دارالافتاء
سوال 1۔ : عبدالرؤف صاحب سید مٹھا بازارلاہور سےلکھتےہیں :
میں نےایک کتاب سےحدیث پڑھی کہ آں حضرت ﷺ کوجب کبھی سردرد ہوتاتو مہندی لگا لیا کرتے تھے ۔اسی کتا ب میں یہ بھی لکھا تھا کہ گرتےبالوں کےلیے مہندی اکسیر ہے۔ کیاایسا کرنےسے گرتےبال پھر نہیں گرتے؟
اس کی وضاحت اگرحدیث میں ہوتومجھے ضرور لکھ دیں –شکریہ !
سوال نمبر 2۔:
جسمانی صحت کےلیے آں حضرت ﷺ کیاچیز خوراک میں کھاتےتھےیاکیا چیز کھانے سےجسمانی طاقت بڑھ سکتی ہے؟ اس بات کابھی جواب کسی حدیث کی روشنی میں لکھیں ، (مثلا شہد ، زیتون وغیرہ )
سوال نمبر 3 ۔:
میں شادی ایک پٹھان لڑکی سےکرنا چاہتاہوں جوکہ باپردہ اورنماز کی پابند ہونےکےعلاوہ قرآن کوبھی سمجھتی ہےلیکن یہاں والدین رضا مند نہیں جبکہ ایک اورلڑکی بےپردہ اورنماز کی بھی پابند نہیں اورقرآن وحدیث کوبھی خاص نہیں سمجھتی وہا ں والدین رضا مند ہیں ۔ آپ مجھے بتائیں کیا کرنا چاہیے ؟ والدین کی مرضی کودیکھوں یااپنی پسند ( کوکہ اسلامی نقطہ نظر سےہی ہے) اس کودیکھوں ؟ براہ مہربانی میری یہ الجھن ضرور حل کریں مجھے یہ لکھیں کہ شادی کےبارےمیں والدین کی مرضی کی زیادہ اہمیت ہےیااسلام کی پسند یاناپسندیدہ بات کوزیادہ اہمیت ہے؟
الجواب :
دواء اورعلاج دونوں کا تعلق آب وہوا اور علاقائی فضا سےگہرا ہوتاہے،اس لیے یہ ممکن ہوتاہےکہ ایک جگھ تووہ دوائی کام کرجائے لیکن دوسری جگہ نہیں ۔اس کےعلاوہ بعض دوائیں ، مخصوص افراد کی حدتک فٹ رہتی ہیں اوربعض کےلیے نہیں ،)کیونکہ مزاج کااختلاف ہوتاہے۔ ہوسکتاہے کہ بعض اوقات ایک دوائی صرف مخصوص کیں کی حدتک کامیاب رہےلیکن دوسری جگہ بعینہ اس جیسے کیس میں مفید ثابت نہ ہو، اس لیے اس سلسلے میں زیادہ مناسب یہی ہوتاہےکہ قابل اعتماد طبیب اورڈاکٹروں سےمشورہ ضرور حاصل کیاجائے اوریہ بات ان پرواضح کی جائے کہ حضور ﷺ کےاس سلسلے میں یہ عمل یاارشاد ہے۔اگر بات مخصوص نوعیت کی ہے تواور بات ہے ورنہ اس سے کام لیا جانا چاہیے ۔ یہ گزارشات اصولی طورپرعرض کی ہیں ۔کوئی خاص دوائی یامرض سامنے نہیں ہے۔بہرحال ان امور کےسلسلے میں ڈاکٹر اورحکیموں کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا۔
’’ روى ابن ماجه فى سننه حديثا فى صحته نظر أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا صدع علف رأسه بالحناء ويقول إنه نافع بإذن الله - ،، ( زاد المعاد ص 12 – 3 )
’’ جب سردرد کرتاتوآپ ﷺ مہندی لگاتے اورفرماتے ، اللہ کی اجازت سےیہ نفع دےگی ۔،،،
مگر یہ روایت محل نظر ہے،ایک اورروایت میں ہے، آپ ﷺ کوکوئی زخم لگتایاکانٹا چبھ جاتا توضرور ہی مہند ی لگاتے:
’’قالت كان لا يصيب النبى صلى الله عليه وسلم قرحة ولا شوكة إلا و ضع عليه الحناء -،، (ابن ماجه صفحه 258 )
سرکےبال :
امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ : اس کےلگانے سےبال اُ ک آتےہیں ،ان کی طاقت دیتےاورخوبصورت بناتےہیں :
’’ وهو ينبت الشعر ويقويه ويحسنه ،،- ( زادالمعاد 3 ۔ صفحہ 122 )
طاقت کےلیے :
حضور ﷺ کوگوشت اورمیٹھی شے بہت پسند تھی ، بالخصوص شہد،سرکہ، روغن زیتون اوردودھ ، کدّو ، (کتب سیرت ، طبی لحاظ سےان اشیاء کامطالعہ کیاجائے تویہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہےکہ ان سےصحت بنتی اورجسمانی قوتیں جوان رہتی ہیں ۔اس کےعلاو ہ قرآن مجید نےشہد کےبارے میں فرمایاہے:
﴿ فيه شفاء للناس﴾(قرآن مجيد )
’’ اس میں لوگوں کےلیے شفا ء ہے،، ۔
حکیم جالینوس کاکہناہےکہ اکثر امراض کےعلاج میں اس سے بہتر کوئی دوا نہیں ۔
( بستان المفردات صفحہ 227 )
طب کی کتابوں میں اس کوشباب آور اورقوت کی کان کہا گیا ہے۔واللہ اعلم !
