اکتوبر 1998ء

شریعت بل .......... خدشات اورتوقعات

28 اگست 1998کوموجودہ حکومت نےنفاذِ شریعت کےحوالہ سے آئین میں پندرہویں ترمیم کاایک بل پیش کیا ہے جس میں شریعت کوسپریم لاء قرار دینےکااعلان ہے۔
اس بل میں جوتجویز یادعویٰ کیاگیا ہے، یہ وہی ہےجس کاوعدہ تحریک پاکستان میں کیاگیا،پھرقیا پاکستان کےبعد کیا گیا اوراب تک کیا جاتارہا ہے۔جب واقعہ یہ ہےکہ شریعت کی عملداری پاکستان کےقیام کی محرک تھی اوربانی پاکستان سےلےکرہرحکمران نےا س کاوعدہ بھی کیا۔خود میاں نواز شریف صاحب نےیہ وعدہ متعدد مواقع پرکیا۔ توپھر اس مقصد کےلیے پیش کی گئی پندرہویں ترمیم کی مخالفت اپنوں اوربیگانوں کی طرف سےکیوں کی جارہی ہے؟ اپنوں سےمراد وہ دینی جماعتیں اورمذہبی حلقے ہیں جن کی سیاست اورسرگرمیوں کامقصد ومحور ہی شریعت کی بالا دستی ہےلیکن ان کی اکثریت بھی حکومت کےپیش کردہ بل سےمتعلق ذہنی تحفظات کاشکار ہے۔اور بیگانوں سےمراد وہ لوگ ہیں جواس ملک میں شریعت اسلامیہ کی بجائے سکولرازم ، اباحیت اورزندقہ کےعلم بردارہیں ۔ان لوگوں کےمقاصد وعزائم اگرچہ ڈھکے چھپے نہیں رہےہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہےکہ واضح الفاظ میں ان لوگوں کواس سےپہلے شریعت کی بالادستی کےخلاف اس طرح لب کشائی کی جراءت نہیں ہوئی تھی ۔یہ پہلا موقعہ ہےکہ ایسے لوگ اس شریعت بل کےخلاف متحد ہوگئے ہیں اوراس کےخلاف تحریک چلانے کےعزم کااظہار کررہےہیں۔آخرایسا کیوں ہے؟........ پاکستان میں اسلام کےخیرخواہ اوراس کےبدخواہ دونوں اس بل کی مخالفت کیوں کررہےہین ؟ اس کی وجوہ حسب ذیل ہیں :

دینی حلقوں کے ذہنی تحفظات کی وجہ حکومت کی اب تک کی کارگردگی ہےجس سےو ہ سخت مایوس ہوئےہیں ۔موجودہ حکومت کےگزشتہ 20 ماہ ایسے گزرے ہیں کہ اسے قومی اسمبلی کےساتھ ساتھ سینٹ میں بھی اکثریت حاصل تھی ۔اس لحاظ سےاس کی پوزیشن پارلیمنٹ میں اتنی مستحکم تھی کہ وہ جو چاہتی ، اس سےپاس کرواسکتی تھی ۔لیکن حکومت نےاس وقت شریعت کےلیے کچھ نہیں کیا۔ اور جب وہ سینٹ میں اپنی عدوی اکثریت کھوبیٹھی ہےتواس نےیہ شریعت بل پیش کردیا ہےجس کاپاس ہونا بظاہر نہایت مشکل ہے۔گویا ایک نہایت ہی اہم مقصد کی طرف پیش قدمی کاجوسنہری موقعہ تھا اسے تو ضائع کردیا گیا اورجب اس کی کامیابی مشکوک ہےاورحکومت اپنےبعض اقدامات کی وجہ سے گروامیں پھنسی ہوئی ہےتواسے یہ بل یادآیا ہے۔

دوسری وجہ اس بل کےسلسلے میں حکومت کےاکابر واصابر کےبیانات ہیں جس نےدینی حلقوں کےشکوک وشبہات میں اضافہ کیاہے۔ کسی نے کہا اس بل کےپاس ہونےکےباوجود کسی کےہاتھ نہیں کٹیں گے۔

پنچاب کےوزیر اعلیٰ نےکہا: غربت اوربے روزگاری کےخاتمےتک تعزیر ی سزائیں نافذ نہیں ہوں گی ، کسی نےکہا یہاں طالبان کااسلام نہیں آئے گا ، خود وزیراعظم صاحب نےاسی روز کی پریس کانفرنس میں فرمایا، کہ سود کاخاتمہ ہوگا اورنہ شرعی عدالت کےاختیارات بڑھیں گےاسی طرح بل میں امرباالمعروف اورنہی عن المنکر کےتعین کےاختیارت حاصل کرنےکےباوجود وضاحت فرمائی کہ ہم عورتوں کوبرقع پہنائیں گے نہ ان کوگھروں میں بٹھائیں گے ۔ اسی طرح وزیراعظم نےکہا: مارک آپ اسلام میں جائز ہے، وغیر ہ وغیرہ ۔

