اسلام اور مشورہ
مشورہ کے لغوی معنی:
عربی زبان میں مشورہ "اور شوریٰ" کا استعمال رائےدینے کے لئے کیا جاتا ہے۔مشاورت (باہم رائ زنی کرنا) اوراستشارۃ(رائے طلب کرنا) ایسے الفاظ ہیں جو خاص طور پر انھیں موقع پر بولے جاتے ہیں۔ایک اور لفظ جس کا استعمال مخصوص اس بارے میں نہیں ہے بلکہ صلہ کے بدلنے سے اس کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔اور وہ لفظ اشارہ کے صلہ میں"الیٰ"آتا ہے۔تو اس کے معنی محض کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے ہوتے ہیں۔اوراگر علی آتا ہے تو اس کے معنی مشورہ دینے کے ہوجاتے ہیں۔یہ پانچوں الفاظ اگرچہ باعتبار صیغوں اور باب کے مختلف ہیں مگر ماخذ اور موضع اشتقاق ان کا ایک ہے ان سب کی اصل شور ہے۔
مشورہ ومشاورہ سے جو اصلی غرض ہے کہ چند مختلف ضعیف وقوی،صحیح ومنتج رائے اور قول مخلصانہ وغیرہ مخلصانہ اقوال اور ایوان سے ایک عمدہ صحیح ومنتج رائے اور قول ہوجائے۔اور وہ صحیح رائے ذریعہ خرابیوں اور تباہیوں سے محفوظ رہنے اور مقاصد میں کامیابی وفلاح کا بن جائے اس کا لحاظ ان الفاظ کے اشتقاق اور ترکیب میں پورا پورا ملحوظ ہے۔
شورچھتہ میں سے شہد نکالنے کو کہتے ہیں(عربی) اس کا ماضی مضارع آتا ہے۔(عربی)(میں نے شہد کو نکالا) مشواراس آلے کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے شہد کو نکالاجاتاہے۔نیز مشوارہ اس موقع کو کہتے ہیں جہاں شہد کی مکھیاں شہد جمع کرتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ شہد جو ایک شیریں مفید اور نافع چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شفاء للناس فرمایا ہے جو دوا اور غذا ہونے کی حیثیت سے تمام دنیا میں محبوب ومطلوب اور محتاج الیہ ہے مکھیوں کے چھتہ میں ان کے زہر آلود رنگوں میں گھرا ہوتا ہے۔اور شہد کو نکالنے والے ان تکالیف کا مقابلہ کرکے اس کو بمشکل نکالتے ہیں۔لفظ شور سے ہی شارہ وشورہ نکلے ہیں اور ان کے معنی حسن صورت عمدگی اور اچھی ہیت وضع کے ہیں،حدیث میں آیا ہے۔(عربی)(ایک شخص آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا کہ اس کا لباس اچھا تھا اس کی ہبت وسالت اچھی تھی)عرب میں بولتے ہیں(عربی) فلاںشخص اچھے لباس والا ہے۔
گھوڑوں اور جانوروں کی فروخت کے لئے خریداروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور خریدار اس کو آگے پیچھے سے اوپر نیچے اچھی طرح دیکھتا اور اس کے ایک ایک عضو کو ٹٹولتا ہے۔اس کو بھی شور کہتے ہیں۔فوجی گھوڑے آزمائش اور امتحان کے لئے میدان میں جمع کئے جائیں اس کو بھی شور کہتے ہیں۔اور جس جگہ یا جس میدان میں گھوڑے وغیرہ فروخت یا آزمائش کے لئے پیش کئے جائیں اس کو مشوار کہتے ہیں۔
غرض شور اوراس سے جو الفاظ بنائے گئے ہیں ان میں شیرینی ،حسن،اورانتخاب کے معنی ہرجگہ موجود ہیں انتخاب کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہتر سے بہتر چیز کو جس میں ایسے عیب نہ ہوں جن کی وجہ سے چھوڑ دینے کے قابل سمجھی جائے پسند کیا جاتا ہے۔
مشورہ ،شوری،استشارہ،مشاورہ سب الفاظ شور سے بنائے گئے ہیں۔اور ان میں اصل معنی مصدر اور اس کے تمام استعمالات جس قدر ہیں ملحوظ رکھے گئے ہیں ظاہر ہے مشورہ کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اچھی بُری،صحیح اور غلط کاریوں سے بہترین اور مثمر وار منتج رہائے کا انتخاب کرلیا جائے اور ظاہر ہے کہ جورائے ہر قسم کی رایوں سے منتخب کی جائے گی محبوب ومرغوب طبع حسین اور پسندیدہ ہوتی ہے اور جیسا کہ شہد تمام امراض سے شفا کا کام دیتا ہے۔اچھی اور نیک رائے بھی مہلکات سے نجات دینے والی منزل مقصود تک پہنچانے والی اور ندامت وافسوس سے محفوظ رکھنے والی ہوتی ہے۔
لفظ "اشارہ" جس کا استعمال کسی شے کے بتلانے اور رائے دینا دونوں معنی میں آتا ہے مگر لغت عرب کے واضح ہونے اس میں بھی اس باریکی اور لطافت سے کام لیا ہے جو زبان عربی کا خاصہ ہے۔حروف میں سے حرف الیٰ کے معنی منزل مقصود تک پہنچادینے یا متوجے کردینے یا کسی چیز کو بتلادینے کے ہیں۔اور علیٰ کے معنی لازم وواجب کردینے کے آتے ہیں۔عربی زبان میں اگر (عربی) بولتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں چیز کی طرف اشارہ کردیا۔اس میں وجوب عمل کی طرف ایما نہیں ہوتا۔برخلاف (عربی) (اس کو مشورہ دیا) اس میں یہ معنی ضرور ملحوظ ہیں۔کہ جس کو مشورہ دیاگیا ہے اس کو عمل کرنا ایک حد تک ضروری اور لازم قراردیاگیا ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قاتل ہرمزان کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو ارشادفرمایا(عربی)(مجھے اس شخص کے بارے میں جس کے اسلام کے اندر اتنا بڑا رخنہ ڈالا مشورہ دو)الفاظ بتا رہے ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی رائے طلب کرتے تھے۔جس پر عمل فرمادیں۔اورظاہر ہے کہ جب ایک جماعت سے کسی معاملے میں رائے طلب کیجاتی ہے۔تو ہر شخص اپنی رائے کو واجب العمل سمجھ کر پیش کرتا ہے۔اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ اکثر وبیشتر اس رائے پر عمل نہ کرنے سے مشیر کو ملال یاکبیدگی ضرور ہوتی ہے۔گو عقل ونقل کے قاعدہ سے اس کبیدگی یا ملال کے اظہار یا اس پر جمود کا کوئی حق نہیں ہے۔
مشورہ کا حکم،اس کی ضرورت ،غرض وغایت،نتائج وفوائد:
مشورہ کی غرض وغایت انسان کومہلک اور برباد کرنے والی غلطیوں سے محفوظ رکھنا،معاملات کی اصلاح اور نظام عالم کو ایسی ترتیب پر قائم رکھنا ہے جو مختلف القویٰ متفاوت العقول کے اہم اجتماع کے مناسب ہو جبکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ تمام افراد باعتبار عقل کے مساوی نہیں ہیں۔بلکہ ان کی عقول میں اس قدر تفاوت ہے کہ ایک اگر اپنی مافوق الفطرۃ عقل وتمیز اور ادراک شعور کی وجہ سے ابناء جنس میں حیرت واستعجاب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔تو دوسرا اس درجہ نیچے گرا ہواہے جس کو بمشکل حیوانات اور غیر ذوی العقول سے جدا کرسکتے ہیں۔
اور یہ بھی مسلم ہے کہ عقل انسانی باعتبار اصل فطرۃ کتنی ہی بلند واقع ہوئی ہو مگر اس کی ترقی دارتقاء کا آلہ حقیقی تجربہ اور ممارستہ معاملات سےہے۔دانش مند سے دانش مند بھی بلا تجربہ ناقص اور اس کی رائے غیر قابل قبول ہوتی ہے وہ اپنی عقل سے خطاء وصواب کے راستے بے شک بتلاتا ہے۔لیکن جو باتیں تجربہ کے متعلق ہوتی ہیں۔وہ بغیر عالم کے تغیرات اور واقعات وحالات پرفلسفیانہ وحکیمانہ نظر ڈالے حاصل نہیں ہوتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک خود مبتلا ہوکر سرد وگرم سے واقف نہ ہوجاوے ہرگز اس کی رائے صائب نہیں ہوسکتی۔یہی وہ مضمون ہے۔جس کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوامع الکلام میں ارشاد فرمایا ہے۔
(عربی)
"دانش مند بردبار وہی ہے جس نے بہت سی ٹھوکریں کھائی ہوں اور حکیم وہی شخص ہے جس نے بہت سے تجربے کیے ہوں")
لفظ حکیم حکمۃ یکر الحاء بمعنی دانش وعقل سے مشتق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرماناکہ دانش مندصرف وہی ہے جس نے تجربے کئے ہو ں ٹھوکریں کھائی ہوں صاف بتلاتاہے کہ بغیر لغزشوں کے آدمی پختہ کار نہیں ہوتا اس کے اخلاق وملکات ناقص ونا تمام رہتے ہیں اور اگر حلم کو تحمل وبردباری کے معنی میں لیا جائے تب اس ارشاد میں ایک دوسرا مدعیٰ ثابت ہوگا جو اپنی اہمیت وصحت میں معنی اول کے ہم سنگ ہے اور جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات کا جوامع الکلام ہونا اور بھی روشن ہوجائے گا یعنی کسی شخص میں اصل فطرۃ سے اگرچہ حلم وبردباری موجود ہو لیکن اس کو ایسے مواقع اور واقعات سے سابہ نہیں پڑا جن سے ان کے تحمل کے عمق اور بردباری کی تہہ کا اندازہ ہوسکے ایسےشخص کو حلیم وبردبار نہ کہنا چاہیے حلیم وہی شخص ہوسکتا ہے جو کڑی سےکڑی بات پر بھی جنبش نہ کرے۔اور درحقیقت یہ حالت بغیرتجربہ اور ٹھوکریں کھائے حاصل نہیں ہوسکتی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حلم وعفو میں مشہور تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے مجھے شرم آتی ہے کہ دنیا میں کوئی قصور ایسا ہو جس کو میرا حلم شامل ومحیط نہ ہوسکے لیکن ان کا یہ دعویٰ اورافتخار غالباً قابل التفات وتصدیق نہ ہوتا اگر ان پر بعض واقعات عظیمہ نہ گزرتے جس سے ان کی کوہ وقاری کا تجربہ ہوا۔ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عقیل بن ابھی طالب میں ناخوشی کی گفتگو ہوئی۔حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبیدہ خاطر ہوکر اٹھ گئے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت میں خط لکھا۔ جس کا حاصل یہ تھا کہ تم قصی بن کلاب کی شاخ عبد مناف کے جوہر اور مغز ہاشم کے برگزیدہ فرزند ہو مجھے پیش آمدہ معاملات کا بہت ملال ہے میں عہد کرتا ہوں کہ قبر میں دفن ہونے تک کبھی ایسی بات پیش نہ آئے گی اس کے جواب میں حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دو شعر لکھ کر بھیج دیئے۔
(عربی)
"تم نے بالکل سچ کہا مگر میں یہ عہد کرچکا ہوں کہ نہ میں تمہاری صورت دیکھوں نہ تم میری۔
(عربی)
"میں اپنے دوست کی کوئی برائی کرنا پسند نہیں کرتا ہاں جب وہ میرے ساتھ جفا کرتا ہے تو میں اعراض کرکے بیٹھا رہتا ہوں۔
ان اشعار کو دیکھتے ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس پہنچے۔اور معذرت و ملاطفت کی کہ آپ ا پنے اس خیال کو چھوڑ کر اصلی حالت پر آجائیں انجام یہی ہونا تھا کہ وہ راضی ہوگئے۔ظاہر ہے کہ اگرامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ لغزش نہ ہوتی اور وہ دوستانہ انداز میں نہ بربناء زعم سلطنت ناگوار کلمہ نہ کہہ گزرتے تو آئیندہ ایسے امور سے محترز رہنے کی تنبیہ ان کو نہ ہوتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے ایک حصہ(عربی) کے ایک پہلو کو واضح کرنے کےلئے یہ ایک واقعہ بیان کیا ہے اب ارشاد مبارک کے دوسرے حصے (عربی) کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔یہ دوسرا جملہ صاف بتلارہا ہے کہ صاحب عقل وسلیم وفطرت بلند رائے صائب بلاتجربہ کے حکم کا رتبہ نہیں پاسکتا حکیم وہی شخص ہوسکتا ہے جو عاقل کامل کے ساتھ تجربہ کار اور سردوگرم چشیدہ ہو اور یہی اصل مدعا تھا کہ عقل کے ارتقاء کا حقیقی آلہ تجربہ ہے۔
