ بھی اسی طرح ہے یعنی جب مقصد اورہدف ایک ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’میں اوروہ ایک ہیں۔‘‘ اسی باب کے فقرہ 11 کو پڑھیں تو مزید وضاحت ہو جاتی ہے، مسیح ﷤ کہہ رہے ہیں : ’’میں آگے کو دنیا میں نہ ہوں گا مگر یہ (حواری ) دنیا میں ہیں اورمیں تیرے پاس آتا ہوں ،اے قدوس باپ! اپنے اس نام کے وسیلہ سے تو نے مجھے بخشا ہے ،ان کی حفاظت کرتا کہ وہ ہماری طرح ایک ہوں ۔‘‘
6.  پولوس نے بھی ’ایک ہونے والی‘ اصطلاح استعمال کی ہے اوراس نے بھی مجازی مفہوم لیا ہے نہ کہ حقیقی ، چنانچہ کرنتھیوں کے نام پہلے خط میں یوں لکھا ہے :
’’ کیا تم نہیں جانتے جو کوئی کسی سے صحبت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ایک تن ہو جاتا ہے ؟ کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ وہ دونوں ایک تن ہوں گے اورجو خداوند کی صحبت میں رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ ایک روح ہوتا ہے ۔ ‘‘[80]
اسلام میں بھی اسی طرح کا مفہوم ملتا ہے، چنانچہ حدیثِ قدسی ہے جسے سیدنا ابوہریرہ ﷜ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے:.....
’’میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو پسند کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے۔ اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتاہے...الخ‘‘[81]
بلاشبہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اس انسان کے اندر حلول کر جاتا ہے یا بعینہٖ جسم کے اعضا بن جاتا ہے بلکہ یہ مفہوم ہے کہ جب انسان عبادتِ الٰہی میں نہایت جدوجہد کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کوخاص ملکہ اورتعاون ملتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اعضا کو اطاعتِ الہٰی میں مگن رکھتاہے ۔
بائبل سے مزید حوالہ جات جن میں ’ ایک ہونے‘ سے حقیقی معنی نہیں مراد لیاگیا :
7.  ’’اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اوراپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہو ں گے ۔ ‘‘[82]
8.  پولوس رقم طراز ہے : ’’اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا ، نہ کوئی یہودی رہا نہ کوئی یونانی نہ کوئی غلام نہ کوئی آزاد نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو ۔‘‘[83]
9.  ’’اور انجیل کے ایمان کے لیے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے ہو ۔ ‘‘[84]
10.  ’’پس اگر کچھ تسلی مسیح میں اورمحبت کی دل جمعی اور روح کی شراکت اور رحم دلی اوردرد مندی ہے تو میری یہ خوشی پوری کروکہ ایک دل ہو کر رہو ،یکساں محبت رکھو، ایک جان ہو ۔‘‘[85]
11.  ’’کیونکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہو ں، خواہ یونانی، خواہ غلام ،خواہ آزاد ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ لیا ۔‘‘ [86]
چوتھا شبہ: قول عیسیٰ﷤’’میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ‘‘
عیسیٰ ﷤ نے فرمایا تھا: ’’میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے ۔‘‘[87]
جواب :یہ اور اس طرح کی عبارات سے مسیحیوں کااستدلال نہایت کمزور ہے کیونکہ
اول: اگراس جملےکوظاہر پر محمول کیا جائے تو حلول کا ثبوت لازم آتا ہےجبکہ مسیحی حضرات اس کی نفی کرتے ہیں تو لامحالہ اس کی تاویل کرتے ہیں اور وہ یہ کہ باپ اور بیٹا جوہر میں متحد ہیں یعنی ظاہری لفظ سے گو دو شخصیات ہیں لیکن باطنی اعتبار سے دونوں ایک ہیں کیونکہ ظاہری لفظ سے باپ کا اطلاق بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہیں ہو سکتا۔ اور پیچھے یہ بحث تفصیلی گزر چکی ہے کہ باطن (لاہوت ) کے اعتبار سے بھی دونوں کا ایک ہونا عقل ونقل کے صریحا ًخلاف ہے۔
دوم: سو جب ہم اس فقرے کے سیاق وسباق اور عہدِ جدید کے دیگر حوالہ جات کو دیکھتے ہیں تو اس کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ مثلاً اسی باب کے فقرہ 20 میں یوں لکھا ہے :
’’اس روز تم جانو گے کہ میں اپنے باپ میں ہوں اور تم مجھ میں اور میں تم میں۔ ‘‘
پچھلے شبہ کے تحت انجیل یوحنا کا ہی حوالہ گزرا کہ عیسیٰ ﷤ نے اپنے شاگردوں کے لیے دعا کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’یعنی تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ تو مجھ میں ہے اورمیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں ... میں ان میں اورتو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہوجائیں ۔ ‘‘[88]
ان عبارات کے مطابق: باپ ہے مسیح میں اورمسیح ہے شاگردوں میں ۔جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ باپ ہے شاگردوں میں ۔ اس کو منطق(لاجک)کی اصطلاح میں یوں سمجھیں کہ Aبرابر ہےB کےاورBبرابر ہے Cکے، لہذا Aبرابر ہواC کے ۔ کیا ہے کوئی مسیحی جو ان جملوں کے سبب حواریوں کو بھی خدا مانے ؟
بائبل کے مزید حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
’’خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں تو خدا ہم میں رہتا ہے اور اس کی محبت ہمارے دل میں کامل ہو گئی ہے ، چونکہ اس نے اپنے روح میں سے ہمیں دیا ہے۔ اس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں اورہم نے دیکھ لیا ہے اورگواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو دنیا کا منجی کر کے بھیجا ہے۔ جو کوئی اقرار کرتا ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے خدا اس میں رہتا ہے۔‘‘
’’اور وہ خدا میں ، جو محبت خدا کو ہم سے ہے اس کو ہم جان گئے اور ہمیں اس کا یقین ہے ، خدا محبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اس میں قائم رہتا ہے۔‘‘[89]
پولوس نے لکھا : ’’ہم زندہ خدا کا مقدس ہیں۔ چنانچہ خدا نے فرمایا کہ میں ان میں بسوں گا اور ان میں چلوں پھروں گا اور میں ان کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے۔‘‘ [90]
ان حوالوں سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ایمان والوں میں رہنا ان کی مدد وتعاون کرنا اور ان کے ارادے کو اپنے ارادے کے مطابق کرنا ہے ۔ اگر اس اتحاد سےاُلوہیت لازم آتی ہے تو پھر تمام حواری ،تمام اہل کرنتھیوں، بلکہ تمام نیک لوگ خدا ہوئے ۔ اسی طرح جناب مسیح﷤ میں خدا کے ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ ان کا ہر قول وفعل اللہ تعالیٰ کی مشیت ، تائید ، محبت اور رضا مندی سے ہے، نیز ان دونوں کا ہدف وارادہ بھی ایک ہے ۔
حوالہ جات:
[1]    انجیل یوحنا 3:17
[2]    Arabic Bible, GNA 083
[3]    انجیل یوحنا 8: 28-30
[4]    انجیل لوقا 4: 18-22
[5]    دیکھیں61: 1-2
[6]    انجیل لوقا 7: 16-17
[7]    یہودیوں کا کٹر فرقہ
[8]    انجیل لوقا 7: 36-39
[9]    انجیل لوقا 24: 13-20
[10] تفسیر بائبل بنام مطالعاتی اشاعت ص 1919 ،ناشر بائبل سوسائٹی پرانی انار کلی، لاہور
[11] انجیل یوحنا 17:9
[12] انجیل یوحنا 9: 32-33
[13] انجیل متی 21: 10-11
[14] انجیل یوحنا14:6
[15] انجیل متی 57:13
[16] انجیل لوقا 13: 31-34
[17] انجیل متی 10: 40-41
[18] انجیل مرقس 6: 14-16
[19] انجیل یوحنا 19:4
[20] انجیل یوحنا 7: 40-44
[21] مسلم سوالات مسیحی جوابات :ص56 ازکرسچين ٹرال، طبع اول 2012ء،ناشر ملٹی میڈیا افیئرز لاہور
[22] ہوسیع 9:11
[23] گنتی 19:23
[24] قاموس الکتاب ازایف ایس خیر اللّٰہ(مسیحی سکالر): 234-235،ناشر مسیحی اشاعت خانہ فیروز پور روڈ لاہور ،طبع نہم، 2008ء
[25] انجیل یوحنا 10: 30-35
[26] انجیل لوقا 52:2
[27] ملاکی 6:3
[28] یعقوب کا خط 1: 16-17
[29] زبور 27:102
[30] انجیل متی8: 20وغیرہ
[31] انجیل متی 1:1
[32] انجیل مرقس 39:15
[33] انجیل لوقا 23: 46-47
[34] انجیل یوحنا 1: 45-49
[35] رسولوں کے اعمال 10:13
[36] انجیل متی 9:5
[37] انجیل متی 5: 44-45
[38] انجیل متی 35:6
[39] انجیل لوقا 20: 35،36
[40] انجیل یوحنا 1: 12:13
[41] یوحنا کا پہلا خط 5: 1-2
[42] یوحنا کا پہلا خط 18:5
[43] یوحنا کا پہلا خط 3: 9-10
[44] یوحنا کا پہلا خط 7:4
[45] رومیوں کے نام خط 8: 14-16
[46] فلپیوں کے نام خط 2: 14-15
[47] انجیل لوقا 38:3
[48] خروج 4: 22-23
[49] 2-سموئیل 7: 12-13
[50] زبور 89: 27-28
[51] یرمیاہ 31: 9
[52] استثنا 14: 1
[53] استثنا 32: 19
[54] زبور 82: 6-7
[55] یسعیاہ 1: 2
[56] ہوسیع 1: 10
[57] ہوسیع 11: 1
[58] ابوب 1: 6
[59] انجیل متی 23: 5
[60] انجیل متی 23: 37
[61] انجیل لوقا 20: 34
[62] انجیل لوقا 20: 36
[63] تھسل نیکیوں کے نام پہلا خط 5: 5
[64] انجیل لوقا9: 38
[65] پیدائش 22: 1-12
[66] پیدائش 16: 15
[67] انجیل یوحنا میں تو کثیر تعداد میں اللّٰہ تعالیٰ کو ’باپ‘ کہہ کر پکارا گیا ہے اور انجیل متی 21:7، متی 27:11، متی 36:24، لوقا 34:23، لوقا 46:23
[68] انجیل یوحنا 8: 42-44
[69] 1-کرنتھیوں 4: 14-15
[70] زبور 89: 26-27
[71] یسعیاہ 16:63
[72] یسعیاہ 8:64
[73] انجیل یوحنا14:8
[74] انجیل متی9:6
[75] رومیوں 7:1، 1-کرنتھیوں 3:1، 2-کرنتھیوں 2:1، افسیوں 2:1، فلپیوں 2:1،فلیمون 3:1
[76] انجیل یوحنا 10: 30
[77] انجیل یوحنا:10: 22 تا 39
[78] زبور82: 6
[79] انجیل یوحنا17: 20-23
[80] 1-کرنتھیوں 6: 16-17
[81] صحیح بخاری :کتاب الرقاق ،باب التواضع، رقم 6502
[82] پیدائش 24:2
[83] گلتیوں 3: 27-28
[84] فلپیوں 27:1
[85] فلپیوں 2: 1-2
[86] 1-کرنتھیوں 13:12
[87] انجیل یوحنا 10:14
[88] انجیل یوحنا 17: 21-23
[89] یوحنا کا پہلا خط 4: 12-16
[90] 2-کرنتھیوں 6: 16