اس میں سب کچھ آجاتاہے۔امام ابن القیم لکھتےہیں ،یہ ہرلحاظ سےجامع ہے، غذا بھی ہےدواء بھی ، پینے کی شےبھی اورکھانے کی میٹھی چیز بھی ۔طلاؤں میں طلاء بھی ہے۔مفرحات میں سےمفرح بھی ، اس سےافضل شے ہمارے لیے اورکوئی نہیں پیدا کی گئی ۔
’’ وهو عذاء مع الاعذية وداء من الادوية وشراب من الاشربة والحلو من الحلو وطلاء مع الاطلية مفرح مع مفرحات فما خلق لنا شئ فى معناه افضل منه ( زاد المعاد ص 97_3 )
حضور ﷺ کاارشاد ہے، جوشخص ہرماہ میں صرف تین دن صبح کوشہد چاٹےگا اس کوکوئی بڑا روگ نہیں لگے گا:
’’ من لعق العسل ثلث غدوانى كل شهر لم يصبه عظيم من البلاء ،، - (ابن ماجه صفحه 255 فيه انقطاع )
نیک رشتہ اور والدین :
اگر رشتہ کرنا ہےتوپھر نیک رشتہ کیجیے ! والدین کی اطاعت جائز امور میں ہے۔ بےنماز اور بےپردہ لڑکی کےلیے اس کااصرار شرعاً ناجائز ہے۔اللہ ہوش دے۔قرآں مجید میں ہے: اگرشرک کرنے کوکہیں توان کی نہ سنو، ان کی خدمت ضرور کرو:
﴿فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾(لقمن )
حديث میں ہے:
’’ لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق ،، - ( مشكوة )
’’ جس کامیں خدا کی نافرمانی ہواس میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں ،،
ٹمپل روڑ لاہور سےایک صاحب لکھتےہیں کہ :
1۔ بعض مسجدوں میں فجر کی نماز کےبعد دائرہ کی شکل میں جوکچھ پڑہاجاتاہے،
2۔ بعض مسجدوں میں اذان سےپہلے جوکچھ پڑھاجاتاہے۔
3۔ بعض مسجدوں میں ہرماہ چاند کی 11، 13 ، 17 تاریخ کوبعد نماز عشاء غیراللہ کانام لےکر درد کیا جاتا ہے------------ قرآن وحدیث کی روسےاس کاکیاحکم ہے؟
1۔ نماز کےبعد دائرہ کی شکل میں درد :
صحابہ کےزمانے میں مسجد نبوی میں کچھ لوگ حلقہ بناکر سوسودفعہ تسبیح وتہلیل اورتکبیر کا وِرد کرتےتھے، حضرت موسیٰ اشعری نےدیکھ کرحضرت عبداللہ مسعود سےجاکر شکایت کی ، انہوں نےآکر ان کوڈانٹ پلائی اورفرمایا ،رسول اللہﷺ کےصحابہ کافی موجود ہیں ۔حضور کےبرتن اورکپڑے ابھی رکھےہیں،اتنی جلدی بدل گئے ہو، بخدا ! یا توتم محمدی ملت ( علی صاحبہا الف الف صلاۃ وسلا م ) سےزیادہ ہدایت پرہو یا تم گمراہی کادروازہ کھولنا چاہتےہو، انہوں نے عرض کی، جناب ہمارا ارادہ نیکی کاہے، فرمایا ، بہت سےلوگ ایساہی چاہتےہیں ، پڑوہ اسے پانہیں سکتے۔حضور ﷺ فرمایاکرتےتھے، بہت سے لوگ قرآن پڑھیں گے، مگروہ ان کےحلق سےنیچے نہیں اترےگا ،راوی کا بیان ہےکہ بالآخر ہم نے ان کونہروان کےمیدان میں خارجیوں کےہمراہ دیکھ ہی لیا : راينا عامة اولئك الخلق يطعنون يوم النهروان مع الخوارج ،، (دارمى جلد 1 _ صفحه 69 )
امام دارمی یہ واقعہ اس عنوان کےتحت لائے ہیں : ( عن مجاہد ( ولا تتبع السبل ) قال البدع والشبھات ص 68 )