جملہ (عربی) می جو دو معنی بیان کئے گئے ہیں۔جملہ ثانیہ اس امر کی تائید کرتاہے۔کہ ان میں سے حلم کو بامعنی بردباری وتحمل لینا زیادہ موزوں ہے۔اور یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ تمدن کامدار تعاون وتناصر پر ہے۔وحشت اور تمدن کے درمیان فرق ہے تو یہی ہے کہ وحشی جیسا کہ خود اپنے تمدن واسباب معیشت میں دوسرے کے کام میں بھی کم آتا ہے۔ بہائم حقیقی وحشی ہیں ان میں بہت کم رابطہ انس وتعلقات ہوتے ہیں اور جو ہوتا ہے وہ بھی طبعی ہوتاہے۔عقلی واختیار ی نہیں انسان کو بہائم سے تمیز ہے تو یہی ہے کہ اس میں فطرۃ انس ومحبت کا مادہ ودیعت رکھا گیا ہے۔دنیا میں بادشاہ سے لے کر ادنی ٰرعیت اور عالم سے لے کر جاہل کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو دوسرے کی احتیاج نہ ہو۔انسان کے تمام اچھے اور بُرے حالات ومعاملات اس کی نیک نامی و بدنامی آبادی وبردباری نجات وہلاکت افعال اور انوال پر ہے دنیا میں بہت ہی کم ایسے نادان ہیں جو جان بوجھ کر اپنے آپ کو تباہی وبربادی میں ڈالیں لیکن باوجود اس کے کہ آدمی اپنے نفس کاساری دنیا سے زیادہ خیر خواہ ہے۔پھر اس سے باختیار خود ایسے افعال کیوں صادر ہوتے ہیں جن کے انجام میں جان ومال عزت وآبرو کا نقصان اٹھانا پڑتاہے۔تباہ وبرباد ہوتا ہے۔ندامت وپشیمانی ،ذلت،ورسوائی جدا حاصل ہوتی ہے۔صرف رائے کی غلطی سے کبھی مضر ومفید کے انتخاب میں غلطی ہوتی ہے کبھی واقعات کے اسباب میں اشتباہ پڑ جاتا ہے۔کبھی صحیح تدبیر تک ان کی رسائی نہیں ہوتی کبھی ایک ہی واقعے کے بہت سے اسباب اور ایک ہی معاملہ کی بہت سی تدابیر ہوتی ہیں اور سب بجائے خود صحیح ومنتج بھی ہوتی ہیں۔لیکن اس کی خاص تدبیر کو اختیار کرنے میں اشکال پیش آتا ہے۔خود باوجود دانش مند زیرک ہونے کے متحیر ہوجاتاہے۔کہ تنہا اس کی رائے فیصلہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی اگر ایسے مواقع میں اپنی رائے پراعتماد کرکے کچھ بیٹھنا ہے۔تو ناکام ہوتاہے اسی لئے کسی بڑے یا چھوٹے کام کو شروع کرنے سے پہلے رائے صحیح کا منقح کرلینا نہایت ضروری امر ہےمتنبی کہتا ہے۔
(عربی)
"رائے بہادروں کی شجاعت سے بھی پہلے ہے اس کا درجہ اول ہے اور شجاعت کا درجہ بعد میں۔
یہ شعر بتلاتا ہے کہ شجاعت جو حقیقت میں اعضاء کے متعلق ہے اور جس میں تہور،دلیریاور ناعاقبت اندیشی سے کام چلتاہے اس کامدار بھی رائے پر ہے اگر کم عقلی اور بے تدبیری سے کوئی شخص اپنے کو دشمنوں کے نرغے میں پھنسا دے اور اگر اس وقت وہ داد شجاعت دے کر جان دے دے یا سب سے جان لے کر سالم بچ جائے لیکن اس کو حقیقی شجاعت نہیں کہتے اصل شجاعت یہی ہے کہ مشغول کارزار ہونے سے پہلے دشمن کو اپنی تدبیر وحیلہ سے شکست دے اور عین معرکہ میں وہ تدبیر اختیار کرے جو سیف وسنان سے زیادہ مؤثر کار گر ہوں اور جیسا کہ انسان کو اپنے تمام معاملات میں دوسروں سے امداد واستمداد کی حاجت ہے رائے میں دوسروں سے امداد کا محتاج ہے اور جبکہ مشورہ وتبادلہ خیالات سے ایک معاملہ کے تمام پہلو واضح ہوگئے اور پھر باہمی مشورہ سے وہ تدبیر بھی متعین کردی گئی جس کا استعمال اس وقت مناسب ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ایسی حالت میں بہت کم ان غلطیوں میں مبتلا ہوتاہے جو ناکامی کا سبب بن جاتی ہیں بلکہ اکثر وبیشتر یہ شخص اپنے مدعا میں پورا پورا کامیاب اور فائز المرام ہوتاہے۔اوراگر احیاناً باوجود بہتر سے بہتر تدبیر کرنے کے حصول مدعا میں کامیاب نہ ہو کیونکہ ممکن ہے کہ بہت سے ذوی العقول بھی مل کر صحیح نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں۔انسان کتنا ہی زیرک دانش مند اور تجربہ کار ہو مگر علم غیب اس کو نہیں ہے جس سے وہ یقیناً کسی نتیجے کے وقوع پزیر ہونے کا حکم لگا سکے۔انسان کا کام صرف یہ ہے کہ اپنے عقل رسا اور تجربہ تام کی وجہ سے معاملہ کے صحیح اسباب بتادے مگر ہر سبب کا منتج ہونا خودیقینی نہیں ہے۔باوجود نا کامیاب ہونے کے بھی یہ شخص اس ندامت وپشیمانی سے محفوظ رہتا ہے۔جو خود درائی کے بعد ہوسکتی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جن دانش مند بزرگوں اور ہوشمند تجربہ کاروں کے مشورہ پرکار بند ہوکر کام کیا تھا غیر کامیابی کی صورت میں وہ اس کے بہت زیادہ مدد گار بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی ممکن سے ممکن کوشش اس کے کامیاب کرنے میں صرف کرڈالتے ہیں۔گویا اس شخص نے محض اپنی فلاح وبہبود کے لئے مشورہ کرکے ایک بھاری لشکر اپنی امداد ومعاونت کے لئے تیار کرلیا جو ہر وقت ہر پہلو سے اس کی امداد کو آمادہ ہے۔
ان تمام معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ متمدن دنیا میں انسان کے اپنے تما م معاملات کی اسلوبی وبہبودی کا مدار رائے صحیح پر ہے۔رائے میں امداد واستمداد کا مسئلہ سب سے اہم اور واجب العمل ہوگا گویا اساس تمدن مشورہ پر ہے اور عالم کی صلاحیت اس کی آبادی اس کی رونق وشادابی کامدار تبادلہ آراء وخیالات پر ہے اور پھر اس کا کوئی پہلو فوائد ونتائج مفیدہ سے خالی نہیں ہے۔
مشورہ کا حکم اور اس کی فضیلت:
جب یہ معلوم ہوگیا کہ تمدن کا لازمی جزواستشارہ ومشاورت ہے عالم کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ شریعت اسلامی نے جو انسان کی ہر حالت میں رہبر اور ہرقسم کی فلاح وبہبود کی متکفل ہے اس مسئلہ کی نسبت کیا حکم دیا ہے اور اس کی خوبیاں کس حد تک ذہن نشین کی ہیں اس بارے میں اول نصوص قرآنی اور پھر ر وایات احادیث اور پھراقوال صحابہ وسلف امۃ مرحومہ سے وضاحت کی جائے گی۔
نصوص قرآنی:
(عربی)
خدا کی بڑی رحمت ہے ۔ تم ان کے لئے نرم بن گئے اور اگر تم کج خلق سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجائے ان سے درگزر کرو اور ان کے لئے استغفار کرو۔معاملات میں ان سے مشورہ کرو،لیکن جب عزم کرچکو تو خدا پر بھروسہ کرو اللہ متوکلوں کو دوست رکھتا ہے۔"
مطلب یہ ہے کہ فرائض بعثت ورسالت ادا کرنے اور گمراہوں کو ہدایت کرنے اور راہ راست پرلانے کے لئے ملاطفت،نرم خوئی،در گزر اورحسن اخلاق کی ضرورت ہے ۔تاکہ ناواقف حسن اخلاق اور ملاطفت کی وجہ سے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت اور ارشادات سے متمتع ہوکر پختہ کارمسلمان ہوجائیں اور اسکے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق میں نرمی نہ ہوتی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت دل ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شفقت علی الخلق کوٹ کوٹ کرنہ بھری ہوتی تو یہ مقبولیت عامہ اور یہ جان نثاری نہ ہوتی جب لوگ یہ دیکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مثل اورانسانوں کے معاملہ فرماتے برائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے ہیں درگزرفرمانا اوراپنے اوپر تکلیف اٹھانا نہیں جانتے تو اول تو اس قسم کی گرویدگی حاصل ہی نہ ہوتی اور نہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوتے اور بعثت کا مقصود حاصل نہ ہوتا اور جب یہ بات ہے تو آپ کے حقوق اللہ میں جوکمی واقع ہو اس کے بارے استغفار کرنا چاہیے اور ان سے معاملات میں مشورہ کرتے رہنا چاہیے۔
ارشاد مذکورہ بالا سے بخوبی ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ فرمانے کا حکم ہے اور یہیں سے مشورہ کے منجملہ ضروریات ہونے کی تنقیح بھی ہوگئی کہ جب خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باوجود یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کی وجہ سے مستغنی تھے۔یہ حکم ہے تو مسلمانوں کااور کوئی فرد خواہ کسی درجہ ورتبہ کا ہوکیسے حکم سے مستغنی ہوسکتا ہے ہر شخص کے ذمہ ہے کہ تمام ایسے امور کے اندر جن میں صواب وخطاء میں اشتباہ ہو مشورہ کرے۔
صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لینے کا حکم کس بنا پر تھا اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ مشورہ کی جو اصل غرض ہوتی ہے وہ تعین رائے صائب وصحیح رہی ہے حدیث شریف میں وارد ہے۔(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے )
(عربی)
"جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر وعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ارشاد فرمایا اگر تم دونوں کسی مشورہ پرمتفق ہوجاؤ تو میں خلاف نہیں کروں گا۔(الامام احمد عن عبدالرحمٰن بن عمر) (ترمذی)
جب یہ آیت شریفہ۔
(عربی)
"اے ایمان والو جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو سرگوشی سے پہلے خدا کی راہ میں کسی قدرخیرات دیا کرو۔"
نازل ہوئی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کتنا صدقہ ہونا چاہیے ایک دینار توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا یہ توبہت زیادہ ہے۔مسلمان اس کے متحمل نہ ہوں گے۔فرمایا نصف دینار تب بھی یہی جواب دیا یہ تو بہت زیادہ ہے ارشادفرمایا تو پھرکیا ہونا چاہیے عرض کیا کہ ایک جو کی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو بہت زاہد ہو۔اس کے بعد پوری آیت ذیل نازل ہوئی۔
(عربی)
"کیا تم لوگوں سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی سرگوشیوں سے پہلے خیراتیں دیا کرتے جب تم نے اس پر عمل نہ کیا اللہ نے تم سے معاف فرمادیا تو اب صرف نمازیں ادا کریں اورزکواۃ دیں اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیا کرواور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے میری وجہ سے اُمت پر تخفیف فرمادی اور ہر مرتبہ مناجات کے وقت جو صدقہ کا حکم تھا جس کا تحمل ہر ایک سے نہ ہوسکتا تھا۔منسوخ ہوگیا۔
حضرات شیخین کے بارے میں یہ ارشاد کہ اگر تم کسی امر میں متفق ہوجاؤ تو تمہارے خلاف نہ کروں گا دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رائے پرعمل فرماتے تھے اور مقصود تحصیل رائے ھا علی ھذا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدقہ کے بارے میں مشورہ کرنا خود اس کی دلیل ہے۔جلیل القدر تابعی حضرت قتادہؒ کے اثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی نازل ہونے کے باوجود اپنے اصحاب سے مشورہ کا حکم ملنا اس لئے تھا کہ قوم کا ضمیر اور رائے مطمئن ہوجائے۔
حضرت حسن بصری ؒ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے۔کہ شوریٰ کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لئے قانونی وجوب پیدا ہوجائے۔اوربعد میں اُمت کے لئے ایک مستقل حکمت عملی بن جائے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
(عربی)
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب آیۃ(عربی) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دیکھو خدا اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ سے بالکل مستغنی ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اُمۃ کے لئے رحمت کا سبب بنایاہے۔ میری اُمت میں سے جو شخص مشورہ سے کام کرے گا۔رشد وہدایت اس کے ساتھ رہے گی اور جو اس کو چھوڑے گا گمراہی اس کاساتھ نہ چھوڑے گی۔
اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ باوجود مستغنی ہونے کے مشورہ کا حکم صرف اُمت کی تعلیم واقتداء کی غرض سے دیاگیا حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔
(عربی)
" میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے ر فقاء(اصحاب) سے مشورہ کرنے میں اتنا زیادہ سرگرم ہو جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔"
معاملات کل دو قسم کے ہیں:
1۔دنیاوی
2۔دینی ۔
دینی معاملات:میں دو قسم کے معاملات شامل ہیں ایک وہ جن میں وحی آچکی دوسرے وہ جن میں وحی نہیں آئی۔پھر جن معاملات میں وحی نہیں آئی ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اول وہ جن میں مشورہ کے بعد وحی نازل ہوئی دوسری وہ جن میں مشورہ پر عمل کیا گیا اور وحی نازل نہ ہوئی گو کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو جائز وبرقراررکھنا بھی وحی کے حکم میں داخل ہے۔کیونکہ کسی غلط رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسقرار وقیام نہیں ہوسکتا۔ اس لئے لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا حکم عین منشاء خداوندی کے مطابق تھا اور اس کووحی حکمی یا وحی باطنی کہتے ہیں۔
معاملات دنیاوی میں بالاتفاق مشورہ جائز ہے۔معاملات دینی میں مشورہ کی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں وحی نازل ہوچکی ہے۔دینی معاملات جن میں وحی نازل نہیں ہوئی مشورہ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ایک جماعت کہتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے معاملات میں بھی بغرض تعین حکم ورائے مشورہ کی اجازت نہ تھی بلکہ وحی کا انتظار کرنا چاہیے اور اکثر کا مذہب یہ ہے کہ ایسے معاملات میں مشورہ کی اجازت تھی۔
مشورہ کے بارے میں یہ اختلاف ایک دوسرے اختلاف پر مبنی ہے جس کو یہاں بیان کرنا ضروری ہے۔اس امر میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتہاد وقیاس سے کام لینا جائز ہے یا نہیں یعنی جس طرح امت کے اہل اجتہاد کو کسی ایسے معاملے میں جس کے اندر شارع کی نص موجود نہ ہو اجتہاد وقیاس کا اس وقت استنباط جائز بلکہ واجب ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جائز یا یا نہیں ایک گروہ کا قول ہے کہ اجتہاد وقیاس کی اس وقت اجازت ہوتی ہے جب کسی طریقہ منصوصہ سے حکم معلوم نہ ہوسکے آئمہ مجتہدین واہل رائے کو جب نص کی جانب سے مایوسی ہے تو اب ان کے لئے کون سا طریقہ استنباط حکم کا سوائے قیاس واجتہاد کے باقی رہا۔اور جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہر ایک امر کا حکم معلوم ہوسکتا ہے۔تو قیاس واجتہاد کی کیا حاجت ہے۔جمہور امت کا مذہب یہ ہے۔ اور یہی صحیح اور باعتباردلائل قوی اور مطابق واقعات مرویہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسے معاملات میں جن کے بارے میں وحی نازل نہ ہوئی قیاس واجتہاد درست تھا اور بعد قیاس واجتہاد جوامر قائم فرماتے اوراس کے خلاف وحی نازل نہ ہوتی یہ بھی وحی میں داخل سمجھاجاتاتھا۔اور اسی کا نام وحی باطنی اوروحی حکمی ہے۔
جو لوگ آپ کے اجتہاد وقیاس کو جائز نہیں جانتے وہ مشورہ کو بدیں معنیٰ کے اس کے ذریعے سےکوئی حکم شرعی قائم کیا جاسکے بطریق اولیٰ جائز نہیں سمجھتے لیکن چونکہ روایات احادیث سے بکثرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کرنا ثابت ہے۔اس لئے نفس مشورہ سے توانکار نہیں کرسکتے لیکن یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ کاحکم امۃ کی تعلیم اور تطبیب قلوب کے لئے تھا۔
جن لوگوں کےنزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قیاس واجتہاد جائز ہے اور اسی بناء پر مشورہ کو بغرض تعین وتحصیل حکم ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک حکم (عربی) میں کل دواحتمال ہیں۔تعلیم امت کے لئے ہو یا تطبیب قلوب مومنین کے لئے تیسرا احتمال نہیں ہے۔ لیکن جمہور امت کےقول کے مطابق جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشورہ بغرض تعین وتحصیل جائز ہو تو اس آیت میں تین احتمال ہوں گے۔جب یہ تفصیل معلوم ہوگئی اب مشورہ کے حکم کے بارے میں یہ اختلاف کے مشورے کا حکم بغرض تحصیل مقصود تھا جیسا کہ احتمال اول میں بیان کیا گیا ہے۔یا تعلیم امت وتطبیب قلوب مومنین کےلئے تھا جیسا کہ احتمال ثانی وثالت کا حاصل ہے۔حقیقی اختلاف نہیں بلکہ عنوان وتعبیر کااختلاف ہے جو لوگ مشورہ کہ بغرض تعلیم امت وتطبیب قلوب فرماتے ہیں وہ بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ بہت سے مواقع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ فرما کر اسی پر عمل فرمایا ان کی غرض صرف یہ ہے کہ مشورہ بے شک حقیقی مقصود کی تحصیل کےلئے مشروع ہوا روایات سے یہ امر ثابت ہے۔مگر اس کے مشروع ہونے کی علت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ نزول وحی مستغنی تھے پھر اس طریق کو چھوڑ کرمشورہ کاحکم کیوں دیاگیا اس کی علت بعض کے نزدیک تعلیم امت ہے ۔یا تطبیب قلوب لیکن ان دونوں میں تنافی نہیں بلکہ حکم مشورہ کی دونوں علتیں ہوسکتی ہیں۔
لیکن ابھی ایک امر تنقیح طلب باقی رہ گیاہے۔کہ مشورہ کو اس کی غرض وغایت ماننے اور امور دینیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز سمجھنے کے بعد بھی مشورہ کا حکم تمام امور دینیہ کو شامل تھا یا صرف جنگ وقتال تک یہ حکم محدودتھا۔کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہم خیال علماء یہ فرماتے ہیں کہ مشورہ کاحکم معرکوں اورحروب کی تدابیر کے لئے مخصوص تھا لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ حکم مشورہ تمام امور دینیہ کو شامل تھا۔ لڑائیوں اور معرکوں کی تخصیص نہیں تھی۔
کلبی ؒ وغیرہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ احد کے بارہ میں نازل ہوئی ہے اور خاص جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا تھا کہ مدینہ میں ہی رہ کرمدافعت کرنا بہتر ہے یا باہر نکل کر مقابلہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کامیلان خود اس جانب تھا کہ مدینہ میں ہی رہ کر مدافعت کریں لیکن اکثر صحابہ کی جوش ایمانی کا تقاضا یہ تھا کہ پیش قدمی کرکے مقابلہ کیا جائے عبداللہ بن ابی منافق کی رائے بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق تھی وہ کہتا تھا کہ مدینہ میں رہ کر ہم کسی دشمن سے مغلوب نہیں ہوئے مگرغلبہ رائے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر کی رائے کو قبول کیا زرہ اور خودپہن کر تشریف لائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ندامت ہوئی اورعرض کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی رائے وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کی یہ شان نہیں ہے کہ ہتھیار لگانے کے بعد بلا مقابلہ اتار دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم معہ مجاہدین روانہ ہوگئے اوراُحد پرکفار مکہ سے مقابلہ ہوا اس معرکہ میں گو انجام کار مسلمانوں کو غلبہ ہوا مگر کئی طرح سے نقصان اٹھانے کے بعد اول نقصان تو پہنچ گیا کہ عبداللہ بن ابی معہ اپنی کثیر جماعت کے یہ کہہ کر واپس ہوگیا کہ(اوروں کاکہا مانا اور میری بات نہ مانی)۔
اگرچہ منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ہوجانا حقیقت میں نقصان نہ تھا۔بلکہ نفع تھا کیونکہ یہ لوگ شوق ورغبت کے ساتھ نہ تھے کیونکہ ایک ناپاک جماعت سے لشکر اسلام کا پاک صاف رہنا ہی اچھا تھا مگر چونکہ اس وقت تک تقاضا یہ بھی تھا کہ منافقوں کو بھی ساتھ لگائے رکھیں تاکہ پختہ کاروں کے پست ہمت ہونے کااندیشہ نہ ہو۔دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ستر چیدہ بہادر وشہسوار شہید ہوگئے۔تیسرا نقصان یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے مسلمانوں کے لئے اس نقصان سے بڑھ کر اور کوئی نقصان نہیں ہوسکتاتھا۔اور یہ سب نقصانات اس غلط رائے کا نتیجہ تھے۔ اور اب خودصحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ہم اس قابل نہیں رہے کہ ہم ان سے معاملات میں مشورہ کیاجائے اس خیال کے دفیعہ کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو ان کے قصور معاف کرنے اور ان کے لئے استغفار کا حکم ہوا اور پھر ارشاد ہوا کہ ان سے مشورہ کرتے رہو۔
آیت کا شان نزول اور ترتیب بیان صاف بتلارہے ہیں۔کہ (عربی) میں امر سےامرحرب مراد ہے ۔جمہور کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ یہ آیت خاص جنگ احد کے بارے میں نازل ہوئی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مشورہ کاحکم خاص اور متعلقہ جنگ وقتال کے ساتھ مخصوص ہوجائے۔بہت سے ایسے معاملات دینیہ کا ثبوت ملتا ہے۔ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ فرمایا اور اُن کاتعلق قتال سے نہیں بدر کے اسیران جنگ کے بارے میں صحابہ سے مشورہ فرمایاکہ ان کو معاوءضہ لے کررہاکیاجائے یا قتل کردیا جائے نماز کی اطلاع کے لئے صحابہ سے مشورہ کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے کو قبول فرما کراذان کاحکم جار ی کیا۔
اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کا حکم فرمایا پھر ارشاد فرمایا۔
(عربی)
"پھر جب عزم معصم کرچکو تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔
اس ارشاد میں مشورہ کی حقیقت اس کے نتائج اور اسلامی اصول کی ایسی صحیح تعلیم بیان فرمائی گئی ہے کہ اس کے بعد کسی مغالطہ اور غلط فہمی کجروی اورغلط اصول قائم کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔اول تو یہ کہ مشورہ میں اختلاف رائے ہوتا ہے۔اگر اختلاف رائے میں پڑ کر کسی ایک جانب کو متعین نہ کرلیا جائے اور عزم معصم قائم نہ ہو تو مشورہ بجائے مفید ہونے کے نہایت مضر اور مہلک ہوجاتا ہے۔تردد میں پڑ کر کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔
حاصل ارشاد یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کیجئے لیکن کسی ایک پر قائم ہوکر اس کے اجراء کا عزم معصم کرلینا چاہیے ایسا نہ ہونا چاہیے کہ اختلاف رائے اور کثرت رائے کی وجہ سے تفس معاملہ تعویق وتردد میں پڑ جائے اور یہ حقیقت میں اُمت کو تعلیم ہے۔
دوم یہ کہ مشورہ کرنا عقلا کی رائے پر اعتماد کرنا اور اس پر کاربند ہونا منجملہ اسباب ظاہرہ کے قوی سبب کامیابی ومدعا برآری کاہے۔اور اس سے یہ خیال ہوسکتاہے کہ مشورہ پراعتمادکرکے کام کرلینا چاہیے۔لیکن اسلامی تعلیم معتدل ہے۔افراط و تفریط کا اس میں شائبہ نہیں ہے۔ اسلام نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ ہم اسباب سے کام لیں اور پھر اسباب کو مؤثر حقیقی نہ سمجھیں حقیقی فاعل قدر مطلق وباختیار کو سمجھیں اس تعلیم کو ذہن نشین کرنے کےلئے اول تو یہ ارشا د ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسباب کو بالکل ترک نہ کریں۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کریں لیکن اسباب پر اعتماد بھی نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور کام شروع کریں۔
اس ارشاد سے ہمیں توکل کی حقیقت بھی سمجھ آگئی توکل کے معنی یہ ہیں کہ ہر کام میں ہر تدبیر میں فقط اللہ تعالیٰ کو مؤثر اور فاعل سمجھیں کسی سبب یا تدبیر پر اعتماد نہ کریں ا س کو حقیقی موثر اوراللہ تعالیٰ سے مستغنی نہ سمجھئے۔
(عربی)
"ایمان والے وہ ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم کو مانا نماز کو قائم کیا اور ان کے کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔"
اس آیت اوراس کی پہلی آیتوں میں مومنین کی مدح اور ان کے اوصاف خاص بیان کئے گئے ہیں۔اور منجملہ اوصاف خاصہ اورعلامات مختصہ مومنین کاملین کے یہ بھی کہ وہ اپنے معاملات کو باہمی مشورہ سےطے کرتے ہیں مستقل ہوکر خود رائے بن کرنہیں کرتے۔اس آیت میں چار وصف بیان گئے ہیں اول اپنے رب کی اطاعت اس کے احکام کی تعمیل دوسرے نماز قائم کرنا۔تیسرے اپنے معاملات کو باہمی مشاورت سے طے کرنا۔چوتھے خدا کے دیئے ہوئے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔ اس ترتیب بیان میں اول تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔جوحقیقت میں اصل اصول اور تمام عبادات کےلئے شرط اول ہے اس کے بعد اقامۃ الصلواۃ ہے جو تمام عبادات مالی وبدنی کی اصل اصول ہے۔اس کے بعد مشاورت ہے اورآخر میں فی سبیل اللہ خرچ کرنا اور جب یہ دیکھاجاتا ہے کہ مشورہ فرض نہیں ہے۔بلکہ مستحب وسنت کےدرجے میں ہے۔تو یہ ترتیب موجب خلجان معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں کچھ خلجان نہیں ہے مشورہ ایک مہتم بالشان امر ہے عالم کی فلاح وفساد میں اس کو بڑا دخل ہے حدیث شریف میں آیا ہے۔
(عربی)
" جب تمہارے حاکم وامیر تم میں سے بہتر لوگوں میں سے ہوں تمہارے مالدار سخی ہوں تمہارے کام باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہوں تو زمین پررہنا اس کے اندردفن ہونے سے بہتر ہےجب تمہارے امراء بدترین اور شریر ہوں مالدار کنجوس وبخیل ہوں عورتوں کے ہاتھ میں تمہاری باگ ہو تو دفن ہوجانا زمین پر زندہ رہنے سے بہتر ہے۔"
اس حدیث میں خصوصیت سے ان امور کو بیان کیا گیا ہے۔ جس کو عام مخلوق کی اصلاح وفساد سے بہت کچھ تعلق ہے گویا مداراصلاح وفساد غالباً ان امور پر ہے۔امراء سے عام مخلوق کا تعلق ہوتا ہے۔مالداروں کی طرف فقراء کو حاجت پڑتی ہے۔ایسے ہی مشورہ بھی عام احتیاج کی چیز ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اگرمعاملات میں باہمی مشاورت سے کام نہ لیا جائے بلکہ خود رائے یا کم عقلوں کی اقتداء سے معاملات طے کئے جائیں تو عالم میں فسا د پھوٹ پڑے،زندگی تلخ ہوجائے زندہ رہ کر مبتلا ءمصائب وقلق ہونے سئے مرنا بدرجہا بہتر ہوجائے۔اور جب کہ عالم کی اصلاح وفساد مشورہ وعدم مشورہ سے ہے تو مناسب یہ معلوم ہوتا تھا کہ مثل اورعبادات مشورہ بھی فرض ہوتا مگر خداوندعالم نے اس میں بھی مصالح عباد کو ملحوظ رکھ کرمشورہ کو ان پر فرض نہیں فرمایا۔مگرمشورہ کے استحسان اور اس کے مہتم بالشان ہونے کو ایسے اندازے فرمایا کہ کسی مومن صاحب عقل سلیم کو اس انحراف کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
روایات حدیث:
نصوص قرآنی اور ان کے متعلق ضروری امور کے بیان کے بعد اب مشورہ کے متعلق روایات احادیث کو بیان کیا جاتا ہے۔
(عربی)
جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور مشورہ سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے تو اس کو سب سے بہتر امر کیطرف ہدایت کی جاتی ہے۔
(عربی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا امر پیش آئے۔جس میں نہ قرآن نازل ہوا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا تو اس میں کیا کیا جائے فرمایا میری امت کے دین دار لوگوں کو جمع کرکے اس امر کو مشورہ میں ڈال دو تنہا کسی ایک کی رائے پر فیصلہ نہ کرو۔
(عربی)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا ً روایت ہے دانش مند لوگوں سے طلب رشد ومشورہ کرو تم کو سیدھی راہ کی ہدایت ہوگی اور ان کی نافرمانی نہ کرو ورنہ نادم ہوگے۔
(عربی)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشورہ ندامت سے محفوظ رکھنے کا قلعہ ہے۔اور لوگوں کی ملامت سے امن ہے۔
(عربی)
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کوئی کام کرنا چاہے اور اس نے اس بارے میں کسی مسلمان سے مشورہ کرلیا تو خدا تعالیٰ اس کو سب سے بہتر بات کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
(عربی)
"اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے بعد اعلیٰ درجے کہ معقول بات لوگوں سے محبت اورمیل جول کے ساتھ رہناہے کوئی خودرائے شخص محض اپنی رائے پر بھروسہ کرکے کبھی دوسروں سے بے پرواہ نہیں ہوا اور نہ مشورہ کے بعد کام کرنے والے کو ہلاکت میں پھنسنے کی نوبت آئی۔
(عربی)
"اپنی عقول کو مذاکرہ سے تجربہ کار بناؤ اور اپنے معاملات میں باہمی مشاورۃ سے امداد لو۔"
ان احادیث سے چند امور بوضاحت تام ثابت ہوگئے ہیں اول یہ کہ طریق رشد وصواب وہدایت پر چلنے کے لئے مشورہ اصل اصول ہے مشورہ پر کاربند ہوکر جوکام کیا جاتا ہے۔اس میں اصلاح ہوتی ہے۔رشد وہدایت ساتھ دیتے ہیں اور اگر مشورہ نہ کیا جائے تو کجی وگمراہی سے نجات ملنا مشکل ہے۔
دوم یہ کہ جیسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو امور دینیہ میں خواہ وہ متعلق تدابیر حرب ہوں یامتعلقہ احکام مشورہ جائز تھا ایسا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جب کسی معاملہ میں نص کتاب وسنت موجود نہ ہو مسلمانوں کے لئے مشورہ مشروع ہے۔
تیسرے یہ کہ جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان میں ان اوصاف کا موجود ہوناضروری ہے۔ جن سے ان کے مشیر بننے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔اور جو ان کو غلط رائے نہ دیں۔
چوتھے یہ کہ بوجہ نزول وحی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ سے مستغنی تھے۔مگر اس غرض کے لئے کہ امت اقتداء کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشورہ مشروع کیاگیا۔
اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وسلف ؒ اُمۃ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
(عربی)
"باہمی مشاورت سے بوجھ کا تقسیم کرنا بہت خوب اور بُری مستعدی ہے۔
خود رائے ہونا:۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ۔(عربی)
"فرد واحد کی رائے کچے دھاگے کی طرح ہے"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں۔
(عربی)
"مشورہ حاصل کرنا عین ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے پر اعتماد کئے ہوئے ہے۔اُس نے خطرناک راہ اختیار کرلی۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
(عربی)
"آدمی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جس پر معاملات پیش آئیں اور وہ اپنی رائے سے ان کی درستی واصلاح کردے۔دوسرے وہ جو مشکلات میں اوروں سے مشورہ کے بعد اہل الرائے کی رائے کا اتباع کرتا ہے۔اور تیسرا حیران ہے نہ کسی سے بھلائی کا مشورہ لیتا ہے نہ کسی ہدایت کرنے والے کی اطاعت کرتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالعزیز فرماتے ہیں۔
(عربی)
مشورہ اور مناظرہ رحمت کے دو دروازے ہیں اور برکت کی دوچابیاں ہیں۔ان سے رائے مخفی نہیں رہتی نہ حزم واحتیاط مفقود ہوتے ہیں۔
اقوال عقلاء وبلغاء:
اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین و سلف ؒ امت کےبعد اسلام کے دوسرے عقلاء وبلغاء کےمقولے پیش کیے جاتے ہیں۔جس سے مشورہ کی اہمیت وضرورت فوائد ونتائج اور ثمرات وبرکات کی مذید وضاحت ہوجائے گی۔
قبیلہ عبس کے ایک شخص سے کسی نے کہا کیا بات ہے تم لوگ معاملات میں خطا بہت کم کرتے ہو اس نے کہا۔
(عربی)
ہم ایک ہزارشخص ہیں اور ہم میں ایک شخص دانش مند مدبر اور تجربہ کار ہے۔ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں تو گویا ہم ہزار دانش مند اور مدبر ہیں۔
ابن المعز عباسی کا قول ہے۔
(عربی)
مشورہ تیرے لئے راحت ہے اور دوسرے پر مشقت وتعب ہے۔
عبدالحمید کا قول ہے:
(عربی)
"اپنے معاملہ میں مشورہ کرنے والا ایسا ہے جیسا اپنی پشت کی چیز دیکھنے والا بعض بلغاء فرماتے ہیں۔
(عربی)
"عاقل کافرض یہ ہے کہ اپنی رائے کے ساتھ عقلاء کی رائے کا اضافہ کرے اور اپنی عقل کے ساتھ حکماء کی عقل کوجمع کرے کیونکہ اکیلی رائے بسا اوقات ذلیل ہوتی ہے اورتنہا عقل بسا اوقات گم راہ ۔"
عرب کا ایک نابیناشاعر بشار بن برداسی مضمون کو اس طرح بیان کرتا ہے۔
(عربی)
جب کسی معاملے میں مشورے کی نوبت آئے توخیرخواہ کی رائے یا دانش مند کی خیر خواہی سے امداد لینی چاہیے۔
(عربی)
"مشورہ کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھ چھوٹے پر بڑے پروں کے لئے قوت ہوتے ہیں اس بیان کی تائید اس حکمت کے مشہور مقولہ سے ہوتی ہے۔
(عربی)
"حکمت کے بکھرے موتیوں میں یہ مقولہ بھی ہے جو شخص بکثرت مشورہ کرتا رہتاہے تو وہ دو حال سے کبھی خالی نہیں رہتا درصورت صواب اس کے مادج موجود ہوتے ہیں۔اور درصورت خطاء معذور سمجھنے والے،اگرچہ ایسا شخص اکثر ثواب پر ہی ہوتاہے۔ کیونکہ ساری جماعت کا خطاء پر قائم رہنا ایک امر بعید از عقل ہے۔
قاضی ابو الحسن ماوردی اس مضمون مذکورہ کی تائید اس طرح فرماتے ہیں۔
(عربی)
"مشیر کو اپنے دل میں یہ خیال کرنا لائق نہیں ہے کہ وہ اگر اپنے معاملات میں کسی سے مشورہ کرے گا تو لوگوں میں اس کی رائے کا ضعف اور فکر کا نقصان ظاہر ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوتاتو کسی کی ر ائے کا کیوں محتاج ہوتا ۔اسی قسم کے خیالات احمقوں کے خیالات ہیں۔رائے اور مشورہ فخرومباہات کے لئے نہیں ہوتے ان سے تو انتفاع مقصود ہوتاہے۔جو چیز کہ صواب تک پہنچادے۔اور خطاء سے محفوظ رکھے وہ عار کی بات کیونکر ہوسکتی ہے۔
بعض بلغاء فرماتے ہیں:
(عربی)
"جب تم کو معاملات میں اشکال پیش آئیں اور عام خیالات تجھ سے منحرف ہوجائیں تو تجھ کوعقلاء کی طرف رجوع کرنا اور گھبراکر علماء سے مشورہ کرنا چاہیے۔طلب رشدوامداد میں حیاء وغیرت نہیں کرنی چاہیے لوگوں سے مشورہ لےکر اور دریافت کرکے سالم وغانم رہنا مستقل الرائے بن کر انجام کا رنادم وپشیمان ہونے سے بہتر ہے۔"
