مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی اور ان کی تصانیف
مولانا محمد اسحاق بھٹی برصغیر پاک و ہند کے مشاہیر اہل قلم سے تھے۔ اُنہوں نے تصنیف و تالیف، تاریخ،صحافت اور شخصی خاکہ نگاری میں نام پیدا کیا اور شہرتِ دوام حاصل کی ۔ وہ بلا شرکتِ غیرے عصر حاضر کے عظیم مؤرخ ،بلندپایہ مصنف اور خاکہ نویس تھے۔ 70سال اپنے قلم سے دین اسلام اور اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ مختلف موضوعات پر ان کی کئی دینی ،علمی ،تاریخی اور سیر و سوانح پر کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر آ کر لوگوں سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
شخصیت نگاری بھٹی صاحب کا من پسند موضوع تھا۔ اس پر ان کے گوہر بار قلم نے خوب جوہر دکھائے۔ بھٹی صاحب کی تصنیفی خدمات کا دائرہ دور تک پھیلا نظر آتا ہے،جس خوب صورت اور دل کش پیرائے میں اُنہوں نے مقتدر شخصیات کے ’شخصی خاکے‘تحریر کئے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے ہم انہیں اس فن کا امام کہہ سکتے ہیں۔ اُن کی تحریروں میں حد درجہ شگفتگی اور سلاست پائی جاتی ہے ،ان کا اُسلوبِ نگارش دل نشیں ہے ۔ ان کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ شخصیات میدانِ زندگی میں متحرک اور سرگرمِ عمل ہیں اور ہم ان سے ہم کلام ہیں۔
عظیم ادیب و مصنف محترم مشفق خواجہ (وفات 20؍فروری 2005ء) کے الفاظ میں...
’’شخصیات پر لکھنے والا آپ سے بہتر اس وقت کوئی نہیں ہے۔ آپ لکھتے نہیں ،کارِ مسیحائی فرماتے ہیں۔ جسے مُردوں کو چلتے پھرتے دیکھنا ہو، وہ آپ کے مضامین پڑھ لے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے کیسی کیسی منتخب روزگار شخصیات کو دیکھا ،وہ لوگ بھی کچھ کم خوش نصیب نہیں جو آپ کے توسط سے یعنی آپ کے مضامین پڑھ کر ان شخصیات کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ میں بھی ایسے خوش نصیبوں میں شامل ہوں۔‘‘
بلا شبہ اﷲ ربّ العزت نے بھٹی صاحب کو علم و فضل اور عمل و کردار کی بہت سی خوبیوں سے مالامال کیا تھا۔ ان کا علم وسیع اور حافظہ قوی تھا۔ جو بات پڑھ لی یا کسی سے سن لی، وہ ان کے حافظے کی گرفت میں آ گئی۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں اور جماعتی تاریخ کے بے شمار واقعات ان کی لوحِ ذہن پر نقش تھے۔ جب وہ ان واقعات کو اپنی تحریروں میں مناسب مواقع پر درج کرتے تو قاری ان کو پڑھ کر بے اختیار داد دینے لگتا۔
مولانا اسحاق بھٹی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اخلاق و عادات ،محبت و خلوص ،انسان دوستی، ملنساری، مہمان نوازی ،سادگی اور مروّت میں مثالی اور بہت ہی پیارے انسان تھے۔ ان کی خوش طبعی ، بذلہ سنجی ،لطیفہ گوئی اور باغ و بہار شخصیت دوسرے کو متاثر کرتی ۔ ان کی دل آویز شخصیت کا یہی رنگ اُن کی تحریروں میں بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
مولانا بھٹی کی تعلیم وتربیت
مولانا محمد اسحاق بھٹی 15مارچ 1925ء کو کوٹ کپورہ (ریاست فرید کوٹ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں عبدالمجید بھٹی اور دادا کا اسم گرامی میاں محمد تھا۔ میاں محمد نہایت نیک اور متورّع انسان تھے ۔ دین داری تقویٰ ، صالحیت اور ورع و عفاف کے زیور سے آراستہ تھے ۔ان کے قلب و ذہن پر اسلامی تعلیمات کے گہرے نقوش ثبت تھے۔ وہ اپنے دل میں اسلام کی سچی محبت اور جذبہ رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے اس پوتے محمد اسحاق کو شروع دن سے ہی علم و عمل کی راہ پر ڈال دیا تھا اور اسلامی تقاضوں کے مطابق اس کی تربیت کرنا شروع کر دی تھی۔ نماز کے لئے وہ اُنہیں ساتھ لے کر مسجد جاتے ،آٹھ سال کے تھے کہ دادا نے گھر میں ہی ان کو قرآن مجید پڑھاناشروع کر دیا۔ تیسویں پارے کی دس بارہ سورتیں حفظ کروائیں اور اُردو کی چند کتب بھی پڑھا دیں۔ مولوی رحیم بخش کی ’اسلام کی کتاب‘(اوّل تا چہارم) بھی پڑھا دی اور حافظ محمد لکھوی مرحوم کے پنجابی شعروں پر مشتمل منظوم کتب :انوارِ محمدی ،زینت الاسلام اور احوال الآخرت بھی پڑھا دی تھیں۔
1934ء میں مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب جب چوتھی جماعت کے طالب علم تھے تو ایک دن اُن کے دادا محترم اُنہیں لے کر مولانا عطاء اللّٰہ حنیف کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ازراہِ کرم اسے قرآن مجید کا ترجمہ اور تاریخ اسلام کے علاوہ اس کے فہم کے مطابق دینی مسائل کی کتب پڑھا دیا کریں۔مولانا عطاء اللّٰہ حنیف اس وقت کوٹ کپورہ کی جامع مسجد کے خطیب تھے اور اُنہوں نے یہیں درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ چنانچہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے مولانا عطاء اللّٰہ حنیف سے ترجمۃ القرآن اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی شہرہ آفاق کتاب ’رحمۃ للعالمین‘پڑھنے لگے اور اُنہوں نے اڑھائی تین ماہ میں رحمۃللعالمین کو پڑھ لیا۔ آپ ذہین طباع طالب علم تھے ،حافظہ قوی تھا ،جو سبق پڑھتے مستحضرہوجاتا۔ ان کے اُستاذِ گرامی مولانا عطاء اللّٰہ اپنے اس ہونہار اور لائق شاگرد سے بہت خوش تھے۔ مولانا عطاء اللّٰہ حنیف کی خدمتِ عالیہ میں رہ کر بھٹی صاحب نے مروّجہ علوم و فنون اور تفاسیر و احادیث کی کتب پڑھیں اور درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ تحصیل علم کے لئے بھٹی صاحب مرکز الاسلام لکھو کے میں بھی مولانا عطاء اللّٰہ مرحوم کی خدمت میں رہے اور دو سال جامع مسجد گنبد والی، فیروز پور میں بھی زیر تعلیم رہے۔ 1940ء میں مولانا عطاء اللّٰہ حنیف صاحب کے حکم پر گوجرانوالہ کا رخ کیا اور دو سال مولانا حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں رہ کر صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور بعض دوسری کتب پڑھ کر سندِ فراغ حاصل کی۔
تحصیل علم کے بعد مولانامحمد اسحاق بھٹی صاحب ایک سال محکمہ انہار، ہیڈ سلیمانکی میں کلرک رہے۔ پھر مارچ 1943ء سے 1947ء تک مدرسہ مرکز الاسلام میں فریضۂ تدریس انجام دیتے رہے۔ اس دوران اُنہوں نے آزادی کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیااور فرید کوٹ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ 1946ء سے 1947ء تک ریاست فرید کوٹ کی پرجامنڈل کے سیکرٹری رہے۔ ریاستی پر جامنڈل پنجاب کی ریاستوں میں کانگرس کی بدل تھی۔ اس کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔
تقسیم ملک کے بعد مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب 21؍اگست 1947ء کو چھوٹے بڑے ایک سو تیس افراد کے ساتھ کوٹ کپورہ سے قصور پہنچے اور اکتوبر 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ چک نمبر 53گ ب منصور پور ٹیسیاں (تحصیل جڑانوالہ ،ضلع فیصل آباد) آ گئے اور اُنہوں نے اس گاؤں میں سکونت اختیار کر لی۔
جولائی 1948ء میں بھٹی صاحب کی زندگی کا نیا دورشروع ہوا اور وہ 24؍جولائی 1948ء کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور میں منعقدہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے ۔ پھر کچھ عرصہ بعد اُنہیں مولانا عطاء اللّٰہ حنیف کے ذریعے مستقل لاہور بلوا کر اُنہیں مرکزی جمعیت اہل حدیث کا ناظم دفتر بنا دیا گیا اور آپ پندرہ سال مرکزی جمعیت کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی خدمت میں رہے اور انہوں نے مولانا غزنوی مرحوم کے ساتھ مل کر جماعت کی تعمیر و ترقی کے لئے بہت کام کیا۔
مولانا بھٹی کی صحافتی خدمات
19 ؍اگست 1949ء کو گوجرانوالہ سے ہفت روزہ ’الاعتصام‘ کا اجراہوا۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے مدیر بنائے گئے۔ کچھ عرصے بعد مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کو ان کا معاون مدیر بنا کر گوجرانوالہ بھیج دیا گیا۔ اس دور میں جمعیت کے ناظم دفتر اور الاعتصام کے معاون مدیر کی ذمہ داری بھٹی صاحب پر تھی۔ بھٹی صاحب پہلے الاعتصام کے معاون مدیر اور پھر مدیر بنائے گئے اور اُنہوں نے سولہ سال الاعتصام کے ادارتی فرائض انجام دیئے۔ مولانا بھٹی صاحب نے معاون ایڈیٹر کی تشریح اپنے اُسلوب خاص میں ایک مضمون میں کچھ اس طرح کی ہے۔ لکھتے ہیں...
’’معاون ایڈیٹر کا لفظ تو میں نے لکھ دیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ میں اخبار میں خاکروب بھی تھا، چپڑاسی بھی تھا ،کلرک بھی تھا ،مینجر بھی تھا۔ اس سے آگے عرض کروں کہ بعض دفعہ اداریے اور شذرات بھی لکھا کرتا تھا۔ کتنے ہی شماروں میں ایسا ہوتا کہ مولانا حنیف ندوی ’وزیربے محکمہ‘کی طرح پورے پرچے میں ’مدیر بے تحریر‘ہوتے اور ہر سطر، ہر پیرے اور ہر صفحے پر ہمارا سکہ چلتا تھا۔‘‘
15 ؍مئی 1951ء کو مولانا حنیف ندوی ادارہ ثقافتِ اسلامیہ میں چلے گئے تو مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے ’الاعتصام‘کی تمام تر ذمہ داری مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ اور آپ 30مئی 1965ء تک اس سے منسلک رہے۔
اس دوران جنوری 1958ء میں آپ نے سہ روزہ ’منہاج‘ جاری کیا۔ یہ اخبار چودہ مہینے جاری رہا۔ اس کے مضامین بڑے معیاری ،علمی اور تحقیقی ہوتے تھے۔ موقع کی مناسبت سے حالاتِ حاضرہ پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی جاتی تھی۔ اپنے دور کا یہ ایک معیاری اخبار تھا۔ اس اخبار کو جماعت اہل حدیث کے حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن بعض ناگزیرحالات اور مالی مشکلات کے باعث کافی خسارہ اٹھانے کے بعد بالآخر اپریل 1959ء میں اس اخبار کو بند کر دیا گیا اور بھٹی صاحب نے اخبار نکالنے کے شوق سے ہمیشہ کیلئے توبہ کر لی۔
’الاعتصام‘ کی سولہ سال ادارت سے علیحدگی کے بعد بھٹی صاحب نے پروفیسر سید ابو بکر غزنوی کے اصرار پر ماہنامہ ’توحید‘کی ادارت قبول کی۔ یہ اخبار جولائی 1965ء میں بڑی شان سے چھپا۔ پہلا صفحہ رنگین گیٹ اَپ ، کاغذ ،مضامین ،ہر اعتبار سے دیدہ زیب اور دلکش ،لیکن کچھ عرصہ بعد بھٹی صاحب اخبار ’توحید‘ سے بھی الگ ہو گئے اور انکے علیحدہ ہونے کے تھوڑے عرصے بعد ’توحید‘اپنی اشاعت کے چار پانچ ماہ پورے کر کے بند ہو گیا۔
مولانا بھٹی کی جماعتی خدمات
مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے قیام 24؍جولائی 1948ء سے 30مئی 1965ء تک باقاعدہ مرکزی جمعیت اہل حدیث سے وابستہ رہے۔ ابتدا میں ناظم دفتر اور پھر الاعتصام کے معاون مدیر اور پھر ایڈیٹر کی حیثیت سے۔ اس طویل عرصے میں اُنہیں اکابرین جماعت کے ساتھ مل کرجماعتی کام کرنے کا خوب موقع ملا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحوم ان پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے۔ اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم کو بھی اپنے اس شاگردِ رشید پر ناز تھا۔ مولانا محمد حنیف ندوی بھی ان کی علمی وادبی صلاحیتوں سے بہت خوش تھے اور مولانا عطاء اللّٰہ حنیف مرحوم بھی اپنے اس لائق شاگرد کی تحقیقی کارکردگی پر فخر کرتے تھے۔ بھٹی صاحب نے ان عالی قدر بزرگوں کے سایۂ شفقت میں رہ کر ان سے علمی و عملی طور پر مستفید ہونے کی سعادت حاصل کی۔ ہماری جماعتی تاریخ کا بہت سا حصہ ایسا ہے جس کے عینی شاہد فقط بھٹی صاحب ہیں۔ جماعت اہل حدیث کی تاریخ اور اکابر علماء کے بہت سے واقعات ان کی لوح ذہن پر نقش تھے اور ان میں اکثر واقعات کو انہوں نے اپنی تحریروں میں صفحۂ قرطاس پرمرتسم کیا ہے۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے جو انہوں نے اکابرین جماعت کے حالات وواقعات کو تحریری صورت میں لا کر انجام دی ہے۔
گذشتہ سطور میں میں نے مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کے مختصر حالات زندگی اور ان کی صحافتی خدمات کا اجمالی سا تذکرہ کیا ہے۔ جو قارئین اس کی تفصیل جاننا چاہیں وہ راقم کی کتاب ’مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی :حیات و خدمات ‘کا مطالعہ فرمائیں۔ یہ کتاب فروری 2011ء میں مولانا محمد علی جانباز کے فرزندِگرامی مولانا عبدالحنان جانباز ﷾نے جامعہ رحمانیہ ناصر روڈ سیالکوٹ کی طرف سے شائع کی تھی۔
مولانا بھٹی کی تحریری کاوشیں
اکتوبر 1965ء میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ سے انسلاک کے بعد بھٹی صاحب کی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں بھٹی صاحب نے تصانیف و تراجم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ دور تک پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ بھٹی صاحب نے جو تحریری کام کیا ہے ،اس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے:
(1)تصانیف و تراجم (2)اخباری مضامین و مقالات (3)اخباری اداریے اور شذرات
(4)کتابوں پر تبصرے (5)بہت سی کتابوں پر مقدمات
یہ تمام تحریریں اگر کتابی سائز میں منتقل کی جائیں تو چالیس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہوں گی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی 34، 35سال کی تقریروں کے بے شمار صفحات اس کے علاوہ ہیں۔ متعدد کتابوں کی ایڈیٹنگ (ادارت) بھی اس میں شامل نہیں۔
یہ بہت بڑی تحریری خدمت ہے جو بھٹی صاحب نے سرانجام دی ہے ۔ اب ملاحظہ فرمائیے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی علمی و تحقیقی تصانیف کا تعارف ۔اس کا آغاز ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور سے ہوتا ہے۔
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ 1950ء میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے قائم کیا تھا۔ انھوں نے ادارے کے لیے تھوڑے عرصے میں ہی بہت سی علمی اور نابغہ عصر شخصیات کی خدمات حاصل کر لی تھیں۔ خلیفہ صاحب نے 1959ء میں وفات پائی۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے اکتوبر 1965ء سے16مارچ1996ء تک ادارۂ ثقافت اسلامیہ میں تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔ بائیس سال ادارے کے ماہنامہ ’المعارف‘کے ایڈیٹر رہے۔ یہ خالص علمی اور تحقیقی مجلّہ تھا ،جس میں بے شمار مضامین ومقالات لکھے۔ ادارے کی طرف سے شائع ہونے والے مجلہ ’ثقافت‘میں (جو بعد میں المعارف کے نام سے موسوم کر دیا گیا) بھٹی صاحب لکھتے رہے۔ ’المعارف‘ میں ان کے لکھے ہوئے اداریے اور علمی و تحقیقی مضامین اہل علم دلچسپی سے پڑھتے تھے۔بھٹی صاحب تیس سال ادارے سے وابستہ رہے۔
ادارے کی طرف سے شائع ہونے والی اُن کی کتب اہل علم اور تحقیقی ذوق رکھنے والوں کے ہاں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اپنے موضوع پر وہ انوکھے انداز کی کتابیں ہیں۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ میں رہ کر بھٹی صاحب نے جو تصنیفی خدمات سرانجام دیں ،اس کی تفصیل یہ ہے:
تصانیف وتراجم
’الفهرسة’ از ابن الندیم محمد بن اسحاق ابن الندیم بغدادی چوتھی صدی ہجری کے نامور محقق اور مؤرخ تھے۔ اُنھوں نے اپنی اس کتاب ’الفہرست‘میں چوتھی صدی ہجری تک ،تمام علوم و فنون سے متعلق معلومات جمع کر دی ہیں۔ یہ ضخیم کتاب معلومات کا بحر ذخار ہے اور تاریخ و رجال کے فن اور دیگر علوم وفنون کے بارے یہ مستند اور بنیادی حوالے کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ بھٹی صاحب نے اس اہم کتاب کو عربی سے اُردو کے قالب میں ڈھالا اور اس کے بہت سے مقامات پر مفید حواشی لکھے۔ ترجمہ رواں ، شگفتہ اور سلیس ہے۔ 914صفحات پر پھیلا ہوا یہ ترجمہ وتحشیہ بلاشبہ بھٹی صاحب کا عظیم کارنامہ اور مطالعہ کے شائقین کے لیے انمول تحفہ ہے۔ یہ ترجمہ1969ء میں پہلی بار طبع ہوااور کسی بھی زبان میں کیا جانے والا الفہرست کا یہ اوّلین ترجمہ ہے جو عربی سے اُردو میں ہوا۔اس کتاب کے شروع میں ایک مشہور شعر ہے: ببُــکاء الأقــلام تتبــسّم الکــتب
’’قلموں کے رونے سے کتابیں مسکراتی ہیں۔‘‘
’برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ‘ اپنے موضوع کی یہ پہلی کتاب ہے جو اُردو زبان میں تحریر ہوئی۔ اس میں سلطان غیاث الدین بلبن( 686ھ) کے عہد سے لے کر سلطان اورنگ زیب عالم گیر (1118ھ)تک کے دور کی فقہی کاوشوں کو ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے اور تفصیل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ برصغیر علم فقہ سے کیسے آشنا ہوا ۔ نیزاس کتاب میں اس خطہ ارضی میں تالیف کی جانے والی فقہی کتب: فتاویٰ غیاثیہ، فتاویٰ قراخانی، فوائد فیروزشاہی ، فتاویٰ تاتارخانیہ ، فتاویٰ حمادیہ،فتاویٰ ابراہیم شاہی (حصہ فارسی) ،فتاویٰ امینیہ، فتاویٰ بابری اور فتاویٰ عالم گیری پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کے مؤلفین کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ بھٹی صاحب نے کتاب کے مقدمے میں فقہ کی تعریف ، اس کی ضرورت و اہمیت اور قرآن وحدیث سے اس کے بنیادی تعلق کو بھی بیان کیا ہے۔
کتاب کا مقدمہ بڑا وقیع اور معلومات کا خزینہ ہے جس میں علم فقہ سے متعلق بہت سی باتیں آ گئی ہیں۔یہ کتاب چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی بار جون1973ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے شائع ہوئی۔
’فقہاے ہند‘ یہ کتاب دس جلدوں میں ہے ۔ اس میں پہلی صدی سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک کے برصغیر کے ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے اہل حدیث، حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی اور شیعہ علماے کرام اور فقہاے عظام کے حالات و واقعات نہایت ادب واحترام سے حیطہ تحریر میں لائے گئے ہیں۔
ہر بزرگ کے تذکرے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کس مسلک ومنہج، فقہ اور عقیدے کے حامل تھے اور علمی و عملی طور پر اُنھوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے۔ یہ اپنے موضوع کی ایک نہایت تحقیقی کتاب ہے جو سینکڑوں فقہا کی زندگی کے علمی کارناموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک کے بہت سے فقہا کے حالات بھٹی صاحب نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے صفحۂ قرطاس پر مرتسم کیے ہیں۔ ہر جلد کے شروع میں لائق مصنف نے ایک جامع مقدمہ لکھا ہے جو اس دور کی علمی، ادبی ، سیاسی اور مذہبی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس عظیم کتاب کے مقدمات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ فقہائے ہند کی دس جلدوں کی تفصیل یہ ہے:
جلد اوّل: پہلی صدی سے آٹھویں صدی ہجری تک صفحات328 طبع1974ء
جلد دوم: نویں صدی ہجری صفحات 264 طبع1975ء
جلد سوم:دسویں صدی ہجری صفحات 400 طبع1976ء
جلد چہارم :حصہ اول: گیارھویں صدی ہجری صفحات 280 طبع1977ء
جلد چہارم :حصہ دوم: گیارھویں صدی ہجری صفحات 416 طبع1978ء
جلد پنجم :حصہ اول: بارھویں صدی ہجری صفحات 352 طبع1979ء
جلد پنجم حصہ دوم: بارھویں صدی ہجری صفحات 428 طبع1981ء
فقہائے پاک وہند جلداول:تیرھویں صدی ہجری صفحات 344 طبع1982ء
جلد دوم:تیرھویں صدی ہجری صفحات 270 طبع1984ء
جلد سوم: تیرھویں صدی ہجری صفحات 452 طبع1989ء
’برصغیرمیں اسلام کے اوّلین نقوش‘ اس کتاب میں ان پچیس (25) صحابہ کرام ،42 تابعین اور 18 تبع تابعین کے حالات شرح وتفصیل سے بیان ہوئے ہیں جو اشاعتِ اسلام یا کسی دوسرے سلسلے میں برصغیر میں وارد ہوئے۔ کتاب کے شروع میں ایک جامع مقدمہ ہے جس میں عرب ہند کے باہمی تعلقات اور بعض ہندوستانی قوموں کے عرب علاقوں میں جا کر آباد ہونے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد 224 ہے۔ طبع1989ء لاہور۔
’ارمغانِ حنیف‘ مولانا محمد حنیف ندوی ایک علمی شخصیت تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ مصنف و محقق ، فلسفہ اسلامی کے نامور کے اسکالر اورقرآن حکیم کے بلند پایہ مفسر تھے۔ قدیم و جدید اسلامی علوم پر ان کی نظر تھی۔ اس کتاب میں مولانا حنیف ندوی کی علمی خدمات اور حالات زندگی کو خوبصورت اُسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 371صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کتاب کا ایک باب ندوی صاحب کے لطائف و واقعات پر مشتمل ہے جو بھٹی صاحب کے بلند ادبی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔ طبع 1989ء
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ میں ان کتب کی تالیف و تصنیف اورتراجم کے علاوہ بھٹی صاحب نے جن کتب کو ایڈٹ کیا، ان میں
1. اُردو نثر کے ارتقامیں علما کا حصہ از ڈاکٹر محمد ایوب قادری
2. شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کی علی خدمات از ڈاکٹر ثریا ڈار
3. شروحِ صحیح بخاری از غزالہ حامد
4. پیغمبر انسانیت از مولانا شاہ جعفر پھلواری
5. فقہ عمر، مترجم ابویحییٰ خان نوشہروی
ان کتابوں کو بھٹی صاحب نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ایڈٹ کیا۔ ان پر جامع مقدمات لکھے اور شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ان کے علاوہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کے لیے جمع وتدوین قرآن، فضائل قرآن، مضامین قران ، واقعات و قصص قرآن اور اعجاز قرآن کے نام سے مفصل مقالات لکھے۔ علاوہ ازیں متعدد دیگر موضوعات پر بھی تیس بتیس مقالات لکھے جو تمام کے تمام اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی مختلف جلدوں میں شائع ہوئے۔
[1]
شخصی خاکہ نگاری
اب ان کتب کی تفصیل بیان کی جاتی ہے جو بھٹی صاحب نے ادارہ ثقافت اسلامیہ کے علاوہ تصنیف کیں۔ کئی سال پہلے بھٹی صاحب نے ’قومی ڈائجسٹ‘،لاہور میں نامور شخصیات کے سوانحی خاکے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ سب سے پہلا شخصی خاکہ گیانی ذیل سنگھ پر لکھا جس کا عنوان تھا :’کچے گھر سے قصر صدارت تک...‘ ،علی ارشد صاحب نے اس مضمون کو فیصل آباد سے کتابت کروایا۔ محترم بھٹی صاحب کی خواہش پر وہ کتابی صورت میں شائع کرکے ہندوستان لے جانا چاہتے تھے۔ اس کتابت شدہ مضمون کو مجیب الرحمن شامی نے دیکھاتو اُنہوں نے اصرارکیاکہ اسے قومی ڈائجسٹ میں شائع کیا جائے۔اس کے لئے اُنہوں نے ’قومی ڈائجسٹ‘کے معاون مدیر جناب تنویر قیصر شاہد
[2] کو بھٹی صاحب کے پاس بھیجا اور ادارتی نوٹ کے ساتھ مضمون شائع کیا۔
اس مضمون کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ لوگوں نے بھٹی صاحب کے منفرد اندازِ تحریر کو بڑا پسند کیا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور قومی ڈائجسٹ میں عرصہ دراز تک بھٹی صاحب کے لکھے ہوئے شخصی خاکے اشاعت پذیر ہوتے رہے۔ پھر ان میں کچھ اضافے کیے گئے اور کچھ نئے خاکے لکھے گئے۔ 1997ء میں یہ خاکے مکتبہ قدوسیہ، اُردو بازار لاہور کی طرف سے شائع ہوئے۔
اب تک بھٹی صاحب کے لکھے ہوئے خاکوں کے چار مجموعے: نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں، کاروانِ سلف اور قافلۂ حدیث اشاعت پذیر ہو کر منصۂ شہود پر آ چکے ہیں۔ ان چار مجموعوں کے تعارف سے پہلے بھٹی صاحب کے اُسلوبِ نگارش پر نامور اصحابِ قلم کی رائے کا اظہار ضروری ہے:
1. ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’مولانا محمد اسحاق بھٹی اُردو کے صاحبِ طرز ادیب اور انشاپرداز ہیں ۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف ومؤلف اور بلند پایہ محقق ہیں۔ وہ مستند عالم دین بھی ہیں، ان کی زندگی کا طویل حصہ صحافت میں بسر ہوا۔ انھوں نے ہر طرح کے مسائل پر لکھا ہے، ان کے موضوعات و مباحث کا دائرہ ادب و سیاست، تاریخ و تعلیم، سیرت و سوانح، مذہب و صحافت اوراس کے مختلف گوشوں تک پھیلاہوا ہے۔ ان کی تحریروں میں معلومات اور علمی نکات کی فراوانی ہوتی ہے۔ اُن کے قلم اور زبان ، دونوں سے لطائف کے پھول جھڑتے ہیں۔ وہ تحریر میں افکار کے موتی پروتے ہیں۔ ان کی تحریرات متن کے حسن اور اُسلوبِ نگارش کی رنگینی سے آراستہ ہوتی ہیں۔ افکار ومعانی کا طلسم قاری کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ ان کے گلشن زار الفاظ و مضامین کا زائر و سائر ایک بار دیکھا، دوبارہ دیکھنے کی ہوس کا نعرہ لگاتا ہے اور اس کے سحر وجلال سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ مختصر اور مفصل دونوں طرح کی تحریریں لکھنے پر قادر ہیں۔ ان کے اختصار میں ایجاز اور تفصیل میں دل کشی کی خوبی موجود ہوتی ہے۔ وہ بات سے بات پیدا کرتے اور مضامین و مباحث کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں، لیکن تحریر و نگارش کی رنگینی ، بیان کی طوالت اور واقعات کی تفصیل کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ان کی تحریر و نگارش کی سحر انگیزیاں اور افکار ومعانی کی قیامت خیزیاں ان کی تمام تحریروں اور تصنیفوں میں موجود ہیں۔‘‘
2. نوائے وقت لاہور کے ایک معروف کالم نگار، ادیب وصحافی صاحب زادہ خورشید گیلانی تھے جو وفات پا چکے ہیں۔ مسلکی اعتبار سے بریلوی حنفی تھے۔ گیلانی مرحوم نے اپنی کتاب’رشکِ زمانہ لوگ‘ میں ’گم نام مگر بلند مقام‘کے عنوان سے بھٹی صاحب سے متعلق لکھا ہے:
’’نقوشِ عظمت رفتہ ‘اور ’بزم ارجمنداں‘دراصل مولانامحمد اسحاق بھٹی کی شگفتہ ، شائستہ اور ان کے منفرد اُسلوبِ نگارش کی نمائندہ کتابیں ہیں، جنھیں پڑھتے ہوئے نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے۔ سبک لہجہ اور رواں اُسلوب۔
جنھوں نے بھٹی صاحب کو دیکھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے، ان کی تین باتیں اُنھیں ورطہ حیرت میں ڈالتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ ریاست فرید کوٹ کے سکہ بند ’پنجابی‘ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ ’مولانا‘ہیں اور تیسری یہ کہ وہ مسلک کے اعتبار سے باعمل ’اہل حدیث‘ہیں لیکن اردو اتنی صاف اور سلیس لکھتے ہیں کہ ان پر اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ کہیں گرہ نہیں، اغلاق نہیں، آورد نہیں اورعیب نہیں اوراس سے بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ’مولانا‘ تو پکے ہیں یعنی صحیح معنوں میں عالم ، قرآن وحدیث ، سیرت ، تاریخ و فقہ پر مکمل عبور مگر عباپوش ہیں ، نہ دستار بند؛ نہ تسبیح بدست اور نہ صافہ بداماں؛نہ لوٹا ساتھ رکھتے ہیں اور نہ عصا ہاتھ میں تھامتے ہیں۔ خوبصورت داڑھی، عام شہریوں جیسا لباس اور ساندہ میں دوسرے محلے داروں کی طرح رہائش اور بودوباش ۔ ان کے ماتھے پر علم کی خشونت نام کو نہیں۔ آواز بھاری ضرورہے مگر اس پر درشتی طاری نہیں ہونے دیتے۔ ہر لاحقے سابقے کے بغیر صرف اپنے نام پر اکتفا کرتے ہیں۔
اورتیسری بات ان کا اہل حدیث ہونا، وہ نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں ، آمین بالجہر کہتے ہیں اور فاتحہ خلف الامام پڑھتے ہیں مگر نہ کسی حنفی سے اُلجھتے ہیں اور نہ لڑتے ہیں۔ وہ اپنے مشرب کے پابند ہیں، کسی منصب کے دعوے دار نہیں ، انھیں مل کر ہر ایک کو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک وضع دار ، بردبار، روادار شخص سے ملے ہیں۔ نہ تکبر ، نہ غرور اور نہ تصنع، نہ نفور، ورنہ جتنا علمی کام وہ کر چکے ہیں، اگر کوئی اس کا بیسواں حصہ بھی کر لے تو وہ رازی و غزالی کو اپنے پاس بیٹھنے تو کجا، پھٹکنے بھی نہ دے اور ایک جہازی سائز کا اشتہار صرف اپنے القاب و خطابات کے لیے وقف کر دے۔ مولانا اسحاق بھٹی بلند مقام تو ہیں مگر رہے گمنام کہ یہی اچھے لوگوں کا خاصہ ہے۔‘‘
3. پروفیسر عبدالجبار شاکر (وفات 13؍اکتوبر 2009ء)بھٹی صاحب سے متعلق اُن کی کتاب ’قاضی محمد سلیمان منصورپوری‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
''انھوں اسحاق بھٹی نے تن تنہا تحقیق کے جو ہفت خواں طے کیے ، یہ ان کی شخصیت کے جوہر کو نمایاں کرتے ہیں ۔ قدرت نے انھیں ایک ایسا اُسلوب عطا کیا ہے جو اُردو زبان وادب کے اسالیب میں ایک انفرادیت کا حامل ہے۔ ان کے ہاں معروف ادیبوں اور دانشوروں کی طرح نہ تو حکماے مغرب کی کتابوں کے اقتباسات ہیں او ر نہ وہ اپنے مطالب کے اظہار کے لیے مشکل تراکیب اور اَدقّ اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کے ہاں اُسلوب میں ابلاغ کی حد درجہ خوبی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا قلم شستہ اور پیرایہ شگفتہ ہے۔ سادگی میں پرکاری کے نقوش ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ انھوں نے نصف صدی تک جو علمی جواہر پیدا کیے ہیں، ان میں ابوالکلام کی نثری بلاغت، شبلی کی مؤرخانہ بصیرت، سید سلیمان ندوی کا اُسلوب تحقیق، مولانا مودودی کا دعوتی انداز، رشید احمد صدیقی کی سی شگفتہ نگاری، مولوی عبدالحق کی سی سادہ بیانی ، مولانا ثناء اﷲ امرتسری کی جامعیت، مولانا محمد حنیف ندوی کا حکیمانہ اُسلوب،مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی کی سادگی اور کتاب دوستی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی طلاقتِ لسانی کی جھلکیاں ان کی تحریروں کے مختلف صفحات پر نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔
4. پروفیسر عبدالجبار شاکر ،بھٹی صاحب کی کتاب ’میاں عبدالعزیز مالواڈہ ‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’اُن کا اشہب قلم نئے سے نئے میدانوں میں شہسواری کے کمالات دکھا رہا ہے۔ بھٹی صاحب کی شخصیت عجیب دل آویزیوں کا مجموعہ ہے۔ اُن کے مطالعے میں بے پناہ وسعت ہے۔ ان کے حافظے اور استحضار پر ایک عالم کو رشک ہے۔ ان کے اُسلوب کی چاشنی دیدنی ہے۔ ان کی گفتگو ’’وہ کہیں اور سناکرے کوئی‘‘ کے مصداق ہے۔ اُسلوب اگراعلیٰ ابلاغ کے تقاضوں کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ اس دور کے صاحبِ طرز ادیب ہیں۔ زبان کی سادگی اور شگفتگی نے ان کے طرز ِنگارش کو ایک انفرادیت عطا کی ہے۔ قلم کی شستگی اور اُسلوب کی شگفتگی نے ان کی ہر کتاب میں ایک عجیب جادو جگارکھا ہے۔ مگر ان کے اُسلوب کی اصل رنگت، ان کے خاکوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ ذرا ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘کے صفحات کو دیکھیے۔ ’بزم ارجمنداں‘کے اوراق الٹیے۔ ’کاروانِ سلف‘کی شخصیات کا مطالعہ کیجیے۔ ’محفل دانشمنداں‘میں بیٹھیے اور ’قافلہ حدیث‘ کے ہم رکاب چلیے ،کیا کیا اور کیسے کیسے اسالیب کے طلسمات کی کرشمہ سازی ہے۔ ؏ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجاست
5. مولانا محمد ادریس ہاشمی (وفات 25؍مئی 2010ء) جماعت غرباء اہل حدیث پنجاب کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ معروف صاحبِ علم او رنہایت وسیع النظر انسان تھے۔ وہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب’کاروانِ سلف‘پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے ماہنامہ صدائے ہوش ،لاہور اگست 2000ء کی اشاعت میں ادارتی صفحات پر لکھتے ہیں:
’’مشہور عالم دین، صاحبِ طرز ادیب، مؤرخ وسوانح نگار ، سیرت نگاری کے بے تاج بادشاہ اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی قلم کاری کا تازہ شاہکار ’کاروانِ سلف‘شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ا ور بلامبالغہ یہ حسین شاہکار ہے۔ موصوف کے قلم سے اس سے قبل ماضی قریب میں برصغیر پاک و ہند کی نامور شخصیات کے سوانحی خاکوں پر مشتمل دو مجموعے موسومہ ’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘ ،اور ’بزم ارجمنداں‘ شائع ہو کر عوام و خواص سے خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔ ان میں موصوف نے اہل حدیث حضرات کے علاوہ دیوبندی، بریلوی ،شیعہ اور بعض غیر مسلم شخصیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اگرچہ بعض کم فہم ’وہابیوں‘نے اس پر ناک بھوں بھی چڑھایا ،مگر ہمارے نزدیک ان کتب کا یہی حسن ہے جس کی بنا پر اسے سب پڑھیں اور اس طرح بھٹی صاحب نے اہل حدیث اکابرین کے کام کو دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگوں تک پہنچا دیا ۔ مولانا اسحاق بھٹی عرفِ عام میں ہمارے ذہنوں میں موجود ’مولانا‘کے تصور پر شاید پورے نہ اُتریں اور انہیں پہلی مرتبہ دیکھنے والا قاری شاید انھیں مولانا محمد اسحاق بھٹی تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ بالکل سادہ مزاج، صوفی منش، درویش صفت اور صوفی منش بھٹی صاحب سب سے پیار کرنے والے اور سلفیوں کے لیے شفیق و مہربان ہیں۔’کاروانِ سلف‘کے نام سے شائع ہونے والا حسین شاہکار ان بعض’ناراض اہل حدیث‘ حضرات کو خاموش جواب ہے، جو پہلے مجموعوں پر چیں بجیں تھے۔ اس مجموعے میں 20کی تعداد میں اپنے وقت کے نابغہ روزگار مشاہیر کے تذکرے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بڑی جماعتوں ، تنظیموں ، میدانِ جہاد کے شاہ سواروں ،شاہوں ، ملک و بیرون ملک یونیورسٹیوں کے سند یافتہ صاحبِ جبہ و دستار سے جو کام نہ ہو سکا، وہ اکیلے بھٹی صاحب نے کر دیا، سچ ہے
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں‘‘
6. ہفت روزہ الاعتصام کے مدیر مسئول اور مکتبہ سلفیہ لاہور کے مالک و مدیر مولانا حافظ احمد شاکر بھٹی صاحب کی تصنیف دل پذیر ’قاضی محمد سلیمان منصورپوری‘کے آغا ز میں لکھتے ہیں:
''مولانا بھٹی کا اندازِ تحریر بہت جاذب، رواں دواں ، شستہ اور سلیس ہے۔ واقعات نگاری اس طرح کرتے ہیں کہ قاری ان کے طرزِ بیان میں خود کو بہتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ موصوف کا حافظہ اﷲ تعالیٰ کی خاص عطا ہے اور اس میں محفوظ واقعات کا خوبصورت اظہار ان کا کمال ہے۔ ان کا قلم اگرچہ کبھی کبھی مؤرخ کے قلم کی طرح ’بے رحم‘بھی ہو جاتا ہے لیکن اکثر تذکروں میں ان کے الفاظ عقیدت کے میلان و رجحان کے غما ز ہوتے ہیں۔ ان کے قلم سے تذکار وتراجم رجال کا ڈھیر لگ جانے کے باعث بعض اصحابِ علم وقلم انھیں دورِ حاضر کا امام ذہبی کہتے ہیں، جو صحیح معلوم ہوتا ہے۔‘‘
اہل علم وفضل کی ان آرا کے بعد اب بھٹی صاحب کے شخصی خاکوں کے مجموعوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے:
’نقوش عظمتِ رفتہ‘ اس کتاب میں 21مقتدر شخصیات کے حالاتِ زندگی ان کی تمام عادات و اطوار ، علمی و ادبی ، سیاسی اور مذہبی خدمات کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر مرتسم کیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں بلا امتیازِ مشرب تمام فقہی مسالک: اہل حدیث، حنفی ، دیوبندی، بریلوی احباب کے اکابر علماء کو جگہ دی گئی ہے۔ بھٹی صاحب کی وسیع النظر ی ملاحظہ کیجیے کہ انھوں نے تعصب اور تنگ نظری سے بالاتر ہو کر قلم کاری کی ہے۔
انھوں نے ہندوستان کے سابق صدر اور اپنے جگری یار گیانی ذیل سنگھ پر بھی طویل مضمون لکھ کر اس کتاب میں شامل اشاعت کیا ہے۔ اس کتاب کا سب سے طویل خاکہ مولانا سید محمد داود غزنوی پر ہے جو 112صفحات پر محیط ہے۔ بھٹی صاحب نے مولانا غزنوی مرحوم کے ساتھ اپنی 15سالہ رفاقت کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولاناحافظ محمد گوندلوی، مولانا عطاء اﷲ حنیف، مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، حمید نظامی (نوائے وقت)، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولاناکوثرنیازی اورقاضی حبیب الرحمن منصورپوری کے علاوہ کتاب میں شامل دیگرحضرات کے سوانحی خاکے اُردوزبان وادب میں ندرت کاپہلولئے ہوئے ہیں۔640صفحات پرمشتمل یہ کتاب عہدِرفتہ کی نادرمعلوماتی دستاویزہے۔یہ کتاب1997ء میں مکتبہ قدوسیہ غزنی سٹر یٹ اُردوبازارلاہورکی طرف سے شائع ہوئی۔
’بزمِ ارجمنداں ‘ سوانحی خاکوںکایہ دوسرامجموعہ ہے جومحترم بھٹی صاحب کے گوہربارقلم سے معرضِ وجود میں آیا۔ اس میں مولاناابوالکلام آزاد،شیخ الاسلام مولاناثناء اﷲامرتسری،حافظ عبداﷲروپڑی ،ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم،ریئس احمدجعفری،مولانامحمدعلی لکھوی،شاہ محمد جعفر پھلواروی،مولانامحمدصدیق لائل پوری، مفتی جعفر حسین، مولانا معین الدین لکھوی ، مولانا عبداﷲ گورداس پوری، ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ ا س کتاب کاسب سے طویل مضمون مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم پر ہے جو سوا سو صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ دیگر عالی قدر حضرات کے سوانحی خاکے بھی نہایت تکریم سے لکھے گئے ہیں۔ یہ کتاب معلوماتی، ادبی اور علمی خوبیوں سے مزین ہے اور گزشتہ دور میں ان عالی قدر بزرگوں کی طرف سے آزادی کے لیے کی گئی کوششوں کا پتا دیتی ہے اور ان کے ملی و علمی کارناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد 629ہے اور یہ کتاب مارچ1999ء میں مکتبہ قدوسیہ لاہور کی طرف سے طبع ہوئی۔
’کاروان سلف‘ اس کتاب میں بیسویں صدی عیسوی کے بیس فحول علماے اہل حدیث کے حالات زندگی حیطۂ تحریر میں لائے گئے ہیں۔ ان تاریخ ساز اور نامور علماے کرام میں: مولانا عبدالوہاب دہلوی، مولانا سید محمد شریف گھڑیالوی، مولانا عطاء اﷲشہید،مولانا نیک محمد، حکیم نور الدین لائل پوری، مولانا عبدالستار دہلوی،مولانا عبداﷲ اوڈ، مولانا سید محب اﷲ شاہ راشدی، مولانا عبداﷲ لائل پوری،مولاناسید بدیع الدین راشدی، مولانا محمد رفیق خاں پسروری اور حافظ عبداﷲ بہاول پوری کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ کاروانِ سلف کا ہر معزز رکن اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ بلاشبہ یہ نیک طینت لوگ قول کے سچے، عمل میں پختہ اور کردار کے مثالی تھے۔ اُنھوں نے ہندوستان کے صنم کدۂ ظلمت میں توحید و سنت کی اشاعت کی۔ قرآن و حدیث کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے لوگوں میں اسلامی تعلیم کو پھیلایا اور احکام نبو ت کی اہمیت اُجاگر کرکے عمل بالحدیث کو فروغ دیا۔ بھٹی صاحب نے داعیانِ حق کے ان تابندہ ستاروں کی کہکشاں سجا کر جماعت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کاروانِ سلف ہماری گزشتہ صد سالہ دعوتی، تبلیغی، تصنیفی، تدریسی اور دینی سرگرمیوں کا آئینہ پیش کرتی ہے۔ اس خوبصورت کتاب کو ہمارے فاضل دوست مولانا محمد سرورعاصم صاحب نے اپنے اشاعتی ادارے مکتبہ اسلامیہ، فیصل آباد کی طرف سے1999ء میں شائع کیا۔ صفحات کی تعداد516ہے۔
’قافلہ حدیث‘ 26علماے اہل حدیث کے حالات و واقعات پر مشتمل شخصی خاکوں کا یہ چوتھا مجموعہ ہے۔ اس میں دل چسپ پیرائے میں ان عظیم المرتبت علماے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی احاطہ تسوید میں لائے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل ہندوستان اور پاکستان کی چند معروف شخصیا ت کے نام یہ ہیں: مولانا سید امیرعلی ملیح آبادی، مولانا محمد سلیمان روڑی والے، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، صوفی نذیر احمد کاشمیری، مولانا شمس الحق سلفی، حافظ عبداﷲ بڈھیمالوی، مولانا محمد حنیف ندوی، پروفیسر عبدالقیوم، مولانا نور حسین گھرجاکھی، مولانا محی الدین لکھوی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا عبدالعظیم انصاری، مولانا محمدصادق خلیل، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، ڈاکٹر وصی اﷲ اور مولانا محمد عزیرشمس۔یہ کتاب پہلی بار جنوری 2003میں مکتبہ قدوسیہ لاہور کی طرف سے شائع ہوئی ۔ کتاب کے صفحات 645 ہیں۔
بھٹی صاحب کی دیگر تاریخی و سوانحی کتب اور تراجم کے تعارف کے لیے دوسری قسط کا انتظار فرمائیں۔
بھٹی صاحب کی بیماری اور وفات مولانا محمد اسحق بھٹی نے بھرپور طریقے سے زندگی کی 91بہاریں بسر کیں۔ ان کی صحت بہت اچھی تھی، جوانوں سے بڑھ کر عزم و ہمت رکھتے تھے اور ان کا قلم بڑی تیزی سے چلتا تھا اور وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں بھی علمائے اہل حدیث کے تذکار پر کئی کتب احاطۂ تحریر میں لے آئے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے راقم کو ٹیلی فون پر کہنے لگے کہ شخصیات پر میری آخری کتاب ’بوستانِ حدیث‘ہو گی جو تکمیل کے بعد کمپوزنگ کے مراحل میں ہے۔ اس کے بعد غزنوی علماء پر کتاب لکھوں گا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے راقم کو حکم دیا کہ میں ان کی کتاب فقہائے ہند کی تیرہویں صدی کے حصہ دوئم سے مولانا عبداللّٰہ غزنوی کے حالات فوٹو کاپی کروا کر بجھواؤں۔ میں نے بھٹی صاحب کے حکم کی فوری تعمیل کی اور اس کی وصولی پر اُن کا محبت بھرا فون آیا۔ چند روز پہلے ان کا فون آیا کہ میاں باقر کے مدرسے کا نام کیا ہے۔ میں نے ان کو بتایا کہ ’مدرسہ خادم القرآن و الحدیث، جھوک درادو طور‘ تو بڑے خوش ہوئے۔
ان سے میل ملاقات اور سلام و پیام کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ وہ راقم پر بڑی شفقت فرماتے اور گاہے گاہے تحریر و نگارش کے سلسلے میں مفید مشورے دیتے۔اُنہوں نے اپنی کتاب چمنستانِ حدیث میں راقم کے بارے ایک مضمون بھی لکھا تھا جس میں میرے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ میری کتابوں کا شاندار طریقے سے تعارف کروایاتھا۔ اس کے علاوہ چمنستانِ حدیث کے کئی مقامات پر میرا تذکرہ کیا ہے۔ ان سے میری دوستی کوئی بیس برسوں پر محیط تھی۔ اس عرصے میں میں نے ان کو نہایت قریب سے دیکھا، ان کے ساتھ اسفار بھی کئے ،طویل مجالس میں بھی بیٹھا، میں نے ان کو ہمیشہ مخلص پایا۔ مجال ہے جو اُنہوں نے کبھی کسی دوسرے کی برائی کی ہو۔ جس کا بھی تذکرہ کیا، نہایت اچھے الفاظ میں کیا۔وہ جماعت اہل حدیث کے تمام گروہوں میں اکابر اور اصاغر کے ہاں مقبول اور محترم تھے۔
21دسمبر 2015ء پیر کو مجھے ان کے برادرِ صغیر جناب سعید بھٹی صاحب نے ان کی بیماری کی اطلاع دی اور ساتھ ہی ان کا پیغام دیا کہ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب سے پوچھ کر بتاؤں کہ پیشاب کی نالی کی وجہ سے نماز کی ادائیگی کسی طرح کروں؟ میں نے اثری صاحب سے مسئلہ پوچھ کر محترم سعید بھٹی صاحب کے ذریعے بات اُن تک پہنچا دی۔ شام تک سعید بھٹی صاحب اور لقمان بھٹی صاحب سے کئی بار رابطہ ہوا، اب ان کی حالت بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن اگلے روز نمازِ فجر کے وقت برادرم حافظ فاروق الرحمٰن یزدانی صاحب نے ان کی وفات کی خبر سنا کر غم زدہ کر دیا۔ اس طرح ایک تاریخ ساز عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی ایک نماز ِجنازہ ناصر باغ لاہور میں 22؍دسمبر 2015ء کی دوپہر لاہور میں ادا کی گئی جو محترم ڈاکٹرمحمد حماد لکھوی صاحب نے پڑھائی۔ جبکہ ان کے آبائی گاؤں منصور پور ٹیسیاں جڑانوالہ میں نمازِ عشاء کے بعد حافظ مسعود عالم کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ دونوں جگہ علماء عوام اور صحافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ قبر پر دعا مولانا فاروق الرحمٰن یزدانی صاحب نے کروائی۔ اللّٰہ تعالیٰ بھٹی صاحب کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے۔آمین ثم آمین!
حوالہ جات[1] راقم الحروف ایک سال ’اُردو دائرہ معارف اسلامیہ‘، پنجاب یونیورسٹی میں بطورِ سینئر ایڈیٹرخدمات انجام دیتا رہا ہے اور اس کے مصنفین کا اشاریہ بھی میرے زیر ترتیب رہا۔ اس دوران مولانا اسحٰق بھٹی صاحب نے مجھےکہا کہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ میں اُن کے شائع شدہ مقالات کی فہرست اُن کو میسر کی جائے۔ مولانا بھٹی کے مقالات درج ذیل موضوعات پر شائع شدہ ملے: محمد لکھوی، محمد بن عبد الوہاب، فتاویٰ عالمگیری، ملائکہ ، منافق ،مرتد وغیرہ (حسن مدنی)
[2] تنویر قیصر شاہد آج کل روزنامہ ’ایکسپریس‘اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرہیں اور ان کا کالم ’تعاقب‘ کے عنوان سے اس اخبار میں چھپتا ہے ۔ بھٹی صاحب سے طویل عرصے اُن کا یارانہ قائم رہا ۔