جواہل دین شریعت اسلامیہ کوسمجھتےہیں ،وہ جب ان بیانات کوپڑھتےاورسنتےہیں توسوچنے پرمجبور ہوجاتےہیں کہ نفاذ شریعت کےبعد بھی کسی چور، ڈاکو اوربدمعاش کوسزا نہیں ملے گی ، تویہ نفاذ شریعت ہوگایا شریعت سےمذاق ہوگا ؟

اورملک میں جواخلاقی جرائم کی بھرمار اورقتل وغارت گری کی گرم بازاری ہے ، اس کاسدباب کس طرح ہوگا ؟ اورجب پچاس سال میں غربت وبےروزگاری کاخاتمہ نہیں ہوسکا، توآئندہ پچاس ہوسال میں کیا اس کی امید کی جاسکتی ہے؟ علاوہ ازیں کیاچور ، ڈاکو،زانی اوربدمعاش اوراسی طرح کےدیگر اخلاقی جرائم میں ملوث ومرتکب افراد کیاغربت وبے روزگاری کےستائے ہوئے ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں ! ان میں کوئی غریب نہیں ۔ سب دولت دنیا کےحریص ، خوفِ خدا سےعاری اوربدنہادوبدسرشت ہیں۔ان کاعلاج صرف اورصرف اسلامی سزائیں ہیں ۔سعودی عرب میں آج سے 60۔70 سال قبل جب ان اسلامی سزاؤں کےنفاذ عمل میں لایا گیا ، تووہاں حاجیوں تک کی جانیں اوران کےمال محفوظ نہیں تھے۔لیکن سلطان عبدالعزیز بن سعود﷫ نےسریرآرائے سلطنت ہوتےہی اسلام نافذ کردیا اور اسلامی سزاؤں پرعمل شروع کردیا ، تووہاں مثالی امن قائم ہوگیا ، اوراس کی برکت سےآج تک وہاں مثالی ام قائم ہےاوراسلام کی برکت سےاللہ تعالیٰ نےاسے دنیا کی دولت سے بھی خوب نوازا ہے۔

دوسری مثال ہمارے پڑوس میں افغانستان کی ہے۔یہاں بھی غربت اوربدامنی عا م تھی،لیکن طالبان نےاپنے زیر تصرف علاقوں میں اسلامی سزائیں نافذ کردیں تووہاں بھی مثالی امن قائم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں توالحمدللہ عرب اورافغانستان جیسی غربت کانام ونشان ہی نہیں ہے۔یہاں غربت کےنام پراسلامی سزاؤں کےنفاذ سےگریز اعراض ، خوئے بدراحیلہ ء بسیار ، کامصداق اور حکمرانوں کی بدنیتی کاغماز ہے۔

اسی طرح عورتوں کےبابت یہ ےکہنا کہ ہم انہیں برقعے پہنائیں گے، نہ انہیں گھروں میں بٹھائیں گے۔ اسلام کےنفاذ کےمعاملے میں حکمرانوں کےعدم اخلاص کی دلیل ہے۔ یہ ٹھیک ہےکہ پردے کےلیے برقع ضروری نہیں ہے، چادر سےبھی پردے کااہتمام ہوسکتا ہےلیکن برقعے کےعنوان سے پردے کےقرآنی حکم سےانحراف ،یہ کون سااسلام ہے؟ عورتوں کواسی طرح بےحجاب رہنے دینے سے،جیسے اس وقت صورت حال ہے، کو ن سی شریعت کی بالا دستی قائم ہوگی؟ آپ جس قرآن وسنت کی بالادستی کےعزم کااظہار کررہےہیں اس قرآن وسنت میں توحجاب کی پابندی اوربلاضروت گھروں سے نکلنے اورکھلے عام زیب وزینت کےاظہار کی ممانعت ہے۔اگرشریعت کےنفاذ کےبعد بھی بےحجابی کادور دورہ اوردیدارِ یار عام ہی رہےگا،تو یہ اسلامی شریعت کانہیں، مغرب کی حیاباختہ تہذیب کانفاذ ہوگا۔

قرآن کریم میں واضح الفاظ میں حکم ہےکہ عورتیں گھروں میں ٹک کررہیں (الاحزاب:33 ) اس حکم کاتقاضا یہی ہےکہ عورتوں کادائرہ کار گھروں کی چاردیواری ہے،اور مرد کادائرہ کارگھر سےباہر۔

