ایک مجلس کی تین طلاقیں

فقہی جمود نے غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع دے دیا!!  إنا لله وإنا إليه راجعون
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ اگرچہ صدیوں سے مختلف فیہ چلا آرہاہے لیکن جب تک اسلامی یا مسلمان معاشروں میں شریعت پر عمل کا جذبہ توانا، مرد اور عورت کے باہمی حقوق کی پاسداری کا خیال فراواں اور ہمدردی و تعاون کا سکہ رواں رہا، اس مسئلے نے زیادہ گھمبیر شکل اختیار نہیں کی تھی، اس لئے اس کی کٹھنائیاں بھی زیادہ سامنے نہیں آئیں۔لیکن اب صورتِ حال سالہا سال سے کافی مختلف ہے۔ اب مسلمانوں کی اکثریت جہاں ایک طرف اسلامی تعلیمات سے نابلد ہے تو دوسری طرف صبر و تحمل سے بھی عاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے طلاق کی شرح برائے نام تھی تو اب اس کی شرح آسمانوں سے باتیں کرتی نظر آتی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ فقہی جمود کہ عام لوگوں کی جہالت کی وجہ سے تو ہزاروں گھر اُجڑ گئے اور اُجڑ رہے ہیں اور پتہ نہیں کب تک اُجڑتے رہیں گے لیکن عوامی اکثریت کے حامل حنفی علما اس صورتحال پر سنجیدہ غوروفکر کرنے سے گریزاں ہیں۔ اُجڑتے گھرانے اور بڑھتے مسائل آئے روز ان کی نظروں کے سامنے آتے ہیں لیکن وہ کوئی شرعی گنجائش دینے کو آمادہ نہیں۔جس چیز کا حل شریعتِ اسلامیہ میں موجود ہےحتی کہ فقہ حنفی میں بھی اس کے بعض شرعی متبادل پائے جائے ہیں لیکن ایسے متوازن حل کی طرف پیش قدمی کی بجائے حلالہ کا ناجائز اور بےغیرتی بر مبنی راستہ دکھادیا جاتا ہے۔اس طرح حنفی علما نے اپنے معتقدین کے لئے آسانی کی بجائے ایک مشکل ترین راستے کو منتخب کررکھا ہے ۔ جو عورت ایک بار اِن مسائل کا شکار ہو جائے تو بے شک اس کا گھر اُجڑ جائے، اس کے بچے رُل جائیں، خود وہ عورت بے آسرا اور بے سہارا ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھائے لیکن ان تقدس مآبوں کے دل نہیں پسیجتے، ان کے دکھوں اور دردوں کا کوئی درماں ان کے پا س نہیں ہے، اُن کے رِستے زخموں کے لئے ان کے پاس کوئی پھاہا نہیں ہوتا۔
کیا یہ اسلامی یا مسلمان معاشرے کی اچھی تصویر ہے...؟
یا خدانخواستہ اسلام کا نظامِ طلاق ایسا بے رحمانہ اور ظالمانہ ہے...؟
کیا اسلام میں مذکورہ مظلوم عورتوں اور بچوں کا کوئی حل نہیں ہے...؟
کیا ایک مسلمان کی جہالت کا ازالہ ’بے غیرتی‘ (حلالہ) اختیار کئے بغیر نہیں ہو سکتا؟
ہمارے یہ چار سوال ان علماء سے ہیں جو فقہی جمود میں اس طرح مگن ہیں کہ ان مسائل کے حل کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں جاتی۔
ہم عرض کریں گے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے سب سے پہلے عورتوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کیا تھا، ان کو عزت و احترام کا اعلیٰ مقام عطا کیا تھا، وہ اس ظلم و ستم کا روادار کب ہو سکتا ہے جو مسئلۂ طلاقِ ثلاثہ کے نام پر مذہبی قیادت کی طرف سے عورتوں پر رَوا رکھاجا رہا ہے۔ ان حضرات کے اس رویے سے اسلام پر ایسے بدنما اعتراضات اُٹھ جاتے ہیں   جن کی وضاحت ممکن نہیں رہتی۔ اسلام کے نظامِ طلاق میں قطعاً ایسی کوئی بات نہیں جس سے مسلمان عورت پر ظلم کا دروازہ کھلے۔ البتہ اس میں دو عنصر ایسے ہیں جو اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں:
ایک، اسلام نے مرد کو جو طلاق کا حق دیا ہے، جو بڑی حکمتوں پر مبنی ہے، مسلمان مرد اپنے اس حق طلاق کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
دوسرے، وہ علماء ہیں جو طلا ق کے غلط طریق استعمال سے ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ اگر ان دونوں کا رویّہ صحیح ہوجائے یا کم از کم دونوں میں سے کوئی ایک ہی اپنا رویہ ٹھیک کرلے تو یہ مسئلہ نہایت آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔
1.  پہلی بات تو یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا حق اس لئے نہیں دیاکہ وہ اس کو غلط طریقے سے استعمال کرکے عورت پر ظلم کرے اور ذرا ذرا سی بات پر طلاق دے ڈالے[1]۔ بلکہ گھر کا نظام مستحکم طریقے سے چلانے کے لئے مرد کو حاکمیت کاجو مقام عطا کیاگیا ہے، حق طلاق بھی ا س کا ایک حصہ ہے۔
2.     بدقسمتی سے مسلمان عوام میں اسلامی تعلیمات کا یہ شعور بالعموم نہیں ہے لیکن علماء کو تو باشعور ہونا چاہئے تاکہ وہ عوام کی جہالت کا ازالہ’خرابئ بسیار‘ سے پہلے ہی کرلیں اور ایسا کرنا کوئی مشکل بات بھی نہیں ہے۔ صرف فقہی جمود کے بجائے فقہی توسع کی اور شریعت کی عطا کردہ سہولتوں سے عوام کو بہرہ ور کرنے کی ضرورت ہے۔
عوام تو کالأنعام ہوتے ہیں، ان کو سمجھانا مشکل ہے، نیز ان کی تعداد بھی علماء کے مقابلے میں بے انتہا ہے، ان سب تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر علماء اس کوسمجھ لیں اور ان کے دل عوام کی خیر خواہی کے جذبوں سے معمور ہوں تویہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتاہے۔
ہم پورے شرحِ صدر اور نہایت یقین و اذعان سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہم مسئلے کا جو حل پیش کریں گے، اس میں دائرۂ شریعت سے قطعاً تجاوز نہیں ہوگا بلکہ فقہی جکڑ بندیوں سے بھی باہر نکلنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، کیونکہ بہت سے حنفی علما انہی فقہی پابندیوں میں ہی جینا چاہتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کا صحیح حل
مسلمان عوام کی جہالت، بے صبری و عدم تحمل اور طریقۂ طلاق سے بے شعوری کی وجہ سے مسلمان عورتوں اور بچوں پر جو ظلم ہو رہاہے، ا س کے ازالے کا ایک ہی طریقہ اور اس مرض کا ایک ہی علاج ہے کہ بیک وقت دی گئیں تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی قرار دیا اور تسلیم کرلیا جائے تاکہ عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے کی صورت میں نئے نکاح کے ذریعے سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہوجائے۔ یوں بے شمار گھر اُجڑنے سے اور بچے بے سہارا ہونے سے بچ جائیں گے۔
یہ حل قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق ثابت شدہ بھی ہے اور اس کے اختیار کرنے سے مذہبِ حنفی سے خروج بھی لازم نہیں آتا۔ اس کی مکمل تفصیل اور دلائل راقم کی کتاب’ایک مجلس میں تین طلاقیں‘نامی کتاب میں موجود ہیں، یہاں صفحات کی تنگ دامانی اس کے بیان کرنے سے مانع ہے۔
یہ دلائل الحمد للہ اتنے قوی ہیں اور موجود ہ حالات کے تناظر میں ان کی صحت بھی اتنی یقینی ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کے متعدد حنفی علما نے بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے فتووں، مقالات اور سیمیناروں میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرکے رجوع اور صلح کا حق دینا شرعاً بالکل صحیح ہے اور یہ دیا جانا چاہیے۔
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق تسلیم کرنے والے بھارتی حنفی علما کے اسماے گرامی
بھارت کے جن حنفی علما نے اس موضوع پر اپنے نتائج مطالعہ و تحقیق پیش کیے ہیں، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے پر زور دیا ہے، ان میں سے چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں:
1.     مولانا ابوالکلام آزاد
2.     مولانا سعید احمد اکبر آبادی                   مدیر ماہنامہ ’برہان‘ دہلی
3.     مولانا عروج احمد قادری                       مدیر ماہنامہ ’زندگی‘ رامپور
4.     مولانا مفتی عتیق الرحمٰن                      صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت
5.     مولانا حامد علی                                                    سیکرٹری جماعتِ اسلامی ،ہند
6.     مولانا شمس پیرزادہ                                             ممبئی
7.     مولانا محفوظ الرحمٰن قاسمی                   فاضل دیوبند
8.     مولانا وحید الدین خان
9.     مولانا سلطان احمد اصلاحی
10.     مولانا سید سلمان الحسینی الندوی
11.     مولانا الطاف احمد اعظمی
12.     مولانا عنایت اللّٰہ اسد سبحانی                                ڈائریکٹر کلیۃ القرآن، کیرالہ
13.     مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلالی              مالیر کوٹلہ    (ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ)
14.     مولانا ابوالحسنات ندوی                      رفیق دارالمصنفین، اعظم گڑھ                      وغیرہم
بعض علما وہ ہیں جنہوں نے اہلحدیث علما سے فتوے حاصل کرکے رجوع کرنے کا جوا زتسلیم کیا ہے۔ ان میں
15.     مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللّٰہ
16.     مفتئ اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللّٰہ مرحوم جیسے کبار علماشامل ہیں۔
پاکستانی علماے احناف اور اہل فکر و دانش
17.     پیر کرم شاہ الازہری                                           بھیرہ
18.     مولانا عبدالحلیم قاسمی                                          جامعہ حنفیہ قاسمیہ گلبرگ، لاہور
19.     حافظ حسین احمد قاسمی                                        جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور
20.     مولانا حسین علی                                 واں بھچراں
21.     مولانا یٰسین شاہ                                                   فاضل دیوبند ،جھنگ
22.     مولانا احمد الرحمٰن                                                خطیب جامع مسجد، پاک سیکرٹریٹ، اسلام آباد
23.     پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم وِرک                               گورنمنٹ کالج قلعہ دیدار سنگھ گوجرانوالہ
24     .ڈاکٹر رضوان علی ندوی                       کراچی
25.     ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری                                 دار العلوم رضویہ ، ماڈل ٹاؤن لاہور
26.     مولانا مفتی محمد زاہد                                              شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ فیصل آباد (ان کا فتویٰ نشے کی حالت میں
عدم طلاق کا ہے جس کے اکثراحناف قائل نہیں۔)
27         مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم            دارالعلوم کراچی                                       
28         جناب عمار خان ناصر                    مدیر ماہنامہ ’الشریعہ ‘ گوجرانوالہ وغیرہم
29         ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی                     ہائی ٹیک یونیورسٹی، ٹیکسلا
برصغیر پاک و ہند کے مذکورہ تمام علماے احناف کے فتاویٰ، مقالات اور آرا راقم کی کتاب ’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ، مشاہیر اُمت اور پاک و ہند کے متعدد علمائے حنفیہ کی نظر میں‘ موجود ہیں۔ یہ کتاب دارالسلام لاہور سے 2007ء میں چھپی ہوئی مارکیٹ میں موجود ہے۔
ان سب کے اقتباسات تو اس مضمون میں نہیں دیئے جا سکتے، چندآرا ذکر کی جاتی ہیں، باقی آرا کتاب میں دیکھی جا سکتی ہیں:
1.     ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی( فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز ، ہائی ٹیک یونیورسٹی، ٹیکسلا) اسی بھارتی سپریم کورٹ کے زیر بحث مسئلے سے متعلق فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ، یا درہے کہ موصوف پختہ حنفی ہیں:
’’اس سماجی تفاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں طلاق کی صورت میں سزا مرد کو نہیں، بیوی کو ملتی ہے۔ مزید یہ کہ جہالت ، دین سے بے بہرہ ہونے اور اُجڈ پن کی وجہ سے طلاق چونکہ اچانک اور یکبارگی تین دے دی جاتی ہیں، جو ایک خاندان، دو گھرانوں اور بچوں کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔ایسے میں یکبارگی تین طلاق کو نافذکرنا مجرم کو سزا دینا نہیں بلکہ مظلوم پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ حالات وزمانے کی تبدیلی کی رعایت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے سماج میں یکبارگی دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جائے۔ جیسا کہ عہدِنبوی اور عہد ِصدیقی ؓ اور عہدفاروقیؓ کے ابتدائی دو سالوں میں یہی قانون تھا۔ نیز کئی ایک صحابہ کرام ؓ، تابعین اور ائمہ کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ نیز اگر حکومت مختلف فقہی آرا میں کسی ایک رائے کو قانون کا درجہ دے دے تو وہ رائے مرجوح ہو، تب بھی فتویٰ اور فیصلے اسی کے مطابق کئے جائیں گے۔ ‘‘[2]
2.  مولانا سلطان احمد اصلاحی ، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی ، علی گڑھ کے نہایت اہم رکن ہیں۔ مسلکاً حنفی ہیں، لیکن اللّٰہ نے فقہی جمود سے ہٹ کر سوچنے کی توفیق سے نوازا ہے۔ طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’سرفہرست مسئلہ طلاقِ ثلاثہ کا ہے ۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں مصلحت اس کی متقاضی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی تسلیم کیا جائے۔ ضرورت کے تقاضے سے اگر مفقود الخبر کے مسئلے میں مالکیہ کے مسلک پر شرحِ صدر سے عمل کیا جارہا ہے تو اس طرح کی ضرورت سے اگر اس مسئلے میں بھی مسلکِ اہل حدیث کو اختیار کرلیا جائے تو یہ کوئی گناہ اور کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوگا۔ حلالے کا حیلۂ شرعی آج کے تنقیدی اور سوالیاتی دور میں اس دین کی بدنامی کا باعث ہے۔ اس برائی کے ارتکاب سے بہت بہتر ہے کہ اُمت کے ایک معتبر فقہی دھارے کی رخصت اور رعایت سے فائدہ اُٹھا لیا جائے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھے جائیں خاکسار کے دو مضامین : ’مسئلہ طلاق، متوازن نقطۂ نظر‘ اور ’مسئلہ طلاق ، بعض ملاحظات‘ مطبوعہ سہ روزہ ’دعوت‘ دہلی۔ نیز پندرہ روزہ ’ترجمان‘ اہل حدیث دہلی۔ اس کے سلسلے میں علماے ملت سے اسی قدر گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ اسے مسلکی اَنا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اسلام، اُمت اور دعوت کے پس منظر میں دیکھیں اور اللّٰہ کے دین کو بدنام ہونے سے بچائیں۔‘‘[3]
3.  ایسے ہی ماہ نامہ ’الشریعہ‘ کے مدیر جناب عمار خاں ناصر اپنے ایک مضمون بعنوان ’معاشرہ، قانون اور اخلاقیات ‘نفاذِ شریعت کی حکمتِ عملی کے چند اہم پہلو‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی اکثریت طلاق کے شرعی طریقے اور اس کی حکمتوں سے ناواقف ہو، جہاں معاشرتی، معاشی مشکلات و مسائل نے لوگوں سے صبر و حوصلہ اور تحمل چھین کر اُنہیں ذہنی تناؤ کا مریض بنادیا ہو، جہاں مطلقہ عورت کے لئے باعزت زندگی گزارنا یا عقد ِثانی کرنا بے حد مشکل ہو اور طلاق مرد کی بجائے حقیقت میں عورت کے لئے سزا قرار پائے، کیا ایسے معاشرے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو لازماً نافذ قرار دینا حکمت و مصلحت پر مبنی شریعت کا منشا ہوگا اور کیا اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے کی سزا فی الواقع اس کے اصل مجرم یعنی شوہر ہی کو ملے گی۔‘‘[4]
موصوف کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اپنے ہم مسلک علماے احناف بلکہ اپنے دادا مرحوم کے موقف کو کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوجاتی ہیں، شریعت کی حکمت ومصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں۔
مسئلہ زیر بحث، مذاہبِ اربعہ کی روشنی میں
برصغیر پاک و ہند کے جن علماے احناف نے طلاقِ ثلاثہ کے ایک طلاق رجعی ہونے کا موقف اختیار کیاہے، وہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے تو مطابق ہے ہی لیکن اس میں ائمہ اربعہ کے مسلک سے بھی انحراف نہیں پایا جاتا جن کی بابت یہ دہائی دی جاتی ہے کہ ان کے متفقہ مسلک سے انحراف کی قطعاًاجازت نہیں ہے۔ لیجئے! ائمہ اربعہ اور مذاہب اربعہ کا موقف بھی ذیل میں ملاحظہ فرمالیں:
مذاہب اربعہ کا متفقہ موقف... تاکیدکے طورپر ’’تین طلاقیں ، ایک ہی طلاق ہے!‘‘
چاروں فقہوں (حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی) میں ایک اور نقطہ نظر سے بھی تین دفعہ طلاق کا لفظ دہرانے کے باوجود اسے ایک طلاق شمار کرنے کی گنجائش موجود ہے، حالانکہ یہ سب اصحابِ فقہ ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کے قائل ہیں۔
چنانچہ کتاب الفقه على المذاهب الأربعة کے مؤلف فقہ مالکی کی صراحت کرتے ہیں:
فقہ مالکی کا فتوٰی
الصورة الأولىٰ: أن یقول لها: أنتِ طالق طالق طالق بدون عطف وتعلیق وحکم هذه الصورة أنه یقع بها واحدة إذا نوي بالثانیة والثالثة التأکید. [5]
’’اگر اس نے کہا: تجھے طلاق طلاق طلاق بغیر عطف اور تعلیق کے تو اس صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی جب اس کی نیت دوسری، تیسری طلاق سے تاکید کی ہو۔‘‘
فقہ حنبلی کا فتوٰی
حنبلی مسلک کی کتاب’المغنی‘ میں علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
فإن قال: أنت طالق طالق، طالق وقال أردت التوکید قبل منه لأن الکلام یکرّر للتوکید کقوله علیه السلام: فنکاحها باطل باطل باطل. وإن قُصد الایقاع وکرّر الطلقات طُلّقَت ثلاثا. وإن لم ینو شیئًا لم یقع إلا واحدة.[6]
’’اگر کہا: تجھے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے اور کہے کہ میں نے تاکید کی غرض سے کہا تھاتو اس کا یہ بیان قبول کرلیاجائے گا کیونکہ بات تاکیداً دہرائی جاتی ہے جس طرح کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے:’’ اس کانکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘ (یعنی ایک حدیث میں نکاح کے باطل ہونے کا لفظ تاکید کی غرض سے تین مرتبہ دہرایا گیا ہے) لیکن اگر اس کی نیت تین طلاقوں کے ایقاع (واقع کرنے) کی تھی اور طلاقوں کو دہرایاتھا تو پھر تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر کوئی نیت نہیں تھی تو صرف ایک طلاق ہوگی۔ ‘‘
فقہ شافعی کا فتویٰ
شافعی مسلک کی کتاب روضة الطالبین میں امام نوویؒ لکھتے ہیں:
ولو کرّر اللفظة ثلاثًا وأراد بالآخرتین تأکید الأولىٰ لم یقع إلا واحدة[7]
’’اگر اس نے طلاق کا لفظ تین مرتبہ دہرایا لیکن آخری دو مرتبہ سے اس کامقصد پہلی طلاق کی تاکید تھا تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ ‘‘
فقہ ظاہری کا فتوٰی
علامہ ابن حزم المحلّٰى میں لکھتے ہیں:
فلو قال لموطوئة: أنت طالق أنت طالق أنت طالق، فإن نوی التکریر لکلمته الأولى وإعلامها فهی واحدة وکذلك إن لم ینو بتکراره شیئًا.[8]
’’مدخول بہا عورت سے شوہر نے کہا: تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق۔ پس اگر اس تکرار سے اس کی نیت پہلی طلاق ہی کی تاکید اور اس کی اطلاع ہے تو یہ ایک ہی طلاق ہے اور اسی طرح اس وقت بھی ایک ہی طلاق ہوگی جب اس تکرار سے اس کی کوئی نیت ہی نہ ہو۔‘‘
فقہ حنفی کا فتویٰ
1.     حنفی مسلک کی کتاب’بہشتی زیور‘ میں مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم لکھتے ہیں:
’’کسی نے تین دفعہ کہا: تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق ،تینوں طلاقیں پڑ گئیں یا گول الفاظ میں تین مرتبہ کہا، تب بھی تین پڑ گئیں۔ لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی ہے، فقط مضبوطی کے لئے تین دفعہ کہا کہ بات خوب پکی ہوجائے تو ایک ہی طلاق ہوئی لیکن عورت کو اس کے دل کاحال تو معلوم نہیں، اس لئے یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں۔‘‘[9]
2.  مولانا مجیب اللّٰہ ندوی (بھارت):آپ بھی مسئلۂ طلاقِ ثلاثہ میں حنفی موقف کے نہایت سختی سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی کتاب ’اسلامی فقہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’البتہ اگر کسی نے اس طرح کہا کہ تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق تو اگر اس سے اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ صرف تاکید کرنی مقصود تھی تو ایک ہی طلاق رجعی پڑے گی۔‘‘[10]
3.  مفتی مہدی حسن (سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند):اپنی کتاب إقامة القيامة میں تحریر کرتے ہیں:
’’اگر عورت مدخول بہا ہے اور ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تھا لیکن بتکرار لفظ تین طلاق دی اور دوسری اور تیسری طلاق کو بطور ِتاکید استعمال کیا ہو تو دیانتاً قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، اس میں اختلاف نہیں۔‘‘ [11]
4.  مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی ( سیکرٹری جنرل مسلم پرسنل لا بورڈ، ہند): تاکید کے طور پر تین مرتبہ طلاق کالفظ دہرانے کے بارے میں آپ نے’تین طلاقوں میں تاکید کا اعتبار‘ کا عنوان قائم کرکے اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہےاور آپ بھی ان علماے احناف میں سے ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہی واقع ہونے کے مسئلے میں سخت متشدد ہیں، لیکن اس کے باوجود لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی،لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب تین کے عدد کی صراحت ہو مثلاً کہا جائے: ’’میں نے تین طلاقیں دیں ۔‘‘ اگر صرف طلاق کو تین بار کہا کہ تم کو طلاق ، طلاق ، طلاق تو اب دو باتوں کا احتمال ہے: ایک یہ کہ تین طلاقیں دینا مقصود ہیں یا یہ کہ ایک ہی طلاق دینی مقصود ہے اور تاکید کے لئے تین بار طلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ پہلی صورت میں تین طلاقیں واقع ہوں گی اور دوسری صورت میں صرف ایک ، اس لئے کہ تاکید کسی چیز کے وقوع کو اور (مزید) مؤکد تو کرتاہے لیکن اس کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کرتا۔
اس طرح اس معاملے کا دارومدار طلاق دینے والے کے ارادے پر ہے مگر اس میں اس بات کا قوی احتمال تھاکہ لوگ تین طلاق کے ارادے سے اس طرح کا فقرہ استعمال کریں اور بعد میں بیوی کی علیحدگی سے بچنے کے لئے کہہ دیں کہ تاکید کی نیت تھی، اس لئے فقہا نے کہا کہ ایسے فقروں میں دیانتاً اور فی مابینہ وبین اللّٰہ تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اس طرح طلاق دینے کے بعد پھر اپنی بیوی سے رجعت کرلے تو اس کو ان شاء اللّٰہ کوئی گناہ نہ ہوگا۔
مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور ناواقفیت اور شرعی تعلیمات سے دوری کے باعث صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بار طلاق کا لفظ کہاجائے۔ ان حالات میں مناسب ہوگا کہ جہاں صرف لفظ ’طلاق ‘ کا تکرار ہو اور تاکید کا معنی مراد لیا جاسکتا ہو، وہاں ایک ہی طلاق واقع قرار دی جائے اور قضاء ً (عدالت میں)بھی اس شخص کی نیت کا اعتبار کیاجائے۔ خوشی کی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا نے اس مسئلے میں پیش قدمی کی ہے اور فتاویٰ میں اس کی رعایت شروع کردی ہے، چنانچہ اس مسئلے پر دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی ملاحظہ ہو:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو ا س طرح طلاق دی:’’ تم کو طلاق طلاق طلاق۔‘‘ اس صورت میں کون سی طلاق واقع ہوگی اور کیا مراجعت کی گنجائش ہوگی؟
(المستفتی: خالد سیف اللّٰہ رحمانی)
جواب: صورتِ مذکورہ میں ہمارے اطراف کے عرف کے اعتبار سے زید کی مدخولہ بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوئی۔ اگر آپ کے یہاں کا عرف بھی یہی ہو تو ایک طلاقِ رجعی کے وقوع کا حکم ہوگا۔ طلاقِ رجعی کا حکم ہے کہ اندرونِ عدت رجوع اور بعد عدت بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح جائز ہے۔ واللّٰہ اعلم     (الفتاوٰی الهندية:2؍ 50)
کفیل الرحمٰن نشاط                ( نائب مفتی دارالعلوم دیوبند)            21؍شعبان 1405 ھ
الجواب الصحیح                    ظفیر الدین غفرلہ        (مفتی دارالعلوم دیوبند)                  21؍ شعبان 1405 ھ
مہر دارالافتا،دارالعلوم دیوبند
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے دوسرے دارالافتا اور اہل علم بھی اسی کے مطابق فتویٰ دیا کریں، اس لئے کہ قریب قریب پورے ملک کا عرف یہی ہے کہ لوگوں نے ناواقفیت کی وجہ سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب تک تین بار طلاق کالفظ نہ استعمال کیا جائے، طلاق واقع ہی نہ ہوگی۔ ‘‘
از مرتب: اسی سے ملتی جلتی صورت ہمارے خیال میں یہ ہے کہ لوگ شرعی احکام سے عدم واقفیت کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔[12]
تبصرہ از راقم : اس صورتِ حال کو بھی ہم دردی سے دیکھنا چاہئے اور ایسے شخص کی بھی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چاہئے۔
مسلم ممالک میں طلاق کا قانون
مسلم ممالک نے تطلیقاتِ ثلاثہ کے سلسلے میں جو قوانین بنائے ہیں، ان کی حیثیت شرعی حجت کی نہیں ہے، اس لئے ان قوانین کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہ معلوم کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ کن ممالک نے اس سلسلے میں اقدامات کئے ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر، یعنی بغرضِ معلومات اس کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:
1.     سب سے پہلے مصر نے 1929ء میں ایک ہی وقت کی تین طلاقوں کے اُصول کو ختم کردیا اور قانون یہ بنایا کہ متعدد طلاقیں صرف ایک شمار ہوں گی اور وہ رجعی ہوگی۔ پیر کرم شاہ ازہری نے بھی اپنی مذکورہ کتاب میں اس مصری قانون کی مختصر تفصیل پیش کی ہے اور اس کے حوالے سے پاکستان کے حنفی علما کو بھی یہی مسلک اپنانے کی تلقین کی ہے۔ اس قسم کا قانون سوڈان نے 1935ء میں ، اُردن نے 1951ء میں، شام نے 1953ء میں، مراکش نے 1958ء میں، عراق نے 1909 میں اور پاکستان نے 1961ء میں نافذ کیا۔[13]
علماے حنفیہ کے لئے دعوتِ غوروفکر
اور اب سب سے آخر میں مولانا اشرف علی تھانوی کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیں۔ضررورت کے تحت فقہ حنفی کو چھوڑنے کے لئےمولانا اشرف علی تھانوی کا طرزِ عمل ایک مثال ہے:
آج سے تقریبا 88 سال قبل 1351ھ؍1932ء میں مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے ایک کتاب تالیف فرمائی تھی جس کا نام ہے: الحیلة الناجزة في حلیلة العاجزة (مشکلات سے دوچار شادی شدہ عورت کے لئے کامیاب حیلہ یا تدبیر) اس میں حسبِ ذیل عورتوں کی مشکلات کا حل پیش کیا گیا تھا:
٭ نامرد شخص کی بیوی                                                                                       ٭ مجنون شخص کی بیوی
٭ مُتعنّت (نان نفقہ نہ دینے والے) کی بیوی                                             ٭ مفقود الخبر (لاپتہ شوہر) کی بیوی
ان کا حل پیش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ فقہ حنفی میں مذکورہ عورتوں کی مشکلات کا یعنی خاوندوں سے گلوخلاصی (چھٹکارا) حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اس بات کا اعتراف اس کتاب کے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی کیاہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ایسی خواتین جنہوں نے نکاح کے وقت تفویض طلاق کے طریقے کو اختیار نہ کیاہو، اگر بعد میں کسی شدید مجبوری کے تحت شوہر سے گلو خلاصی حاصل کرنا چاہیں، مثلاً شوہر اتناظالم ہو کہ نہ نفقہ دیتا ہو، نہ آباد کرتا ہو، یاوہ پاگل ہوجائے یا مفقود الخبر ہوجائے یا نامرد ہو اور از خود طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو تو اصل حنفی مسلک میں ایسی عورت کے لئے شدید مشکلات ہیں، خاص طور پر ان مقامات پر جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والاکوئی قاضی موجود نہ ہو، ایسی عورتوں کے لئے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ‘‘[14]
مولانا اشرف علی تھانوی نے مذکورہ بیشتر مسائل میں فقہ حنفی کو ترک کرکے مالکی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا اور اس کی روشنی میں ان کو اپنے شوہروں سے گلو خلاصی (چھٹکارے) کا طریقہ بتلایا، اس کی تفصیل مذکورہ کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، علاوہ ازیں مولانا تھانوی کے ان فتووں کو اس وقت کے تمام کبار حنفی علما نے بھی تسلیم کیا جن کی تصدیقات بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ کسی نے بھی ان پر فقہ حنفی سے خروج کا فتوی نہیں لگایا کیونکہ کتاب میں مولانا تھانوی نے صراحت کی ہے کہ ضرورتِ شدیدہ کے وقت کسی دوسری فقہ پر عمل کرنے کی اجازت خود فقہاے احناف نے دی ہے۔ اسی اجازت کی وجہ سے یہ سہولتیں عورتوں کو دی جا رہی ہیں جو فقہ حنفی میں نہیں ہیں۔
یہاں یہ مثال پیش کرنے سے مقصود یہ ہے کہ بیک وقت دی گئیں تین طلاقوں کو نافذ کرکے دفعتاً میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردینا بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے بے شمار پیچیدگیاں اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کی کچھ تفصیل راقم کی محولہ بالا کتاب میں موجود ہے۔ ا س کے حل کے لئے بھی ضروری ہے کہ موجودہ علماے احناف مولاناتھانوی کی طرح ایسا اقدام کریں کہ مسئلہ طلاقِ ثلاثہ کی وجہ سے مسلمان عورت جن آلام و مصائب کا شکار ہوتی ہے، اس سے محفوظ ہواجائے اور وہ حل یہی ہے کہ زیر بحث طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق رجعی شمار کریں جس کی پوری گنجائش شریعت میں بھی موجود ہے اور فقہ حنفی سمیت دیگر مذاہبِ ثلاثہ میں بھی ہے۔
آمدم برسر مطلب!
اس ساری تفصیل کے پیش کرنے سے اصل مقصود یہ ہے کہ مسئلہ طلاقِ ثلاثہ میں یہ پوری گنجائش موجود ہے کہ اسے ایک طلاقِ رجعی شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر صلح اور رجوع کرنے کا حق دیا جائے تاکہ گھر اُجڑنے سے بچ جائے لیکن علماے احناف اپنے فقہی جمود کی وجہ سے یہ معقول راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں بے شمار خاندان اس جمود کاشکار ہوکر اُجڑ چکے ہیں اور آئے دن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، حتی کہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اس طریقۂ طلاق کو سب سے بدترین قسم قرار دیا اور پھر بالآخر اس کو غیر قانونی بھی قرار دے دیا۔ (یہ دونوں خبریں آخر میں ملاحظہ کریں)
بھارتی مسلمانوں کے ’مسلم پرسنل لابورڈ‘ نے اس فیصلے کو ردّ کردیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسلمانوں کے مذہب میں مداخلت ہے، ان کے مطابق بھارتی آئین بھی ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا حق دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بورڈ کے سیکرٹری جنرل مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی نے کہاہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح بالکل نہ ہونے کے برابر ہے، ا س لئے اس مسئلے کی آڑ میں ہندو لابی یکساں سول کوڈ لاناچاہتی ہے، ورنہ سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
ہم موصوف کی اس رائے سے تو متفق ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے، یہ بھارتی مسلمانوں کا مذہبی حق بھی ہے اور آئینی طور پر بھی درست ہے۔ لیکن اس رائے سے اتفاق مشکل ہے کہ سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہم پاکستان میں بھی سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کی وجہ سے گھر اُجڑ ر ہے ہیں ، بچے اور عورتیں بے سہارا ہو رہی ہیں۔ اورہم سمجھتے ہیں اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت میں بھی اس مسئلے کی وجہ سے مسلمان عورتیں اور بچے مظلومیت کا شکار ہیں۔ اس لئے مسلم پرسنل لابورڈ ،ہند کا یہ دعویٰ کہ یہ مسئلہ ہی نہیں ہے، شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپانے سے مختلف نہیں ہے۔
یہ بھی بتلایا گیاہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک دستخطی مہم شروع کی ہے جس میں مسلمان عورتوں سے یہ عہد لیا جا رہا کہ ہم شریعتِ اسلامیہ ہی کی روشنی میں اپنا ہر فیصلہ کرنا پسند کرتی ہیں۔ اس مہم کے مطابق پانچ کروڑ مسلمان عورتوں کے دستخط حاصل کرکے حکومتِ ہند کو پیش کئے جا چکے ہیں۔
یہ بھی اپنی جگہ بالکل درست اور مسلمانوں سے شریعت پر استقامت کا عہد بھی اچھا ہے اور حکومت پر یہ واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ مسلمان اپنے مذہب میں حکومت کو مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ اصل مسئلے سے اغماض نہ برتا جائے اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور خرابیوں کو نظر انداز نہ کیاجائے بلکہ منظّم انداز میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ مسلمانوں میں غلط طریقۂ طلاق سے آئے دن ظلم و ستم کی جو صورتیں رونما ہوتی رہتی ہیں جس کا نشانہ زیادہ تر عورتیں ہی بنتی ہیں، اس کا مستقل مداوا ہوسکے اور وہ طریقہ وہی ہے جو خود متعدد علماے احناف نے بھی تجویز کیا ہے جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزری۔
پس چہ باید کرد
اس مرحلے میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے زوجۂ مفقود الخبر کے بارے میں حنفی مسلک چھوڑ کر مالکی مسلک کو اختیار کیا اور ا س پر دیگر علماے احناف کو بھی قا ئل کیا، بالکل اسی طرح بھارت کے علمائے احناف کو متفق ہوکر ایک مجلس کی تین طلاقوں میں جو گنجائش خود حنفی علما نے اپنی فقہ حنفی ہی کی روشنی میں بیان کی ہے، اسے اختیارکرنا چاہئے۔
پاک و ہند کی مسلمان عورتوں پر یہ اسی قسم کا ایک بڑا احسان ہوگا جو آج سے 88 سال قبل ہندوستان ہی میں ہندوستانی علمائے احناف نے متحد ہوکر اور ایک موقف اپنا کر مسلمان عورتوں پر کیا تھا۔وما علینا الاالبلاغ المبین
حافظ صلاح الدین یوسف   (مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان)
مسلمانوں میں تین طلاقیں نکاح ختم کرنے کی بدترین قسم ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ
نئی دہلی (آواز نیوز ) بھارتی سپریم کورٹ نے بیک وقت تین طلاقوں کو مسلمانوں میں نکاح ختم کرنے کی سب سے بدترین اور نامناسب قسم قرار دے دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے بیک وقت تین طلاقوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کی ۔سابق بھارتی وزیر سلمان خورشید نے عدالت کو بتایا کہ بیک وقت تین طلاقوں کے لئے عدالتی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ کہ خواتین کے پاس اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ شادی کے وقت نکاح نامے میں یہ شرط عائد کردیں کہ بیک وقت تین طلاقیں اُنہیں نامنظور ہیں۔ عدالت نے سابق وفاقی وزیر سے کہا کہ ایسے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی فہرست پیش کریں جہاں بیک وقت تین طلاقیں دینے پر پابندی عائد ہے جس پر بنچ کو بتایا گیا کہ پاکستان، افغانستان ، مراکش اور سعودی عرب میں قانونی طور پر نکاح کے خاتمے کے لئے بیک وقت تین طلاقیں دینے کی اجازت نہیں ہے۔ سینئر وکیل رام جیٹھ ملانی نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا آئینی بنیادوں پر بھی مساویانہ حقوق پر حملہ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے جو آئین کے آرٹیکل 14کی خلاف ورزی ہے۔ رام جیٹھ ملانی کا کہنا ہے کہ اس طرح طلاق دینے کا طریقۂ کار بے رحمانہ اور قرآنِ کریم کے اصولوں کے بھی خلاف ہے جس کی کسی بھی صورت میں وکالت نہیں کی جا سکتی۔ تین طلاقوں سے متاثرہ خاتون کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دنیا کاکوئی بھی قانون شوہر کی خواہش پر بیوی کو سابقہ بیوی بنانے کے اجازت نہیں دیتا اور یہ لاقانونیت کی سب سے بری قسم ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیئے کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے کچھ مسالک میں بیک وقت تین طلاقیں دینا جائز ہے لیکن پھر بھی بیک وقت تین طلاقیں دے کر نکاح ختم کرنے کا عمل مسلمانوں میں نکاح ختم کرنے کی سب سے بدترین قسم ہے۔‘‘
                        (روزنامہ ’آواز‘ لاہور: 13 ؍مئی 2017ء)
بھارتی سپریم کورٹ نے اکٹھے 3 طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے دیا!
معاملہ قانون سازی کے لئے اسمبلی بھیجنے کی تجویز
نئی دہلی (آواز نیوز) بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے تین طلاق کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی جب کہ عدالت نے تین طلاقوں کو مسلم خواتین کے حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔ پانچ رکنی ججز میں سے تین ججز نے تین طلاقوں کو آئین سے متصادم جب کہ بھارت کے چیف جسٹس سمیت دوججز نے اس معاملے کو قانون سازی کے لئے اسمبلی میں بھیجنے کی رائے دی۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر اور جسٹس ایس عبدالنظیر نے قرار دیا کہ تینوں طلاق کا معاملہ مسلم مذہب کا بنیادی حق ہے اور یہ غیر قانونی نہیں۔ جسٹس کورین جوزف، جسٹس آر ایف ناریمان اور جسٹس یویولالت نے تین طلاقوں کو مسلم خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر قانونی قرار دیا۔ بھارتی چیف جسٹس نے ذاتی رائے دیتے ہوئے اور درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو حکومت کے پاس بھیج دیا جائے اور حکم دیا کہ چھ ماہ میں تین طلاقوں پر قانون سازی کی جائے۔ تاہم حتمی فیصلے میں ججز کی تین دو سے رائے آنے کے بعد اکثریت کو سامنے رکھتے ہوئے پانچ رکنی بنچ نے تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد تین طلاقوں کے خلاف درخواست گزار شیارا بانو کا کہنا تھاکہ آج میں خود کو آزاد محسوس کر رہی ہوں۔ عدالتی فیصلے سے بہت سی مسلم خواتین کو آزادی ملے گی۔ شیارا بانو نے دعوٰی کیا کہ بہت سے مسلم ممالک میں تین طلاقوں پر پابندی ہے۔ دوسری جانب بھارت میں سرگرم مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریاست کو مذہب میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ ہندو اکثریت معاشرے میں بڑھتے مسلم اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہے۔
                                                                                                                                                (روزنامہ ’آواز‘ لاہور: 23؍ اگست 2017ء)
حوالہ جات:
[1]    اس کی تفصیل راقم کی کتاب’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ‘ ناشر: دارالسلام ، لاہور میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
[2]    ماہنامہ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ، اكتوبر 2017ء :ص34
[3]    مجموعۂ مقالات ، سیمینار ’علوم الحدیث، مطالعہ وتعارف‘: ص 226، 231
[4]    ماہنامہ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ، دسمبر 2010ء :ص 49،48
[5]    الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: کتاب الطلاق، مبحث تعدد الطّلاق: 4؍310
[6]    المغنی از ابن قدامہ:7؍ 232،369دارالفکر، بیروت 1984ء
[7]    روضۃ الطالبین8؍ 78،طبع المکتب الاسلامی، بیروت 1991ء
[8]    المحلی:10؍ 174
[9]    بہشتی زیور:4؍ 19
[10] اسلامی فقہ: 4؍ 260
[11] اقامۃ القیامہ:ص 75
[12] جدید فقہی مسائل:2؍ 108 تا111
[13] ’ایک مجلس کی تین طلاقیں...‘ از راقم :ص 69،68
[14] الحیلة الناجزة:ص 10، دارالاشاعت کراچی