حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا

آپ کااسم ِ گرامی عبداللہ اورکنیت اورعبدالرحمن تھی ، مگرابن عمر    کےنام سے مشہور ومعروف ہیں ۔
خاندان  : 
ابن عمر   کاسلسلہ نسب نویں پشت پررسول اللہ ﷺ سےمل جاتاہے۔ 
تاریخ پیدائش : 
آپ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔بعض کےنزدیک آپ نبوت کےپہلے سال پیدا ہوئے بعض دوسرے یاتیسرے سا ل کی تاریخ بتاتےہیں مگر راجح تاریخ پیدائش نبوی مطابق 611ء ہے۔ 
حلیہ : 
شکل وشباہت میں والدماجد سےمماثلت تھی : قد لمبا ، جسم بھاری ، رنگ گندمی، داڑھی مشت بھر ، مونچھیں کاٹی ہوئی جس سےلبوں کی سفیدی نمایاں ہوجاتی ، بال کاندھوں، تک ، سیدھی مانگ نکالا کرتے،عموماً زردخضاب پسند فرماتے تھے۔ 
لباس : 
معمولی موٹا پائجامہ ، سیاہ عمامہ اورپاؤں میں سادہ سی چپل ، کبھی کبھار قیمتی لباس زیب تن فرماتے تاکہ کفران نعمت نہ ہو۔ انگوٹھی پرعبدالرحمن بن عمر  کندہ تھا جومہرکاکام بھی دیتی تھی ۔ 
ذریعہ معاش : 
تجارت پیشہ تھے ، مدینہ کےمقدس بازارون میں اونٹ کےتاجر تھے۔علاوہ ازیں عہدرسالت میں جاگیربھی عطا ہوئی تھی جس کالگان ملتی تھی ۔ عہد فاروقی میں ڈھائی ہزار وظیفہ ملتا تھا ۔عہد عثمانی میں اورعہد بنوامیہ میں وظیفہ میں زیادتی ہوئی لیکن سخی اورفیاض دل تھے۔اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرکےخوش ہوتےتھے ا س لیے آخرزندگی میں عسرت سےدوچار رہے۔
عظیم باپ کےعظیم بیٹے زاہد دعا بد حضرت عبداللہ بن عمر  چارمعروف عبادلہ میں سے ایک عبداللہ تھے (باقی تین عبداللہ بن عباس    ، عبداللہ بن عمروبن العاص ، اورعبداللہ بن زبیر   نادرِ روزگارشخصیت تھیں ) آپ ﷺ اُم المؤمنین حضرت  حفصہ ؓ کےسگے بھائی تھےاوراس فاروق   کےبیٹے تھےجس کےمتعلق تاجدار مدینہ ختم الرسل نےفرمایا تھا کہ : 
’’ لوكان بعدى نبى لكان عمر نبيا إلا إنه لا نبى بعدى ،، - 
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتاتوعمر   ہوتالیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ،، ۔
ابن عمر ؓ زہد وتقویٰ اورعلم وفضل میں امتیازی خصوصیت اورمنفرد شان کےمالک تھے۔ان کی نسبت کہا جاتا ہےکہ: 
’’ جس نےبھی دنیا کوپایا اس پردنیا مائل ہوگئی یا وہ دنیا پرمائل ہوگیا لیکن ابن عمرؓ نہ دنیا پرمائل ہوئےنہ دنیا ان پرمائل ہوسکی ،، ۔ 
حدیث سید المرسلین کےحافظ سات ، جلیل القدر نابغہ روز گاشخصیات ،جن کومحدثین کی صف میں سات مکثرین ’’کثرت سےروایت کرنےوالوں کے،،خطاب سےنوازا گیا،ان میں سےدوسرے نمبر پرآپ کااسم گرامی تاقیامت منقش ہوچکا ہے۔
مکثرین کےاسماء گرامی یہ ہیں: 

1۔ حضرت عبدالرحمن  ابوہریرہ   

2۔ عبداللہ بن عمر  

3۔ انس بن مالک   

4 ۔ حضرت السید ہ عائشہ ام المؤمنین ؓ 

5۔ حضرت عبداللہ بن عباس   

6۔ حضرت جابربن عبداللہ   

7۔حضرت ابوسعید الخدری   ۔

آپ سےدو ہزار چھ سو تیس ( 2630 ) احادیث مروی ہیں ۔ اصح الاسانید کےنام سےجوسلسلۃ الذہب آپ  سےمروی ہےعلماء حدیث کےنزدیک یہ ہے:

