مسلم دنیا کی نامور سیاسی و علمی شخصیت ، ڈاکٹر عبد اللّٰہ عبد المحسن الترکی جو چندسال سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے ہیں، 22 نومبر 2015ء کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوت پر اسلام آباد تشریف لائے۔ اس موقع پر اُنہوں نے بین المذہبی مکالمہ کے موضوع پر UNITE کی بین الاقوامی کانفرنس کے علاوہ اپنے اعزاز میں دیے گئے متعدد استقبالیوں میں شرکت کی، جبکہ اسلامی یونیورسٹی میں ’دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں علماے کرام کا کردار‘کے عنوان پر پاکستان بھر سے تشریف لانے والے علماءاور اہل علم ودانش کے نمائندہ اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ فیصل مسجد سے ملحقہ شریعہ اکادمی کے سیمینارہال میں منعقد ہونے والے اس مذاکرہ میں سینیٹر راجہ ظفر الحق، ترکی کے نائب وزیر مذہبی اُمور،مولانا سمیع الحق، پروفیسر ساجد میر، ڈاکٹر احمد یوسف دُریویش، شیخ محمد سعد دَوسری، محمد عبدہ عتین ، مولانا یٰسین ظفر، صاحبزادہ ساجد الرحمٰن اورڈاکٹر سہیل حسن سمیت یونیورسٹی اور جامعات کے فاضل اساتذہ کرام نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر راقم الحروف کے مقالہ کا متن ،بعض اضافہ جات کے ساتھ ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے ...
’اسلامی معاشره‘ ایک نظریاتی معاشرہ ہے جس میں بسنے والے مسلمان اسلامی عقائد اور مسلم نظام حیات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ انسانی حاکمیت کے بجائے اتباع واطاعتِ الٰہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس نظامِ اطاعت کی وضاحت علماے کرام کرتے ہیں، اور حکام ووالیان ِامر اس نظام کی تنفیذ کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کے بیان کردہ دائرہ کار میں ہی حکام کی اطاعت مشروع ہے، اگر وہ اللّٰہ کے حکم کی نافرمانی کریں تو ان کی اطاعت کی ضرورت نہیں، گویا حکام کی اطاعت کی بنیاد بھی کتاب وسنت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے آگ میں کودجانے کے حکم پر مشتمل مشہور واقعہ میں ارشاد فرمایا:
«لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ»[1]
’’اللّٰہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، طاعت تو معروف معاملہ میں ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اطاعت ولی الامر والی آیت[2] کی تشریح میں فرماتے ہیں:
فإذا أمروا بمعصية الله فَلَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ فَإِنْ تَنَازَعُوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ﷺ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ وُلَاةُ الْأَمْرِ ذَلِكَ، أُطِيعُوا فِيمَا يأمرون به من طاعة الله ورسوله، لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﷺ، وَأُدِّيَتْ حقوقهم إليهم كما أمر الله ورسوله، قال تعالىٰ: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾[3]
’’اگر حکام اللّٰہ کی معصیت کا کوئی حکم دیں، تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اگر خالق ومخلوق میں کوئی اختلاف ہوجائے تو وہ اس اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کریں گے۔ اگر حکام ایسا نہ کریں تو ان کی اسی امر میں اطاعت کی جائے جہاں وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کا مطالبہ کریں کیونکہ یہ دراصل اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہی ہے۔اور حکام کے حقوق ادا کئے جائیں گے، جیسا اللّٰہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ وسرکشی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
اس لحاظ سے مسلم معاشرہ میں علمائے کرام کی اہمیت غیرمعمولی ہے کیونکہ کتاب وسنت کا کسی معاملہ پر اطلاق اُن کی تشریح ورہنمائی کا ہی محتاج ہے۔ معاشروں کی صلاح وفلاح اور حکمرانوں کی اطاعت کے باب میں ان کی ہدایت ورہنمائی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَأُولُوا الْأَمْرِ صِنْفَانِ: الْأُمَرَاءُ وَالْعُلَمَاءُ، وَهُمْ الَّذِينَ إذَا صَلَحُوا صَلَحَ النَّاسُ، فَعَلَى كُلٍّ مِنْهُمَا أن يتحرّى بما يَقُولُهُ وَيَفْعَلُهُ طَاعَةَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَاتِّبَاعَ كِتَابِ اللَّهِ. وَمَتَى أَمْكَنَ فِي الْحَوَادِثِ الْمُشْكِلَةِ مَعْرِفَةُ مَا دَلَّ عَلَيْهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ كَانَ هُوَ الْوَاجِبَ[4]
’’مسلم معاشرے کے اُولی الامر دو قسموں پر ہیں: حکام اور علما... جب ان دونوں کی اصلاح ہوگئی تو عوام کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ ان دونوں کو اپنے قول وکردار میں اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت او راتباع کی جستجو کرنا چاہیے۔اور جب بھی مشکل مسائل میں کتاب وسنت کے دلائل کی معرفت ممکن ہو تو اُسی کو لینا ضروری ہے۔‘‘
غرض مسلم معاشرے کی صلاح وفلاح، علما واُمراء کی صلاح پر موقوف ہے۔ کیونکہ ایک نظریۂ حکم واضح کرتے ہیں تو دوسرے اس کی تنفیذ کرتے ہیں۔ وہی مسلم معاشرے دین ودنیا میں کامیاب وکامران ہوتے ہیں جہاں اُمراء وعلما ہم آہنگی کے ساتھ معاشرے کو درست سمت لے کر چلتے ہیں۔
منصبِ رُشد وہدایت
اس بات کو ایک اور انداز سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلام میں منصب ِنبوت سب سے اہم اور برتر حیثیت رکھتا ہے، جس پر تمام اُمور کا ابلاغ اور تشریح وتشکیل موقوف ہے۔ نبی کریمﷺ نے حیاتِ طیبہ میں تین بنیادی فرائض انجام دیے:
1. رسالت: اللّٰہ سے وحی کی صورت میں ہدایات لے کر بطورِ رسول بنی نوع انسانیت تک پہنچائیں۔
1. اُسوۂ حسنہ: صرف ہدایات ہی نہ دیں، بلکہ ان پر عمل کرکے دکھایا، اور ایک مبارک اُسوۂ حسنہ دیا۔
3. تبلیغ : اور پھر اپنے قول وعمل اور زبان سے اس پیغام رسالت کو پھیلانے کی تمام تر مساعی بروئے کار لائے۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور پیغمبرانہ جدوجہد کو اِن تین دائروں میں مختصراً سمیٹا جاسکتا ہے۔ ایک عالم دین بھی انہی مقاصد کے لیے مصروفِ کار ہوتا ہے اور یہی اس کا مطمح حیات ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماے حق کو بزبانِ رسالت انبیاے کرام علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ صحیح بخاری میں ایک باب کا عنوان یوں قائم کیا گیا ہے:
باب العِلْمُ قَبْلَ القَوْلِ وَالعَمَلِ لِقَوْلِ اللهِ تَعَالَى:﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ...﴾ فَبَدَأَ بِالعِلْمِ «وَأَنَّ العُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وَرَّثُوا العِلْمَ، مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ...»[5]
’’باب کہ علم کا مقام ، قول وکردار سے پہلے ہے۔کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: ’’اے نبی ! جان لیں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔‘‘ سو اللّٰہ تعالیٰ نے عمل (استغفار )سے قبل عِلم (توحید) کو بیان فرمایا۔اور فرمان نبوی ہے : کہ علماء انبیاے کرام کے وارث ہیں، انبیا نے علم کی وراثت دی ہے۔ جس کو علم مل گیا، اسے بہترین نعمت میسر آگئی۔‘‘
گویا کسی بھی مسئلے ومعاملے پر عمل درآمد سے قبل علم ونظریہ کو بیان کرکے نکھارا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں عمل کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ قرآن بھی اپنے ماننے والوں سے عقل وبصیرت کا مطالبہ کرتا اور سوچے سمجھے بغیر مسلمانوں کو آیاتِ قرآن کی اتباع سے بھی روکتا[6] ہے۔اس لحاظ سے علماے کرام انبیا ورُسل کے وارث ہیں، جو کتاب وسنت کی تشریح کرتے ہیں، حالات پر ان کا اطلاق کرتے ہیں اور پھر حکام ووالیان ان تشریحات کی روشنی میں افراد ومعاشروں کے لیے اپنی زندگیاں سنوارنے کا عملی نظام قائم کردیتے ہیں۔
کسی بھی فرد واجتماع پر اُس کے مسلمہ عقائد ونظریات کی حکومت ہوتی ہے۔ بہت سے انسانوں سے ایک معاشرہ اور حکومت وملت تشکیل پاتی ہے۔ انسان جس نظریہ کا حامل ہوتا ہے، اپنے قول وکردار سے اسی پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ اس عقیدہ ونظریہ کی سب سے مؤثر تشکیل کتاب وسنت کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللّٰہ کے قرآن اور نبی کے فرمان سے بڑھ کر کوئی ایسا مؤثر ذریعہ نہیں، جو کسی مسلمان کی ذہنی تشکیل میں کارگر ثابت ہو۔ قرآن وسنت سے متعلقہ ہدایت کی نشاندہی ، ان کی تبلیغ اور حالات پر ان کا اطلاق علماے کرام ہی کرتے ہیں۔ اس ناطے علما ے کرام کا کردار مسلم معاشرے میں غیرمعمولی تقدس اور اہمیت رکھتا ہے، بالخصوص ان حالات میں وہ جب وہ اس پر خود خلوص دل سے عمل پیرا بھی ہوں تو ان کے قول وکردار کی تاثیر دو چند ہوجاتی ہے۔
عمل سے قبل نظریہ کی اصلاح
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بت شکنی سے قبل ، برسہا برس تک تبلیغ ودعوت میں صرف کیے۔ فتح مکہ كے موقع پر بتوں کو پاش پاش کرنے سے قبل بھی آپ کے پاس ہمیشہ ایسے جانثار موجود رہے جو اللّٰہ کے گھر کو بتوں سے پاک کرسکتے تھے، لیکن جب تک نظریاتی وعلمی طورپر آپ نے بت پرستی کی گمراہانہ بنیادوں کو واضح ؍ختم نہ کرلیا، اس وقت تک آپ نے بتوں کو ڈھانے سے گریز کیا۔ اس سے بھی علم ہوتا ہے کہ عمل واقدام سے پہلے ذہنی خلفشار کا خاتمہ اور علمی نکھار ضروری ہے۔
آپ ﷺ اپنے داعیوں کو دیگر علاقوں میں بھیجتے اور انہیں اقدام سے قبل دعوت کی تلقین کرتے، جیساکہ سیدنا معاذ بن جبل کی مشہور احادیث میں ہے، سیدنا ابن عباس سے مروی ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى اليَمَنِ، قَالَ: «إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ...»[7]
’’جب نبی کریم ﷺنے سیدنا معاذ کو یمن کی طرف (عامل بنا کر )بھیجا تو تلقین فرمائی: تو اہل کتاب میں سے ایک قوم کی طرف جارہا ہے۔ سب سے پہلے تجھے چاہئے کہ اُنہیں اللّٰہ کی بندگی کی دعوت دے، جب وہ اللّٰہ کو پہچان لیں تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن پر ان کے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں...‘‘
مذکورہ بالا نکات سے مسلم معاشرے میں دینی قیادت کا کردار بالکل اظہر من الشمس ہوجاتا ہے اور اُن کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ بالفرض کوئی تبدیلی یا اقدام کسی وقتی دباؤ یا سختی کے نتیجے میں نافذ کربھی دیا جائے لیکن ذہنوں میں اس کی اہمیت اور نوعیت راسخ نہ ہو تو کچھ ہی عرصے میں اس دباؤ کے ختم ہوتے ہی حالات دوبارہ پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتے ہیں او رمسلم معاشرہ باہمی خلفشار کا شکار رہتا ہے ۔اس لحاظ سے مسلم معاشرہ جبر وتحکم کی بجائے ارشاد واتباع ِ الٰہی کا رجحان رکھتا ہے۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں علما کا کردار
دہشت گردی ایک ناسور ہے اور فرقہ واریت مسلم معاشروں کی طاقت کو کھوکھلا کیے دے رہی ہے۔ یہ دونوں مسئلے ، فی زمانہ ملتِ اسلامیہ کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ایک کے نتیجے میں امن وامان جیسی عظیم الشان نعمت سے محرومی اور دوسری کے نتیجے میں اتحاد جیسی ملی قوت کا خاتمہ سامنے آرہا ہے۔ ان دونوں مسائل کا تعلق اور ان کی بنیادیں، کسی اور نہیں بلکہ خالص مذہبی نظریات میں ہی پیوست ہیں۔ ان دونوں مسائل کا استدلال بھی خالص مذہبی نوعیت کا ہے اور اُن سے زیادہ متاثر ہونے والا بھی مذہبی طبقہ ہی ہے، اوراس سلسلے میں پائے جانے والے افراط وتفریط کو کتاب وسنت کی روشنی میں ہی واضح کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ان مسائل کی مذہبی حیثیت ونوعیت کو واضح نہیں کیا جاتا، دینی پلیٹ فارم سے اُن کے بارے میں واضح اور دوٹوک رہنمائی نہیں کی جاتی، اس وقت تک محض حکومتی اقدامات اور جبر ودباؤ سے اُن پر دائمی قابو نہیں پایا جاسکتا۔
مذہبی قیادت کی مختلف صورتیں ہیں: مفتیان وقاضیان،ائمہ وخطبا، واعظین وداعیان،علما ،مدرّسین علوم اسلامیہ، منتظمین مراکز ومدارسِ دینیہ، قائدین وذمہ دارانِ تحریکاتِ اسلامیہ، اہل علم وقلم، اہل فکر ودانش،سرکاری جامعات میں علوم اسلامیہ کے اساتذہ وپروفیسرز، تحقیقی اور اشاعتی وابلاغی اداروں کے ذمّہ داران او رقائدین ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذمّہ داران وغیرہ [8]...
اور ان میں اکثر کے پاس ابلاغ کی مؤثر ترین صورت مسجد کا مقدس منبر او ر خطباتِ جمعہ ہیں، جن میں ہمہ تن گوش ہوکر شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے۔ اس سٹیج پر پورے تقدس وانہماک سے ہرمسلمان سر جھکاکر، دین کا پیغام سنتا ہے۔اتنا بڑا سٹیج اور ایسا مقدس پلیٹ فارم کسی بڑے سے بڑے حکمران کو بھی میسر نہیں۔ یہ مالک الملوک اور خالق کائنات کے گھر میں، خالق کی پیش کردہ رہنمائی کا نظام ہے۔ ان خطبا کے استدلال کا محور اللّٰہ کا قرآن اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہوتا ہے جو اہم ومقدس ترین استدلال ہے۔
دینی قیادات اس سلسلے میں درج ذیل پہلؤوں سے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے:
1. شرعی تعلیمات کی وضاحت اور علمی نکھار کے ذریعے... دہشت گردی کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مصداق کیا ہے اور کیا نہیں؟شریعت میں دہشت گردی کی مذمت کس کس طرح کی گئی ہے ، اور فساد فی الارض کی بدترین سزا [9] کیا بتلائی گئی ہے؟علماے کرام اپنے شرعی موقف کو کتاب وسنت کے دلائل ، عقلی ومنطقی استدلال، تاريخی مثالوں اور عبرت آموز واقعات سے مزین کرکے مختلف اسالیب ووسائل سے معاشرے میں پھیلاسکتے ہیں۔مثلاً
1. خطاباتِ جمعہ کے ذریعے
2. دعوتی دروس وخطابات کے ذریعے
3. تعلیم وتعلم او راپنے طلبہ کے فکری نکھار اور علمی رسوخ کے ذریعے
4. ٹی وی مذاکروں، مباحثوں او رخطابات کے ذریعے
5. اخبارات میں مضامین واشتہارات او رخبروں و سیمینارز کے ذریعے
6. مختصر تحریروں، کتابچوں، پمفلٹوں ، کارڈز، ہینڈبلوں کی تیاری اور عوامی مقامات پر اُن کی تقسیم ، اشتہارات، بل بورڈز، وال ہینگنگز،بینروں وغیرہ کی صورت میں
2. علماے حق کا ہر مسلمان کے ہاں خاص احترام پایا جاتا ہے۔ بالخصوص دینی دلائل کی بنا پر گمراہی کا شکار ہونے والے دراصل حق اور صلاح کے جویا ہوتے ہیں، اپنی کم علمی اور وافر دینی جذبہ کے سبب غلط اور انتہا پسندانہ موقف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر ان سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال میں علما کو آگے بڑھایا جائے تو اس سے ان کے علم واحترام کی بنا پر حالات میں بہت سی اصلاح ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
3. علماے کرام اس موضوع پر پائے جانے والے ابہام اور اعتراضات کا شرعی دلائل سے خاتمہ کرکے اور درست واقعاتی صورتِ حال کو جان کر، اور اس کو مثبت انداز میں پھیلا کربھی ذہنی خلفشار کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت راست فکراور ممتاز علما کو متحد کرکے، ان کے زیر اثر حلقوں میں اُن کے پیغام کو پھیلاسکتی ہے، جس کے لیے ان کے براہِ راست خطابات اور ان کی تحریریں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
4. مساجد کے خطبات ودروس، مدارس ووفاقات کے نصابات، سکول وکالج اور جامعات کے نصابات، جلسہ جات وسیمینار کے موضوعات،مباحثوں مذاکروں کے موضوعات میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی تردید اور متوازن ومعتدل رہنمائی کو مختلف اسالیب میں متعارف کرایا جائے۔
5. سلیم الفکر علما کے ساتھ ، معروف اور مؤثر میڈیا پرسنز کی میٹنگیں کرائی جائیں اور متفقہ نکات پر مشتمل ٹی وی پروگرام کرائے جائیں ، جس میں دلچسپی اور تاثیر کے لئے بطورِ خاص منصوبہ بندی اور تیاری کی جائے۔
نوٹ: عالم دین کی قدرومنزلت، اس کے قول وکردار کی راستی سے مشروط ہوتی ہے۔ اگر کسی عالم یا تنظیم کے بارے میں یہ شبہ پیدا ہوجائے کہ وہ حکام واُمرا کی خوشامد او رتائید کے لیے قرآن وسنت سے استدلال کرتا ہے، یا اس کا اپنا کردار اس کے موقف کی تصدیق وتائید نہیں کرتا ، تو اہل اسلام ایسے علماے سوء سے متنفر ہوجاتے اور ایسی صورت حال میں عوام کی ذہن سازی کی بجائے، مزید انتشار جنم لیتا ہے۔ اس لیے اس امر کی بطور خاص ضرورت ہے کہ مخلص اور راسخ علما کو صورتِ واقعہ میں پوری طرح شریک کیا جائے، اور ان کی رائے کو وزن دیا جائے اور نفس مسئلہ میں ان کو اس حل پر آمادہ کیا جائے ، ان پر جبر یا ترغیبات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا موقف عوامی تاثیر سے محروم ہوتا ہے۔ جب اور جس وقت ، جس مسئلہ میں علما اور حکام کی رائے متفق ہوگئی اور علما نے خلوص سے شرعی دلائل ومصالح کو پیش نظررکھتے ہوئے خالص رہنمائی کی تو اس سے صورتِ حال میں لازماً بہتری پیدا ہوجائے گی۔
6. علماکے مختلف رجحانات میں بعض اوقات عام مسلمان اُلجھ کررہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات علما کے مختلف رجحانات حقیقی ہونے کے بجائے، بعض حقائق سے لاعلمی یا معلومات کی کمی بیشی کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اگر مخلص ومتدین علماے کرام کو باہم مل بیٹھنے اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے اور سمجھنے سمجھانے کا موقع دیا جائے تو اس سے بہت سا ظاہری اختلاف پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر علما کو باہم مل بیٹھنے اور سمجھنے سمجھانے کا مستقل سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عوام الناس کو علماکی طرف سے ایک مشترکہ پیغام ہی جاری ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح علما کا ایک عوامی پلیٹ فارم بھی ہونا چاہیے جو عوام کو رہنمائی دیں اور ان کی آرا کو عوام وحکومت ہردو کو وزن دینا چاہیے۔
7. پاکستان میں مختلف فقہی مکاتبِ ہائے فکر پائے جاتے ہیں۔ ان مکاتبِ فکر کے فقہی کے ساتھ ساتھ فکری وسیاسی رجحانات اور تشخص بھی جداگانہ ہیں۔ یہ تشخص اس قدر پختہ ہیں کہ حکومت کے لیے اُن سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے فقہی امتیازات میں کمی لانےکے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ قرآن وسنت کی بنا پر باہمی اتفاق واتحاد کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے ۔ کیونکہ یہی وہ واحد بنیاد ہے، جس پر اللّٰہ کی رسی ہونے کے ناطے سب کا اتفاق اور آخر کار ملت کا اتحاد ممکن ہے۔
8. جس طرح دینی وفکری بنیادوں پر فرقہ واریت حرام ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک ہی اسلامی اکائی اور اخوت پر مشتمل ہونا چاہیے، اسی طرح حکام کی سیاسی بنیادوں: رنگ ونسل، زبان وقوم، علاقہ ووطن کی بنا پر پر فرقہ واریت بھی ایک مذموم امر ہے۔ اگر مختلف حکام اپنی رعایا کو علیحدہ علیحدہ وطنیت یا تشخص کے نام پر علیحدہ کرنا چاہیں تو یہ بھی شرعاً ایک قابل مذمت امر ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی طرح نسلی، لسانی، علاقائی،وطنی اور سیاسی فرقہ واریت بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ اسلامی اخوت ایک بالا تر نظریہ ہے ، جس کی رو سے نبی کریم ﷺکا ہر اُمّتی ، اسلامی اخوت میں پرویا ہوا اور ایک جیسے حقوق رکھتا ہے۔ اور اسی بات کی نبی کریمﷺ نے ملت اسلامیہ کو خطبہ حجۃ الوداع میں تلقین فرمائی ہے۔
شرعی تعلیم وتبلیغ کی ذمّہ داری سے حکومتی گریز
جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ مسلم معاشرہ حاکمیتِ الٰہیہ پر استوار ہوتا ہے اور اس حاکمیتِ الٰہیہ کا موجودہ حالات پر انطباق اور اس میں شریعت کے مقصود ومنشا کی نشاندہی علماے کرام کی ذمہ داری اور اُن کے علم وفضل کی مرہونِ منت ہے۔ دیگر معاشروں کی بہ نسبت اپنی بنیادی ساخت میں اس اہم ترین عنصر کی بدولت مسلم معاشروں میں دین اور اس کے ماہرین کا کردار بہت کثیرالجہت ہوتا ہے۔ دین کی اس غیرمعمولی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو غور کیجئے کہ ہمارے ملک، قوم، اور فرد کے تشخص میں دین ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے نام میں اسلامی کا سابقہ، ہمارے شہروں کے ناموں میں اسلامی مناسبتیں اور افراد کے نام اور تشخص میں اسلامی حوالے بتاتے ہیں کہ ہرمقام پر دین کا کردار بنیادی ہے۔ گویا دین کسی قوم وفرد کی دنیا وآخرت میں اہم ترین شناخت ہے!!
دین بیزاری کے اس دور میں بہت سی کوششیں کی گئیں کہ دین کے حوالے کو اضافی قرار دے دیا جائے لیکن آج بھی یہ مسلم معاشروں اور مسلم ممالک کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔ اسلامی ممالک کے دساتیر اس کو اوّلین حیثیت دیتے ہیں اور کم ازکم زبانی ؍تحریری حد تک اس کے اتباع او رفروغ کا دم بھرتے ہیں۔ مزید برآں دینی اعتقادات کی اہمیت کو آج بھی دنیا کے ہر فورم پر بنیادی تعارف حاصل ہے۔ ڈالر کے نوٹ پر ’اللّٰہ پر اعتماد کا دعویٰ‘ ہو یا امریکی صدر کا اپنے عہدے کے حلف نامہ، مذہب کے حوالے کے بغیر کہیں بات نہیں بنتی۔اس لیے دین کے معاشرتی کردار سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے بھی پاکستانی حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے دینی حقوق کی پاسداری کرے، اُن کو ان کے دین کےبارے مستند تعلیم دے۔ ان کے مذہبی اداروں اور مساجد ومدارس کو قائم کرے، ان کا قبلہ خالص اسلام پر جاری وساری کرے اور اپنے باشندوں کے دینی فرائض سے بخوبی عہدہ براہو۔ کیونکہ ایک اسلامی ریاست کا معاصر مغربی ریاست سے یہی بنیادی امتیاز ہے۔
افسو س کہ اہل مغرب سے مختلف علوم وفنون سیکھتے سیکھتے ہم اپنے اسلامی اعتقادات ونظریات سے بھی محروم ہوگئے اور پاکستانی حکومت، اُتنے ہی دینی فرائض انجام دینے پر قانع ہوگئی جتنا کوئی یورپی سیکولر ریاست اپنے عوام کے دینی فرائض کی پاسبان ہوتی ہے۔ جس طرح کسی مغربی ریاست کو اپنے بسنے والوں کی دینی تعلیم، عبادت گاہوں، اور دینی رہنمائی سے کوئی غرض نہیں ہوتی،یہی صورتِ حال پاکستانی حکومت کی بھی ہے۔ البتہ رسمی طورپر چند برائے نام اور روح سے عاری اقدامات کی خال خال کوششیں نظر آتی ہیں۔
اسلامی ریاست کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ ایک نظریاتی ریاست ہونے کے ناطے وہ اپنے شہریوں کے جان ومال کے ساتھ ان کے دین وایمان کی بھی محافظ اور معاون بنے۔ یہی بات قرآن کریم ، احادیثِ نبویہ اور ائمہ اسلام کے فرامین سے ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کو زمین پر جب اقتدار دینے کی بات کی تو فرمایا:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ ﴿٤١﴾[10]
’’اُنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
سورۃ النور کی آیت نمبر 55 میں اسلامی ریاست میں اللّٰہ کی بندگی کا فروغ اور شرک وبدعات کے خاتمہ کو حکومتی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی اسلامی حکومت کے فرائض بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں:
هي الرياسة العامة في التصدي لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية وإقامة أركان الاسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفيء والقيام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر نيابةً عن النبي ﷺ[11]
’’ ایسی عمومی حکومت جو نبی مکرم کی نیابت میں نفاذِ دین کے فرض کو پورا کرتی ہے کہ وہ دینی علوم کا احیا کرے، ارکانِ اسلام (توحید ورسالت، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج) کو قائم کرے، جہاد کو جاری کرے، متعلقہ لشکروں کی تنظیم کرے،وجوبِِ جہاد کا اعلان اور مجاہدین میں مالِ فے وغنیمت تقسیم کرے، شرعی نظامِ عدل کو قائم کرے، حدوود کا نفاذ کرے، مظالم کی بیخ کنی کرے،اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو جاری کرے۔‘‘
مذکورہ بالا اُمور کی مختصراً نشاندہی سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی حکومت کے فرائض مغربی ریاست سے کہیں زیادہ ہیں۔اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو میں اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی کروانا اور اس کے اسباب ووسائل میسر کرکے دینا ہے، اور اسی عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے ہی اس کی اطاعت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی نگرانی کرکے اُنہیں دین ودنیا کی سعادت سے بہرہ مند کرسکے۔
آج ہم بے شمارقومی مسائل کا اس لیے شکار ہیں کہ ہم نے دین کو ، جو مسلم فرد ومعاشرہ کی عظیم ترین قوت ہے، حب رسول اور اتباع رسالت کو جو ہر فردِ مسلم کی اوّلین زینت اور ایمانی تقاضا ہے، انسان کا ذاتی مسئلہ بنا کررکھ دیا اور اس کی ذمّہ داری سے غافل ہوگئے۔ لوگوں کی دینی رہنمائی کو اتنا غیر اہم سمجھ لیا گیا کہ جو جس کے جی میں آئے، اسلام کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں اُنڈیلتا رہے، چنانچہ لوگوں نے مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کا استحصال کرنا شروع کردیا۔حکومت کا اپنی اس ذمہ داری سے انحراف کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی معاشرہ دین کے نام پر گوناگوں اور منتشر خیالات وافکار کی آماجگاہ بن گیا ہے۔مفاد پرستوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے ایک دین کو کئی ایک فرقوں میں بانٹ کر اپنے اپنے پیروکار جمع اور مفادات منظّم کرلیے۔ اسلام کے نام پر اتنے منتشر ومتفرق پہلو لوگوں کو بتائے اور سکھائے گئے کہ ایک ملت کا تصور خواب ہوکر رہ گیا ۔
پاکستانی معاشرہ کے ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے ناطے یہاں دین کی اہمیت سے انکار کیا نہیں جاسکتا، اسلامی معاشرے میں دینی مسندات اور منبر ومحراب کو تقدس کو ختم کرنا ایک گناہِ عظیم کے مترادف ہے، لیکن اتنی بڑی مؤثر نظریاتی قوت کے کسی قبلہ اور مرکز ومحور کا تعین ہی نہ کرنا اور اس کی ذمہ داری سے بالکل غافل ہوجانا ایک سنگین ملّی مسئلہ ہے۔ ہم نظریاتی او رفکری انتشار کا اس وقت تک خاتمہ نہیں کرسکتے ،ان مسائل سے ا س وقت تک عہدہ برا نہیں ہوسکتے، جب تک اس کی ایک سنجیدہ ذمہ داری حکومتِ وقت اپنے سر نہ لے۔ اس مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ مذہب کے نام پر ہر خیال کی مذمت کرکے، مغربی تہذیب کو پروان چڑھا دیا جائ۔ اسلامی معاشروں میں ایسا ہونا ناممکن ہے ، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان رسولِ کریم ﷺسے قلبی تعلق کو آخر کا رنہیں چھوڑ سکتے۔اس کا حل یہی ہے کہ مسلم حکومت اپنے باشندوں کی دینی وفکری ذمہ داری کو قبول کرے اور عوام کی اصلاح وارشاد کا ایک منضبط ومنظم اور جامع پروگرام تشکیل دے۔
اوّل تو حکومتیں دینی ذمّہ داری سے ہی غافل ہیں اور اگر کبھی کسی کو اس شرعی ذمہ داری کا خیال آہی جائے تو مختلف فرقہ وارانہ رجحانات اور تنظیمیں اپنے اپنے معتقدات ونظریات کو سرکاری پلیٹ فارم سے فروغ دینےکے لیے پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں اسلامی حکومت کے فرائض بیان ہورہے ہیں، اس لیے حکومت کو سرکاری طور پر اسے ہی نافذ اور جاری کرنا چاہیے جو کسی مزید حوالے کے بغیر صرف اور صرف اسلا م ہو۔ اور صرف اسلام کے سلسلے میں قرآن کریم یہ واضح ہدایت دیتا ہے کہ ’’جب بھی تمہارا اختلاف ہو تو اسے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘[12] اور نبی کریمﷺ کا یہ فرمان بھی صریح موجود ہے کہ ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: قرآنِ کریم اور میری سنت جب تک ان کو تھامے رکھو گے، گمراہ نہ ہوگے۔‘‘ [13]چنانچہ قرآن کریم اور سنتِ رسول کو ہی اُصولی طور پر نافذ کرنے کی کوشش ہونی چاہیے اور انہی دو اساسات پر ملتِ اسلامیہ کا حقیقی اتحاد ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت اسلام کے کسی مخصوص برانڈ کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرے گی تو اوّل تو وہ اسلام کا کلی مصداق نہ ہوگا اور اس پر کبھی اختلاف کا خاتمہ بھی نہ ہوسکے گا۔ نتیجۃً جس قومی انتشار کی بات کی جارہی ہے، اس کا خاتمہ ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔
اسلام میں پاپائیت یا تھیا کریسی کا کوئی تصور نہیں، یعنی مذہب کے نام پر بعض انسانوں کا اپنے جیسے انسانوں پر حاکم بن بیٹھنا اور اللّٰہ کی منشا ومرضی کے نام پر، لوگوں پر اپنی حکومت چلانا۔ اسلام کا دامن ان علتوں سے پاک ہے۔ اللّٰہ کی منشا ومرضی معلوم کرنے کا واضح طریقہ ہمارے پاس قرآن کریم اور سنتِ رسول ﷺ ہے۔ چنانچہ انہی دنوں کا حقیقی نفاذ ہی اسلام کا تقاضا ہے، وگرنہ اسلام کے نام پر بعض فقہاے عظام کی تشریحات کوشریعت قرار دے کر نافذ کردینا، پاپائیت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ قرآن وسنت کی تشریح ایک علمی اہلیت کی متقاضی ہے جس کے اہل علمائے کرام ہی ہیں، لیکن اس اہلیت کے نام پر اُنہیں قرآن وسنت کو ہی نافذ کرنا چاہیے نہ کہ اپنی ذاتی آرا کو۔ اس لیے حکومتوں کو ایسے انفرادی رجحانات کے نفاذ سے بچنا چاہیے۔
الغرض اصلاحِ معاشرہ میں دین کا کردار غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے ، اور اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں، تاہم حکومتِ وقت کو اپنے شہریوں کی دینی ضروریات کی ذمہ داری بھی قبول کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خالص کتاب وسنت کو فروغ دینے کی مساعی کرنا چاہیئں، کسی مخصوص فرقے یا نظریے کو پروان چڑھانے سے قومی اتفاق واتحاد کو مزید نقصان پہنچے گا۔