موت کے بعد انسانی روح کا مستقر

اگست 85ء کے شمارہ میں شاہ فاروق ہاشمی صاحب کے دو سوالات کے جوابات مدیر محدث حافظ عبد الرحمن مدنی کے قلم سے شائع ہوئے تھے ۔ اب ہاشمی صاحب کے بقیہ سوالات اور ان کے جوابات مولانا عبد الرحمن کیلانی کی طرف سے ہدیہ قارئین ہیں ۔ ( ادارہ )
ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
3۔ تیسرا سوال یہ ہے کے موت کے بعد انسان کی روح کا مستقر جنت ہے یا دوزخ یا عالم برزخ ؟
بعض حضرات کا خیال ہے کہ موت کے بعد انسان اپنے اعمال کے مطابق روحانی طور پر جنت یا دوزخ میں چلا جاتا ہے ( قبر یا عالم برزخ میں نہیں جاتا ) ان کا استدلال درج ذیل آیات و احادیث سے ہے :
( الف )﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ﴿٣٧﴾قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ﴾( الاعراف 37:38)
( ب ) ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾( النساء 97)
( ج )﴿ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٨﴾فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ( النحل 28،29)
( د )﴿ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾( النحل 32)
( ہ )﴿ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ﴾( یس26 )
( و ) ﴿بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾ ( العمران 169 )
( ز ) ﴿بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ﴾ ( البقرۃ 154 )
اور اسی طرح مسلم ، ابو داؤد ، نسائی کی احادیث جن میں شہداء کا بیان مذکور ہے کہ ’’ اننا احیاء فی الحنۃ ‘‘ اسی طرح روایت عائشۃ صدیقہ ؓ کہ ’’ ما من نبی یمرض الحدیث ‘‘ اور ’’ ما من نبی یقبض حتی یری مقعد من الجنۃ ‘‘
اور حدیث ام حارثہ ؓ کہ ان کے بیٹے کے متعلق آپؐ نے فرمایا : انہا جنان فی الجنۃ وان ابنک اصاب الفردوس الاعلیٰ ‘‘
جبکہ نوحؑ اور لوط ؑ کی بیویوں کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا : ﴿ قیل ادخلا النار مع الداخلین ﴾
سورہ نوح میں فرمایا :﴿أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾
اسی طرح یہ حدیث کہ ایک شخص نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا ’’ ابوک فی النار ‘‘
اور آپؐ کا یہ ارشاد گرامی کہ ’’ دخل الجنة رجل فی ذباب و دخل النار رجل فی ذباب ‘‘ مسند احمد
ان کے علاوہ بھی کافی احادیث بخاری اور مسلم میں پیش کی جاتی ہیں ۔
درج بالا آیات و احادیث کی روشنی میں صحیح عقیدہ کیا ہے ؟
برزخ والی آیت ۔﴿وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾
سے مراد قائل ’’ برزخ ‘‘ کے معنی ’’ روح اور جسم میں جدائی ‘‘ لیتا ہے نہ کہ عالم برزخ اور دلیل یہ دیتا ہے کہ ’’ برزخ کے معنی قرآن میں پردہ کے ہیں نیز یہ کہتا ہے کہ ’’ موت کے بعد برزخ نام کا عالم ہے تو پھر قرآن و حدیث سے دلیل معلوم ہونی چاہیے!‘‘
برائے مہربانی اس مسئلہ کا تشفی آمیز جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر فرمائیں !
4۔ حدیث پاک میں ہے کہ :
حدیث
اس حدیث کی رو سے عورتوں کی زیارت قبور منع ثابت ہوتی ہے جبکہ تین دیگر روایات اس کے خلاف جاتی ہیں ۔
( الف ) روایت ابن ابی ملیکہ جس میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا اپنے بھائی جناب عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کی قبر پر آنا ثابت ہے اور جس میں آپؓ کے چند اشعار کا بھی ذکر ہے جو آپؓ نے اپنے بھائی کی قبر پر کھڑے ہو کر پڑھے تھے ۔ یہ ترمذی کی روایت ہے ۔
( ب ) بخاری اور مسلم کی ایک روایت حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی ۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ ’’ صبر کر ‘‘ تو وہ کہنے لگی ’’ تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے ‘‘
( ج ) حسن بن حسن بن علیؓ جب فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے سال بھر ان کی قبر پر خیمہ لگایا پھر اٹھا لیا ۔ ( بخاری )
یہ تین روایات اس لعنت والی حدیث کے خلاف جاتی ہیں ان میں تطبیق کیسے ہو گی ؟
5۔ میت کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر کے سرہانے اور پائینتی کی جانب سورۃ البقرۃ کا اول و آخر پڑھا جاتا ہے کیا یہ عمل سنت سے ثابت ہے ؟
6۔ آج کل جو ختم قرآن مروج ہے یعنی حفاظ یا ناظر خوان حضرات کسی کی دعوت پر اس کے گھر جاتے ہیں اور ایک یا دو گھنٹہ میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے ہیں پھر برکت یا مصیبت کے ٹل جانے کی دعا کی جاتی ہے کیا یہ عمل خیر القرون میں ثابت ہے ؟
7۔ ہمارے ہاں اہلحدیث حضرات مشرک کا جنازہ بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ چاہے امام بھی بدعتی ہو یا مشرک ! اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ نماز امام کی اپنی ہے ، ہماری اپنی ! کیا یہ طرز عمل درست ہے ؟
کیا بد عقیدہ امام کے پیچھے نماز درست ہے ؟
والسلام !
( شاہ فاروق ہاشمی )
الجواب بعون الوہاب
برزخ کیا ہے ؟
برزخ دو مختلف اور متضاد خصوصیات رکھنے والی چیزوں کے درمیان ایک تیسری حائل چیز کو کہتے ہیں جو ان دونوں کو ملنے نہیں دیتی اور یہ مکانی بھی ہو سکتی ہے ۔
جیسے فرمایا :
﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ﴾
’’ اسی نے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے کہ ( اس سے ) وہ تجاوز نہیں کر سکتے ۔‘‘
اسی آیت کی تشریح ایک دوسرے مقام پر یوں فرمائی :
﴿وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ﴾
’’ اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ۔ ایک کا پانی شیریں ہے ، پیاس بجھانے والا ۔ اور دوسرے کا کھاری ، چھاتی جلانے والا اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنا دی ۔‘‘
برزخ مکانی کی دوسری مثال جنت اور دوزخ کے درمیان مقام اعراف ہے ۔
جیسے اللہ تعالیٰ نے حجاب کے لفظ سے بھی تعبیر فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ﴾
’’ اور ان دونوں ( یعنی بہشت اور دوزخ ) کے درمیان اعراف نام کی ایک آڑ ہے ۔ اور اس مقام پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو یعنی اہل بہشت اور اہل دوزخ کو ان کی صورتوں سے پہچانتے ہوں گے ۔‘‘
اور برزخ زمانی کی مثال یہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚكَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾
’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائیگی تو کہے گا کہ اے پرودگار مجھے پھر دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ‘‘ ہر گز نہیں ! یہ تو محض کہنے والے کی ایک بات ہو گی جس پر عمل نہ ہو گا اور ان کے ورے اٹھائے جانے کے دن ( قیامت ) تک برزخ ہے ۔‘‘
ان آیات سے درج ذیل باتیں مستبط ہوتی ہیں :
(1) برزخ کا مفہوم محض ایک پردہ نہیں بلکہ یہ برزخ مکانی بھی ہو سکتا ہے اور زمانی بھی ۔
(2) آیت 4 کے الفاظ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ اس بات پر واضح دلالت کرتے ہیں کہ یہاں برزخ سے مراد زمانہ برزخ یا عالم برزخ ہے نہ کہ محض ایک پردہ ۔