’ ’ مالک عن نافع  عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،، - 

آپ منجملہ خصائص ومناقت کےحال تھے ۔ آپ کوختمی مرتبت احمدد مجتبیٰ ،محمد مصطفےٰﷺ  سےجووالہانہ محبت تھی ، وہ انہی کاخاصہ تھا ۔ ابن عمر  کی پوری زندگی رسول اللہ ﷺ کی حسین ودلکش زندگی کاپرتوجمیل تھی ۔ ابن عمر   سنت ِ رسولﷺ  کےاس قدر شدید عامل  تھےکہ جہاں بھی رسول اللہ ﷺ نےحضروسفر میں نماز ادا کی آپ   نےوہان نماز ادا کی ۔جہاں آ پ ﷺ نےآرام فرمایا وہاں آپ   نےآرام کیا اورجہاں آپ ﷺ نےچند ثانئے توقف فرمایا،وہاں ابن عمر   نےتوقف کیا ۔ 

صحیح بخاری میں امام بخاری ﷫ سےمروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ مسجد قبا میں سوار اور پیدل دونوں صورتوں سےتشریف لےجاتےتھے۔ ابن عمر   کابھی یہی عمل تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نےذوالحلیفہ میں اترکرنماز پڑھی ۔ ابن عمر  بھی ذوالحلیفہ میں نماز پڑھتے تھے ۔ غرضیکہ عبادت کےعلاوہ وضع قطع اورلباس میں بھی اسوہ نبویﷺ کوپیش نظررکھتے تھے ۔ 

آ پ ﷺ نےساری عمر میں ایک ہزار عمرےادا کیے اورساٹھ حج ۔ آ پ  خوفِ آخرت سےاکثر ترساں دلزراں رہتے تھے ۔ابن عمر   روایت کرتےہیں کہ آخرت کاسبق دینے والےمیرے آقا ومربی رسول خداہیں ۔ ایک دن رسول اللہﷺ نےمجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کرفرمایا ’’ كن فى الدنيا كانك غريب اوعابرسبسل  ،، یعنی دنیا میں اس طرح رہ جیسے توپردیسی یاراہ چلتا مسافر ہے،،اس روایت کوابن عمر   سےبخاری ومسلم دونوں نےروایت کیا ہے۔

چنانچہ ابن عمر  اس ارشاد النبی ﷺ سےاتنے متاثر ہوئے کہ صحابہ کرام کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کےبعد ہرشخص کچھ نہ کچھ بدل گیا مگر نہ بدلے توعبداللہ بن عمر   ۔ حضرت جابربن عبداللہ فرماتےہیں :’’ ہم میں کوئی ایسا نہیں جسے دنیا نےاپنی طرف مائل نہ کیا ہو وہ خود دنیا کی طرف مائل نہ ہوا ہولیکن ابن عمر   نہ  دنیا کی طرف مائل  ہوئے اورنہ دنیا ان کی طرف مائل ہوئی ۔

کسی نےنافع سےپوچھا :’ ’ مجھے کوئی ایساشخص بتا ئیے جوبیک  وفت عابدو زاہد بھی ہو،متقی و پرہیز گار بھی ، خوش الحان قاری بھی اوریوم آخر ت سے ڈرنے والا بھی ،میں  اس کےعقد میں اپنی بیٹی دینا چاہتا ہوں ۔ 

حضرت نافع   نےکہا کہ تم عبداللہ بن عمر   کےپاس جاؤ باعبداللہ بن جعفر کےپاس ۔ 

امام شعبی ﷫ سےسفیان ثوری روایت کرتےہین کہ ایک دفعہ عبداللہ بن عمرزبیر،مصعب بن زبیر عبدالملک بن مروان اورعبداللہ بن عمر  چاروں خانہ کعبہ میں جمع تھے ۔سب کی رائے ہوئی کہ ہرشخص رکن یمانی پکڑ کرخدا سےاپنی دلی تمناؤں سےمتعلق دعا مانگے ۔سب نےاپنی دلی مراد سے متعلق دعا مانگی ۔آخر میں حضرت عبداللہ بن عمر   نےاللہ کےحضور جودعا مانگی اس سےان کےزہد وورع اورخشیت الہی کااندازہ ہوتاہے۔فرمایا : 

’’ یااللہ تورحمن ورحیم ہے، میں تیری اس رحمت کاواسطہ دےکر دعاکرتا ہوں جوتیرےغضب پرغالب ہےکہ تومجھے آخرت میں رسوا وذلیل نہ کرنا اوراس عالم میں مجھے جنت عطا فرما ۔ 

ایک دفعہ ابن عمر   نےعبیدبن عمر سےیہ آیت سنی : 

﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴾سن پیغمبرﷺ! (آخرت کے) اس دن کیاحال ہوگاجب ہم ہرامت سے ایک گواہ لا کھڑا کریں گےاور آپ کوان سب پرگواہ لائیں گے ،، ؟ 

ان آیات کاسننا تھا کہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں ۔داڑھی اورگریبان تک آنسوؤں سے بھیگ گئے ۔ اللہ اکبر۔ جوانسان خوفِ خدا اورروز جزاء سے لرزاں وترساں رہتےہیں ان کا دامت زہد وتقویٰ کےآبدار موتیوں سےسدابھرا رہتا ہے۔اس صفت میں ابن عمر  کادامنِ حیات بھی بہت گہربار تھا ۔اور گہربار کیوں نہ ہوتا ابن عمر کےایک خواب کی تعبیر میں رسو ل اللہ ﷺ  نےعبداللہ کےمتعلق فرمایا تھاکہ’’ عبدااللہ  رجل صالح ،، اوریہ اس دعا کانتیجہ تھا کہ جوانی ہی میں عبداللہ کی پیشانی سےزہدوروع کانور چمکتا تھا ۔ 

امام زین العابدین کہا کرتے تھےکہ زہد وتقویٰ اوراصابت رائے میں ابن عمر ہم سب پر فائق تھے۔ عبداللہ بن عامر نے  آپ کی خدمت میں یکےبعد دیگرے بیس بیس ہزار کی رقم بھیجی ۔

آپ  ﷺ نےفرمایا : کہیں یہ رقم مجھےفتنہ میں نہ ڈال دے ۔آپ نےیہ رقم کھڑے کھڑے وہیں تقسیم کردی  ۔ 

پیٹ بھرکھانا کبھی بھی نہ کھاتے تھے ۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ زاہدانہ زندگی میں خلل واقع نہ ہو۔ ابن سعدکابیان ہےکہ آپ کےغلام عبداللہ بن عدی عراق سےواپس آئے تو آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کیا ۔آپ   نے دریافت فرمایا۔غلام بولا :یہ تحفہ چورن ہے۔اگر کھانا ہضم نہ ہوتاہوتو اس کےکھانے سےکھانا ہضم ہوجاتا ہے۔آپ   نےفرمایا : اس کی مجھے ضرورت نہیں ۔میں نےتومہینوں سےشکم سیر ہوکرکھانا کھایا ہی نہیں ۔ 

رسول اللہ ﷺ سےاس قدر محبت وانس تھاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کےبعد اس قدر ملول سکتہ دل ہوئےکہ عمر بھر نہ کوئی مکان بنایانہ باغ لگایاجب بھی رسول اللہ کی یاد آتی بےقابو ہوکر ورنے لگتے ۔یحییٰ بن یحیٰ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اساتذہ سےسنا کہ بعض لوگ عمر  کومجنون کہنےلگے ،زیدبن عبداللہ کہتےہیں کہ جب بھی کبھی ابن عمر   کی زبان پررسول اللہ ﷺ کااسم گرامی آتا توان کی آنکھیں اشکبارہوجاتیں ۔سبحان اللہ ۔جب عزوات رسول ﷺ کےمقامات سےگزرہوتا توآنکھوں کےسامنے رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرام   کانقشہ آجاتا اورآنکھوں سےبے اختیار آنسوؤں کاسیلاب امڈ پڑتا کیونکہ آپ سچے محبِ سول ﷺ تھے۔دیارحبیب ﷺ سےاس قدرمحبت واخلاص تھا کہ افلاس کےباوجود یہاں سے نکلنا پسند نہ کرتے ۔کہا کرتےکہ ’’ رسول اللہ ﷺ نےوعدہ فرمایا ہےکہ جوشخص مدینہ طیبہ کےمصائب پرصبر کرے گاقیامت کےروز میں اس کی شفاعت کروں گا،،۔(مسنداحمد بن حنبل ) ۔ 

