قرآن و سنت کا باہمی تعلق

قرآن وسنت ، شریعت کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔ دین کی اساس انہی دو چیزوں پر قائم ہے اگرچہ حکم الٰہی ہونے کے اعتبار سے دونوں بجائے خود ایک ہی شے ہیں ،لیکن کیفیت وحالت کے اعتبار سے جدا ہیں ، مگر اس کے بادجود ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ دونوں چیزیں دین کے قیام کے لیے یکساں طور پر ضروری اور اہم ہیں ۔ ان کے درمیان ردح اور قالب جیسا تعلق ہے افاداتِ فراہی کے ترجمان جناب خالد مسعود اپنے ایک مضمون ''احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط'' کے زیر عنوان لکھتے ہیں:

''یہ ایک مسلمہ امر ہے جس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ نبی ﷺ کے ارشادات شریعت کے احکام کی ایک مستقل بنیاد ہیں خواہ قرآن سے مستنبط ہوں یا نہ ہوں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضوؐر کے دیئے ہوئے احکام کتابِ الٰہی ہی سے مستنبط ہوتے تھے جیسا کہ متعدد احکام کے ضمن میں خود آپ نے تصریح فرمائی اور قرآن میں بھی ا س پر نصوص موجود ہیں''(۱)

پس ضروری ہوا کہ قرآن وحدیث دونوں کو دستورُ العمل اور حرزِجان بنایا جائے ، کیونکہ ان دونوں میں وہی نسبت ہے جو غذا اور پانی کی جسم سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایک متنِ متین ہے جس میں بہت سے احکام اجمال واختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ، حدیث ان کیشرح وتفصیل بیان کرتی ہے ، چنانچہ امام شاطبي ا لغرناطی ؒ (۷۹۰ھ) فرماتے ہیں :

''فکان السنۃ بمنزلۃ التفسیر والشرح لمعانی أحکام الکتاب''(۲)

''گویا سنت کتاب اللہ کے احکام کے لیے بمنزلہ تفسیر وشرح کے ہے ''

بغیر احادیث کے ان مجمل احکامِ قرآن کو سمجھنا اور ان آیات کا موقع ومحل پہچاننا ایسا دشوار ہے جیسے بغیر پانی کے تشنگی کا فرو ہونا یا بغیر بحری جہاز کے سمندر کا پار کر جانا ، شیخ عبد الجبار عمر پوری ؒ نے قرآن وسنت کے اس تعلق کو کس عمدہ پیرایہ میں بیان کیا ہے :

''دل کی کوئی بات بغیر زبان کے ظاہر نہیں ہو سکتی اور زبان بغیر دل کے اشارہ وارادہ کے حرکت نہیں کرسکتی ، یہی کیفیت قرآن وحدیث کی ہے ، قرآن تمام جہاں میںایسا ہے جیسے انسان کے اندر دل اور حدیث ایسی ہے جیسے منہ میں زبان، قرآن قانون وقاعدہ کلی مقررکرنے والااور حدیث اس کی شرح و تفصیل کرنے والی اور اس کی جزئیات وفروعات کو کھولنے والی ہے '' (۳ )

قرآن وسنت کے اس تعلق کو مزید واضح کرنے کے لیے ذیل میں ہم اس کے بعض مختلف پہلوؤں پرگفتگو کریں گے :

قرآن وسنت میں سے کسی ایک چیز پر اکتفا کرنا گمراہی کا باعث ہے

چونکہ اسلامی شریعت صر ف قرآ ن کریم کا نام نہیں بلکہ اس سے قرآن اور اس کا بیان دونوں مراد ہیں لہذا اگر قرآن کی تشریعی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے بیان ،شرح وتفسیر کی مشروعیت سے انکار کیا جائے۔ جاننا چاہئے کہ قرآن کے اسی بیان ، شرح وتفسیر کا نام ہی ''سنت نبوی''ہے ۔ پس قرآن وسنت میں سے صرف قرآن یا صرف سنت کو ہی قابل عمل یا دین کے لیے کافی سمجھنا صریح گمراہی ہے ، کیونکہ قرآن وسنت دونوں میں ایک دوسرے کی پابندی کا تاکیدی حکم وارد ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ﴾(۴)

'' جس نے رسو ل کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ''

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

''من أطاعنی قفد أطاع الله ومن عصانی فقد عصی الله ...الخ''(۵)

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی ، اس نے اللہ کی نافرمانی کی''

علی بن زیدؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن ؒسے مروی ہے :

''أن عمران بن حصین کا ن جالسا ومعه أصحابه فقال رجل من القوم :لا تحدثونا إلا بالقرآن، قال فقال له ادنه فدنا، فقال:أرایت لو وکلت أنت وأصحابک إلی القرآن أکنت تجد فيه صلاۃ الظهرأربعا والمغرب ثلاثا، تقرأ في اثنتین أرأیت لو وکلت أنت وأصحابک الی القرآن أکنت تجد الطواف بالبیت سبعا والطواف بالصفا والمروۃ ثم قال :أی قوم خذوا عنا فانکم والله ان لا تفعلوا لتَضِلُّنَّ '' (۶)

'' عمران بن حصین ؓ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے کہا :ہم سے قرآن کے علاوہ اور کچھ نہ بیان کیا جائے ۔عمران بن حصین نے ان سے قریب آنے کے لیے کہا ، وہ شخص قریب آ گیا تو آپ نے اس سے کہا :اگر تم کو اور تمھارے اصحاب کو صرف قرآن پر چھوڑ دیا جائے تو کیا تم اس میں پا سکتے ہو کہ ظہر کی نماز چار رکعات ،عصر کی چار رکعات ،مغرب کی تین رکعات اور اسکی دو رکعتوں میں قرات کرنی ہے ؟ اسی طرح اگرتمھیں اورتمھارے اصحاب کو صرف قرآن پر چھوڑدیا جائے تو کیا تم اس میں پاسکتے ہو کہ بیت اللہ کا طواف سات بار کرنا ہے ؟اور صفا ومروہ کی سعی بھی ہے ؟پھر آ پ نے فرمایا : اے لوگو !ہم سے (علم حدیث) لو کیونکہ قسم اللہ تعالی کی! اگر تم لوگ ایسا نہ کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے ''

اور سعید بن زیدؓ کی روایت میں یہ واقعہ یوں ہے :

