انسداد سود كى كوششيں اور حكومت كا رويہ
انسدادِ سود کی کوششوں کی ناکامی کی المناک کہانی
10 ؍اپریل 2017 ءکے اخبارات میں وفاقی شرعی عدالت کے موجودہ چیف جسٹس جناب ریاض احمد خاں (خىال رہے اس بىان كے چند روز بعد موصوف رىٹائر ہوگئے) کے یہ ریمارکس شائع ہوئے ہىں کہ
''سود کی ممانعت کے وقت کی معیشت اور آج کی معیشت میں فرق ہے۔ اس وقت کے نظام کو آج کے وقت میں کیسے نافذ کیا جا سکتاہے؟''
موصوف نے یہ ریمارکس ملک بھرمیں سودی نظام کے خاتمے سے متعلق شرعی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ اس مقدمے کی سماعت چار رکنی بنچ نے کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ربا، سود اور انٹرسٹ تین مختلف لفظ ہیں۔ کیا یہ تینوں ہم معنی ہیں یا اُن میں فرق ہے؟ اس سوال سے موصوف کا مقصد ان تینوں الفاظ کا مفہوم و معنی ایک دوسرے سے مختلف باورکرانا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے یہ کہہ کر کہ ''موجودہ دور میں انٹرسٹ کی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ ہے۔'' اس کی طرف واضح اشارہ بھی فرمادیا۔ یہ وہ مختصر تفصیل ہے جو اس مقدمے کی بابت اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس سماعت کے بعد اس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔
یہ مقدمہ کیا ہے؟
اس سے قبل کہ ہم اس مقدمے کی ابتدائی سماعت کے وقت محترم چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس پر کچھ عرض کریں، مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم قارئین کو یہ بتلائیں کہ یہ مقدمہ ہے کیا؟
اس مقدمہ کا پس منظر اور اس کی ضروری روداد بیان کرنا ا س لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر حکومت کی وہ بدنیتی یا عدم دلچسپی واضح نہیں ہو سکتی جو پاکستانی حکومت خاتمۂ سود کے لئے اپنی آئینی اور شرعی ذمہ داری کی ادائیگی میں مسلسل پہلو تہی كى صورت مىں کرتی آرہی ہے اور اس کی یہ کوتاہی تاحال جاری ہے۔
حکومت کی یہ آئینی اور شرعی ذمہ داری کیوں ہے؟
سود کا خاتمہ، حکومت کی آئینی ذمہ داری اس لئے ہے کہ پاکستان کے تینوں آئینوں: پہلے آئین 1956ء، دوسرے ایوب خان کے آئین 1962ء ،اور تیسرے آئین 1973ء میں اس بات کی ضمانت اور اس بات کا عزم ظاہر کیا گیاتھا کہ حکومت پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گی، حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے، ربا کو ختم کرے گی۔
شرعی ذمہ داری اس لئے ہے کہ قرآن کریم میں سودی نظام پر اصرار اور تسلسل کو اللّٰہ و رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا گیاہے۔ بنا بریں کسی بھی مسلمان حکمران کے لئے انسداد سود کی کوششوں سے بے اعتنائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔
غفلت اور بے اعتنائی کی المناک روداد
1962ء کے آئین کی رو سے قومی سطح پر ،اسلامی نظریاتی کونسل، کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا جس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مستند علمائے کرام کو نمائندگی دی گئی۔ اس ادارے کے منصبی فرائض میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ ایسی تجاویز مرتب کرے گا جن پر عمل کرکے پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جا سکے۔ چنانچہ 3 ؍دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی جس میں اتفاقِ رائے سے اس امر کا اظہار کیا گیا کہ
''ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے،وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔ سیونگ سرٹیفکیٹس میں جو اضافہ دیا جاتا ہے، وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام ہیں اور ممنوع ہیں۔''
نظریاتی کونسل کی یہ سفارشات سودی نظام کے خاتمے کے لئے نہایت جامع تھیں اور ایک آئینی ادارہ ہونے کے اعتبار سے یہ ضروری تھا کہ ان سفارشات کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا اور اس کے مطابق انسدادِ سود کے لئے مناسب قانون سازی کی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
کونسل کی مرتب کردہ اس رپورٹ کے 8 سال بعد 1977ء میں صدر جنرل ضیاء الحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جا سکے۔حالانکہ اُصولی طور پر یہ کام پارلیمنٹ کا تھا، کونسل نے تو نہایت جامع انداز سے ایک رپورٹ مرتب کرکے ساری صورت حال واضح کردی تھی۔ بہر حال کونسل نے مزید اتمام حجت کے لئے بنک کے ماہرین، اقتصادیات کے ماہرین اور علماے کرام سے طویل گفتگو اور بحث و مباحثہ کے بعد 25 جون 1980ء کو اپنی رپورٹ صدر ضیاء الحق کے سامنے پیش کردی۔ اس رپور ٹ میں سود کو ختم کرکے اس کے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات درج تھیں اور کہا گیا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دو سال کے اند ر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہوسکتی ہے لیکن حکومت اور اس پر مسلط کردہ بیوروکریسی نے صدق دلانہ طور پر کونسل کے بتلائے ہوئے طریقہ کار کو تو اختیار نہیں کیا، البتہ اپنے اپنے طور پر کچھ ایسے نیم دلانہ اقدامات کئے جس سے یہ تاثر یایہ مغالطہ دیا جا سکے کہ حکومت نے اس کام کا آغاز کردیا۔ اوریہ اقدامات وہی تھے جو بنکوں میں غیر سودی کھاتوں کے نام سے بھی ایک ایک شعبہ کھول دیاگیا ۔اوّل تو یہ سودی کھاتوں کے ساتھ ساتھ ایک غیر سودی کھاتے کا نظام بھی، سودی نظام کے خاتمے کے لئے متبادل نظام نہیں تھا۔ دوسرے غیر سودی کھاتے میں نئی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں، مثلاً مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ اور بیع مؤجل وغیرہ۔ یہ اصطلاحات بظاہر شرعی اور فقہی تھیں جس سے یہ تاثر دیا گیاکہ سودی صورتوں کے مقابلے میں غیر سودی طریقے اختیار کرلئے گئے ہیں۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس تھی، یہ صرف ناموں یا اصطلاحات کا ہیر پھیر تھا اور ان کھاتوں کے اندر بھی سودی روح ہی کارفرما تھی۔ چنانچہ نظریاتی کونسل،جس نے بڑی محنت سے سود سے بچاؤ کے طریقے تجویز کرکے حکومت کو دیئے تھے، صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہ بقول فیض؎
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
ایک نئی رپورٹ تیار کی جس میں اپنی رپورٹ کی پامالی اور ناقدری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا گیا:
''کونسل نے 1980-1981 ءمیں کئے جانے والے ان اقدامات کا جائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیئے ہیں۔ ان میں خاتمۂ سود کے لئے کیے جانے والے اقدامات ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کیں۔حکومت نے وہ طریق کار اختیار کیاجو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔''
اس وقت کے بعض ممبران کونسل نے راقم کو بتایا کہ جب صدر ضیاء الحق کے سامنے بعض حضرات نے شکوہ کیا تو موصوف نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ بینکاروں اور سودی خاتمے کی رپورٹ تیار کرنے والوں کی باہم ملاقات کروائیں تاکہ باہم تبادلہ خیالات سے کوئی بہتر صورت نکل سکے لیکن مرحوم صدر کی طرف سے اس تجویز پر عمل درآمد کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی۔ اور سودی نظام اپنی جدید اور قدیم صورتوں کے ساتھ جاری وساری رہا۔ اور کونسل کی ساری محنت بھی رائیگاں ہی گئی ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
عدالت کے ذریعے سے دوسری کوشش اور حکومت کی وہی ، نہ مانوں، کی پالیسی
1990ء میں جناب محمود الرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست دی کہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار د ے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اورحکومت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔ عدالت نے اس کیس اور اس سے ملتے جلتے 114 دیگر کیسوں کی مشترکہ سماعت کی۔ اس مقدمے میں شرعی عدالت نے بینکاروں، ماہرین اقتصادیات، حکومتی نمائندوں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور موضوع سے متعلقہ تمام اہم مباحث کو زیر غور لایا گیا اور تحریری اور زبانی بیانات حاصل کئے اور اکتوبر 1991ء میں 157 صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ فیصلہ کرنے والے اس بنچ میں جسٹس تنزیل الرحمن بطورِ چیف جسٹس، جسٹس فدا محمد خان اور جسٹس عبیداللّٰہ خاں شامل تھے۔
شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کی ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بناکر مروّجہ نظام معیشت میں پائے جانے والے سودی معاملات اور آئین اور دستو رمیں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیاجا سکتا تھا بلکہ رائج تمام سودی قوانین (22قوانین) کا جائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا اور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ 30 ؍جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیں اوریہ بھی کہا کہ یکم جولائی 1992ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گے اور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائے گا۔
یہ تاریخ ساز فیصلہ دستور اور آئین کے تقاضوں کے مطابق بھی تھا اور عوام کی خواہشات کے مطابق بھی۔ اس لئے اس فیصلے کو ہر سطح پر سراہا گیا اور عوام کی اُمنگوں کا مظہر قرار دیاگیا۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ حکومت جو اندرونی اور بیرونی قرضوں میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی آرزو اور خواہش بھی نہیں رکھتی، علاوہ ازیں اس ظالمانہ نظام سے اس کے اور اس کے حوالی موالیوں کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہیں، اس کے لئے یہ فیصلہ قطعاً ناقابل قبول تھا اور اُس نے حیلۂ پرویزی کے ذریعے سے اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔چنانچہ 30؍ جون 1992ء کے آنے سے پہلے پہلے مالیاتی اداروں، بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ کے شریعت اپىلیٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردیں۔ یہ اپیلیں شرعی عدالت کے فیصلے کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ بن گئیں۔ چنانچہ حکومت اپنی اس کوشش میں کامیاب رہی اور سات سال تک یہ اپیلیں شریعت اىپلیٹ بنچ کے سرد خانے میں پڑی رہیں۔ بالآخر 1999ء کے اوائل میں سپریم کورٹ میں ایک شریعت اپىلیٹ بنچ تشکیل دیاگیا۔ اس بنچ نے کئی ماہ تک مسلسل ان اپیلوں کی سماعت کی۔
اس پانچ رکنی بنچ میں جسٹس خلیل الرحمن خاں (بطور چیئر مین)، جسٹس وجیہ الدین ، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس مفتی مولانا تقی عثمانی اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی شامل تھے۔معزز عدالت نے سماعت کے دوران مقدمے میں زیر بحث آنے والے اہم فقہی مباحث، معاشی، معاشرتی، قانونی اور آئینی معاملات (ایشوز) پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے فریقین کے وکلا حضرات کے علاوہ ماہرین علم و فن سے بھی اپیل کی کہ وہ زیر بحث مسئلے کے حوالے سے عدالت کی معاونت کریں۔ اس سلسلے میں بنچ نے دس سوالات بھی مرتب کرکے مختلف علماء کو بھیجے، راقم نے بھی ان سوالات کا جواب لکھ کر عدالتِ عظمیٰ کو ارسال کیا تھا، راقم کے یہ جوابات ایک مستقل مضمون کے طور پر 'محدث' کے سود نمبر (مجریہ ستمبر 1999ء) میں شائع ہوچکے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے مولانا گوہر رحمن نے بھی ان سوالات کے جواب تحریر فرمائے تھے۔ یہ دس سوال نہایت اہمیت کے حامل تھے جس سے مسئلہ زیر بحث کے اہم گوشے واضح ہوجاتے ہیں اور صحیح رہنمائی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا کے متعدد نامور محققین اور قانون دان حضرات نے فاضل عدالت کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنی آرا اور تجاویز سے تحریری طور پر اور زبانی بھی مستفید کیا اور جدید و قدیم معاشی کتب و جرائد کے علمی ذ خیرے سے اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے روبرو پیش کیں۔
اس سارے مواد کی چھان پھٹک اور علما و وکلا کی بحثوں کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے مذکورہ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون 2001ء تک تمام غیر اسلامی قوانین کو نئے قوانین سے بدل کربینکنگ اور دیگر معاشی معاملات کو سود سے پاک کردے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد ، جو اکتوبر 1991ء میں منظرعام پر آیا تھا، یہ دوسرا نہایت اہم فیصلہ تھا جو آٹھ سال کے بعد سامنے آیا۔ دونوں موقعوں پر علما اور صحیح الفکر وکلاکی طرف سے بھرپور دلائل پیش کئے گئے اور فاضل عدالت کی طرف سے کئے گئے سوالات کے مدلل جوابات دیئے گئے جن سے مزید بہت سے پہلو منقح اور واضح ہوئے اور پہلے مقدمے کی طرح اس دوسرے مقدمے میں بھی فاضل عدالت کے لئے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہا کہ وہ سود کی ممانعت کا قطعی فیصلہ صادر کردے۔
حکومت کی بدنیتی اور گریزپائی
لیکن بدنیتی اور گریز پائی کا تو کسی کے پا س بھی علاج نہیں ہے اور جب ایک فریق یہ تہیہ ہی کرلے کہ اس نے کسی صورت بھی موجودہ ظالمانہ نظام کو بدلنا نہیں ہے تو عدالتی فیصلے اس کے لئے کیاحیثیت رکھتے ہیں جبکہ یہ فریق ہمہ مقتدر بھی ہو۔چنانچہ اس دوسرے نہایت اہم فیصلے کے بعد اس کو بھی Torpedo کرنے کی سازش تیار کرلی گئی۔ اور جون 2001ء آنے سے پہلے پہلے حکومت نے ایک درخواست شریعت بنچ کے سامنے دائر کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ سودی نظام کو ختم کرنے کے لئے مزید دوسال کی مہلت دی جائے۔ عدالت نے اس درخواست کی بنیاد پر حکومت کو ایک سال کی مزید مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ جون 2002 تک مطلوبہ آئینی وانتظامی اقدامات مکمل کرلے۔
اگر حکومت انسداد سود کے لئے عملی اقدامات کرنے کی خواہش مند ہوتی تو یقیناً وہ اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عملی اقدامات بروئے کار لانے کا اہتمام کرتی لیکن اُس نے اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا بلکہ جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کے قریب آئی تو ایک نجی بینک UBLکی جانب سے نظر ثانی کی ایک درخواست عدالتِ عظمیٰ میں پیش کردی گئی۔
انھی ایام میں یہ المیہ بھی ہوا یا عمداً ایسا کیا گیا کہ شریعت اپىلیٹ بنچ کے جن ارکان نے فیصلہ دیا تھا، ان میں سے چار جج فارغ کردیئے گئے اور صرف ایک جج جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے تھے۔ اب نظر ثانی کی اپیل کی سماعت جس بنچ نے کرنی تھی، وہ حسب ذیل ارکان پر مشتمل تھی:
جسٹس شیخ ریاض احمد (چیئر مین ) جسٹس وقاص محمد فاروق
جسٹس ڈاکٹر خالد محمود اور جسٹس رشید احمد جالندھری
آخر الذکر دو فاضل جج، جو علما کی نشست پر براجمان کئے گئے، ان کا اسلامی کردار ہر دو رمیں محل نظر ہی رہا ہے، جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں، تاہم واقفِ حال حضرات سے مخفی نہیں۔ بہر حال اس بنچ نے مقدمے کی ازسر نو سماعت کی اور وہ تمام مباحث جن پر پہلے تفصیلی بحث ہوچکی تھی اور وہ گویا طے شدہ تھے، دوبارہ زیر غور لائے گئے اوربینک کے وکلا اور سرکاری وکلا کو خلط مبحث کا پورا موقع دیا گیا تاکہ بحث کا وہ رخ، جو اس سے پہلے دو مقدموں میں وا ضح طور پر متعین ہوچکا تھا، اس کو غلط رخ پر موڑا جا سکے اور ڈور کے سلجھے ہوئے سرے کو اُلجھادیا جائے کہ اس کا سرا ہاتھ ہی نہ آئے، یا صحیح رخ پر جاتی گاڑی کی پٹڑی بدل دی جائے تاکہ وہ پٹڑی سے ہی اُتر جائے یا اپنی اصل منزل مقصود پر نہ پہنچ پائے۔
اگرچہ صحیح الفکر علما اور وکلانے بھی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے، انہو ں نے بالخصوص حسب ذیل اُمور پر زور دیا:
٭... موجودہ بنچ کی تشکیل آئین کے ضوابط کے مطابق نہیں۔
٭... نظر ثانی کے معاملے میں عدالت کے اختیار بہت محدود ہوتے ہیں۔
٭... جن قوانین، ضوابط اور حقائق کا جائزہ ، فیصلہ دینے والی عدالتِ عظمیٰ تفصیل سے لے چکی ہو، اُنہیں نظرثانی کی آڑ میں دوبارہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔
٭... مذکورہ فیصلہ کے مخالف وکلا نے جن اُمور کو نظر ثانی کی بنیاد بنایا ہے، ان سب پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور تمام بحث کے بعد ہی سابقہ فیصلے صادر کئے گئے تھے۔
٭... یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جزوی عمل ہوچکا ہے، اب قانون اس پر نظر ثانی کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ پانچ نکتے جو اسلامی ذہن رکھنے والے وکلانے اُٹھائے، نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ اگر نظر ثانی کی یہ اپیل ایک سازش نہ ہوتی اور بنچ کی تشکیل میں بھی خفیہ مقاصد کارفرما نہ ہوتے تو ان نکتوں کی بنیاد پر نئی بحثوں کو کالعدم قرار دے کر اور سابقہ دو فیصلوں کے طے شدہ امور کو تسلیم کرکے بجا طور پر نظر ثانی کی اپیل کو نامنظور اور سابقہ فیصلوں کی بحالی کا فیصلہ کیا جا سکتاتھا لیکن یہ سارا ڈرامہ رچایا ہی اس لئے گیا تھاکہ حکومت سود کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی نہیں چاہتی۔ چاہے فوجی حکومت ہو یا سویلین حکومت، دونوں ہی قسم کے حکمران اَغیار کے کسے ہوئے شکنجے سے نکلنے کا کوئی عزم ہی نہیں رکھتے۔1991ء میں جب پہلا فیصلہ آیا تھا، نواز شریف وزارتِ عظمیٰ پر براجمان تھے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ تعطل کا شکار رہا، یہ دور بے نظیر کی وزارتِ عظمیٰ کا تھا۔ 1999ء میں جب دوسرا فیصلہ آیا تو پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے!
بہر حال چند دن کی سماعت کے بعد نظر ثانی کے لئے تشکیل کردہ بنچ نے انتہائی عجلت میں 24 جون 2002ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپىلیٹ بنچ کا فیصلہ منسوخ کردیا اور مقدمے کو از سر نو سماعت کے لئے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیئے۔ اس طرح اس عدالت نے طویل کوششوں اور جاں گسل محنتوں پر پانی پھیر دیا اور انسدادِ سود کا یہ دوسرا فیصلہ بھی کالعدم قرار پا گیا۔
شرعی عدالت کا سرد خانہ
اب تیسری مرتبہ یہ کیس پھر شرعی عدالت کے سپرد ہوگیا۔ پہلا فیصلہ جو 1991ء میں شرعی عدالت کی طرف سے آیا تھا، جسے تسلیم نہیں کیا گیا، وہ 1999ء تک سپریم کورٹ کے سرد خانہ میں پڑا رہا، جب اس کی طرف سے دوسری مرتبہ فیصلہ آیا جس مىں پہلے فیصلے ہی کی توثیق کی گئی تھی، اسے بھی نظر ثانی کے نام پر سبوتاژ کردیا گیا اور اسے پھر شرعی عدالت میں بھیج دیاگیا۔ اس کیس کو پھر سردخانے کی نذر کردیا گیا۔ بالآخر بعض حضرات کی کوششوں سے 22؍ اکتوبر 2013ء سے اس مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا گیا۔
پہلی سماعت کے بعد دوسری سماعت پر شرعی عدالت نے بتایاکہ ایک سوال نامہ تمام درخواست گزاروں، ماہرین قانون، علما اور ماہرین اقتصادیات کو ارسال کیا جائے گا جس کی روشنی میں ڈیمانڈ کردہ اس کیس پر بحث کی جائے گی۔ چنانچہ 14 سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ شرعی عدالت کی طرف سے بذریعہ مراسلہ و اخباری اطلاعات بھیجا گیا اور کہا گیاکہ اس کا جواب تیار کرکے 5 نومبر تک شرعی عدالت کے رجسٹرار کو ارسال کیا جائے۔
یہ 14 سوالات بحث کو اُلجھانے ہی کا ایک حربہ تھا کیونکہ اس قسم کا ایک سوال نامہ جو دس سوالوں پر مشتمل تھا، سپریم کورٹ نے بھی مختلف علما کو ارسال کیا تھا جس کا نہایت معقول اور مدلل جواب علما نے دیا تھا۔ اس کے بعد اس قسم کے سوالات کی قطعا ًضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان سوالات اور جوابات سے بحث کے نہایت اہم گوشے واضح ہوچکے تھے اورسپریم کورٹ کے شریعت اپىلیٹ بنچ نے ان کی روشنی ہی میں اپنا فیصلہ صادر کیا تھا۔بہر حال ان 14 سوالات کے جوابات بھی وفاقی شرعی عدالت کو بہت سے اہل علم نے ارسال کردیئے تھے لیکن اس کے باوجود شرعی عدالت میں یہ مقدمہ زیر بحث نہیں آسکا۔ اس دوران ایک دو مرتبہ بعض حضرات کی طرف سے کوششیں بھی کی گئیں لیکن ان میں کامیابی نہیں ہوئی۔
چوتھی مرتبہ شرعی عدالت میں اَور ہوا کا رخ
اب اپریل 2017ء میں چوتھی مرتبہ وفاقی شرعی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی اور پہلی سماعت کے بعد بحث غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔معلوم نہیں اب اس کا دوبارہ آغاز کب ہوگا اور کس طرح ہوگا؟ ہوا کا رخ تو کسی خطرناک طوفان کی نشاندہی کر رہا ہے اور چیف جسٹس صاحب کے تیور اور سوالات کا انداز بھی اس کی غمازی کر رہاہے۔ اللّٰہ خیر کرے!
اخباری رپورٹ میں چیف جسٹس صاحب کے جو ریمارکس شائع ہوئے ہیں، وہ کسی طرح بھی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ ان میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت کی معیشت آج سے مختلف تھی، آج اس کو کیسے نافذ کیا جا سکتاہے؟
یہ بات تو وہ لوگ کہتے ہیں جو آج کے دور میں اسلام کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ آج کا معاشرہ اور حالات اسلام کے ابتدائی بدوی معاشرے سے مختلف ہیں۔ اسلام کی تعلیمات آج کے معاشرے میں نافذ نہیں ہو سکتیں۔ کیا فاضل چیف صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں؟ ان کے بیان سے تو ان کا یہی موقف واضح ہو رہا ہے۔ اور یہ موقف اتنا کمزور، پھس پھسا اور بے بنیاد ہے جس سے پاکستان کا مقصدِ وجود ہی محل نظرقرار پاتا ہے اور آئین پاکستان میں جن دفعات میں قرآن و سنت کے نفاذ اور حکومت کو ان كے نفاذ کا پابند بنایاگیا ہے، وہ بھی بے مقصد اور محض نمائشی قرار پاتی ہیں۔ کیا یہ تاثر صحیح ہوگا؟ اگر یہ صحیح ہے تو پھر شرعی عدالت کے قیام کا بھی کیاجواز ہے؟
دوسری بات فاضل موصوف نے یہ فرمائی کہ ربو ٰ ، سود اور انٹرسٹ کی تعریف ہی متعین نہیں ہے، اس لئے پہلے ان کا معنی و مفہوم متعین ہونا چاہئے۔ حالانکہ پہلے دو فیصلوں میں ان الفاظ کے معنی و مفہوم اور مصداق پر مفصل بحثیں ہوچکی ہیں جن میں یہ طے پا چکا ہے کہ ان سب کا مصداق ایک ہی ہے اور وہ ربو ٰ کی وہ صورت ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حرام قرار دیا ہے۔
ربوٰ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا ترجمہ؍ متبادل لفظ فارسی میں سود ہے اور اُردو زبان میں بھی یہی لفظ ربوٰکے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 'انٹرسٹ' انگریزی زبان کا لفظ ہے جو ربوٰکے ہم معنی ہی ہے۔ ایک لفظ کے مختلف زبانوں کے اعتبار سے الگ الگ ناموں كا ایک دوسرے سے معنی و مفہوم مىں مختلف ہونا ضرورى نہیں۔ عموماً سب زبانوں مىں مستعمل الفاظ کا مفہوم و مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ ریمارکس خلط مبحث یا اصل بحث سے گریز کی ایسی صورت ہے جو فاضل عدالت کے فاضل جج سے متوقع نہیں ۔ علاوہ ازیں پھر موصوف نے انٹرسٹ کا مفہوم بھی خود بیان فرما کر سود کے جواز کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ انٹرسٹ کا مطلب موجودہ دور میں سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھا جاتا ہے۔اگر فاضل موصوف کی اس بات کو درست سمجھ لیا جائے تو سود کے جواز اور عدم جواز کی بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اور اگر موصوف اپنے اس موقف پر ہی قائم رہتے ہیں جو کہ یکسر غلط اور بے بنیاد ہے تو پھر اس بنچ کی طرف سے جو فیصلہ آسکتا ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔
پس چہ باید کرد؟
اس صورت حال میں اہل دین کی کیا ذمہ داری ہے جو ملک کو سود جیسی لعنت سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کوشاں بھی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے قانونی و آئینی ماہرین سے مشاورت کرکے شرعی عدالت کے موجودہ بنچ کے بارے میں غور ہونا چاہئے کہ یہ بنچ آئینی ضابطے کے مطابق ہے؟ اگر ىہ بنچ ہى آئىنى تقاضوں كے مطابق نہیں ہے تو اس بنچ کو اس مقدمے کی سماعت کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ چہ جائیکہ اس کے فیصلے کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔
شرعی عدالت کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے؟
یہ مسئلہ اس لئے نہایت قابل غور اور بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ شرعی عدالت کے ابتدائی سالوں میں حد رجم کا مسئلہ زیر بحث رہا تھا او ر اس وقت جسٹس آفتاب حسین شرعی عدالت کے سربراہ تھے، اس وقت عدالت کے سربراہ کو چیف جسٹس نہیں بلکہ چیئر مین کہا جا تاتھا۔ گویا جسٹس آفتاب حسین کی چیئر مینی میں مسئلہ حد رجم پر بحث ہوئی۔ یہ صاحب بھی منحرف ذہن کے حامل تھے، اس لئے عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ اسلام میں رجم کی کوئی حد نہیں۔
ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ متواتر احادیث اور اجماعِ اُمت کے یکسر خلاف تھا۔ اس لئے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا گیا جس سے مجبور ہوکر صدر ضیاء الحق نے شرعی عدالت کے آئین میں یہ ترمیم کردی کہ عدالت میں دیگر ججوں کے ساتھ تین علما بھی شرعی عدالت میں بطورِ جج لازمی ہوں گے اور اس کے مطابق تین علما کو جج نامزدبھی کیا گیا۔ ان میں ایک غالباً شفاعت حسین قادری تھے، دوسرے پیر کرم شاہ ازہری اور تیسرے ڈاکٹر فدا محمد خان۔ بعد میں مولانا تقی عثمانی صاحب بھی اس کے جج رہے۔ اس نئے بنچ کی تشکیل کے بعد مسئلہ حد رجم پر دوبارہ بحث ہوئی جس میں راقم نے بھی اپنا بیان دیا تھا، اور پھر فاضل عدالت نے نیافیصلہ دیا جس میں رجم کو حد شرعی تسلیم کیا گیا۔
اس تفصیل سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سب سے پہلے شرعی عدالت کے اس بنچ کی آئینی حیثیت پر غور کیاجائے جو اس مقدمے کی سماعت کے لئے بنا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوبارہ حد رجم جیسا غیر شرعی فیصلہ سامنے آجائے۔اگر بنچ میں تین علما بطور جج شامل ہوں گے جیسا کہ آئینی تقاضا ہے تو اُمید ہے کہ بحث کا رخ صحیح ہوگا اور شریعت کے واضح احکام سے انحراف کا امکان بہت کم ہوجائے گا۔
فاضل عدالت سے گزارش
دوسری گزارش ہم فاضل عدالت کے فاضل ممبران سے کریں گے کہ اس مقدمے کا دو مرتبہ ایسا فیصلہ ہوچکا ہے جو قرآن و حدیث کے واضح دلائل پر مبنی ہے اور پورے ملک میں اس کو سراہا گیا ہے۔ اب اگر شوقِ اجتہاد میں اس سے انحراف کیاگیاتو ایک تو یہ قرآن کی بیان کردہ تمثیل کی روشنی میں اس عورت کے کردار کی طرح ہوگا جو سوت کاتنے کے بعد خود ہی اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے کردار سے منع فرمایا ہے:
﴿وَلا تَكونوا كَالَّتى نَقَضَت غَزلَها مِن بَعدِ قُوَّةٍ أَنكـٰثًا ...﴿
٩٢﴾... سورة النحل
''اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے کے بعد ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا۔''
اللّٰہ تعالیٰ نے موجودہ بنچ کو ایک نہایت اہم موقع عطا فرمایاہے۔ وہ اس سے فائدہ اُٹھا کر سابقہ فیصلوں کی توثیق کرکے ایک بہت بڑی سعادت اور عظیم سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا اور جسٹس آفتاب حسین جیسا فیصلہ صادر ہوا تو اہل پاکستان کے لئے وہ اسی طرح ناقابل قبول ہوگا جیسے فاضل عدالت کے حد رجم کی بابت غیر اسلامی فیصلے کو ردّ کر دیا گیا تھا۔ہماری خواہش اور دعاہے کہ فاضل عدالت کی طرف سے مذکورہ فیصلے کا اعادہ نہ ہو بلکہ اسلامیانِ پاکستان کے جذبات کا اسی طرح آئینہ دار ہو جیسے سابقہ دونوں فیصلے تھے۔
اللهم وفقنا وإیاهم لما تحب وترضٰی... آمین !
(حافظ صلاح الدین یوسف)
مشیر وفاقى شرعی عدالت، پاکستان