عصرِ حاضر میں جہاں انسان نے اپنی قابلیت و استعداد کے جوہر متعدد شعبہ ہائے زندگی میں دکھلائے ہیں، ان میں ذرائع وسائل یا ذرائع ابلاغ ایک اہم موضوع ہے جو اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کا موضوع بحث ہے ۔ ذرائع وسائل کا استعمال خواہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، تعمیر و تخریب دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ سعادت مند ہے وہ فرد یا قوم جو وسائل کا استعمال ذاتی اور اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے کرتی ہے، جب کہ ان وسائل کا منفی مقاصد کے لیے استعمال ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ۔میڈیا کے کردار کے حوالے سے قرآن ہمیں درج ذیل رہنمائی کرتا ہے:
تقویٰ اور خدا خوفی
نیکی و صالحیت کے لیے آمادہ کرنے والی مہتم بالشان چیز تقویٰ یا خوفِ خدا ہے ۔ یہ خوفِ خدا زبردست ضابطے و حکمراں (Controller)کی حیثیت رکھتا ہے ۔ معاشرے کی کوئی روایت، حکومت کا کوئی ضابطہ اور پولیس کا کوئی ڈنڈا آبادی میں ، روشنی میں ، چورا ہوں اور شاہرا ہوں پر تو کام آتا ہے، لیکن آبادی سے دور کسی صحرا اور کسی ویرانے میں ، بند کمرے میں ، مخصوص چہار دیواری کے اندر یا رات کی مہیب و پرُخطر تاریکی میں صرف اور صرف تقویٰ کا قانون کام کرتا ہے ۔ اس خوف و خشیت الٰہی کی بنیاد پر ایک فرد اور معاشرے کی زندگی میں جن اخلاقِ فاضلہ کی نشو و نما ہوتی ہے، اس کی بنا پر رب العالمین کی جانب سے اس کے معزز ہونے کا اعلان ہوتا ہے:
﴿إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم﴾[1]
’’درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے ۔‘‘
اسی مضمون کو رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں جو نہایت اہم ہدایات پر مشتمل تھا یوں بیان فرمایاکہ
’’کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے ۔ کیونکہ تم بھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔‘‘[2]
راست بازی اور عدل و انصاف
صدق اور عدل، تقویٰ کے نمایاں ترین مظاہرمیں سے ہیں ۔ قرآن مجید میں کہیں سچائی کا طریقہ اختیار کرنے والوں کی متقین سے تعبیر کیا جاتا ہے[3] ، تو کہیں عدل و انصاف کے طریقے کو تقویٰ سے قریب تر بتایا جاتا ہے۔[4] صدق و عدل ذرائع ابلاغ کا حسین زیور ہے ۔ میڈیا اگر ان اوصاف سے عاری ہو جائے اور اس کے بجائے پروپیگنڈا، جھوٹ، فریب، نا انصافی، دھوکا اور تعصب کے دلدل میں پھنس جائے تو اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ ان عیوب و نقائص کے ساتھ عصرِ حاضر میں بے پناہ قوت و اثر کا حامل میڈیا اپنے ہی ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے اور عوام و خواص کی نگا ہوں میں مشکوک و مشتبہ ہی نہیں بلکہ مذموم بن جاتا ہے ۔ صحت مند اور کامیاب میڈیا کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت مہمیز کا کام کرتی ہے اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں کو فکر و عمل کی دعوت دیتی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے اللّٰہ رب العزت کا ارشاد جس میں صدق و عدل کی دونوں خصوصیات اصلاحِ اعمال اور عفو تقصیرات کی ضمانت کے طورپر جلوہ گر ہیں :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقولوا قَولًا سَديدًا ﴿٧٠﴾ يُصلِح لَكُم أَعمـٰلَكُم وَيَغفِر لَكُم ذُنوبَكُم وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد فازَ فَوزًا عَظيمًا ﴿٧١﴾ [5]
’’اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور درست بات کیا کرو۔ اللّٰہ تمھارے اعمال سنوار دے گا اور تمھارے گنا ہوں کومعاف فرمائے گا۔ اور جو شخص اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘
ایک دفعہ ایک شخص رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں شہادت کا اقرار کرتا ہوں مگر اسلام لانے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتا کیونکہ مجھ میں فلاں عیب بھی ہے اور فلاں بھی۔ آپؐ نے اس فرمایا: کیا تم مجھ سے جھوٹ چھوڑنے کا اقرار کرتے ہو؟ وہ کہنے ل:گا ہاں ! آپ ؐ نے فرمایا: تمہارا اسلام منظور۔ چنانچہ جب بھی وہ کوئی برائی کرنے لگتا تو اسے خیال آتا کہ فلاں آدمی یا اللّٰہ کا رسول مجھ سے پوچھے گا یا قیامت کو اللّٰہ تعالیٰ پوچھے گا تو میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا پھر کیا ہو گا؟ اس خیال سے وہ اس عیب سے باز رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے تمام اعمال درست ہو گئے۔ یہ تو صرف جھوٹ چھوڑنے کی بات تھی جبکہ قولِ سدید کا اہتمام کرنا بہت اعلیٰ اخلاقی قدر ہے پھر اس سے انسان کے اعمال کیوں درست نہ ہوں گے اور جب اس کے اعمال درست ہوں گے تو سابقہ گناہ اللّٰہ تعالیٰ خود ہی حسبِ وعدہ معاف فرما دیں گے اوریہ سب کچھ اسی صورت ہی ممکن ہے جب اللّٰہ سے ڈرتا ہو اور اللّٰہ اور اس کے رسول کا مطیع فرمان ہو اس شخص کی اخروی زندگی بھی بہرحال بہت کامیاب زندگی ہو گی۔ [6]
جواب دہی کا احساس اور فکرِ آخرت
کوئی فرد، معاشرہ، تنظیم اور حکومت جب ذمہ دار اور جواب دہ ہو تو اس سے حسن عمل اور اچھی کارکر دگی کی توقع ہوتی ہے ۔ یوں بھی اس کی تعبیر کی جاتی ہے کہ جو شخص یا معاشرہ جتنا ذمہ دار اور جواب دہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کی جانب سے خیر کی توقع ہوتی ہے ۔ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے۔ جب میڈیا کے ذمہ داروں میں اس زندگی کے بعد کی زندگی کا یقین تازہ اور عقیدہ مستحکم ہو جائے تو وہ اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے حساس ہوں گے، برائیوں سے مجتنب ہوں گے اور اچھائیوں کے فروغ کی کوشش کے ذریعے خدمت انسانیت کاحق ادا کریں گے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کے سامنے جواب دہی کا احساس کسی کو بھی اعمالِ صالحہ کی انجام دہی میں متحرک و فعال بنائے رکھتا ہے ۔ اگر وسائل ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اس جہت سے اپنے آپ کو تیار کر لیں اور اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی ابدی اور لازوال مسرتوں کے طلب گار بن کر لائحہ عمل طے کریں تو یقینی طور پرخوش گوار تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی۔
موت کے بعد کی زندگی کا احساس اور خوفِ خدا، یہ بنیادی اوصاف ہیں جن کا حامل ایک فرد ذمہ دارانہ زندگی گزارتا ہے ۔ اس دنیا کو وہ امتحان گاہ اور آخرت کی کھیتی سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے لیے کوشاں و سرگرم عمل رہتا ہے، تاکہ عالم نتیجہ گاہ میں اپنے آپ کو سرخ رو اور سعادت مند بنائے ۔ اسی طرح خوفِ خدا کی بنیاد پر اس کے اندر ان اخلاقِ حسنہ کو جلا ملتی ہے جن کی بنا پر وہ بہت محتاط ہو جاتا ہے اور ہر شعبۂ عمل میں خدا کی مرضی کا علم بردار بن کر اپنی مصروفیات و مشغولیات کا رخ متعین کرتا ہے۔ اس لیے وہ اسی بیش قیمت سرمایے کی بنا پر خالقِ حقیقی کی طرف سے اسے سند اعزاز بھی عطا کی جاتی ہے ۔ یقینا یہ دونوں خوبیاں قرآنی تعلیمات میڈیا یا ذرائع ابلاغ کو انسانیت کے لیے با مقصد اور مفید تر بنانے میں سرگرم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان خصوصیات کو توشۂ راہ بنا کر میڈیا اگر رختِ سفر باندھے اور دنیا کی منڈی میں آئے تو ایک طرف بلا شک و شبہ عوام و خواص اور علما و جہلا سب کی جانب سے راست رو، ایمان دار، بے باک اور شفافیت سے پر ہونے کی سند حاصل ہو گی، اور دوسری طرف بے لاگ تبصروں اور خبر رسانی کے یہ ذرائع ان کے ذمہ داروں کو خالق حقیقی کی نگاہ میں بھی محترم اور باعزت بنا دیتے ہیں ۔
قیاس و گمان کے بجائے حقائق