''ہم سے حسن نے بیان کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے کہا : یہ احادیث کیا بلا ہیں ،جوتم ہمیں قرآن کو چھوڑکر بیان کرتے ہو؟ عمران بن حصین ؓ نے فرمایا : اگر میں تمھیں اور تمھارے اصحاب کو صرف قرآن پر چھوڑ دوں تو تم کو یہ کہاں سے پتہ چلے گا کہ ظہر کی نماز اس اس طرح ہے ، عصر کی نماز اس طرح اور اس کا وقت یہ ہے ، مغرب کی نماز اس طرح ،میدان ِعرفات میں موقف اور رمی جمار اس طرح اور چوری پر ہاتھ کہا ں سے کاٹا جائے :کلائی سے یا کہنی یا مونڈھے سے ؟یہ سب تفاصیل ہماری ان حدیثوں ہی میں ملتی ہے جو تم سے بیان کرتے ہیں ۔ اگر تم ان کو نہ سیکھو گے تو واللہ گمراہ ہو جاؤ گے''(۷)

اور امام بیہقیؒ نے ''المدخل الکبیر '' میں حبیب بن ابی فضالہ المکیؒ کی روایت نقل کرتے ہوئے یہ صراحت فرمائی ہے کہ :

''حضرت عمران بن حصین ؓنے شفاعت کی حدیث بیان کی تو کسی قوم کے ایک شخص نے عرض کیا: اے ابو نجید! آپ ہم سے بہت سی ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کی کوئی اصل ہمیں قرآن میں نظر نہیں آتی ؟یہ سن کر حضرت عمران ؓ غضبناک ہو گئے اور کہنے لگے : کیا تو نے قرآن پڑھا ہے ؟معترض نے عرض کیا :ہاں پڑھا ہے ۔حضرت عمران ؓنے پوچھا :کیا تم قرآن میں عشاء کی نماز چار رکعات ،صبح کی نماز دو رکعات ،ظہر کی چار رکعات اور عصر کی چار رکعات پڑھنے کا ثبوت پاتے ہو ؟معترض نے عرض کیا: نہیں ۔حضرت عمران ؓنے پوچھا :تم لوگوں نے ان کو کہاں سے سیکھا ہے ؟ کیا تم لوگوں نے ان کو ہم سے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سیکھا ؟پھر دریافت فرمایا :کیا تم قرآن میں ہر چالیس بکری پر ایک بکری زکوۃ دینے کاحکم پاتے ہو ؟نیز اس میں اونٹ اور درہموں کے نصاب کا ذکر دکھا سکتے ہو؟ معترض کا جواب تھا :نہیں ۔ حضرت عمران ؓکہنے لگے :تو پھر کن لوگوں سے اور کہاں سے تم نے ادائیگی زکوۃ کے نصاب اور طریقے کو سیکھا؟ کیا تم لوگوں نے ہم سے اور ہم نے رسول اللہ ﷺسے یہ چیزیں نہیں سیکھیں ؟پھر کہنے لگے:قرآن میں{وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالبَیْتِ العَتِیْقِ}(بیت الحرام کا طواف کرو) وارد ہوا ہے تو کیا تمھیں قرآن میںسات مرتبہ طواف کرنے کا حکم نظر آتا ہے ؟اور مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے دو رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتاہے ؟کیا تم قرآن میں لا جلب ولا جنب ولا شغار فی الإسلام کے سلسلے میں کوئی ذکر پاتے ہو ؟کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ تعالے نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے{وَمَااٰٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نهاکُمْ عنهُ فَانْتَهوا؟} پھر حضرت عمران ؓنے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری چیزوں کو سیکھاہیجس کا تمھیں کوئی علم نہیںہے ''

اما م ابن حجر عسقلانی ؒ اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں کہ :

''حضرت عمران بن حصینؓ کی یہ گفتگو سن کر اس شخص نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایاتھا :''أحییتنی أحیاک اللہ '' یعنی آپ نے (یہ بصیرت افروز بات کہہ کر )مجھے حیات ِنو اور روشنی عطا کی ہے ،اللہ تعالے آپ کو حیات ِدراز عطا فرمائے''(۸)

امام شاطبي ؒفرماتے ہیں:

'' سنت کو ناقابل التفات سمجھ کر اگر کوئی شخص صرف الفاظ قرآن کے لغوی معانی پر ہی عمل کرنے لگے تو وہ شخص گمراہ ہو جائے گا ، کتاب اللہ سے جاہل رہ جائے گا ،اندھیروں میں ہاتھ پیر مارنے والا ہو گا اور کبھی بھی راہ حق نہ پا سکے گا ''(۹)

علامہ طحاویؒ فرماتے ہیں :

''دینی اصول کے سلسلہ میںوہ شخص کیسے کچھ کہہ سکتا ہے جس نے دین کو کتا ب وسنت کی بجائے لوگوں کے اقوال سے سیکھا ہو؟ اگر یہ شخص یہ گمان کر لے کہ وہ دین ،کتاب اللہ سے لے رہا ہے اور وہ اس کی تفسیر ،حدیث رسول ﷺ سے نہیں لیتا اور نہ ا س پر غور کرتا ہے اور نہ بسند صحیح ہم تک پہنچنے والے صحابہ وتابعین کے اقوال پر نظر رکھتا ہے (تو اسے جان لینا چاہئے کہ) ان راویوں نے ہم تک صرف قرآن کے الفاظ ہی کو نہیں پہنچایا ہے بلکہ اس کے معانی ومطالب کو بھی پہنچایا ہے ۔ وہ لوگ قرآن کو بچوں کی طرح نہیں سیکھتے تھے بلکہ اس کے مفہوم کو بھی سمجھتے تھے اگر کوئی شخص ان کا راستہ اختیا رنہ کرے تو پھر اپنی رائے سے ہی بولے گا ،اور جو اپنی رائے سے بولے اور اپنے گمان کو ہی دین سمجھے اور دین کو قرآن وسنت سے نہ سیکھے وہ گنہگار ہے، خواہ اس کیبات درست ہی ہو ۔اور جو دین کو کتاب اللہ اور سنت رسول سے سیکھے اگر وہ غلطی بھی کرے تو ماجور ہو گا اور اگر صواب کو پالے تو دوہرا اجر پائے گا ''(۱۰)

اس ضمن میں جناب حمید الدین فراہی صاحب بھی ''أحکام الاصول '' میں لکھتے ہیں :

''سلف اور ائمہ نے اپنے مذہب کی صحت کی بدولت کتاب اور سنت دونوں کو مضبوطی سے پکڑا ہے یہ نہیں کیا کہ باطل پسندوں اور ملحدوں کی طرح ان میں تفریق کر کے ایک چیز کو ترک کردیتے ہیں''(۱۱)

قرآن کریم کی یہ آیت اس بارے میں بالکل واضح اور ایساکرنے والوں کو عذابِ الیم کی نوید دی رہی ہے :

(إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا،، ( النساء)

''جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوںکا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم فلاں (فرمان الٰہی) پر تو ایمان لاتے ہیں اور فلاں (فرمان نبوی) کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کفر اور ایمان کے درمیان (ایک تیسری) راہ اختیار کریں ایسے ہی لوگ پکے کافر ہیں او رہم نے کافروںکے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے ''

فہم قرآن کے لییصرف زبان پر قدرت کا فی نہیں ہے

کوئی شخص عربی زبان پر خواہ کتنی ہی قدرت کیوں نہ رکھتا ہو اس کے لیے رسول اللہ ﷺکی قولی وفعلی احادیث کی مدد کے بغیر قرآن کریم کی بعض پیچیدہ آیات کے صحیح مفہوم کو سمجھ لیناممکن نہیں ہوتا۔اس کی ایک واضح مثال آیت (الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ) ہے (۱۲) یعنی ''جو لوگ اللہ پرایمان لائے او ر اپنے ایمان کو ظلم سے بچاتے رہے ان کو امن ہو گا او روہ لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں '' جس کے لفظ'' ظلم '' کو صحابہ کرام ؓ نے اس کے ظاہری مفہوم پر محمول کرتے ہوئے اس سے ہر چھوٹا بڑا ظلم مرادسمجھ لیا تھا ، حالانکہ صحابہ کرام ؓ سے بڑھ کر زبان داں کون ہو سکتا تھا کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہواتھا اور اس وقت تک زبان بھی ہر قسم کے عیوب ونقائص اور درآمدات سے پاک تھی ،لیکن پھر بھی ان کو صرف زبان کی مددسے اس آیت کامفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ جب نبیﷺ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ ''یا رسول اللہ ؐ !ہم میں سے ایساکون ہے جس کے ایمان میں ظلم کا شائبہ نہیں ہے ''؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''یہاں ظلم کا عام مفہو م مراد نہیں، بلکہ اس سے شرک مراد ہے ۔کیا تم کو حضرت لقمان کا قول معلو م نہیں کہ {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ }(۱۳)یعنی ''شرک بہت بڑا ظلم ہے ''

اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب سحری کی آخری حدکی تعیین کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) (۱۴)یعنی ''ماہ ِرمضان میں اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک کہ تمھارے لئے سیاہ دھاگہ سفیددھاگے سے واضح نہ ہو جائے '' تو ایک صحابیِ رسولؐ نے ایک سیاہ اور ایک سفید دھاگہ اپنے سرہانے رکھ لیا کہ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے سے واضح طور پر الگ نظر آنے لگیں اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے ۔ لیکن جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہو ا تو آپؐ نے فرمایا ''اس سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے''(۱۵)

ظاہر ہے کہ یہاں بھی صحابی رسول اہل زبان ہونے کے باوجود محض زبان کی مدد سے اس آیت کاصحیح مطلب ومقصد نہ سمجھ پائے تھے ۔

اس ضمن میں جناب مفتی محمد شفیع صاحب ''قرآن فہمی کے لئے حدیث رسول ﷺ ضروری ہے ، حدیث کا انکار در حقیقت قرآن کا انکار ہے ''کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں :

﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ﴾اس آیت میں ''ذکر ''سے مرادباتفاق قرآن کریم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں مامور فرمایا ہے کہ آپؐقرآن کی نازل شدہ آیات کا بیان اور وضاحت لوگوں کے سامنے کردیں ۔اس میں اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے حقائق ومعارف اور احکام کا صحیح سمجھنا رسول کریم ﷺ کے بیان پر موقوف ہے ۔اگر ہر انسان صرف عربی زبان اور عربی ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو حسب ِمنشائِ خداوندی سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو بیان وتوضیح کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے ''(۱۶)

پس معلوم ہوا کہ انسان کو زبان سے زیادہ سنت کا جس قدر وسیع علم ہو گا، اس کے مطابق اسے قرآن کو سمجھنے اور اس سے احکام مستنبط کرنے میں آسانی ہو گی ۔جو جس قد ر علم حدیث سے بے بہرہ ہو گا اسی قدر فہم قرآن سے محروم رہے گا ۔

فہم قرآن سنت کا محتاج ہے

قرآن کریم میں بعض آیات اس طرح مذکور ہیں کہ جن کا صحیح مفہو م متعین کرنا بغیر احادیث کی مدد کے قطعا ناممکن ہے ۔ اس کی دو مثالیں اوپر سورۃ الانعام کی آیت ۸۲ اور البقرۃ کی آیت ۸۷ میں لفظ ظلم کے مفہوم کی تعیین اور'' تحدیدِ وقت ِسحر '' کے ضمن میں گزر چکی ہیں ۔فہم قرآن میں سنت کی ضرورت اور اہمیت کی چند اور مثالیں پیش خدمت ہیں :

سورۃ التوبہ آیت ۳۶ میں حرمت کے چار ماہ کی تعیین کا نہ ہونا ،سارق وسارقہ کے ہاتھ قلم کرنے کے حکم (سورۃ المائدۃ :۳۸) میں نصاب سرقہ اور قطع ید کی مقدار کی عدم تعیین ،آیت ِتیمم میں لفظ ''ید''کی وضاحت کا نہ ہونا ،حالانکہ حدیث میں اس کی تصریح یوں مذکور ہے :''التیمم ضربۃ للوجہ والکفین'' یعنی( تیمم ایک ضرب ہے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے) اسی طر ح سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۵ میں مردہ جانور ،بہنے والا خون ،خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام سے پکائی گئی چیز کو حرام قراد دیا گیا ہے ، لیکن حدیث نے اس کے ساتھ ہر دانت والے درندے اور پنجوں والے پرند ے اور گھریلو گدھوں کو بھی حرام قراردیا ، سورۃ النساء کی آیت ۱۰۱میں نماز قصر کے لیے ''سفر ''کے ساتھ کفار کے ستانے کا خدشہ بھی بطور شرط مذکور ہے لیکن رسول اللہﷺنے بحالت ِ امن بھی نماز قصر کی بعض صورتوں کو واضح فرمایا ہے۔ سورۃ المائدۃ کی آیت ۶میں ہر مردار اور خو ن کو حرام قرار دیا گیا تھا لیکن حدیث ِنبوی نے مردہ ٹڈی ،مچھلی اور خون بہ شکل جگر وکلیجی کو مستثنیٰ کر کے حلال قرار دیا ہے اور سورۃ الاعراف کی آیت نمبر۳۲میں اللہ کی پیدا کرد ہ ز ینت اور پاکیزہ رزق کوحلا ل بتایا گیا ہے لیکن رسول اللہ ﷺکی حدیثنے زینت کی اشیاء میں سے ریشم اور سونے کے استعمال کو حرام قراردیا ہے ۔ غرض اس طرح کی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو در اصل خود قرآن کی آواز میں ضرورتِ حدیث کو ثابت کرتی ہیں۔ ان مثالوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔کہ فہم قرآن کیلئے سنت ِ نبوی کا مطالعہ کس قدر ضروری ہے۔

