اسلام ، عیسائیت اوربنیاد پرستی

گذشتہ دنوں ادارہ تحقیقات ِ اسلامی کےزیرِ اہمتام '' مسلمانوں کےبارے میں مغرب کاتصور اورمغرب کےبارے میں مسلمانوں کاتصور، ، کےعنوان پر سےمنعقدہ سیمینار میں وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف نےخطاب کرتےہوئےکہا کہ اسلام کےسیاسی فلسفہ کی بنیاد جمہوریت ک‎پر مبنی ہے۔ انہوں نےواضح کیاکہ'' اسلام کےخلاف نظریاتی تنازعہ مکمل طورپر غیرضروری ہ ے۔وہ لوگ جواسلام کی مغرب کادشمن سمجھتےہیں اورمغرب اوراسلام میں جنگ دیکھتے ہیں وہ ایک محدود تاریخی پس منظر رکھتےہیں ۔ انہوں نےکہا کہ اسلامی بنیادپرستی کومغرب نےبڑھا چڑھا کر پیش کیااور اسے شکست دینے پرزور دیا ، اسلام کی بنیاد پرستی پرمسلمانوں کوفخر ہے۔ وہ بنیادیں یہ ہیں : توحید ، رسالت ، نماز، روزہ ، زکوۃ ، اورحج ، ان پرعمل کرکےبہت سے مسلمان اپنے آ پ کو سچا مسلمان گردانتے ہیں ، کیا یہ بنیاد پرستی ہے؟ ہرگز نہیں ! انہوں نےکہا کہ بنیاد پرستی (فنڈا میشلزم ) کی اصطلاح عیسائیت سےآئی ہےلیکن اسے اسلام پرتھوپ دیا گیا ،، - ( روزنامہ جنگ ،،لاہور 70۔اکتوبر 1997ء )

وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر میں کوئی بھ﷫ ایسا جملہ نہیں ہےجسے خلافِ حقیقت ، تاریخی اعتبار سے غلط یا سطحی الزام تراشی سےتعبیر کیا جاسکے۔ لیکن پاکستان کےبعض مسیحی راہنماؤں نےوزیراعظم کےاس بیان '' بنیادی پرستی کی اصطلاحی عیسائیت سےآئی ہے، لیکن اسے اسلام پرتھوپ دیا گیا ،، پرشدید احتجاج کیا ہے۔

مسیحی راہنماؤں نےایک مشترکہ بیان میں کہا ہےکہ وزیراعظم کے اس بیان پرمسیحی براداری کودکھ ہوا ہےاوراس سےمسیحیوں کےجذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ انہوں نےمطالبہ کیا کہ وزیر اعظم اپنا بیان واپس لیں ۔ عیسائیوں کی ایک تنظیم کےنمائندوں نےکہا کہ وزیر اعظم کےبیان سےمسیحی برادری پریسان ہوگئی ہے۔ مسیحی خواتین کی ایک تنظیم نےاس بیان کےخلاف مال روڑ پرمظاہرہ کااعلان بھی کیا ۔'' پاکستان نیشنل کرسچین لیگ ،، کےعہدیدار ان نے بےحد جذبانی انداز میں مذکورہ تقریر کوافسوس ناک قرار دیتےہوئے وزیراعظم کو یہ جتلایا کہ '' انہیں یہ علم ہی نہیں ہےکہ مسیحی برادری بھی پاکستان کی ریایا ہے۔ انہوںنےکہا کہ ملکہ برطانیہ کی آمد پروزیراعظم نوار شریف کواسلامی بیناد پرستی کے فروغ اورمسحیت کےخلاف تقریر زیب نہیں دیتی۔وزیر اعظم کوی یادہی نہیں رہاکہ پاکستان مغرب یعنی مسیحی دنیا کاہرطرح سےمحتاج ہے،، -------- ( روزنامہ'' جنگ ،، لاہور مؤرخہ 8 اکتوبر 1997ء )

مسیحی راہنماؤں کامندرجہ بالا احتجاج تاریخی حقیقوں سےان کی لاعلمی کانتیجہ ہے۔اگرانہیں نےوزیراعظم پاکستان کابیان پڑھنے کےبعد مسیحی پورپ کی تاریخ کی ورق گردانی کی زحمت گوارا کرلی ہوتی توجس دکھ اورکر ب سےوہ گزر رہے ہیں ، اس سےیقینا وہ محفوظ رہتے اوراس سطحی جذباتیت کےاظہار سےیقیناً وہ باز رہتے اوروزیر اعظم کو خوا مخواہ متہم نہ ٹھہراتے ۔اگر ان کی نگاہیں حقائق کا سامنا کرنےکا حوصلہ رکھتی ہیں اوران کےکان مجرد حقیقتوں کواب بھی سننےکےلیے تیار ہیں ان کی معلومات کےلیے درج ذیل سطور حاضر ہیں:

معروف میکملن ( Macmilln) پبلشرز نے'' انسائکلوپیڈیا آف ریلیحن ،، 16جلدوں میں شائع کیا ہے( ایڈیشن 1987 ) ۔ جس کی جلد پنجم میں ( Fundamentai christainity ) ( بنیادپرستانہ عیسائیت ) کےعنوان سےمقالہ موجود ہے( صفحہ : 190 ) اس مقالے میں امریکہ ، یورپ اوربرطانیہ میں عیسائیت میں مختلف بنیاد پرست فرقوں اورتحریکوں کےعقائد اوران کی سرگرمیوں کامفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ مقالہ نگار کےمطابق مارٹن لوتھرکےپیروکار'' ایواینجلیکل ،، ( Evangelical ) کی اصطلاح '' پروٹسٹنٹ ،، کےمترادف کےطورپر استعمال کرتےہیں ۔ '' ایواینجلیکل از م ،، ایک ممتاز تحریک تھی جو اٹھارھویں صدی میں مذہبی بیداری کےنتیجے میں ظہور پذیر ہوئی اورانیسویں صدی کےآغاز تک امریکہ، انگلیند اورتمام برطانوی ایمپائر میں واضح شکل اختیار کرچکی تھی ۔ فنڈامیشلزم ( بنیادپرستی ) اورحقیقت '' ایواینجلیکل ازم ،، کاایک ذیلی فرقہ ہے۔ اس اصطلاح ( بنیاد پرستی ) کاآغاز پہلی دفعہ امریکہ میں 1920 میں ہوا۔ ا س سےمراد وہ '' ایوانجلیکل ،، تھے جوماڈرن تھیالوجی ( جدید المیات ) اورسیکولر ثقافتی رجحانات کاڈٹ کرمقابلہ کرنا اولین مسیحی فریضہ سمجھتے تھے ۔ منظم عسکریت پسند (( Macmilln) بنیاد پرستوں کی نمایاں علامت ہےجوانہیں دیگر '' ایوینجلیکل ،، عیسائیوں سےممتاز کرتا ہے۔ ( صفحہ : 190 )

مذکورہ بالا انسائیکلوپیڈیا میں بیسویں صدی کےشروع میں مسیحی بنیاد پرستی کےسراٹھانے کی وجوہات کاجائز لتے ہوئے فاضل مقالہ نگار تحریر کرتا ہےکہ انیسویں صدی کےآخر دوعشروں اور جنگ عظیم اول ( 1914ء ) تک کےزمانے میں ''ایوینجلیکل ،، فرقے کوعقلی بنیادوں پرنئے چیلنج کاسامنا تھا ۔

یہ وہ تھا جب '' ڈارون ازم ،، کثیر جہاتی ثقافتی انقلاب میں ایک مرکزی علامت کی حیثیت اختیار کرچکا تھا ۔ '' ڈارون از م ،، کےمتعلق ابتدائی مباحثوں میں یہ تاثردیا گیا کہ ماڈرن سائنس اور بائبل کی تعلیمات بنیادی طورپرہم متخالف نظریات کی حامل ہیں۔اہل مغرب '' سچائی اور اٹل حقیقت ،، کےمتعلق تصورات کی ا نسانی ثقافتی ارتقاء کےقابل تغیر عامل کےطور پر سمجھنے لگے تھے۔ بدلتے فکری منظر میں ترقی پذیر تصورات کامحض '' ریکارڈ ،، تھا ۔ ان خیالات نےچرچ کی فکری بنیادیں ہلاکررکھ دیں۔نجات کےعقیدے کےمتعلق بائبل کی ''اٹھارٹی ،، کوبھی شک وشبہ کی نگاہ سےدیگھا جانےلگا ۔ اہل چرچ میں بھی اتفاقی رائے قائم نہ رہ سکا ۔ بعض جدت پسند مسیحی گروہوں نےوقت کے' موڈ ،، ایواینجلیکل ،، گروہ نےنئے رجحانات کےخلاف سخت مزاحمت کی ۔ یہ تھا وہ تناظر جس میں '' فنڈ امیشلزم ،، کی تحریک ابھر کرسامنے آئی ۔اس نےروایتی مسیحی عقائد کا ' ' جارحانہ دفاع ،، کیا ،، ۔( ص 192 )

