برصغیر پاک وہند میں علم حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی
مولانا محمد سعید بنارسی (م1332ہجری)
کنجاہ ضلع گجرات (پنجاب) مولد ومسکن ہے۔پیدائشی سکھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔مولاناشیخ عبیداللہ صاحب تحفۃ الہند کی تبلیغ سے مشرف بااسلام ہوئے اورسیدھے دیو بند پہنچے۔یہاں علوم متعارفہ میں تحصیل کی اور بعدہ تحصیل حدیث شروع کی۔جس کی وجہ سے دیو بند سے جواب ہوگیا۔ادھرحضرت شیخ الکل حضرت میاں سید نزیر حسین صاحب محدث دہلوی ؒ کا فیضان جاری تھا۔سیدھے دہلی پہنچے۔تفسیر وحدیث پڑھی اورسند حاصل کی۔اسی زمانہ میں آپ کے والد نے حضر ت شیخ الکل کو ایک خط لکھا کہ:
"میں نے اپنے لڑکے کو ناز ونعمت سے پالا ہے۔اس کو نظر عنایت سے رکھئے گا۔"[1]
حضرت میاں صاحب اس خط کو پڑھ کر آبدیدہ ہوگئے۔
فقہ کی تعلیم مولانا عبداللہ غاذی پوری ؒ(م1337ہجری) سے حاصل کی۔
تکمیل تعلیم کے بعد مدرسہ احمدیہ آگرہ میں مولانا حافظ محمد ابراہیم آروی م1319ہجری کے اصرار پر تدریس فرمائی مگر کچھ عرصہ بعد مدرسہ احمدیہ سے مستعفی ہوکر بنارس چلے آئے۔اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1297ہجری میں مدرسہ سعیدیہ کی بنیاد رکھی جس میں مدتوں پڑھاتے رہے۔آپ سے بے شمار اصحاب نے استفادہ کیا ،جن میں سے بعض مسند تدریس کےوارث بھی بنے۔[2]
اپنے مسلک (اہل حدیث) میں بہت متشدد تھے۔احناف کے رسالہ "کشف الحجاب" کے جواب میں"ہدایۃ المرتاب" لکھی۔جس کو حضرت والا جاہ نواب صدیق حسن خاں ؒ(م1307ہجری)نے اس قدر پسند فرمایا کہ تاحیات 50 روپیہ ماہوار وظیفہ مقررکردیا۔[3]
توحید وسنت کی اشاعت کی غرض سے بنارس میں"سعید المطابع" کے نام سے ایک مطبع قائم کیا۔اس مطبع نے توحید وسنت کی نصرت میں لاکھوں ورق شائع کئے جن کا غالب حصہ مفت تقسیم ہوا۔
مولانا محمدسعید ؒ نے 18رمضان المبارک 1322ہجری(27 نومبر 1904ء) کو بنارس میں انتقال کیا۔[4]
مشہور اہلحدیث عالم اور مناظر مولانا محمد ابو القاسم بنارسی آپ کے فرزند ارجمند تھے۔مولانا ابو القاسم کا سن ولادت یکم شوال 1307ہجری ہے۔
مولانا ابو القاسم نے اپنے والد بزرگوار مولانا محمد سعید بنارسی(م1322ھ) مولانا سید عبدالکبیر بہاری(م1331ھ) حضرت شیخ الکل مولانا سید نزیرحسین محدث دہلوی (م1320ھ) مولانا شمس الحق ڈیانوی (م1329ھ) اور استاذ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی(م1334ھ) سے تعلیم حاصل کی۔[5]
خدمت واشاعت حدیث میں آپ کی گرانقدر علمی خدمات ہیں۔تکمیل تعلیم کے بعد آ پ مدرسہ سعیدیہ میں اول مدرس مقرر ہوئے۔آپ نے اپنی زندگی میں 39 مرتبہ بخاری شریف پڑھائی اور تقریبا 700 طلباء نے آپ سے سند حاصل کی۔[6]
حفاظت حدیث میں آپ کسی سے پیچھے نہیں رہے برصغیر میں جس کسی نے بھی حدیث پر کوئی اعتراض یا تنقید کی۔مولانا ابوالقاسم کا قلم حرکت میں آجاتا تھا۔مولوی عمر کریم حنفی ٹپنوی نے"الجرح علی البخاری" لکھی۔آپ نے اس کتاب کا جواب"حل مشکلات بخاری" کے نام سے 4 جلدوں میں دے دیا۔اس کتاب میں آپ نے مولوی عمر کریم کے علم کی قلعی کھول کررکھ دی! مولوی عمر کریم نے"الجرح علی البخاری" کے علاوہ اور بھی کئی رسائل مسلک اہلحدیث کےخلاف لکھے۔اور مولانا ابو القاسم مرحوم نے ان سب رسائل کا دندان شکن جواب دیا۔جس کی تفصیل یہ ہے :
الامر امبرم لابطال الکلام المحکم۔اس کتاب میں مولوی عمرکریم کی اُن اختراعات کامفصل جواب ہے۔جو انہوں نے صحیح بخاری کے 175 ارواۃ پر کیےتھے۔[7]یہ کتاب 1329ہجری میں بنارس سے شائع ہوئی تھی۔1392ھ میں اہل حدیث اکیڈمی لاہور نے دوبارہ شائع کی ہے۔اس کے علاوہ دوسری تصانیف یہ ہیں:حمیم للمولوی عمر کریم۔صراط مستقیم لہدایہ عمر کریم۔الریح العقیم لحسن بناء عمر کریم۔الارجون القدیم فی افشاء ہفوات عمر کریم۔الرای العظیم للمولوی عمر کریم۔[8]
آپ کی تصانیف کی تعداد 45 ہے۔
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی (م1379ھ) لکھتے ہیں:
"آپ بہترین مقرر اور مناظر تھے۔ملکی سیاسیات میں بھی حصہ لیتے رہے۔الغرض بے نظیر انسان تھے۔"[9] 1364ھ میں بنارس میں انتقال کیا۔
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی ؒ(م1329ھ)
1273ھ میں عظیم آباد (پٹنہ) میں پیدا ہوئے۔1279 ھ میں آپ نے تعلیم کا آغاذ کیا۔آپ نے مندرجہ ذیل اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی۔مولانا ابراہیم بن مدین اللہ ،مولانا حافظ محمد اصغر رامپوری،مولانا سیدراحت حسین بتھوی،مولانا عبدالحکیم شیخ پوری،مولانا الف علی بہای(م1296ھ)امام المعقولین مولانا فضل اللہ لکھنوی(م1312ھ)مولانا قاضی محمد بشیر الدین قنوجی(م1296ھ) شیخ الکل حضرت مولانا محمد نزیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) اورحضرت علامہ شیخ حسین بن محسین یمنی(م1327ھ) علوم حدیث کی تحصیل آپ نے حضرت شیخ الکل اور علامہ حسین یمنی سے کی۔[10]
تکمیل تعلیم کے بعد ڈیانوالہ میں درس وتدریس وعظ وتزکیر اور افتاء وتصنیف مین ہمہ تن مصروف ہوگئے۔مولانا ابو القاسم ؒ بنارسی لکھتے ہیں کہ:
"آپ کے درس میں عرب وفارس کے طلباء بھی دیکھے گئے اور بہت سے لوگوں نے آپ سے علم حاصل کیا۔"[11]
تصانیف:
مولانا شمس الحق 1303ھ میں فارغ التحصیل ہوکر دہلی سے ڈیانوالہ چلے گئے۔یہاں آپ نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی شروع کیا۔1329ھ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔26۔27 سال میں آپ نے عربی ،فارسی،اوراردو میں جو کتابیں تصنیف کیں،ان کی تفصیل یہ ہے:
حدیث بزبان عربی(6)۔6[12]
فقہ:بزبان عربی(3) ف ارسی (6) اردو(2)۔[13]11
سیر وتاریخ:بزبان عربی(1) فارسی(1)۔2 [14]
کل تعداد۔۔۔۔19
حدیث پرآپ کی تصانیف:
1۔فضل الباری ترجمہ تلاقیامت بخاری(عربی)غیر مطبوعہ
2۔النجم الوہاج شر ح مقدمۃ الصحیح للمسلم بن الحجاج (عربی) غیر مطبوعہ
3۔غایۃ المقصود فی شرح سنن ابی داؤد (عربی) 32 جلدوں میں مع مقدمہ۔اس کی صرف پہلی جلد شائع ہوئی تھی کہ حضرت علامہ کا انتقال ہوگیا۔اب اس کے کچھ اجزاء خدا بخش لائبریری پٹنہ سے ملے ہیں۔جو جمیۃ اہل حدیث بنارس کے زیر اہتمام شائع ہورہے ہیں۔
4۔عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد(عربی) 4 جلدوں میں ۔یہ شرح غایۃ المقصود کامختصر ہے۔پہلی بار 1319ہجری میں،مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی ،دوسری بار دارالکتاب العربی بیروت سے 1342ہجری میں شائع ہوئی۔تیسری بار 1388ہجری میں المکتبۃ السلفیہ مدینہ منورہ سے 14 جلدوں میں شائع ہوئی۔اوراب چوتھی بار 1399ہجری میں ادارہ نشر السنۃ ملتان نے (پہلے ایڈیشن 1319ء) کا فوٹو عکس شائع کیا ہے۔
5۔ہدایۃ اللوذعی بنکات الترمذی (عربی) غیر مطبوعہ
6۔التعلیق المغنی علیٰ سنن الدار قطنی(عربی) مطبوعہ
مولانا قاضی محمد مچھلی شہری(م1320ہجری)
1225ھ میں مچھلی شہر میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے چچا مولوی عبدالشکور سے حاصل کی۔اس کے بعد درسیات کی تکمیل مولانا میر محبوب علی جعفری،مولاناشیخ محمد (تھانہ بھون)نواب مصطفےٰ خان شیفتہ دم1286ھ اور مولانا سخاوت علی جون پوری (م1273ھ) سے کی۔تکمیل کے بعد اپنے چچا مولانا عبدالشکور صاحب کے ساتھ زیارت حرمین کو گئے تو مکہ معظمہ میں شیخ عبدالحق بنارسی ؒ (م1286ھ) شاہ عبدالغنی صاحب مدنی ؒ اور شیخ محمد العظام ؒ سے بھی حدیث پڑھی۔حضرت شیخ عبدالحق محدث بنارسی کی شاگردی پر آپ کو بہت ناز تھا۔[15]
حرمین سے واپسی کے بعد 1290ھ میں مدرسہ عالیہ کلکتہ کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد 1856ء میں کورٹ آف سول جسٹس کا امتحان پاس کیا۔[16]
1297ء میں نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ والیہ بھوپال نے ریاست کاانتظام اپنے عالی مرتبت شوہر حضرت والاجاہ نواب صدیق حسن خان ؒ (م1307ھ) کے سپرد کیا۔
انہی دنوں قاضی القضاۃ مولانا زین العابدین کاانتقال ہوگیا اور حضرت نواب صاحب ایک نئے قاضی القضاۃ کے متلاشی ہوئے۔اتفاق سے انہی دنوں حضرت قاضی محمد بھوپال پہنچے اور نواب صاحب سے ملاقات ہوئی،تو آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کردیا۔
1303ھ میں حضرت نواب صاحب نوابی سے معزول کردیئے گئے۔تو قوائے سلطنت میں اضملال شروع ہوگیا۔اس صورت حال کو دیکھ کر آپ نے قاضی القضاۃ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
نواب شاہجان بیگم والیہ بھوپال آ پ کی بہت قدر کرتی تھیں۔چنانچہ انہوں نے ایک لاکھ روپیہ بطوررخصتانہ پیش کیا۔[17]
حدیث کی خدمت میں آ پ کا کردار:
مولانا قاضی محمد کو حدیث کی نشر واشاعت اور اس کی خدمت کاوالہانہ شوق تھا۔حدیث کی پہلی کتاب "بلوغ المرام" سے بے حد محبت تھی۔چنانچہ ایک دن آپ نے حضرت نواب صاحب سےفرمایا:
"آپ نے حدیث کی بہت خدمت کی ہے مگر عربی زبان میں"بلوغ المرام" کی شرح نہیں لکھی۔"
چندروز بعد حضرت والا نے "فتوح العلام شرح بلوغ المرام" لکھ کر چوبدار کے ہاتھ حضرت قاضی صاحب کو بھجوائی۔جب آپ نے یہ شرح دیکھی تو باغ باغ ہوگئے۔
قاضی صاحب نے خود بھی تحریری طور پر حدیث کی بہت خدمت کی آپ کی تصانیف کی تعداد 24 ہے۔اور یہ سب کی سب عربی زبان میں ہیں ۔ان کی تفصیل یہ ہے:
متعلقہ حدیث۔۔۔9[18]
متعلقہ فقہ۔۔۔11[19]
متعلقہ تاریخ وسیر۔۔۔5[20]
ٹوٹل۔۔۔25
خدمت حدیث کے سلسلہ میں آپ نے موطا امام مالک ؒ کی ان احادیث کی تخریج بھی کی ہے۔جو امام صاحب نے لفظ "بلغنا" سے روایت کی ہیں۔
1314ہجری میں مدرسہ احمدیہ آرہ میں تشریف لے گئے۔اور کچھ مدت وہاں قیام کیا ۔اس عرصہ میں مدرسہ مرجع خلائق بن گیا۔اوراکثر احباب نے آپ سے استفادہ کیا۔
اس کے بعد یورپ کا سفر اختیار کیا ۔مغرب کے بے شمار کتب خانے دیکھئے۔واپسی کے بعد بھوپال تشریف لائے۔اور حضرت نواب شاہجان بیگم صاحبہ نے سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔جو تازیست جاری رہا اور بھوپال میں ہی آپ نے 1330ھ میں انتقال کیا۔
آپ کی خدمت میں حدیث کے معاملے میں سید عبدالحئی (م 1341ھ) لکھتے ہیں:
"علمائے اہلحدیث میں قاضی محمد جعفری مچھلی شہری بن عبدالعزیز کااسم گرامی ہے۔آپ کا سن وفات 1330ھ ہے۔آ پ نے شیخ عبدالغنی مہاجر می بن ابو سعید دہلوی سے یہ فن حاصل کیا آپ کےاستاذ شٰخ عبدالحق بنارسی اور بعض دوسرے علمائے حدیث بھی ہیں۔آپ سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔"[21]
شیخ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی (م1334ھ)
1267ہجری میں پیدا ہوئے۔8سال کی عمر میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ابتدائی تعلیم مولوی برہان الدین ہشیار وی سے حاصل کی۔[22]
اس کے بعد سہارن پور چلے گئے۔وہاں مولانا مظہر نانوتوی (م 1302ھ) سے علوم وفنون کی تحصیل کی۔[23] اس کے بعد بھوپال کا رخ کیا۔اور وہاں مولانا عبدالجبار سے بھی بعض کتابیں پڑھیں۔پھر آپ نے دہلی کا رخ کیا۔اور وہاں مولانا عبدالجبار سے بھی بعض کتابیں پڑھیں۔پھر آپ نے دہلی کا رخ کیا۔اور حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نزیرحسین محدث دہلوی سے حدیث کی تکمیل کی۔[24]
دہلی کے قیام میں ہندوستان کے ممتاز علمائے کرام سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں۔جن میں مولانا محمد قاسم نانوتوی (م1297ھ) مولانا احمد علی سہارنپوری 1297ھ) اور مولانا عبدالحئی لکھنوی (م1304ھ) قابل ذکر ہیں۔
مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒ سے آپ کا فاتحہ خلف الامام پر مناظرہ بھی ہوا جس میں مولانا لکھنوی نے بُری طرح شکست کھائی۔
تکمیل تعلیم کے بعد امرتسر تشریف لائے تو حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی (م1298ھ) کی خدمت میں حاضر دی۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ؒبیان کرتے ہیں کہ:
"مجھ سے حافظ صاحب نے فرمایا:"میری عمر 20 سال کی تھی جب جناب عبداللہ صاحب غزنوی نے مجھے امرتسر میں درس حدیث کی مسند پر بٹھایا۔"[25]
اس کے بعد وزیر آباد،ضلع گوجرانوالہ تشریف لائے وفات تک اسی شہر میں رہے اوروزیرآباد کی خاک میں ابدی نیند سوگئے۔
خدمت حدیث:
وزیر آباد میں آپ نے ایک دارلحدیث کی بنیاد رکھی،جہاں آپ نے تفسیر وحدیث کادرس دیناشروع کیا۔برصغیر کے ممتاز علمائے کرام نے آپ سے استفادہ کیا۔ان میں بعض وہ حضرات بھی شامل ہیں جو بعد میں خود مسند تحدیث کے مالک بنے۔مثلاً:
مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری ؒ(1367ھ)
مولانا ابراہیم سیالکوٹی ؒ (م1375ھ)
مولانا فقر اللہ واراسی ؒ( م1341ھ)
مولانا ابو القاسم سیف بنارسی ؒ(م1364ھ)
مولاناعبدالقادر لکھنوی ؒ(م1343ھ)
مولانا محمد علی لکھنوی ؒ،مولانا عبدالحمید سوہدروی ؒ(1330ھ)
مولانا قاضی عبدالرحیم ؒ (م1391ھ)
مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ (م1387ھ)
تدریس حدیث کے سلسلہ میں آپ نے جوگرانقدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں وہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں 60 مرتبہ صحاح ستہ پڑھایا اور آپ سے سینکڑوں نہیں ہزاروں اصحاب نے استفادہ کیا۔
مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی لکھتے ہیں:
"مولانا سید محمد نزیرحسین دہلوی ؒ کے تلامذہ میں ان سے زیادہ کسی کے بھی شاگرد نہیں ہوئے۔"[26]
مولانا سید عبدالحئی (م1341ھ) لکھتے ہیں:
"علمائے اہل حدیث میں شیخ عبدالحنان نابینا وزیر آبادی بھی ہیں۔آپ نے میاں سید محمد نزیرحسین دہلوی سے فن حدیث حاصل کیا۔زندگی بھر پنجاب میں اس فن شریف کادرس دیا۔اوراپنی ساری صلاحیت وطاقت اس فن کی خدمت میں صرف فرمادی۔آپ سے فائدہ اٹھانیوالوں کی تعداد حد شمار سے باہر ہے۔آپ کا سن وفات 1334ھ ہے۔"[27]مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (م1386ھ) لکھتے ہیں:
"مولانا حافظ عبدالمنان صاحب ،حضرت میاں صاحب علیہ الرحمۃ کے شاگرد تھے۔فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائق تھے۔"[28]
وفات: 16 رمضان المبارک 1334ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔
مولانا ثناء اللہ مرحوم نے آپ کے انتقال کےدن فرمایا کہ:
"آج اس زمانہ کا امام بخاری فوت ہوگیا ہے۔"[29]
[1] ۔تراجم علمائے حدیث ہند ص 354۔
[2] ۔ہندوستان میں علمائے اہل حدیث کی علمی خدمات ص 138۔
[3] ۔تراجم علمائے حدیث ہند ص355۔
[4] ۔ایضا ص353۔
[5] ۔ہندوستان میں علمائے اہل حدیث کی علمی خدمات ص138۔
[6] ۔سیرۃ ثنائی ص 382۔
[7] ۔الامر المبرم لابطال الکلام المحکم ص1۔
[8] ۔تراجم علمائے حدیث ہند ص359۔
[9] ۔سیرۃ ثنائی ص382۔
[10] ۔ترجمان الحدیث لاہور اپریل 1980ص18۔
[11] ۔ایضاً
[12] ۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص44۔
[13] ۔ایضاً ص58۔
[14] ۔ایضاً ص77۔
[15] ۔تراجم علمائے حدیث ہندص375۔
[16] ۔ایضاً ص376۔
[17] ۔تراجم علمائے حدیث ہند ص 377۔
[18] ۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص43۔50۔
[19] ۔ایضاً ص 56۔
[20] ۔ایضاً ص76۔
[21] ۔اسلامی علوم وفنون ہندوستان میں ص202۔
[22] ۔تذکرہ علمائے اعظم گڑھ۔ص 200۔
[23] ۔مشاہیر دیو بند ص593۔
[24] ۔تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص200۔
[25] ۔تاریخ اہل حدیث ص427۔
[26] ۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص200۔
[27] ۔اسلامی علوم وفنون ہندوستان میں ص203۔
[28] ۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص187۔
[29] ۔تاریخ اہل حدیث ص430۔