اوپر ''قرآن وسنت میں سے کسی ایک چیز پر اکتفا کرنا گمراہی کا باعث ہے '' کے زیر عنوان حضرت عمران بن حصینؓ سے متعلق جو روایات نقل کی گئی ہیں اگرچہ ان سے بھی فہم قرآن میں احادیث کی ناگزیر حاجت کا اظہار ہوتا ہے لیکن اس واقعہ کو امام ابن عبدالبرؒ نے قدرے مختلف لیکن مؤثر اندازمیں یوں بیان کیا ہے :

''مروی ہے کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے ایک شخص کو احمق کہا اور اس سے پوچھا کہ کیا تم کتاب اللہ میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی چار رکعات ہیںجس میں جہری قرا ء ت نہیں کی جاتی ؟پھر اسی طرح کئی نمازوں اور زکوۃ کے متعلق سوال کیا اور پوچھاکہ کیا تم کو یہ سب چیزیں کتاب اللہ میںمفسرا ً ملتی ہیں؟پھر فرمایا ''إن کتاب اللہ أبھم ھذا وان السنۃ تفسر ذلک'' یعنی قرآن کریم نے ان باتوں کی تفصیل بیان کرنے سے خاموشی اختیار کی ہے لیکن سنت نے ان پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ''(۱۷)

امام ابوداؤدؒ نے بھی اپنی سنن میں اس واقعہ کو قدر ے مختلف انداز پر روایت کیا ہے ،جس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ قرآن کریم کے اصل اورصحیح مقصود ومنشاء کو سمجھنے کے لیے سنت ِنبوی کی طرف رجوع کرناناگزیر ہے ۔

علامہ علاؤ الدین ابو الحسن الخازن ؒ آیت'' لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْھِمْ '' کے تحت لکھتے ہیں :

''یعنی احکامِ قرآن میں سے جو کچھ مجمل ہے ،کتاب اللہ کا بیان اور اس کی تشریح وتوضیح سنت سے طلب کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآن کے ان مجملات کے مبین ہیں ''(۱۹)

اور نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒفرماتے ہیں :

''کتاب اللہ کا بیان سنت سے طلب کرنا چاہیے اس مجمل کے مبین رسول اللہ ﷺ ہیں، اسی لئے بعض اہل علم کا قول ہے کہ جب قرآن کریم اور حدیث میں بظاہر تعارض واقع ہوتو حدیث کو مقدم کرنا واجب ہے کیونکہ سورۃ النحل کی آیت ۴۴ دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجمل ہے اور حدیث مبین ،اور مبین چیزمجمل پر مقدم ہوتی ہے... الخ '' (۲۰)

سنت کی اسی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر امام اوزاعیؒ نے امام مکحول ؒسے نقل فرمایاہے:

''الکتاب أحوج إلی السنة من السنة إلی الکتاب''(۲۱)

''قرآن سنت کا زیادہ حاجت مند ہے بہ نسبت اس کے کہ جتنی سنت کو قرآن کی حاجت ہے ''

خواہ مخواہ بعض لوگ امام اوزاعی ومکحول رحمہا اللہ کے اس قول سے وحشت کھاتے ہیں حالانکہ بقول حا فظ ابن عبد البر ؒ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ سنت محتملاتِ قرآن کا فیصلہ بلکہ انکی تعیین کرتی ہے اور قرآن کی مراد ومنشاء کو بیان کرتی ہے ۔اس کی مدد کے بغیر کتاب اللہ کے اصل مقصد ومطلب کو سمجھنا محال ہے۔ آں رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس قول کا مطلب یہ ہے''یرید أنها تقضی عليه وتبین المراد منه''(۲۲) یعنی ''سنت قرآن پر حاکم اور اس کی مراد کو واضح کرنے والی ہے ''۔

حدیث کیوں کر شارح قرآن ہے

مندرجہ صدر دلائل وآثار سے یہ حقیقت واضح ہو چکی کہ کتاب وسنت کا باہمی ربط وتعلق اسی قسم کا ہے جیسے مُبَیِّن و مُبَیَّن میں ہوتا ہے ۔ اب ذیل میں ہم یہ بتائیں گے کہ حدیث کیوں کر شارح قرآن ہے:

۱: چونکہ کلام اللہ جوامع ا لکلم کی قبیل سے ہے۔ اس لیے اس میں تاویلات کی گنجائش ہے لیکن قرآن کریم میں جو آیات مجمل یا مشکل ہیں ،حدیث انکی توضیح کرتی ہے ،جو آیات عام ہیں ان کی تخصیص کرتی ہے اور جومطلق ہو ان کو مقید کرتی ٍہے تاکہ اس سے باطل تاویلات کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں اور کلام اللہ کا معنی ومنشا متعین ہو جائے اس کی چند مثالیں ان شاء اللہ آگے ''قرآن کی روشنی میں باعتبار مضمون ،احادیث کی قسمیں '' کے زیر عنوان پیش کی جائیں گی۔

۲ :شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں وارد شدہ الفاظ کی خودشرح بیان فرمائیں ،مثلا آںﷺنے{ مغضوب علیہم }سے یہودی اور{ الضالین }سے مراد نصاری بیان فرمائیہیں ۔

۳: شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نبیﷺ ایسے احکام بیان فرمائیں جو قرآن کریم میں بیان کردہ احکام سے زائد ہوں ۔ایسے احکام کی چند مثالیں ان شاء اللہ آگے محولہ بالاعنوان کے تحت پیش کی جائیں گی ۔

۴: شرح قرآن کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبیﷺ ناسخ ومنسوخ آیات کی نشاندہی فرما دیں۔ جیسا کہ راقم کے گذشتہ مضامین میں مثالیں اور تفصیلات گزر چکی ہیں۔

۵:شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم میں جو حکم مذکور ہو حدیث اس کی مزید تائیدو تاکید کرے ۔

کتاب اللہ پر سنت کے قاضی ہونے کا مطلب

امام اوزاعی ؒ کے استاذ مشہور محدث امام یحییٰ بن ابی کثیرؒ نے بھی اصولِ قرآنیہ کی توضیح میں سنت کے اہم کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا تھا: ''السنۃ قاضیۃ علی الکتاب، لیس الکتاب قاضیا علی السنۃ'' (۲۳) ''سنت (احکام )قرآن کا فیصلہ کرنے والی ہے ، ''قرآن سنت کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے ''