رسول اللہ ﷺ  کےساتھ غیرمعمولی محبت کافطری تقاضا تھا کہ اہل بیت رسول اللہﷺ کےساتھ بھی ایسی ہی غیر معمولی محبت ہو۔ چنانچہ فضائل اہل بیت سےمتعلق جو  روایات کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں ان میں متعدد روایات آپ ﷺسےمنقول ہیں ۔مثلا: 

’’ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تمام عورتوں سےافضل ہیں ،، ۔ 

’’ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  ؓ رسو اللہ ﷺ کی محبوب بیوی ہیں ۔،،

’’فاطمہ ؓ جگر کوشہ رسول ہیں ۔،، 

’’ علی   اسداللہ الغالب اورآخرت میں رسول اللہ ﷺ کےبھائی  ہیں -،،

’’ حسن وحسین رضی اللہ عنہما جوانان ِ جنت کےسردار اورباغ دنیا کےدوپھول ہیں ۔،، اہل بیت میں خصوصاً حضرت حسین   سےمحبت تھی ۔تذکرہ نگارلکھتےہیں کہ جس وقت حسین   کوفہ جانےکی تیاری کررہےتھے۔ابن عمر   کومدینہ منورہ میں معلوم ہواتو وہ سخت مضطرب وپریشان ہوئے اوردشوار گزار سفر کرکے مدینہ سےمکہ آئے اور ان سےکہا : 

’’ اےابن عم! اللہ تالی ٰ نےاپنے رسول ﷺکودنیا اورآخرت میں سےایک قبول کرنے کااختیار دیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نےدنیا پرآخرت کوترجیح دی ، آپ چونکہ رسول اللہ ﷺ کےجگر کےٹکڑے ہیں اس لیے آپ بھی آخرت ہی کواختیار کیجیے۔،، 

یہ سن کر حضرت حسین   کی آنکھوں میں آنسوآگئے اورفرمایا کہ اب تومیں عزم کرچکا ہوں ۔ آپ   کاعزم دیکھ ابن عمر  روپڑے اورآنسوؤں کےساتھ حضرت حسین   کوالوداع کہا ۔

آپ   امین ِ حدیث تھے ۔محمدبن علی کہتےہیں  کہ میں نےکسی صحابی ‎ کورسول سے اس طرح حدیث بیان کرتے نہیں پایا مگرعبداللہ بن عمر  کو۔یعنی سنی ہوئی حدیث کونہ مفہوم کےلیے زیادہ کیا  نہ کم ! بلکہ من وعن روایت کیا۔

اما م زہری فرماتے ہیں کہ ابن عمر  وہ ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات پوشیدہ نہیں تھی ۔ سعیدبن مسیب کہا کرتے تھے کہ میں کسی کےجنتی ہونے کوگواہی اگردےسکتا ہوں تووہ ابن عمر   ہیں ۔ میمون بن مہران کہتےہیں کہ میں نےابن عمر  سے زیادہ متقی اورپرہیز گار نہیں دیکھا ۔مسلمہ بن عبدالرحمن کہتےتھے کہ میں نےابن عمر  کےانتقال کےبعد ان جیسا کوئی  نہیں دیکھا ، وہ فضیلت میں عمر  سےقریب تھے ۔

عوام دعائیں مالگا کرتے تھے کہ خدا یا جبتک ہم زندہ ہیں توابن عمر   کوزندہ رکھ تاہم ان کی  پیروی کرسکیں ۔اس وقت ان سے بڑھ کرکوئی عہد رسالت کاواقف کارنہ تھا۔لوگ اس وقت کےصحابہ کرام  اورکبارتابعین ﷫) آپ  کی فضیلت کےبہت زیادہ معترف تھے ۔اورآپ سےوالہانہ محبت وشیفتگی کااظہار کیا کرتےتھے۔چنانچہ ابن عمر  خود فرمایا فرتے تھے کہ لوگ مجھ سےاتنی محبت رکھتے ہیں کہ اگر میں ان کی محبت چاندی اورسونے کےبدلے خریدنا چاہوں تونہیں خریدسکتا۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ ام المؤمنین   فرماتی ہیں کہ عہد نبوی  کےحالات و کیفیات کےعبداللہ بن عمر‎   سےزیادہ کوئی واقف نہیں ۔

حذیفہ بن یمان   کہا کرتے تھےکہ رسول  اللہ  ﷺ کےبعد ہرشخص کچھ نہ کچھ بدل کیا مگر نہ بدلے توعبداللہ بن عمر   ! 

علی بن حسین   زین العابدین کہتےتھے : زہد وتقویٰ اوراصابت راے میں عبداللہ بن عمر   کوہم سب پربرتری حاصل تھی ۔

حق گوئی وبے باکی : 

امام ذہبی ﷫ تذکرۃ الحفاظ میں ان کی حق گوئی اور بےباکی کا ایک واقعہ بیان کرتےہیں : 

امت مسلمہ کاایک ظالم  وفاسق جو حجاج بن یوسف تقفی کےنام سےبدنام ہےجس نےاپنی شقاوت قلبی سےاس امت مسلمہ کےساٹھ ہزار سے زیادہ جلیل القدر مسلمانوں کو بےدرد ی سےشہد کروایا ۔بعض تاریخ نگاروں کےبقول اس ظالم نےبیس ہزار عظیم المرتب صحابہ ﷫ کرام کوشہد کروایا جبکہ چالیس ہزار تابعین کو۔

عبداللہ بن زبیر   ، انس بن مالک اورعبداللہ بن عمر   جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کوجہاں شہید کروایا وہاں اس ظالم نےسعیدبن جبیر جیسے عظیم فقیہ المدینہ کوبھی شہید کرایا ۔

ایک دفعہ بیت اللہ میں ظالم حجاج  خطبہ دے رہا تھا کہ عبداللہ بن عمر   کھڑے ہوکر فرمانے لگے :’’ دشمن خدا نےحرام کوحلال بنا لیا ، خانہ خدا کوبرباد کیا اوراولیا ۔اللہ کوقتل کیا ۔،، 

حجاج نےاپنے خطبہ میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’ عبداللہ بن زبیر   نےکلام اللہ کوتبدیل کردیا ہے۔،، 

حضرت ابن عمر   نےاس کےجواب میں فرمایا:’’ توجھوٹ یکتا ہےنہ ابن زبیر کلام اللہ کوبدل سکتا ہےاورنہ تو۔،، 

حجاج نےکہا :’’ توبوڑھا کھوسٹ ہے۔،، 

جناب عبداللہ  نےفرما یا :’’ اگر تولوٹ کرجوان بن جائے توبھی میں اسی طرح رہوں گا ۔،، 

شاہین کبھی پرواز سےتھک کرنہیں گرتا 

پردم ہےاگر تُو تو نہیں خطرہ افتاد 

وفات : 

اس واقعہ سےظالم حجاد :ابن عمر   سےدل ہی دل میں برا فروختہ ہوگیا ، مگر ظاہراً ان کو نقصان پہنچانہ سکتا تھا چنانچہ ڈپلو میسی سےاس بدبخت نےایک آدمی کوتیار کیا اورزہربجھا تیر عین اس وقت اس ظالم نےآپ   کےپاؤں کےآخری حصہ میں مارا جٹ آپ ﷺ طواف بیت اللہ میں مصروف تھے چنانچہ اس تیرکے زہر سےآپ   ا س دنیا نےفانی سے 74؁ھ میں رفیق اعلیٰ کوجاملے ۔ 

آپ    بعثت نبوی ﷺ کےتھوڑا عرصہ بعد ہی اپنے والدِ ماجد کےاسلام لانے پراسلام لائے! 

اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی پھر آپ   نےاپنے والد ماجد سےپہلے مدینہ طیبہ کورسول اللہ ﷺ کےحکم کےمطابق ہجرت کی ۔

جنگِ احد میں کفار کےساتھ جنگ کرنے کی آپ کی بڑی خواہش مگر کم سنی کےباعث رسول اللہ ﷺ نےآپ کوجنگِ احد میں شمولیت سےباحکم منع فرمادیا تھا ۔ 

عزوہ احد کےبعد متعدد غزوات میں رسول اللہ کی معیت میں دادِ شجاعت دی اورمتعددکافروں کا تہ تیغ کیا ۔ جنگِ قادسیہ ، جنگ یرموک ، فتح افریقہ ، فتح مصروفارس اوربصرہ ومدائن میں شمولیت کی ۔

ابن عمر   کےحکیمانہ اقوال :

٭ تم گناہ کرنا چاہتے ہوتو وہ جگہ تلاش کولو جہاں خدا موجود نہ ہو۔ 

٭ دوسروں کی عیب جوئی سے پہلے اپنے عیوب پرنگاہ ڈالو ۔ 

٭ عبادت سےلطف اندوز ہونا چاہتے ہوتو تنہائی ڈھونڈو ۔ دوستوں اورواقف کاروں سےعلیحدی گی اختیار کرو مگر یہ اس وقت جبکہ روزی تلاش کرلو اور اہل وعیال کومیٹھی نیند سولینے دو ۔

٭ سب سےآسان نیکی خندہ پیشانی اورشیریں کلامی ہے۔ 

٭ جس طرح میٹھا شربت پی جاتے ہو، غصہ بھی اسی طرح پی جایا کرو ۔ 

٭ علم تلاش کرو چاہے وہ دشمن کےپاس ہو۔

٭ اخلاق  خراب ہیں توایمان بھی خراب ہوگا ۔ 

٭ میں پہلے خود حدیث پرعمل کرتاہوں اورپھر لوگوں کوحدیث سناتا ہوں۔

آپ ابوہریرہ   کےبعد دوسرے بڑےحافظ درادی ہیں ۔ آپ کی مرویات (2630 ) ہیں ۔

ابن عمر   نےابوبکر صدیق ، الفاروق ، عثمان ذوالنورین ، السید ہ عائشہ صدیقہ ، ا لسید حفصہ ، عبداللہ ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین سےاحادیث روایت کی ہیں ۔

ابن عمر   سےسعید بن المسیت ، حسن البصری ، ابن شہاب الزہری ، ابن سیرین ، نافع ، مجاہد ، طاؤس ، عکرمہ اور متعدد کبارتابعین سے روایت کی ہے۔

غرض اسلام کی بنیادی تعلیمات اور دیگر شعبوں سےمتعلق آپ   کی کثیر تعداد مرویات ، احادیث کی کتب میں سچے موتیوں  کی طرح بکھری ہوئی ہیں جن کومحدثین کرام نے کتبِ حدیث میں مختلف ابواب میں مزین ومنقش کردیا ہے جن میں سے چاردرج ذیل ہیں :

1۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ،، - 

’’ حضرت ابن عمر   کہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرقائم ہے:کلمہ کااقرار ، نماز ، زکوۃ ،حج کی ادائیکی اوررمضان کےروزے رکھنا۔،، 

2۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: " أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ ،، - 

’’ اے اللہ میں حاضرہوں ، میں حاضر ہوں، تیراکوئی شریک نہیں ، میں حاضرہوں،سب نعمتیں ، تعریفیں اورملک تیرے لیے ہیں بےشک تیرا کوئی شریک نہیں ۔،، 

3۔ كن فى الدنيا كأنك  غريب أو عابرسبيل -،، 

’’ دنیا میں اس طرح گزر بسرکرجیسے کہ تو پردیسی یاراہ چلتا مسافرہے۔،،

4۔  عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ: «إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ،،- 

کہ ’’ نبی کریم ﷺ نےفرمایا کہ ،مشرکین کی مخالفت کرویعنی داڑھی بڑھاؤ اورمونچھیں کاٹو ۔،، 

’’ حضرت ابن عمر   جب حج یاعمرہ کرتے تواپنی داڑھی میں سےمشت بھرسے زائدہ کوکٹواتے ۔یہ ان کاذاتی اجتہادی فعل تھا ۔،،

یہ تھے عظیم باپ کےعظیم بیٹے ۔جس نےاپنے باپ کےپاؤں تلے نخوت وطمع پیدا نہ ہوئی ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !