جاوید احمد غامدی كے متضاد خیالات اور ’جماعتِ احمدیہ لاہور‘!

گذشتہ دنوں راقم کا ایک مضمون ’ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ؛ دستورِ پاکستان اور قادیانیت ‘پاکستان کے متعدد رسائل[1] میں شائع ہوا تھا جس میں ملک کے ممتاز دانشور جاوید احمد غامدی کے مضمون ’اسلامی ریاست؛ ایک جوابی بیانیہ‘کے چند نکات پر گفتگو[2] کی گئی ۔ مضمون میں غامدی صاحب کے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر4 پر تفصیلی بحث کی گئی تھی اور اُن سے عرض کیا گیا تھا کہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے واضح طور پر اعلان کریں کہ 7ستمبر1947ء کی آئینی ترمیم کے تحت احمدیوں کو جو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، یہ قرآن وسنت کے مطابق ہے ۔ لیکن راقم کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تاحال غامدی صاحب کی طرف سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ دراصل اس مضمون نے غامدی صاحب کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔ جماعت ِ احمدیہ لاہور کو بھی اپنے عقائد کے سبب ایک ایسے ہی مخمصے کا سامنا ہے۔
1.  جاوید احمد غامدی اور جماعت ِ احمدیہ لاہور کے مخمصوں پر گفتگو کرنے سے قبل سابقہ مضمون کے بعض اہم مباحث کو قارئین کے سامنے تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ جنوری 2015ء کا یہ مضمون ملک میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش کی عکاسی کرتا ہےجس کے دوررس نتائج ہوں گے۔ مضمون کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب یا دین نہیں ہوتا۔‘‘ ماضی میں بھی اس موضوع پر بحث ہوتی رہی ہے جس میں ’جوابی بیانیے‘ کے مصنف کا نقطۂ نظر وہی رہاہے جو پاکستان کے راسخ العقیدہ اسلامی مفکرین کا ہے۔ چنانچہ ماہنامہ ’اشراق ‘میں غامدی صاحب سابق صدر ضیاء الحق کی وفات کے تناظر میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’صدر جنرل محمد ضیاء الحق بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش سانحہ ہے۔ نفاذِ دین کے لیے جو حکمتِ عملی انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اختیار کیے رکھی، مجھے اگرچہ اس سے سخت اختلاف تھا لیکن ابھی پچھلے ماہ میں نے جب ’شریعت آرڈیننس‘کے نفاذ کے بعد ان کی حکمت عملی پر تنقید لکھی تو اس میں یہ بھی لکھا: ’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ بہرحال اس ملک کی تاریخ میں پہلے سربراہِ مملکت ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کو بغیر کسی معذرت کے پورے اعتماد کے ساتھ ظاہر کیا۔ اسے برملا اس مملکت کی اساس قرار دیا۔ اس کے بارے میں صاف صاف کہا کہ وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے۔ اپنی سربراہی کے پہلے دن سے اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوئے۔ علمااور اہلِ دین کے ساتھ بہت عقیدت مندانہ رویہ اختیار کیا۔ ہر قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر، جہاں انہیں موقع ملا، وہ قرآن کی آیات پڑھتے اور اسلام پر اپنے غیرمتزلزل یقین کا اظہار کرتے نظر آئے، اور اس ملک میں جہاں اکثر اربابِ سیاست اب بھی اس حماقت میں مبتلا ہیں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، وہ ہر جگہ اور ہر موقع پر اس تصور کی بیخ کنی کرتے رہے۔صدر صاحب کی وفات کے بعد اب اس ملک کے درو دیوار ان حقائق کا اعتراف کررہے ہیں۔‘‘[3]
خط کشیدہ جملوں میں موصوف نے صدر ضیاء الحق کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے صدر ضیاء الحق کے نقطۂ نظر سے کسی اختلاف کا اظہار نہیں کیا بلکہ کہا کہ ایسا نہ کرنے والوں کو کہا کہ وہ حماقت میں مبتلا ہیں۔ اب ’جوابی بیانیے‘میں موصوف کا یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی دین نہیں ہوتا، یہ ان کے نقطۂ نظر میں ایک بڑی تبدیلی بلکہ یوٹرن (U-turn) ہے جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے:
جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے                                            سو وہ صاف دل سے بھلادیا
2.  جناب جاوید احمد غامدی ’جوابی بیانیے‘میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔‘‘
’’خلافت دینی اصطلاح ہے یا نہیں؟‘‘اس سلسلے میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے جلیل القدر استاذ امام امین احسن اصلاحی اور اُن (غامدی صاحب) کے استاذ الاستاذ امام حمید الدین فراہی کی تحریریں پیش کرتے ہیں۔ ان علما کا انتخاب ہم نے اس لیے کیا کہ خود غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’حالی غالب کے شاگرد تھے۔ ان کے مرثیے کا اختتام اُنہوں نے جن شعروں پر کیا ہے ، انہیں لوگوں نے اُس زمانے میں حالی کے حسنِ عقیدت پر محمول کیا ہوگا۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ غالب وہی تھا جسے حالی کی آنکھوں نے دیکھا۔ میں نے بھی بہت سے عالم دیکھے، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا ہے، لیکن امین احسن اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ    ؏
غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت                                 خاک کو آسماں سے کیا نسبت‘‘[4]
مولانا امین احسن اصلاحی سورہ آل عمران کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿وَلتَكُن مِنكُم أُمَّةٌ يَدعونَ إِلَى الخَيرِ وَيَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿١٠٤﴾ وَلا تَكونوا كَالَّذينَ تَفَرَّقوا وَاختَلَفوا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ البَيِّنـٰتُ وَأُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٥﴾... سورة آل عمران
’’ اور چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے ،معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو پراگندہ ہوگئے اور جنہوں نے اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح ہدایات آچکی تھیں اور وہی ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
’خلافت‘کے قیام کا بنیادی مقصد
’’یہ ا ُمّت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل الله پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات ومنکرات ہیں اور ان کے لیے امرونہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے، بلکہ اختیار اور قوت سے اس کو نافذ کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار و اختیار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ کے الفاظ کافی تھے وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ (الآیہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس اُمّت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوت کا قیام تھا۔‘‘ [5]
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی ایک اور تالیف میں لکھتے ہیں:
’’ریاست کا اسلامی تصور اس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اُصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ریاست، سلطنت یا حکومت کی اصطلاحیں نہیں اختیارکی ہیں بلکہ خلافت یا امارت یا امامت کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔‘‘[6]
غامدی صاحب اگر اس کتاب کے شروع کے صرف پندرہ صفحات ہی پڑھ لیں تو وہ ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوں گے اور خلافت کے دینی اصطلاح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔
3.  مولانا حمیدالدین فراہی نے سورۂ والعصر کی تفسیر میں ایک عنوان قائم کیا ہے:
’’لفظ وَتَوَاصَوا سے خلافت کا وجوب‘‘: اس سورة کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا نے سورۂ آل عمران کی حسب ذیل آیت کا حوالہ دیا ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ...﴿١١٠﴾... سورة آل عمران
’’…تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے اٹھائے گئے ہو۔ تم نیکی کا حکم دو گے، برائی سے روکو گے، اللّٰہ پر ایمان لاؤ گے۔‘‘     (آل عمران :110)
[مولانا لکھتے ہیں:] اس آیت سے معلوم ہوا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اس اُمّت کے اہم فرائض میں سے ہے، چنانچہ اس کے متعلق دوسری آیات بھی وارد ہیں۔ لیکن یہ امر واضح ہے کہ اس کی اصلی ذمہ داری، جیسا کہ وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ سے متبادر ہوتا ہے، اُمت کے لیڈروں پر ہے۔ البتہ تواصی ایک فرضِ عام ہے جس میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں۔‘‘
اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح کریں، پھر ادائے حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں، اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں۔‘‘[7]
یہاں تک ریاست کے اسلامی ہونے کے بارے میں غامدی صاحب کے سابقہ موقف اور خلافت کی شرعی حیثیت کے بارے میں ان کے معتبر اساتذہ کی آرا کامختصر تذکرہ تھا، تاہم اس تفصیل کے باوجود مجھے غامدی صاحب سے ان کے نقطہ نظر میں تبدیلی کی توقع نہیں، کیونکہ غامدی صاحب کی آرا بہ کثرت تبدیل ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایک ہی مسئلہ پر وہ بار بار اپنی رائے بدلتے ہیں، لیکن بالعموم تبدیلیٔ آراکا اعلان نہیں کرتے۔ غامدی صاحب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ رائے تبدیل کرتے ہوئے علمی دیانت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ممتاز محقّق اور غامدی صاحب کے سابق رفیق جناب نادر عقیل انصاری نے اپنے مضمون ’صدرضیاء الحق، افغان جہاد اور غامدی صاحب کا بیانیہ‘ میں بڑی نفیس بحث کی ہے ۔ یہ مضمون سہ ماہی ’جی‘ لاہور میں شائع ہوا ہے ۔ ذیل کی سطور میں اس بحث کی تلخیص پیش کی جاتی ہے۔انصاری صاحب لکھتے ہیں:
’’جاوید غامدی صاحب نے 28؍ فروری 2014ء کو سماء ٹی وی کے پروگرام ’غامدی کے ساتھ ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے [سابق سوویت یونین کے خلاف ] افغان جہاد کی سر پرستی کی اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کو استعمال کیا، اُن کی مذمت کی جانی چاہیے۔ ہماری اُس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ پرائیویٹ آرمی بنائیں، مذہبی بنیاد پر لوگوں کو منظم کریں اور ان کے ذریعے جہاد فرمائیں۔ میں نے اُس زمانے میں بھی بڑی شدت کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہم اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں اور اپنی قبر کھود رہے ہیں ۔ جنہوں نے یہ کام کیا، وہ سر تا سر مجرم ہیں۔ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں۔
انصاری صاحب لکھتے ہیں:
غامدی صاحب کی اِس گفتگو کے بعد ان کا وہ مضمون ملاحظہ فرمائیے جو ستمبر1988ء کے ’ اشراق ‘ میں صدر ضیا ء الحق کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا گیا۔ غامدی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ یہ قوم اُن [ صدر ضیاء الحق ] کی ہر بات فراموش کرسکتی ہے ، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پا مردی اور استقامت کے ساتھ اُنہوں نے فرزندانِ لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمناے کی گردشیں صبحِ نشور تک ہماری حافظے سے محو نہ کر سکیں گی۔‘‘
نادر عقیل انصاری صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ آرابدلنے کا اختیار ہر صاحبِ قلم کو ہے۔ لیکن اس میں اگر علمی دیانت داری کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یادِ ماضی عذاب بن جاتی ہے ۔ علمی دیانت کا تقاضا تھا کہ غامدی صاحب سماء ٹی وی کے پروگرام میں کہتے کہ افغان جہاد کے بارے میں اُن کی رائے بدل گئی ہے اور اب وہ اُس جہاد کو ایک جرم سمجھتے ہیں لیکن اس کے بجائے اپنی سابقہ تحریر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا :’’ میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ ہم اپنی قبر کھود رہے ہیں اور اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں ۔‘‘[8]
اوپر ریاست کے اسلامی ہونے کے بارے میں غامدی صاحب کے ستمبر 1988ء اور جنوری 2015ء کے باہم متضاد موقف بیان ہوئے ہیں جن دونوں ارشادات میں تطبیق دینا ممکن نہیں ۔ اگر غامدی صاحب ان ارشادات میں تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ’اشراق‘(ستمبر 1988ء) کا حوالہ دینا ناگزیر ہے اور اگر وہ اس ناگزیر تقاضے کو پورا کرتے ہیں تو قارئین کی خاصی تعداد محولہ بالا ’اشراق ‘کی طرف رجوع کرے گی۔ اس طرح افغان جہاد کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کا تضاد سامنے آ جائے گا ۔ کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے متناقض آرا کا حامل سمجھا جائے۔ اس لیے مجھے صرف ایک فیصد اُمید ہے کہ موصوف ان وجوہات کو بیان کریں جن کے پیش نظر اُنہوں نے دین اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کیا۔
........٭ ........٭ ........٭ ........
جاوید غامدی اور لاہوری قادیانی
راقم کے مضمون کی اشاعت کے بعد غامدی صاحب ایک مخمصے میں ہیں۔ وہ مخمصہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ 7 ستمبر1974ء کی آئینی ترمیم جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، قرآن و سنت کے مطابق ہے، تو اُنہیں اپنے ’ جوابی بیانیے ‘ کے نکتہ نمبر4 سے دستبردار ہونا پڑے گا جس کے مطابق ’’جو لوگ اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے ، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جاسکتا ہے ، لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے اُنہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب 7ستمبر1947ء کی آئینی ترمیم اور اپنے بیانیے کے نکتہ نمبر4 سے دستبرداری پر اپنی خاموشی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا: ؏’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘‘لیکن یہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کی خوش قسمتی ہے کہ اسے کعبے( اسلام کے علم برداروں ) سے ہی پاسباں مل گئے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ راقم کی رسائی احمدیہ انجمن، لاہور کی حال ہی میں شائع کردہ کتاب ’اختلاف ِ سلسلۂ احمدیہ‘( اشاعت دوم) تک ہوئی ہے۔ اس کے مؤلف عامر عزیر الازہری بن عبدالعزیز ہیں۔ ٹائٹل پر’اختلاف ِ سلسلۂ احمدیہ‘کے نتیجے’تقابلی جائزہ جماعت ِ احمدیہ لاہور و جماعت احمدیہ ربوہ‘لکھا ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت ِ احمدیہ ربوہ کے برعکس، جماعت ِ احمدیہ لاہور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تعلیمات کی حقیقی علم بردار ہے۔ کتاب کے مؤلف عامر عزیز الازہری لکھتے ہیں:
'' موجودہ دور میں پاکستان میں محترم و مکرم جاوید احمد غامدی صاحب وہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کی خدمت ِ دین اور اسلام کے لیے شب و روز سعی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی گواہی کہ حضرت مرزا [غلام احمد قادیانی ] صاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا، اس دور کی سب سے بڑی سچائی اور جرأت مندانہ حق گوئی ہے ۔‘‘ ( ص 83 )
عامر عزیز الازہری مزید لکھتے ہے کہ محترم و مکرم جاوید احمد غامدی صاحب کی گواہی کہ حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا ،اُن[ غامدی صاحب ] کے ایک لیکچر میں دی گئی ہے جس کا موضوع ’ختم نبوت‘ ہے ۔ یہ لیکچر یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔ غامدی صاحب [اس لیکچر میں ] فرماتے ہیں:
’’ یہ جو مقام یا مرتبہ بیان کیا ہے، بالکل یہی ہے ، مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ۔وہ بنیادی طور پر صوفی تھے۔ تصوف سے ان کا اشتغال تھا۔ اس طرح کے اوراد، وظائف، چلّے یہی چیزیں ان کے ہاں تھیں۔ انہی چیزوں کو وہ بیان بھی کرتے ہیں۔ اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میری نبوت سے مراد تشریعی نبوت نہیں، میں اصطلاحی نبی نہیں ہوں، بروزی نبی ہوں۔ نبوت کا ایک سایہ پڑ رہا ہے۔ نبوت کا ایک پر تو میرے اندر آ رہا ہے۔ پھر کچھ دبی دبی باتیں ہوئیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ نبی بنا دئیے گئے۔ لیکن میں آپ سے عرض کروں کہ خود مرزا غلام احمد صاحب کی تحریریں جتنی بھی ہیں، ان میں بالصراحت نبوت کے دعویٰ کی کوئی تحریر نہیں۔ یعنی اسی طرح کی باتیں ہیں [ یعنی صوفیانہ اصطلاحات کا استعمال ہے،ناقل]۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی جماعت کے دو گروہ ہوگئے : ان کے قدیم ترین صحابہ ان کی اصطلاح کے مطابق، اُنہوں نے تو کہا کہ ایسا نہیں تھا بلکہ وہ مجدد تھے۔ یہ جو لاہوری جماعت ہے، یہ اسی تعبیر پر وجود میں آئی اور مرزا بشیر الدین محمود صاحب جو اُن کے فرزند تھے، اُنہوں نے اصل میں اس کو زیادہ صریح کیا۔ اور یہ کہا کہ نہیں، یہ باقاعدہ یعنی ورنہ معاملہ ٹھیک ہو جاتا، اتنا ہی رہ جاتا جتنا صوفیوں کا ہے ۔
انہوں [مرزا بشیر الدین محمود ،ناقل] نے اس کو اس کی منتہائے کمال تک پہنچا دیا جہاں پر توضیح کی ضرورت نہ رہی۔ حکیم نور الدین صاحب کے زمانے میں بھی صورتحال یہ نہیں تھی، اسی طرح تھی [یعنی حضرت مرزا صاحب کو نبی مجدد ہی سمجھا جاتا تھا، ناقل]۔ زیادہ سے زیادہ جو بات وہ کرتے تھے جو ابن عربی نے کہی ہے ۔ یعنی دیانتداری کے ساتھ آپ الزام لگانے کے لیے نہ کہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں۔ یعنی ابھی تک حسرت ہے کہ وہ واضح عبارت کون سی ہے[یعنی حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کی، ناقل] آپ دیکھیں اس میں الیاس برنی کی کتاب ’قادیانی مذہب‘ سب سے اعلیٰ کتاب ہے ۔ پوری پڑھ جائیے۔ پھر اس کے بعد ہمارے اپنے زمانے میں مولانا ابو الحسن علی ندوی جیسے جلیل القدر عالم نے ’قادیانیت‘کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ اس میں بھی آپ پوری کی پوری پڑھ جائیے [احمدیت کے خلاف ان دو مستند کتابوں میں بھی کوئی تحریر یا کوئی حوالہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا، ناقل]۔یعنی وہ [پہلے صوفیا کی تحریرات، ناقل] انہیں اس سے زیادہ تاویل کو قبول کر لیتی ہیں جیسی میں نے بیان کی ہیں۔ اس طرح کا واضح معاملہ نہیں ہے جیسے کہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ زیادہ تر بشیر الدین محمود صاحب کی ہیں۔‘‘ (ص 84 تا 86 )
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا عبارت کی بے ربطیاں جوں کی توں کتاب ہی سے نقل کی گئی ہیں۔ بہر حال عبارت کے ناقل( جو غالباً عامر عزیز الازہری ہیں) نے قوسین [ ]کے درمیان اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر جملوں کو مکمل اور بامعنی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ جناب ِ جاوید غامدی کا یہ لیکچر جماعت ِ احمدیہ لاہور کے اس بنیادی موقف کی مکمل تائید کرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور یہ مرزا بشیر الدین محمود تھے جنہوں نے غلو کرتے ہوئے مرزا صاحب کو نبی قرار دیا۔ اس لیکچر سے درج ذیل تین نکات اَخذ ہوتے ہیں:
1.     مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوی کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ’قادیانی مذہب‘اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’قادیانیت‘بھی مرزا صاحب کی کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں اُنہوں نے بالصراحت نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔
2.  مرزا غلام احمد قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین، مرزا صاحب کو اصطلاحی نبی نہیں سمجھتے تھے۔
3.  احمدیوں کا لاہوری فریق( مولوی محمد علی لاہوری گروپ ) شروع سے مرزا صاحب کو مجدد سمجھتا رہا ہے۔
ہمارے قارئین اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کا موقف بھی وہی ہے جو مندرجہ بالا تین نکات میں بیان کیا گیا ہے۔ راقم اپنے مضمون ’غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ؛ دستورِ پاکستان اور قادیانیت‘ میں حوالوں کے ساتھ ان تینوں نکات کی تردید کر چکا ہے۔ اس نے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی ایسی چار تحریریں پیش کی ہیں جن میں اُنہوں نے بالصراحت نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ بھی عرض کیا گیا کہ مرزا صاحب کی ایسی بیسیوں تحریریں موجود ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ مرزا صاحب خود کو صرف لغوی معنی میں نبی نہیں کہتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں خدا نے نبی بنایا اور ان کا منکر مسلمان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ان کے مجموعۂ الہامات’تذکرہ‘ اور ان کی کتاب ’ حقیقت الوحی‘کے اقتباسات پیش کیے ۔ راقم نے غامدی صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کے بانی امیر مولوی محمد علی لاہوری نے ’ریویو آف ریلیجنز‘ (قادیان) کی ادارت کے دور میں اپنے بیسیوں ایسے مضامین اس پرچے میں شائع کیے جن میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیے نبی اور رسول کا لفظ استعمال کیا اور اشارةً بھی نہیں لکھا کہ وہ ان الفاظ کو استعارے کے طور پر یا مجازی مفہوم میں استعمال کررہے ہیں۔ آج ہفت روزہ ’پیغام صلح‘ لاہور مرزا صاحب کی مجددیت کا علم بردار بنا ہوا ہے لیکن اسی پرچے میں 16 ؍اکتوبر 1913ء کی اشاعت میں لکھا گیا:
’’معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا [ ہفت روزہ ’پیغام صلح‘ لاہور] کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وهادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلاة و السلام کے مدارجِ عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار ’پیغام صلح‘ سے تعلق ہے، خدا تعالیٰ کو جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے ، حاضر و ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اِس زمانے کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔‘‘ (ص 2 )
اسی طرح راقم غامدی صاحب کے اس نقطۂ نظر کی حوالوں کے ساتھ تردید کی کہ مرزا غلام احمد صاحب کے پہلے جانشین حکیم نورالدین صاحب مرزا صاحب کو مامور من اللّٰہ نبی نہیں مانتے تھے۔
          اب ہم غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘کے نکتہ نمبر4 کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں۔ موصوف اپنے ’جوابی بیانیے‘میں لکھتے ہیں:
’’ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے ، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کے حاملین قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
راقم کا خیال ہے کہ غامدی صاحب اپنے استاذ امام امین احسن اصلاحی کے بارے اس سوئے ظن کا شکار نہیں ہوں گے کہ وہ اسلام اور کفر کی حدود سے ناواقف تھے۔ استاذ امام نے اپنی متعدد تحریروں میں قادیانیوں کی تکفیر کی ہے۔ غامدی صاحب نے اُن سے کیوں نہیں پوچھ لیا کہ قادیانی اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں اور قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں، اُنہیں کیوں کر کافر قرار دیا جاسکتا ہے؟ وہ فیس بک پر ایک مضمون میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تکفیر کے لیے اتمامِ حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہوگیا ہے اور وہ اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول ﷺکے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اب یہ حق کسی فرد یا گروہ کو حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی کو کافر قرار دے۔‘‘[9]
یہاں پھر غامدی صاحب سے سوال ہے کہ انہوں نے مولانا اصلاحی سے یہ کیوں نہیں پوچھ لیا کہ آپ کو کس ذریعے سے معلوم ہوا کہ قادیانیوں پر اتمام حجت ہوگیا ہے اور ان کی تکفیر کی جاسکتی ہے؟
اس مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا تھا کہ غامدی صاحب کی طرح جماعت ِ احمدیہ لاہور کو بھی اپنے عقائد کے سبب ایک ایسے ہی مخمصے کا سامنا ہے۔ دراصل مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتابیں مداری کا پٹارہ ہیں۔ ان میں سے ہر چیز نکالی جاسکتی ہے۔ ان میں نزولِ مسیح کا اقرار بھی ہے اور انکار بھی۔ آں حضرت ﷺ کو آخری نبی بھی کہا گیا ہے اور مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت بھی ہے۔ اِس وقت راقم کے سامنے احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کی شائع کردہ کتاب ’مجاہدِ کبیر‘[10]ہے جو بانی جماعت ِ احمدیہ لاہور، مولوی علی لاہوری صاحب کی سوانح عمری ہے۔ اس کتاب کے آخری صفحے پر جماعت ِ احمدیہ لاہور کے عقائد درج کیے گئے ہیں۔ عقیدہ نمبر2 کے تحت کہا گیا ہے:
’’ ہم آں حضرتﷺ کو خاتم النّبیین مانتے ہیں۔ بالفاظِ بانی سلسلہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب ’’ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو، اسے بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللّٰہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللّٰہ ﷺپر ختم ہوگئی۔‘‘
اور عقیدہ نمبر6 کے تحت کہا گیا ہے:
’’ہم ہر اس شخص کو جو لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول کا اقرار کرتا ہے مسلمان کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح انجمن اشاعت ِ اسلام لاہور کے شائع کردہ کتابچے’شہادت ِ حقّہ‘ کے بیک ٹائٹل پر جماعت ِ احمدیہ لاہور کی امتیازی خصوصیات کے زیر عنوان لکھا گیا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتی ہے۔
یہاں جماعت ِ احمدیہ لاہور سے مسلمان کی تعریف کرنے میں وہی غلطی ہوئی جو غامدی صاحب سے مسئلہ تکفیر پر غلط موقف اختیار کرنے کے نتیجے میں ہوئی اور اسے مخمصے کا سامنا ہے۔ بہر حال اس مخمصے کے حوالے سے یہ الگ بات ہے کہ اس نے1914ء سے شتر مرغ کے ریت میں سر چھپانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کی جاسکتی یا ہر کلمہ گو مسلمان ہے ، بلاشبہ کلمۂ حق ہے لیکن ایک خاص تناظر میں اس سے مراد باطل ہے۔ اس موضوع پر برصغیر کے ممتاز حنفی عالم مولانا محمد عبدالعزیز پرہاروی کی کتاب النبراس علیٰ شرح العقائدسے اہل سنت کا موقف پیش کیا جاتا ہے:
''ہم اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے ۔ اہلِ قبلہ سے لغوی اعتبار سے وہ شخص مراد ہے جو کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے یا اسے قبلہ مانے لیکن متکلمین کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ضروریات ِ دین کی تصدیق کرے، یعنی ان اُمور کی جن کا ثبوت شرع سے معلوم و مشہور ہے۔ لیکن جس شخص نے ضروریات ِ دین میں سے کسی شے کا انکار کیا، مثلاً حدوثِ عالم کا، یا حشر اجساد کا یا اللّٰہ تعالیٰ کے علم بالجزئیات کا ، یا فرضیتِ صلوٰة و صوم کا ، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ، خواہ وہ طاعات میں مجاہدہ کرتا ہو۔ اسی طرح جس شخص نے ایسا کام کیا جو دین کی تکذیب کی علامات میں سے ہے جیسے بتوں کو سجدہ کیا یا کسی شرعی امر کی توہین و استہزا کا مرتکب ہوا، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ۔ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان فقط اس وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا کہ اس نے گناہ کیا ہے۔‘‘
اہلِ سنت کے نزدیک ضروریات ِ دین کا انکار کرنے والے کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، خواہ وہ تمام عمر اہلِ قبلہ میں سے رہا ہو اور راقم کو یقین ہے کہ غامدی صاحب ضروریاتِ دین سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اب ہم مسلمان کی تعریف کے سلسلے میں جماعت احمدیہ لاہور کے موقف کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس جماعت کا موقف اس کی شائع کردہ کتاب’مجاہد کبیر‘اور کتابچے’شہادت حقّہ‘کے حوالے سے پیش کیا جاچکا ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے، بلکہ جماعتِ احمدیہ لاہور اُس جماعت کو بھی مسلمان قرار دیتی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی حقیقی نبی تھے اور اُن کی نبوت کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ راقم کی مراد جماعت احمدیہ قادیان ( اب ربوہ) سے ہے۔ جماعت احمدیہ قادیان (اب ربوہ) کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود (م 1965ء) نے یہ بھی لکھا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت جاری ہے اور ایک نبی تو کیا ہزاروں نبی آئیں گے۔ حوالے کے لیے اُن کی درج ذیل تحریریں ملاحظہ ہوں:
’’یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ آں حضرت ﷺکے بعد نبوت کا دورازہ کھلا ہے۔‘‘[11]
’’اُنہوں ( یعنی مسلمانوں) نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے۔ ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے، ورنہ ایک نبی کیا میں تو کہتا ہوں، ہزاروں نبی ہوں گے۔‘‘[12]
’’ اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آں حضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اُسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے، کذاب ہے، آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘[13]
حیرت ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور کے مسیح موعود و بانی سلسلۂ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی تو جماعت ِ احمدیہ لاہور کی شائع کردہ کتابوں کے مطابق ختم نبوت کے منکر کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھیں اور جماعت ِ احمدیہ لاہور اُسے مسلمان قرار دے۔ درحقیقت یہ مسلمان کی غلط تعریف کا شاخسانہ ہے جس میں جماعت ِ احمدیہ لاہور ایک صدی سے مبتلا ہے ۔ جماعتِ احمدیہ لاہور کے نزدیک جماعت احمدیہ ربوہ کا status کیا ہے؟ اس کی وضاحت جماعت کے ترجمان، ہفت روزہ ’پیغام صلح‘ لاہور کے ایک اداریے کے اس اقتباس سے ہوتی ہے۔ یہ اقتباس ماہ نامہ ’طلوع اسلام‘ لاہور کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے ۔ بطور تمہید طلوع اسلام لکھتا ہے :’’گزشتہ سال جب یہ سوال اُٹھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے تو لاہوری جماعت کے ترجمان ’پیغام صلح‘نے لکھا:
’’ ان حالات میں اول تو کسی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا صحیح نہیں اور اگر اس شوق کو پورا ہی کرنا ہے تو کم از کم احمدیوں کے اس گروہ کو اس سے مستثنیٰ کرنا ضروری ہے جو حضرت خاتم النّبیینﷺ کے بعد کسی بھی نبی کے آنے کے قائل نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہم قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ہیں۔ ہمارے نزدیک قادیانی ہو یا غیر قادیانی ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ اس کو غیر مسلم قرار دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔‘‘[14]
جماعت ِ احمدیہ لاہور کا جماعت ِ احمدیہ ربوہ کے بارے یہ موقف اُس کے اِس عقیدے کا منطقی نتیجہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ اگر وہ جماعت احمدیہ ربوہ کی تکفیر کرتی ہے تو اسے اپنے اس عقیدے سے دستبردار ہونا پڑے گا، اس نے یہ عقیدہ ایک صدی سے اختیار کر رکھا ہے ۔ بہر حال راقم کی دعا ہے کہ سو سال بعد ہی سہی، جماعت احمدیہ لاہور اس مخمصے سے نکل آئے۔
حوالہ جات
[1]    ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی کی 15 تا 21 جنوری 2016ء... مزید ماہ نامہ ’ختم نبوت‘ ملتان، ماہ نامہ المنبر فیصل آباد، ماہ نامہ ’شمس الاسلام‘ بھیرہ، ماہ نامہ ’روحِ بلند‘ لاہور وغیرہ
[2]    22 جنوری 2015ء كو روزنامہ جنگ میں جاوید احمد غامدی نے ’اسلامی ریاست ؛جوابی بیانیہ‘ لکھ کر "بیانیہ مباحثہ " کا آغاز کیا جس کی وضاحت قومی اخبارات میں مختلف اہل علم بالخصوص مولانا تقی عثمانی کی طرف کافی وشافی طورپر کر دی گئی، محدث کے شمارہ فروری 2015ء میں اس کا تفصیلی جائزہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کے قلم سے بھی پیش کیا گیا۔ جوابی بیانیہ کے بعد ابھی حال ہی میں وزیر اعظم نوازشریف نے علماے کرام سے جامعہ نعیمیہ، لاہور کے ایک اجتماع میں ’قومی بیانیے‘ کا مطالبہ کیا، جو اپریل 2017ء کے ماہ نامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں مفتی منیب الرحمن   صاحب کے قلم سے اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ کی طرف سے شائع کیا گیا۔ پھر دونوں بیانیوں کا تقابلی تجزیہ بھی ’الشریعہ‘ کے اسی شمارے میں عدنان اعجاز صاحب کے قلم سے شائع ہوا، جس پر مولانا زاہدالراشدی نے متبادل بیانیہ کے عنوان سے مزید اظہارِ خیال کیا ہے۔ جاوید غامدی کے ’جوابی بیانیہ‘ پر بعض قیمتی تبصرے سہ ماہی جی، لاہور میں جناب محمد دین جوہر اور جناب نادر عقیل انصاری کی جانب سے بھی قابل مطالعہ ہیں۔ اب بیانیوں کی یہ بحث علما کے روایتی حلقوں سے نکل کر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی،اسلام آباد جا پہنچی، جہاں مئی 2017ء میں ’نظریۂ پاکستان اور میثاقِ مدینہ‘ کے موضوع پر قومی کانفرنس کا انعقاد کرکےایک قومی دستاویز علماے کرام کو تائید وتصدیق او رتبصرہ کے لئے ارسال کی گئی جس كو بعد ازاں اداره تحقيقات کی جانب سے ایک دستاویز کی شکل میں شائع کرنے کا بھی پروگرام ہے ۔دراصل ان مباحث کے ذریعے پاکستان کے اسلامی حلقوں کو قرار دادِ مقاصد اورعلما کے 22 نکات کے بعد ایک نئے متجددانہ موقف پر آمادہ کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ ح م
[3]    ماہ نامہ اشراق: ستمبر 1988 ء ،ص6
[4]    ’مقامات‘ از جاوید غامدی:طبع دوم، ص130 ،131
[5]    تدبر قرآن،جلد دوم، ص154،155، فاران فائونڈیشن لاہور
[6]    اسلامی ریاست، ص8، شائع کردہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور
[7]    مجموعہ تفاسیر فراہی، ص343،344، فاران فاؤنڈیشن، لاہور
[8]    سہ ماہی ’جی ‘لاہور ...جلد نمبر11 ،12؍ صفحات 116 تا 121 اور 127
[9]    httpp://daleel-pk/2016/09/06/6971
[10] مؤلفہ: ممتاز احمد فاروق اور محمد احمد
[11] حقیقۃ النبوة، ص228
[12] انوارِ خلافت، ص62
[13] انوارِ خلافت، ص 65
[14] پیغام صلح :شمارہ30؍ مئی 1973ء...بحوالہ ماہ نامہ طلوع اسلام لاہور ، جولائی 1974ء ، ص 15