ترجمان القرآن انسائیکلو پیڈیا آف قرآن
جس طرح اللہ تعالیٰ کو مچھر پیدا کرنے میں کوئی عار نہیں۔اسی طرح مچھر یا مکھی یا مکڑی کی مثال بیان کرنے میں بھی اسے کوئی عار نہیں۔فرماتا ہے:۔
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ﴿٧٣﴾...الحج
"لوگوں ایک مثال بیان کیجاتی ہے اسے غور سے سنوجن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے۔اگرچہ اس کے لئے سارے جمع کیوں نہ ہوجائیں۔اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔طالب اور مطلوب(عابد اور معبود)دونوں گئے گزرے ہیں۔"
دوسری جگہ فرمایا:
(عربی)
"جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو کار ساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک طرح کا گھربناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے۔"
پھر فرمایا:
(عربی)
"کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی۔وہ ایسی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں سربلند اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا اورمیوے دیتا ہو۔اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے۔نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند۔زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اسے ذرا بھی قرار وثبات نہیں۔اللہ مومنوں کے دلوں کو صحیح اور پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھےگا۔اور اللہ بے انصافوں کو گمراہ کردیتاہے اور اللہ جوچاہتا ہے کرتا ہے۔"
پھر فرمایا:
(عربی)
"اللہ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے۔جو دوسروں کےاختیار میں ہے اور کسی چیز پرقدرت نہیں رکھتا۔"
پھر فرمایا:۔
(عربی)
"اور اللہ ایک اور مثال بیان فرماتاہے۔کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے۔اوربے اختیار ہے یہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اپنے مالک پر بوجھ بناہواہے وہ جہاں اسے بھیجتا ہے کوئی بھلائی نہیں لاتا۔کیا ایسا گونگابہرہ اور وہ شخص جو سنتا بولتا اورلوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود صراط مستقیم پر گامزن ہے یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں"؟
پھر فرمایا:۔
(عربی)
"وہ تمہارے لئےتمہارے ہی مال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے۔کہ بھلا جن لونڈی اور غلاموں کے تم مالک ہو وہ اس مال میں سے جوہم نے تم کو عطا فرمایا ہے کیا تمھارے شریک ہیں؟
پھر فرمایا:
(عربی)
"اللہ ایک مثال بیان کرتاہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی آدمی شریک ہیں بدخو۔"
پھر فرمایا:
(عربی)
"اور یہ مثالیں ہم لوگوں کو سمجھانے کے لئے بیان کرتے ہیں۔اور اسے تو اہل دانش ہی سمجھتے ہیں۔"
مجاہد ؒ نے فرمایا:مثالیں چھوٹی ہوں یا بڑی مومنین سب پر ایمان لاتے ہیں۔ سب کو اللہ کی طرف سے جانتے ہیں۔اللہ انھیں ان مثالوں سے رستہ دیکھاتا ہے۔"
ابوالعالیہؒ نے کہا،جولوگ کافر ہوئے وہ کہتے ہیں اللہ کو ان مثالوں سے کیامطلب؟ جیسا سورہ مدثر میں فرمایا:۔
(عربی)
" اور ہم نے دوزخ کے داروغہ فرشتوں کو بنایاہے۔اوران کا شمار کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کیا ہے اور ا س لئے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کاایمان اور زیادہ ہو۔اور اہل کتاب اور مومن شک میں نہ پڑیں۔اور اس لئے کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کامرض ہے اور جو کافر ہیں کہیں کہ اس مثال کے بیان کرنے سے اللہ کا کیا مقصود ہے۔اس طرح اللہ جس کو چاہتاہے گمراہ کرتاہے۔اور جس کو چاہتاہے ہدایت دیتاہے اور آپ کے پروردیگار کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔"
اسی طرح یہاں یہ کہا کہ بہت سوں کو اس سے گمراہ کرتاہے۔اور بہت سوں کو اس سے راہ دکھاتاہے۔اس سے گمراہ نہیں ہوتے مگر نافرمان لوگ۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت نے کہا کہ (عربی) سے مراد منافقین ہیں۔(عربی) سے مراد مومنین ہیں۔بعض نے کہا کہ اس سے مراد اہل کفر ہیں۔ کہ جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں کسی نے کہا،اس سے مراد خوارج ہیں۔یہ تفسیر بالمعنی ہے۔کیونکہ اس آیت کے نزول کے وقت خوارج نہیں تھے۔
ہاں یہ عمومی مفہوم میں داخل ہیں۔اس لئے کہ خارجی وہ شخص ہے کہ جو اطاعت امام اور قیام شریعت اسلام سے باغی ہے ۔فاسق بھی اسی کوکہتے ہیں جو اطاعت سے خارج ہوا۔لفظ فاسق کااطلاق کافر وعاصی دونوں پر ہوتاہے۔کافر کافسق زیادہ سخت ہوتا ہ ے۔ اس آیت میں فاسق سے مراد کافر ہے۔اس کی وجہ عہد شکنی وغیرہ اور جو اوصاف فاسقوں کے یہاں بیان فرمائے ہیں۔ وہ سب کافروں کی صفات ہیں۔مومنوں کی صفات اس کے برعکس ہوتی ہیں۔ جس طرح سورہ رعد میں فرمایا:۔
(عربی)
"بھلا جو شخص یہ جانتا ہے۔ جو کچھ تمہارے پروردگار کیطرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے۔ وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھاہے؟اورعقلمند لوگ ہی بات کو سمجھتے ہیں۔ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اور اقرار کو نہیں توڑتے اورجن رشتوں سے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ان کو جوڑتے ہیں۔اور اپنے پرودگار سے ڈرتے ہیں۔اور بُرے حساب سے خوف کھاتے ہیں۔ اور جو اپنے پروردگار کی خوشی حاصل کرنے کےلئے مصائب پرصبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو دیا اُس میں سے چپکے چپکے اور اعلانیہ بھی خرچ کرتے ہیں۔اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں۔یہی لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔اور جو لوگ اللہ سےکئے ہوئےپختہ عہد کو توڑ ڈالتے ہیں۔اور جن رشتوں کے جوڑنے کا اُس نے حکم دیا ہے اُن کو قطع کرتے ہیں۔اور ملک میں فساد کرتے ہیں۔ایسے لوگوں پر لعنت ہے اور اُن کے لئے بہت ہی بُراگھر ہے۔"
قرطبی ؒ نے کہا یہ آیت اہل سنت کے مذہب پردلالت کرتی ہے کہ ہدایت وضلالت صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہیے۔زمخشریؒ کا یہ کہنا کہ ضلالت کو اللہ کی طرف نسبت دینا مجازاً ہے۔یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ امام رازیؒ نے اس مقام کو اپنی تفسیر میں خوب حل کیا ہے۔
(ف) اس جگہ عہد سے مراد اللہ کی وصیت ہے۔اور امر ونہی کے بارے میں جو انبیاءؑ کی زبان سے اور آسمانی کتب میں بیان ہے۔اس کے توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔کسی نے کہا کفار سے مراد اہل کتاب اور منافقین ہیں۔اللہ نے توراۃ میں اُن سے عہد لیا تھا کہ وہ توراۃ پر چلیں گے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد ان کی اتباع کریں۔اور ان کی تصدیق کریں گے۔لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔انھوں نے آپ کو نہ پہچانا اور انکار کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت لوگوں سے چھپائی ۔یہ عہد شکنی ہوئی ۔اسی وجہ کو ابن جریرؒ نے اختیار کیا ہے۔
بعض نے کہا اس آیت سے مراد سارے اہل کفر وشرک ونفاق ہیں۔ان سے توحید کا عہد لیا گیا تھا۔ربوبیت کے تمام دلائل ان پر ظاہر کئے گئے تھے۔ان سے یہ عہد لیاگیا تھا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب معجزات لائیں تو تم ان کا حکم ماننا۔انھوں نے اس عہد وپیمان کا پاس نہ کیا اور توحید ونبوت وکتب سب کے منکر ہوئے۔ابن کثیرؒ نے بھی اس سبب کو حسن کہا ہے زمخشریؒ کا میلان طبع بھی اس طرف ہے۔
بعض نے کہا یہاں عہد سے مراد (عربی) کا عہد ہے۔یعنی اس کاتوڑنا اور اور اس کا چھوڑنا ۔ابو العالیہ ؒ نے کہاہے منافقوں میں چھ عادتیں پائی جاتی ہیں۔جب انھیں لوگوں پر غلبہ ہوتا ہے تو اپنی ساری خصلتیں ظاہر کردیتے ہیں۔
1۔جب بات کریں تو جھوٹ بولیں۔
2۔جب وعدہ کریں تو خلاف ورزی کریں۔
3۔جب امانت رکھی جائے تو خیانت کریں۔
4۔اللہ سے عہد باندھ کر توڑدیں۔
5۔جس رشتے داری کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا اُس کو کاٹ دیں۔
6۔اور زمین میں فساد کریں۔
اگر ان کا لوگوں پر غلبہ ہوتو آخری تین پر عمل کرتے ہیں۔ اور پہلی تین پر خاموش رہتے ہیں۔ربیع بن انس ؒ اور سدیؒ نے کہا،عہد سے مراد وہ عہد ہے۔جو قرآن میں ان سے لیا گیا ہے۔انھوں نے اس کا اقرارکیا تھا پھر کافر ہوکر اس عہد کو توڑ ڈالا۔اور کاٹنے سے مراد صلح رحمی کو ختم کرنا ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا:
(عربی)
"(اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور ایسے رشتوں کو توڑ ڈالو۔"
اس کو ابن جریر ؒ نے راحج بتایا ہے۔ کسی نے کہا بلکہ مراد وہ ہر چیز ہے جس میں وصل وفعل کا حکم تھا۔اُس کو قطع کیا یا چھوڑ دیا۔جیسے مومنین کا باہمی پیارومحبت ،جماعت کے ساتھ لزوم،شریعت کی تمام حدوں کی حفاظت ،نیکی کےہرفعل کوترک کرنے اور ہر شر کے اختیار کرنے سے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک تعلق ہے وہ ٹوٹ جاتاہے۔یہی جمہور کا قول ہے اور یہی قول کہ آیت کا مفہوم عام ہے۔صحیح معلوم ہوتاہے۔واللہ اعلم۔
(ف) زمین میں فساد کرنے سے مراد وہ افعال واقوال ہیں۔جو اللہ کے حکم کے خلاف ہوں۔جیسے غیر اللہ کی عبادت ،مخلوقات کو تکلیف پہنچانا،جس چیز کی حفاظت کا حکم ہے اُسے بدل دینا غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو شرعاً یا عقلاً اصلاح کے خلاف ہے۔وہ فساد ہے قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی گناہ پر ایسی سخت وعید سنائی ہو جتنی عہد شکنی پر پس جس کسی نے اللہ سے کوئی اقرار باندھا ہو سچے دل سے عہد کیا ہو اسے چاہیے کہ اپنا اقرار پورا کرے اور اپنے وعدے کو وفا کرے۔ صحیح احادیث میں بے وفائی کرنے سے منع کیاگیا ہے۔مقاتل بن حبان ؒ نے فرمایا،(عربی) اس آیت کی مانند ہے۔(عربی)۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے غیر اہل اسلام کی طرف نسبت کیا ہے۔جیسے خاسر مراد اس سے کفر ہے۔اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی طرف منسوب کیا ہے۔اس سے مراد گناہ ہے۔خسران کہتے ہیں تجارت میں نقصان اٹھانے کو،کافر ومنافق کا یہی نقصان ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں۔اس سے زیادہ اور خسارہ کیا ہوگا۔
(عربی)
"کافرو! تم اللہ کے کیسے منکر ہو سکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔"
اس آیت میں اللہ نے اپنے وجود ،قدرت کاملہ اور خالق ومتصرف ہونے پرحجت بیان کی ہے یعنی تم اللہ کے وجود کا کس طرح انکارکرتے ہو اور غیر اللہ کو پوجتے ہو۔حالانکہ وہ تمھیں عدم سے وجود میں لایا ،جیسے فرمایا:
(عربی)
کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں۔یا انھوں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے۔(نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے۔"
دوسری جگہ فرمایا:
(عربی)
"بے شک انسان پرزمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔"
اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آیت:
(عربی)
"وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں دو دفعہ بے جان کیا اور دو دفعہ جان بخشی ہمیں اپنے گناہوں کااعتراف ہے۔"
کا مطلب وہی ہے جو سورۃ بقرہ میں فرمایا۔۔۔(عربی)۔۔۔الایۃ۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم مردہ تھے۔یعنی اپنی آباء کی پشت میں کچھ چیز نہ تھے۔پھر تمھیں پیدا کیا پھر سچ مچ وفات دی پھر دوبارہ زندہ کرے گا۔یہ آیت اللہ کے اس قول کے مانند ہے۔(عربی) عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا قول اس طرح ہے۔"تم پیدا ہونے سے پہلے مٹی تھے۔یہ مردہ ہونا ہوا پھر تم کو زندہ کیا۔یہ زندگی ہوئی پھر تم کو وفات دے گا۔تم قبر میں جاؤ گے۔یہ دوسری موت ہوئی۔پھرقیامت کو اٹھائے گا۔یہ دوسری زندگی ہوئی۔غرض یہ کہ دوبارہ مرنا اور دوبارہ جینا ثابت ہوا کسی نے کہا کہ زندہ کرکے پھر مارنے کا معنیٰ یہ ہے کہ قبر میں زندہ کرے گا پھر مار دے گا۔صحیح بات وہی ہے جو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گزر چکی ہے۔تابعین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیاہےجس طرح اللہ نے فرمایا:۔
(عربی)
"کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو جان بخشتا ہے۔پھر وہی تم کو موت دیتا ہے۔پھر قیامت کے روز تمھیں جمع کرے گا جس کے آنے میں کچھ شک نہیں۔"
بتوں کے بارے میں فرمایا:
(عربی)
" وہ لاشیں ہیں بے جان انھیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔"دوسری جگہ فرمایا:
(عربی)
" اور ایک نشانی ان کے لئے وہ زمین ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا ،اور پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں۔"
حاصل کلام یہ ہے کہ"پہلی موت" سے مراد انسان کے وجود کا نہ ہونا اور "پہلی زندگی" سے مراد پیدائش ہے۔اور "موت ثانی" سے مراد وہ موت جس کا وقت مقرر ہے اور "حیات ثانی" سے مراد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔فتح البیان میں لکھا ہے کہ یہ تفسیر سب سے زیادہ بہتر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے۔
(عربی)
" وہ اللہ ہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں۔تمہارے لئے پیدا کیں،پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنادیا اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔"
ابن کسانؒ نے کہا یہ سارے نباتات ،جمادات،معدنیات،حیوانات،پہاڑ اور دریا تمھارے دین ودنیا کے نفع کے لئے بنائے ہیں۔دین کا نفع یہ ہے کہ تم اللہ کی اس عجیب مخلوقات کو دیکھ کر عبرت اور فکر حاصل کرو،توحید پر یقین کرو،دنیا میں ان چیزوں سے فائدہ حاصل کرو،یہ بھی معلوم ہوا کہ اصل اشیاء میں اباحت (جائز ) ہے جب تک کوئی دلیل اس اصل سے نہ پھیر دے۔اس میں حیوانات وغیرہ سب یکساں ہیں۔
کسی نے کہا یہ اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ مٹی کا کھانا حرام ہے کیونکہ ہمارے لئے مافی الارض کو پیدا کیا ہے۔تاکہ نفس ارض کو۔لیکن اس سے بہتر دلیل یہ ہے کہ حدیث میں مٹی کھانے کی ممانعت آئی ہے۔اور مٹی مضر صحت بھی ہے۔
(ف) پہلے توحید کی ایک دلیل ایسی بیان کی تھی جو خاص ان کی جانوں میں نظر آتی ہے۔اب دوسری دلیل زمین وآسمان کی پیدائش کی ذکرفرمائی۔استویٰ کے معنیٰ اس جگہ قصد اور ارادے کے ہیں۔آسمان اس جگہ اسم جنس ہے ہر چیز سے واقف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا علم ساری خلق کو محیط ہے جسطرح فرمایا:
(عربی)
"بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟"
کل شئی میں علم ساری حلیات وجزئیات کاداخل ہے۔یہ اس لئے فرمایا کہ خالق کو ساری مخلوق کا عالم ہونا واجب ہے۔بعض علماء نے کہا ہے کہ علم کی صفت ساری صفات کی امام ہے۔
(ف) اس آیت کی تفصیل سورہ حم السجدہ میں آتی ہے۔
(عربی)
" آپ کہہ دیجئے کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور بتوں کو تم اس کا مدمقابل بناتے ہو۔وہ تو سارے جہاں کا مالک ہے۔اور اس نے زمین کے اوپر مضبوط پہاڑ بنائے۔اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں چاردنوں میں سامان معیشت مقرر کیا۔جو سب طلبگاروں کے لئے یکساں ہے۔پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ،خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے ۔انھوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں۔پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔اور ہر آسمان میں اس کے کام کا حکم بھیجا۔اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا۔اورشیطان سے محفوظ رکھا یہ زبردست اور خبردار کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں۔"
