عالم كفر كی عالم اسلام سے کشاکش کے چند فکر انگیز پہلو
جب ہم عالمى سطح پر كفاركى پالىسىوں، اقدامات اور مسلمانوں كى صورتحال كا جائزہ لىتے ہىں تو كچھ نتائج نكھر كر ہمارے سامنے آتے ہىں، جو ىہ ہىں:
1. دنىا كے كسى بھى خطے مىں شورشوں، اندرونى خلفشاروں اور دہشت گردىوں كا تسلسل ہے تو وہ بلادِ اسلامىہ ہى ہىں۔ بلادِ غىر مىں آپ كو اىسا كوئى تسلسل نظر نہىں آئے گا۔ اىك آدھ واقعہ ہو جانا اور بات ہے۔
2. عالمى سطح پر كوئى بھى قانون بنے ىا كوئى بھى اتحاد وجود مىں آئے تو اس سے فائدہ ہمىشہ كفار كو ملتا ہے اور نقصان ہمىشہ مسلمانوں كا ہوتا ہے۔
3. مسلمان ہوں ىا محض اسلام كے دعوىدار لىكن مسلمان ہى اىك دوسرے كے خلاف برسرِ پىكار ہىں۔
4. عالم كفر كے سرغنے ضرورت پڑنے پر سب كچھ كرنے كو تىار ہو جاتے ہىں اور ضرورت پورى ہونے پر آنكھىں پھىر لىتے ہىں۔
5. بلادِ اسلامىہ عالم كفر كى مختلف پالىسىوں كى وجہ سے مشكلات مىں گھرے ہوئے ہىں، اس كے باوجود اگر سماجى طاقتىں كسى نئے اسلامى ملك كو’اُلّو ‘ بنانا چاہتے ہىں تو وہ ملك فوراً تىار ہو جاتا ہے، حالانكہ عالمى سماجى طاقتىں اىك خىرخواہ كے روپ ہى مىں كسى ملك مىں داخل ہوتى ہىں۔ مگر نشانہ بننے والا ہر اسلامى ملك اپنے ہى تجربات كرنا چاہتا ہے۔
6. عالم كفر كى بلاد اسلامىہ مىں پالىسىاں مختلف ہىں مگر ہدف اىك ہے، طرىقہ ہائے واردات مختلف ہىں جبكہ مقصد اىك ہے۔
7. مسلمانوں كا باہمى اتحاد اپنے اپنے مفادات كے دائرے تك محدود نظر آتا ہے اور محض اىك علامتى اتحاد ہوتا ہے جو عموماً وقت كے ساتھ ساتھ كالعدم ہوتا دكھائى دىتا ہے۔
8. عالم كفر ہمىشہ بلاد اسلامىہ كو ہر مىدان مىں كمزور كرنے كى كوشش مىں رہتا ہے۔ خواہ وہ معاشى مىدان ہو، سىاسى مىدان ہو، تعلىمى مىدان ہو ىا تہذىبى مىدان۔
9. عالم كفر بلادِ اسلامىہ كے وسائل كو اپنے حق مىں استعمال بھى كرتا ہے اور بلادِ اسلامىہ كے ذاتى وسائل كو خود ان كے حق مىں صحىح معنوں مىں استعمال بھى نہىں ہونے دىتا۔
10. عالم كفر كے پاس عالم اسلام كو باہمى طور پر محاذ آرا كرنے كا سب سے اہم قضىہ شىعہ ؍سنى قضىہ ہے، اگرچہ اس كے علاوہ بھى خود كاشتہ پودے موجود ہىں جن كى وہ كاشت كے دن سے مسلسل آبىارى كر رہا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے، ان سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔
11. عالم كفر كا مغرب اور مشرق كے مابىن عَدل سے ہٹ كر ہمىشہ دوہرا معىار رہا ہے۔
12. عالم كفر اگر كسى اسلامى ملك كا تعاون كرتا ہے تو كسى بھى صورت مىں اس كى قىمت ضرور وصول كرتا ہے۔
ان مذكورہ 12؍ نتائج كو سامنے ركھ كر ہى زىر نظر تحرىر كو سمجھا جا سكتا ہے۔ ہاں ان نتائج كا تجزىہ كسى بھى سطح پر كىا جا سكتا ہے۔ ىہ تو ممكن ہے کہ كسى تناسب سے ان مىں كوئى كمى بىشى ہو مگر انھىں سرے سے تسلىم نہ كرنا مسلمہ حقائق كو جھٹلانے كے مترادف ہے۔
اب ہم مذكورہ ترتىب كے مطابق تحقىقى لىبارٹرى كے ذرىعے ان حقائق كا’ٹىسٹ‘لىتے ہىں۔
1. پہلی حقىقت ىہ ہے كہ دنىا كے كسى بھى خطے مىں جہاں كہىں بھى شورشوں كا تسلسل ہے تو وہ بلادِ اسلامىہ ہى ہىں۔ اگر وہ علاقے مسلمانوں كے نہىں تو كم از كم وہاں كے مسلمان باسى نشانہ ضرور ہىں۔ جىسا كہ مقبوضہ كشمىر، مقبوضہ فلسطین، برما اور چىن كے مختلف علاقوں مىں مسلمانوں كى حالتِ زار ہے اور بھارت مىں مسلمانوں پر مظالم ہىں۔ ان مىں سے كئى تو نئے محاذ كھولے گئے ہىں مگر زىادہ تر محاذ عرصۂ دراز سے سرگرم ہىں اور انھىں عالم كفر كسى بھى صورت حل كرنا نہىں چاہتا بلكہ انھىں طول دىنے ہى مىں عالم كفر كا فائدہ ہے۔ بلادِ اسلامىہ مىں شورشوں كا تسلسل بتا رہا ہے كہ ان كا ذمہ دار عالم كفر ہے۔ جىسا كہ مسئلہ كشمىر ہو یا مسئلہ فلسطین ، دنیا کے ان دو سب سے بڑے جھگڑوں کو برطانیہ نے جان بوجھ كر غلط تقسىم كركے اُلجھاىا اور مسلمانوں کو مشکلات کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ’لڑاؤ اور حكومت كرو ‘عالم كفر كى پالىسى كا حصہ ہے۔
2. دوسری حقىقت كو دىكھىں تو اس كى حالىہ دلىل ىہ ہے كہ كل بھوشن ىادو بھارت كا خطرناك حاضر سروس اہلكار ہے اور وہ پاكستان كے خلاف مختلف خطرناك ترىن سرگرمىوں مىں ملوث ہونے كا اقرارى مجرم ہے مگر عالمى عدالت مىں اس كى سزا كو كالعدم قرار دىا گىاہے۔ جبكہ عالم كفر كے مطلوب افراد دنىا كے كسى خطے مىں ہوں تو انھىں ماورائے عدالت بھى قتل كر دىا جاتا ہے۔ بھارت آبى جارحىت كر رہا ہے، بھارت اسلحے كا ڈھىر بن رہا ہے مگر اس كا اىكشن نہىں لىا جارہا۔
اقوام متحدہ كبھى بھى مسلمانوں كے كام نہىں آئى اور كفار كے فائدے سے كبھى چُوكى نہىں۔ ىہ اقوامِ متحدہ ہى كى پابندىاں ہىں جس كى وجہ سے پاكستان كے انتہائى دشمن سىاسى گروہ سىاسى پناہ گزىنوں كى حىثىت سے مكمل تحفظ مىں ہىں، حالانكہ پاكستان كو انتہائى مطلوب ہىں۔ جبكہ پاكستان كے ہمدرد پابندِ سلاسل ہىں۔ كون نہىں جانتا كہ مسئلہ كشمىر اقوام متحدہ كى قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے كى وجہ سے کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔
3. تىسرى حقىقت كا ثبوت ىہ ہے كہ دنىا مىں جہاں كہىں بھى اندرونى خلفشار ہے تو زىادہ تر اىك دوسرے كے مدمقابل مسلمان ہى ہىں۔ سعودى عرب كو دىكھ لىں، اس كے موجودہ دشمن اسرائىل ىا امرىكہ نہىں بلكہ اىران، داعش ىا القاعدہ ہىں۔ جىساكہ داعش ،القاعدہ اور اىران كا ہدف امرىكہ، بھارت اوراسرائىل نہىں بلكہ پاكستان، سعودىہ اور دىگر اسلامى ممالك ہىں۔ ہمارا ملك جو برى طرح دہشت گردى كا نشانہ رہا ہے، كىا ىہ بات درست نہىں كہ مارنے والے بھى كلمہ گو اور مرنے والے بھى كلمہ گو تھے۔ آخر ان دہشت گردوں اور فسادیوں كا ہدف بلادِ اسلامىہ ہى كىوں ہىں؟ ىہ صورتحال بتاتى ہے كہ کہیں تو حکمت عملی کی غلطی ہے یا غلط معلومات اور سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار کردیا جاتا ہے ۔كىا آپ ىہ نہىں جانتے كہ طالبان كے خلاف امرىكہ چڑھ دوڑا تھا مگر قطر مىں طالبان كا دفتر كھولنے كا حماىت كنندہ بھى وہى تھا اور پاكستان كے سىكولر اور امرىكہ نواز طبقے سے پاكستان مىں بھی طالبان كا دفتر كھولنے كى حماىت کروائی گئى تھى۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عالم كفر نام تو القاعدہ اور داعش كو كچلنے كا لىتا ہے مگر ہمىشہ نہتےمسلمان حتى كہ سكول، مدارس، ہسپتال اور عام آبادىاں ہى نشانہ بنتى ہىں۔
دونوں طرف سے مسلمان برسرِ پىكار ہوں تو عالم كفر كو كئى فوائد حاصل ہوتے ہىں۔ اىك تومسلمان اىك دوسرے كے خلاف استعمال ہو كر باہمى دشمنى پروان چڑھاتے ہىں اور ىہ دشمنى سالہا سال پر محىط ہوتى ہے۔ وہ دبى رہے تو اىك چنگارى ہوتى ہے جو ذرا سى گرمائش سے شعلہ بن كر بھڑك اٹھتى ہے۔
دوسرے ىہ كہ مسلمان ممالك باہمى تصادم كے اصل مجرموں ہى كو اپنا نجات دہندہ سمجھ كر ان كو پروٹوكول بھى دىتے ہىں اور فىصل بھى سمجھتے ہىں۔ جىسے حال ہى مىں سعودى عرب نے ٹرمپ كو دعوت دے كر، اسے ازحد عزت دے كر بہت سے سنگین سوالات پیدا کردیے ہیں۔ كىا ىہ اُن سے عزت كو متلاشى ہىں؟ كىا ىہ اعزازى شىلڈىں اور تمغے مسلم حكمرانوں سے اُٹھائے نہىں جاتے ىا ان كى گردنوں مىں پورے نہىں آتے۔ پہلے مودى سركار كو شىلڈ یں اور اب ٹرمپ كو ىہ اعزازات آخر كىوں؟ دراصل عالم كفر خو د ہی مىڈىا اور كارروائىوں كے ذرىعے دشمن كا تعىن كرتا ہے، پھر اس سے نجات دلانے كى پىشكش ہوتى ہے۔
نبى كرىمﷺنے تو ىہ معىار قائم كىا تھا كہ غىر مسلم بھى اپنے تنازع اور فىصلے آپ كى عدالت مىں لاتے تھے۔ مگراب اسى سرزمىن پر محض اپنے نامزد كردہ دشمن پر دھاك بٹھانے كے لىے اور كچھ لفظ اُگلوانے كے لىے عالم كفر كى اىسى چاكرى!!... شاىد روشن اسلامى تارىخ مىں اس كى مثال نہ مل پائے۔
ىہاں سىدنا عمر كا وہ تارىخى جملہ بڑى اہمىت كا حامل ہے۔ جب وہ شام جا رہے تھے، سىدنا ابوعبىدہ بن جراح بھى ساتھ تھے۔ كىچڑ والى زمىن آئى تو سىدنا عمر اونٹنى سے اترے، اپنے جوتے اُتارے، اپنے كندھے پر ركھے اور اونٹنى كى مہار پكڑ كر اس كىچڑ والى زمىن سے گزرنے لگے۔ سىدنا ابوعبىدہ بن جراح عرض كرتے ہىں: امىر المؤمنىن! آپ نے ىہ کیا صورت اختىار كر ركھى ہے کہ جوتے آپ كے كندھوں پر، اونٹنى كى مہار تھامے ہوئے اور كىچڑ سے گزرتے ہوئے!! مجھے تو نہىں لگتا كہ ىہاں كے باسى آپ كو عزت و وقار دىں گے۔ سىدنا عمر چونك كر بولے: اوہو! كسى اور نے ىہ بات كہى ہوتى تو مىں اسے اُمتِ محمدىہ كے لىے نشان عبرت بناتا:«إِنَّا كُنَّا أَذَلَّ قَوْمٍ فَأَعَزَّنَا اللهُ بِالإِسْلَامِ فَمَهْمَا نَطْلُبُ الْعِزَّ بِغَىْرِ مَا أَعَزَّنَا اللهُ أَذَلَّنَا اللهُ»’’بے شك ہم بے توقىر لوگ تھے پھر اللّٰہ تعالىٰ نے اسلام كے باعث ہمىں عزت سے سرفراز كىا۔ تو جب بھى ہم اس ذرىعے كو چھوڑ كر جس سے اللّٰہ نے ہمىں عزت دى كسى اور راستے سے عزت چاہىں گے تو اللّٰہ تعالىٰ ہمىں رسوا كر دے گا۔‘‘ (المستدرك للحاكم: کتاب الإیمان، رقم 207)
سىدنا عمرنے جو عزت پائى، عالم اسلام آج بھى بجا طور پر نازاں ہے لىكن اُنھوں نے اغىار كو تمغے بانٹ كر نہىں، اسلام سے وابستہ رہ كر عزت اور وقار حاصل كىا تھا۔
عالم كفر كو مسلمانوں كے باہمى تصادم سے اىك بڑا فائدہ ىہ حاصل ہوتا ہے كہ مسلمانوں كى توجہ اپنے حقىقى دشمن كے بجائے اپنے عارضى كھڑے كىے ہوئے دشمن كى طرف ہو جاتى ہے اور اگر وہ دشمن نہ بھى ہو تو انھىں دشمن بنا لىا جاتا ہے۔ جىسا كہ دشمن نے پاكستان پر وار كىا اور پاكستان سے محبت كرنے والے، پاكستان كے محافظ سرحدى لوگوں پر اىسى آتش و آہن برسائى گئى كہ وہ خود سے پاكستان كے اندرونى دشمن بن گئے، ان مىں سے كئى اىك باقاعدہ طور پر دشمن كا آلہ كار بن گئے جىسا كہ كچھ ماه قبل ہتھىار پھىنكنے والے حزب الاحرار کے كمانڈر نے چشم كشا اعترافات كىے تھے۔
مسلمانوں كى باہمى مسلح كشاكش كا عالم كفر كو اىك فائدہ ىہ بھى ہوتا ہے كہ دونوں طرف سے تعلق ركھنے والے ممالك اسلحہ كافروں سے خرىدتے ہىں اور ىہ كوئى معمولى نوعىت كے معاہدے نہىں ۔ٹرمپ کے آخری دورے میں امرىكہ اور سعودى عرب کی ڈیل کا تخمینہ بقول ٹرمپ 350 بلین ڈالرز سے زیاد ہ ہے ۔ىہ كہا جاسكتا ہے كہ ىہ اسلحہ كافر دشمن كے خلاف استعمال ہوگا۔ اللّٰہ تعالىٰ تو ہر چىز پر قادر ہے مگر اس معاہدے كے اگلے ہى روز دشمن كا تعىن بھى كر دىا گىا۔ ہمىں ىہ اعتراف ہے كہ اىران سے كبھى عالم اسلام كو خىر نہىں پہنچى ،الٹا نقصان ہى پہنچا ہےمگر اس كے لىے عالم كفر كو سر پر چڑھانے كى كىا ضرورت ہے؟
قرآن مجىد نے مسلمان گروہوں كے مابىن صلح كا جو ضابطہ مقرر فرماىا ہے كىا وہ كافى نہىں؟ حرم مىں زائرین کی خدمت کا اہتمام بہت قابل قدر ہے مگر قرآن مجىد كے اُصولوں كو تھامنا اس سے بھى زىادہ ضرورى اور اہم ہے۔ اور اس موقع پر صلح كا ضابطہ ىہ ہے:
﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخرىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفىءَ إِلىٰ أَمرِ اللَّهِ فَإِن فاءَت فَأَصلِحوا بَينَهُما بِالعَدلِ وَأَقسِطوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿
٩﴾... سورة الحجرات
’’ اگر مؤمنوں كى دو جماعتىں آپس مىں لڑ پڑىں تو ان دونوں كے درمىان صلح كراؤ تو اگر ان دونوں مىں سے اىك دوسرى جماعت پر بغاوت اور سركشى كرے تو تم اس كے خلاف برسر پىكار ہو جاؤ جو سركشى كر رہى ہے، ىہاں تك كہ وہ اللّٰہ كے حكم كى طرف لوٹ آئے۔ تو اگر وہ لوٹ آئے تو دونوں جماعتوں كے درمىان عدل سے صلح كراؤ۔ بے شك اللّٰہ عدل كرنے والوں كو محبوب ركھتاہے۔‘‘
ىہ آىت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو کفار کی مدد لینے کی بجائے تیسرے مسلمان گروہ کو ان کے مابین صلح کروانی چاہیے۔ اور تیسرے گروہ کو شریعت کے مطابق عدل پر کاربند رہتے ہوئے باغی گروہ کو اللّٰہ کے حکم پرلانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔یہ آیت باغى اور سركش گروہوں سے صلح کا حکم دے رہى ہے۔ اس نوعىت كى صلح ىا مذاكرات اسى اُسلوب مىں كامىاب ہو سكتے ہىں۔ صلح پر آمادہ كرنے كا حكم حتى كہ اس كے لىے قتال كا جواز مسلمانوں كو دىا جا رہا ہے۔ كىا آپ سمجھتے ہىں كہ امرىكہ جىسا مفاد پرست ملك اور اس كا متعصّب ترىن سربراہ مسلمانوں كا كسى صورت خىر خواہ ہوسكتا ہے؟ ىا ان كے مابىن صلح كرانے كا آرزومند!! قرآن مجىد نے تو ان ىہودو نصارىٰ سے دوستى كرنے سے روكا ہے جن كى دشمنى چھپى ہوئى تھى اور كبھى ان كے منہ سے كوئى بات نكل جاتى تھى، وہ تو اىسے چھوٹے اور گمنام دشمن تھے كہ قرآن مجىد نے ان كا نام تك ذكر نہىں كىا اور ہمىں اپنا خىرخواہ وہ نظر آرہا ہے جس نے ووٹ كى بھىك مانگنے كا جوكشكول تىار كىا تھا، وہ اُمتِ مسلمہ كے گوشت اور خون اور ان كى مقدس سرزمىن كى خاك كے آمىزے سے تىار كىا تھا۔ امرىكہ كى تارىخ مىں اىسے متعصّبانہ انداز كى انتخابى مہمىں كم ہى چلى ہىں۔ ٹرمپ كى جىت نے تو امرىكہ اور مغرب كا متعصّب چہرہ بالكل واضح كر دىا تھا۔
كىا موجودہ سعودى عرب مىں انصاركى نسل مىں سے كوئى بھى رجل رشىد باقى نہىں بچا جو كارپردازانِ حكومت كو بتائے كہ ىہ تو وہ مكار دشمن ہے جو حالتِ كفر مىں بھى ہمارے بڑوں كو باہم لڑا كر دونوں كو اُدھار اسلحہ فروخت كرتے تھے۔ اس طرح انھىں لڑا لڑا كر ختم اور بھسم بھى كرتے رہے اور قرضے پر سود لے لے كر انھىں معاشى طور پر تباہ كركے اس وقت كے ىَثرب پر اپنا مزعومہ تسلط بھى قائم كىے ركھا۔ اب مسلمانوں كو وہ كىونكر چھوڑىں گے؟
ىہ صرف سعودى عرب كا نہىں، پورى اُمتِ مسلمہ كا جرم ہے كہ وہ دىكھ رہے ہىں كہ اىران اىك عرصے سے اُمتِ مسلمہ كے جسد مىں چھرا گھونپے ہوئے ہے، كبھى پاكستان كو دھمكىاں اور فرقہ وارىت كو ہَوا، كبھى ىمن كے باغى حوثىوں كا تعاون، كبھى ىمن مىں خلفشار، كبھى شام مىں بشار الاسد كى فورسز كا پشتى بان اور شانہ بشانہ، كبھى لبنان مىں حسن نصراللّٰہ كو سپورٹ، دوسرى طرف پاكستان كے دشمن بھارت سے معاہدے اور گوادر كے مقابلے مىں چاہ بہار….. تو آخر اُمتِ مسلمہ اىران كو تمام بلادِ اسلامىہ مىں اىسى دخل اندازى بلكہ بغاوت سے كىوں نہىں روكتى ؟ سعودی عرب کا شکوہ ایران سے بجا ہے کہ وہ اپنے شیعہ انقلاب کو مسلم ممالک میں پروان چڑھانے اور ان میں دخل اندازی کرنے سے باز آجائے ۔ یہی مشرق وسطیٰ میں حالیہ اختلافات کی بنیاد ہے۔ ایران کو سعودی عرب سے ایسا شکوہ کیوں نہیں کہ سعودی عرب اس کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے؟ گویا شیعہ سنّی اختلافات میں زیادتی ایران کی طرف سے ہورہی ہے اور اس سے عالم کفر فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ایران کا یہی توسیع پسندانہ اور دخل اندازی کا رویہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی ہے۔ جیسا کہ اىران سے ىہ كىوں نہىں پوچھا جاتا كہ كل بھوشن اىران كے راستے كىوں پاكستان داخل ہوا۔ اُمت كو چاہىے كہ وہ اپنے مسائل خود حل كرے۔ حتى كہ ٹرمپ کا بھی بظاہر ىہى پىغام ہےكہ امت اپنے مسائل خود ہى حل كرےاور جو ممالك قائدانہ صلاحىت ركھتے ہىں انھىں آگے بڑھ كر كردار ادا كرنا اور دشمن كے عزائم كو خاك مىں ملانا چاہىے۔
اسى طرح عالم كفر كو مسلمانوں كے باہمى تصادم سے اىك بڑا فائدہ اپنے معاشى استحكام كى صورت مىں ملتا ہے۔ كىونكہ جب بلادِ اسلامىہ مىں خلفشار ہوتى ہے تو سرماىہ كاروں كو اپنے ممالك كى صورتِ حال غىر ىقىنى نظر آتى ہے اس لىے وہ خود بھى بلاد ِغىر كے وىزے لے كر وہاں جاتے ہىں اور سرماىہ كارى بھى وہىں كرتے ہىں حتىٰ كہ اپنے اثاثے بھى بلادِ كفر كے بىنكوں مىں ركھتے ہىں۔ىہ اىك حقىقت ہے كہ عالم عرب اگر بلاد غىر كے بىنكوں سے اثاثے واپس لے لے تو ان كى معىشت تباہ ہو جائے مگر عالم كفر مىڈىا كے سہارے بلاد اسلامىہ كى كچھ اىسى منظر كشى كرتا ہے جو حقىقت سے بعىد ہوتى ہے تاكہ وہاں كے باسى مزىد بے ىقىنى كى كىفىت مىں مبتلا ہو كر بلاد غىر كے در پر جھكىں اور اسے اپنى پناہ گاہ سمجھىں۔ كوئى انگرىزى رَٹ رہا ہو اور كوئى چىنى زبان۔
4. چوتھى حقىقت ىہ ہے كہ عالم كفر ضرورت پڑنے پر بہت كچھ كرنے كو تىار ہو جاتا ہے۔ جىسا كہ ٹرمپ نے اُمّتِ مسلمہ كى بھرپور مخالفت كركے جىت حاصل كى لىكن ضرورت كى خاطر اس نے اپنے پہلے دورے كا آغاز ہى سعودى عرب سے كىا، اگرچہ اختتام وىٹى كن پر كىا۔ جب امرىكہ كو پاكستان سے مفاد تھا تو كبھى اىڈ آرہى ہے، مىڈىا پر امریکی تذكرہ چھاىا ہوا ہے، دادو تحسىن دى جا رہى ہے۔ ان دنوں تو اىسے محسوس ہوتا تھا كہ امرىكہ اور پاكستان ىك جا ن دوقالب ہىں مگر جب مفاد وابستہ نہ رہا تو ٹرمپ نے پاكستان كى دہشت گردى كے خلاف قربانىوں كا تذكرہ تك نہ كىا۔ چلىں ہمارا دىرىنہ دوست اور مىزبان ملك ہى پاكستان كا نام لے لىتا مگر افسوس اىسا بھى نہ ہوسكا۔ بھلا اىسے اتحاد جو اپنے آغاز ہى مىں ڈولتى كشتى كى طرح عدم توازن كا شكار ہوں وہ كىا نتائج لا سكتے ہىں!! اگر سعودی عرب نے بہت سے مواقع پر پاكستان كا ساتھ دىا ہے تو پاكستان نے بھى بہت سى قربانىاں دى ہىں اور اب بھى دے رہا ہے۔
5. پانچوىں حقىقت ىہ ہے كہ عالم كفر اُبھرتے ہوئے اور ترقى كى راہ پر گامزن اسلامى ممالك كو ضرور ہدف بناتا ہےتاكہ دوسرے اسلامى ممالك بھی خبردار ہو جائىں۔ جىسے اس نے پاكستان كو ہدف بناىا اور پاكستان كا اس قدر نقصان كىا كہ كوئى دشمن بھى شاىد دشمنى كے روپ مىں اتنا نقصان نہ كرسكے جس قدر امرىكہ نے دوستى كے روپ مىں كردىا۔ اب تو ىہ نوشتہ دىوار بن چكا ہے كہ امرىكہ كى دشمنى اتنا نقصان نہىں كرتى جس قدر نقصان دہ اس كى دوستى ہے۔
مصر مىں منتخب صدر مرسى كى اسلام پسند منتخب حكومت كا تختہ اُلٹا۔ اخوانىوں كو سعودى عرب اور سعودى عرب كو اخوانىوں كا دشمن باور كراكے مصر اور سعودی عرب كے حالات كشىدہ كىے، پاكستان اور افغانستان جنھوں نے كبھى سرحد پر پہرہ اور آمد و رفت كے لىے قانونى چارہ جوئى كا سوچا بھى نہ تھا۔ اىك دوسرے ممالك مىں آنے جانے والے لوگ اىسے آتے جاتے تھے جىسے ’خالہ كے گھر‘ جاىا جاتا ہے لىكن اب ىہاں بھى كشىدگى بڑھنے لگى ہے اور فوج كو مداخلت كرنا پڑتى ہے۔ دونوں اسلامى ممالك كى سرحدوں پر تىار تازہ دم فوج اور فوج کی باقاعدہ مشغولىت ،امرىكہ كى دوستى ہى كا نتىجہ ہے۔
لىكن مقام افسوس ىہ ہے كہ ان تمام زمىنى حقائق كے باوجود اگر امرىكہ كسى اور روپ مىں آكر كسى اسلامى ملك سے كسى قسم كا تعاون چاہتا ہے تو وہ فوراً تىار ہو جاتا ہے، وہ ىہ بھى نہىں دىكھتا كہ اس كى خونخوار تارىخ كىا بتا رہى ہے؟ بلكہ وہ خود سے تجربات كركے ان كى قىمت دىنا چاہتا ہے۔
6. چھٹى حقىقت ىہ ہے كہ شىطان كى طرح عالمى طاقتىں بھى ہر اىك اسلامى ملك سے، اسى كے روپ مىں ملتى ہىں۔ وہ پہلے بلادِ اسلامىہ كى كمزورىوں كو بھانپتے ہىں، ان كے مسائل جانتے ہىں اور پھر ان سے تعاون كى آڑ مىں دخل اندازى كرتے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل كرتے ہىں۔ پھر ىہ بات بھى ہے كہ وہ بلاد اسلامىہ مىں كسى نہ كسى صورت مىں اپنے ’برىف كىس ہم نوا‘ بنا كر ركھتى ہىں۔ مثلاً اگر كسى ملك كا حكمران امرىكہ مخالف ہوگا تو وہاں كا اپوزىشن لىڈر اس كا ہم نوا ہوگا، ىہ دونوں اگر كام نہ آسكىں تو پھر فوج كا سربراہ ان كا ہم نوا ہوگا ۔اگر اىسا بھى نہ ہو سكے تو اس ملك كا بڑا روحانى پىشوا ان كا معاون ہوگا، ىعنى وہ ہر اسلامى ملك سے اىك طرح سے نہىں كھىلتے اور اىك ہى پتہ نہىں كھىلتے۔ ہر ملك كو كمزور كرنے كا طرىقہ مختلف ہے۔ كىا آپ جانتے نہىں كہ مشرقِ وسطىٰ كے ممالك كو كمزور كرنے كے لىے پچھلے سالوں مىں كىسى لہر اٹھى تھى؟ كىا وہاں كے باسىوں كو ىك دم سے خواب آىا تھا كہ ان كے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ نہىں، وہ انھى سامراجى طاقتوں كى چال تھى۔ كئى ملكوں مىں ان كى چال چل گئى اور كئى ممالك بال بال بچ گئے مگر انھىں اپنى حقىقت كا كھل كر اندازہ ہوگىا۔ وہ مصر جس مىں سىد قطب سے لے كر صدر مرسى تك بہت سى قربانىاں دے كر حكومت حاصل ہوئی تھى، اسے اىك ہى جنرل كے ہاتھوں تہس نہس كر دىا گىا۔ علاوہ ازىں حال ہى مىں تركى كے مذہبى پىشوا فتح اللّٰہ گولن كے ذرىعے وہاں كے حالات ابتر كرنے كى بھرپور كوشش كى گئى۔ خلافت سے اختلاف تو عالم كفر کی گھٹی میں پڑا ہے مگر ان كى اپنى نوزائىدہ جمہورىت كے علم بردار جب جمہورىت كے نتائج نہ دے سكىں تو وہ اس جمہورىت كو بھى پنپنے نہىں دىتے۔
7. ساتوىں حقىقت ىہ ہے كہ مسلمان جب بھى كوئى اتحاد بناتے ہىں تو اس اتحاد كے پروان چڑھنے سے پہلے ہى تمام اتحادى اپنے اپنے مفادات تلاش كرتے ہىں۔ مثلاًً مسلم ممالك كے حالىہ اتحاد كے مىزبان ملك نے ىہ اتحاد كىا اُمت كى بہترى كے لىے ترتىب دىا ہے؟ تو وہ تو كسى طور نظر نہىں آئى۔ البتہ اس اتحاد كو اپنے مفادات تك محدود ركھنے كا عندىہ ضرور ظاہر ہوا ہے۔ جب وسائل سے مالا مال اُمت كے اىك اہم ترىن ملك كا ىہ عالم ہے تو دوسروں كے رہىنِ منت ممالك كا اندازہ خود كر لىجىے۔ اىران كو اپنے مفادات عزىز ہىں اور پاكستان سعودى عرب كا ساتھ اس لىے كھل كر نہىں دىتا كہ حكمران جماعت كا ووٹ بىنك خراب ہوتا ہے۔ غرض ىہ كہ ہر اسلامى ملك اپنے اپنے دائرہ مىں محبوس ہے، جبكہ كفار اپنے ذاتى مفادات كو پىچھے ركھ كر اُمت كے خلاف ىك جان اورمسلمانوں كو نقصان پہنچانے كے اىجنڈے پر سب متفق ہىں۔قرآن مجىد نے اسى لىے كہا:
﴿ وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَرضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ ﴿٧٣﴾... سورة الانفال
’’اور كافر اىك دوسرے كے دوست ہىں۔ اگر تم نے اىسا نہ كىا تو (تمہارى) سرزمىن مىں فتنہ اور بڑا فساد بپا ہوگا۔‘‘ (الأنفال 73)
بلادِ كفار كى چالىں بلادِ اسلامىہ مىں كامىاب بھى اسى لىے ہوتى ہىں كہ انھىں ىہاں سے مفاد پرست اور خیرخواہ مل جاتے ہىں۔ اور مسلمانوں كا باہمى تعلق اس قدر كمزور ہے كہ وہ اىك دوسرے كے تحفظ اور دفاع كے لىے كام ہى نہىں آتا۔
8. آٹھوىں حقىقت ىہ ہے كہ عالم كفر نے ہر محاذ پر اسلامى ممالك كو كمزور كرنے كى كوشش كى ہے۔ اگر كسى نے كوئى تعاون بھى كىا ہے تو اپنے مفاد كے لىے، قرض دىا ہے تو سود پر اور اپنا ماتحت بنانے كے لىے، جبكہ قرض لے لے كر ترقى حقىقى ترقى نہىں ہوسكتى۔
سى پىك CPACمنصوبے كا بڑا چرچا ہے۔ اللّٰہ تعالىٰ اس كے اثرات سے قوم كو نوازے۔ وہ شر سے خىر پىدا كرنے پر قادر ہے لىكن اس كى آڑ مىں جو اخلاقى تبدىلىاں اور چىن پر اعتماد بڑھ رہا ہے، وہ بھى پاكستانى قوم كے لىے خوش آئند نہىں۔ہمىں سوے ظن نہىں لىكن ىہ منصوبہ بھى اس لىے تىزى سے جارى ہے كہ اس سے چىن كا مفاد وابستہ ہے۔ مطلب ىہ كہ پاكستان سے زىادہ چین كے لىے سود مند ہے۔ قرآن مجىد نے ﴿ لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ﴾ ’’اپنے علاوہ كسى كو بھى اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمھىں خراب كرنے مىں كمى نہىں چھوڑىں گے۔‘‘ فرما كر ہر قسم كے كفار كے عزائم كو واضح اور انہیں اىك ہى صف مىں كھڑا كر دىا ہے۔ اب ہم ان احكامات كے ہوتے ہوئے بھی اپنے پاؤں پر كلہاڑى مارىں تو ىہ سب اپنا کیا دھرا ہے۔
9. نوىں حقىقت آٹھوىں سے ملتى جلتى ہےكہ عالم كفر امت مسلمہ كے وسائل استعمال كرتا بلكہ نچوڑتا ہے۔ جن ممالك مىں وسائل موجود ہىں، ان سے اتنا فائدہ متعلقہ اسلامى ممالك نہىں اُٹھاتے جتنا فائدہ بلادِ غىر اُٹھاتے ہىں۔ پاكستان جىسى سرزمىن میں اہم ترىن وسائل كو لوٹ كر خود زىادہ فائدہ اُٹھاتے اور كمر مىں چھرا بھى گھونپتے ہىں۔ وقت كى اہم ترىن ضرورت پٹرول اور ڈىزل کو دىكھ لىجىے، سعودى عرب كى معىشت نے برى طرح كروٹ لى، ہمىں نہىں معلوم كہ كسى ملك كى معىشت كو اىسا دھچكا لگا ہو كہ وہاں كے ملازمىن كى تنخواہىں پہلے دى جانے والى تنخواہوں سے كم كركے اىك تہائى ىا نصف كر دى گئى ہوں۔ اس مىں كردار بھى امرىكہ كا ہے جس نے اىران سے خام تىل خرىد كر عالمى منڈى مىں تىل كى قىمت مىں كمى كركے سعودى عرب سے تىل لىنا چھوڑا اور وہاں كى معىشت كو كمزور كىا۔تىل اسلامى دنىا كا اور اس كا بھاؤ مقرر كرنے والا امرىكہ اس سے بڑے كمزور معاشى نظام كى دلىل كىا ہوگى۔ لىكن اسلامى ممالك پھر’اسى عطار‘ كے لونڈے سے دوا لىنے پر بضد ہىں۔
10.دسوىں حقىقت شىعہ سنّى اور فرقہ وارانہ تعصّبات ہىں۔ امرىكہ نے سعودىہ مىں آكر اىران كے خلاف بات كى ہے۔ اس سے كئى حلقوں مىں خوشى اور زىادہ حلقوں مىں سنگىنى بڑھى ہے كىونكہ عالم كفر كے پاس شىعہ سنى قضىہ اىك اىسا مسئلہ ہے جسے كم و بىش چودہ سو سال سے مختلف محاذوں پر امت كے خلاف استعمال كىا جا رہا ہے۔ اسے جب بھى ہوا دى گئى نقصان امت ہى كا ہوا ہے۔ امت كے لىے اس سے زىادہ نقصان دہ فتنہ كوئى نہىں اور دشمن كے لىے اس سے زىادہ مناسب اور خوش كن موقع كوئى نہىں۔ اس لىے دشمنان اسلام كو خوشى مہىا كرنے كے بجائے ہمىشہ دور رس نتائج كو مد نظر ركھنا چاہىے۔ اس قضىے كو دبائے ركھنے ہى مىں عافىت ہے۔ اگر اىران كى رىشہ دوانىاں سامنے ركھنى مقصود بھى ہوں تو بحىثىت ملك انھىں آشكارا كىا جائے نہ كہ بحىثىت مسلك۔
آپ نے دىكھا كہ قطر اور سعودىہ اىك دوسرے كے مدمقابل آرہے ہىں۔ اس حالىہ كارروائى كو اىران نے بلا تامل سعودىہ كى حالىہ كانفرنس كا پہلا نتىجہ قرار دىا ہے۔ اىسے لگتا ہے تھنك ٹىنك نما جونكىں اُمت كے وجود سے مسلسل چمٹى ہوئى ہىں اور جہاں سے ذرا كمزور حصہ نظر آتا ہے، وہاں سے خون چوسنا شروع كر دىتى ہىں اور امت كے وجود كو برى طرح ناتواں كر رہى ہىں۔قطر کے بارے میں یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ
بظاہر اخوت اسلامی کا دم بھرنے والے قطر میں امریکہ کا مشرق وسطی کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں سے جہادی تحریکوں اور مسلم عوام کے خلاف مسلسل بمباری ہوتی ہے، ’علما ے کرام کی سرپرستی کرنے والے‘ قطر میں اسلامی شرعی عدالتیں چندسال سے ، دیگر خلیجی ممالک کے برعکس ختم کردی گئی ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی ملکیت ماضی کے برعکس قطری شاہی خاندان اور یورپی شخصیات کے پاس ہے، اور اس کی پالیسیاں ماضی سے بالکل مختلف ہوچکی ہیں۔ ایک طرف امریکہ قطرکو دہشت گرد ریاست قرار دے رہا ہے تو دوسری طرف سعودی قطری اختلاف کے بعد امریکہ نے قطر سے جون کے وسط میں ایف 15 جنگی طیاروں کی فروخت کا 12 بلین کا معاہدہ کیا ہے۔ پھر 11جولائی کو قطر نے امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف ایک اور مالی معاہدہ کیا ہے جسے عرب ممالک نے ناکافی قرار دیا ہے۔ لندن میں ٹیکسیوں پر لگے اشتہارات میں قطر کی حمایت میں مہم چلائی گئی۔ امریکہ کے کہنے پر قطر نے طالبان کے دفاتر کھول کرانہیں معاہدوں کے لئے میز پر لانے کی کوششیں بھی کی ہیں، اس لئے قطر کی اسلامی اخوت کے ظاہری جذبات سے بھی مغالطہ نہیں کھانا چاہیئے۔
11. گىارہوىں حقىقت ىہ ہے كہ عالم كفر ہمىشہ اسلام، بلاد اسلامىہ اور مسلمانوں كے حق مىں دوہرا معىار اور متعصّبانہ روىہ ركھتا ہے۔ مثلاً كفار كے وہ دشمن، جنھىں خود كفار نے دشمن قرار دىا ہے، انھىں وہ كسى ضابطے كے بغىر فرعون كى طرح صفحۂ ہستى سے مٹا دىتے ہىں مگر پورى امت كے متفقہ مجرم، ىعنى جن كے جرم مىں امت كے كسى گروہ كو كوئى اختلاف نہىں وہ بلادِ غىر مىں دندناتے پھرتے ہىں۔ بلكہ انھىں پناہىں دى جاتى ہىں اور ىورپ فوراً اىسے لوگوں كا خرىدار بن جاتا ہے، انھىں ہاتھوں پہ اٹھاتا اور سىنے سے لگاتا ہے۔ عالمى عدالت نے كل بھوشن كى پھانسى ركوائى ہے تو ىہ بھى ان كے دوہرے معىار كى قلعى كھولتى ہے۔ اگر كسى اىك ملعونہ عىسائى خاتون كو سزا دىنے كى بات آئے تو ىورپ كىا بلاد اسلامىہ ہى سے اس كے ہم نوا اٹھ كھڑے ہوتے ہىں، جبكہ اپنے مجرموں كو سزا دلوانے كے لىے وہ ہر قانون حتىٰ كہ ملزم كو مجرم ثابت كرنے كے دلائل كى ضرورت بھى محسوس نہىں كرتے۔ باحجاب خواتىن كو یورپ مىں سرعام نشانہ بناىا جاتا ، تضحىك كى جاتى ہے، ہراساں كىا جاتا ہے مگر حقوق انسانى كے علم بردار خاموش تماشائى بنے رہتے ہىں اور مسلمانوں سے كىے ہوئے معاہدوں كو ىا عالمى معاہدوں كو وہ اسى صورت قائم ركھتے ىا استعمال مىں لاتے ہىں جب ان كے مفادات پر زد نہ پڑتى ہو مگر جب اىسا ہوتا نظر آرہا ہو تو وہى معاہدہ ردى كاغذ كا اىك ٹكڑا بن جاتا ہے۔
جہاں تك مىڈىا پر مغرب اور مشرق كے مابىن دوہرے معىار كا تعلق ہے وہ تو اس سے واضح ہوتا ہے كہ دىن سے محبت كرنے والے مسلمانوں كو اىك عرصے سے انتہا پسندى اور قدامت پسندى كا طعنہ دىا جارہا ہے مگر وہ عىسائى راہب اور راہبائىں، وہ سكھ ازم سے وابستہ لوگ جو اپنى تمام غلط سلط رسوم و رواج كو كسى صورت نہىں چھوڑتے، انھىں كوئى ىہ طعنہ نہىں دىتا۔ ٹرمپ كى بىوى سعودى عرب آكر مسلم خواتىن كا سا لباس نہىں اوڑھتى مگر وىٹى كن جا كر راہبہ كا روپ دھار لىتى ہے۔
12. بارہوىں حقىقت ىہ ہے كہ عالم كفر جب بھى كسى اسلامى ملك كو اىڈ بطورِقرضہ دىتا ہے تو وہ ان كى پارلىمنٹ مىں باقاعدہ منظورى كے بعد جا رى ہوتا ہے۔ اس پر پورى بحث ہوتى ہے اور اپنے مفادات كا بھرپور جائزہ لىا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے ملك كو امرىكہ نے تعلىم كے نام پر اىڈ دى تو كىا ىہ معاشى ترقى اور اعلىٰ اقدار كے فروغ كے لىے دى۔ نہىں، اس نے ىہ اىڈ ہمارے نصاب تعلىم مىں تبدىلىاں كرنے كى شرط پر اوردىن سے ناطہ كمزور كرنے كے صلے مىں دى۔ اب اس سال امریکی مدد کو روک لینے کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ پاکستان قبائلی حضرات کے خلاف جارحیت کرکے تناؤ کی فضا قائم کرے۔ ان چھوٹے فوائد کے لئے امت اپنے مقصدِ وجود ہى سے دور نكل جائے تو كس قدر بڑا نقصان ہے۔ اس وجہ سے ہم نئى نسل مىں اسلام بىزارى كى لہر دىكھ رہے ہىں۔ بلادِ غىر كے وزٹ اور تعلىمى دورے كروا كر نوجوان نسل سے اسلامى اقدار كھرچى جا رہى ہىں۔
عالمى حالات كا ىہ ایک مختصر ساخاكہ ہے۔ كوئى مسلم دانشور جب سوچے، كوئى صحافى رپورٹ كرے، كوئى مضمون نگار قلم اٹھائے، كوئى قانون دان قانون وضع كرے، كوئى مسلم وزىر پالىسى بنائے، كوئى پارلىمنٹ قانون كو پاس كرے اور كوئى منتظم تنقىد كرےتو خدارا عالم كفر كى ان چالوں كو سامنے ركھ لىا جائے۔ اس سے عالم كفر كى بڑى واضح اور ڈراؤنى اور متعصّبانہ شكل اور ان كى زىادتىوں اور نا انصافىوں كا تسلسل سامنے آجائے گا اور امت كے خوابِ خرگوش كے مزے لوٹنے كى داستان بھى۔ اللّٰہ تعالىٰ امت مسلمہ كو اپنا آپ پہچاننے كى توفىق نصىب فرمائے۔ آمىن!