قیاس و گمان اور شک و شبہے پر مبنی بات بھی بے وزن ہوتی ہے اور بالعموم اس قسم کی باتیں کرنے والے افراد یا وسائل اطلاع و ترسیل کو صحت مند فکر کا حامل قرار نہیں دیا جاتا ۔ عوام و خواص ہی ایسے ذرائع و وسائل یا ایسے اشخاص و جماعتوں سے بد ظن ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ چیزیں حقائق سے اغماض برتنے کی راہ ہموار کرتی ہیں اور افوا ہوں کو پروان چڑھاتی ہیں جن کے بسا اوقات سنگین نتائج تصادم اور جنگ و جدال کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور امن و آشتی کے ماحول کو مکدر کر دیتے ہیں ۔ اس شکل میں میڈیا جس سطح کا ہو، اسی سطح کے مفاسد کو پنپنے کا موقع ملتا ہے ۔ قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ بعض قیاس و گمان اور ظن و تخمین کا سرا گنا ہوں سے مل جاتا ہے۔[7] بایں طور ذرائع ابلاغ میں قیاس و گمان صرف یہی نہیں کہ صداقت کے لحاظ سے کسی چیز یا اطلاع کو مشکوک و مشتبہ بنا دیتے ہیں بلکہ اس کا ارتکاب گناہ ہوتا ہے۔ قیاس و گمان اور شک و شبہے سے بالا ہو کر حقائق کو شستہ اور شگفتہ انداز میں منظر عام پر لانا در اصل امانت کا تقاضا ہے ۔ اس کے برخلاف شکو ک و شبہات کے سہارے کوئی بات کہنا بڑی خیانت ہے اور تلخ نتیجے کے طور پر بسا اوقات ندامت و شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت میڈیا کو شفافیت سے ہم کنار کرنے اور با مقصد بنانے کے لیے نسخہ شافی کے طور پر ملاحظہ کی جائے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ﴿٦﴾ [8]
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نا دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پرپشیمان ہو۔‘‘
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«کفٰى بالمرء کذبا أن یحدّثَ بکل ما سمِع» [9]
’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات (بغیر تحقیق) آگے بیان کر دے ۔ ‘‘
آج کے دور میں میڈیا کا معمول یہ ہے کہ کبھی نامعلوم ، اور کبھی فاسق وفاجر افراد کے توسط سے ایسی ایسی خبریں بیان کرتے ہیں، جن کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ تشکیل دی جاتی ہے۔ اگر خبروں کے بیان کرنے میں ان اُصولوں کی پاسداری کی جائے جن کو مسلم محققین نے کئی صدیاں قبل ہی کسی خبر کے ثبوت کے لیے متعارف کرا دیا تھااور پھر عملاً ان پر انہوں نے عمل کرکے بھی دکھادیا ، تو بے شمار حقائق درست طور پر واضح ہوسکتے ہیں۔
حقائق کو مسخ کرنے اور لغویات کی نفی
عام طور پر ذرائع ابلاغ کا یہ منفی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ واقعات کو من و عن بیان کرنے کے بجائے حذف و اضافہ اور قطع و برید کے ذریعے خبروں کو مسخ کر دیا جاتا ہے ۔ کبھی کسی کی تعریف اس حد تک کی جاتی ہے کہ آسمان و زمین کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں اور کبھی کسی کی تحقیر و تذلیل پر ذہن آمادہ ہوتا ہے تو اسے ذلت و پستی کے قعر عمیق میں گرا دیا جاتا ہے ۔ حقائق اور واقعات کو دل نشیں پیرا ئے میں بیان کرنا قابلِ ستایش ہے لیکن نمک مرچ لگا کر، تصنع اور تکلف کے لبادے میں ملمع کاری کرنا اور تفریح طبع کا سامان اس طور پر پیش کرنا کہ حقائق و واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو،محض شہرت اور بازار میں اپنی قیمت منوانے کا سطحی ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن میڈیا کے نام پر یہ جذبات کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ قرآن مجید نے اس عمل کو ’لہو الحدیث‘ سے موسوم کیا ہے جس کی تعبیر کلامِ دل فریب یا کلام لغو سے بھی کی جاتی ہے ۔ ایسے کلام دلفریب دراصل ضلالت و گمراہی کا باعث بنتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل بد کا انجام بھی اہانت آمیز عذاب کی شکل میں ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہ ہدایات میڈیا اور ان کے ذمہ داروں سے متعلق ایک زبردست تنبیہ ہیں ، ان میں وعظ و نصیحت کا سامان بھی موجود ہے :
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾ [10]
’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللّٰہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے ۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔‘‘
لہو الحدیث سے کیا مرا دہے ؟ گانے بجانے اور سازو مضراب سے کراہیت
لہو الحدیث سے مراد وہ بات شغل، کھیل یا تفریح ہے جو انسان کو اللّٰہ کی یاد سے غافل رکھے ۔ خواہ یہ شغل گانا بجانا ہو یا دلچسپ ناول اور ڈرامے ہوں یا کلب کی تفریحات ہوں یا ٹی وی کا شغل ہو یا ڈرامے اور سینما بینی ہو۔ غرض لہو الحدیث کا اطلاق عموماً مذموم اشغال پر ہوتا ہے ۔ اس لفظ کی تشریح مندرجہ ذیل احادیث و آثار کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:
1. سیدنا عبداللّٰہ بن مسعودؓ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں لہو الحدیث کالفظ گانا اور موسیقی کے لیے آیا ہے ۔ نیز آپ فرمایا کرتے تھے کہ گانا بجانا یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس اور سبزہ اُگ آتا ہے۔‘‘[11]
2. سیدنا ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ اللّٰہ نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عزو جل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں، گاجوں ، ساز و مضراب، بتوں اور صلیبوں اور امر جاہلیت کو ختم کروں ۔‘‘[12]
3. آپﷺ نے فرمایا : ’’گانابجانا کرنے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو اور نہ انہیں یہ کام سکھاؤ اور ان کی اُجرت حرام ہے ۔‘‘[13]
4. حضرت مالک اشعری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا کو، ریشم کو، شراب کو اور معازف یعنی سازو مضراب اور گانے بجانے کو حلال کر لیں گے ۔‘‘[14]
پیش نظر آیتِ کریمہ کی معنویت اس امر میں پنہاں ہے کہ ایک فرد ہو یا معاشرہ یا اطلاعات و نشریات کے ذرائع علم و آگہی کے بغیر اگر باتوں کو نشر کرتے اور سطحی مقاصد کے حصول کے لیے حقائق و شواہد کے بالمقابل خانہ ساز اور خود ساختہ افکار و بیانات کی تشہیر کے ذریعے عوام کی تفریح طبع کا سامان کرتے ہیں، تو گویا یہ ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ اس لیے کہ اس طریقۂ عمل سے حق و صداقت کا رخِ زیبا داغ دار ہوتا ہے بلکہ حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیں اور کذب، بطلان، فریب اور جھوٹ معاشرے میں پھیل کر فتنوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔
فحاشی کا انسداد
اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الَّذينَ يُحِبّونَ أَن تَشيعَ الفـٰحِشَةُ فِى الَّذينَ ءامَنوا لَهُم عَذابٌ أَليمٌ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَاللَّهُ يَعلَمُ وَأَنتُم لا تَعلَمونَ ﴿١٩﴾ [15]
’’یقیناجو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے ، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں اور اللّٰہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔‘‘
اس آیت کریمہ کے ضمن میں مولانا مودودی کی وضاحت جامع اور فکر انگیز ہے:
’’موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہِ راست مفہوم یہ ہے کہ جو جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑکر اور اُنھیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں، لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں ۔ ان کا اطلاق ا عمال بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اُکسانے والے قصوں ، اشعار، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زدمیں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں ۔ صرف آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہئے ۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعتِ فحش کے ان تمام ذرائع و سائل کا سدِ باب کرے ۔ اس کے قانون تعزیرات میں تمام افعال کو مستلزم سزا، قابلِ دست اندازی پولیس ہونا چاہئے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ۔‘‘[16]
ضابطہ اخلاق اور گرفت کی ضرورت
راہنما یا نِ ملک اور رؤسائے قوم اگر ایسے افراد کو بے لگام چھوڑدیتے ہیں اور عدلیہ بھی اگر ان کے ان افعالِ رذیلہ سے بے اعتنائی برتتی ہے، تو ملک و قوم میں امن و آشتی، راست روی، حق گوئی اور حقائق سے آگہی کے لیے فضا ہموار نہیں کی جاسکتی اور ملک و قوم کو معنوی ترقیوں سے ہم کنار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میڈیا کے ایسے افرادِ کار بہر حال پر امن اور خوش حال زندگی کے لیے چیلنج ہیں اور ان سے سخت طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ مذکورہ آیت سے متعلق عبداللّٰہ یوسف علی کی رائے ہے :
’’ ان افراد کے ذریعے زندگی کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے جو ان معاملات و مسائل کا شعور رکھتے ہیں جن سے زندگی متعلق ہے ۔ لیکن (معاشرے میں ) غیر سنجیدہ اور بے ہودہ ذہنیت کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو لغو باتوں اور بے حقیقت قصوں کو صداقت اور حقائق پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو بجا طور پر ملامت زدہ ہیں ۔‘‘[17]
ذرائع ابلاغ یا وسائل نشریات کی اہمیت عصرِ حاضر میں مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ جن افراد مسلمہ جماعتوں اور حکومتوں کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں یا ان پر جن لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے ، دراصل آج کے دور میں باعزت طاقت ور اور مؤثر وجود کی حیثیت ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور یہ ذرائع جن کی دسترس سے باہر ہیں یا جو کسی وجہ سے ان سے قربت کی شکل پیدا نہیں کر پاتے ۔ در اصل وہ گوشۂ گمنامی میں ہوتے ہیں اور کمزور و پس ماندہ افراد و طبقات کی حیثیت سے دنیا کے پردۂ سیمیں پر دیکھے جاتے ہیں ۔
میڈیا دو دھاری تلوا ر کی طرح طاقت رکھتا ہے۔ تلوار کا استعمال شرو فساد کا خاتمہ کرنے کے لیے اور امن و آشتی کی پر بہار فضا قائم کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس کا استعمال قتل و خوں ریزی کے لیے اور فتنہ و فساد کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ تلوار کس کے ہاتھ میں ہے ۔ آیا یہ تلوار ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو امن و آشتی کا مفہوم نہیں جانتا، جو انسانی قدروں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا اور جو اخلاقی قدروں کی پامالی کو اپنا شیوہ بناتا ہو، یایہ تلوار ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کی سرشت میں عدل و انصاف ہو، امن و آشتی کو نعمت غیر مترقبہ سمجھتا ہو، انسانی اقدار کا پاسباں اور نقیب ہو اور اخلاقیات اس کی ترجیحات میں ہوں ۔
کامیاب میڈیا دراصل وہی ہے جس کے اہل حل و عقد میں ایک طرف اس کائنات کے حقیقی مالک کا خوف قلب و ضمیر پر حکمرانی کرتا ہو اور دوسری طرف جو موت کے بعد کی زندگی میں اپنے آقا کے سامنے اعمال کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوں ۔ اس کے علاوہ راست گوئی، عدل و انصاف اور تحقیق و تمحیص کی بنیاد پر کہی گئی باتیں ہی درا صل علمی دیانت داری کا مظہر ہیں اور یہی چیز یں علاقہ، قوم، ملک بلکہ پوری دنیا میں انسانی قدروں کی افزائش کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔ یہی چیزیں خدمتِ قوم بلکہ خدمتِ انسانیت کا حق ادا کرنے کے لیے قوتِ محرکہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
میڈیا جہاں ملک و قوم اور افراد و معاشرے کی زندگی کے دوسرے گوشوں میں خیانت کا ارتکاب کرتا ہے، ان میں سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ ایک مخصوص مذہب کے خلاف انھیں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اسلام جو عالم گیر بھائی چارگی کا تصور دیتا ہے ۔ تمام معبودانِ باطل سے متنفر کرا کے خدائے واحد کی عبودیت کا تاج سر پر رکھتا ہے، انسان کو اشرف و ا کرم کا اعزاز بخشتا ہے، تسخیر کائنات کا پروانہ سونپتا ہے اور ایک انسان کے قتل ناحق کو ساری انسانیت کے قتل ناحق کے مترادف قرار دیتا ہے ۔ ایسے آفاقی اور انسانیت نواز مذہب کے رخ زیبا کو انتہا پسندی، خوں خواری اور دہشت گردی جیسے الفاظ سے داغ دار کیا جا رہا ہے اور ﴿لِيُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفوٰهِهِم﴾[18] کے اعلان کے مطابق اللّٰہ رب العزت کی اس بیش قیمت نعمت اور انسانیت نوازی کے سب سے بڑے نقیب مذہب کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کی سعی میں مصروف ہے ۔
تقویٰ یا خوفِ خدا ہی دراصل وہ ضابطہ حکمراں اور زبردست قوتِ محرکہ ہے جو افراد و معاشرے کو اور میڈیا کے علم برداروں کو بے لگام ہونے سے بچا سکتا ہے ۔ قلب و ضمیرا گر خوفِ خدا کے نشیمن بن جائیں تو ہر جگہ اور ہر وقت انسان اس خدائی قانون کے تابع ہو کر منکرات و سیئات سے گریزاں ہوتا ہے اور خیر و حسنات کا پیامی بن جاتا ہے ۔ صدق اور عدل تقویٰ کے عظیم ترین مظاہر ہیں ۔ اس سلسلے میں قرآن مجید نے ’قولِ سدید‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دروغ گوئی سے اجتناب کیا جائے ۔ سوچ سمجھ کر گفتگو کی جائے، فریب دہی سے باز رہا جائے اور دل خراش کلمات سے گریزاں ہوا جائے ۔ اسی طرح قیاس و گمان اور شک و شبہے پر مبنی بات ہلاکت انگیزی کا سبب ہے ۔ اس کی بنیاد پر میڈیا ماحول اور معاشرے کو مکدر کرنے میں کوئی دقیقہ فر و گذاشت نہیں کرتا اور اپنا اثر و رسوخ کھو دیتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہ درخشاں تعلیم دعوتِ فکر و عمل دیتی ہے کہ گمان و قیاس کی بنیاد پر کہی ہوئی بات نہ تو استناد کی میزان پر پوری نہیں اترتی، بلکہ بسا اوقات انسان کو اس طریقۂ عمل سے شرمندہ و نادم ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح لگائی بجھائی کرنا، نمک مرچ لگا کر باتیں پیش کرنا، تصنع اور تکلف کا لبادہ پہنانا اور اُمور و مسائل کی ملمع کاری کرنا، یہ ساری چیزیں صحت مند میڈیا کے خلافِ شان ہیں ۔ قرآن اسے ’لہو الحدیث‘ سے موسوم کرتا ہے، جس کی تعبیر کلام دل فریب یا لغو اور مہمل بات سے بھی کی جا سکتی ہے ۔ اس قسم کی باتیں ایک صحت مند معاشرے کو جلا نہیں دیتیں بلکہ ہدایت کی شاہراہ سے پھیر کر گمراہی کے بے شمار دروازے اور راہیں کھول دیتی ہیں ۔ اسی لیے قرآن مجید اس قسم کی باتوں کو معاشرے میں فروغ دینے والوں کے لیے اہانت آمیز عذاب کا اعلامیہ جاری کرتا ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصّب
آج قومی اور بین الاقوامی میڈیا کا مرکز توجہ اسلام اور مسلمان ہیں ۔ بین الاقوامی میڈیا پر اپنا تسلط جمانے والے اصحابِ حل و عقد آج اس مشن میں محو ومستغرق ہیں کہ صحیح اسلام کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے، اور ایسے اسلام کو باقی رکھا جائے جو دنیا میں بے حس و حرکت اور معذور و مجبور بن کر رہے جن کے نام لیوا زندہ تو رہیں لیکن انسدادِ شر و فتنہ، قیامِ امن، خدا کے گھر میں خدا کے قانون کے نفاذ اور صرف اور صرف ایک ربّ کی خدائی کے علم بردار بن کر وہ دوسرے مذاہب و اقوام کے علی الرغم اپنی سمتِ سفر متعین نہ کریں ۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات انسانی عظمت کی نمائندہ ہیں ۔ ان درخشاں تعلیمات کے باوجود اگر اسلام کو انسانیت کا دشمن قرار دیا جائے اور اس دین و مذہب کو خونخواری سے منسوب کیا جائے تو اس سے بڑی بد دیانتی اور بے حیائی کیا ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آج بین الاقوامی سطح پر اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی سعی نامشکور کی جا رہی ہے ۔ اسلام کو انتہا پسندی، خونخواری اور دہشت گردی سے منسوب کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو امن و آشتی کا دشمن اور دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیا کے نزدیک جو جتنا صحیح العقیدہ اور پختہ مسلمان ہے ، وہ اتنا ہی بڑا دہشت گرد ہے اور جو مصالحت، مفاد پرستی اور ابن الوقتی کا ثبوت دے کر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بدلتا رہتا ہے وہ پسندیدہ اور محبوب ہے اور اسے سیکولر ہونے کا تمغا دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس اسلام سے امن و آشتی کے جھوٹے دعوے داروں اور اقتدار کے متوالوں کو خطرہ ہے ، اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے مطعون کردیا جاتا ہے، اور جس اسلام سے من مانی کرنے والوں ، خود ساختہ قوانین کو نافذ کرنے والوں اور اقتدار کے پجاریوں کو خطرہ نہیں ہے اور ان کے ذاتی، گروہی اور ملکی مفادات مجروح نہیں ہوتے، وہ اسلام انھیں محبوب ہے اور ایسے ہی مسلمان دراصل ان کے معیار پر پورے اترتے ہیں ۔
اس امر میں صداقت ہے کہ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری کو بحسن خوبی سمجھے، اپنے اعلیٰ و ارفع مقصد کو مستحضر رکھے، خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنائے اور ملک و قوم کے ماحول کو پر امن بنانے کے موقف پر مصر ہو، تو یقیناً اس کے اہل حل و عقد قابلِ ستایش اور لائقِ مبارک باد ہیں ۔ لیکن میڈیا کے یہ مثبت پہلو اسی وقت با معنی اور بامقصد ہو سکتے ہیں جب کہ خوفِ خدا کے قانون کو جگہ دی جائے، موت کے بعد کی زندگی اور اس میں محاسبہ عمل کی یاد کو تازہ رکھا جائے، عدل و صدق کو شیوۂ حیات بنا لیا جائے، قیاس و گمان اور شک و شبہے سے اجتناب کرتے ہوئے استناد کو محبوب رکھا جائے، اور حقائق و مسائل کو من وعن دل نشیں پیرا یۂ بیان میں واشگاف کر دیاجائے۔
پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ کی اہلیہ اور مولانا عبد الوکیل علوی کی وفات
اِ نّـــا للہ و اِ نّــا اِ لیـــہ راجـعـــون
10؍جنوری 2016ء کو دو بجے شب نامور داعی اور خادم اسلام پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ ﷾کی اہلیہ محترمہ جو مدیر محدث ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کی خوش دامن بھی تھیں، قضاے الٰہی سے وفات پاگئیں۔ ان کی نماز ِ جنازہ شیخ صاحب کی رہائش سے ملحقہ گراؤنڈ میں فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ نے پڑھائی جس میں لاہور وبیرون سے ممتاز علماے کرام اور سیکڑوں محبانِ اسلام نے شرکت کی۔ مرحومہ کی بلندئ درجات کے لیے ڈھیروں دعائیں کی گئیں۔
12 جنوری 2016ء کو مولانا عبد الوکیل علوی 2 بجے دوپہر کو وفات پاگئے۔ آپ کافی عرصہ سے علیل تھے۔ آپ نے ادارہ معارفِ اسلامیہ، منصورہ میں زندگی بھر تصنیفی وتحقیقی خدمات انجام دیں اور تفہیم الحدیث ، سیرتِ سرور دوعالمﷺ سمیت کئی ایک کتب کے آپ مرتب ومصنف تھے۔ آپ مفسر قرآن مولانا عبد الرحمن کیلانی کے داماد اور معروف مصنفہ پروفیسر ثریا بتول علوی کےشوہر تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ منصورہ گراؤنڈ میں ان کے داماد ڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن ﷾ نے پڑھائی جس میں ملک بھر سے بڑی تعداد میں اہل علم نے شرکت کی۔ اللّٰہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!