اس آیت میں اس بات پر دلالت ہے کہ اللہ نے پہلے زمین بنائی۔پھر سات آسمان بنائے۔عمارت کے بانی کا یہی دستور ہوتا ہے کہ پہلے نیچے کی بنیاد رکھتا ہے پھر اوپر کی عمارت بناتا ہے۔رہی یہ آیت:
(عربی)
" بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا،اس کو چھت کو اونچا کیا پھر اسے برابر کردیا اور اس نے تاریک رات بنائی اور دن کو دھوپ نکالی اور اس کے بعد زمین کو پھیلادیا۔"
یہ بھی کہا ہے کہ پھیلانا زمین کا آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد ہوا۔
تخلیق کائنات:
(ف) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا کہ اللہ کاعرش پانی پر تھا۔پانی سے پہلے اللہ نے کوئی چیز نہیں بنائی۔جب یہ ارادہ کیا کہ مخلوقات کو بنائے تو پانی سے دھواں نکالا۔وہ پانی کے اوپر اونچا ہوگیا۔اللہ نے اس کا نام آسمان رکھا۔پھر پانی کو خشک کردیا۔اس کا نام زمین رکھا زمین چٹیل تھی۔اس کو پھاڑ کر سات زمینیں بنائیں۔یہ کام دو دن میں مکمل کیا ،اتوار اور پیر اس زمین کو ایک مچھلی کے اوپر پیدا کیا۔یہ وہی مچھلی ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔
(عربی)یہ مچھلی پانی میں ہے پانی ایک صاف پتھر پر ہے۔پتھر ایک فرشتے کی پشت پر ہے،فرشتہ ایک سخت پتھر پر ہے۔وہ پتھر ہوا میں ہے اس پتھر کا ذکر لقمان نے کیا ہے یہ پتھر نہ آسمان میں ہے نہ زمین میں ہے مچھلی نے حرکت کی زمین ہلنے لگی اللہ نے اس پر پہاڑ رکھ دیئے وہ رک گئی۔
زمین از پتے لرزہ آمد ستوہ فروکوفت بردا منش میخ کوہ
اس آیت کا یہی مطلب ہے۔
(عربی)
"اور ہم نے زمین پر پہاڑ بنائے تاکہ لوگوں کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے۔"
اللہ نے پہاڑ لوگوں کی خوراک اور درخت وغیرہ دو دن منگل اور بدھ کو پیدا کیے ۔یہی مطلب ہے اس آیت کا۔
(عربی)
دھواں پانی کے سانس سے اٹھا۔اس کو آسمان بنایا۔یہ آسمان سپاٹ تھا۔پھر اس کے سات آسمان بنائے۔یہ کام دو دن جمعرات اور جمعہ کو کیا۔جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آسمان وزمین کی پیدائش اس دن میں جمع کی گئی تھی۔ہرآسمان میں اپنے حکم کی وحی کرنا یہ ہے کہ اس میں فرشتےبنائے۔دریا ۔پانی ۔پہاڑ۔اوربرف بنائی۔اور وہ جو معلوم نہیں پھرہر آسمان کو تاروں سے رونق اور زینت دے کر شیطانوں سے محفوظ کرنے کا سبب بنادیا۔پھر جب پیدائش سے فراغت ہوئی تو عرش پر جا بیٹھا۔یہی مطلب ہے اس آیت کا:
(عربی)
"اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جوچیزیں ان دونوں میں ہیں ،سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔پھر عرش پر قائم ہوا۔"
اور فرمایا:
(عربی)
"(آسمان اور زمین) دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا۔اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔"
عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اللہ نے خلق کی ابتداء اتوار سے کی ۔اتوار اور پیر کو ساری زمینیں بنائیں۔ تمام خوراک اور پہاڑ منگل،بدھ کو بنائے۔آسمانوں کو جمعرات ،جمعہ کے دن پیدا کیا۔جمعہ کے دن پچھلے پہر اس کام سے فارغ ہوا۔اس گھڑی میں جلدی پر آدم کو پیدا کیا اور اس گھڑی میں قیامت بھی قائم ہوگی۔
مجاہد ؒ نے کہا کہ ایک آسمان دوسرے آسمان کے اوپر ہے ایک زمین دوسری زمین کے نیچے ہے۔
ابن کثیر ؒ کہتے ہیں کہ اس آیت میں دلیل ہے۔اس بات پر کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہوئی۔سورۃ السجدہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ کہ پہلے ذکر زمین کی پیدائش کاکیا۔پھرآسمان کی طرف جانے کا۔میں نہیں جانتا کہ علماء نے اس بات میں کوئی اختلاف کیا ہو۔مگر قتادہؒ کو یہ زعم ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا۔قرطبی ؒ نے اس پر توقف کیا ہے۔
صحیح بخاری ؒ میں ہے کہ بعینہ یہی سوال کسی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیاتھا۔جواباً آپ نے فرمایا کہ زمین کاپھیلانا آسمان کی تخلیق کے بعد ہوا۔یعنی پہلے زمین پیداکی پھر آسمان بنایا۔پھر زمین کو پھیلایا۔یہی جواب علمائے کرام اہل حدیث وتفسیر نے بھی دیا ہے ہم نے اس تفصیل کو سورہ والنازعات میں تحریر کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جو چیزیں زمین کےاندر اللہ نے پیدا کی ہیں۔ان سب کو آسمان کی پیدائش کے بعد لایا گیا۔ نفس زمین آسمان سے پہلے نہیں ہے جیسے نباتات،جمادات،پانی،وغیرہ اپنے اختلاف نوعیت، صفت،رنگ،اورشکل وغیرہ۔اسی طرح آسمانوں کا اپنے تمام ثابت وسیار ستاروں کے ہمراہ گردش کرنا ان چیزوں کے ساتھ جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں۔واللہ اعلم۔
فتح البیان میں ان آیات کو اس طرح تطبیق دی ہے کہ زمین کا پھیلانا آسمان کی تخلیق کے بعد ہے پھر یوں کہا ہے کہ یہ تطبیق بہت بہتر ہے شوکانیؒ کا بھی یہ قول ہے آیت مذکور سے سات آسمانوں کا ہوناثابت ہے۔رہی زمین سوسارے قرآن مجید میں فقط ایک جگہ یہ فرمایا:
(عربی)
"اللہ ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسے ہی زمینیں۔
اس پرکسی نے کہا کہ مراد گنتی ہے۔یعنی زمینیں بھی سات ہیں۔کسی نے کہا مراد موٹاپا ہے۔ماوردی ؒ نے کہا۔ساتوں زمینیں سپاٹ ہیں بیچ میں فاصلہ نہیں ہے۔لیکن صحیح یہ ہے کہ آسمانوں کی طرح الگ الگ ہیں۔مگر دعوت اسلام اس زمین کے لئے مختص ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔
صحیح حدیث میں بھی سات زمینوں کا ذکر آیا ہے۔رازی ؒ نے آسمانوں کے بیان میں کہ سات ہیں یاآٹھ۔حکماء کا مذہب بیان کرکے اچھی بات بھی لکھی ہے کہ اس خبط سے تجھے یہ ہوش آجائےگی،عقل ہرگزایسی چیزوں کو دریافت نہیں کرسکتی ۔اس کا علم اس کو ہے جس نے انھیں بنایا۔اس لئے اس جگہ انھیں سمعی دلیلوں پر تھک کربیٹھ رہنا واجب ہے۔
حدیث میں اہل سنن کے ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے آسمان کی تعریف میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ہر آسمان کا فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت بتایا ہے۔زمین آسمان دونوں کی گنتی سات سات عدد ارشاد کی ہے۔مگر کسی حدیث صحیح صریح مرفوع میں یہ نہیں آیا کہ ہر طبقہ زمین میں اس زمین کی مانند انسان،حیوان،انبیاءؑ،علماء،جہلاء موجود ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے آثار اس جگہ کارآمد نہیں ہوسکتے۔اگرچہ ان کی سند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تک صحیح کیوں نہ ٹھہرے کیونکہ ایسے اقوال غالباً اسرائیلیات سے لئے گئے ہیں۔اسرائیلیات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ نہ اُن کی تصدیق کرو نہ تکذیب سو ہمیں اس جگہ توقف لازم ہے۔
مسلم ونسائی میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اللہ نے زمین کو ہفتے کے دن پیداکیا،پہاڑوں کو اتوار کے دن درختوں کو سوموار کے دن،مکروہ چیزوں کو منگل کے دن ۔نور کو بدھ کے دن۔جانداروں کو جمعرات کے روز اور آدمؑ جمعہ کے دن عصر کے وقت کے بعد پچھلی گھڑی میں۔
ابن کثیرؒ کہتے ہیں یہ حدیث غرائب مسلم سے ہے۔علی ابن المدینی ؒ اور بخاریؒ اور بہت سے حفاظ حدیث نے اس میں کلام کیاہے۔اس کو کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام ٹھہرایا۔یعنی ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا تھا۔بعض راویوں کو دھوکہ ہوا انھوں نے اس کو مرفوع ٹھرادیا اس کی تحقیق بہیقی ؒ نے کی ہے۔