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی۔
(عربی)
"تجربہ کار وہ رائے دیتا ہے جو اس کو نہایت گراں قیمت پر ملی ہے۔یعنی نہایت مشقت وتحمل مصائب کے بعدحاصل ہوئی ہے۔اور تو اس کو مفت بلا تعب اڑاتا ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے:
(عربی)
"میرے دوستو ر ائے ایک شخص کے دل میں نہیں ہوتی تم مجھ کو اس بات کا مشورہ دو جس کو تم بہتر سمجھتے ہو۔
سیف ابن ذی کا قول ہے۔
(عربی)
جس کو اپنی رائے پر گھمنڈ اور زعم ہوتا ہے۔وہ مشورہ نہیں کرتا اور جو خود رائی سے کوئی کام کرتا ہے صواب سے دور رہتاہے۔
بعض ادباء کامقولہ ہے۔
(عربی)
"جس شخص نے اپنے رب سے استخارہ کیا نامراد نہیں رہا اور جس نے مشورہ کے بعد کام کیا نادم نہیں ہوا۔
بعض حکماءفرماتے ہیں۔
(عربی)
"تیری رائے کا نصف حصہ تیرے بھائی کے پاس ہے۔تجھ کو اس سےمشورہ ضرور کرناچاہیے کہ تیری رائے کام ہوجائے۔
ایک حکیم فرماتے ہیں:
(عربی)
"تیری دانش مندی یہ ہے کہ تو اپنی عقل کےلئے دوسری عقول کو مددگار بنائے اہل فارس کے مقالات حکیمہ میں سے ایک مقولہ۔
(عربی)
"ضعیف تدبیر نہایت سخت شدت سے بہتر ہے تامل وغور کے بعد تھوڑا سا کام کرنا عجلت کے ساتھ بہت سے کام سے بہتر ہے اور دولت قضاء مبر م کاپیام رسا ں ہے۔اور جب بادشاہ اپنی رائے میں مستقل ہوجائے تو ہدایت کے راستے اس سے مخفی ہوجاتے ہیں۔
حکمت کے بکھرے ہوتے موتیوں سے ایک مقولہ یہ بھی ہے۔
(عربی)
"ہر چیز عقل کی محتاج ہے اور عقل تجربوں کی حاجت مند ہے اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ زمانہ پوشیدہ اور مخفی امور سے پردہ اٹھا دیتاہے۔
بعض حکماء کاقول ہے:
(عربی)
"تجربوں کی کوئی انتہاء اور غایت محدود ومعین نہیں ہے عاقل کے تجربات ہمیشہ ازدیاد میں رہتے ہیں۔
ایک حکیم فرماتے ہیں:
(عربی)
جو شخص زوی العقول کی رائے اور مشورہ سے مدد حاصل کرتا ہے حصول مدعا میں کامیاب ہوجاتاہے۔
مشورہ کے ارکان:
مشورہ کے چار ارکان ہیں:۔
1۔معاملات قابل مشورہ۔
2۔اہلیت مشورہ
3۔مستشری یعنی محتاج وطالب مشورہ۔
4۔مشیر یعنی مشورہ دینے والا۔
معاملات قابل مشورہ کی تفصیل وتوضیح:
سابق بیانات سے مشورہ کا اہم وضروری منتج خیر وبرکت ہونا اور ترک مشورہ کا موجب ابتلاء خطرات مہلکہ وندامت وپشیمانی معلوم ہوچکا لیکن ابھی یہ واضح کرناباقی ہے۔کہ مشورہ جب ایسا اہم ضروری ہے تو اس کا ہر حکم ہر چھوٹی بڑی جیل وحقیر بات کو مشتمل ہے یا کچھ معاملات اس سے مسثنیٰ بھی ہیں۔جن میں مشورہ کی حاجت نہیں یا جن میں مشورہ کرنا بجائے رحمت ہونے کے موجب ہلاکت ہوتاہے۔
مشورہ کا ایسے معاملات میں حکم ہے جس کی دونوں جانب محتمل نفع وضرر ہوں اور شریعت یا عقل یاعادات کے اعتبار سے کوئی جانب متعین اور یقیناً ثمر منفعت نہ ہو اگر معاملہ ایسا ہے جس میں شریعت سے حکم صادر ہوچکا اس کے طریقے اور حدود معین کردیئے گئے ہیں۔ان میں سے کسی سے مشورہ کرناضروری نہیں ہے۔بلکہ بسا اوقات مشورہ نہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔مثلاً اوقات نماز کاادا کرنا۔یاادا فریضہ زکواۃ یا حج وصوم سے سبکدوش ہونا۔ان معاملات میں شریعت کا صاف وصریح حکم موجود ہے۔ ان کے شرائط و ادا کی مکمل تعلیم دی جا چکی ہے۔اب بوقت نماز منادی خدائے جل وعلا باآواز بلند مسلمانوں کو خانہ خدا کی طرف ادا نماز کے لئے بلاتاہے۔ایسی حالت میں کوئی شخص مشورہ کرنے بیٹھے کہ اس و قت نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں عین حماقت ونادانی میں داخل ہوگا۔اور یہ مشورہ یقیناً معصیت ہوگا۔البتہ ادا فرض کے مختلف اسباب وذرائع اورطریق میں سے کسی ایک طریق کو اختیار کرنے میں علماء یا اطباء عقل وتجربہ سے مشورہ کرے تو جائز بلکہ بعض حالتوں میں واجب ہوگا مثلاً ایک شخص مریض ہے اس کو تردد ہے کہ مجھے ایسی حالت میں تیمم کی اجازت ہے یا نہیں اس بارے میں اطباء یاتجربہ کاروں سے مشورہ کرسکتاہے۔یاحج کے لئے امن طریق شرط ہے۔اور قافلے کئی راستے سے جاسکتے ہیں۔ممکن ہے کہ بعض راہ پر خطر ہوں۔اور بعض نہ ہوں ان راستوں میں سے کسی ایک اختیار کرنے کے اندر مشورہ کرنا درست ہے۔یامثلاً کسی پر دشمن حملہ کرتا ہوا چلا آتا ہے۔اس کو جان بچانے کے لئے اپنی حفاظت ضروری ہے۔ایسی حالت میں متقضی عقل یہ ہے کہ ہر ممکن صورت سے دشمن کی مدافعت کرے۔ یہ وقت نہیں کہ دشمن تو سر پر پہنچ گیا ہو اور یہ شخص احباب مخلصین اور تجربہ کار اہل عقل سے مشورہ کی فکر میں رہ یہ اسی فکر رہے گا اور دشمن اس کا کام تمام کردےگا ہاں اگر اس قدر مہلت ہے تواس کو مدافعت عدو اور محافظت نفس کے مختلف طریق میں سے کسی ایک طریق کو اختیار کرنے میں مشورہ کرنا مناسب یاضروری ہوگا یا مثلا بھوک اور پیاس کے وقت روٹی کانا یا پانی پینا ان امورمیں سے ہے جو امورطبیعہ میں داخل ہیں۔ان امور طبیعہ میں مشورے کی حاجت نہیں۔
ہاں اس کے ذرائع یا ترک یا مختلف اغذیہ اوراشربہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں اگر کسی کے اندر خطرہ کا احتمال ہوتومشورہ کرنا مستحسن یا ضروری ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن امور کا حکم یا نتیجہ متعین ہے۔یا وہ امورطبعی ہیں ان کے اندر مشورے کی حاجت نہیں۔اگر مشورے کے حکم کو ایسا عام رکھا جائے۔کہ کوئی چھوٹا بڑا کام خواہ امورطبیعہ میں داخل ہو یا امور شرعیہ میں بلامشورہ نہ کیاجائے۔تو علاوہ اس کے کہ بہت سے مواقع میں مشورہ معصیت کی حد میں داخل ہوجائے گا۔مشورہ انہ امو ر میں ضروری یا مستحسن ہے جن میں کوئی جانب شرعاً عقلا ًعرفاً عادتاً معین نہیں۔اور جن کے مختلف جوانب میں خطرات ومنافع کا احتمال ہے جن کے نتائج مبہم اور مخفی ہیں۔
پھر معاملات کی نوعیت بھی مختلف ہے۔بعض ایسے امور ہیں کہ ان کے منافع وخطرات دونوں معمولی اور کم درجے کے ہیں اور بعض کے منافع بھی زیادہ اور خطرات بھی اہم ان معاملات کی نوعیت اور منافع وخطرات کی عظمت وقوت ووقعت وضعف کے اعتبارسے مشورہ کے حکم استحسان میں فرق ہوجائے گا۔بعض مواقع میں مشورہ نہایت اہم اور ضروری ہوجائےگا اوربعض جگہ استحسان میں رہے گا۔
اہلیت مشورہ:
مشورہ کا اہل وہی شخص ہوسکتاہے۔ جس میں اوصاف ذیل موجود ہوں۔
الف۔مشیرمیں عقل کامل اور تجربہ تام ہو کوئی شخص بغیر ان اوصاف کے کامل ومکمل نہیں ہوتا عقل نہ ہوتو ظاہر ہے کہ ان کا شمار ذی العقول میں کرنا بھی فضول اور لغو ہے اور اگر عقل ہو لیکن ناقص تو جس قدرنقصان عقل میں ہے اس کی انسانیت میں اسی قدر نقصان ہے حدیث نبوی ہے۔
(عربی)
عقل مند لوگوں سے طلب رشد ومشورہ کرو تم کو سیدھی راہ کی ہدایت ہوگی اور ان کی نافرمانی نہ کرو ورنہ نادم ہوگے۔"
ب۔صاحب عقل وتجربہ ہونے کے بعد دوسری شرط اہلیت کی یہ ہے کہ مشیر میں ہمدردی خلق اللہ وخیرخواہی کا مادہ عموماً اور مستشیر کے ساتھ خصوصاً موجود ہو۔اگر مشیر میں باوجود عقل کامل وتجربہ نصح و ہمدردی کامادہ عموماً موجود نہیں۔یا کم از کم مستشیر کے ساتھ یا تو ہمدردی کاداعیہ اس کے قلب میں نہیں ہے تو ایسا شخص قابل مشورہ نہیں حضرت عبداللہ ابن الحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنےصاحب زادے محمد بن عبداللہ کو نصیحت فرماتے ہیں۔
(عربی)
جاہل اگرچہ خیر خواہ ہو مگر اس کے مشورے سے بچنا چاہیے جیسے کہ دانا دشمن کی عداوت سے کیونکہ کچھ بعید نہیں کہ اپنے مشورے سے وہ تجھ کو ہلاکت میں دھکیل دے اور عاقل کی تدبیر اور جاہل کی نادانی تجھ کو آوبائے۔
اس مضمون کو ابو اسودولی اس طرح ادا کرتے ہیں۔
(عربی)
ہر زی عقل تیرا خیرخواہ نہیں ہوتا۔اور نہ خیرخواہ دانش مند ہوتاہے۔
(عربی)
اور لیکن جب دونوں وصف کسی میں جمع ہوجائیں تو وہ اس کامستحق ہے کہ اس کی اطاعت کیجائے۔
بعض حکماء کا قول ہے۔
(عربی)
تجھ کو سوا صاحب حزم غیر حاسد اور دانش مند غیر کینہ ور کے کسی سے مشورہ نہ کرنا چاہیے عورتوں کے مشورے سے قطعاً پرہیز کرناچاہیے کیونکہ ا ن کی رائے کا میلان فساد کی طرف اور عزم کاسستی کی جانب ہوتا ہے۔
ج۔مشیر میں علاوہ عقل کامل وتجربہ تام ونصح و ہمدردی مخلوق کے عموماً یا خصوصاً اور موجودگی اخلاق مہذبہ اور تدوین عقلی کے تدوین مذہبی تقوی صلاحیت کا ہونابھی منجملہ شرائط اہلیت کے ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ آدمی کو اخلاق حمیدہ وملکات پسندیدہ اور عقل کامل کذب وخیانت حیلہ سازی ودغابازی سے خو بھی مانع ہوتے ہیں خواہ وہ شریعت منزلہ کے ارکان کا پابند ہو یا نہ ہو اور اسی درجہ کو تدوین عقلی یا عرفی سے تعبیر کرتے ہیں۔اور یہ درجہ مشیر کے لئے ایسا ضروری ہے۔ کہ بدون اس کے علاوہ وہ قابل مشورہ ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ شریعت منزلہ کاتابع بھی ہے لیکن ان اوصاف کے ساتھ متصف نہیں ہے تب وہ مشورہ کا اہل نہیں لیکن تدین عقلی وعرفی کے ساتھ اس میں تدین مذہبی بھی پایا جائے تو اس کی اہلیت مکمل ہے۔عکرمہ ؒ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
(عربی)
" جو کسی کام کا ارادہ کرے اور مرد مسلم سے مشورہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بہترین امور کی توفیق عطا فرماتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ تدوین عقلی کے ساتھ ساتھ تدین شرعی بھی مجتمع ہوجائے تو اس کی اہلیت مشورہ کامل ومکمل ہوجائے گی کیونکہ بسااوقات عقل کامل وتجربہ تام کے باوصف کبھی آدمی کو اتباع عقل ہی کسی ایسے امر کا استحسان ذہن نشین کردیتاہے جو مستشیر کے حق میں مضر ہوتاہے۔لیکن اتباع شریعت اخلاق حمیدہ کے علاوہ اس کے دوسری حیثیت سے بھی پابند کئے ہوئے ہے۔جو کسی طرح نسوا نصیحت وخیر خواہی کسی دوسرے امر کی اجازت نہیں دیتا اور اسی وجہ سے مسلمان کو منتخب کرنا از بس ضروری ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ جامع اوصاف مذکورہ متبع شریعت نہ مل سکے تو ایسی حالت میں غیر مسلم سے بھی مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں یہ ایسی شرط نہیں کہ بغیر اس کے اہلیت مشورہ پائی ہی نہ جائے۔
د۔جس شخص سے مشورہ لیاجائے اس کا قلب ایسے ہجوم وافکار سے خالی ہوجن کی وجہ سے دماغ پریشان اور قلب مشغول ہوجاتاہے۔ایسا شخص باوجود عقل تام وتجربہ کامل نصح وہمدردی تدین وتقویٰ شعاری کے صحیح اور معقول مشورہ دینے سے عاجز وقاصر رہتا ہے کیونکہ وہ خود اپنے خیال میں ایسا مبتلا ہے کہ نہ وہ معاملہ مشورہ طلب میں اپنی پوری عقل لڑا کر اس کی تمام جوانب کو سوچ سکتا ہے۔اور نہ مستشیر کی رہبری کرسکتاہے۔
صالح ابن عبدالقدوس اسی مضمون کو اس طرح ادا کرتے ہیں۔
(عربی)
" نہیں ہے مشیر مثل ایسے شخص کے کہ جو خیر خواہ ہو اور مشکلات میں دستگیری کرنے و الا ہو کسی ایسے کو نا صح بنا۔
ھ۔جس امر میں مشورہ لیا جاتاہے مشیر کی اغراض وخواہشات کا اس سے تعلق نہ ہو یعنی اس کی کوئی ذاتی غرض اس سے متعلق نہ ہو اگر اس کی ذاتی غرض کا اس امر سے تعلق ہے باوجودتمام اوصاف مذکورہ موجود ہونے کے اس کا مشورہ قابل اعتماد نہیں سمجھا جائے گا۔کیونکہ غرض ذاتی اور خواہش نفسانی طبعاً آدمی کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ کہ اس کو خود بھی کم احساس ہوتاہے۔ اور بے اختیارانہ اس سے وہ بات سرزد ہوجاتی ہے جو متشیر کے حق میں مضر ہوتی ہے۔آدمی کی رائے ایسی حالت میں ہرگز صحیح قابل اعتماد ولائق وثوق نہیں ہوتی۔صاحب عقول وآراءصحیحہ وفطرۃ سلیمہ بھی اس موقع پر اپنے درجہ سے گر جاتے ہیں۔
فضل ابن عتبہ ابن ابی لہب فرماتے ہیں۔
(عربی)
"زمانہ کبھی ایسے شخص کو اپنے مرتبہ کے ساتھ محکم کردیتاہے جو جاہل ہے اور کبھی خواہش نفس صاحب رائے ودانشمند کو گرادیتی ہے۔
(عربی)
"اور کبھی آدمی باجود خطا پر ہونے کے شکر گزاری کا مستحق ہوتاہے اور کبھی باجود احسان کرنے کے قابل ملامت بن جاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات ایک جاہل غیر زی رائے خیرخواہی ہمدردی کے ساتھ مشورہ دینے کی وجہ سے خواہ اس کا مشورہ انجام کا رمفید ہو یا مضر محسود اور قابل ستائش ہوجاتا ہے اور اسکی رقعت نظروں میں بڑھ جاتی ہے۔اور خود غرضی ہواء نفسانی عاقل دانش مند کو اس کے درجہ سے گرادیتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ باوجود غرض مشترک ہونے کےہرشخص ایسا نہیں ہوتا جس کو مشورہ مین مہتمم سمجھا جائے بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں کہ مشورہ کے وقت مشتشیر کی اغراض ومنافع کو پیش نظر رکھ کر مشورہ دیتے اور اپنی خواہش قلبی کو پس پشت ڈالتے ہیں مگر قواعد کی تدوین وتمہید میں اکثریات پر نظر ہوتی ہے۔ مستشنیات کا خیال نہیں کیا جاتا اگر کوئی فرد اس سے مستثنیٰ ہو اور مشیر کو باوجود غرض مشترک ہونے کے اس کے تدین وتقویٰ پراعتماد ہو تو یہ صورت جداگانہ ہوگی۔شریعت نے بھی ا س قسم کے معاملات میں اغراض مشترکہ کا خیال کرکے قواعد کلیہ بنا کرہم کو دیئے ہیں۔دیکھئے ماں باپ کی شہادت اولاد کے حق میں معتبر نہیں ہے علی ہذا اولاد کی شہادت ابوین کے لئے اور زوجین کی شہادت ایک دوسرے کے لئے اور آقا کی شہادت مملوک غلام کے لئے اور غلام کی آقا کے لئے وجہ صرف یہی ہے کہ آپس میں منافع واغراض مشترک ہیں باپ کا نفع بیٹے کا ہوتا ہے۔وعلی ھذ القیاس۔۔۔
ر۔مشیر اگر متعدد ہوں تو ان کا آپس میں حسد وتنافس سے خالی ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ایک کو دوسرے کی بات تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو اگر ایسا نہ ہوگا تو مشاورت کا نتیجہ سوائے مشاجرت منازعت اور منافرہ ے کچھ نہ ہوگا۔
یہ چھ اوصاف وشرائط ہیں۔جن کے مجتمع ہونے سے آدمی مشورہ کا اہل بنتا ہے ہاں اتناضرور ہے کہ بعض اوصاف اس درجہ ضروری ہیں جن کے بغیر قابلیت ثابت ہی نہیں ہوتی اور بعض ضرورتیں اس درجہ کی نہیں ہیں ان سے کسی وقت قطع نظر بھی کرلی جاتی ہے۔
مستشیر یعنی طالب مشورہ کے فرائض وآداب:
اس بات کی تو وضاحت ہوگئی ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی اہم معاملہ پیش آئے جس کے اندر رائے قائم کرنا مشکل ہے۔یامعاملہ کی دو نوں جانبیں فوائد وخطرات سے خالی نہیں ہیں۔تو ایسی حالت میں استبداد واستقلال رائے سے کام کرنا مہلک ہے اور موجب تنگ وعار اور ملامت وطعن ہے اور یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے۔کہ محتاج مشورہ اگرچہ کتنا ہی دانشمند صاحب وجاہت اور آزمودہ کار ہو اس کو کسی دوسرے سے مشورہ کرنےمیں اگرچہ وہ شخص ظاہر میں کم ر تبہ اور معمولی حالت میں ہے یہ امر مانع نہ ہوکہ اگر میں باوجوددانشمندی تجربہ کاری اور وجاہت اور علو شان کے دوسرے کے سامنے اپنے معاملے کو پیش کرکے طالب رائے ہوں گا تو لوگوں کی نظروں میں میری بے وقعتی یا نادانی ظاہرہوگی اور یہ سمجھا جائے گا کہ اگر میں خود صاحب رائے ہوتا تو دوسروں کا محتاج نہ ہوتا۔کیونکہ ان خیالات سے مشورہ کوترک کرکے اپنے معاملات کو خراب کرنا اور موردطعن وملامت بن کر نظروں میں حقیر بننا سخت حماقت میں داخل ہے۔ اب مستشیر کے فرائض وآداب کو بیان کیا جاتا ہے۔
(1)۔مستشیسر کا پہلا فرض یہ ہے کہ مشورہ کے لئے ایسے افراد کو منتخب کرے جو مشورہ دینے کے لائق واہل ہوں جن میں وہ اوصاف وشرائط موجود ہیں جن کاپہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے یعنی جو صحیح مشورہ دینے کے قابل ہیں۔جن کے مشورہ پرکاربندہونے سے فائز المرام ہوسکتاہے۔اور ترک مشورہ کی صورت میں جو نقصانات پہنچ سکتے ہیں ان سے محفوظ ر ہ سکتاہے۔اگر متشیر لائق وقابل مشورہ افراد کے انتخاب میں کوتاہی کرے گا یا ایسے اشخاص کو منتخب کرے گا جن میں بجائے ان اوصاف کے جو مشیر کے لئے ضروری ہیں دوسری قسم کے خصائل موجود ہیں۔ اور جو ظاہراً مشیر بننے کی قابلیت نہیں رکھتے تو اس کا الزام خود متشیر کے ذمہ ہے۔اور جونقصان اس کو پہنچے گا وہ خود اس کی کوتاہی کا نتیجہ ہوگا۔ اور گو یاوہ اس صورت میں اس قدر ملام ومطعون تو نہ ہوگا جیسا کہ خودرائی اور استقلال سے کام کرنے کی صورت میں ہوتا مگر اس حالت کے قریب ہی قریب رہے گا۔اس لئے سب سے اول اس کا کام یہی ہے کہ مشورہ کےلئے اہل اور لائق افراد منتخب کرے۔
(2)۔متشیر کی غرض مشورہ سے استفادہ رائے ہونا چاہیے نہ کہ امتحان مشیر کیونکہ امتحان کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں مشیر کی عقل ودیانت تجربہ وصداقت پر اعتماد نہ ہو اور جب کہ مشیر کی اہلیت کو پہلے جانچ لیاگیا ہے۔تو اب امتحان کے معنی کیا ہیں اگر کسی کا امتحان مقصود ہے۔ تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ رائے تو ایک جانب معین ہوچکی ہے اب پرکھنا یہ ہے کہ مشیر آیا صحیح رائے دیتا ہے یا غلط لیکن اس کو مشورہ نہیں کہتے اس کا نام امتحان اور جانچ ہے۔اور یہ وہیں ہوتاہے جہاں کسی کی عقل وتجربہ پراعتماد نہ ہو۔
3۔مشیر مشورے میں اگرچہ متشیر کی منشاء اور خواہش کے خلاف رائے دے ٹھنڈے دل سے سننا چاہیے یعنی کسی خیال یا واہمہ پر اس کی طرف سے بدظن نہ ہو اگر ایسا کیا جائے گا تو مشورہ کا فائدہ ہرگز اس کو نہیں پہنچے سکتا۔بلکہ یہ شخص حیرانی وپیشمانی میں زیادہ مبتلا ہوجائے گا۔ بسا اوقات ایک خالص اورسلیم العقل کی درست بات پر کسی نہ کسی وجہ سے بدظنی کا موقع مل جاتا ہے۔لیکن مستشیر کو اس وقت عقلی اور ثبات قلب سے کام لینا چاہیے۔اگر بدظنی سے کام لیا جائے گا تو کسی کام یامعاملہ میں بھی تنقیح رائے نہ ہوگی۔
مشورہ ومشاورت کارکن اعظم یہ ہے کہ مستشیر پراعتماد ہو ایک شاعر کہتا ہے۔
(عربی)
"اپنے دل کو ہمنشین کیطرف سے صاف رکھناچاہیے اور ہمدرد وخیرخواہ مشیر کی بات پراطمینان کرنا چاہیے۔
(عربی)
"دوست کی اس قدر دوستی پرجو ظاہر حال سے معلوم ہوتی ہے۔راضی رہنا چاہیے۔
(عربی)
"جو لوگوں کے باطن حالات کی تفتیش کرے گا تو کوئی ایسا نہ ملے گا جس کے باطن میں خیرخواہی ہو۔
(عربی)
"اگر بھائی ودوست کی ہر لغزش پر گرفت کی جائے تو کسی ایک بھائی کا تعلق باقی نہیں رہ سکتا۔
4۔جس معاملہ میں مشورہ طلب کیا جاتا ہے۔ اس کو کھول کر اورواضح ہو کر بیان کرے تاکہ مشیر کو اس کے تمام جوانب پر نظر کرکے رائے قائم کرنے کا موقع ملے اگر معاملہ کو مبہم ومجمل بیان کیا گیا تو مشیر ہر گز صحیح رائے نہیں دے سکتا اور اس وجہ سے جو نقصان پہنچے گا اس کا ذمہ دار خودمتشیر ہوگا۔
5۔مستشیر کو چاہیے کہ مشیروں کی رائے اور انکی وجوہ استدلال خود بھی غورسے سنے اور سمجھے تاکہ مستشیر جس طرح بوجہ مشورہ کرنے کے استبداد رائے کی آفات سے محفوظ رہاہے۔ایسےہی بے سمجھ دوسروں کی رائے کا اتباع کرنے کی تقلید اعمیٰ اور تفویض سے بھی بچ جائے جب وہ تمام پہلوؤں اور ان کے وجوہ پر غور کرے گا تو خود بھی صحیح نتیجہ پر پہنچےگا اور اس کو اپنے مشیروں کی عقول وتجربہ کاری نصح وہمدردی کا بھی پورا انداہ ہوجائے گا اور اس کو یہ واضح ہوجائےگا کہ میری عقل ان معاملات میں کہاں تک چل سکتی ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آئندہ جب اس قسم کے مشکل اور اہم واقعات پیش آئیں گے تو یہ اس وقت اس تجربہ سے بہت کچھ کام لینے کے لائق ہوگا۔
6۔مشاورت میں بحث ومباحثہ کے بعد کوئی رائے قائم ہوجائے اور بعد ازعمل ثابت ہو کہ یہ رائے غلط اور بجائے مفید ہونےکے مضر تھی تو متشیر کو لازم ہے کہ ہر گز مشیروں پرطعن وتشنیع نہ کرے۔کیونکہ مشیروں کا کام صرف یہ ہے کہ اپنی عقل ورائے سے ایک طریقہ کو واضح کردے اس طریقہ کا موصل الی المطلوب ہونا مشیر کے حد ادراک واختیار سے بالکل خارج ہے۔اول تو آدمی کتنا صاحب فراست ودانشمند کیوں نہ ہو مگر اس کی عقل محدود ہے۔تمام اسباب واحتمالات کا احاطہ وشوار ہے۔ اور پھر باوجود تمام اسباب و ذرائع موصلہ قریب وبعیدہ کے مجتمع ہونے کے ترتیب نتیجہ خداوند عالم کے اختیار میں ہے اس وجہ سے مشیر مورد طعن ولعن بنائے جائیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ پھر وہ کبھی کسی کومشورہ دینے کی جرائت نہ کریں گے اور ہمیشہ یہ کہہ کرالگ ہوجایاکریں گے کہ جو مناسب سمجھو اس پر عمل کرو اور مخلوق مشورہ کی دولت عظمیٰ سے محروم ہوجائے گی۔
7۔مشیر کی گمنامی اور کم وقعتی کو اس کے مشورہ کو رد کرنے کا سبب نہ سمجھنا چاہیے مستشیر کافرض ہے کہ دانش مندی اورخیرخواہی کی بات اگرچہ کسی گمنام کی وقعت شخص کی زبان سے سنے تو اس قدر کرے کیونکہ مشورہ کی غرض اپنا انتفاع ہے۔اس میں مشیر کے بلند رتبہ یاکم درجہ مشہور یاگمنام ہونے کو کچھ دخل نہیں ہے۔
آدمی کو اگرخود عقل وتمیز ہے۔تو برائی کی صحت وسقم کو خوب پہچان سکتاہے اگرچہ رائے دینے والے کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
ایک شاعر کہتا ہے:
(عربی)
سب سے ارزاں چیز جس کو لوگ فروخت کرتے ہیں نصیحت وخیرخواہی ہے۔
تجھ کو چاہیے کہ کسی ناصح کی نصیحت کو رد کرے اور نہ اس کو ملامت کرے۔
(عربی)
نصیحت وخیرخواہی کے طریقے د انشمند اورزیرک سے مخفی نہیں رہتے۔
8۔ان سب مراحل کے بعد جب باہمی مشاورت سے ایک امر منقح ہوجائے معاملہ کے تمام پہلو واضح ہوجائیں ہر ایک صورت کے حسن وقبح پرکافی روشنی پڑجائے تو اب مشیر کافرض ہے کہ طے شدہ اور منفح رائے پر عمل کرنے میں لیت ولعل کو دخل دے کر اجراء ونفاذ میں دیر نہ کرے مشورہ کا حاصل یہی ہوتا ہےکہ کہ معاملہ کے تمام پہلوؤں پیش نظر ہوجائیں تصویر کے دو رخ بھی سامنے آجائیں جو فرادیٰ نظروں سے مخفی تھے اور جب معاملے کے تمام پہلو واضح ہوگئے تو مشورہ کے نتیجہ تک اس وقت پہنچا جاسکتاہے۔جب اس پر عمل بھی کیاجائے ہر ایک تدبیر اورعمل کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ مشورہ کے اندر جن پہلوؤں اور جن اسباب وذرائع کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کا وقت نکل جائے عاقل کا کام یہ ہے کہ مشورے سے جس قدر جلد ممکن ہے فائدہ اٹھائے مستشر اگر بعد وضوح االرائے واستقرار منسورہ خوامخواہ تردد میں پڑ جائے یا عمل میں تاخیر ہوئی تو وہ خود اپنے لئے ہلاکی وبربادی کا راستہ اختیار کرتاہے۔
ایک شاعر کہتا ہے۔
(عربی)
"جب تو صاحب رائے ہے۔تو تجھ کو صاحب عزم بھی ہونا چاہیے بلاوجہ تردد کرکے طے شدہ رائے کو فاسد نہ کرنا چاہیے۔
(عربی)
کیونکہ عزم میں ڈھیل دینا عیب ونقصان ہے اور رائے کا نافذ وجاری کرنا رشد وبھلائی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ مشورہ کی برکات سے تب ہی مستفید اور منتفع ہوسکتاہے۔جبکہ عزم راسخ ہمت قوی سے اس کااجراء اورنفاذ بھی کرے اگر رائے کے بعدشکوک وشبہات اوراحتمالات بعیدہ نکالنے کےتخیلات میں پڑ جائے یاعمل میں تاخیر وتعویق کرے تو ہرگز اس کی برکات سے متمتع نہیں ہوسکتا۔بلکہ یہ شخص اس حالت سےزیادہ نفریں کے قابل ہوگا جیسا کہ بلا مشورہ کام کر بیٹھتا کیونکہ اس حالت میں نفریں کیوجہ صرف یہی تھی کہ اس نے اپنی رائے کوقابل اعتماد اوروفوق سمجھا اور تبادلہ آراء کے وقت رائے کے ثمرات سے محروم رہا اور یہ ایک درجہ عدم علم کا ہے جس میں آدمی کسی وقت بھی معذور سمجھا جاتاہے۔
مشیر کے فرائض وآداب:
1۔مشورہ کا اہل وہ شخص ہوسکتاہے۔جس کے اندر شرائط واوصاف مذکورہ پائے جائیں مشیر کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے درجہ اور قابلیت کو سمجھے اگر وہ اوصاف اس میں نہیں ہیں جن کا وجود مشیر کے لئے لازم ہے۔ تو اس کو چاہیے کہ اس بارامانت کے تحمل سے فوراً انکار کردے کیونکہ دو ہی حالتیں ہیں یا تو یہ کہ وہ اپنے متصف باوصاف نہ ہونے کوسمجھتا ہے۔اور باوجود سمجھنے کے خوامخواہ پھر دوسرے کا بار اپنی گردن پر اٹھاتا ہے یا نہیں سمجھتا پہلی صورت میں تو وہ دغا باز،حیلہ ساز،مکار،اورفریبی سمجھاجائےگا۔ مستشیر کا تو جبکہ اس نے اپنے علم وخیال کے موافق اس کو اہل مشورہ سمجھ کر معاملہ کو اس کے سپرد کیا ہے کچھ قصور نہیں اب جو کچھ الزام یا قصور ہے وہ صرف مشیر کی گردن پر ہے۔ اور د وسری صورت میں اس کا جہل ،جہل مرکب ہوگا کہ اپنے جاہل ہونے کو بھی نہیں سمجھتا غرض مشیر کے ذمہ واجب ہے کہ جب کوئی شخص ا پنے معاملات کی باگ اس کے ہاتھ میں دے کر خودسبکدوش بنتا ہے۔تو وہ اپنی حالت کا اندازہ کرے۔ کہ آیا مجھ میں وہ اوصاف موجود ہیں جو عموما ً مشیر کے لئے شرط ہیں۔
2۔جب کہ مستشیرنے اپنے امور کی باگ مشیر کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی نجاح وفلاح خیبت وخسران کا مدار اس کی رائے ومشورہ پررکھا تو مشیر کافرض ہے کہ اپنی ممکن کوشش تنقیح رائے وتوضیح طریق میں صرف کرے اور جو رائے اس کے نزدیک اصوب وانسب معلوم ہو۔اس کو اخلاص نیت،صفائی طینت،کے ساتھ مستشیر کے سامنے ظاہر کرے اور ممکن سے ممکن طریقہ سے اس کی ہمدردی ودلسوزی کو اپنا فرض سمجھے۔
یہ نہایت صریح ظلم ہے کہ ایک شخص اس پر اعتماد کرتا ہے اور وہ سرسری غور وفکرسے اس کو مشورہ دے کر ورطہء ہلاکت میں ڈالتاہے۔اور خود اس نعمت عظمیٰ کے شکر سے۔ کہ مخلوق اس کو اس قابل سمجھتی ہے۔ کہ مشکلات کے وقت ان کی عقدہ کشائی کرے،محروم رہ کر اپنے نفس کو مستوجب سلب نعمت بناتا ہے۔ اور یہ اس سے بڑھ کر ظلم اور کمینہ پن ہے کہ مشورہ میں اس کی خیر خواہی مد نظر نہ رکھ کر ایسے امر کا مشورہ دے جو صریحاً اس کے نزدیک بھی مضر ہے۔
جناب رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
(عربی)
منجملہ ان حقوق کے جو ایک مسلمان کے دوسرے پر ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ تجھ سے طالب نصح وہمدردی ہوتو اس کی خیر خواہی کرے۔"
یہ مضمون تو خاص مسلم کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ غیر مسلم کے ساتھ ہمدردی ضروری نہیں ۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(عربی)
جس سے مشورہ کیاجاتا ہے وہ امین بنایا گیا ہے۔جس طرح امین کو امانت میں خیانت جائز نہیں ہے اسی طرح متشار کو مشورہ میں خیانت حرام ہے اس کے ذمہ واجب ہے کہ جوامر اس کے خیال میں بہتر سے بہتر ہے اس کا مشورہ دے اور اگر اس معاملہ سے اس کی غرض بھی متعلق ہے۔اور صاف وصریح مشورہ دینے میں اس کو ا پنی مضرت کا اندیشہ ہے تب بھی اس کے ذمے یہی واجب ہے۔کہ اپنے منافع کا خیال نہ کرکے صحیح مشورہ دینے میں کوتاہی نہ کرے اور ایسا کرنا اس کی کمال دینداری ،تقویٰ اورانسانیت کی دلیل ہے۔لیکن اگر اس کی اخلاقی کمزوری اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ اپنے منافع کو ضائع کرنا کسی طرح گوارا نہیں کرسکتا تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ شروع میں مشورہ دینے سے انکار کردے تاکہ مستشیر اس پر مطمئن نہ رہے اور کسی دوسرے سے مشورہ کرے۔اسی مضمون کو سلیمان بن ورید نے اس طرح ادا کیا ہے۔
(عربی)
"جب تیرا کوئی بھائی طالب ہمدردی ہوکر تجھ سے مشورہ کرے تو تجھ کو مشورہ دینا ضروری ہے۔
لیکن اس کے ساتھ حدیث بالا سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب متشار امین ہے اور اس وجہ سے مشورہ میں خیانت یا ہمدردی میں کوتاہی ناجائز ہے۔تو متقضی اس امانت کا یہ ہے کہ اس مشورہ کا افشاء اوراظہار بھی نہ کرے تا وقت یہ کہ خود متشیر کی جانب سے اس کی اجازت نہ ہو۔
رہی یہ بات کہ جب مستشار امین ہے اور اسکے زمہ پر مستشیر کی خیرخواہی واجب ہے۔خواہ مسلم ہو یا کافر تو پھر حدیث اول میں مسلم کی تخصیص کیوں اور کیسے ہے اگر یہ عام انسانیت کاحق ہے۔تو پھر مسلم کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے۔جواب اس کا یہ ہے کہ ایک حق عام ہوتا ہے۔اور ایک خاص اور یہ عموم اور خصوص تعلقات کے عموم اور خصوص میں متفرع ہے۔حدیث ثانی میں عام تعلقات کی بنا پر عام حق کو بیان کیا گیا ہے۔اور حدیث اول میں علاوہ تعلق انسانیت کے خاص تعلق اسلام کو ملحوظ رکھ کر اس کو خصوصیت کے ساتھ بطور تاکید ارشاد فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عام تعلقات انسانی کی حالت میں درصورت عدم نصح جس قدر مواخذہ ہوگا۔اس سے بدرجہا زائد خاص تعلق اسلامی کی حالت میں عدم نصح و ہمدردی میں ہوگا اور پھر خصوصیت تعلقات اسلام ہی کی حد پر منتہی نہیں ہوتی اسلام کے بعد اور بھی خصوصیات ہیں جو ہمدردی کے وجوب وتاکد کو اس طرح بڑھاتی چلی جاتی ہیں ۔مثلاً والدین کا تعلق اساتذہ کا تعلق وغیرہ۔
3۔جب کسی شخص کا عقل وتجربہ تسلیم کرلیا جاتا ہے۔اور لوگ عموماً اس اصابت رائے کے قائل ہوکر اس پراطمینان کرنے لگتے ہیں توحسب تقاضا فطرت انسانی اکثر وبیشتر ایسے افراد میں ایک قسم کا عجب وغرور پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں ہمارے منہ سے جو بات نکلتی ہے درست ہوتی ہے اس مرض کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو یہ شخص غور وفکر کواپنے لئے ننگ وعار سمجھنے لگتا ہے۔اور بلا سوچے سمجھے مشورہ دینے کو کافی خیال کرلیتا ہے۔دوسرے تمام دنیا کی آراء کو اپنے مقابلے میں ہیچ اور ناقابل التفات سمجھتا اور د وسروں کو نادان وناتجربہ کار جانتا ہے۔یہ حالت اس کو اوج عزت سے قہر ذلت میں گرادینے والی ہے۔جب مشیر کی حالت یہ ہو تو فرض ہے کہ ایسے شخص سے نا مشورہ کرے اور نا اس کو قابل اعتماد سمجھے اور اگر متشیر اس کے مرض پر مطلع نہ ہونے یا کسی اور وجہ سے اس پر اعتماد کر بیٹھا تو مشیر لازم ہے کہ اپنے ا س مرض کا ازالہ کرکے مشورہ دینے پر آمادہ ہوا اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو اس کے ذمہ ضرور ہے کہ مشورہ دینے سے انکار کردے۔
4۔مشیر کو یہ بھی مناسب ہے کہ مشورہ دینے میں سبقت نہ کرے یعنی جب تک کہ اس سے مشورہ طلب نہ کیاجائے خود اقدام کرکے مشورہ نہ دے اس صورت میں چند نقصان ہیں ان کی رائے بے وقعت معلوم ہوگی۔اس طرح بلا دریافت مشورہ دینے میں متہمم سمجھا جائے گا خیال کیا جائےگا کہ اس کی کوئی ذاتی غرض اس سے متعلق ہے۔
طرفہ کہتا ہے:۔
(عربی)
"نا اہل کے لئے اپنی ہمدردی خرچ مت کر اور وہ شخص تیری رائے سے استغناء کرے تو بھی اس سے بے پروا ہوجا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الیمان روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
(عربی)
"لقمان نے ا پنے بیٹے کو نصیحت کی کہ جب تم سے شہادت طلب کی جائے توشہادت دو اور جب کوئی امداد چاہے تواعانت کرو اور جب کوئی طالب مشورہ ہوتو بلاغور وفکر جلدی سے مشورہ نہ دو۔
بہیس کلابی اسی مضمون کو اسی طرح ادا کرتا ہے۔
(عربی)
"بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب وہ طالب مشورہ ہوں اور تو جدوجہد سے ان کو رائے دے اگر تو ان کی موافقت نہ کرے تجھ کو متہم سمجھتے ہیں۔
(عربی)
"ایسی حالت میں نااہلوں کے سامنے اظہاررائے نہ کرنا چاہیے کیونکہ نا تو قابل شکرگزاری ہوگا اور نہ رائے نافع ہوگی۔
البتہ اگر مشیر یہ سمجھے کہ کوئی شخص غلط راہ چلنے سے ہلاکی میں مبتلا ہواچاہتا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اگر میں نے سکوت کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائےگا۔تو اس وقت اس کو خودبڑھ کر اظہار رائے کرنا اورصحیح راستہ بتلانا نہایت ضروری ہوجاتا ہے۔خواہ وہ اس کو بے وقعت سمجھے اور اس کی رائے کو نظر انداز کردے یا اس پرعمل کرے۔
5۔مشیر کو یہ بھی مناسب ہے کہ جب ایک جماعت مشورہ کے لئے جمع ہوتو یہ شخص اپنی رائے کے اظہار میں پیش قدمی نہ کرے بلکہ اول اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور عقلاء کو موقع دے۔تاکہ دوسروں کی رائے سن کر اس کو بھی بہتر رائے قائم کرنے کاموقع ملے معاملہ کے پہلوگفتگو کے بعد واضح ہوتے ہیں۔اور آدمی علم کے بعدگفتگو کرے۔
6۔مشیر کو چاہیے کہ ایسے شخص کو مشورہ دینے سے بچے جس کی نسبت اس کو یقین ہے کہ کسی مشورہ کو نہیں مانتا اس کی غرض محض امتحان ہوتی ہے۔ایسے شخص کو مشورہ دینا ہرگز مفید نہیں ہے۔اوراپنے لیے موجب ندامت وخجالت ہے۔
مشاورت کے طریقے اور اس کے آداب:
مشورہ کی کل دو صورتیں ہیں:۔
1۔کسی ایک شخص قابل اعتماد کے سامنے اپنے معاملے کو پیش کرکے طالب رائے ہو۔
2۔یا یہ کہ جماعت عقلاء ارباب فہم ودانش کے سامنے کسی مبہم ومشکل معاملہ کو بغرض تنقیح رائے پیش کیا جائے صورت اول میں تو صرف اتنی بات کافی ہے۔کہ مشیر اپنی رائے فہم کی موافق ہمدردی اور دلسوزی سے رائے ظاہر کردے۔البتہ صورت ثانیہ میں جب کہ مشیروں کی ایک جماعت سے تبادلہ آراء خیالات کیا جائے اور ایک امر بغرض مشورہ جماعت کے سامنے پیش کیا جائے چند امور قابل بحث وتفتیش ہیں۔
1۔اظہار کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔
2۔در صورت اختلاف آراء مشیروں کا فرض کیا ہے؟
3۔آیا اس جماعت سے ایک مجلس میں جمع کرکے مشورہ کرنا بہتر ہے یا ہر ای کسے جداگانہ اول امر کی توضیح یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ ایک جماعت عقلاء ومدبرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو ان میں سے ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔کہ اپنی ر ائے آزادانہ بلاخوف لومۃ لائم ظاہر کردے خیال نہ کرے کہ میری رائے کسی کی منشاء کے خلاف ہونے کی صورت میں انگشت نما ہوسکتا ہوں۔یا یہ کہ میری رائے کا ضعف ظاہر ہونے میں لوگ مجھے حقیر اور میری رائے کو ناقابل اعتماد سمجھیں گے کیونکہ ان خیالات کاپابند ہونا اظہار رائے میں سکوت کرنا ایک درجہ کی خیانت میں داخل ہے۔جس سے احتراز کرنا مشیر کے اولین فرائض میں سے ہے۔
دوسرے یہ کہ مشاورت اس غرض کے لئے ہوتی ہے کہ معاملہ کے سب پہلو اور تدبیر کے سب طریقے معین ہوجائیں اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہر شخص اپنے خیال کو بلا تکلف ظاہر کردے۔کبھی اظہار رائے سے یہ امر بھی مانع ہوجاتا ہے۔کہ مجلس شوریٰ میں چھوٹے بڑے طبقے کے آدمی جمع ہوتے ہیں۔مثلاً استاد وشاگرد،پیر مرید۔باپ بیٹا،علی ھذا عقل وتجربہ عمر وغیرہ کے اعتبار سے طبقات ومدراج کافرق ہوتا ہے۔لیکن جب کوئی شخص قابل اعتماد سمجھ کر اس مجلس کا امین بنایاگیا ہے تو اس کے ذمہ ضرور ہے کہ آداب مجلس واہل مجلس کو ملحوظ رکھ کر پوری طرح اظہار رائے کردے ورنہ وہ خائن وبدیانت سمجھاجائے گا۔اور جس طرح کے مجلس مشاورۃ میں اپنی رائے کا اظہارآزادی ومطلق العنانی کے ساتھ ضروری ہے۔اسی طرح دوسروں کی رائے اور ان کے دلائل کو بغورسننا بھی اس کے ذمہ لازم ہے۔اول تو یہ امر آداب مجلس میں داخل ہے۔کہ جب کوئی دوسرا کلام کرے تو یہ شخص ہمہ تن گوش ہوکر اس کی بات سنے اور جب آدمی خود کلام کرے تو دوسروں سے متوجہ تام کان لگانے کا موقع رہے۔
دوسرے یہ کہ جب وہ اوروں کی رایوں کی طرف توجہ والتفات نہ کرے گا تو علاوہ اس کے کہ اس سے اس کااپنا عجب اوررائے کی ایسی وقعت ظاہر ہوتی ہے۔کہ دوسروں کی رائے کو قابل التفات بھی نہیں سمجھتا۔ بڑی مضرت یہ ہوگی کہ متکلم کا نشاط جاتا رہے گا اور جب ممبران مجلس کیطرف سے اظہاررائے پوری طرح نہ ہوا تو مشورہ ناقص ہوگا۔
تیسرے یہ کہ متکلم کے کلام میں بہت سے فوائد ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف اس کا ذہن منتقل نہیں ہوتا۔ممکن ہے کہ معاملے کے بعض پہلو اس سے مخفی اور بعض رموز دقائق تک اس کی نظر نہ پہنچی ہو اگر یہ شخص دوسرے کے کلام کو توجہ تام اور میلان قلب کے ساتھ نہ سنے گا۔تو خود بہت سے فوائد سے محروم رہے گا مشیر کے ذمہ ضروری ہے کہ باقی ممبرا ن مجلس شوریٰ کے کلام کو توجہ سے سنے۔
امر سوم کی تفصیل یہ ہے کہ کسی معاملہ میں ایک جماعت سے مشورہ کرنا ہے تو ہرایک سے جدا جدا مشورہ کرے یا ان کو ایک جگہ جمع کرکے معاملہ کو پیش کرے اور رائے لے اور ہر ایک صورت میں بعض منافع خاص ہیں۔اور بعض مضرتیں جدا جدا رائے لئے میں منافع ضرور ہے کہ ہر شخص اس میں خوب سوچ سمجھ کر رائے قائم کرے گا کیونکہ اس حالت میں صرف اسی کے اوپر اس کا بار ہے۔اس کو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اصابت رائے کا سہرا میرے ہی سر بندھے تو اچھا ہے اور خلوت وفراغ قلب کی حالت میں آدمی جس قدر تدبر وتفکر سے کام لے سکتا ہے۔ہجوم کے وقت نہیں لے سکتا لیکن اس میں یہ بھی نقصان بڑا ہے۔کہ اجتماع کے بعد بحث ومباحثہ سے جتنے پہلو واضح ہوسکتے ہیں۔ وہ اس صورت میں نہیں ہوسکتے لیکن مجلس میں اول تو ہر شخص کی طبعیت پر بوجھ نہیں پڑتا اور بسا اوقات بہت سے اشخاص معاملہ کو دوسروں کے حوالے کرکے خود بے فکر اور مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ایسی حالت میں مشورہ سے کسی مفید نتیجہ کا نکلنا دشوار ہوجاتا ہے۔دونوں صورتوں کے دونوں پہلوؤں کے نفع نقصان کوخیال کرکے عقلاء نے کسی ایک جانب کوترجیح دی ہے۔
دونوں صورتوں میں سے صورت اول یعنی جداگانہ مشورہ لینا باعتبار حصول نفس مقصود مرجح معلوم ہوتاہے۔کیونکہ مقصود صرف یہ ہے کہ عقلاء اپنی عقل سلیم اور تجربہ تام کی بدولت مشکل کے لئے کوئی راہ نکالیں اور یہ مقصود جداگانہ رائے لینے میں زیادہ حاصل ہوتا ہے مگر چونکہ دونوں صورتوں میں اگر کوئی خاص نفع لئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب نقصان و مضرت سے بھی خالی نہیں اس لئےمطلقاً کسی ایک صورت کو ترجیح دینا یا ہر ایک موقع پر اسی طریقہ کو قابل عمل قبول سمجھ لینا بھی کسی طرح قرین صواب ودانش مندی نہیں ہے اس لئے امام ابو الحسن ماوردی دونوں مذہبوں کو بیان کرکے خود یہ فیصلہ فرماتے ہیں۔کہ ہم کو سب سے اول یہ دیکھنا چاہیے کہ مشورہ کس بات میں ہے اگر کسی معاملہ میں رائے کے تمام پہلو تو معلوم ہیں لیکن اس کی تنقیح کرنا ہے کہ ان کےمختلف پہلوؤں میں سے صحیح اور موصل الی المطلوب کون سا ہے تب تو بحالت اجتماعی مشوہ کرنا مفید ہے کیونکہ ہر ایک شق پر مجمع غام میں ردوقدح ہوکر حسن وقبح ظاہر ہو جائے گا اور اگر معاملہ ایسا مبہم ومشکل ہے کہ اس کے حل کے طریقے ابھی معلوم نہیں ہوئے اور اور نہ ا س کے اندر جتنے احتمالات ہیں۔ وہ سب معین تب یہ امر متعین ہے کہ ہر شخص کو جداگانہ غوروفکر اور زور طبعیت لگانے کا موقع دیاجائے مجمع عام میں یہ بات حاصل نہیں ہوتی غرض آراء کی تعین وتشخیص کی صورت میں ان کےصحیح وغلط کوجانچنے اور پرکھنے کے لئے تو انقعاد مجلس شوریٰ اور بہتر ذریعہ فوذ وفلاح ہے۔اور نفس تعین رائے اورتنقیح طریقہ حل معاملہ کے لئے خلوت میں غوروفکر کرنا انفع واولیٰ ہے۔
مشورہ کو دہرانے کی ضرورت:
انسان فطرتاً! تدریجی ترقی کرتا ہے۔کوئی کمال اس کو دفعتاً حاصل نہیں ہوتا اس لئے مشورے میں صحیح رائے تک پہنچنے تک بھی بتدریج ہوتا ہے اس لئے بسا اوقات یہ امر پیش آتا ہے۔کہ ایک عاقل ومجرب معاملے کو سنتے ہی کوئی رائے قائم کرلیتا ہے۔اور پھرغوروفکر کے بعد اس سے منتقل ہوکر دوسری پرجمتا ہے۔اسی بناء پر عقلاء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اول وہلہ کی رائے کو قابل اعتماد نہ سمجھنا چاہیے۔تا وقت یہ کہ مقرر رسہ کر غور نہ کرلیاجائے۔جب تنہا کسی ایک شخص سے رائے لی گئی یا جماعت کے سامنے پیش ہوکر کوئی امر منقح کرلیا گیا تو عمل کرنے میں اتنی تاخیرکرنی مناسب ہے۔ جس سے اصل معاملے کو نقصان نہ پہنچے۔ اہل رائے کو آراء پر کامل غور کرنے کاموقع مل جائے اور وہ رائے پختہ ہوجائے۔
عامر بن المنطرب حکیم عرب کا مقولہ ہے۔
(عربی)
"رائے کو اس وقت تک چھوڑ دو جب تک رات گزر کر اس کا خمیر نہ اٹھ جائے تم کو پہلی مرتبہ کی رائے سے پرہیز کرنی چاہیے عامر بن النطرب کی غرض اس سے یہ ہے کہ رائے میں تدبر وتثبت سے کام لیا جائے جلدی نہ کی جائے۔"
حاصل یہ کہ عقلاء کے نزدیک ر ائے کا رس رس کے پختہ ہونازیادہ قابل اعتبار ہے اس لئے حتیٰ الوسع رائے قائم کرنے اور اس پر عمل کرنے میں جلدی نہ کی جائے ہاں اس میں اس قدر تاخیر بھی سخت مہلک ہے کہ معاملات کاوقت ہی فوت ہوجائے۔
فیصلہ مشاورت:
ان تمام مراحل کے بعد ایک اہم مسئلہ کی توضیح وتفصیل ضروری ہے جس پر مشاورت کی کامیابی وناکامی کا مدار ہے اور وہ یہ کہ درصورت اختلاف فیصلہ قطعی کرنے اورچند آراء مختلف سے کسی ایک رائے کو معتمد علیہ قابل عمل اور صحیح قرار دینے کی کی صورت ہے فیصلہ کا طریقہ ظاہراً یہ ہے کہ جس جانب کثرت رائے ہو وہی جانب حق ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے یہ مسئلہ فی الواقع مشکل ہے۔اور بغیر اس کے حل وتوضیح کےمشاورت کے سارے مراتب ناتمام ہیں۔
اختلاف رائے کی صورت میں کسی رائے کو قابل عمل وقبول قرار دینے کے اندر کل دو احتمال ہیں۔قوت دلیل اور کثرت آراء لیکن جب ہم عقل کی میزان میں تولتے ہیں تو ہم کو مثل روز روشن واضح ہوجاتاہے۔کہ اصل ترجیح اورفیصلہ قوت دلیل کی وجہ سے ہوتے ہیں کثرت رائے کو صحت رائے اور فیصلہ میں بذاتہ کچھ دخل نہیں ہے ہاں کثرت آراء چونکہ بسا اوقات قوت دلیل کی علامت ہوتی ہیں۔اس وجہ سے کو قائم مقام قوت دلیل کا سمجھ کر اسی کے موافق فیصلہ دے دیاجانا بعداز عقل نہیں ہے۔
یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ استنبات ،استدلال دقیقہ سنجی حقیقت شناسی جزئیات سے کلیات تک پہنچنا حاضر سے غائب کی طرف منتقل ہونا چند معلومات سے مجہولات کا علم حاصل کرنا چند مقامات سے دلیل کا ترکیب دینا دلیل ہے نتیجہ کا برآمد ہونا سب عقل پر موقوف ہے۔اور یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ عقل کو تجربے سے کیا غرض ہوتی ہے۔جب تمام امورمسلم ہیں تو اس کے تسلیم کرنے میں کیا عذر ہوسکتاہے۔کہ کسی معاملے کی حقیقت تک پہنچنا اور اس کی تمام جوانب واحتمالات کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کر صحیح وسقیم میں امتیاز کرنا پھر ہر ایک دعویٰ کو دلائل قویہ سے مدلل کرنا اسی شخص سے ہوسکتاہے۔جس کو عقل خداداد نصیب ہو اور عقل کی پختہ کاری تجربہ سے ہوچکی ہو اور پھر اہل عقول کی عقل میں جتنا تفاوت ہوتا جائے گا۔اتنا ہی ان امور میں تفاوت بھی نظرآئے گا۔جب یہ امور تسلیم ہوچکے تو اب فرض کرلیجئے کہ ایک شخص جس کی عقل کامل اور تجربہ تام ہے ایک جانب ہو اور دنیا کے کل یا اکثر افراد جو عقل سے بہرہ ہیں۔دوسری جانب تو عقل کا فیصلہ اس معاملے میں کیا ہوگا صرف یہی کہ جس کی عقل کامل تجربہ تام کا مقابلہ ان افراد کے جو بالکل بے عقل وناتجربہ کار ہیں۔قابل اقتداء تسلیم کرنا لازم ہوگا۔ اسی بناء پر فیصلہ کی دونوں صورتوں میں سے جن کا ذکراول میں کیا گیاتھا۔
عقل کی رو سے فیصلہ صرف قوت دلیل پر مبنی ہوناچاہیے۔کثرت آراء کو فی حد ذاتہ اس میں کچھ دخل نہیں ہے ۔لیکن کثرت رائے بالکل نظر انداز کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ عقل کی رو سے در صورت اختلاف آراء اصل فیصلہ قوت دلیل پر ہوگا اگرچہ یہ قوت کسی ایک رائے کو بمقابلہ بہت سے آراء کے حاصل ہو۔لیکن در صورت یہ کہ قوت رائے معلوم کرنے کا کوئی میعار ہمارے پاس نہ ہوتو اس وقت قوت کی علامت کثرت رائے عقلاء ہے۔اورکثرت رائے کے حق میں فیصلہ دینا حقیقتاًقوت دلیل ہی کی بناء پرہوگا۔