برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی مولانا عبد الحمید سوہدروی ( م 1330 ھ )
مولانا غلام نبی الربانی کے فرزند ارجمند مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی م 1334ھ کے داماد اور جماعت اہلحدیث کے مشہور عالم ، واعظ ، خطیب اور صحافی مولانا عبد المجید خادم سوہدروی م 1379ھ کے والد ماجد تھے ۔
ابتدائی کتابیں اپنے والد مولانا غلام نبی الربانی م 1348ھ سے پڑھیں ۔ اس کے بعد صحاح ستہ بشمول موطا امام مالک ، مشکوۃ المصابیح استاذ پنجاب مولانا حافظ عبد المنان صاحب محدث وزیر آبادی سے پڑھیں ۔
وزیر آباد میں تکمیل کے بعد حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی م 1330 ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیث میں سند حاصل کی ۔ دہلی میں تکمیل تعلیم کے بعد مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی صاحب عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد م 1329ھ اور علامہ حسین عرب یمانی م 1327 ھ سے سند و اجازہ حاصل کیا ۔
تکمیل کے بعد سوہدرہ تشریف لائے تو یہاں آب کے والد بزرگوار نے توحید کی پود لگا رکھی تھی آپ نے اسے خلوص کے پانی سے سینچا ۔
مشغلہ :
تدریس و تذکر تھا مدرسہ حمیدیہ کے نام سے تعلیم گاہ تھی جس میں باہر کے طلباء بھی مقیم تھے اور صرف نحو تفسیر و حدیث پڑھتے تھے ۔ مرحوم کے شاگردوں میں مولوی ابو البشیر مراد علی کٹھوروی سوہدروی ، مولوی نظام الدین کٹھوروی سوہدروی مولوی ابو یحیٰ امام خان نوشہروی سوہدروی مولوی حافظ محمد حیات سوہدروی اور مولوی عبد العزیز مرحوم از خونی چک ضلع گجرات قابل ذکر ہیں ۔
( حاشیہ : ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ۔ 2۔ ایضا ص 51 ۔ 3۔ ایضا ص 51 ۔ 4۔ ایضا ص 173 )
تصنیف میں عمدۃ الاحکام للشیخ الامام تقی الدین ابی عبد اللہ محمد بن عبد الغنی بن عبد الواحد کا ترجمہ زہدۃ المرام ہے جو چھپ گیا تھا مگر دوبارہ شائع نہ ہونے کی وجہ سے نایاب ہے ۔
عمر بہت تھوڑی پائی ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ مرحوم ہو گئے 1300 ھ میں پیدا ہوئے ۔ 1330ھ میں دنیا سے سد ہارے 30 سال کو ابتدائے عمر کی طبعی مشاغل میں تقسیم کیجیے تو عملی زندگی کے 5 ، 6 سال سے زیادہ نہ آئیں گے مہلت ملتی تو دنیا میں نام پیدا کرتے ۔
آپ کے صاحبزادہ مولانا عبد المجید خادم سوہدروی م 1379ھ نے حدیث کی خدمت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے آپ ایک مشہور واعظ شعلہ بیان مقرر اور خطیب تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک نامور صحافی اور اعلیٰ پایہ کے مصنف بھی تھے ۔ اخبار مسلمان اور جریدہ اہل حدیث کے ایڈیٹر تھے علاوہ ازیں اعلٰی پایہ کے طبیب بھی تھے آپ کی تصانیف کی تعداد ایک سو کے قریب ہے جن میں سے 60 کے قریب طبی کتابیں ہیں ۔
اشاعت حدیث کے سلسلہ میں آپ نے حدیث کی تشریح کا سلسلہ شروع کیا اور اس پر آپ نے حدیث کی پہلی کتاب تا چوتھی کتاب لکھیں اس کے علاوہ ’’ انتخاب صحیحین ‘‘ کے نام سے ایک عربی کتاب کا اردو ترجمہ کیا یہ تمام کتابیں مطبوع میں 1379 ھ میں سوہدرہ میں انتقال کیا ۔
مولانا محمد حسین بٹالوی م 1338 ھ :
علمائے اہلحدیث میں مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی کا نام محتاج تعارف نہیں ۔ آپ بٹالہ ضلع گورداسپور ( مشرقی پنجاب ) میں پیدا ہوئے حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے اشد تلامذہ میں سے تھے اور میاں صاحب کو بھی آپ سے بے حد محبت تھی تکمیل تعلیم کے بعد کچھ عرصہ امر تسر مولانا عبد اللہ الغزنوی م 1298ھ کے مدرسہ میں حضرت مولانا عبد الجبار صاحب غزنوی م 1331ھ کے ساتھ تدریس بھی فرمائی ۔
اس کے بعد آپ کا قیام زیادہ تر لاہور میں رہا اور مسجد چینیاں والی میں واعظ و درس و تدریس فرماتے رہے جماعت اہل حدیث کی ترویج میں آپ نے گرانقدر خدمات سر انجام دیں لفظ وہابی کو آپ نے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ کرایا ۔ اور جماعت اہل حدیث کے نام کو رائج کرایا ۔
آپ نے ’’ اشاعۃ السنہ ‘‘ کے نام سے ایک ماہوار رسالہ بٹالہ ضلع گورداسپور سے جاری کیا اس رسالہ کے ذریعہ آپ نے مسلک اہل حدیث کی بہت خدمت کی حدیث کی تائید اور منکرین حدیث کو دندان شکن جواب دئیے گئے ۔
مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں :
’’ جماعت اہل حدیث کا سب سے پہلا رسالہ جس نے کئی سال تک علم دین کی خدمت کی ، عیسائیوں کے الزامات کا جواب دیا ۔ مرزائے قادیان کی ’’ کفرۃ ‘‘ کا استیصال کیا ۔
حدیث کی اشاعت و ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ متعدد مسائل پر بہترین لٹریچر فراہم کیا ۔
فتح الباری فی ترجیح صحیح البخاری کے نام سے ایک بہترین کتاب بھی لکھی ۔
مولانا محمد حسین بٹالوی کو جہاں اللہ تعالیٰ نے علم میں وافر حصہ عطا فرمایا تھا وہاں زہد و تقویٰ میں بھی آپ یگانہ حیثیت کے حامل تھے ۔ شب زندہ دار تھے تہجد کی نماز میں فالج گرا ۔ اور انتقال فرمایا ۔ تاریخ 29 جنوری 1930ء جمادی الاولیٰ 1338 ھ ہے ۔
شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی م 1348ھ :
مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی کا شمار مشاہیر علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے ۔
آپ کے اساتذہ یہ ہیں :
مولوی پیر محمد ، مولانا سید محمد امین نصیر آبادی ( رائے بریلوی ) ، مولانا ہدایت اللہ جون پوری ، مولانا زین العابدین جون پوری ، مولانا لطف الرحمن برووانی ، علامہ شیخ حسین یمنی م 1327ھ ، مولانا سلام اللہ جے راج پوری م 1322ھ ، مولانا احمد صاحب سندھی تلمیذ ملا عبد القیوم بڈہانوی ، قاضی محمد ایوب بھوپالی تلمیذ ملا عبد القیوم بڈہانوی ، مولانا منیر الدین تلمیذ مولانا محمد حسن کان پوری ، مولانا محمد اسحاق منطقی رام پوری ، مولانا حافظ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی م 1330ھ ، مولانا تلطف حسین جاری ، مولانا عبد الرشید رام پوری ، مولانا نظام الدین ، حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی م 1320ھ ، مولانا محمد بشیر سہسوانی م 1326ھ ، شیخ محمد بن عبد اللطیف بن ابراہیم بن حسن نجدی محدث ، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی م 1329ھ ، مولانا شیخ قاضی محمد مچھلی شہری م 1330ھ ۔
تکمیل کے بعد درس و تدریس کی طرف توجہ کی اور اپنی ساری عمر خدمت حدیث میں بسر کر دی 20 سال تک مردسہ علی جان دہلی میں تدریس فرمائی اس کے بعد مدرسہ رحمانیہ میں صدر مدرس مقرر ہوئے ! آپ سے بے شمار علمائے کرام نے اکتساب فیض کیا جن کا استقصاء مشکل ہے ۔
اساتذہ میں آب نے مولانا بشیر سہسوانی سے بہت استفادہ کیا مولانا مرحوم سے آپ کو بہت محبت تھی ! مولانا سہسوانی کی مشہور تقریر جو انہوں نے فرضیہ خلف الامام پر متواتر ایک مہینہ تک درسا فرمائی تھی آپ نے کتابی شکل میں ’’ البرہان العجاب فی فرضیۃ خلف ا لامام ‘‘ کے نام سے چھپوا کر شائع کی ۔ 1348ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔
مولانا سید احمد حسن دہلوی مؤلف تفسیر احسن التفاسیر م 1338ھ :
آپ کا سن ولادت 1258ھ ہے 11 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور 14 سال تک فارسی کی تعلیم حاصل کر لی کہ فارسی عبارت سمجھنے کی استعداد پیدا ہو گئی ۔ اس کے بعد 1857ء کا ہنگامہ برپا ہو گیا اور آپ معہ اپنے والدین کے ریاست پٹیالہ مشرقی پنجاب چلے گئے ۔ پٹیالہ میں آپ نے فارسی میں خوب مہارت حاصل کی ۔
علوم آلیہ کی تحصیل :
ریاست پٹیالہ سے ریاست ٹونک چلے گئے وہاں کے علماء سے صرف نحو کی تکمیل کی ۔ اس کے بعد دہلی واپس آئے اور آپ نے مولانا عبد الغفور بن شیخ عبد اللہ م 1334ھ کی معیت میں مولانا محمد حسین خاں تلمیذ حضرت شیخ الکل م 1307ھ سے صرف و نحو ، منطق ، فقہ و اصول فقہ کی کتابیں پڑھیں ۔
مولانا محمد حسین خاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا فیض الحسن سہارن پوری م 1887ء سے بھی فقہ ، اصول فقہ اور منطق کی بقیہ کتابوں کے ساتھ تفسیر بھی پڑھی ۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل :
مولانا فیض الحسن سہارن پوری سے آپ نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ چنانچہ علی گڑھ سے واپس دہلی آئے ۔ اور حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی م 1320ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے تفسیر و صحاح ستہ کی تکمیل کی ۔
علوم شرعیہ میں تکمیل کے بعد طب کی تعلیم بھی حاصل کی طب میں آپ کے استاد حکیم امام الدین صاحب ہیں ۔
تکمیل تعلیم کے بعد حضرت شیخ الکل کی خدمت میں کچھ مدت تدریس و فتوی نویسی میں مصروف رہے انہی دنوں آب کی شادی مولانا حافظ ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی مصنف ترجمۃ القرآن ( م 1330ھ ) کے ہاں ہوئی شادی کے بعد مولانا نذیر احمد صاحب مرحوم نے آپ کو حیدر آباد دکن کے ضلع نا نذیر میں 8 سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوا دیا جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی ۔
تصانیف :
ملازمت کے دروان آپ نے اپنا علمی شغف جاری رکھا آپ کی جن تصانیف کا پتہ چل سکا ہے ان کی تفصیل یہ ہے ۔
تفاسیر قرآن مجید 4 ، شروح احادیث 2 ، اور عقائد پر 1 ، سب سے پہلے 3 ترجمہ والا قرآن مجید ترجمہ فارسی از شاہ ولی اللہ ( م 1176ھ ) ترجمہ از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ( م 1349ھ ) از شاہ عبد القادر ( م 1243ھ ) لکھا ۔ اس پر ’’ احسن الفوائد ‘‘ کے نام سے بہترین تفسیری حواشی لکھے یہ قرآن مجید پہلے آپ نے طبع کرایا بعد میں دوبارہ 1346ھ میں دہلی سے طبع ہوا ۔
اس کے بعد آپ نے تفسیر احسن التفاسیر اردو 7 جلدوں میں لکھی یہ تفسیر آپ نے بڑی محنت سے مرتب کی جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان فہم انداز میں کر دیا گیا ۔ یہ تفسیر 1327ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے شائع ہوئی ۔ 1379ھ میں مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف دام مجدہ ، مدیر الاعتصام نے دوبارہ نظرثانی ( تنقیح و تخریج احادیث ) کر کے شائع کرنا شروع کی ہے ۔ اب تک اس کی 5 جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔
حدیث پر آپ کی علمی تصانیف :
حاشیہ بلوغ المرام عربی فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ متن کے ساتھ کم و بیش 350 صفحات پر 1335ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے شائع ہوا۔
تنقیح الرواۃ تخریج احادیث المشکوۃ:
خدمت حدیث میں آپ کا علمی شاہکار ہے محدثانہ طریق پر مشکوۃ کا جامع اور بے نظیر حاشیہ ہے ۔ اس کی پہلی جلد خود لکھی اس کے بعد اپنی نگرانی میں مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی م 1381ھ سے لکھوایا ۔
اس کا پہلا ربع 1325ھ میں مطبع انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع 1333ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا ۔ احسن التفاسیر ج 1 ص 13
دوسرا نصف بغرض اشاعت مبطع مجتبائی دہلی کے پاس محفوظ تھا مگر اس کی اشاعت میں بوجوہ التوا ہوتا گیا تاآنکہ تقسیم ہند معرض وجود میں آ گئی ۔
تقسیم ہند کے بعد مطبع مجتبائی دہلی کا سامان دہلی سے کراچی منتقل ہوا تو اس سامان میں یہ بھی شامل تھا حضرت مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف دام مجدہ کو اس کا کسی طرح علم ہو گیا چنانچہ آپ نے کوشش کر کے یہ مسودہ حاصل کیا یہ مسودہ حضرت مولانا شرف الدین صاحب مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور کرم خوردہ ہو چکا تھا ۔
مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب نے سالہا سال محنت کر کے اس کو دوبارہ قابل اشاعت بنایا ہے اور اس پر نظرثانی کی ہے اب یہ قابل قدر علمی کتاب زیر طباعت ہے ۔
وفات :
17 جمادی الاولیٰ 1338ھ مطابق 9 مارچ 1930 ، 80 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی ۔