(3) مکانی کی صورت میں یہ برزخ دو مختلف اور متضاد خاصیت والی چیزوں کے درمیان ایک تیسری حائل چیز ہوتی ہے جس میں دونوں طرح کی خصوصیات جمع ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے کو ختم کر دیتی ہیں ۔ جیسے جنت اور دوزخ کے درمیان اعراف جس میں نہ جنت کی نعمتیں ہوں گی نہ دوزخ کا عذاب ۔ میٹھے اور کھارے دریاؤں کے درمیان برزخ ایک ایسی باریک سی رو کا جاری ہونا جس میں نہ مٹھاس ہو گی نہ کڑواہٹ پھر کبھی کسی ایک چیز کی خصوصیات غالب ہو جاتی ہیں اور دوسری چیز کی مغلوب جسے موت اور حیات کے درمیان برزخ ہے جسے برزخی زندگی بھی کہہ دیتے ہیں ۔ اس عرصہ میں موت کی خصوصیات غالب تر ہوتی ہیں اور زندگی کی کمزور تر اسی لیے قرآن مجید نے اس عرصہ کو بھی موت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔
(4) زمانی کی صورت میں اس کا زمانہ کسی شخص کی موت سے لے کر تاقیام قیامت ہے ۔ یہ محض ایک پردہ نہیں بلکہ طویل زمانہ ہے جس میں موت کے آثار غالب ہوتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ زندگی بھی ہوتی ہے جو ہمارے شعور سے ماورا ہے اسی زندگی کی بنا ء پر ہر مرنے والے کو مرنے کے دن سے عذاب یا ثواب قبر شروع ہو جاتا ہے جو تا قیام قیامت جاری رہے گا یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عذاب و ثواب قبر قیامت کے بعد جنت اور دوزخ کے ثواب و عذاب کے مقابلہ میں کمزور بھی ہوتا ہے اور غیر مسلسل بھی اور اس کی وضاحت میں اپنے ایک سابقہ مضمون ’’ روح ، عذاب قبر اور سماع موتیٰ ‘‘ میں پوری تفصیل سے کر چکا ہوں ۔
(5) برزخ مکانی کی صورت میں اس زمانہ برزخ میں نیک ارواح کا مستقر ’’ علیین ‘‘ اور بد ارواح کا مستقر ’’ سجین ‘‘ ہے ۔
شہداء کا معاملہ باقی تمام اموات سے علیحدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے لیے نہ مقام برزخ ہے اور نہ زمانہ برزخ نہ برزخی زندگی ہے نہ عذاب و ثواب قبر بلکہ وہ شہید ہوتے ہی سیدھے جنت میں پہنچ جاتے ہیں اور یہ ایک خصوصی اعزاز ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ جن آیات یا احادیث میں مرنے کے فورا بعد دوزخ کے عذاب اور جنتوں کی نعمتوں کا ذکر ہے اس کا کیا حل ہو ؟ تو اس کا جواب بھی سابقہ تصریحات میں آ چکا ہے کہ مرنے کے فورا بعد عذاب دوزخ یا ثواب جنت شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ اس عذاب و ثواب سے جو قیامت کے بعد ہو گا کمزور بھی ہوتا ہے اور غیر مسلسل بھی اور اس کی دلیل یہ آیت ہے :
﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
’’ وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہو گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کر دو۔‘‘
اور اہل جنت کے لیے بھی احادیث صحیحہ سے یہی کچھ ثابت ہوتا ہے کہ مومن کے لیے جنت کی طرف سے ایک روز کھول دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ
’’ نم کنوم العروس ‘‘ یعنی دلہن کی طرح میٹھی نیند سو جا ۔‘‘
رہی بات کہ قرآن میں موت کے ذکر کے بعد فا تعقیب کے ساتھ اور ماضی کے صیغہ مں آگ میں داخل ہونے کا ذکر کیوں آیا ہے جیسے قوم نوحؑ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
﴿أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾
یا اس جیسی دوسری آیات و احادیث تو اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اور اسی طرح قرآن میں بھی مستقبل کے لیے ماضی کا بکثرت استعمال ہوا ہے جیسے ’’ اقتربت اللناس وانشق القمر ‘‘ حالانکہ اس آیت کو نازل ہوئے چودہ سو سال گزر گئے اور ابھی معلوم نہیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ لیکن اس کے لیے بھی ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرح ’’ اذ الشمس کورت ‘‘ میں بھی ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ بات بھی مستقبل میں قیامت کے قریب ہو گی ۔
الغرض کسی شخص کی موت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصہ کو آپ زمانہ برزخ کہہ لیں یا عرصہ برزخ یا عالم برزخ ، قرآن کی آیت ﴿وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾کی موجودگی میں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
4۔ زائرات القبور :
