لاپتہ خاوند کا انتظار کب تک کیا جائے؟

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماے کرام بیچ اس مسئلہ کے کہ میں نے ساڑھے تین سال قبل اپنی بیٹی ....... کی شادی ......سے کی۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی میرے داماد کو دہشت گردی کے بعض الزامات کے سبب سیکورٹی ایجنسیاں اٹھا کر لے گئیں۔ اور آج تک تقریبا ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں، ہمیں یہ علم نہیں ہو سکا کہ کونسی ایجنسی کی یہ کاروائی ہے۔ اخبارات کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی مشترکہ ایجنسیوں کے علاوہ ہماری ایجنسیاں بھی ایسے کاموں میں مصروف ہیں۔ پھر گمشدہ لوگوں کا سپر قوتوں کے مفادات کے تحت تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ میرا داماد زندہ بھی ہے کہ نہیں؟ اس کے والدین سمیت ہم سب لا علم ہیں۔ البتہ دو تین سال قبل ہم نے عدالت سے فسخ نکاح کی ڈگری لے لی تھی۔
ہماری جوان بیٹی صرف دو ماہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی۔ اس کی حالت بہت قابل رحم ہے۔ ہمیں مختلف اہل علم سے مل کر یہ پتہ چلا ہے کہ مفقود الخبر کی تحقیق کے بعد ائمہ سلف کی آرا مختلف ہیں۔ امام مالک ﷫کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ان کی رائے چار سال کے بعد فوت شدہ شوہر کی عدت گزار کر نکاحِ ثانی کی اجازت ہے۔ اور فقہ حنفی میں 75 سال سے لیکر 120 سال تک انتظار کی بات بھی ملتی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں ایک مناسب رشتہ مل رہا ہے اور ہم اپنی بیٹی کی شادی وہاں کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا شریعت کی رو سے ہم ایسا کر سکتے ہیں؟                                             (ڈاکٹر شیخ محمد انور ،سعودی عرب)
الجواب بعون الوہاب         ...        بشرطِ صحتِ سوال
1.  تمام ائمہ سلف لاپتہ شوہر کی بیوی کو نکاح ثانی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان میں اختلاف صرف انتظار کی مدت کی تعیین میں ہے۔فقہ الواقع کے حوالے سے جس کے سامنے جس پہلو کی اہمیت تھی، اس نے اسے ملحوظ رکھا۔اس لئے ائمہ کے اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہئے، بلکہ وہ فقہ الواقع یا فقہ الاحکام کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی پر مبنی ہوتے ہیں۔امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل﷭سے اس بارے میں کوئی رائے منقول نہیں ہے۔ لیکن امام مالک ﷫سے عدالتی تسلی کی صورت میں مفقود الخبر کے بارے میں چار سال کی بات مشہور ہے۔ جس کی بنیاد ایک مقدمہ میں حضرت عمر ﷜کا ایک عدالتی فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ کا مرکزی نکتہ شوہر کے لاپتہ ہونے پر صرف اس کی موت کی تسلی پر مبنی ہے۔ اس موت کو فتویٰ عمومی سمجھ کر جوان عورت کی بے چینی اور مجبوریاں ملحوظ نہیں رکھی جارہیں۔ سیدنا عمر ﷜نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تھا کہ عورت کب تک خاوند کے انتظار میں پر سکون رہ سکتی ہے؟ تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے چار ماہ مدت بتائی تھی۔ اس لئے حضرت عمر﷜کا بھی چار سال انتظار کاعمومی فتوی نہیں ہےکیونکہ وہ جنگی معرکوں میں مصروف مجاہدین کو چار ماہ کے بعد گھر لانے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ حضرت عمر ﷜سےایک مجلس میں طلاق ثلاثہ اور مفقود الخبر کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے، وہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں شریعت نہیں ہےبلکہ وہ انتظامی اور تدبیری رکاوٹ تھی۔اسی لئےامام ابن تیمیہ ﷫اورامام ابن القیم﷫ نے اسے شرعی فتوی کی بجائے انتظامی اور سیاسی(انسدادی حکم) اقدام قرار دیا ہے۔اسی طرح امام مالک﷫ بھی کسی قضیہ میں عدالتی فیصلوں کو عمومی فتوی بنا کر لازمی قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک عدالتی فیصلہ کےصرف فریقین پابند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عباسی خلفا منصور سے لیکر ہارون الرشیدتک نے ان سے کوئی مدون دستور تیار کرنے یا تدوین موطا کی تکمیل کے بعد اسی حدیث وفقہ کے مجموعہ کو بیت اللہ میں لٹکا کر پوری اسلامی مملکت میں اس کے نفاذ کی تجویز پیش کی تو انہوں نے نبی کریمﷺ کی سنت وحدیث کی پابندی کے علاوہ اپنے سمیت کسی امام کے اجتہادات(فقہ) کی تنفیذ یا پابندی کی تجویز قبول نہ کی۔امام مالک﷫ کا معروف قول ہے:
"كل أحد يؤخذ من قوله، ويُترك إلا صاحب هذا القبر"[1]
’’اس صاحبِ قبر(نبی ﷺ) کے علاوہ ہر کسی کے قول کو لیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔‘‘
لہذا امام مالک﷫ سے منسوب چار سالہ انتظار کی رائے ان کا فتویٰ نہیں جس کی وضاحت ان کے اہل حدیث اجتہادی نقطہ نظر رکھنے والے ہم مشرب امام بخاری﷫ کی الجامع الصحیح سے ان کی تبویب ، ترجمۃ الباب اور ان کی شرائط کے مطابق صحیح حدیث سے ہوتی ہے جو یوں ہے: بَابُ حُكْمِ المَفْقُودِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ
وَقَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: «إِذَا فُقِدَ فِي الصَّفِّ عِنْدَ القِتَالِ تَرَبَّصُ امْرَأَتُهُ سَنَةً» وَاشْتَرَى ابْنُ مَسْعُودٍ جَارِيَةً، وَالتَمَسَ صَاحِبَهَا سَنَةً، فَلَمْ يَجِدْهُ، وَفُقِدَ، فَأَخَذَ يُعْطِي الدِّرْهَمَ وَالدِّرْهَمَيْنِ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ عَنْ فُلاَنٍ فَإِنْ أَتَى فُلاَنٌ فَلِي وَعَلَيَّ، وَقَالَ: هَكَذَا فَافْعَلُوا بِاللُّقَطَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَحْوَهُ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: فِي الأَسِيرِ يُعْلَمُ مَكَانُهُ: " لاَ تَتَزَوَّجُ امْرَأَتُهُ، وَلاَ يُقْسَمُ مَالُهُ، فَإِذَا انْقَطَعَ خَبَرُهُ فَسُنَّتُهُ سُنَّةُ المَفْقُودِ
’’باب: مفقود الخبر کے اہل وعیال اور مال ومتاع کے متعلق کیا حکم ہے؟
اور ابن المسیب﷫ نے کہا: جب جنگ کے وقت صف سے کوئی شخص گم ہوجائے تو اس کی بیوی ایک سال تک اس کا انتظار کرے۔سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷜ نے کسی سے ایک لونڈی خریدی(اس کا مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہو گیا) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا، پھرجب وہ نہیں ملا تو غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور دعا کرتے: اے اللہ ! یہ فلاں کی طرف سے ہے ۔اگر وہ آ گیا تو لونڈی میری رہے گی اور اس کی قیمت مجھ پر واجب ہو گی۔اور فرماتے کہ گری پڑی چیز کے بارے میں ایساہی کرنا چاہئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس﷜ نے بھی اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے۔ امام زہری ﷫نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو ، کہاکہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے ، پھرجب اس کی خبر ملنی بند ہوجائے تو اس کا معاملہ بھی مفقود الخبر کی طرح ہوجاتا ہے ۔‘‘
امام بخاری﷫ کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ تبویب میں اجتہادی نکتہ سوال کی صورت میں پیش کرنے کے بعد اس کے متنوع پہلو ترجمۃ الباب میں ائمہ فقہاکے حوالے سے واضح کرتے ہیں۔ پھر بطورِ دلیل حدیث کو پیش کر دیتے ہیں کہ اس میں غور کر کے اطمینان کر لیا جائے۔باب کے تحت مذکور حدیث یوں ہے:
عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الغَنَمِ، فَقَالَ: «خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ» وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الإِبِلِ، فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَقَالَ: «مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا الحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ، تَشْرَبُ المَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا» وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:«اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، وَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ» قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ - قَالَ سُفْيَانُ: وَلَمْ أَحْفَظْ عَنْهُ شَيْئًا غَيْرَ هَذَا - فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ حَدِيثَ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ فِي أَمْرِ الضَّالَّةِ، هُوَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ يَحْيَى: وَيَقُولُ رَبِيعَةُ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ فَقُلْتُ لَهُ[2]
یزید مولی منبعث﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺسے گم شدہ بکری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے پکڑ لو ، کیونکہ یا تووہ تمہاری ہوگی یا تمہارے کسی بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑ یے کی ہوگی( اگر انہی جنگلوں میں پھرتی رہی ) اور آپﷺ سےگمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ میں آگئے جس کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا: تمہیں اس سے کیا غرض ! اس کے پاس مضبوط پیڈ( کھر) ہیں ( جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی ) اور اس کے پاس طبعی مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی حاصل کرتا رہے گا اور درخت کے پتے کھا کر اسے پیٹ بھرنے میں بھی کوئی دشواری نہیں ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا۔اور نبی کریمﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) کے متعلق سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا: اس کی رسی ( جس سے وہ بندھا ہو ) اور اس کے ظرف کا (جس میں وہ رکھا ہو) ایک سال تک اعلان کرو ، پھر اگر کوئی ایسا شخص آجائے جو اسے پہچانتا ہو ( اس کا مالک ہو تو اسے دے دو ) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ سفیان بن عیینہ﷫ نے بیان کیا کہ پھر میں ربیعہ بن عبدالرحمن﷫ سے ملا ...اور مجھے ان سے اس کے سوا اور کوئی چیز محفوظ نہیں ہے...میں نے ان سے پوچھا تھاکہ گم شدہ چیزوں کے بارے میں منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ زید بن خالد سے منقول ہے ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! یحییٰ نے بیان کیاکہ ربیعہ نے منبعث کے مولیٰ یزید سے روایت کی ہے ، ان سے زید بن خالد نے ۔ سفیان نے بیان کیاکہ پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق پوچھ بھی لیا ۔‘‘
امام بخاری﷫ نے مذکورہ باب کے تحت یہ حدیث بیان کر کے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مفقود الخبر شوہر کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے گی اور اگر ایک سال تک اس کے شوہر کا کوئی پتہ نہ چل سکے تو وہ آگے نکاح کر سکتی ہے۔
2.  سوال میں جوان بیٹی کی قابل رحم حالت کا ذکر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ آج کل کے عام مفتی حضرات اس کا دھیان کم رکھتے ہیں اورفقہی تخریجات(موشگافیوں) میں پڑ کر حیلہ بازی کو رواج دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پناہ میں رکھے،آمین ۔ عدالت نے نان ونفقہ سمیت دیگر مجبوریوں کے پیش نظر ہی فسخ نکاح کیا ہوگا۔ اگرچہ پاکستانی عدالتیں دستور1973ءمیں بنیادی انسانی حقوق کے نام سے آرٹیکل 8 سے لیکر 28 تک کے پیش نظر فیصلے دیتی ہیں، جنہیں شریعت کی رو سے حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم مذکورہ معاملے میں شریعت بھی اس فیصلے کی تائید کرتی ہے۔ ہماری نظر میں اس عدالتی فیصلے کی بھی اہمیت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة
'' اور تم انہیں ضرر دینے کے لئے روکے نہ رکھو، اور جوایسا کرے وہ اپنے آپ پر ظلم کا مرتکب ہوگا۔"
                اس اعتبار سے آپ اپنی بیٹی کی شادی آگے کر سکتے ہیں، کیونکہ خاوند کو لاپتہ ہوئے ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں۔هٰذا ما عندنا والله أعلم بالصواب
حوالہ جات:
[1]    موطا مالك:1؍251
[2]    صحیح بخاری: بَابُ حُكْمِ المَفْقُودِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ، رقم 5292