بعض لوگ امام ؒکے اس قول سے خواہ مخواہ متوحش نظر آتے ہیں اور اسے استخفافِ قرآن سے تعبیر کرتے ہوئے امام یحییٰ بن ابی کثیر کی تحقیر سے اس قول کی حقانیت کو ماند کرنے اور اپنے دل کا بوجھ ہلکاکرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں ، مثال کے طور پر جناب رحمت اللہ طارق صاحب فرماتے ہیں:

''آگے چل کر استخفاف قرآن کی یہا ں تک جسارت کی گئی کہ یحییٰ بن ابی کثیر جیسے کوتاہ نظرمحدث کے الفاظ بطور سند نقل ہونے لگے کہ ''قرآن وحدیث میں جب تضاد محسوس ہو تو اس صورت میں حدیث کو مقدم اور قرآن کو مؤخر کرنا چاہئے''السنة قاضية علی الکتاب ولیس الکتاب بقاض علی السنة '' کیونکہ سنت برتر ہے (اور اسےآگے ہی بڑھنا چاہئے) اور قرآن فروتر ہے (اور اسے پیچھے ہی ہٹنا چاہئے) اور برتر یا فیصلہ کن کو ہمیشہ فروتر پر فوقیت رہتی ہے ''(۲۴)

حالانکہ امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ کا یہ قول استخفاف ِقرآن سے قطعاً عبارت نہیں بلکہ انتہائی پر مغز ،امر واقعہ اور اپنے اندر معانی کا ایک وسیع سمندر سموئے ہوئے جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا۔ جناب رحمت اللہ طارق صاحب کا امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ کو'' کوتاہ نظر محدث'' بیان کرنا جس قدر خلاف واقعہ ہے اسی قدر امام رحمہ اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا بھی کہ آں رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن ایک'' فر وتر ''یا ''پیچھے ہٹائے جانے''کے لائق چیز ہے جبکہ سنت اس سے ''برتر'' اور آگے بڑھانے کے لائق ہے ۔ہمارے علم کے مطابق آں رحمہ اللہ نے کبھی اس قسم کی کوئی درجہ بندی نہ فرمائی تھی۔جہاں تکقرآن وحدیث میں''تضاد محسوس ''ہونے کی صورت میں سنت رسول کو مقدم کرنے اور ہر معاملہ میں اس سے ہی فیصلہ کروانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں خود قرآن ناطق ہے۔

ذیل میں ہم امام یحییٰ ٰبن ابی کثیر ؒ کی کوتاہ نظری کے بطلان پر کچھ شواہد پیش کریں گے تاکہ جناب رحمت اللہ طارق صاحب کے اس دعویٰ کی حقیقت آشکار ا ہو سکے ۔

امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ محدثین کی نظر میں

امام یحییٰبن ابی کثیر ؒ ۱۲۹ ھ؁صغار تابعین سے تھے۔آپ کی کنیت ابو نصر الطائی تھیـ۔ امام ذہبی نے آپ کو ''الامام ''اور ''أحد الاعلام الأثبات ''کے القاب سے یاد کیا ہے۔ آپ نے ابی سلمہ بن عبدالٰرحمن ، ابی قلابہ ،عمران بن حطان ،ہلال بن ابی میمونہ اور ایک جماعت سے روایت کی ہے ۔ ابو امامہ الباہلیؓ سے آپ کی روایت صحیح مسلم میں اور حضرت انسؓ سے آپ کی روایت سنن النسائی میں مرسلا مروی ہے ۔ آپ سے آپ کے فرزند عبداللہؒ ،عکرمہ بن عمارؒ ،معمر ؒ،ہشام دستوائی ؒ،اوزاعیؒ، ھمام بن یحییٰ ،ابان بن یزید ؒ،اور ایوب بن عتبہؒ جیسے نابغہ روزگار محدثین کے علاوہ ایک خلق کثیر نے احادیث کی روایت کی ہے ۔

شعبہ ؒ کا قول ہے :'' هو أحسن حدیثا من الزهری'' یعنی ''یحییٰ بن ابی کثیر ؒعلم حدیث میں امام زہریؒ سے بہتر ہیں '' امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں : ''اذا خالفہ الزھری فالقول قول یحيٰ '' یعنی اگر زہریؒ ان کے خلاف روایت کریں تویحییٰ ؒ کا قول درست سمجھا جائے گا '' امام ابو حاتم ؒ کا قول ہے :''ثقۃامام لایروي إلا عن ثقۃ '' یعنی '' ثقہ اور اما م ہیں اور صرف ثقات سے ہی حدیث روایت کرتے ہیں'' وھیب،ایوب سختیانی ؒ سے نقل کرتے ہیں ''ما بقي علی وجہ الأرض مثل یحيٰ بن أبی کثیر ؒ '' یعنی اب روئے زمین پریحییٰ بن ابی کثیر کے مثل کوئی باقی نہیں ہے ''امام عجلیؒ نے انہیں ثقۃ اور حسن الحدیث قرار دیا ہے۔ امام ذہبیؒ کا قول گزر چکا ہے کہ ''علمائے اثبات میں سے تھے '' حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کا قول ہے کہ ثقہ اور ثبت تھے لیکن تدلیس وارسال کرتے تھے :'' مشہور حافظِ حدیث ،لیکن کثیر الارسال تھے''۔ امام نسائی ؒ نے ان میں تدلیس کا وصف بھی بیان کیا ہے ۔ (۲۵)

امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ کی بالغ النظری اور رفیع الشان محدثیت کے اس تذکرہ کے بعد ہم آںرحمہ اللہ کے مذکورہ قول پر اٹھائے جانے والے بعض اعتراضات کا جائزہ پیش کرتے ہیں :

جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی طرح جناب امین احسن اصلاحی صاحب بھی امامیحییٰٰ بن ابی کثیر کے زیر بحث قول پر انتہائی خفا ہیں ،چنانچہ اپنی تفسیر ''تدبر قرآن ''کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

''جو لوگ احادیث وآثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر بھی حاکم بنا دیتے ہیں، وہ نہ تو قرآن کا درجہ پہچانتیہیں ، نہ حدیث کا ۔برعکس اس کے جو لوگ احادیث وآثار کو سرے سے حجت ہی نہیں مانتے وہ اپنے آپ کو اس روشنی ہی محروم کرلیتے ہیں جو قرآن کے بعد سب سے زیادہ قیمتی روشنی ہے''(۲۶)

یہی بات آں محترم ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں :

'' جو لوگ احادیث وآثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر حاکم بنادیتے ہیں، وہ درحقیقت قرآن کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور احادیث کی بھی کوئی شان نہیں بڑھاتے اس کے برعکس جو لوگ احادیث کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں وہ اس روشنی سے ہی محروم ہو جاتے ہیں جو قرآن مجید کے بہت سے اجمالات کے کھولنے میں سب سے زیادہ مددگار ہو سکتی ہے ''(۲۷)

محترم اصلاحی صاحب نے اپنی زیر تبصرہ کتاب ''مبادئتدبرِ حدیث'' میں بھی امام یحییٰ کے اس قول پر اپنی برہمی کا اظہار فرمایاہے، لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے اپنی خفگی کے باوجود جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی طرح اما م رحمہ اللہ کی شخصیت کشی نہیں کی ہے بلکہ انہیں ''ایک بزرگ''(۲۸)کے نام سے ذکر کیا ہے ۔

اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث کو قرآن پر قاضی کہہ دینے سے بعض لوگوں نے یہ غلط مطلب سمجھ لیا ہے کہ گویا قرآن احادیث کی عدالت کے کسی کٹہرے میں ایک بے بس و لاچار مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے اور حدیث کو بحیثیت قاضی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے ۔اگر فیصلہ اس مجرم کے حق میں ہوا تو اس کو قبول کیا جائے گا ، اور اگر اس کے خلاف ہوا تو اس کو رد کردیا جائے گا۔ الفاظ کے ہیر پھیر اور مسجع ومقفٰی عبارت کے ساتھ اس من مانے مطلب ومنشا کو اس طرح مشتہر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی روح تک کانپ اٹھتی ہے ۔ اس غلط ترجمانی کے نتیجہ میں قاری نادانستہ طور پر ان بزرگوں کے متعلق بد گمانی کا شکار ہو جاتا ہے جن سے کہ یہ اقوال منقول ہیں ۔ مگر ان اقوال کا صحیح مطلب ومنشاء بھی مشہور فارسی مقولہ ''رموزمملکت خویش خسرواں دانند''کے مصداق علم قرآن وحدیث پرگہری بصیرت رکھنے والے اصحابِ دانش وبینش ہی جانتے ہیں ۔ جناب رحمت اللہ طارق صاحب اور ان کے ہم فکراصحاب کا یہ مقام ہی نہیں کہ وہ ان ائمہ کبار کے اقوال کی رفعت اورگہرائی کا احاطہ کر سکیں ۔ لہذا ان حضرات سے اس کی صحیح ترجمانی کی توقع کرنا ہی عبث ہے ۔

امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ ،امام مکحول ؒ اور امام اوزاعیؒ وغیر ہ کے ہمعصر یا بعد میں آنے والے جتنے بھی مشہورائمہ حدیث گزرے ہیں ان میں سے کسی سے بھی ان حضرات کے اقوال پرنکارت منقول نہیں ہے ۔محدثین میں سے اما م احمد بن حنبل ؒ کے دو متضاداقوال میں سے ایک قول کے مطابق بھی یہ مقولہ ''منکر'' نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ''جسارت '' کے زمرہ میں آتا ہے ۔ آںرحمہ اللہ کے علاوہ باقی تمام محدثین نے تو ان اقوال کی صداقت پر اس قدر اعتماد کیا ہے کہ بعض نے اپنی کتب میں مستقل ابواب ہی اس عنوان سے قائم کیے ہیں :''باب السنۃ قاضیۃ علی کتاب اللہ '' ''سنت کے کتاب اللہ پر حاکم ہونے کا بیان'' (۲۹)

ہمارے نزدیک مقولہ :''السنۃ قاضیۃ علی الکتاب، لیس الکتاب قاضیا علی السنۃ ''کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ امور ومطالب کی محتمل ہوتی ہیں ،لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعیین کر کے اس آیت کا مقصد ومطلب متعین کردیتی ہے ۔ اس چیزپر استدلال عموما ان احادیث سے کیا جاتا ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کوخاص کیا جاتا ہے ظواہر کتاب کے مقتضی کو یوں ترک کر کے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتاب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی در اصل کتاب اللہ کی بھی منشا ومراد ہے ۔پس اس قول کا اصل محرک اصولِ ِقرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثر وکردار ٹھہرا ۔ یہ بات علامہ شاطبي کے ان اقوال سے بھی مؤکد ہوتی ہے: فرماتے ہیں :

''ان قضاء السنة علی الکتاب لیس بمعنی تقديمها عليه وإطراح الکتاب بل ان ذلک المعبّر في السنة و المراد فی الکتاب ''

(یعنی سنت کے کتاب پر قاضی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اسے کتاب پر مقدم ٹھہرایا جائے اور کتاب کو اس کے مقابلے میں چھوڑ دیا جائے ، بلکہ جو کچھ سنت میں بیان کیا جاتا ہے وہ کتاب کی مراد ہوتی ہے)... اور

''هكذا سائر ما بينه السنة من کتاب الله تعالیٰ فمعنی کون السنة قاضىة علی الکتاب انها مبينة له''

یعنی ''یہی معاملہ قرآن کی ان تمام آیات کا ہے جن کی تبیین سنت نے کی ہے ، لہذا کتاب اللہ پر سنت کے قاضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ کی شارح ہے''

ذیل میں ہم اس قول کے صحیح مطلب ومنشا کی وضاحت کے لیے چند مثالیں پیش کرتے ہیں :

ارشادِ الہی ہے :﴿ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ﴾ ...یعنی'' نماز قائم کرو''

لیکن'' صلوٰۃ '' کے معنی کی تعیین میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے ،کوئی شخص کہے گا کہ ''صلوٰۃ '' کے معنی دعا وتسبیح کے ہیں ،کوئی درود و رحمت بیان کرے گا ۔محمد احمد بٹلا جیسا کوئی شخص اس کے معنی ''پریڈ'' بھی بیان کر سکتا ہے ۔کوئی تجدد پسند شخص اسے نظامِ ربوبیت یا اشتراکیت سے تعبیر کرے گا جیسا کہ لاہور کے ایک شخص نے بیان کیا تھا: کوئی''صلوٰۃ '' سے مراد محض کولہوں کو ہلانا بتائے گا ،کوئی شخص یہ کہے گا کہ ''صلوٰۃ کے صحیح معنی وہ کیفیتِ اعمال ہے جو نبی ﷺ نے حکما وعملا یوں ظاہر فرمائی ہے :'' صلُّوا کما رأیتموني أصلي '' (۳۰) اور مسلمانوں کے ہر طبقہ میں نسلا بعدنسل معروف ومشہور اور معمول بہ ہے ۔