مسیحی بنیاد پرستی مجموعہ ہائے عقائد ( Doctrine ) کےساتھ ساتھ ایک مخصوص ''موڈ،، کی آئینہ دار بھی تھی ۔ یہ '' موڈ ،، مذہب میں جدید نظریات کےواقعے اورثقافتی اقدار میں '' ماڈرن ازم ،، کی پھیلائی ہوئی تبدیلی کےخلاف'' عسکریت پسندی،، کا'' موڈ ،، تھا ۔ 1920 کےدرمیان مسیحی تنظیموں نے ''لبرل ،، خیالات کےحامل افراد کواپنی صفوں سے نکال باہر کیا ۔ اس دور کےبنیادپرستوں نےامریکی کلچر کوتنقید کانشانہ بناتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ امریکہ اب اپنا مسیحی تشخص اوربائبل کی تعلیمات کوکھورہاہے۔ جنگ عظیم اول کےبعد اخلاقی قدروں میں بہت تیزی سےتبدیلی رو نما ہوئی جسے بنیاد پرستوں نے'' خطرے کی گھنٹی ،، سمجھا ۔

1919 اور 1920 کےدوران '' بالشوازم ،، کےپڑھتےہوئے ''سرخ خطرے،،اورالحاد پرستی نےانہیں شدید تشویش میں مبتلا کردیا ۔ انہوں نے ان سب عوامل کو امریکہ میں '' بائبل ،، کی تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھنے والی تہذیب کےخاتمے کاپیش خیمہ قرار دیا ( ص : 193 )

1925 سے 1945 کےدرمیان اگرچہ پریس نےبنیاد پرستوں کے'' احتجاج ،، پرزیادہ توجہ نہ دی لیکن مقامی سطح پر'' بنیاد پرستی ،، بطور ایک ادارہ کےاستحکام حاصل کرچکی تھی۔ 1954 میں بل گراہم (Bill Graham ) کےبرطانیہ میں '' جہاد ،، ( Crusade ) نے'' بنیاد پرستی کےتنازعے ،، کونئی روح عطا کی ۔ گراہم کےحامیوں اورمخالفوں میں کشمکش برپا ہوئی تو اول الذکر '' بنیاد پرست ،، ہونے کا'' لیبل ،، لگا دیا گیا۔1970 کی دہائی میں امریکی میڈیا نےدوبارہ '' دریافت ،، کیا کہ امریکیوں کی زندگی کی '' بنیاد پرستی ،، ایک بہت طاقتور تحریک ہے۔ 1980 تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بنیاد پرست چرچوں کی تعداد تقریباً 50 لاکھ کےلگ بھگ تھی ۔ مزید برآں عسکریت پسند بنیاد پرستی (Militant Fundamentalism ) تمام انگریزی بولنے والے ممالک میں پھیل چکی ہے، اوراس کےعقائد کومسیحی مشن تمام دنیا میں پھیلا رہےہیں ۔۔۔۔۔۔ ( صفحہ : 194 )

جب سےامریکی بنیاد پرستوں نے'' اخلاقی اکثریت ،، ( Morel Majority ) کےنام سے 1979 میں تنظیم قائم کی ہے، ان کی سیاسی قوت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔یہ دراصل مختلف بنیاد پرست مسیحی تنظیموں کاالحاق ہے۔ تقریباً تمام بنیاد پرست گروہ ، معاشرے میں عورت کےکردار ، خاندانی اقدار، جنس پرستی ، آزاد خیالی ، اسقاطِ حمل کےبارے میں قانون سازی ، مساوی حقوق وغیرہ جیسے معاملات پرایک جیسے خیالات رکھتےہیں ۔ ( ایضا : صفحہ 194 )

مندرجہ بالا سطور میں '' انسائیکلوپیڈیا آف ریلیحن ،، میں شائع شدہ مقالے کےاہم نکات کوبےحد اختصار کےساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس مقالے کی تیاری میں فاضل مقالہ نگار نےمفصل کتابیات نقل کی ہے۔ درج ذیل کتابوں کےنام اس بات کی غمازی کرتےہیں کہ امریکہ اوریورپ میں مسیحی بنیاد پرستی پراچھا خاصا''لڑیچر،،موجود ہے:

1-The Rools of Fundamentalism: British and Ameican (1800 1930 ) by Earest R Sandeen

2-Voices of American Fundamentalism ( 1976 ) by allyn Russel Fundamentalism in America ( 1973 ) Greenille

4-The shaping of twentieth century Fundamentalism

حال ہی میں معروف امریکی پبلشرروٹلچ ( Routlege ) نے ڈکشنری آف ایتھکس تھیالوجی اینڈ سوسائٹی شائع کی ہے۔ اس ڈکشنری کوآکسفورڈ یونیورسٹی کےپروفیسر ڈاکٹر اینڈریوالنزی اورپروفیسر پال بیری کلارک کی مشترکہ ادارت میں 50 کےقریب ماہرین ِ علوم نےمرتب کیا ہے۔ اس مایہ ناز علمی ڈکشنری میں فنڈامیشلزم کااندراج پانچ صفحوں پرپھیلا ہوا ہے۔ اس اندراج میں بنیادپرستی کی اسطلاح کےآغاز وارتقاء اورعیسائیت ،یہودیت اوراسلام میں اس کےاستعمال کومفصل بیان کیا گیا ہے۔﷾

موضوع کےاعتبار سےاس ڈکشنری کےمتعلقہ مفید سطور کاترجمہ قارئین کی معلومات کےلیے پیشِ خدمت ہے:

1۔ '' فنڈامیشلزم، ، ( بنیاد پرستی ) ایک جدید مذہبی رد عمل کااسلوب ہے جس کےذریعے قدامت پسند لوگ ، اپنے اجتماعی وجود کالاحق خطرات سےبچنے کےلیے کوشش کرتےہیں ،، ------ ( صفحہ : 338 )

بیادپرست ان باتوں کوجنہیں وہ عقائد کی اساس سمجھتےہیں ، ان کےانتخاب میں ترجیحی رویہ رکھتےہیں ۔ عام طورپر وہ ایسی باتوں منتخب کرتےہیں جن کےمتعلق انہیں یقین ہوتا ہےکہ روایات کامغز ہیں ۔

2۔ پروٹسٹنٹ ، جنہوں نےیہ لفظ بنیاد پرستی ایجاد کیا اورجو اسے بےحد روانی سےاستعمال کرتےہیں ، ان کےہاں '' بنیاد ،، سےمراد الہامی تعلیمات کےلغوی مطالب کوقبول کرناہ ے، یہی تعلیمات انہیں مذہب پرحملوں سےبچاؤ میں مدد دیتی ہیں -----صفحہ : 389 )

3۔ جب امریکن پروٹسنٹ بینادپرستوں نےایسے عقائد کوچنا کہ جن پرلفظ بہ لفظ عمل مقصود تھا توانہوں نے کئی ایسے عقائد کومنتخب کیا جن کےمتعلق ان کاخیال تھا کہ وہ کنز رویٹو مسیحیت کاسامنا کر سکیں گے،، ۔

پوری دنیا کےاکثر عیسائیوں کی نگاہ میں ، خواہ وہ کیتھولک ، آرتھوڈکس اینگلیکن (Anglican ) یا دیگر فرقے کاتقدس کا'' Evcharist ،، ایک اساسی عقیدہ ہے۔

4۔ بنیادپرستوں نےکچھ ایسی تعلیمات کوبھی منتخب کیا کہ جن کےمتعلق ان خیال تھا کہ یہ پروٹسٹنٹ فرقے کےبنیادی عقائد ہیں ۔ مثلاً کنواری مریم سےحضرت عیسیٰ کی پیدائش ، آپ کےخونِ مبارک اورآپ کا جسمانی طورپر دوبارہ زندھ ہونا وغیرہ ۔

رومن کیتھولک فرقے میں مبتلا بنیادپرستی غیرواضح اور نسبتاً ماضی قریب کامظہرہے،بہت کم کیتھولک عیسائی اپنے آپ کو'' بنیاد پرست ،، کہتےہیں کچھ کیتھولک بھی بنیاد پرست کہلاتےہیں ، وہ مذہبی تعلیمات کی مقامی زبانوں کی بجائے لاطینی زبان میں ادا کرنے پرزور دیتےہیں ۔

5۔ '' فنڈا میشلزم ،، کےلیے بہترین '' کیس سٹڈی ،، امریکہ ہےجہاں بیسویں صدی کےآغاز میں کئی مسیحی تحریکیں سامنے آئیں ۔ 1910ء اور 1912 کےدرمیان ایک گروہ نےرد عمل کےطورپر کثیر تعداد میں ایک کتابچہ شائع کیا جس کاعنوان تھا''Fendamentals ،، یعنی' ' اساسی اصول ،، ۔

جنگ عظیم اول کےبعد ان گروہوں نےاپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا تھا ۔گروہی کشمکش کےنتیجے میں ایک گروہ نے اپنا نام '' بنیاد پرست ،، رکھ لیا ، یہی نام بالآخر یہودیت اور اسلام کی تحریکوں پرتھوپ دیا گیا ------- ( صفحہ : 390 )

'' 1940 ء کےدہائی کےابتدائی سالوں میں کچھ بنیاد پرستوں نے اس اصطلاح کورسوا کن داغ سمجھنا شروع کیا ۔ انہوں نے نیشنل ایسوسی ایشن آف ایواینجلیکلز کی بنیادرکھی جس نےبہت سی باتوں میں جدیدیت کو اپنا یا ۔ عدم تعاون کرنے والے بنیاد پرست زیر زمیں چلے گئے ،،

6۔ '' امریکہ میں مسیحی بنیادپرستی کی دوسری عوامی لہر1970 کےعشرے میں امریکی سپریم کورٹ کےاس فیصلے کےخلاف رد عمل کےطور پرسامنے آئی جس اس نےسرکاری سکولوں میں '' دعا ،، کوغلط قرار دیا گیا ۔ پھر 1962 پھر 1973 میں ابتدائی مرحلے پراسقاط حمل کوجائز قرار دیا،، -------- ( صفحہ : 391 )

7۔ '' اسلامی بنیاد پرستی کےحالیہ رجحانات کےآغاز کی نشاندہی جنگ عظیم دوم کےبعد کےزمانے سے کی جاسکتی ہےجب مغربی استعماری طاقتوں نےمشرقِ وسطیٰ کانیا نقشہ مرتب کیا اورجب قوم پرستی کی نئی جہات کاتعین کیا ۔اس دور میں ذرائع ابلاغ،ٹیکنالوجی اورجدید تعلیم کےفروغ سےمسلمان قدامت پسندوں نےاپنے آپ کوخطرات میں گھرا ہوا محسوس کیا۔ 1970 ء کےعشرے میں اخوان المسلمون نےمصر میں شدید رد عمل کااظہار کیا اور 1979ء میں ایرانی انقلاب کےبعد اس رجحان کومزید تقویت ملی ،، ۔

قارئین کرام ! مندرجہ بالا اقتباسات سےظاہر ہوتاہےکہ'' بنیاد پرستی ،، کی اصطلاح کااستعمال شرو ع میں عیسائیت میں ہوا ، اسلامی بنیاد پرستی جس کی '' مذمت ،، میں مغرب اپنے بہترین انسانی وسائل کوبروئے کارلارہا ہے، کی ابتداء بقول ان کےجنگ ِ عظیم دوم کےبعد ہوئی اوراس کامؤثر اظہا ر 1970 ء کےعشرے میں ہوا ۔

پوری اسلامی تاریخ میں اس اسلامی ''بنیاد پرستی ،، کاوجود نہیں ملتا جس کامفہوم اہل مغرب کےذہنوں میں ہے ۔ تحریک احیائے خلافت ،، '' رجوع الی القرآن ، ، اور اسلام کی اساسی تعلیمات کی طرف واپسی کی تحریکیں رونما ہوئیں ۔ سید جمال الدین افغانی، مہدی سوڈانی ، علامہ اقبال ، ڈاکٹر شریعتی اورمولانا مودودی ﷫ جیسے مسلم رہنماؤں کےنام ان تحریکوں کےحوالے سےلے جاسکتے ہیں ، اسلام کی عظمت پارینہ کوبحال کرنےکےتصور پرمبنی یہ تحریکیں عسکریت پسندی کےنظریات کی حامل نہیں تھیں۔ان کا فلسفہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بحالی پرمبنی تھا ۔ جہاں تک حالیہ برسوں میں مشرق ِ وسطیٰ میں '' حماس،، ''حزب اللہ ،، ابوندال گروپ وغیرہ تنظیموں کاتعلق ہے، ان کی سرگرمیاں استعماری قوتوں کی واضح ناانصافی اور ظلم کےخلاف رد عمل کانتیجہ ہے۔ جیسا کہ '' ڈکشنری آف ایتھکس ، تھیالوجی اینڈ سوسائٹی ،، میں اعتراف کیا گیا ہےکہ ان ان تحریکوں کاآغاز اس وقت ہواجب جنگ عظیم دوم کےبعد مغربی استعماری طاقتوں نےمشرقِ وسطیٰ کانیا نقشہ مرتب کیا اورقوم پرستی کی نئی جہات کاتعین کیا۔ فلسطینی مسلمانوں کی اپنے علاقوں کی بازیابی کی تحریک کو''اسلامی بنیاد پرستی ،،کا نام دینا یہودی غاصب قوتوں کےبے پناہ ظلم وستم سےتوجہ ہٹانا ہے۔ 1983ءمیں طاقت کےنشے میں چُور اسرائیل نےفلسطینی مسلمانوں کےکیمپوں ''صابرہ ،، ''شتیلا،،میں قیام پذیر ہزاروں بےگنا ہ مسلمانوں کوٹینکوں کےذریعے کچل ڈالا لیکن امریکہ اوراس کےیورپی حواریوں نےا س انسانیت کش کاروائی کی مذمت نہ کی ۔ لیکن بعض مسلمان گردہوں کی طرف سے بم کےدھماکے میں چند اسرائیل مارے جائیں تواسے اسلامی بنیاد پرستی کانام دےکر واویلا کیا جاتا ہے۔

میاں نواز شریف نےقطعاً کوئی ایسی بات نہیں کہی کہ جسے مسیحی سکالرز خود نہ کہہ چکے ہوں ۔

وزیراعظم پاکستان کےجس جملے پرشدید احتجاج کیا گیا ہےوہ مذکورہ '' ڈکشنری ،،کےدرج ذیل جملے کا لفظی ترجمہ معلوم ہوتا ہے:

"In 1920 a Baptist Faction Struggling for control named itself

"Fundamentalism'' the name which eventually came to be imposed on movements in judiasm islam and elsewhere.''

'' 1920 ء میں ایک عیسائی فرقے ( اصطباغی فرقے) جواختیارات کےلیے کوششیں کررہاتھا نےاپنا نام بنیاد پرست رکھ لیا ۔یہی نام بعد میں یہودیت ،اسلام اوردوسری جگہوں پرہونے والی تحریکوں پرتونپا جانے لگا ۔،،

ذرا غور فرمائیے کہ '' imposed ،، کاترجمہ '' تھوپ دیا گیا ،، سےبہتر اورکیا ہوسکتا ہے۔ایک بات جوامریکہ کاسکالر کرتا ہےتوقابل اعتراض نہیں ہےاوراگر پاکستان کےوزیراعظم برسبیل تذکرہ حسن نیت کےساتھ اسے اپنی تقریرئیں بیان کردیں تواس پراس قدر شدید رد عمل کااظہار کیا جاتا ہے کہ جیسے پوری مسیحی برادری کی شدید توہین کی گئی ہو۔فکری دیانت کاتقاضا یہی ہےکہ وزیراعظم سے'' الفاظ واپس لینے،،کامطالبہ کرنےوالے مسیحی راہنمااپنی لاعلمی کااعتراف کرتےہوئے وزیراعظم پاکستان سے معذرت طلب کریں ۔ ؏

میں الزام اُن کودیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

اپنے احتجاجی بیانات میں بعض مسیحی راہنماؤں نےاحتیاط کا دامن ملحوظ خاطر نہیں رکھا اوربے حدغیرذمہ دارانہ بیان بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کےبعض جملوں کااسلوب اس قدر اشتعال انگیز اور تیکھا ہےکہ اگر اس طرح بیانات کاسلسلہ جاری رہا توپھر پاکستان کی مسلم اکثریت اورمسیحی اقلیت کےپرُ امن تعلقات میں رخنہ اندازی کی بنیادیں رکھی جانے کےامکان کوبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مثلا ایک مسیحی تنظیم کےآرگنائزر نےاپنے بیان میں کہا ہےکہ '' وزیراعظم کویہ بھی یاد نہیں رہا کہ پاکستان مغرب یعنی مسیحی دنیا کاہرطرح کےمحتاج ہے،، موصوف نےوزیراعظم کو''پاکستان کی محتاج ، ، کاطعنہ دینا تومناسب سمجھا لیکن انہیں اہل مغرب کی مسلمانوں کےہاتھوں '' محتاج ،، کےادوار یاد نہیں رہے چونکہ وہ اب قصہ ماضی بن چکےہیں ۔ان کاحافظہ کمزور ہوسکتا ہےلیکن تاریخ کےسنیے میں یہ حقائق اب تک محفوظ ہیں ۔ انہیں غالباً یہ معلوم ہوگا کہ مغرب نشأ ۃ ثانیہ ، سائنسی ترقی اورمذہبی اصلاحی تحریکیں ( Reformation) مسلمان سائنسدانوں اوردانشوروں کی عظیم علمی کاوشوں کی مرہونِ منت ہیں ۔یورپ ابنِ سینا ، ابن ِ رُشد، الفارانی ،ابوبکر یحییٰ زکریا رازی ، ابن بیطار، ابوالقاسم الرہراوی ، ابن طفیل ، ابن ماجہ، ابن خلدون ، ابوالعباس ،ابن الیشم ، الخوارزمی اوران جیسے سینکڑوں شہرہ آفاق نابغہ عصر سائندانوں اورعظیم علمی شخصیات کااحسان رہتی دنیا تک نہیں چکا سکے گا ۔ طعنہ دینے والے معزز اقلتی راہنما اگر تاریخ کاسرسری سامطالعہ بھی کرلیتے توان کےلیے جاننا مشکل نہیں تھا کہ اٹلی میں یورپ کی پہلی ٹیکسٹائل مسلمان انجینئرز نے لگائی تھی ۔ موصوف جوشِ جذبات میں یہ قطعاً بھول گئے برطانیہ فرانس جرمنی اوردیگر استعماری یورپی طاقتوں نے ہندوستان اوردیگر مسلم ممالک سے گذشتہ دوسو سالوں میں جودولت لوٹی ، اس کاعشر عشیر بھی وہ واپس نہیں کرپائے ہیں ۔ کون نہیں جانتا ، انگلستان کےکارخانوں سےنکلنے والی لوہے کی مصنوعات میں خام مال انڈیا سےنہیں گیا تھا ؟ اورجس '' محتاج ،، کاانہوں نےوزیراعظم پاکستان کوطعنہ دیا ہے اس کی قیمت پاکستانی قوم ان کی '' امداد ،، کےتناسب سےسے کہیں زیادہ ادا کرچکی ہے۔اس''امداد ،، کےنام پرمغربی اقوام پاکستان جیسی ترقی پذیر اقوام کو'' جدیداستعماریت ،، کےمکروہ شکنجے میں اب تک کسےہوئی ہیں ۔ ہم اپنے قابل احترام مسیحی راہنما سے درخواست کریں گے وہ مغرب کی مسیحی دنیا سےمنوا کیوں نہیں لیتے کہ وہ پاکستانی قوم پراس '' احسان عظیم ،، کاسلسلہ اب بند کردیں ۔

؏ ہم پرجواحسان نہ کرتے تویہ احسان ہوتا

انسانی حقوق کےمغربی نعروں نےافراط کاشکا ر ہوکرایک خطرناک '' فتنے ،، کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مغرب میں مختلف ادوار میں مختلف '' ازم ،، سامنے آتےہیں لیکن پوری انسانی تاریخ میں شاید، اپنے نتائج وعواقب کےاعتبار سے ،'' حقوق از م ،، ( Rightism ) جیسا ہردل عزیز اورعالمی سطح پر پھیلا ہوا '' ازم ،، کبھی سامنے نہیں آیا۔یہ '' ازم ، ، جسے اردو میں آپ چاہے تو'' حقوقیت ،، یا'' حقوق پسندی ،، کانام دے سکتےہیں ، اگرچہ باقاعدہ اس نام کےساتھ متعارف نہیں ہوا لیکن جس قدر اس ''ازم ،،پرعمل کیا جارہا ہےوہ کسی دوسرے ''ازم ،، میں سامنے نہیں آیا ۔

'' حقوقیت کی تاریخ ،، بہت زیادہ پرانی نہیں ہے:

یورپ کےبادشاہوں کےآسمانی حقوق( Divine Rights ) کےرد عمل میں ''عوامی حقوق،، کےحصول کی جدوجہد نےاب زندگی کےہرشعبے کواپنی جولانگاہ سمجھ لیا ہے۔ہرطرف '' حقوق،، کا واویلا مچایا جاتا ہے، فرائض کی بات کوئی نہیں کرتا۔''حقوق،، کےنام پربرپا کی جانے والی تحریکوں کی تاریخ ، ان کےآغاز ، ارتقاء اورانجام کوسامنے رکھ کراگر دیکھا جائے توچند باتیں سب میں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔تمام تحریکیں اپنی بنیاد کسی نہ کسی حقیقی بامفروضاتی''ناانصافی ،، پررکھتی ہیں۔وہ غاصب طبقے کےخلاف اپنے پیروکاروں میں نفرت کی جذبات کوپروان چڑھا کراپنے مقاصد کوآگے بڑھاتی ہیں ۔ بالآخر نفرت کےجذبا ت باقی سب مصلحتوں پرغالب آجاتےہیں ، حقوق کی پُرامن جدوجہد بالآخر '' حقوق کی جنگ ،، میں بدل جاتی ہے۔پھرایک منزل آتی ہےکہ یہ تحریکیں اعتدال وتوازن سےہاتھ دھوبیٹھتی ہیں ،ان میں انتہا پسندانہ رجحانات زور پکڑ لتےہیں ۔پھر حقوق کی جدوجہد کرنےوالی تنظیموں پرچند پیشہ ور'' حقوقئے ،، قبضہ جمالیتے ہیں ۔ مزدوروں اورکسانوں کےجائز حقوق کےمطالبات لیکر اٹھنے والی تحریکوں میں جب انتہاپسندی پیدا ہوئی توانہوں نے کارخانوں کے'' جلاؤ گھیراؤ،، کوہی اپنا نصب العین سمجھ لیا ۔ دفتری کارکنوں کوحق کی بات کرنےوالی تنظیموں پرجب پیشہ ور افراد نےقبضہ کرلیا تو پھر ان اداروں میں یونین بازی کی وجہ سے کارگردگی بری طرح متاثر ہوئی ۔مغرب میں آزادی نسواں کی تحریک''آوارگی ، کےافسوس ناک مراحل طے کرنے کےبعد اب عملاً ''بربادی نسوان ،، کی تحریک کاروپ دھارچکی ہے۔ اقلیتوں کےحقوق پرشروع کی جانے والی تحریکیں بعض ممالک میں اکثریت اوراقلیتوں کےخونی تصادم کاباعث بنی ہیں ۔گذشتہ چند برسوں سےپاکستان میں مغربی سرمائے سےچلنے والی بعض '' NGOs،، کےاشتراک سےپاکستان کی مسیحی برادری کی ایک '' متحرک اقلیت ،، نےخاصاجارحانہ اسلوب اختیار کیا ہواہے۔مسلم ممالک میں مغربی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی،انسانی حقوق کےنام پراقوام متحدہ اوردیگر مغربی اقوام کی ترقی پذیرممالک کےمعاملات میں برھتی ہوئی مداخلت نےپاکستان کےبعض اقلیتی راہنماؤں کواپنی''صلاحیتیوں ،، کےاظہار پرآمادہ کیا ہے۔

ان کی سرگرمیوں کا دائرہ ''بین الاقوامی ،، ہو تا نظرآتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اقلیتوں کوآئینی حقوق حاصل ہیں ۔انہیں اپنے مذہب کےمطابق زندگی گزارنے کےپورے حقوق حاصل ہیں ۔پاکستان کی مسلم اکثریت کارویہ مسیحی برادری سےبالخصوص ''رواداری ،، اورحسنِ سلوک پرمبنی ہے۔پاکستان کی مسیحی اقلیت کی غالب اکثریت پُر امن بقائے باہمی اورتعاون کےاصول پرعمل پیرا ہے۔ اکادکا واقعات سےقطع نظر، اس وقت مسلمانوں اورعیسائیوں کےدرمیان باہمی تعلقات کی فضا خوشگوار ہی کہی جاسکتی ہے۔لیکن جس طرح بعض مسیحی راہنماؤں نےوزیراعظم پاکستان کی حقیقت پسندانہ بیان پرغیرذمہ دارانہ بیانات دئیے ہیں ، تواس سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ بعض غیردانش مند اورعاقبت نااندیش اقلیتی راہنماؤں کی جذاباتیت پسند امن کی موجودہ فضا کوشائد قائم نہیں رہنے دے گی ۔

ہم ومساوی حقوق،، کامطالبہ کرنےوالے مسیحی راہنماؤں سےدرخواست کریں گےکہ وہ یورپی ممالک میں مسلمان اقلیت کوعطا کردہ حقوق کا معروضی جائز ہ لیں اورپھر اپنے حقو ق کےجدجہد کومعروضی طریقے سےآگے بڑھائیں ۔