اسلام کےنفاذ کےبعد مرد اورعورت کےدائرہ کاتعین اوراس کی پابندی ضروری ہوگی،یہ مخلوط تعلیم ، مخلوط سروس ، مخلوط ادارے اورمرد وعورت کابےباکانہ اوربے حجابانہ اختلاط قطعاً اسلام نہیں ہے۔ شریعت کےنفاذ کامطلب اس مغربی تہذیب کوختم کرنا ہےنہ کہ اس کوبرقرار رکھنا ۔یہ ٹھیک ہےکہ عورتیں ضرورت کےتحت گھروں سےباہرنکل سکتی ہیں ۔ کسبِ معاش کا ذمے دار اگرچہ صرف مردج ہے، لیکن اگرکہیں گردش حالات یہ ذمے داری کسی عورت پرڈال دے، تووہ8ملازمت بھی کرسکتی ہے۔لیکن اس کےلیے حجاب کےپابندی ضرورت ہے۔اس کےبرعکس ایک خاص منصوبہ بندی کےتحت ہربازاری اورسرکاری شعبے میں عورتوں کومردوں کےدوش بدوش لانا ، مغربی تہذیب کی نقالی توہے، اسلام نہیں ہے۔آپ پہلے ان لاکھوں مردوھ کوتوروز گار مہیا کردیں جوڈگریاں ہاتھوں میں لیے دربدر پھر رہے ہیں ، پھر عورتوں کی بھی گھروں سےباہر نکالنے کوشوق پورا فرمالینا ۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب اوردیگر حضرات کو،اگر وہ واقعی شریعت کی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں ، اس قسم کےبیانات سےگریز کرنا چاہیے ۔ اس کی بجائے انہیں کہنا چاہیے کہ عورت ہویامرد، مسلم ہویاغیرمسلم، سب کووہ حقوق دئیے جائیں گےجواسلام نے ان کودیئے ہیں ، اوراسلام نےکسی پرظلم نہیں کیا ہے، ہرایک کواس کےجائز اور فطری حقوق دئیے ہیں اوراسلام کےدیئے ہوئے حقوق کےاہتمام سےہی معاشرے میں امن قائم اور فساد کاخاتمہ ہوگا، اس سےانحراف کرکے کبھی بھی ہم امن وسکون سےہمکنار نہیں ہوسکیں گے۔

اسی طرح مارک اپ، جوسود کی متبادل اصطلاح ہے، کی بابت کہناکہ یہ جائز ہے، اس کاصاف مطلب یہ ہےکہ موجودہ سودی نظام جوں کا توں قائم رہےگا، شریعت کےنفاذ سےاس سودی نظام کو، جو ظلم واستحصال کی بنیاد ہے، کوئی خطرہ نہیں ۔ بہرحال اس تفصیل سےمقصود ہےکہ حکمرانوں کےمذکورہ بیانات دینی حلقوں کومطمئن کرنے کی بجائے ، ان کوبد ظن کررہےہیں اور شکوک وشبہات کےکانٹوں میں اضافہ کررہے ہیں ۔

دینی حلقوں کےبےاطمینانی کی تیسری وجہ سےہےکہ ہمارے آئین کی بہت سی دفعات حکمرانوں کی اس امر کاپابند بناتی ہیں کہ وہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کوتسلیم کریں اور اسلامی تعلیمات کےنفاذ کےلیے مؤثر اقدامات بروے کارلائیں ، اس لیے جوحکمران دل سےاسلام کےنفاذ کا خواہش مند ہو، اس کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ بہت سےاقدامات ایسے کرسکتا ہےجن سےاسلام کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے۔لیکن موجودہ حکمرانوں نےاس 20 ماہ کےطویل عرصے میں ایک قدم بھی اس طرف نہیں اٹھایا ۔

بلکہ اس کےبرعکس وفاقی شرعی عدالت نےسود کےحرام ہونےکافیصلہ دیا ، تواسی حکومت نےسابقہ دور میں اس کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی اوریوں عدالت کےایک اسلامی فیصلے کوبھی سبوتاژ کردیا اوردینی حلقوں کےباربار کےمطالبوں کےباوجود حکومت اب بھی اپنی اپیل واپس نہیں لے رہی ہے۔ جب حکومت کارویہ یہ ہےکہ وہ شریعت کےنفاذ کےلیے کسی بھی قسم کےابتدائی اقدامات تک کرنےکےلیے تیار نہیں ہے، بلکہ غیراسلامی نظام کومسلط اوربرقرار رکھنےپرمصر ہے، تواسے نفاذ شریعت میں کس طرح مخلص باور کیا جاسکتا ہے ؟ !