اسی طرح قرآن کی آیت :﴿وّالسَّارِقُ وّالسَّارِققة فَاقْطَعُوْا أَیْدِیَهما﴾(۳۱)یعنی چوری کرنے والے مرداور چوری کرنے والی عورتوں کے ہاتھ کاٹ دو'' اگر اس آیت کی تفسیر میں کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں ہاتھ کاٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جراء ت نہ ہونے دو کہ وہ چوری کر سکیں ، ان کے تمام وسائل ختم کر دو جو امراء اور بااثر لوگ ان کے دست وبازو اور پناہ دہندہ بنے ہوئے ہوں، انہیں ان سے جدا کر دو،تو آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فی الواقع ان کے ہاتھ ان کے تن سے جدا کردو ۔ تو ظاہر ہے کہ یہ تفسیر قرآن کریم کی صحیح ترجمانی نہ ہو گی کیونکہ حدیث میں ان آیات کی عملی تفسیر اور واضح احکام موجودہیں: لہذا قارئین کرام بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر ہر شخص کو قرآن کے ان الفاظ کے من مانے مطلب بیان کرنے کی چھوٹ دے دی جائے تو قرآن کریم اختلافات کا ایک ناقابل فہم اور ناقابل حل معمہ بن کر رہ جائے گا۔

ظاہر ہے کہ ان تمام اختلافات کے حل کی نہایت مؤثر اور ممکن صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ ان تمام معانی میں سے صرف اس معنی کو ہی درست مانا جائے جو خود نبی ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ۔پس جب اس بارے میں آںﷺ کا قول وفعل فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اور مفہو م نکالا جا سکتا ہے کہ آپؐ کا قول وفعل ہی (جو کہ سنت اور احادیث کے نام سے معروف ہے ) اس بارے میں فیصلہ کن ؍ قاضی یا حاکم کی حیثیت رکھتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کے کون سے معنی صحیح اور منشاء الہی کے مطابق ہیں ۔ یہ ہے اس مقولہ'' احادیث قرآن پر قاضی ہیں '' کا اصل مفہوم ،جس سے نہ قرآن کا ملزم ہونا لازم آتاہے اور نہ ہی کلام اللہ کی تحقیر واستخفاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب ؓ فرمایا کرتے تھے :

''سیأتی قوم یجادلونکم بشبهات القرآن، فخذوهم بالسنن فإن اصحاب السنن أعلم بکتاب الله '' (۳۲)

''عنقریب تمھارے پاس ایک جماعت آئے گی جو قرآنی شبہات کو لے کر تم سے جھگڑا کرے گی۔تم ان کا مؤاخذہ سنن نبویہ سے کرنا کیونکہ سنن نبویہ کا علم رکھنے والے ہی کتاب اللہ کے مفہوم کو زیادہ جاننے والے ہیں ''

یعنی حضرت عمر ؓ کے نزدیک بھی قرآنی شبہات میں جدال کی صورت پیش آ جانے پر سنت نبوی کا درجہ قاضی کا تھا ،اسی طرح ایک مرتبہ کسی شخص نے تابعی جلیل مطرف بن عبداللہ الشخیر ؒ۹۵ھ؁ سے کہا:

''لا تحدثونا إلا بالقرآن '' یعنی ہمیں قرآن کے سوا اور کچھ نہ سنایا کرو ،توآپؒ نے فرمایا :

''واللہ ما نرید بالقرآن بدلا ولکن نرید من هو أعلم بالقرآن من یرید رسول اللهﷺ''(۳۳)

''قسم اللہ تعالیٰ کی! ہم قرآن کا بدل تلاش نہیں کرتے ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے قرآن کے اس مطلب کا سب سے بڑھ کر عالم کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کی مرادتھی ''

امام علی بن المدینی ؒ بیان کرتے ہیں کہ امام عبدالرحمن بن مہدیؒ کا قول ہے :

'' الرجل الی الحدیث أحوج منه الی الأکل والشرب وقال الحدیث تفسیر القرآن''(۳۴)

''کسی شخص کو کھانے پینے سے زیادہ علم حدیث حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور فرمایا کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے ۔''

امام اوزاعی ؒ ایوب سختیانی سے ناقل ہیں کہ'' اگر کوئی شخص سنت ِنبوی کے متعلق یہ کہے کہ ! جی سنت کی بات رہنے ہی دیجئے ، ہمیں تو صرف قرآن کے متعلق بتائیے تو جان لو کہ وہ شخص گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والاہے ۔''آپ کے الفاظ ہیں :

''إذا حدث الرجل بالسنة فقال دَعْنا هذا وَحدِّثْنَا من القرآن فاعلم أنه ضال مُضل''(۳۵)

علامہ شعرانی بیان کرتے ہیں کہ :

''ایک مرتبہ اہل کوفہ میں سے ایک شخص امام ابو حنیفہ ؒ کی مجلس میں حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ حدیث کا درس دے رہے تھے۔ اس شخص نے کہا :''دعونا من ھذہ الاحادیث'' ہمارے سامنے یہ حدیثیں بیان مت کرو'' امام ابو حنیفہ ؒ نے یہ سن کر اس پر سخت زجر فرمایا اور کہا ''لولا السنة ما فهم أحد منا القرآن ''یعنی اگر سنت نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی بھی قرآن نہ سمجھ پاتا آں جناب یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ:جب تک لوگ حدیث کی طلب کرتے رہیں گے،ان میں خیرو صلاح باقی رہے گی اورجب حدیث کے بغیر علم کے طالب ہوں گے تو فساد میں جا پڑیں گے'' (۳۶)

اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ''بیان الفرق بین اہل الحدیث واصحاب الرأی ''کے زیر عنوان فرماتے ہیں :

''کان عندهم أنه إذا وجد فی المسألة قرآن ناطق فلایجوز التحول إلی غیرہ واذا کان القرآن محتملا لوجوہ فالسنة قضية عليه ''(۳۷)

''محدثین کے نزدیک جب قرآن میں کوئی حکم صراحۃً موجود ہو تو کسی دوسری چیز کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر قرآن میں تاویل کی گنجائش ہو اورمختلف مطالب کا احتمال ہوتو حدیث کا اس پر قاضی ہو گی( یعنی اس کا فیصلہ ناطق ہو گا اورقرآن کے اسی مفہوم کو درست سمجھا جائے گا جس کی تائید سنت سے ہوتی ہو) ۔''

ا ن تمام اقوال سے اصولِ قرآنیہ کی توضیح میں سنت کے عظیم الشان کردار اور اس کی اہمیت وضرورت پر روشنی پڑتی ہے ، اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد خواہ کسی حکم قرآن کی تشریح میں ہو یا اس کے اجمال کی تفصیل اور وضاحت میں ،بہرصورت اسے قاضی وناطق سمجھا جائے گا۔پس امام یحییٰ بن ابی کثیرؒ ،مکحول ؒ اور اوزاعی ؒ کے مذکورہ بالا اقوال سے ان کی جو مراد سمجھ میں آتی ہے وہ دراصل لوگوں کو ایک طرح کی تنبیہ ہے کہ قرآن کریم کے معانی ومطالب أعلم الخلق رسول اللہ ﷺ سے بہتر کون جانتا ہے ؟نیز جو کچھ آپﷺ ارشاد فرماتے تھے وہ نری وحی ہوتا تھا لہذا قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق خود کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں دیکھ لینا چاہئے کہ رسول امین ﷺ نے اس بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے ؟بلاشبہ آپﷺ کا ہر ارشاد لائق تر جیح ہے ۔خود اللہ عز وجل نے قرآن کریم میں یہ حکم فرمایا ہے کہ ہر معاملہ میں (حدیث) رسول اللہ ﷺ سے ہی فیصلہ کروایا جائے ۔ اہل علم حضرات میں سے کسی نے بھی اس بارے میں اختلاف رائے نہیں کیا ہے کہ سنت کے کسی فیصلہ اور حکم پر عمل کرنا دراصل قرآن کریم کے ہی حکم پر عمل کرنا ہے ۔اور کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو امام ورہبر اور سر چشمہ ہدایت بتایا ، انکی سنت کو ''قدوۃ '' اور ''ھدی النبی ﷺ''کو ''اسوئہ حسنہ ''قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خودقرآن سنت کے وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔

حواشی وحوالہ جات

(۱) رسالۃ ''تدبر'' عدد ۱۳ ص ۱۱ مجریہ ماہ فروری ۱۹۸۵؁ء (۲) الموافقات للشاطبي ج۴ ص ۱۰ (۳) عظمت حدیث ص ۴۵،۴۶ (۴) النساء ۸۰ (۵) صحیح البخاری مع فتح الباری ج ۱۳ ص ۱۱۱ (۶) الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب ص ۱۵ (۷) نفس مصدر ص ۱۵،۱۶ (۸) لسان المیزان ج ۱ ص ۳ المستدرک للحاکم ج ۱ ص ۱۰۹ (۹) الموافقات ج ۴ ص ۲۱ (۱۰) شرح عقید ہ طحاویہ ص ۲۱۲ (۱۱) رسالۃ'' تدبر'' لاہور عدد ۳۷ ص ۳۳ مجریہ ماہ نومبر ۱۹۹۱ئ؁(۱۲) الانعام:۸۳(۱۳) لقمان ۱۳ (۱۴) البقرۃ ۱۸۷ (۱۵) صحیح البخاری مع فتح الباری ج ۴ ص ۱۳۲ صحیح المسلم کتاب الصوم حدیث ۱۰۹ ، سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج ۲ ص ۲۷۶ (۱۶)معارف القرآن ازمفتی محمد شفیع ج ۵ ص ۳۳۶ (۱۷) جامع بیان العلم وفضلہ ج ۲ ص ۱۹۱ (۱۸) سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج ۲ ص ۳ (۱۹) لباب التاویل للخازن ج ۴ ص ۷۶ (۲۰) تفسیر فتح البیان ج ۵ ص ۲۳۴ (۲۱) جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۹۱ ، الموافقات للشاطبي ج ۴ ص ۱۹ ، تفسیر القرطبي ج ۱ ص ۳۹ ، الکفایۃ للخطیب ص ۱۴ (۲۲) جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۹۱ (۲۳) الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب ص ۱۴ ، الاعتبار للحازمی ص ۱۷ طبع منیر الدمشقی ۱۳۴۶ (۲۴) تفسیر منسوخ القرآن تالیف رحمت اللہ طارق ص ۴ (۲۵) تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج ۱ ص ۱۲۸ ، میزان الاعتدال للذہبی ج ۴ ص ۴۰۲ ، الجرح والتعدیل لابن ابی حا تم ج ۴/۲ ص ۱۲۴ ، المراسیل لابن ابی حاتم ص ۱۴۳،۱۴۴، جامع التحصیل للعلائی ص ۸۸۰ ، تعریف اہل التقدیس لابن حجر ص ۷۶ ، تقریب التہذیب لابن حجر ج ۲ ص ۳۵۶ ، تہذیب التہذیب لابن حجر ج ۱۱ ص ۲۸۶ ، معرفۃ الثقات للعجلی ج ۲ ص ۳۵۷ ، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج ۴ ص ۴۲۳ ، فتح الباری لابن حجر ج ۵ ص ۱۰۵، ج۵ ص ۴۸۷ ج ۱۰ ص ۴۸۲،۵۱۵، ہدی الساری لابن حجر ص ۳۷۹ ، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج ۳ ص ۳ ، ۱۶۶ (۲۶) مقدمہ تفسیر تدبر قرآن ص ۲ (۲۷) مبادی تدبر قرآن ص ۲۱۸،۲۱۹ (۲۸) مبادی تدبر حدیث ص ۳۸ (۲۹) سنن الدارمی المقدمہ ج ۱ ص ۱۴۵ (۳۰)صحیح البخاری کتاب الاذان باب۱۸ ، کتاب الادب باب ۲۷ ، سنن الدارمی کتاب الصلاۃ ۴۶ ، مسند احمد ج ۵ ص ۵۳ (۳۱) المائدۃ ، (۳۲) جامع بیان العلم وفضلہ ج ۲ ص ۲۳۱، مقدمۃ المیزان للشعرانی ص ۶۲ ، قواعد التحدیث للقاسمی ص ۵۰ (۳۳)الموافقات للشاطبی ج ۴ ص ۱۹ ، جامع بیان العلم وفضلہ ج ۲ ص ۱۹۱ ، مقدمہ کتاب الکفایۃ للحافظ محمد التییجانی ص ۱۲ ، الجرح والتعدیل لا بو لبابہ حسین ص۳۱ (۳۴) الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب ص ۱۶ (۳۵) نفس مصدر (۳۶) مقدمہ المیزان للشعرانی ص ۶۲،۶۳ ، قواعد التحدیث للقاسمی ص۵۲ (۳۷) حجۃ اللہ البالغۃ ص ۱۱۸ ، قواعد التحدیث للقاسمی ص ۳۳۸ (۳۸)