اصل بات یہ ہےکہ اگر حضو رﷺ کےامتی ، حضور کی سنت سےواسطہ رکھیں تووہی بس کرتی ہیں ، ادھر ادھر منہ مارنے کےفرصت نہیں ملتی ، یہ کام وہی لوگ کرتےہیں جوزبان سےتو’’ مدینے بلالو مجھے،، کےگیت گاتےہیں مگر عملاً آپ ﷺ کی سنت سےان کودلچسپی نہیں ہوتی ، اس لیے بقول شیخ سعدی : گومنہ کعبہ کوبےمگر اس کےبجائے ترکستان پہنچ رہے ہیں ۔ انا للہ
2۔ مسجد میں اذان سےپہلے:
اذان کےبعد درود پڑھنا سنت ہے،خود حضور ﷺ نےاس کی سفارش کی ہے: إذا سمتعم الموذن فقولو امثل مايقول ثم صلو ا على : (مسلم ص 166 )
ليكن اذان سےپہلے جتنا اورجیساکچھ بولتے ہیں، وہ حضرت بلال اورحضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اذان کےمخالف ہے۔و ہ عشقِ رسول ﷺ میں اوراونچے مقام پر تھےمگر اس طرح وہ نہیں کیا کرتے تھےجس طرح ہمارے یہ دوست کرتےرہتےہیں ’’ علی پورشریف ،، کےگدی نشین بزرگوں نےبھی اسےبدعت کہاہے۔افسوس تویہ ہےکہ جوسنت ہےوہ کرتے نہیں جوبدعت سےاسےمسنون اذان سےبھی پہلے سینے سےلگاتےہیں ۔ ایک روایت میں آیا ہےکہ جولوک جتنی بدعت ایجاد کرتےہیں اتنی سنت ان سے اٹھالی جاتی ہے:
’’ مااحدث قوم بدعة الا رفع منها من السنة ،، (رواه احمد –مشكوة صفحه 31 الاعتصام بالكتاب ولسنة الفصل الثالت ،
جاکہ ان سےکوئی تعزیت کرےیہ قابل رحم دوست ہیں بدعت سےتوان کی پٹییاں بھری ہیں مگر حبیب خدا ﷺ کی سنت سےان کی جیب خالی ہے۔پھرحق تعالیٰ کی اس سزا کاہدف اورنشانہ کررہ گئے ہیں کہ جس قدر یہ لوگ بدعات کےقریب ترہوتےجائیں اتنی سی خدا کی طرف سےسنت رسولﷺ سےان کودوررکھا جاتاہے۔ اس پرطرہ یہ کہ ان لوگو ں نےبدعات پرگامزن رہنے کو وقار کامسئلہ بنالیاہے، ہٹنے میں توکہتےہیں ناک کٹتی ہے مگران کوکیامعلوم جوخوشی نصیب بدعات کوچھوڑ کرسنت کواپنا لیتےہیں خدا کےہاں وہ بڑا اعزاز پاتے ہیں جوبدنصیب برائی کی راہ پر پڑجاتےہیں ، وہ بہرحال پچھتائیں گے ،اللہ تعالیٰ سنت پرچلنے کی توفیق دے۔آمین
3۔ بعد نماز عشاء مسجد میں غیراللہ کوپکارنا:
ویسے توکہیں بھی یہ جائز نہیں ، مسجد ہویاغیرمسجد لیکن مخصوص مسجد کےلیےتاکید کواب توسب طرف سے کٹ کر میرے دربار آگئے ہوکم ازکم اتنی گھڑیاں توغیراللہ کےشائبہ سےپاک رہنی چاہییں ،اسی لیےقرآن مجید میں آیاہے:﴿وان المساجد لله فلا تدعوا مع الله احد ﴾( پ 29۔جن )
اوریہ کہ مسجدیں اللہ کی یاد کےواسطے ہیں ، سومت پکارو اللہ کےساتھ کسی کو،،
عشاء کےبعد سورۃ کافرون پڑھنے کی رسول اللہ ﷺ نےسفارش کی ہےکہ جواس کی تلاوت کرکےسویاوہ شرک سےبری سمجھا جائےگا :’’ فإنها براءة من الشرك ،،(رواه احمد )
ليكن جولوگ اس کے بجائے غیراللہ کےبت بغل میں دبا کر سونے کی کوشش کرتےہیں ان کا توپھر خداہی حافظ ہے، بہرحال یہ پکارشرعاً ممنوع ہے۔واللہ اعلم