دینی جماعتوں کی طرف سے اصلاح وترامیم کی اہمیت وافادیت

مذکورہ وجوہات ، ہمارے وزیراعظم صاحب یہ فرمارہےہیں کہ وہ شریعت بل کےمعاملے میں مخلص ہیں اوراس کےذریعے سےوہ اپنا وہ وعدہ پورا کرنا چاہتے ہیں جووعرصے سےکرتے چلے آرہےہیں ، اور وہ واقعی قرآن وسنت کوسپریم لاء تسلیم کروا کروہ سقم دور اوروہ رکاوٹ کےایک فیصلہ نےاس میں پیدا کردی ہے۔تودینی حلقے اب بھی وزیراعظم کی بات کوجھٹلانا پسند نہیں کرتے۔کیونکہ دلوں کاحال اللہ کےسواکوئی نہیں جانتا ۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نےاب ان کےاندر یہ احساس پیدا کردیا ہوکہ وہ شریعت نافذ کرکےعنداللہ سرخروہونےکی کوشش کریں ۔ یہی وجہ ہےکہ دینی ؍ سیاسی جماعتوں نےاس بل کومسترد نہیں کیا ہے،بلکہ وہ مذکورہ پس منظر کی وجہ سےاس میں ایسی ترامیم لا نا چاہتےہیں جن سےشریعت کانفاذ یقینی ہوجائےاور وہ چور دروازے بند ہوجائیں جن سےحکمران فائدہ اٹھا کراسلام کوپس پشت ڈالتےچلے آرہے ہیں ۔اب یہ حکمرانوں کےاخلاص کاامتحان ہےکہ اگر وہ واقعی اس شریعت بل کےمعاملے میں مخلص ہیں تووہ دینی ؍ سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لیں ۔ ان کےساتھ صحیح معنوں میں مشاروت کااہتمام اور ان ترامیم پرغور کریں جوان کی طرف سےبل کوزیادہ سےزیادہ بہتر اورمؤثر تربنانے کےلیے پیش کی گئی یاکی جارہی ہیں ۔ ان ترامیم کااصل مقصد یہ ہےکہ اسلام کےمعاملے میں ہمارے آئین میں جوتضادات ہیں ، جودراصل اسلام سے گریز اورانحراف کےچوردروازے ہیں ، ان کاسدباب ہوجائے ، تاکہ آئندہ کسی عدالت کی قرآن وسنت کی بالا دستی میں کوئی ابہام محسوس نہ ہو، جیسے قرار دادِ مقاصد کوآئین کاحصہ بنادیئے جانے کےباوجود ایک کوتاہ فکر چیف جسٹس اوراس کےساتھیوں کواللہ کی حاکمیت ِ اعلیٰ نظر نہیں آئی ، حالانکہ قرار داد مقاصد میں یہ چیز واضح الفاظ میں موجود ہے۔اورنہ کسی حکمران کوشریعت کےنفاذ سےپہلو تہی کرنے کی ہمت ہو ۔ کسی بھی دینی ومذہبی جماعت کامقصد اقتدار لینا یا اس میں حصے دار بننا نہیں ہے۔اگر میاں نوازشریف اوران کےرفقاء خلوصِ دل سےآئین کےموجودہ تضادات کودور کرکےواقعی اسلام کی بالادستی کااہتمام کردیں اورپھر اس کےنفاذ کےلیے مؤثراقدامات کا آغاز کردیں تودینی حلقے ان کےساتھ ہرقسم کاتعاون کرنےکےلیےتیار ہیں ۔

بنابریں ضروری ہےکہ حکومت ان ترامیم پرسنجیدگی سےغورکرےاوراس کےمطابق بل میں اصلاح کرے۔ اس سلسلے میں سب سےزیادہ تنقید حکومت کےاس عزم پرکی گئی ہےوہ آئین کی دفعہ 239 میں ترمیم کرنے کی خواہاں ہے۔

سیکولراورلادینی عناصر اسی کوبنیاد بناکریہ تاثر دےرہے ہیں کہ شریعت بل کی آڑ میں میاں صاحب سینٹ کےاختیارات میں کمی کرکے اپنی آمریت قائم کرنا چاہیے ہیں،اس سے پہلے وہ تیر ہویں اورچود ہویں ترمیم کےذریعے سےصدر کواوراراکین قومی اسمبلی کوبےاختبار کرکےاپنی ذات میں اختیارات کاارتکاز کرچکےہیں ۔ اب صرف سینٹ ان کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے،اس بل کےمجوزہ ترمیم سے اس سنگِ گراں کوبھی ہٹانا چاہتے ہیں ۔ ا س لیے اپوزیشن تواس ترمیم کےسخت خلاف ہےہی،بلکہ اس کواس شریعت بل کی مخالفت کا حوصلہ بھی اس ترمیم سےملا ہے۔اکثردینی جماعتوں نےبھی اس ترمیم کوناپسند کیاہے۔ حتیٰ کہ حکومت کی حامی دینی جماعتوں اورعلماء نےبھی اس موقف کا اظہار کیاہےکہ دفعہ 239 میں ترمیم کاارادہ ترک کردیاجائے ، تاکہ اپوزیشن اورلادینی عناصر کےغبار سےہوانکل جائے۔اس لیے حکومت اس ترمیم کوفوری طورپر واپس لینے کااعلان کردے۔

2۔ دینی جماعتوں کی طرف سے دوسری تجویز یہ پیش کی گئی ہےکہ آئین میں جوتضاد ہےاوراسی کی بہت سی دفعات قرآن وسنت سےمتصادم ہیں ، حکومت ان دفعات کی غیرمؤثر بنانے کاایسا طریق کاروضع کرےکہ آئین کایہ تضاد دور ہوجائے اورکوئی عدالت یا حکمران ان دفعات کا سہارا لےکرقرآ ن وحدیث کےنفاذ کےلیے عملی اقدامات سے گریز کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔ یہ ترمیم بہت ہی اہم ہے، چنانچہ اس کےلیے دینی جماعتوں کےنمائندہ حضرات اورماہرین قانون نےمل کرایک مسودہ تیار کیا ہےجس میں جناب طاہرالقادری ،جماعت اسلامی اورفضل الرحمان گروپ کےنمائندہ گان سمیت بہت ہےحضرات شامل تھے۔(یہ اصلاحی مسودہ آخر میں ملاحظہ ہو )

3۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارت قومی اسمبلی میں پیش کرے،اوران کےنفاذ کےلیے قانون سازی کااہتمام کرےجیسا کہ آئین کابھی تقاضا ہے۔

4۔ حکومت ، سود کےخاتمے کےبارےمیں شرعی عدالت کےفیصلے کےخلاف اپیل واپس لےکرقرآن وسنت کی بالا دستی کاعملی ثبوت دے ۔

5۔شریعت کی تعبیر میں اختلاف کےخاتمے کےلیے اسلامی نظریاتی کونسل کوزیادہ مؤثر اورفعال بنایاجائےیا اسی انداز کاایک اوربورڈ بنایا جائے ، جس میں معتمدعلیہ اوربالغ نظرعلماء کوشامل کیا جائے ۔

6۔ معروف ومنکر کےفیصلہ کرنے کااختیار بھی حکومت کےپاس نہیں، علماء کےپاس ہونا چاہیے ۔

7۔ وفاقی شرعی عدالت کوصحیح معنوں میں شرعی عدالت بنایا جائے ۔ آئین کےمطابق اس میں علماء کی مکمل نمائندگی کویقینی بنایا جائے اوراس کےفاضل ججوں کووہی تحفظ ومقام حاصل ہوجوہائی کورٹ کےججوں کوحاصل ہے۔بلکہ شریعت بل کےپاس ہونے کےبعد تمام عدالتوں کوقرآن وسنت کےمطابق فیصلے کرنے کاپابند بنایا جائے ، اوراس کےلیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، وہ بروئے کار لائے جائیں ۔

شریعت کےنفاذ کےلیے توہر شعبہ زندگی میں اصلاحات ناگزیر اوران کےلیے ہمہ جہتی مؤثر اقدامات ضروری ہیں ، ان کےلیے تجاویز کاوائرہ توبہت وسیع ہے، اللہ کرے وہ ساعت ِ سعید جلد آئے جب قرآن وسنت کی بالا دستی عملا تسلیم کرلی جائے، توپھر ضروری اقدامات اورتجاویز بھی علماء اوردینی حلقوں کی طرف سےحکومت کوپیش کردی جائیں گی ۔ مذکورہ ترامیم واصلاحات کاتعلق توفی الحال حکومت کےمجوزہ شریعت بل اور اس کےاخلاص کاثبوت پیش کرنےسے ہے۔

دینی ومذہبی جماعتون اورحلقوں سےاپیل

ان دینی جماعتوں سےبالخصوص ، جوسیاست کےمیدان میں بھی سرگرم ہیں، اوردیگر تمام دینی حلقوں بےبالعموم یہ اپیل ہےکہ حکومت نےشریعت کی بالا دستی کےجس عز م کا اظہار کیاہے، قطع نظر اس بات کےکہ اس سےاس کےاغراض ومقاصد کیا ہے؟ حکومت کواس اعلان سےپیچھے نہ ہٹنےدیں اور اس کی تائید میں مشترکہ طور پر ایسی زور دار مہم چلائی جائے کہ حکومت بھی اس بل کوپاس کروانے کےلیے سنجیدگی سےکوشش کرےاور اپنےتمام ذرائع ووسائل اس کےلیے بروے کارلائے اورمذکورہ ترامیم واصلاح کےذریعے سے اس کوسب کےلیے قابل قبول بنانے کی مخلصانہ سعی کرے اور اپوزیشن اورلا دین عناصر بھی پارلیمنٹ کےاندر اورباہر اس کی مخالفت کی شوخ چشمانہ جسارت نہ کرسکیں جیسا کہ ان کی طرف سےاس کااظہار کیا جارہا ہے۔

اگر یہ موقع ضائع ہوگیا اوراہل دین اس سےفائدہ اٹھا کرکچھ حاصل نہ کرسکے تویہ بہت بڑا المیہ ہوگا اور پھر شاید ایسا سنہری موقعہ مستقبل قریب میں نہ آئے اور مستقبل بعید میں توشریعت کامعاملہ بظاہر بعید سےبعید ترہی آتا ہے۔

وماعلينا الا البلاغ

( حافظ صلاح الدین یوسف )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پندرھویں آئینی ترمیم ( شریعت بل 98؁ء ) کامکمل متن

چونکہ اللہ تعالیٰ کائنات کابلا شرکتِ وغیرے حاکم مطلق ہےاوراس نےپاکستان کی ریاست کواس کےجمہور کےتوسط سےان کےمنتخب کردہ نمائندوں کےذریعے جواختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کےاندر استعمال کرنےکاحق دیا ہے،وہ ایک مقدس امانت ہےاورچونکہ قرار دادِ مقاصد کودستور کااساسی حصہ بنا دیا گیا ہےاورچونکہ اسلام پاکستان کاریاستی مذہب ہےاوریہ ریاست کی ذمہ داری ہےکہ وہ پاکستان کےمسلمانون کوانفرادی اوراجتماعی طورپر اس قابل بنائے کہ وہ اپنی زندگی کواسلام کےبنیادی اصولوں اور نظریات کےمطابق ، جس طرح قرآن پاک اورسنت میں ان کاتعین کیا گیاہے، ترتیب دے سکیں اورچونکہ اسلام سماجی نظام کےقیام کاحکم دیتا ہےجواسلامی اقدار پرمنبی ہو ۔ یہ تعین کرتےہوئےکہ کیا صحیح ہےاور اسے روکنا جوغلط ہے( امر بالمعروف ونھی عن المنکر )

اورچونکہ مذکورہ بالا مقصد اورہدف کوپورا کرنےکی غرض سےیہ قرین مصلحت ہےکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کےدستور میں مزید ترمیم کی جائے لہذا اب نیا قانون وضع کیاجاتاہے۔ یہ ایکٹ دستور ( پندرہویں ترمیم) ایکٹ 1998ء کےنام سے موسوم ہوگا اورفی لاالفور نافذ العمل ہوگا ۔

بل کےتحت دستورکی آرٹیکل 239 میں ترمیم کی جائے گی اورآرٹیکل 239 میں شق(3) کےبعد حسب ذیل نئی شقیں شامل کردی جائیں گی ۔

یعنی: ( 3 الف ) شق '1، تا ' 3، میں شامل کسی امر کےباوجود شریعت سےمتعلقہ کسی امر کےنفاذ میں رکاوٹ دور کرنےاوراسلام کےامتناجی احکام کی تعمیل کےلیے قانون وضع کرنےکی غرض سےدستور میں ترمیم کرنےکابل دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے۔اگر وہ اس ایوان کےارکان کی کثرت آرا سےمنظور ہوجاتا ہے جس میں وہ پیش کیا گیا تھا تو وہ دوسرے ایوان میں منتقل کردیا جائے گا اوراگربل بغیر کسی ترمیم کےدوسرے ایوان کےارکان کےکثرتِ آراسے بھی منظور ہوجاتا ہےتواسے منظوری کےلیے صدر کےسامنے پیش کردیا جائے گا ۔

(3 ب ) اگر شق' 3 الف ، کےتحت کسی ایوان کومنتقل کیا گیا بل مستردہوجائے یاوصولی کے90 دن کےاندر منظور نہ ہویاترمیم کےساتھ منظور ہوتو اس پرمشترکہ اجلاس میں غور کیا جائے گا ۔

(3 ج ) اگربل ترمیم کےساتھ یا بغیر ترمیم کےمشترکہ اجلاس میں ارکان کی کثرت آرا سےمنظور ہوجاتا ہےتووہ منظوری کےلیے صدر کوپیش کیاجائے گا ۔

(3د ) صدر شق ' 3 الف یاشق ، 3 ج ،کےتحت پیش کردہ بل کی ، بل پیش کرنے کےلیے اس کےاندر منظوری دے گا ۔

٭ دستور میں نئے آرٹیکل 2ملی کااضافہ : اسلامی جمہوریہ پاکستان کےدستور مین ، جس کا حوالہ بعد ازیں مذکورہ دستور کےطورپر دیا گیا ہے، آرٹیکل 2۔الف کےبعد حست ذیل نیاآرٹیکل شامل کردیا جائے گا ، یعنی

2ب : قرآن وسنت کی برتری

1۔ قرآ ن پاک اور پیغمبر پاک کی سنت پاکستان کااعلیٰ ترین قانون ہوگا۔

تشریح : کسی مسلمان فرقے کےپرسنل لاء پراس کےاطلاق میں ' ' قرآن اورسنت ،،کی عبارت کا مفہوم وہی ہوگا جواس فرقے کی طرف سے توضیح شدہ قرآن وسنت کا ہے۔

2۔ وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ شریعت کےنفاذ کےلیے اقدام کرے، صلوۃ قائم کرے اورزکوۃ کااہتمام کرے، امر باالمعروف اورنہی عن المنکر(یہ تعین کرناکہ کیا صحیح ہےاور اسے روکنا جوغلط ہے، کوفروغ دے، ہرسطح پربد عنوانی کاخاتمہ کرےاور اسلام کےاصولوں کےمطابقت میں جیسا کہ قرآن وسنت میں موجود ہے،حقیقی سماجی معاشی انصاف فراہم کرے۔

3۔ وفاقی حکومت شقات ' 1، اور'2، میں دیےگئے احکام کےنفاذ کےلیے ہدایات کرسکے گی اور مذکورہ ہدایات پرعمل پیرانہ ہونے پرکسی بھی سرکاری عہدیدارکےخلاف ضروری کاروائی کرسکے گی ۔

4۔ اس آرٹیکل میں شامل کوئی امر شخصی قانون ، مذہبی آزادی ، غیرمسلموں کی روایات، رسم ورواج اوربطور شہریوں کےان کی حیثیت ، متاثرنہیں کرے گا۔

5۔ اس آرٹیکل کےاحکام دستور میں شامل کسی امر کےباوجود کسی قانون یاعدالت کےکسی فیصلے پرموثر ہوں گے ۔

اس حقیقت کےپیش نظر کہ قرار داد مقاصد اب دستور کامتصل حصہ ہے،یہ ضروری ہےکہ قرآن اورسنت کوپاکستان کااعلیٰ ترین قانون قرار دیا جائے اور حکومت کوشریعت نافذ کرنے کےلیے ضروری اقدامات کرنے کااختیار ہو۔ آرٹیکل 239 کےتحت دستور میں ترمیم کرنے کابل ہرایک ایوان کی دوتہائی اکثریت سےلیکن جداگانہ طور پر منظور ہوجاتا ہے۔نفاذ شریعت کوباسہولت بنانے کےلیے یہ غورکیا گیا ہےکہ یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ شریعت سےمتعلقہ کسی امر کےنفاذ میں کسی رکاوٹ کودور کرنےاور اسلام کےامتناعی احکام پرعمل درآمد کےلیے قانون وضع کرنےکا بل پارلیمنٹ میں اسی طرح منظور کیا جائے جیسے کوئی قانون منظور ہوتا ہے۔

دینی جماعتوں کی طرف سے شریعت بل میں ترمیم کی متفقہ تجاویز

حکومت کی طرف سے پیش کردہ شریعت بل میں بہتری کی گنجائش کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم مسئلے پرعدم اتفاقی سے فائدہ اٹھا کر لادین طبقہ کو اس کے خلاف فضا ساز گار نہ کرنے دی جائے بلکہ دینی جماعتیں حکومت پر اس میں اصلاح وترمیم کیلئے دبائوڈال کر حکومت کو مجبور کریں کہ وہ انکی مجوزہ ترامیم کیساتھ شریعت بل کو پاس کرائے ارو اس طرح شریعت بل کو پاس کرانے کی جدوجہد میں تمام جماعتیں شانہ بشانہ جدوجہدکریں۔ یہی بات جناب صدر بھی اپنے مختلف بیانات میں کہہ چکے ہیں۔

چنانچہ معروف دینی جماعتوں کی طرف سے واضح اورمتفقہ ترامیم کی تیاری کی غرض سے ایک نمائندہ اجتماع مولانا عبد الرحمن مدنی کی دعوت پر ۱۰ ستمبر کو ادارئہ محدث میں بلایا گیا جس میں دینی جماعتوں کی طرف سے نامزد کردہ قانونی ماہرین نے شرکت کرکے متفقہ تجاویز و ترامیم تیار کیں (جو شمارہ ہذا کے ص۱۲ پر طبع شدہ ہیں۔) اس مسودہ ترمیم کی تیاری میں شرکت کرنے والی جماعتیں اور ان کے نمائندوں کے نام درج ذیل ہیں:

۱۔ انوار اختر ایڈووکیٹ صدر پاکستان عوامی لائیرز موومنٹ (منہاج القرآن) نائب صدر پاکستان عوامی اتحاد۔ پنجاب

۲۔ جسٹس (ر) خضر حیات جماعت اسلامی ، پاکستان

۳۔ حافظ محمد یوسف جمعیت علمائے اسلام۔ پاکستان

۴۔ نذیر احمد غازی ایڈووکیٹ معتمد جمعیت علمائے پاکستان

۵۔ پروفیسر عبد الجبار شاکر اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ۔ پاکستان

ؑ۶۔ سید محمد کفیل بخاری تحریک تحفظ ختم نبوتﷺ۔ پاکستان

۷۔ حافظ عبد الرحمن مدنی مرکزی جمعیت اہلحدیث۔ پاکستان

۸۔ محمد نعیم الحق سید انٹر نیشنل مسلم لائیرز فورم۔پاکستان

۹۔ چوہدری محمد ظفر اقبال ایڈووکیٹ مجلس احرار اسلام۔ پاکستان

۱۰۔ حافظ حسن مدنی اسلامک ریسرچ کونسل۔ پاکستان

ان ترامیم کے پاس ہونے کی صورت میں توقع کی جاسکتی ہے کہ اس بل سے پاکستان میں شریعت کی طرف پیش رفت ہو سکے گی اور بل میں بیان کردہ مقاصد کی تکمیل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اگر حکومت مخلص ہے تو وہ اس متفقہ تجاویز پر مبنی مسودے کو حکومت سے پاس کرائے۔اس طرح دینی جماعتوں کی تائید سے اس ترمیم کے پاس ہونے کے امکانات بھی مزید روشن ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ

پندرھویں آئینی ترمیم ( شریعت بل ) کی درستگی کےلیے تجاویز

( تجاویز کےپاس ہوجانے کی صورت میں مجوزہ شریعت بل کی مکمل متن یوں ہوگا)

٭ آرٹیل 2۔ بی : قرآن وسنت کی برتری

(1) قرآ ن وسنت پاکستان کےقانون اعلی ہوں گے ۔کوئی قانون بشمول دستوری قانون یاکوئی رسم ورواج جس کی قانونی حیثیت ہو، اگر وہ قرآن وسنت کےمتضاد ہوتو وہ اس تضاد کی حد تک کالعدم ہوگا ۔

تشریح : کسی مسلمان فرقے کےپرسنل لاء پر اس شق کےاطلاق میں '' قرآن وسنت،،کی عبارت کامفہوم وہی ہوگا جواس فرقے کی طرف سے توضیح شدہ قرآن اورسنت کاہے۔

(2) اس آرٹیکل میں شامل کوئی امر، شخصی قانون ، مذہبی آزادی ،غیر مسلموں کی

روایات ، رسم ورا ج اوربطور شہریوں کےان کی حیثیت کومتاثر نہیں کرےگا ۔

(3) اس آرٹیکل کےاحکام دستور میں شامل کسی امر کےباوجود کسی قانون یاعدالت کسی فیصلے پرمؤثر ہوں گے۔

٭ آئین کےآرٹیکل 239 میں ترمیم مثلا (3C) ( 3B) ( 3A) اور ( 3D) سےمتعلق مجوزہ ترمیمی بل کےپیرانمبر 3 کوختم کردیا جائے ۔

٭ آئین کےآرٹیکل 30 کی ذیلی دفعہ ( 2) کومنسوخ کردیا جائے جویہ ہے:

'' کسی فعل یاکسی قانون کےجواز پراس بنا پراعتراض نہیں کیا جائے گا کہ وہ حکمت عملی کےاصولوں کےمطابق نہیں ہےاورنہ اس بنا پرمملکت ، مملکت کےکسی شعبے یاہیئت مجازی کسی شخص کےخلاف کوئی قانونی کاروائی قابل سماعت ہوگی ۔

٭ آئین کےآرٹیکل 227 کی ذیلی دفعہ ( 2) کومنسوخ کردیا جائے جویہ ہے :

'' شق ( 1) کےاحکام کوصرف اس طریقہ کےمطابق نافذ کیا جائے گا جواس حصہ میں منضبط ہے۔،،