زائرات القبور پر لعنت کے معاملہ میں تدریج زمانی اور اس کی حکمت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ابتداء قبروں کی زیارت سے عورتوں اور مردوں سب کو منع کر دیا گیا تھا ۔ اور اس کی وجوہ دو تھیں ۔ ایک یہ کہ دور جاہلیت میں قبروں پر بہت سے شرکیہ افعال بجا لائے جاتے تھے ۔ اور دوسرے یہ کہ قبروں پر جا کر نوحہ اور بین کیا جاتا تھا جو کبیرہ گناہ ہے اور شروع میں اس کی شدید مذمت اور وعید آئی ہے پھر چونکہ میت اور قبر پر نوحہ اور بین کرنے کے سلسلہ میں عورتیں ، مردوں سے بہت آگے ہوتی ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ کام عورتوں ہی کا ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا لہذا قبروں کی زیارت کرنے الی عورتوں پر بالخصوص اللہ کی لعنت کی وعید سنائی گئی پھر آپؐ کے آ خری زمانہ میں جب اسلام کے احکام ذہنوں میں راسخ ہو گئے اور مندرجہ بالا دونوں عوراض ختم ہو گئے تو آپؐ نے بدیں الفاظ قبرو ں پر جانے کی رخصت فرما دی ۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا(مسلم کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور)
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کر سکتے ہو ۔‘‘
اور ساتھی ہی زیارت قبور کا فائدہ بھی بتلا دیا کہ ’’ قبروں کی زیارت موت کو یاد دلاتی ہے ‘‘ مسلم ) زیارت قبور آخرت کو یاد دلاتی ہے ہازم اللذات ہے اور دنیا سے بے رغبتی پر آمادہ کرتی ہے ۔‘‘ ابن ماجہ
اب دیکھیے اس رخصت میں عورتوں کو مستثنی نہیں کیا گیا کیونکہ جب اس کے عوراض اور نقصانات کا خطرہ ہی نہ رہا تو پھر امتناع کی ضرورت بھی نہ رہی ۔ تاہم اس مسئلہ میں ااہل العلم کا اتنا اختلاف ضرور ہے کہ بعض تو اس رخصت میں عورتوں کو بھی شامل کرتے ہیں اور بعض دوسرے عورتوں کے لیے قبرو ں کی زیارت کو منع نہیں کہتے البتہ مکروہ ضرور سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ امام ترمذی اس پر محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ هَذَا كَانَ قبل أَن يرخص النَّبِي فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا كَرِهَ زِيَارَةَ الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ وَكَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ.‘‘ ( مشکوۃ کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور )
’’ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ زائرات القبور پر اللہ کی لعنت کی وعید اس رخصت سے قبل کا معالمہ ہے جو آپؐ نے زیارت قبور کے سلسلہ میں دی ۔ پھر جب آپؐ نے رخصت دے دی تو اس رخصت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اور بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے اب بھی زیارت قبور ان کے قلت صبر اور کثرۃ جزع کی وجہ سے مکروہ ہے ۔‘‘
ان تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس عورت سے جزع و فزع قلت صبر اور نوحہ و بین میں شرکیہ افعال کا خدشہ ہو اس کے لیے آج بھی زیارت قبور ممنوع ہے اور اس کے اس کام پر اللہ کی لعنت ہے اور جس عورت سے ایسا خدشہ نہ ہو اس کے لیے زیارت قبور میں چنداں مضائقہ نہیں ۔
ہاشمی صاحب کی تینوں مندرجہ احادیث کا جواب تصریحات بالا میں آ گیا ہے البتہ تیسری حدیث جس میں مذکور ہے کہ ’’ حسن بن حسن بن علی جب فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے سال بھر ان کی قبر پر خیمہ لگایا پھر اٹھا لیا ۔ ‘‘
بخاری میں مذکور ہونے کی وجہ سے ہم اس واقعہ کو تو درست تسلیم کرتے ہیں مگر اس واقعہ کو درست تسلیم کر لینے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ حسن بن حسن بن علی کی بیوہ کا یہ عمل امت کے لیے حجت بھی ہو ؟
5۔ دفن کے بعد قبر پر میت کے سرہانے اور پائنتی کی جانب سورۃ البقرۃ کا اول و آخر:
اس سلسلہ میں دو روایات منقول ہیں پہلی یہ ہے :
(وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَدْخَلَ الْمَيِّتَ الْقَبْرَ قَالَ: «بِسم الله وَبِاللَّهِ وعَلى ملكة رَسُولِ اللَّهِ» . وَفِي رِوَايَةٍ: " وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى أَبُو دَاوُد الثَّانِيَة) ( مشکوۃ کتاب الجنائز باب دفن المیت )
’’ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ جب میت قبر میں رکھ دی جاتی تو رسول اللہ ﷺ کہتے ’’ بسم اللہ وباللہ وعلی ملۃ رسول اللہ ‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ’’ علی ملۃ رسول اللہ ‘‘ کی بجائے ’’ علی سنۃ رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔‘‘ ( احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابو داؤد ۔ ابو داؤد نے ’’ علی ملۃ رسول اللہ ‘‘ کے بجائے علی سنۃ رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ درج کیے ہیں ۔ پس یہ عمل صحیح ہے !
لیکن دوسری روایت جو مستفسر کے سوال کی مناسب کے لحاظ سے واضح تر ہے وہ یوں ہے :
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةُ الْبَقَرَةِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان. وَقَالَ: وَالصَّحِيح أَنه مَوْقُوف عَلَيْهِ ( مشکوۃ حوالہ ایضا )
’’ عبد اللہ ابن عمر ؓ کہتے ہین کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنا ، آپؐ فرماتے تھے ’’ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے مت روکو اور اس کو قبر کی طرف لے جانے میں جلدی کرو ۔ اور اس کی قبر کے سرہانے سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات ( المفلحون ) تک پڑھی جائیں اور اس کی بائینتی سورۃ البقرۃ کی آخری آیات ( امن الرسول سے لے کر آخرر تک ) پڑھی جائیں ۔‘‘ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا اور کہا کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت موقوف علیہ ہے ۔
حضرت ابن عمرؓ سے مروی اس اثر کی روشنی میں بعض علماء نے قبر کے سرہانے اور پائنتی کی جانب سورۃ بقرۃ کا اول آخر پڑھنا مشروع کہا ہے حالانکہ یہ مرفوع ثابت نہیں جیسا کہ خود اس روایت میں امام بیہقی کا قول مذکور ہے کہ یہ اثر مرفوع نہیں بلکہ اس کا موقوف ہونا اصح ہے لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق اس عمل کے ابن عمرؓ سے ثابت ہونے میں بھی کلام ہے ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح از مولانا عبید اللہ مبارکپوری ) لہذا یہ امر غیر ثابت ہے ۔
6۔ ختم قرآن میں کی مروجہ صورت :
ختم قرآن کی جس صورت کا مستضر نے ذکر کیا ہے یہ نہ سنت رسولؐ ہے نہ سنت صحابہ ؓ اور نہ کسی تابعی کا عمل بلکہ یہ بدعت ہے پھر جس طرح یہ حضرات قرآن کو بگاڑ کر پڑھتے ہیں یا بعض دفعہ درمیان میں صفحوں کے صفحے بغیر پڑھے چھوڑ جاتے ہیں ان پر تو رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہی صادق آتا ہے :
ورب قاری القرآن والقرآن یلعنه
’’ قرآن کو پڑھنے والے کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ تو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کر رہا ہوتا ہے ۔‘‘
7۔ مشرک کا جنازہ :
اس سوال کے دو حصے ہیں ۔ پہلا یہ ہے کہ کیا مشرک کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مشرک کے لیے دعائے مغفرت سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴾( التوبۃ 113)
’’ نبیؐ اور مسلمانوں کے شایان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہو گیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو ان کے لیے بخشش مانگیں ۔ گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں ۔‘‘
اور نماز جنازہ بھی چونکہ دعائے مغفرت ہی ہوتی ہے اس لیے مشرک پر نماز جنازہ کا امتناع ثابت ہوا۔
آیت کے الفاظ ’’ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ ‘‘ سے یہ گنجائش البتہ نکل سکتی ہے کہ ایسے مشرک جو بے علمی کی وجہ سے اور رسمی طور پر لوگوں کو دیکھا دیکھی شرکیہ افعال بجا لاتے ہوں ان کی نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے لیکن جو مشرک سب کچھ سمجھنے کے باوجود اپنے شرک پر اڑا ہوا ہو اس کے لیے نماز جنازہ کے جواز کی کوئی صورت نہیں ۔
اس سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر امام بدعتی ہو یا مشرک ہو تو اس کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ؟ اس دلیل کے ساتھ کہ نماز امام کی اپنی ہے اور ہماری اپنی ؟ نیز کیا بد عقیدہ امام کے پیچھے نماز درست ہے ؟
بد عقیدہ شخص کی امامت درست نہیں ۔ اور ایسے شخص کو امام نہیں بنانا چاہیے لیکن اگر اتفاقا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی نوبت آ جائے تو علیحدہ نماز ادا کرنے کی بجائے اس کے پیچھے ہی نماز ادا کر لینی چاہیے لیکن مستقل طور پر ایسے امام کے پیچھے نماز درست نہیں ۔
اور اگر نماز جنازہ ہو او رمیت تو مشرک نہ ہو لیکن امام بدعتی یا مشرک ہو تو راقم کے خیال میں اضطرار اس کے پیچھے بھی نماز ادا کر لینا چاہیے ۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب